صبح نو کا تمنائی: افتخار بیگ
لیہ ادبی سرگرمیوں کا گہوارہ ، تہذیبی و ثقافتی روایات سے مزین، تمدنی اینچ کا حامل ، ذہنی وفکری کشادگی سے آراستہ، سیاسی بلوغت سے بھر پور ایک قدیم اور تہذیب یافتہ شہر ہے۔ جو دریائے سندھ کے شرقی کنارے پر واقع ہے۔ لیہ ادبی سرگرمیوں کے حوالہ سے جنوبی پنجاب میں پیش پیش رہا ہے اور گردونواح کے شہروں مظفر گڑھ ، ملتان ، تونسہ، ڈیرہ غازی خاں، جھنگ، خانیوال، بھکر ، خوشاب اور میانوالی سے تعلق رکھنے والے نامور شعرا یہاں منعقد ہونے والے مشاعروں میں شریک ہوتے رہے اور داد شن سمیٹتے رہتے ہیں ۔ لیہ نے ڈاکٹر خیال امروہی ہنیم لیہ، راجہ عبداللہ ناز ، غافل کرنالی جعفر بلوچ جیسے نامور شعرا کو جنم دیا جنہوں نے اردو شاعری میں گراں قدر اضافے کیے۔ ان میں ایک اہم نام پروفیسر ڈاکٹر افتخار بیگ کا ہے جو اردو شاعری خاص کر لیہ کے ادبی ورثے کے امین ہیں بلکہ اس شعری روایت کو آگے بڑھانے میں انہوں نے اپنا خون صرف کیا ہے۔ ڈاکٹر افتخار بیگ کیم جون ۱۹۵۸ء کو پیدا ہوئے ۔ انھوں نے زمانہ طالب علمی سے ہی شعر وسخن میں دلچسپی لینا شروع کر دی تھی ۔ جب وہ سن شعور کو پہنچے تولیہ میں علمی وادبی ماحول اپنے جو بن پر تھا۔ ہفتہ وار مشاعرے ہوتے جس میں دور ونزدیک سے استاد شعراء تشریف لاتے اور خوب دار سمیٹتے ۔ ایسے ادبی و شعری ماحول میں افتخار بیگ کی طبیعت سخن گوئی کی طرف راغب ہوئی اور ان کے شب وروز ایسی ہی شعری صحبتوں میں صرف ہونے لگے۔ ڈاکٹر افتخار بیگ زمانہ طالب علمی سے ہی شعر کہنے لگے تھے وہ طبعا ایک حساس انسان تھے ۔ مظاہر فطرت ، ہنگامہ ہائے زندگی ، جبلی و فطری تلاطم نے ان سے اظہار کا خراج مانگا تو وہ ہخن ہائے گفتنی پر مجبور ہوئے اور مختلف اصناف ہاۓ شعر مثلاً آزادنظم ، نثری نظم، غزل، ہائیکو، قطعہ، رباعی کواپنا اظہار یہ ٹھہرایا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ” کبھی تم سوچنا 1999ء میں شائع ہوا جبکہ دوسرا ابھی اشاعت کے مراحل میں ہے۔ افتخار بیگ نے جب شاعری کا باقاعدہ آغاز کیا تو اپنے ارد گرد جنم لینے والے مسائل سے شدید متاثر ہوئے ۔ ابتدا ہی سے انہوں نے ایک عام انسان کو ظلم سہتے ، درد بھو گئے ، غربت برداشت کرتے اور زندگی کی سزا کاٹتے دیکھا۔ ایسے ماحول میں ان کا دل خون کے آنسو روتا اور وہ اس صورت حال پر احتجاج کیے بغیر نہ رہ سکتے ۔ ایسے حالات میں ان کارجحان فطری طور پر ترقی پسندی کی طرف مائل ہوا اور انہوں نے عام انسان کے دکھ کو دل سے محسوس کیا ، جس کا اظہار تڑپ اُٹھتے ہیں۔۔
زندگی کے اندھیرے سمٹتے رہے تو مرے ساتھ راہوں پہ چلتا رہا
تتلیوں کے فسانے سلگتے رہے ، پھول کھلتے رہے ، وقت جلتا رہا
آؤ سارے زمانے کے غم بھول کر وقت ظالم سے ہم زندگی چھین لیں
پھول باتیں کریں ، چاند راتیں کیں ، تم سے ہر موڑ پر میں یہ کہتا رہا
زندگی کے اُجالے سمٹتے رہے لوگ فاقوں کی زد میں بلکتے رہے
کرب بڑھتا رہا ، جسم کٹتے رہے ، ذہن جلتے رہے ، خون بکتا رہا
