ڈاکٹر مہر عبدالحق بطور شاعر
ڈاکٹر مہر عبدالحق (۱۹۹۵ء۔ ۱۹۱۵ء) نے اپنی علمی، ادبی اور تخلیقی سفر کا آغاز شاعری سے کیا یا نٹر سے واضح ثبوت میری نظر سے نہیں گزرے۔ البتہ پروفیسر عطامحمد عطا نے اپنے ایم فل کے مقالے بابائے سرائیکی ، ڈاکٹر مہرعبدالحق میں لکھا ہے کہ:
ڈاکٹر مہر عبدالحق نے اپنے تخلیقی و تنقیدی کام، تراجم اور لسانی خدمات کی بدولت اردو، سرائیکی
زبانوں کے علما میں ایک بلند مقام رکھتے ہیں، انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا
اسے ام کلثوم نے بھی پہلے لکھا تا کہ ہر عبدالحق نے اپنی تخلیقی ور علمی زندگی کی ابتدا شاعری ہی سے کی اور اپنا تخلص ” آتش“ کیا کرتے تھے۔ بقول ام کلثوم :اگر ماضی میں جھانک کر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس ہمہ گیر شخصیت نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز ایک شاعر کی حیثیت سے کیا اور ابتدا میں وہ آتش مخلص کرتے تھے ۔“ ام کلثوم نے یہ بات مہرعبدالحق کی اردو شاعری کو مد نظر رکھ کرکی ہےمگر کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی، البتہ یہ کہا ہے کہ :
مہر صاحب، اقبال سے متاثر نظر آتے ہیں جس کی وضاحت ان کے ان ابتدائی اشعار سے ہو جاتی ہے جو کہ خوش قسمتی سے حبیب فائق کی ذاتی لائبریری میں محفوظ ہیں حالانکہ مہر صاحب نے خود بھی اس طرف توجہ نہیں دی اور نہ ہی اپنے ابتدائی کلام کو محفوظ کیا ہے یا چھپوایا۔ آپ نے ابتدا میں غزل کی صنف ہی کو اپنے جذبات کے اظہار کے لیے منتخب کیا لیکن طبیعت کو یہ راس نہ آئی اور جلد ہی اس کو ترک کر دیا ۔
اس حوالہ سے ام کلثوم نے مر عبدالحق کی اردو شاعری کا ایک نمونہ بھی پیش کیا ہے :
میرے خرد کو کر دے جنون سے پھر آشنا
منظور ہے شکست طلسما ت زر اسے
قطرے کو پھر طلاطم دریا کا ذوق دے
پھر چاہیے ہے تابش محل و گوہر اسے
پہلی سی سرفرازیاں آتش کو بخش دے
اچھی نہیں امیری دیوار و در اسے
اس میں کوئی شک نہیں کہ مہر عبدالحق اردو شعرا میں سب سے زیادہ اقبال سے متاثر تھے اور سرائیکی شاعری میں خواجہ غلام فرید کو اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ شاعری اکتسابی عمل نہیں بلکہ شاعر پیدائشی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مہر عبدالحق ایک متوازن شخصیت کے مالک تھے اور انھیں ابتدائی تعلیم سے ہی شاعری کا شعور تھا مگر ان کی ابتدائی کاوش نشر تھی جس کا ذکر انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں یوں کیا ہے:
