انٹرویور: ڈاکٹر صاحب بہت مہربانی کہ آپ نے مجھے وقت دیا اور موقع فراہم کیا کہ میں آپ سے آج کے معاشرے کی صورت حال اور اس معاشرے میں پیدا ہونے والی فکری ونظری کروٹوں کے حوالے سے بات کر سکوں پھر یہ بھی کہ آج کا ادب اور ادیب معاشرتی صورت حال سے کس حد تک جڑا ہوا ہے۔
ڈاکٹر افتخار بیگ:۔ بھئی آپ کی تمہید ہی بڑی گنجلک سی ہے۔بات ذرا مختصر انداز میں کر لیں۔
انٹرویور: جی۔جی بالکل۔میرا مطلب تھا کہ آپ بحث کے سارے پہلوﺅں کو ذہن میں رکھیں۔تو میرے پہلا سوال تو یہی ہے کہ آپ ہمارے معاشرے کے لمحہءموجود یا زمانہ ءحال کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر افتخار بیگ:۔ دیکھیں جی،یہ تو ایک عمومی سی بات ہے کہ آج معاشرے میں ایک طرح کی ابتری اور انتشار موجود ہے۔عمومی طور پر اس انتشار کی وجہ”جدید“یا ”جدت“کو ٹھہرایا جاتا ہے۔پھر خاص طرح کی ماضی پرستی کا ایک رویہ ہے اور ہم ایک ہی سانس میں ماضی کو بھلا اور خوب صورت قرار دیتے ہیں۔لمحہ موجود یا زمانہ حال کو بدحال اور برا کہہ گزرتے ہیں۔مگر یہ معاملہ اتنا سیدھا نہیںہے۔کبھی ماضی کے لمحات بھی لمحہ موجود اور حال تھے اور اس وقت جو انتشار تھا وہ اس وقت کے انسان کے لئے اذیت وعذاب کا باعث تھا۔فراعنہ مصر کے اہراموں سے جو کتبے برآمد ہوئے ان میں سے ایک کتبے پر یہی لکھا ہے کہ” آج معاشرے میں ابتری ہے۔خود غرضیاں بڑھ گئی ہیں “۔
انٹرویور: ڈاکٹر صاحب بے چارگی اور بے بسی کیسی۔؟آج کا انسان تو بہت ترقی کر چکا۔
ڈاکٹر افتخار بیگ:۔ دراصل اس ترقی نے انسان کو احساس دلایا ہے کہ وہ خود اس پورے معاشرتی نظام میں محض ایک کل پرزہ بن کر رہ گیا ہے جب کہ انسان بحیثیت انسان اپنے عزووقار کو منوانا چاہتا ہے۔دنیا میں رہنا اس کی مجبوری ہے۔دنیا سے ورا ہونا اور اپنی فضیلت کو ثابت کرنا اس کے انسان ہونے کا تقاضا۔جسے نٹشے نے سپرمین کہا جسے اقبال نے بندہ مومن اور خودی کی اصطلاحوں میں بیان کیا۔
انٹرویور: مگر ڈاکٹر صاحب نٹشے کے سپر مین اور اقبال کے بندہ مومن میں تو فرق ہے؟
ڈاکٹر افتخار بیگ:۔ جی ہاں فرق ہے۔نٹشے کے ہاں انسان ہونا ہی بڑی بات ہے اور خود یقینی لازم ہے۔اقبال کے ہاں یہ خود یقینی مشروط ہے عقیدہءتوحید کے ساتھ۔مگر بات دونوں انسان کی فضیلت کی کرتے ہیں نا۔ہاں یہ ضرور ہے کہ اقبال یہ فضیلت مسلمان کو دیتے ہیں۔اس زاویے سے بات کریں تو بات شاید بہت طویل ہوجائے گی۔
انٹرویور: چلیں ٹھیک ہے۔ہم معاشرتی اور تہذیبی صورت حال اور آج کے فرد کی بات کررہے تھے۔
ڈاکٹر افتخار بیگ:۔ ہمارا معاشرہ فکری سطح پر منافقانہ طرز ِعمل کا شکار ہے۔انگریز دشمنی اور نتیجتاً یورپ کے خلاف غصہ۔ہندو دشمنی اور نتیجتاً بھارت کے خلاف غصہ ہمارے دل و دماغ پر طاری ہے۔جنرل ضیاءکے دور میں بھارتی ثقافتی یلغار کے خلاف بہت کچھ لکھا گیا۔باقاعدہ احتجاجی جلوس نکالے گئے اور سرِ بازار ٹی وی اور وی سی آر کو نذر آتش کرتے اس غصے کو ٹھنڈا کیا گیا۔مگر علم ،سائنس اور سائنسی ایجادات نہ کسی ثقافت کے محتاج ہیں نہ محبت اور نفرت کو شمار کرتے ہیں۔ان کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے اور یہ اپنے آپ کو منوا لیا کرتے ہیں۔