ہم نے تفسیر انصاف بھی دیکھ لی
جب دوانے سردار لائے گئے ، ہام روشن ہوئے اور چلتا رہا
افتخار بیگ انسان کی بے تو قیری اور کسمپرسی کو شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ ایک ایسا انحطاط پذیر معاشرہ جہاں چند لوگ تو جام عیش نوش کر رہے ہیں اور زندگی سے مسرتیں نچوڑ رہے ہیں جب کہ عام آدمی اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے اپنا خون بیچنے پر مجبور ہے مگر غربت پیر تسمہ پا کی طرح ان سے چمٹ گئی ہے۔ وہ ایسے لوگوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ پروفیسرا کبر ساقی رقم طراز ہیں: جبر و تشدد، نا انصافی ظلم وستم اور انسانیت کی عدم تو قیری جیسے بے رحمانہ مناظر افتخار بیگ کو شدید انداز میں متاثر کرتے ہیں مگر وہ اس پر جبر ماحول میں خاموش تماشائی نہیں بنتے بلکہ صدائے اجتماع بلند کرتے ہیں۔ ظلم وستم کے خلاف سینہ سپر ہوتے ہیں ۔ منافقانہ رویوں کے رخ سیاہ سے پردہ کھینچ لیتے ہیں ۔(۲) افتخار بیگ نہ صرف مظلوم کے حق میں آواز حق بلند کرتے ہیں بلکہ استحصالی طبقے کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کرتے ہیں۔ ایسا ظالم طبقہ کہ جس نے غریب سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے اوران کی زندگیوں کو دکھ کا گہوارہ بنادیا ہے۔ اختار بی سمجھتے ہیں کہ ظالم کے خلاف آواز بلند نہ کرنا بذات خود ایک جرم ہے کیوں کہ اس لایعنی خاموشی سے ظالم کے حوصلوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس لیے وہ احتجاج کو اپنا حق بھی سمجھتے ہیں اور فرض بھی۔
کیوں شہر میں خوشیاں ہوئیں کم بات کرو جی
ہر سمت ہیں کیوں درد و الم بات کرو جی
جب تم نے اُگائے تھے تبسم کے اجالے
کیوں شہر میں خوشیاں ہوئیں کم بات کرو جی
لفظوں کے مفاہیم بدل دیتے ہیں لہجے
جذبوں کا تلاطم ہو تو کم بات کرو جی
میں وقت کا سقراط نہیں پھر بھی زمانہ
دیتا ہے مجھے ساغرِ سم بات کروجی
کیوں آج نگاہوں میں اتر آئی ہے دُوری
آئے ہیں بڑی دور سے ہم بات کرو جی (۳)
افتخار بیگ اردگرد پھیلی ظلمت و تاریکی کو اجالے میں بدلنے کے خواہش مند ہیں۔ وہ ظلم و جبر کے ریگ زاروں کو چمن زار میں میں تبدیل ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ معاشرے میں بکھری خوشیوں کی تبدر یج کمی پر شکوہ کناں میں ۔ ایسا معاشرہ جہاں لوگ ظلم تو سہتے ہیں مگر بغاوت نہیں کرتے۔ زندگی کے گوناگوں مسائل نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور ان کی زبان میں غربت وبھوک کے باعث اتنی لکنت ہے کہ وہ اپنے اوپر پیش آنے والی صورتحال کا اظہار تک کرنے پر قادر نہیں ۔ جب معاشرہ اس قدر زوال پذیر ہو کہ کسی سے انصاف کی توقع تک نہ ہو تو کوئی انصاف مانگے بھی تو کس سے؟ مگر افتخار بیگ ایسے مرد مجاہد میں کہ اپنی تمام تر توانائیاں مجمع کر کے صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔
ڈاکٹر مزمل حسین لکھتے ہیں: زندگی کیا ہے؟ اسے کیسا ہونا چاہیے؟ اور ہماری زندگیاں کیسی گزررہی ہیں؟ یہ سارے مباحث ایک علامتی اظہار میں افتخار بیگ کی شاعری کا موضوع بنے ہیں۔ انہوں نے لمحہ موجود اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والے مستقبل کی ساری المیاتی صورت کو اپنے پورے پس منظر اور پیش منظر کے ساتھ پیش کر دیا ہے۔ چنانچہ میرا یہ کہنا غلط نہیں کہ افتخار بیگ اپنے عہد کا معتبر تخلیق کار اور نباض ہے جس کے ہاں عصری شعور و آگہی اور زمانی وجدان کی سبھی کیفیات نظر آتی ہیں اور اس کے کرب کے آئینوں میں ہر شخص اپنا اور اپنے عہد کا چہرہ دیکھ سکتا ہے ۔ (۳) افتخار بیگ جب ایک انقلابی بن کر ظلم کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں تو ان کا لہجہ فیض اور جوش کی مانند انتہائی پر تا شیر اور رنگ ہوتا ہے۔ وہ اپنے پیش رو ترقی پسند شعراء کی طرح اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ جہاں حق اور انصاف کے حصول کی کوئی امید باقی نہ رہے تو اپنا حق حاصل کرنے کے لیے نہ صرف جدو جہد کرنی چاہیے بلکہ چھین لینا چاہیے۔ وہ حاکم وقت کو للکارتے ہیں۔ ان کے نزدیک ترقی و خوشحالی کے لیے تحرک ضروری ہے اور ان کی شاعری تحرک کا درس بھی دیتی ہے:
آؤ زنجیر اسی در کی ہلائیں یارو
حال دل اپنا مسیحا کو سنائیں یارو
آؤ انسان کی بکتی ہوئی نسلوں کے لیے
کچھ نئے رنگ نئے پھول اُگائیں یارو
پتیاں سرخ گلابوں سے مہک جائیں سبھی
شہر افلاس کو کرنوں سے سجائیں یارو
پھر سے گلشن میں کریں ذکر نہار و نغمہ
پھر کھنڈر سوچ کے ہم آؤ بسائیں یارو (0)
افتخار بیگ چوں کہ ترقی پسند شاعر ہیں اس لیے وہ بھی اپنے اشعار میں سرخ رنگ اور گلابوں کا ذکر کر کے اچھے دنوں کی نوید سناتے ہیں اور ساتھ ساتھ قربانی دینے کا درس بھی ان کے ہاں موجود ہے۔ ان کی شاعری میں غربت و افلاس کا نوحہ ہے اور اس میں اتنی شدت ہے کہ بسا اوقات ان کے لہجہ سے کڑواہٹ جھلکتی ہے۔ ان کے نزدیک غربت انسان کا سب سے بڑا دکھ ہے جو اکثر انسان کی زندگی کو بھی کھا جاتا ہے اور اس کے عشق کو بھی نگل لیتا ہے۔
رستے میں تو افلاس کی دیوار کھڑی ہے
پھر کیسے تجھے جان! میں فاقوں سے بچالوں
ہے عسرت و افلاس مری ذات کا حصہ
میں اجڑے لبادوں کو بھلا کیسے چھپا لوں(۲)
افتخار بیگ نے شاعری کے پیرائے میں انتہائی مہارت سے بھوک، افلاس کے نتیجہ میں جنم اپنے والی دگر گوں صورتحال کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ ان کا یہ بیانیہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں فکری اور جذبی اضطراب کا کیتھارس بھی ہے اور انسان کی بے بسیوں کا آفاقی نوحہ بھی۔ جمشید ساحل کے بقول:
زیر نظر شعری مجموعے میں جذبات و احساسات صفحہ قرطاس پر اس طرح طرح رقم کیے گئے ہیں کہ یہ شدید کرب اور برداشت کا کتھارس معلوم ہوتے ہیں ۔ (۷) افتخار بیگ غربت، افلاس کے خلاف نہ صرف احتجاج کرتے ہیں بلکہ انسانیت کو اس عذاب سے نجات دلانے کے لیے وہ ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ وہ اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ اگر آنے والی نسل کو خوشحال رکھنے کے لیے ایک نسل کو اپنی جان بھی قربان کرنا پڑے تو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔
کاش میرا لہو اس دور کو رفعت بخشے
کاش سبکتے ہوئے انسان نہ سکتے ہوئے (۸)
افتخار بیگ دیگر پیش رو ترقی پسند شعرا کی طرح اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ غربت ، افلاس، جبر اور ذلت کا سب سے بڑا سبب کسی بھی معاشرہ کی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے اور سرمایہ دارانہ نظام بھی ۔ وہ اس نظام کو بھی کڑی تنقید کا نشان بناتے ہیں۔
فقیہہ شہر کا ایوان اتنا روشن تھا
وہ ظلمتوں میں بسا میرا گھر دیکھ نہ سکا (9)
افتخار بیگ نے ہمارے معاشرے میں پھیلی خباثتوں اور مسائل کی اس قدر واضح تصور کشی کی ہے کہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اشرف سلیم اس بات کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں: افتخار بیگ کی شاعری ہمارے عہد کے سلگتے ہوئے الاؤ کا دھواں ہے۔ اس میں روشنی بھی ہے مگر اس نے ہماری آنکھوں کو نم ناک کر دیا ہے یہ آنسو بھرے لمحے ہر بچے شاعر کی عطا ہوتے ہیں ۔ (۱۰) افتخار بیگ جہاں عدم استحکام، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ، انسان کی بے توقیری کے لیے صاحب اقتدار طبقہ کو قصور وار سمجھتے ہیں، وہیں اس احتجاج کا رخ تقدیر ، فطرت اور قدرت کی طرف بھی مڑ جاتا ہے اور وہ شاید روایت کے طور پر مقدر کے خلاف یوں شکوہ کناں ہوتے ہیں:
نیلے افلاک کے پُر نور سمندر سے کبھی
کوئی آواز سماعت کی خوشی پا نہ سکی (1)
افتخار بیگ نے جدید شعرا کی تبع کرتے ہوئے استحصال نظام کے خلاف آواز بلند کی ہے وہ طبقاتی نظام کا ذمہ دار فلسفہ تقدیر کو ٹہراتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ استحصالی طبقات اور مذہبی اجارہ داروں کا گٹھ جوڑ عام آدمی کی محرومی اور مجبوری کو مقدر اور نصیب کے ساتھ جوڑ دیا کرتا ہے:
جہاں تاریکیاں قسمت کا چکر
وہاں کوئی دیا کیسے جلے گا
جہاں فاقے ملے تحفے میں ہم کو
وہاں پر بچپنا کیسے رہے گا (۱۳)
آسمان ، قسمت اور فطرت کو دگرگوں حالات کا باعث سمجھنا اردو شاعری کی روایت رہی ہے بسا اوقات جب افتخار بیگ معاشرے کو انتہائی انحطاط اور زوال کا شکار ہوتا دیکھتے ہیں تو ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے اور وہ اس دنیا کے خالق سے شکوہ کرتے ہیں:
اس کو عظمت کے تفاخر سے کہاں فرصت ہے
کون افلاک سے افلاس کو جھک کر دیکھے (۱۳)
خرابی نظام میں ہو یا کہ انسان اور مقدر میں ، افتخار بیگ انسان کو دکھی اور رنجیدہ دیکھ کر نہ صرف غمزدہ ہوتے ہیں بلکہ والہانہ اظہار پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان کی حساس طبیعت اس غم کو برداشت نہیں کر سکتی اور وہ اس غم کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ احمد اعجاز ان کی فکری عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
