لیہ کا ادب

مزاحمت کی توانا آواز: ریاض راہی

ڈاکٹر جرات عباس شاہ

یورپ میں صنعتی انقلاب کے سب اٹھارہویں صدی میں طبقاتی بنیادوں پر انقلابی تحری میں شروع ہو چکی تھی۔ ادیبوں، دانشوروں ، شاعروں اور فنکاروں نے ان تحریکوں کو فکری بنیاد میں فراہم کرنے کے لیے ادب تخلیق کرنا شروع کر دیا تھا۔ ۱۹۱۷ ء میں انقلاب روس کی بدولت دنیا کے پسماندہ ممالک میں انقلابی خیالات کو فروغ ملا ۔ انقلاب روس کے اثرات ہندوستان پر بھی بڑے اور ہندوستان میں طبقاتی بنیادوں پر آزادی اور سماج کی تبدیلی کے لیے کوششوں کا آغاز ہوا۔ آزادی کے متوالے دنیا کو تبدیل کرنے کے جذبوں سے لبریز تھے اور یوں بر صغیر پاک وہند میں طبقاتی سماجی کے خاتمے کے لیے ادب کو ذ ریعہ اظہار بنایا۔ ان ادیبوں نے ان سامراجی طاقتوں کے راستے مسدود کرنے کی جدو جہد کا آغاز کیا جو انسان اور انسانیت کا گلا گھونٹتی چلی آرہی تھی اور جوسرمائے کی طاقت پر حکمرانی کو اپنی روش بنا چکی تھی ۔ اس کے بعد جب ایک نئی ریاست میں نئی قیادت نے باگ ڈور سنبھالی تو کئی مارشل لاؤں نے ۱۹۴۷ ء استقبال کیا جس نے انسان اور انسانیت کے پر نچے اڑا دئیے۔ ہجرت کے کرب نے زندگی میں طوان پر پا کر دیا۔ زندگی اجیرن ہوگئی اور بلکتے ہوئے معصوم بچے دردر کی ٹھوکریں کھا رہے تھے ۔ سماجی پستی اور سیاسی غلامی ہمارا مقدر بن چکی تھی ۔ انتشار، نفاق اور اندھی تقلید کے خلاف سماج کا باشعور طبقہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ سامراج کی طاغوتی قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہوکر انقلابی رُوح کو خواب غفلت سے جگانے کی سعی ہونے لگی تو ادبا اور شعرا بے باکی اور جرات کے ساتھ سماجی حقیقتوں کو عیاں کرنے لگے۔ جاگیرداروں، سرمایہ داروں کے خلاف طبل جنگ بجنا شروع ہوا تو جاگیر دار اور سرمایہ دار اوچھے ہتھکنڈے آزمانے لگے۔

فکری شعور رکھنے والے سماجی کارکنوں ، ادیبوں اور شعرا کو پابند سلاسل کرنے لگے۔ کبھی اظہار پر پابندیاں لگاتے تو کبھی جبر و استبداد کا نشانہ بناتے مگر کاروان انقلاب نے منزل پر پہنچنے کا عزم مصم کر رکھا تھا۔ کاروان انقلاب ایک معتدل رفتار کے ساتھ ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے اور سماج میں فکری و نظریاتی انقلاب بر پا کرتے رواں دواں رہا۔ جب ڈاکٹر خیال امروہوی سرز مین لیہ تشریف لائے تو علم وادب کا چراغ روشن تھا۔ ۱۹۲۶ء میں لیہ کے تخلیق کار علم وادب کی آبیاری کر رہے تھے مگر فکری اعتبار سے وہ رومانوی مزاج رکھتے تھے۔ ڈاکٹر خیال امروہوی سرز مین لیہ میں فکر کا روشن چراغ بن کر اترے۔ انھوں نے لیہ کے جمودی ادب میں فکر ونظر اور جدید سائنسی نظریۂ حیات کا پہلا کنکر پھینکا جس نے یہ کے احباب فکر و دانش کے فکر ونظر اور موضوعات میں ایک واضح تبدیلی پیدا کر دی۔ اب لیہ کے علمی وادبی حلقوں میں جمالیاتی قدروں کی جگہ صیح حقائق اور عام لوگوں کے مسائل اہل قلم کے موضوعات بننے لگے اور سرزمین لیہ پر فکری و نظری انقلاب برپا ہونے لگا۔ ایسے میں ڈاکٹر خیال امروہوی نے ۱۹۷۴ء میں خیال اکیڈمی قائم کی ۔ اس اکیڈمی میں خیال امروہوی نے اہل لیہ کی علمی، ادبی اور فکری آبیاری کی اور نسل نو کے اندر مادی جدلی تناظر میں زندگی کی حقیقتوں کو پرکھنے کا اسلوب پیدا کیا۔