میں نے یہ واقعہ سوچ سوچ کر لیکن پوری صداقت کے ساتھ لکھ ڈالا۔ شاہ صاحب میرے ساتویں جماعت کے معلم اش اش کر اٹھے تھپکی دی سالانہ جلسے میں پڑھوایا اور سکول کی طرف سے پانچ روپے کا انعام دلوایا۔ سات آٹھ صفحات کا یہ مضمون جو محفوظ نہ رہ سکا۔ میری پہلی ادبی تخلیق ہے ۵۔
بقول مہر عبدالحق وہ اس وقت ساتویں جماعت کے طالب علم تھے ۔ مہر عبدالحق کا بنیادی اور پہلا تعارف تحقیق و تنقید ، مترجم ، ماہر فریدیات اور لسانیات ہے جس کے بارے میں مہر اختر وہاب کہتے تھے کہ :
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بحر شعر وسخن کے شناور علم وتحقیق کی صحرانوردی اور آبلہ پائی کے متحمل نہیں ہو سکتے اور تحقیق و تنقید کے دشت نوردوں کے لیے دریائے سخن پایاب نہیں ہو سکتا کہ ہر قطرہ دریا میں دریا کی ہے گہرائی، اس بظاہر مسلمہ خیال کے برعکس ڈاکٹر مہر عبدالحق صاحب کی شخصیت ایک جوئے رواں ہے جو کسی ایک دائرے میں محدود ومحصور ہونا گوارہ نہیں کرتی ۔ ان کی طبع رواں تحقیق و تنقید، لسانیات، نفسیات، قرآنیات و ایمانیات ،سیرت و تفسیر، فریدیات اور فلسفہ تعلیم ایسے متنوع موضوعات اور فارسی، اردو، سرائیکی اور انگریزی ایسی بوقلموں زبانوں میں اپنی بے پناہ صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کر چکی ہے۔“۔
اردو اور سرائیکی شعر و ادب اور تحقیق و تنقید کے قاریوں میں بہت سے قاری شاید اس بات سے واقف بھی نہ ہوں کہ مہر عبدالحق نے شاعری میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور سرائیکی زبان میں ایک باقاعدہ مجموعہ بہ عنوان لاٹریاں بھی سرائیکی کو دیا ہے یہ مجموعہ پہلی دفعہ 1990ء میں سرائیکی ادبی بورڈ ملتان نے شائع کیا تھا اور اس کی اشاعت کی مالی امداد کادمی ادبیات پاکستان ، اسلام آباد نے کی تھی ۔ لاٹریاں جدید سرائیکی کافی کی ایک بہت بڑی مثال ہے اس کے خالق کا خیال تھا کہ ہم ” کافی کی صنف کو سرائیکی ماہیے سے جوڑ کر نئے انداز میں پیش کریں تا کہ یہ نہ صرف اس کا عوامی رنگ قائم رہے بلکہ اس میں جدت ، نیا پن اور تازگی بھی بڑھے۔ وہ کہتے ہیں کہ :
ماہیے دی ہیئت کوں بدل کے پوری کافی دی شکل ڈے ڈتی ونجے تاں اے بالکل نویں شئے بن ویسی تے ایندا عوامی رنگ وی برقرار رہ ویسی ۔ عوامی رنگ کوں بیا شوخ تے گوڑھا بنا ونڑ کیتے اے خیال وی آیا جو دس لگدیاں تئیں ایک جدید صنف سخن ورچ سرائیکی زبان دیاں ضرب المثلاں زیادہ کنوں زیادہ تعداد وچ سموڈ تیاں و نجر سرائیکی زبان ضرب المثلاں ، محاوراں تے عوامی تاثرات ظاہر کرنڑ والے چھوٹے چھوٹے جملیاں نال اتنی مالدار ہے جو د نیا دیاں وڈیاں وڈیاں زباناں وی بعض موقعیاں تے پچھاں رہ دیندین ۸
ترجمه