افتخار بیگ ایک بڑا انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑا شاعر بھی ہے۔ عہدِ حاضر کا یہ حساس شاعر زندگی کا گہرا شعور رکھتا ہے اور یہی بڑے تخلیق کار کی علامت ہے۔ کھلی آنکھوں سے جینے والا افتخار بیگ جب انسانیت کو سکتا ہو د یکھتا ہے تو وہ ٹوٹ جاتا ہے بکھر جاتا ہے ۔(۳) افتخار بیگ ایک ذی شعور انسان ہیں اور معاشرے کے ابتذال کو مشکلات سے محسوس کرتے ہیں۔ گو کہ وہ اپنے قارئین کو بگڑتے ہوئے حالات سے آگاہ بھی کرتے ہیں اور خود بھی حالات کی بہتری کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں لیکن کبھی بھی وہ مایوں کا شکار بھی ہو جاتے ہیں اور خرابی حالات پر شکوہ کناں ہوتے ہیں کہ ان جیسے لوگوں نے نسل در نسل قربانیاں دے کر وطن کو خوشیوں کا گہوارہ بنانے کے خواب دیکھے مگر پھر بھی حالات روشنی اور امید کی طرف جانے کی بجائے خراب تر ہورہے ہیں:
ہر گلی مدفن ہے گر ہم کیا کریں
بھوک ٹھہری معتبر ہم کیا کریں
اک طرف ساری صباحت تربی
اک طرف اجڑے نگر ہم کیا کریں
ہم تو اپنا خونِ دل بھی دے چکے
گل نہیں گلشن میں گر ہم کیا کریں (۱۵)
افتخار بیگ وطن میں گل و گلزار دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے خونِ دل سے لالہ وگل کو سینچنے کے خواہش مند ہیں۔ ان کے سینے میں ایک ایسا دل دھڑکتا ہے جو دوسرے کو زندگی عطا کرنے کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ قربان کرنے کو تیار ہے۔ وہ ایک ایسے انسان ہیں جو چمن کے پھولوں کو اپنے خون سے رنگ بخشتے ہیں۔ ایسے میں وہ وجودیاتی سطح پر بیگانگی اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ وطن عزیز کی تاریخ ہی کچھ ایسی ہے۔ یہاں برسوں سے عام آدمی قربانیاں دے رہا ہے مگر اس کی زندگی میں محرومیوں کے الاؤ موجود ہیں، جس ملک میں عام آدمی سکون ، شانتی کا متلاشی ہے ۔ وہاں سوائے دُکھوں کے اور کچھ نہیں ۔ اشرف سلیم لکھتے ہیں: گلوں کی نزاکت اور بانکمپین کی سلامتی کی دعا مانگتے ہوئے اس کے لہجے میں سارے زمانے کا دکھ سمٹ آیا ہے اور اس کے لفظوں کی زبان غم کے ذائقے جاگ اٹھے ہیں۔ بدلتی ہوئی رتوں اور آنکھیں پھیرتی ہوئی ہواؤں کے لمس نے اسے دکھی کر دیا ہے۔ میرے نزدیک اس کی ساری شاعری اسی غمزدہ روئیے کی بازگشت ہے جس میں کہیں کہیں ایک سچا شاعر اپنی بازگشت کرتا بھی نظر آتا ہے ۔ (۱) افتخار بیگ ایک باغبان ہیں جو گلستان میں کھلے پھولوں سے اس قدر ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں کہ پھول کی ہر ہر پتی کو اپنی جان سے عزیز جانتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر چمن سلامت ہوگا تو اگلی بہاروں میں پھول بھی کھلیں گے اور ایسی خوشبو پھیلے گی کہ اردگرد کی فضا معطر ہو جائے گی۔ اس لیے وہ فرط جذبات میں چمن کی سلامتی کے لیے دعا گو ہیں: ی فضا وہ دعا اپنا منشور ہے ہر سمت کھلیں سر وسمن یہ بھی نعرہ ہے کہ تابندہ رہے اپنا وطن