بلاشبہ لیہ میں عظیم ادیب پیدا ہوئے مگر خیال امروہوی نے فکر ونظر کے حوالے سے لیہ والوں کوفکری بلوغت عطا کی ۔ خیال امروہی سے نقش قدم پر چلنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے، مگر اس فہرست میں ایک نمایاں نام پروفیسر ریاض راہی کا ہے۔ وہ اپنے اُستاد کی تقلید میں فکر ونظر کے پیغام کی ترسیل میں سعی مسلسل کر رہے ہیں۔ پروفیسر ریاض راہی نے نئے انسان کے جذبات اور احساسات کی نہ صرف تر جمانی کی بلکہ بدلتے ہوئے خیالات کے عکاس بھی نظر آئے ہیں۔ ان کی علمی اور ادبی زندگی اس بات کی گواہ ہے کہ انھوں نے ہمیشہ جاگیر دارانہ سماج اور استحصالی نظام زندگی، غیر مساوی اور غیر عادلانہ تقسیم کے خلاف نعرہ حق بلند کیا۔ ریاض راہی کا یہ نعرہ کھوکھلا نہیں بلکہ وہ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے جہد مسلسل بھی کر رہے ہیں۔ اُستاد ہونے کے ناتے اپنے تلامذہ میں فکری و نظری تبدیلی لانے کے لیے برسر پیکار دکھائی دیتے ہیں۔

پروفیسر ریاض راہی کا تعلق ترقی پسندوں کے اس قبیلے سے ہے جس نے اپنی زندگی علم دوستی ، انسان دوستی اور جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ وہ فقدان انصاف، قیادت کی کج روی ، اہل علم کی بے قدری اور تفریق نوع انسان کے سخت خلاف ہیں۔ وہ ایسی تبدیلی کے خواہاں ہیں جہاں انسان اور انسانیت کو فروغ ملے اور نچلے طبقات کو بنیادی حقوق زندگی عطا کیے جائیں ۔

سعید اختر سعید نے ریاض راہی کے حوالے سے یوں لکھا ہے:

تاریخ عالم خون آلودہ ہے۔ کہیں حق و باطل کی جنگ ہے تو کہیں طبقاتی کشمکش ، کہیں چنگیز خان کی بربریت ہے تو کہیں برصغیر میں مسلمانوں کا قتل عام اور کہیں روس میں خون آلود سرخ انقلاب ۔ ریاض راہی بھی ایک انقلابی ہے۔ وہ اس دُنیاوی جہنم کو جنت بنانے کے خواب دیکھتا ہے۔ وہ ایک پر امن معاشرہ چاہتا ہے۔ افراتفری اور نفسانفسی سے پاک معاشرہ ظلم و ستم سے پاک معاشرہ مگر وہ مغرور حاکم نہیں، وہ طاقت کے نشے میں چور کوئی فائٹر نہیں۔ وہ ایک قلم کار ہے۔ اس کا انسان دوست قلم انسان کے باطن میں انسان دشمن مخفی قوتوں کو انسان دوست بنانا چاہتا ہے۔۔۔ وہ بھی انسان کے دل میں جھانکتا ہے تو کبھی خارجی کائنات میں دُور تک دیکھتا ہے اور کبھی سماجی جبر کو دیکھتا ہے۔ راہی کا قلم زندگی کے ہر پہلو اور ہر گوشے کو اپنے احاطہ ادراک میں لے لیتا ہے ۔

پروفیسر ریاض راہی اپنے معاشرے کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور دم توڑتی قدروں کے نوحہ خواں ہیں۔ وہ اپنے دل و دماغ کی جملہ قوتوں کو سمیٹ کر زوال یافتہ تہذیب کو ترقی یافتہ تہذیب بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس تہذیب میں انسان کشی ، منافقتوں کا عروج، سیاسی چالوں سے انسانیت کی شکست اور مکرو فریب کے جال بن دیے گئے ہیں وہ اس معاشرے کو انسانیت کے عروج اور معیار آدم سے گرتے ہوئے اس انسان کے ادراک اور شعور کی آبیاری کرنے کی کوشش میں صرف قلم کر رہے ہیں۔ ریاض راہی دردو غم میں ڈوبی انسانیت ، درد سے بے حال انسان ، شکست خوردہ ذہنیت کے حامل انسان کو اس کی منزل اور صراط مستقیم دکھانے کی سعی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