ا ہے کی ہیئت کو بدل کر پوری کافی کی شکل دے دی جائے تو یہ بالکل نئی چیز بن جائے گی اور اس کا عوامی رنگ بھی برقرار رہے گا۔ عوامی رنگ کو اگر اور زیادہ شوخ کیا جائے اور یہ بھی خیال آیا جو جتنا ہو سکے اسے جدید صنف سخن میں سرائیکی زبان کی ضرب اٹلیں زیادہ سے زیادہ اس میں ضم کی جائیں، سرائیکی زبان کی ضرب المثلیں ، محاورات، اور عوامی تاثرات ظاہر کرنے والے چھوٹے چھوٹے جملوں سے اتنی مالا مال ہے کہ دنیا کی بڑی زبانیں بھی بعض اوقات پیچھے رہ جاتی ہیں۔“ میر عبد الحق نے اپنی اس بات کو اپنی شاعری کے ذریعے بطور مثال پیش کر کے ثابت کیا ہے، ایک دو اشعار ملاخطہ فرمائیں۔
میر ملاح آپس وچ چک بک
بیری همر گھیر
ناں تے کم حیواناں والے
لگ گئے جنگلی شیر
در یا سارے چڑھدے آندے
کندھیاں لگی کیرو
جا کجا۔ کھر ٹیٹر یاں مارے
رج کھا دے دی مستی
اپنے اندر جھاتی پاچا
بھل نہ اپنی ہستی
دیناڈے تے گھن دی منڈی۔ سوا دست بدستی 10
ڈاکٹر میر عبدالحق نے اپنی کتاب "لالڑیاں‘ کی وجہ تسمیہ یہ بتائی ہیں:
اج ہوں گھٹ لوگ جاندے ہن جو لیہ اج عید گاہ دے نال ہک بزرگ دا کچا چھیہاں مزار ہے۔ جیندے چوکا ندے دے اندر جائیں دیاں جھتاں ہن ۔ ایں غریب کوں کوئی مقبرہ مل گیا ہوندا۔ یا کہیں نواب یا جاگیر دار دے نال ایند اتعلق ہوندا تاں ہر سال دھوم دھام دے نال ایندے عرس دی ہوندے ۔ ریتمی چاہدراں دی چڑھدیاں تے اخبارات وچ وی چرچے ہوندے۔ گو یا جیویں تھل دا کوئی وارث کوئی نی ایویں بزرگ وی لاوارثا ہے۔ ناں ہے ایندا لتی لال” پیارا ۔ سوہنڑاں ۔ شاعرانہ ناں لال خالص تل وطنی لفظ ہے جیندی تاریخ پیج ہزار سال پرانی ہے میں ایں متبرک ناں کوں تخلص دے طور تیں استعمال کیتے۔ لیکن ایس بزرگ دی وساطت ناں جیڑھا پیغام میں تھل دے نو جواناں تک پنچاوناں چہینداں اوندے وچ لگی لال، تھل مشخص ہے ۔ دانشمند دلیر ، پرامید فعال اتے ہوش مند تھلو چڑ گھیر و ہے ۔ ۔ ۔ آزادی دی علامت ہے کریل دی وجودی حکمت دی وجودی حکمت دی سمبل ہے حیاتی تے فعالیت دی مثال ہے اتے جدو جہد دا استعارہ ہے گویا لابی لال” وی ہے۔۔۔ میں وی ہاں ۔ توں وی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ” لالڑیاں دے پڑھن والیاں کوں اشاربیت دے مجھن دی توفیق عطا کرے ۔ 11۔
(ترجمہ) آج بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ لیہ شہر عید گاہ کے نزدیک ایک بزرگ کا کچا سا مزار موجود ہے جس کی چاردیواری کے احاطے میں جالوں کے جھنڈ موجود ہیں ۔ اگر اس غریب کوکوئی مقبرہ مل گیا ہوتا یا کسی نو اب جاگیر دار سے اس کا تعلق ہوتا تو ہر سال یہاں دھوم دھام سے عرس منائے جاتے ۔ ریشی چادریں چڑھائی جاتیں، اخبارات میں چرچے ہوتے ۔ جس طرح تھل کا کوئی وارث نہیں اس طرح یہ بزرگ بھی لاوارث ہے اس کا نام لالی لال پیارا خو بصورت شاعرانہ نام لال خالص مقامی نام ہے، جس کی تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے میں نے اس نام کو خلص کے طور پر استعمال کیا ہے لیکن اس بزرگ کی وساطت سے جو پیغام میں تھل کے نو جوانوں کو دینا چاہتا ہوں۔ اس میں لکی لال حل مشخص ہے دانشمند، دلیر، پر امید فعالیت کی مثال ہے اور جدوجہد کا استعارہ ہے گو یا التی لال وہ بھی ہے میں بھی ہوں ۔ تو بھی ہے۔ اللہ تعالی الالڑ یاں“ پڑھنے والوں کوں اشاریت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے“ حضرت لقی لال سے جڑت کے دو پہلو صاف نظر آتے ہیں تھی لال میں تھل کا ایک گمنام صوفی ہے جس کا مزار گمشدہ اور نظر انداز شدہ ہے – مہر صاحب اس گمنام صوفی کو ایک نام دینا چاہتے ہیں۔ اور قی لال کو علامت کے ساتھ اپنے تھل چپڑوں کا تعارف بھی عام کرنا چاہتے ہیں۔ کتاب کے آغاز میں تصوف اور وادی سندھ کی صوفیانہ روایت کا ذکر کرنا بھی بنیادی مقصد ہے۔ دراصل للی لال سیں کی ذات کا اعتراف کے ساتھ تھل کے باسیوں سے محبت اور جڑت کی کہانی کا اظہار کرنا مقصود تھا۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے۔ کہ لالڑیاں میں ظاہر ہونے والی مزاحمت میں صوفیانہ طرز احساس اپنی پوری آب و تاب سے موجود ہے
۔ اور جب وہ یہ کہتے تھے تو پھر ان کا یہ بیانیہ بھی واضح ہو جاتا ہے:
پاسیر دیاں پہاڑیاں کنوں گھن کے گوادر دے ساحل میں داسو ہزار میل لمبا علاقہ اڈھائی یا ترائے ہزار سالاں کنوں آج میں باہروں آئے لوکاں دا اکھاڑا بنیارہ گئے ۔ جیدی وجہ نال اتھیوں دی زندگی معیشت کے معاشرت ڈوہاں اعتباراں نال بے یقینی داشکار رہ گئی ہے۔ ایندے علاوہ فطرت دی کوئی زیادہ مہربانی نی رہی۔ انھاں حالاتاں وچ دنیا دی بے ثباتی ، طاقت اتے کمزوری دا احساس ملا پاں تے جدائیاں دی شدت جبریت دے کر بناک حادثات ، جیالے مضبوط ، سمجھدار تے حوصلہ مند انسان کوں وی مجبور کر دتا ۔ تا جواد خیالی تصورات اچ پناہ۔۔۔ گھنے چنانچہ ایہا وجہ ہے جو ایں علاقے دی مٹی داذ راز را تصوف وچ رجیا ہوئے ۔“۱۲؎
( ترجمہ )
دو پاسیر کی پہاڑیوں کو گوادر کے ساحل تک تقریباً سوا دو ہزار میل لمبا علاقہ اڑھائی یا تین ہزار سال سے آج تک باہر سے آنے والے لوگوں کا اکھاڑا بنا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں کی زندگی، معیشت اور معاشرت پر دو اعتبار سے بے یقینی کا شکار رہ گئی ہے۔ اس کے علاوہ فطرت کی کوئی زیادہ مہربانی نہیں رہی۔ ان حالات میں دنیا کی بے ثباتی، طاقت ، اور کمزوری کا احساس میل جول اور جدائیوں کی شدت جبریت کے کرناک حادثات، جیالے، مضبوط، سمجھدار اور حوصلہ مند انسان کو بھی مجبور کر دیا۔ اسی لیے وہ خیالی تصورات میں بنالے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کی مٹی کا ذراذرا تصوف میں رچا ہوا ہے۔“
