قیام پاکستان کے بعد لیہ میں شعروشن کی جو شغل جبھی اس میں راجہ عبداللہ نیاز شکستہ مشہدی اور ڈاکٹر مہر عبدالحق مقامی اہم شاعر تھے ۔ ہندوستان سے ہجرت کر کے لیہ کو اپنا وطن بنانے والوں میں فرمان پٹیالوی ، قیصر عباس رضوی فضل حق رضوی شریف منتظر اور شارق انبالوی شامل ہیں۔ ان شعرا میں فرمان بیٹیالوی کا نام بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ کیوں کہ لیہ کے متعدد شعرا نے ان سے اکتساب فیض کیا ۔ ۱۹۵۷ء میں ارمان عثمانی ( علامہ عیش فیروز پوری کے شاگرد ) رحیم یار خان سے لیہ آپہنچے ۔ ۱۹۷۰ء کے آس پاس لیہ کے ادبی پیش منظر میں نیم لیہ ، ڈاکٹر خیال امروہوی، فیاض قادری ، عدیم صراطی ، شعیب جاذب، محمد جعفر الزماں نقوی، جعفر بلوچ اور شہباز نقوی کے اسمائے گرامی نمایاں تھے۔
ڈاکٹر خیال امروہوی ترقی پسند دانشور، شاعر، ادیب، نثر نگار اور مترجم تھے۔ ان کی نظم و نثر میں ترقی پسندانہ افکار نمایاں ہیں۔ وہ جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے طبقاتی امتیازات کے خلاف تھے۔ ان کے نزدیک نظم ونثر کے ذریعے لوگوں میں طبقاتی شعور کو اجاگر کرنا چاہیے تا کہ محنت کش طبقہ متحد ہو کر استحصالی طبقے کے خلاف فکری اور عملی محاذ پر اس کو شکست دے سکے۔ انھوں نے سماج کی محرومیوں اور اداسیوں کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کیا اور ان کو طبقاتی نظام کا لازمی نتیجہ قرار دیا۔ وہ نظم ونثر کے ذریعے ایک ایسے غیر طبقاتی نظام کی تشکیل کے لیے کوشاں رہے جس میں انسانی آزادی ،سماجی انصاف اور معاشی مساوات عملی طور پر نافذ ہو۔ کوئی کسی کی محنت کا استحصال نہ کر سکے اور صرف محنت کے بل بوتے پر آگے بڑھنے کے امکانات موجود ہوں۔ ڈاکٹر خیال کے موضوعات عوامی اور انقلابی نوعیت کے ہیں۔ ان کا فارسی آمیز طر زیخن اپنے اندر بے پناہ کشش اور تاثیر رکھتا ہے۔ ان کے کلام میں معروضیت، بلند آہنگی اور لہجہ کی گھن گرج کا احساس ہوتا ہے۔ ان کی شاعری کے ترقی پسندانہ اثرات نئی نسل کے فکر و احساس پر دیر پا ثابت ہوئے ۔
قیم لیہ مقبول عوامی شاعر تھے۔ اُن کی شاعری حسن وعشق کے روایتی موضوعات کے علاوہ سیاسی اور سماجی حالات کا احاطہ بھی کرتی ہے۔ ان کی شاعری میں زندگی کے متنوع رنگ اور آہنگ موجود ہیں ۔ وہ کسی تحریک یاد بستان فکر سے وابستہ نہیں تھے۔ ان کے ہاں حسن و عشق کی روایت ساجی محرومی، معاشی استحصال، نفسیاتی الجھنیں ،فکر وعمل کا اثبات اور اسلامی روایات کی پاسداری کا احساس ملتا ہے۔ ان کا اسلوب سادہ اور عام فہم ہے لیکن لطف بیان سے خالی نہیں ہے۔ بلند لب ولہجہ اور جاندار لفظیات نے مل کر ان کی غزل کو منفرد اور نمایاں رنگ دیا ہے۔ لیہ میں شعر و ادب کی روایت کے تسلسل اور استحکام میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔
ارمان عثمانی فی البدیہ شعر گوئی پر قدرت رکھتے تھے۔ ان کا طرز اظہار روایتی ضرور ہے مگر فن شعر پر گرفت مضبوط ہے۔ ڈاکٹر قیصر عباس رضوی ، فضل حق رضوی اور فیاض قادری کے ہاں بھی روایتی انداز بخن ماتا ہے۔ شارق انبالوی کلاسیکی شعری روایت کے پاسبان تھے۔ وہ ایک ماہر عروض شاعر کے طور پر شہرت رکھتے تھے۔ ان شعرانے لیہ میں ادبی مشاعروں کو فروغ دیا اور نئے لکھنے والوں کی شعری تربیت کی اور شعری اظہار کے لیے ایک پلیٹ فارم بھی مہیا کیا۔ ان کی شاعری میں کلاسیکی اور رومانوی طرز احساس پایا جاتا ہے۔ جعفر بلوچ اور غافل کرنالی اسلامی ادب کی تحریک سے وابستہ تھے ۔ اسلامی ادب کی تحریک نے معاشرے میں نیکی اور بدی میں امتیاز پیدا کرتے ہوئے خیر کی قدروں کو فروغ دیا۔ تخلیق کاروں کا یہ فریضہ قرار پایا کہ وہ باطل قوتوں کے منفی اور تخر بی اقدار کے خلاف فکری محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کریں اور ایسا صالح ادب تخلیق کریں جو نفس انسانی کو شعوری اور لاشعوری طور پر نیکی کی طرف راغب کرے۔ ان کے نزدیک ادب کو اسلامی افکار اور روایات کا حامل ہونا چاہیے۔ جعفر بلوچ نے اسلامی ادب کی تحریک کے زیر اثر حمد اور نعت کے علاوہ قومی اور اسلامی نظمیں لکھیں۔ وہ ادب کے ذریعے نئی نسل میں اسلامی اور قومی شعور اُجاگر کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے قومی اور ملی موضوعات پر نظمیں لکھیں اور مسلمانوں کو ایمان وایقان ، اتحاد اور جہاد کا درس دیا۔ غافل کرنالی کی شاعری اسلامی اور ملی جذبوں کی ترجمانی کرتی ہے۔ لیہ کے ادبی ماحول کو سازگار بنانے اور نئی نسل کے فکر و احساس میں اسلامی افکار کے چراغ روشن کرنے میں ان کا نمایاں کردار ہے۔
یہ وہ ادبی ماحول تھا جس میں شہباز نقوی نے فکریشن کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنے شعری سفر کے آغاز میں ان قادر الکلام شعرا سے فیض تو حاصل کیا لیکن کسی کی اندھی تقلید نہیں کی اور نہ کسی دبستان فکر سے متاثر ہوئے ۔ وہ مرزا غالب کی طرح تھوڑی دیر کے لیے کسی تیز رو کے ساتھ چلے تو ضرور لیکن مستقل طور پر کسی کی رہبری قبول نہ کی ۔ انھوں نے اس ادبی فضا میں اپنی شعری شناخت کو گم نہ ہونے دیا بلکہ شعر و ادب کے عمدہ نمونے تخلیق کر کے اپنی منفرد اور نمایاں پہچان بنائی۔ ان کی وفات
۱۷ جنوری ۲۰۱۲ء میں ہوئی اور وہ تقریبا باسٹھ سال زندہ رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ شہباز نقوی نے اپنا شعری وفنی سفر غزل گوئی سے شروع کیا۔ غزل ان کی شعری پہچان بنی تا ہم انھوں نے حمد نعت منقبت، سلام، گیت وغیرہ اصناف میں عدہ اور گراں قدر شعری اثاثہ چھوڑا۔ ان کی غزل اپنے عہد کی نمائندہ غزل ہے۔ ان کی غزل میں متنوع موضوعات پائے جاتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں حسن وعشق کی روایت ملتی ہے۔