اس گھڑی انساں بر آوازِ خدا ہو جائے گا                     جب شعور ذات سے خود آشنا ہو جائے گا

توڑ ڈالے گا غلامی کی یہ زنجیریں سبھی                  بندہ مزدور جب آتش بپا ہو جائے گا

لائق تکریم ہیں مزدور کی بے باکیاں                          ایک دن آخر وہ محبوب خدا ہو جائے گا

کچھ بھی ہو اپنی ہتھیلی پہ محبت کا چراغ
شہر نفرت میں جلائے ہوئے پھرتے رہنا

شہر یاراں میں صلیبیوں کو کہاں تک راہی
اپنے کاندھوں پہ اُٹھائے ہوئے پھرتے رہنا

ریاض راہی کی شاعری عارض و گیسو کی شاعری نہیں بلکہ اس میں انسانی مصائب و آلام خوبصورت انداز سے قاری کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ ریاض راہی غیر طبقاتی سماج کے قائل ہیں۔ وہ بھوک، افلاس اور جہالت پر بنی نظام کے خلاف ہیں کیونکہ یہی طبقاتی تفاوت انسان کو نفسیاتی طور پر ناکارہ بنادیتی ہے اور فطرت کی طرف سے تمام ودیعت کردہ انسانی صلاحیتوں کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ [۵]

ریاض راہی کے اشعار میں فکر کی گہرائی اور منفرد ادبی اسلوب میں عہد جدید کے تقاضوں اور سائنسی اصولوں پر منطبق درس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راہی سماج کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں تصوراتی اور ماورائی سوچ کی شدید مذمت کرتے ہیں ۔ ریاض راہی کے کلام میں چاہے سماج کے بدلتے ہوئے تقاضے ہوں یا سماجی اقدار کے بکھرتے ہوئے شیرازے ، وہ اس کو جدید مزاحمتی فکر سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی شاعری میں ایک منفرد اسلوب کے ساتھ ساتھ معاشیات ، معاشرت، حیات و کائنات ، دین اور عقائد کے بارے میں بھی ایک منفر د نکتہ نظر رکھتے ہیں اور سماج کو بھی ۔

فکری، مشاہداتی اور سائنسی نقطہ نگاہ سے بدلنے کے خواہاں ہیں ۔
ریاض راہی انقلابی شعور کی حامل شخصیت ہیں اور وہ ترقی پسندی کے فلسفے کے قواعد کو زندگی کے ہر شعبے میں لاگو کرنے کے خواہاں ہیں۔ ریاض راہی انسانی ارتقاء کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بخوبی واقف ہیں اور زمانے کی سفا کی کا احساس بھی ان کے کلام میں جا بجادکھائی دیتا ہے۔

پروفیسر ریاض راہی کی شاعری جا گر دارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک شدید احتجاج ہے۔ وہ اپنے کلام میں ایک ایسے سماج کی بنیا د رکھتے ہیں جہاں طبقاتی تقسیم نہ ہو اور نہ غلاموں کی محنت پر مبنی معاشرہ تشکیل پائے بلکہ آقا، غلام، جاگیردار اور مزارع، حاکم و محکوم ،غریب اور امیر کے درمیان طبقاتی کشمکش ختم ہو اورسرمایہ دار کے تخریبی حربوں کو نیست و نابود کیا جائے۔

اس عہد روشنی میں جو ظلمت فروش تھے
فانوس بن گئے ہیں وہ دربار شاہ میں

اُجڑ گیا چمنستان تو اُڑ گئی خوشبو
خزاں کا دست جفا کار چھا گیا ہر سُو

وہ دشت کرب و بلا ہو کہ مقتل جاں ہو
ہے محو کار ابھی تک شریر دست عدد

یہ درگاہ سخن ہے اس کا ہر انداز عالی ہے                      امیر شہر کی ہم نے یہاں پگڑی اچھالی ہے یہاں