آگے چل کر پھر کہتے ہیں:
سرائیکی تے سندھی ، وادی سندھ دیاں سب توں وڈیاں تے قدیم ترین زباناں ہن ۔ انھیاں
وچ تصوف دی روایت صدیاں کنوں آندی پئی ہے 13
ترجمه
”سرائیکی اور سندھی ۔ وادی سندھ کی سب سے بڑی اور قدیم ترین زبانیں ہیں۔ ان میں تصوف کی روایت صدیوں پرانی ہے“ وادی سندھ کی زبانوں اور یہاں کی متصوفانہ روایت کا اعتراف دراصل یہاں کی مقامیت ، تہذیب، ثقافت اور دھرتی کا اعتراف ہے۔
جو ما بعد جدیدت کے رویوں کو آگے بڑھاتا ہے، مابعد جدیدیت رویے کے بارے میں جناب گوپی چند نارنگ کہتے ہیں: تاہم مابعد جدیدیت کی فلسفیانہ بنیادوں کو سمجھنا قدرے مشکل اس لیے ہے کہ ہمارے ذہن ابھی تک ترقی پسندی اور جدیدیت کی آسان تعریفوں کے عادی ہیں۔ ان سابقہ تحریکوں کی بندھی نکی فارمولائی تعریفیں ممکن تھیں پھر یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد تھیں۔ یعنی جوترقی پسندی نہیں تھی ۔ وہ جدیدیت تھی اور جو جدیدیت تھی وہ ترقی پسندی نہیں تھی۔ یعنی ایک میں زور انقلاب کے رومانی تصور پر تھا، دوسرے میں ساری توجہ شکست ذات تھی ۔ مابعد جدیدیت نہ ترقی پسندی کی ضد ہے اور نہ جدیدیت کی ، اور چوں کہ یہ نظریوں کی ادعائیت کو رد کرنے اور طرفوں کو کھولنے والا رویہ ہے۔ اس کی کوئی بندھی تکی فارمولائی تعریف ممکن نہیں ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ما بعد جدیدیت ایک کھلا ڈلا ذ ہنی رویہ ہے۔ تخلیقی آزادی کا اپنے ثقافتی تشخص پر اصرار کرنے کا معنی کو سکہ بند تعریفوں سے آزاد کرانے کا مسلمات کے بارے میں از سر نو غور کرنے اور سوال اٹھانے کا ، دی ہوئی ادبی لیک کے جبر کو توڑنے کا ، ادعائیت خواہ سیاسی ہو یا ادبی اس کو رد کرنے ۔ زبان یا متن کے حقیقت کے برعکس محض ہونے کا نہیں بلکہ حقیقت کے خلق کرنے کا معنی کے مسولہ رخ کے ساتھ اس کے دبائے یا چھپائے ہوئے رخ دیکھنے دکھانے کا اور قرات کے تفاعل میں قاری کی کارگردگی کا۔ دوسرے لفظوں میں مابعد جدیدیت تخلیق کی آزادی اور تکثریت کا فلسفہ ہے۔ جو کہ مرکزیت یا جدیدیت یا کملیت پسندی کے مقابلے پر ثقافتی بو قلمونی ، مقامیت ، تہذیبی ، حوالے اور معنی کے دوسرے پن the,other کی تعبیر میں قاری کی شریعت پر اصرار کرنا ہے 14۔