ان کے ہاں حسن کی جلوہ آرائی کے متنوع انداز اور عشق کی محرومیوں کا ذکر تو ملتا ہے لیکن معاملہ بندی کے مضامین بہت کم ہیں۔ ان میں ابتذال اور تہذیبی گراوٹ نہیں ہے بلکہ ان میں تہذیبی رکھ رکھاؤ اور انسانی احترام کا پہلو موجود ہے۔ ان کے ابتدائی کلام میں کلاسیکیت اور رومانیت کا امتزاج ملتا ہے۔ ان کے تصور عشق میں مسکینی ، عاجزی اور دل گیری جیسے انفعالی رویے موجود نہیں ہیں۔ وہ عشق میں خودداری، غیرت اور انا کے روادار ہیں۔ ان کی غزلوں میں ہجر و وصال کے روایتی مضامین بہت کم ہیں۔ وہ رشک ، حسد اور رقابت کے جذبات سے گریزاں رہے۔ ان کا تصور عشق جدید عہد کے تقاضوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ ان کے کلام میں عصر حاضر کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات کی جھلک نمایاں ہے۔ وہ جاگیر دارانہ سماج میں عشق و محبت کے شکست خوردہ انفعالی رویوں کو پسند نہیں کرتے۔ وہ محبت میں لبرل اور سیکولر رویوں کے قائل ہیں۔ وہ اپنے لیے اور محبوب کے لیے آزادی اور خود مختاری سے زندگی گزارنے کا راستہ کھلا رکھتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں غم ذات کے حوالے سے وجودی طرز احساس پایا جاتا ہے۔ فرد کی بے چارگی ،تنہائی ، حزن ، یاس اور زندگی کی بے معنویت کا احساس نمایاں ہے۔ زندگی کے کرب مسلسل کا لامتناہی احساس بالآخر قوطیت سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ قنوطیت کا احساس فرد کی بے چارگی اور تنہائی کے علاوہ عہد حاضر کی نا انصافی اور ظلم کے سلسل کا نتیجہ بھی ہے۔
ان کے ہاں قنوطیت وقتی ، عارضی اور لحاتی ہے اور وہ تاریک مستقبل سے وابستہ نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ انسانی ذات میں حسن ، خیر اور صداقت پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور ان کی نگاہ زندگی کے روشن مستقبل پر ہے۔ شہباز نقوی کی غزل میں غربت، جہالت اور افلاس کے دکھ بھرے حوالے موجود ہیں۔ وہ طبقاتی نظام اور اس کے زیر اثر پنپنے والے منفی اور تخریبی رویوں کے خلاف ہیں۔ انھوں نے نہایت عمدگی سے طبقاتی تضادات کو نمایاں کیا ہے اور مراعات یافتہ طبقے کے استحصالی رویوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ اس حوالے سے وہ عوام میں طبقاتی شعور بیدار کر کے معاشرے میں سماجی انصاف اور معاشی مساوات کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی غزل میں ترقی پسندانہ خیالات اور طبقاتی تضادات کا احساس کسی نظام یا تحریک کے زیر اثر پیدا نہیں ہوا۔ اسی لیے وہ سماجی مسائل کے اظہار میں صائب الرئے بن کر سامنے نہیں آئے ۔ ان کے ہاں انقلابی شعر عینیت کی نذر ہو جاتا ہے اس لیے طبقاتی احساس سلجھنے کی بجائے اور الجھ جاتا ہے اور فکر و احساس میں ابہام پیدا ہو جاتا ہے۔ ان کی غزل میں جدید شہروں کی صنعتی ترقی میں فروغ پانے والے غیر انسانی اور غیر اخلاقی رویے پر تنقید ملتی ہے۔ صنعتی سماج میں بنی نوع انسان سے بے لوث محبت قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ اب زندگی کا مقصد ذاتی مفاد عاجلہ اور دولت کا حصول بن چکا ہے اور انسانی تعلقات میں خود غرضی اور لاتعلقی کا زہر سرایت کر چکا ہے۔ ان کی غزل میں فرد کے منافقانہ اور ہوس پرستانہ رویوں کے علاوہ جدید عہد کی پیچیدگیوں کا اظہار ملتا ہے۔
ان کی غزلوں میں زندگی کا فعال اور متحرک تصور موجود ہے۔ وہ فکری انجماد کے برعکس فکر وعمل میں تغیر و تبدل کے قائل ہیں۔ وہ زندگی میں سرخرو ہونے کے لیے آرزو اور جستجو کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔ وہ بے لوث محبت اور اخلاقی اقدار کے ذریعے فرد کی شخصیت میں نکھار لانے کے قائل ہیں۔ ان کے ہاں انفرادیت سے زیادہ اجتماعیت کا رجحان نمایاں ہے کیونکہ فرد کا و جو دربط ملت سے قائم ہے اوروہ تنہا کچھ بھی نہیں ہے۔ شہباز نقوی کی غزل موضوعاتی اعتبار سے روایت اور جدت کے امتزاج سے تقلیل پاتی ہے۔ ان کی غزل میں موضوعاتی وسعت اور جدت کا احساس ہوتا ہے۔
ان کا شعری اظہار واضح ہے۔ وہ کسی ابہام یاد معنویت کا شکار نہیں ہے۔ صنائع لفظی و معنوی کا تخلیقی استعمال ان کی غزل کو صوری اور معنوی حسن عطا کرتا ہے۔ شہباز نقوی نے جو حمد یہ شاعری کی ہے وہ موضوع اور فن کے اعتبار سے لائق تحسین ہے۔ شہباز نقوی کے نزدیک اللہ تعالی کا جلوہ ہر جگہ موجود ہے۔ اہل علم خدا کی ذات اور صفات کا کھلے دل سے یقین کر لیتے ہیں جبکہ عقل محض اشتباہ کے دشت و صحرا میں بھٹکتی رہتی ہے۔ وہ یاد الہی کو دل و جان کے لیے فرحت و انبساط کا باعث سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام کو دنیا کے تمام فلسفوں پر فوقیت حاصل ہے کیوں کہ اسلام میں انسانی آزادی ، اخوت اور مساوات کا عالم گیر تصور موجود ہے۔ اسلامی تصور کی بدولت انسان اپنے مقصد تخلیق سے آگاہ ہو کر عبودیت خداوندی کا دم بھر سکتا ہے۔ ان کی حمد یہ نظموں میں موضوعاتی ترفع اور فن کا عمدہ شعور پایا جاتا ہے۔ شہباز نقوی کو نعت گوئی سے فطری مناسبت ہے۔ ان کی نعت عشق مصطفی کے جذبات سے لبریز ہے۔ ان کی نعتیہ شاعری میں حضور پاک کی ذات گرامی محسن انسانیت کے طور پر سامنے آتی ہے۔ کیوں کہ انھوں نے جہالت اور غلامی کی تاریکیوں کو دور کیا اور انسان کو جینے کے لیے آزادی اور مساوات کا تصور دیا۔ شہباز نقوی کی نعتیہ شاعری میں آشوب ذات کے علاوہ عصری آشوب بھی پایا جاتا ہے۔ ان کی نعت میں مسلمانانِ عالم پر غیروں کے تسلط اور مسلمانوں کے زوال و پستی کا دکھ نمایاں ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے حضور پاک سے استعانت طلب کی ہے۔ ان کی نعت میں والہانہ پن موجود ہے۔ ان کی نعت فکری اور فنی اعتبار سے جدید عہد کی نمائندہ نعت ہے۔