انٹرویور: تو کیا ہمارے تہذیبی روےے بھی۔؟
ڈاکٹر افتخار بیگ:۔ جی ہاں ہمارے معاشرے میں ایک خفیہ اور خفتہ تبدیلی آرہی ہے۔ہمارے تہذیبی روےے بدل رہے ہیں۔اپنے اردگرد نظر ڈالیں۔ہم زرعی سماج کے اطوار سے نکل کر جدید سائنسی سماج کے اطوار کو اپنانا شروع کر چکے ہیں۔کہہ لیں کہ یہ تبدیلی قدرے سست ہے مگر ہے۔
انٹرویور: تو ڈاکٹر صاحب یہ سست کیوں ہے۔؟زندگی میں تو بہت تیز رفتاری آئی ہے۔
ڈاکٹر افتخار بیگ:۔ دراصل زرعی سماج کے رویوں سے نکلنے کی شعوری کوشش موجود نہیں ہے۔ہم آج بھی سماجی رشتوں کے تعین میں زرعی سماج کے پہچانوں کو ملحوظ رکھے ہوتے ہیں۔اس کی وجوہات کئی ہیں ۔مثلاً ہم ماضی پرست ہیں۔دوسراہمارے ہاں یورپ کے خلاف جو غصہ ہے وہ ختم نہیں ہورہا۔بلکہ کہیں نہ کہیں اس غصے کو ہوا دی جارہی ہے۔
انٹرویور: ریاست اور ریاستی ادارے اس صورت حال میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر افتخار بیگ:۔ ہاں یہ اہم بات ہے۔معاشرہ اور فرد لازم و ملزوم ہیں۔فرد آزادی کا،آزادی فکرو نظر کا طالب ہے۔ تو عمومی سطح پر معاشرہ بھی کشادہ فکری کا طلب گار ہے۔مگر پاکستانی معاشرے میں کچھ غیر مرئی قوتیں ایسی ہیں جنھوں نے فرد کی آزادی کو محدود مسدود کیا ہے نتیجتاً معاشرتی سطح پر ایک جکڑ بندی کا احساس موجود ہے۔ یہاں پھر دو قسم کے ردعمل اور دو قسم کے رویے جنم لیتے ہیں۔ایک سطح پر سمجھوتا،یہ سمجھوتا فرد کے ہاں بے بسی اور بے چارگی پیدا کرتا ہے۔اسی سے متصل ایک بے اطمینانی۔۔۔اور یہ محسوسات فرد کے ہاں شدید کرب کا باعث بنتے ہیں۔اس کرب کے دو نتیجے نکلتے ہیں۔بیگانگی لاتعلقی اور کبھی کبھی اس کرب کے ناقابل برداشت ہونے پر اس کرب سے نکلنے کی کوشش اور اس کوشش میں حالات کے مقابلے میں ڈٹ جانے اور اٹھ کھڑے ہونے کی خواہش۔۔۔
دوسرا ردعمل یا رویہ۔۔مسابقت،مقابلے یا ڈٹ جانے کاہے۔ یہ رویہ مشروط ہوتا ہے فرد کے یقین ذات کے ساتھ۔۔۔فرد کے ہاں جتنا گہرا یقین ذات ہوگا۔ یہ ردعمل اتنا ہی شدید ہوگا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاستی سطح پر فرد کا یقین بحال کیا جائے۔فرد کے سامنے صورت حال مشکوک نہ ہو۔فرد کی انا مجروح نہ ہو۔ اسے اپنے آپ کوثابت کرنے کے تمام مواقع میسر ہوں یہ ریاستی اداروں کا کام ہے۔نصاب۔کھیلوں کے میدان ۔ریاستی اداروں میں فرد کے عزووقارکی بحالی ۔تمام شعبوں میں کھلا مقابلہ۔یہ سب بہت ضروری ہیں۔
انٹرویور: تو آج کا ادب اور ادیب کیا کرے؟
ڈاکٹر افتخار بیگ:۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ ادب زندگی کا عکاس ہوتا ہے۔ادب زندگی کا ترجمان ہوتا ہے۔یہ بالکل درست،مگر ادب فکری اور جذباتی سطح پر فرد اور زندگی کو نئے امکانات سے روشناس بھی کرواتا ہے۔زندگی امکانات سے پہچانی جاتی ہے۔ان امکانات کی موجودگی فرد کے ہاں شدید کرب کا باعث بنتی ہے کہ فرد اپنی ذات اور ذات کی محدودیت کے باعث صرف ایک انتخاب کر سکتا ہے۔ فرانسیسی فلاسفرزاں پال سارتر بھی یہی کہتا ہے۔محدود انتخاب کے باعث فرد اپنی ذات کی ہے کرانیوںاور وسعتوں کے حوالے سے مخمصے کا شکار ہوتا ہے۔