اندھیر نگری ہے کوئی شمع بدست آئے                          ہمارے شہر ویراں ہیں ہماری رات کالی ہے

محمد اویس جام نام لکھتے ہیں: ریاض راہی کا شاعرانہ تجربہ زندگی اور کائنات کے بارے میں مخصوص زاویہ نگاہ سے ترتیب پاتا ہے۔ ان کی شاعرانہ شخصیت کلاسیکی اور مزاحمتی رویوں سے گندھی ہوئی ہے۔ وہ زبان و بیان کے صرف وہ کلاسیکی پہلو استعمال میں لاتے ہیں جس میں شکوہ اور رعب و جلال کا پہلو پایا جاتا ہے اور پھر وہ انقلابی فکر کو احتجاج اور انقلاب کے رُوپ میں پیش کرتے ہیں کہ طبقاتی نظام کے خلاف دل میں نفرت انگیز جارحانہ عزائم پہلو بدلتے ہیں ۔

ریاض راہی اپنے کلام میں جاگیردار اور سرمایہ دار کے خلاف شدید احتجاج بھی کرتے ہیں اور بعض اوقات وہ اس نظام کوللکارتے بھی ہیں ۔ اس کی للکار میں جوش ملیح آبادی اور فیض کا رنگ دکھائی دیتا ہے۔

اے افلاک نشینو! آخر کب تک خیر بناؤ گے                     وقت کا دھارا آیا تو تنکوں کی طرح بہہ جاؤ گے

آنے والا وقت تمھارے خون کا پیاسا ہے چورو                  لوٹ کا مال کہاں تک آخر گھر میں بیٹھ کے کھاؤ گے

اپنی خوش بختی سے وہ لمحے یقیناً آئیں گے               سرخ پرچم قصر استبداد پر لہر آئیں گے

ایسے ابھرے گا فلک پر آفتاب انقلاب                             تاجران ظلمت شب دیکھتے رہ جائیں گے

صبح فردا بھی ہماری ہو لہو رنگ تو کیا                           ہم کو طبقات کی دیوار گرانی ہو گی

سرخ پرچم کو اُٹھائیں گے یہ انداز جدید                          کل یہ دھرتی کے سپوتوں کی نشانی ہو گی

ریاض راہی نے اپنی شاعری میں زخم رسیدگی ، نارسائی ، نا آسودگی کی گھٹن ، انسانیت کی بے قدری کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور جبر و استبداد کے ایوانوں پر پے در پے حملے کیے۔ وہ غریبوں اور مجبوروں کی محنت اور عزت کو جبر و استبداد کے ایوانوں میں بکتے دیکھتے ہیں تو ان کے لہجے میں تلخی اور کڑواہٹ دکھائی دیتی ہے۔

مجھ کو مظلوموں کا لینا ہے قصاص و انتقام
اپنی بربادی کا سارا یاد ہے چرچا مجھے

ریاض راہی کے کلام میں امید اور رجائیت کا پہلو بھی بہت نمایاں ہے۔ وہ ظلم وستم کی چکی میں پستے ہوئے انسان کو اُمید کا دامن تھما کر بہتر مستقبل کی نوید بھی سناتے ہیں۔ وہ پسے ہوئے طبقات کو حوصلہ، جذ بہ اور استحصالی طبقے کے خلاف جہد مسلسل کی تلقین بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

توڑ ڈالے گا غلامی کی یہ زنجیریں سبھی
بندہ مزدور جب آتش بہ پا ہو جائے گا

افق پہ لاکھ مسلط ہوں ظلمتیں لیکن
ستم زدہ کو طلوع سحر کی آس تو ہو

ریاض راہی کو منافقت سے سخت چڑ ہے۔ وہ سچ کے داعی اور بیچ کے نقیب ہیں ۔ سماج کے جبر و استبداد نے اس کی روح کو بے قرار کر دیا ہے۔ ان کے کلام نے پسے ہوئے سماج کی آواز کو دوام بخشا ہے۔ ان کے کلام میں عصری تضادات اور عصری تقاضوں کی رُوح موجود ہے۔ ان کے ہاں مزاحمتی فلسفہ حیات اور مزاحمتی طرز نگر مربوط انداز میں نظر آتی ہے۔ اس مزاحمتی رویے کی روشنی اُن کے کلام میں بدرجہ اتم موجود ہے۔

نوٹ:یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے (تھل کالج میگزین) سے لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com