گوپی چند نے اس بیان کی روشنی میں یہ بات واضح کی ہے کہ شاعری کا ثقافتی ، مقامی اور تہذیبی حوالہ اصل میں مابعد جدیدیت کے مطالعہ کا ہی نام ہے ۔ لالڑیاں تھل کے باسیوں کی علامت ہے۔ پھر جب مہر صاحب اس کتاب کے آغاز میں تصوف کی بحث کرتے ہیں تو وہ اصل میں وادی سندھ کے روحانی حوالوں کا اعتراف اور ان کا اظہار نٹری لسانیات میں کرتے ہیں۔ آج سرائیکی شاعری جس مقام پر ہے۔ اس کے سفر کا آغاز سئیں خواجہ غلام فرید کی شاعری سے ہوا۔ پھر یہ سفر جب ڈاکٹر میر عبدالحق تک پہنچا تو پھر اس میں مقامیت اور تہذیبی حوالہ واضح طور پر سامنے آیا ۔ اس حوالہ کو آج کے معتبر شعرا جناب اشولال اور رفعت عباس نے امر کر دیا ہے ۔ لاٹریاں سرائیکی وسیب میں پیار کے نئے نام سے عبارت ہے۔ مہر صاحب نے اس لفظ کو عام کرنے میں قاری کو تعلو چی وسیب سے ایک تہذیبی اور ثقافتی جڑت دی ہے ۔ یہ کتاب تھل کو متعارف کرنے کی ایک بڑی تخلیقی کوشش ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے ایک نیا اور منفرد کام یہ کیا ہے۔ کہ تھل“ کو تصویری جھلکیاں دے کر متعارف کیا اور یہاں کی لوک ریت ، پہا کے محاورے، روز مرہ ضرب المثال اور مقامی رویے اور زمینی حوالے، بے ساختگی اور روانی سے استعمال کر کے سرائیکی زبان کو وسعت دی ہے۔ اور ساتھ تھلو چی تہذیب و ثقافت کو بھی خوب متعارف کرانا ہے:
چور نے آہدن چور چور
دھاڑ وو پے گئی لٹ
کوئی حال اچ مست ہے، کوئی
مال دی مستی ابٹ
للی لال خزانے تھل دے
شمالا رہنٹر انٹر گھٹ 15؎
عجیب زمانہ آیا یارو
گونگے واعظ کریندن
دیدہ ور سجا کاں کوں پئے
اندھے راہ ڈھکلا ونر
چربل دے آوازاں والے
باتے گیت سنٹر یندن
لولے لنگڑے مجھمریں پاون
کپڑے رقص کر بندن 16۔
اس کتاب کے بارے میں پروفیسر عطا مورعطا لکھتے ہیں:
لالڑیاں مہر صاحب کی سرائیکی شاعری کا دیوان کل 175 صفحات پر مشتمل ہے۔ اسے سرائیکی ادبی بورڈ ملتان نے اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کی مالی معاونت سے شائع کیا۔ اپنے فکری اور فنی دونوں حوالوں سے ایک خوبصورت تخلیق کا نام دیا جا سکتا ہے۔ مہر صاحب نے ہر کافی نمانظم میں جسے انھوں نے کوئی نام نہیں دیا تھل کی محرومیاں ایسے خوبصورت انداز میں پیش کیں جس سے تصوف کا رنگ واضح دکھائی دیتا ہے۔ مہر صاحب نے نظم کی تفہیم کے لیے ہر نظم کے ساتھ ایک خیالی تصویری خاکہ تراشا ہے جو نظم کی خوبصورتی اور تفہیم کے لیے بہترین ماخذ ہے ۔ یہ انفرادی کاوش صرف مہر صاحب کی ہے۔ انھوں نے مصوری کا رنگ چڑھایا ہے ۔ لہذا مہر صاحب کا کلام نہ صرف شاعری ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مصوری بھی ہے۔ یعنی انھوں نے شاعری اور مصوری کو یکجا کر دیا۔ ان کے کلام میں مقامی ثقافت کی عکاسی کی بھر پور کوشش کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ انھوں نے زبان کو ہر قیمت پر خالص رکھا ہے کہیں بھی مانگے تانگے کا ڈکشن استعمال نہیں