شہباز نقوی نے اپنی رٹائی شاعری کو عزائیہ کے نام سے متعارف کرایا۔ انھوں نے عزائیہ میں ذکر حسین سے زیادہ فکر حسین اور اس کے متنوع پہلوؤں کو پیش نظر رکھا۔ ان میں حضرت حسین اور اہل بیت کے آلام و مصائب کا ذکر ملتا ہے۔ یزیدی فوج کی شقاوت قلبی پر نفرین کی گئی ہے۔ شہباز نقوی کے نزدیک حضرت حسین کا اپنے ساتھیوں سمیت راہ حق میں شہید ہونا تاریخ عالم کا ایک المناک سانحہ ہے۔ اس سانحہ شہادت نے بنی نوع انسان کو ظالم قوتوں کے خلاف نبرد آزمائی کا حوصلہ بخشا ہے۔ مصلحت ، منافقت اور ابن الوقتی کو غیر انسانی اور شیطانی عمل قرار دیا گیا ہے۔ ان کے نزدیک جینے کے لیے اسوہ علی اور مرنے کے لیے اسوہ حسین سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ انھوں نے اپنے عزائے میں فلسفہ شہادت کے مثبت پہلوؤں میں آزادی، حریت اور باطل قوتوں کے خلاف بغاوت جیسی اقدار کی تحسین کی ہے۔ ان کے عزایے میں کہیں کہیں شیعیت کا اظہار بھی ملتا ہے۔ مجموعی طور پران کی عزائیہ شاعری فکر وفن کا عمدہ اظہار ہے۔ شہباز نقوی نے سیاسی اور سماجی موضوعات پر پابند اور آزاد نظمیں لکھی ہیں۔ ان کے ہاں موضوعاتی تنوع پایا جاتا ہے۔ ان کی نظموں میں محض روپوں کی خاطر عصمتوں کے لٹنے کا ذکر بھی ہے اور ایک ایسے سماج میں زندہ رہنے کا دکھ بھی ہے جہاں قدم قدم پر ذلت و رسوائی ہو اور مفاد پرست لوگ بہروپ بدل بدل کر محنت کشوں کا استحصال کر رہے ہوں۔ انھوں نے اپنی نظموں میں بانیانِ پاکستان سے محبت اور پاکستانیت کا ملی احساس بھی اجاگر کیا ہے۔
شہباز نقوی کی نظموں میں ترقی پسندانہ خیالات ملتے ہیں۔ وہ طبقاتی نظام کے خلاف تھے اس لیے ان کے ہاں سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے استحصالی رویوں کی بھر پور مذمت ملتی ہے۔ ان کے ہاں طبقاتی نظام کے مسائل کا اظہار تو پایا جاتا ہے لیکن سماج کے بدلنے کا عندیہ نہیں ملتا۔ وہ انقلابی جدو جہد کے ذریعے طبقاتی نظام کو بدلنے کی بجائے محض دعاؤں پر یقین رکھتے ہیں ۔ عوام کے سیاسی اور سماجی حالات کی پیش کش کے ضمن میں ان کا کوئی واضح نقطہ نظر سامنے نہیں آتا۔ ان کی نظموں میں طبقاتی نظام کی خرابیوں کا ذکر تو موجود ہے لیکن واضح طبقاتی شعور نہیں ہے۔ ان کی نظموں میں ذات کے کرب کے علاوہ عصری آشوب بھی موجود ہے۔ وہ سماجی نا انصافی ، معاشی عدم مساوات اور اخلاقی زوال کو معاشرے کے لیے ناسور سمجھتے ہیں۔ انھوں نے مسند تہذیب پر براجمان ان ریا کاروں کی منافقت اور مصلحت کا پردہ چاک کیا ہے جن کے رویے دھوپ چھاؤں کی طرح بدلتے رہتے ہیں۔ انھوں نے ایسے رہنماؤں پر نفرین بسیجی ہے جو اپنے دنیاوی تعیش کی خاطر مسلمانوں کی سیاسی آزادی اور سماجی ترقی کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ انھوں نے آزاد نظمیں کم اور پابند نظمیں زیادہ لکھی ہیں۔ ان کی پابند نظموں میں محدود موضوعات اور بے ساختہ اظہار کی کمی کا احساس اُجاگر ہوتا ہے۔ یعنی فنی اعتبار سے ان کی غزل کے بالمقابل پابند نظموں میں فکر و احساس کی واضح اور عمدہ پیشکش نہیں ملتی۔
شہباز نقوی کے گیت زیادہ تر رومانی طرز احساس سے مملو ہیں۔ ان کے گیتوں میں ہجر و وصال،شکوہ و شکایت، معاملہ بندی، کیفیت انتظار کے علاوہ جدید عہد کی بے مروتی اور طوطا چشمی کا اظہار اور مزدور طبقے کی محنت و مشقت کا والہانہ اعتراف ملتا ہے۔ ان کے گیتوں میں فلسفہ اور حکمت کا ناروا بوجھ نہیں ہے بلکہ ان میں رومانوی طرز احساس کا عوامی اظہار پایا جاتا ہے۔ ان کے گیت فرد کے باطنی جذبوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ وہ گیت کے فطری تقاضوں سے اچھی طرح آشنا ہیں۔ اسی لیے ان کے گیتوں میں ترنم ، موسیقیت اور نغمگی کا زیادہ احساس پایا جاتا ہے۔ انھوں نے ہندی الفاظ کی آمیزش سے غنائیت کو بڑھا دیا ہے۔ اگر وہ گیت نگاری کی طرف زیادہ توجہ دیتے تو گیت نگاری میں نمایاں مقام بنا سکتے تھے۔ شہباز نقوی کی ظریفانہ شاعری پابند نظموں میں سامنے آئی ہے۔ ان کی ظریفانہ شاعری مزاح اور ظرافت سے بھر پور ہے البتہ طنز کا نشتر زیریں سطح موجود رہتا ہے۔ ان کی طنز و مزاح کے تخلیقی اظہار پر گرفت مضبوط ہے۔ انھوں نے سماج کے بے ڈھنگے پن اور غیر مہذب طرز عمل کا مذاق اُڑایا ہے۔ زندگی کی مضحک صورت حال کے پس پردہ سماجی اصلاح کا جذبہ موجود ہے۔ ان کے ہاں مزاح برائے مزاح نہیں ہے اور نہ اس میں کوئی گہرا افلفہ موجود ہے۔ انھوں نے سرسری انداز میں طنز ومزاح کے ذریعے فرد اور سماج کی اصلاحی خدمت سرانجام دی ہے۔ ان کے طنز ومزاح کا موضوعاتی دائرہ محدود ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ انھوں نے طنز و مزاح پر بھر پور توجہ نہیں دی حالانکہ ان کی شاعرانہ فطرت میں طنز و مزاح کا پہلو ایسے موجود ہے جیسے ساز میں سر چھپے ہوتے ہیں۔ شہباز نقوی نے نثر نگاری پر بہت کم توجہ دی ہے۔
ان کے دستیاب نثر پاروں میں مضامین ، انشائیے اور خاکے شامل ہیں۔ ان کے مضامین زیادہ تر علمی وادبی موضوعات پر ہیں۔ وہ مضمون نویسی کی تکنیک سے اچھی طرح آگاہ ہیں اسی لیے ان کے مضامین میں فکری تسلسل، مربوط انداز اور علمی استدلال پایا جاتا ہے۔ ان کے انشائیوں میں تازگی فکر کا پہلو نمایاں ہے۔ انہوں نے غیر شخصی موضوعات پر غیر رکی انداز اختیار کرتے ہوئے اپنے ذاتی تاثرات کا عمدہ اظہار کیا ہے۔ ان کے انشائیوں میں غور وفکر کا عنصر نمایاں ہے۔ شہباز نقوی کے بیدار ذ ہن اور فطری حس مزاح نے ان کے انشائیوں میں دلکشی اور تاثیر کو بڑھا دیا ہے۔ انھوں نے انشائیہ نگاری پر بھر پور توجہ نہیں دی حالانکہ وہ وزیر آغا کے دبستانِ فکر سے تعلق رکھتے تھے اور ماہنامہ ” اوراق کے مستقل قاری تھے جس نے انشائیہ نگاری کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ شہباز نقوی نے جن شخصیات کو موضوع خاکہ بنایا ہے وہ ان کے ذاتی تعصب کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ انھوں نے اپنی مدوح شخصیت کے خاکے کو خوشامد اور بے جا تعریف سے قصیدہ نویسی میں بدل دیا ہے اور ان کی ناپسندیدہ شخصیت خاکہ نے کی بجائے طنزیہ و مزاحیہ مضمون بن جاتا ہے۔ ان کے شخصی خاکوں میں کسی شخصیت کی صورت اور سیرت کی مکمل تصویر سامنے نہیں آتی یا تو وہ شخصیت کو فرشتہ خصال بنادیتے ہیں یا پھر وہ شخصیت کو اتنا مضحک انداز میں پیش کرتے ہیں کہ وہ انسانی اوصاف سے خالی محض کارٹون نظر آتی ہے۔ دونوں صورتوں میں خاکہ نگاری کا فن مجروح ہوا ہے۔ نرگسیت کا شکار کوئی شخص اچھا خا کہ نہیں لکھ سکتا۔
ان کے خاکے ، خاکہ نگاری کے فن پر پورے نہیں اترتے۔ شہباز نقوی نے نظم اور نثر دونوں پر طبع آزمائی کی ہے لیکن شعر کے مقابلے میں ان کی نثر نگاری کم اور محدود موضوعات پر مبنی ہے۔ انھوں نے اصناف نظم میں غزل ، پابند نظم ، آزادنظم، مرشیہ عزائید، گیت اور مزاحیہ نظموں پر طبع آزمائی کی ہے۔ انھوں نے اپنی نظموں میں زندگی کے بارے میں اپنے فطری ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ان کی نظمیں ان کے فطری رجحانات کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان کے مرثیوں اور عزائیوں میں عصری آشوب کے علاوہ مذہبی عقیدت کا اظہار ملتا ہے۔ اصناف نظم میں ان کی غزل اس لیے نمایاں ہے کہ انھوں نے اس میں درونِ ذات عصر حاضر کے سیاسی اور تہذیبی تصورات، ترقی پسندانہ خیالات اور جدید عہد کے فر کی ذہنی الجنوں اورفی پیچیدگیوں کو بیان کی ہے۔ ان کی غزل میں زندگی کے متنوع رنگ اور آہنگ موجود ہیں اس کے علاوہ ان کی غزلوں کی تعداد دیگر اصناف نظم سے زیادہ ہے اور انھوں نے اپنی زندگی میں جو شعری مجموعہ ”جیون ند یا شائع کر ایا اس میں بھی صرف غزلیات شامل ہیں۔ زندگی اور اس کے متنوع پہلوؤں کا گہرا تجز یہ اورتخلیقی اظہار کی عمدہ پیش کش جس طرح غزلوں میں ہوئی ہے کسی اور صنف شعر میں نہیں ہوئی۔ ان کی غزل میں موضوعاتی وسعت اور فنی ندرت موجود ہے۔ ان کی غزل جدید عہد کی ترجما اور نمائندہ ہے اس لیے وہ ایک کامیاب غزل گو شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں۔
نوٹ:یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے (تھل کالج میگزین) سے لیا گیا ہے۔