یوں ادب فرد کے جذبوں اور جذباتی کیفیات کے اظہار کا نام بنتا ہے۔آج کا ادب جذبی کیفیات کا ایک نیا بیانیہ ہے۔خود کلامی،خود استفہامی اندر ہی اندر ٹوٹنے کا عمل ،اندر سے اٹھنے والی آواز کو مظہر کرتے ہوئے مکالماتی اظہار یہ سب نئے ادب کاوتیرہ ہیں یوںزندگی کے نئے امکانات کی تفہیم ممکن ہوتی ہے جس فن پارے میں کربِ ذات کا پرتو موجود نہیں وہ ادھورا اظہار ہے۔
انٹرویور: تو پھر آج کا ادب۔۔۔؟
ڈاکٹر افتخار بیگ:۔ ایک منٹ۔ایک منٹ۔جب تک انسان موجود ہے،اس کے جذبے اور جذبوں کی اتھل پتھل موجود ہے یہ مخمصاتی کیفیت یہ کرب،یہ بے چینی،بے اطمینانی اور کبھی کہیں فتح مندی کا احساس یہ وہ کیفیات ہیں جو انسان کو انسان بناتی ہیں۔ جب تک یہ جذبے اور جذبوں کی یہ کیفیات زندہ ہیں۔ادب زندہ ادیب کا اظہار زندہ ہیں۔ اب کہیئے۔۔۔؟
انٹرویور: جی بس ٹھیک ہے۔لیکن یہ بتلائےے کہ ادب انسان کی تہذیبی زندگی سے کیا تعلق رکھتا ہے۔؟
ڈاکٹر افتخار بیگ:۔ دیکھیں جی۔انسانی تہذیبی زندگی کی کئی پرتےں ہوتی ہیں۔اس میں بہت سی روایات اور رویوں کا عمل دخل ہوتا ہے ۔روایات ماضی سے اخذشدہ ہوتی ہیں اور رویے فرد کے لمحہءموجود کا ردعمل ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں اردو میں یہ صورت حال بہت واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ہمارا ادیب ماضی پرستی میں پھنسا ہوا ہے۔ہماری علامتیں استعارے اور تشبیہات کی نوعیتیں ہمیں ماضی پرستی کی طرف لے جاتی ہیں۔خود زبان اور زبان کی ساخت ہزاروں سال قدیم تصورات کو مہمیز کرتی اور زندہ رکھتی ہے۔مثلاً زمین گھومتی ہے تو دن اور رات ہوتے ہیں مگر زبان کہتی ہے کہ سورج طلوع ہوتا ہے یہاں زبان کی ساخت بے حد ٹھوس اور جامدہے۔پچھلی ایک ڈیڑھ صدی سے زمین کے گھومنے کی بات ہورہی ہے۔مگر زبان ہمیں اجازت نہیں دیتی۔ہم زبان کا نیا محاورہ وضع نہیں کرپاتے۔اسی طرح زمین کے گول ہونے اور بلندی اورپستی کے تصور کی تفہیم زبان نہیں ہونے دے رہی اور ہم ماضی کے تصورات میں پھنسے رہتے ہیں۔
ہمیں نئے دور میں جینا ہے تو ہمارا بیانیہ بھی بدلنا چاہیے اور ہمارا اظہار یہ بھی۔
انٹرویور: کچھ اپنے بارے میں؟
ڈاکٹر افتخار بیگ:۔ کچھ نھیں !زندگی کی ساٹھ بہاریں اور ساٹھ خزائیں گزر چکی ہیں۔سماجی انصاف کے خواب ان خزاﺅں کے بھینٹ چڑھ گئے۔کشادگی فکرو نظر کے جن مباحث میں عمر بسر کی ہے وہ سارے مباحث فرد کی زندگی سے غیر متعلق ہوتے جارہے ہیں۔ مشاعرے میں فرد کو بے وقعت دیکھتا ہوں تو شدید اضطراب کا سامنا ہوتا ہے۔ میں ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہوں جو خود زندہ نھیں ہے۔ کبھی کبھی فراریت کا ایک احساس اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ایک بے چارگی ،ایک بے بسی ۔۔۔یہاں لوگ دولت کے لیے مر جاتے ہیں ۔شہرت کے لیے مر جاتے ہیں۔من کی جوت کو زندہ رکھنا مشکل امر ہے۔مشکل راستے چننا اور زندہ رہنا زندگی ہے۔ہم زندہ رہنے کی ”سعی بیکار“سے گزر رہے ہیں۔خزائیں۔۔۔بہاریں۔۔۔خزائیں زندگی کا چلن یہی ہے ۔سو گزر رہی ہے گزر جائے گی۔