کیا۔ 17۔
میر عبدالحق نے سرائیکی شاعری سے پہلے اردو میں اشعار کہے تھے ۔ مگر ان کو سنبھال کر نہ رکھ سکے۔ شاید اس کی وجہ ان کے مطالعات میں تحقیق تنقید اور دیگر موضوعات پر مرکزی تو جہ تھی۔ اردو شاعری مقدار میں تھوڑی ہے۔ فقط انھوں نے نثری ذوق شوق پر تو ج تھی۔ ان کے اردو شعروں میں واضح طور پر علامہ اقبال کے رنگ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اقبال سے محبت کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ وہ لڑکپن میں
لیہ سے لاہو ر اقبال کو ملنے کے لیے بھی گئے تھے ۔ پھر انھوں نے اقبال سے ایک مکالمہ بھی کیا 18۔
مہر صاحب کو اپنے سرائیکی وسیب کے لوگوں، دھرتی ، شعر و ادب اور خواجہ غلام فرید سے عشق تھا، اپنی جنم بھومی لیہ کے بارے میں کہتے ہیں۔
مہر صاحب کا یہ رنگ کافی کا ہے جو اسلوب کے اعتبار سے جدید نظم کے بہت قریب ہے یہ بات بہت ہی توجہ طلب ہے جو مہر صاحب کی یہ سرائیکی شاعری کسی بھی ایسی مروجہ صنف شاعری کے زمرے میں نہیں آتی جس کو کوئی خاص نام دیا جائے ۔ یہ غزل بھی ہے نظم بھی ہے
ور کافی بھی ہے تمام پہلوؤں میں ایک بات مشترکہ ہے۔ جو اس شاعری کا باطنی اور داخلی تاثر متصوفانہ رواں اور کہیں کہیں خطیبانہ ہے سوز اور گداز
مونجھ ، وچھڑے اور رمزیں اس شاعری کا مجموعہ تاثر ہے یعنی الالڑیاں کی بنیادی اور منفرد پہچان یہی ہے۔
حوالہ جات:
عطامحمد عطا، بابائے سرائیکی ، ڈاکٹر عبد الحق ، چوک اعظم لیہ اردو سخن ڈاٹ ۱۹۱۲ ، ۱۹۹
اُم کلثوم : ڈاکٹر عبدالحق فن اور شخصیت ، مقالہ برائے ایم۔اے اردو مملوکہ ملتان: بہاء الدین زکریا یو نیورسٹی، ۸۷-۱۹۸۶، ص۸۹
ایضاً ص ۸۹
بحوالہ عطامحمد عطا۔ بابائے سرائیکی ڈاکٹر میر عبدالحق ، ص ۲۰۰
طاہر تونسوی ڈاکٹر : ڈاکٹر عبد الحق سے انٹرویو، مشمولہ، ادبیات، اسلام آباد کا دمی ادبیات پاکستان ۱۹۹۳ ص ۱۲۳
مہر اختر وہاب پروفیسر، تقریظ لالٹڑیاں اس ن
لالڑیاں کی پرنٹ لائن
میر عبدالحق ، ڈاکٹر ( د پیاچہ ) لالڑیاں ہیں ۶۰
میر عبدالحق ، ڈاکٹر ، لالٹیاں ، ص ۹۴
ایضاً ص ۹۵
ایضاً، ص ۷
ایضاً، ص ۳
ایضاً ص ۴-۳
گوپی چند نارنگ ڈاکٹر، مابعد جدیدیت اردو کے تناظر میں مشمولہ، مقالہ، مابعد جدیدیت (اطلاقی جہات )
ڈاکٹر ناصر عباس نیر مرتب ملتان : بیکن بکس ۲۰۱۶، ص ۱۱۰
عبدالحق ، ڈاکٹر لالٹڑیاں ، ص۱۳۰
ایضاً، ص ۱۵
عطا محمد عطا، بابائے سرائیکی ڈاکٹر مہر عبدالحق ،ص۲۰۶
مزمل حسین ، ڈاکٹر ۔۔۔۔ اقبال اور لیہ فیصل آباد : مثال پبلشرز ، ۲۰۱۴ ص ۹۴
مہر عبدالحق ، ڈاکٹر ، لالٹیاں ، ص 11
ایضاً ص ۸۸