اپنا منشور ہے انصاف کا روشن دن بھی
اور نعرہ ہے چلو سوئے چمن سوئے چمن (۱۷)
افتخار بیگ ایک انسان دوست شاعر ہیں۔ ان کا دل اپنے وطن کے لیے دھڑکتا ہے کیوں کہ وہ ایک اچھے انسان کے ساتھ وطن پرست بھی ہیں۔ وہ وطن کی سلامتی کے لیے دعا گو ہیں کیوں کہان کی نگاہ وطن کو در پیش مسائل کو جوبی دیکھ سکتی ہے۔و کبھی کبھی حالات کی سنگینی سے گھبرا کر ماضی پرتی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر مزمل حسین رقم طراز ہیں: در اصل افتخار بیگ ان خوابوں کا متلاشی ہے جو کہیں کھو گئے ہیں اور اب اس کے لاشعور کا حصہ ہیں۔ وہ ان خوابوں کو یاد کرتا ہے جن میں اس کے روشن مستقبل کی نوید تھی ۔ جن میں انسانی قدریں اپنے پورے جاہ وجلال سے تابندہ تھیں ۔ (۱۸)
افتخار بیگ ایک خوبصورت مستقبل کے لیے پرامید ہیں مگر ہواؤں کے بدلتے رُخ سے بے خبر بھی نہیں۔ وہ ان نادیدہ سازشوں سے باخبر ہیں جو وطن کے خلاف کی جارہی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وطن دشمن عناصر عوام کے لیے کیسے پر فریب جال بن رہے ہیں اور عوام کے حقوق کو غصب کرنے کے لیے کتنے سر گرم عمل ہیں۔ ایسے پُر خطر حالات میں بے اختیار ان کے دل سے دُعا نکلتی ہے:
ہواؤں نے چکن بدلے ہیں اب کے
گلوں کے بانکپن کی خیر یارب! (19)
افتخار بیگ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں ایک خاص طبقہ ہر وقت ملک و وطن کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے در پے ہے۔ وہ ایک ایسے عہد میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں اپنے مفادات کے لیے انسان دوسرے کا خون کرنے کو تیار ہے۔ وہ اپنے دردمند انسان ہونے کے ناطے ابتری سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ احمد اعجاز کچھ یوں لکھتے ہیں: افتخار بیگ کی شاعری میں دردمندی کا عنصر بہت نمایاں ہے۔ ان کی دردمندی تک پہنچنے کے لیے ان کے ذاتی رجحانات تک پہنچنا ضروری ہے۔ افتخار بیگ جس عہد میں سانس لے رہے ہیں وہ شدید ابتری کا عہد ہے۔ زندگی کی اقدار پامال ہو چکی ہیں۔ انسانی خون ارزاں ہو چکا ہے۔ ایسے میں ایک حساس اور باشعور انسان کیسے متاثر ہوئے بغیر رہ سکتا ہے؟ (۲۰) افتخار بیگ ایک سچا اور کھر افکار ہے ان کے دل پر جو کیفیت طاری ہوتی ہے اور معاشرے میں جو کچھ وقوع پذیر ہو رہا ہے وہ بلا کم و کاست اپنی شاعری میں اس کا اظہار کرتے ہیں اور ایسے میں وہ کسی خوف ، جھجک یا تذبذب کا شکار نہیں ہوتے۔ اشرف سلیم ان کی سچائی کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں: افتخار بیگ کی شاعری کا اہم عصر عصری آگہی ہے۔ اسے اپنے کرب کو اپنے دورکا نمائندہ بنا دینے کافن آتا ہے اور اس سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ اپنے اردگرد کے مناظر کی کچی عکاسی کرتے ہوئے بے ریا تخلیقی کاوشوں اور بے لوث فنی صلاحیتوں کی مدد سے اپنے زمانے کو زبان دیتا ہے۔ افتخار بیگ نے زندگی کی اقدار کی شکست وریخت کو شدت سے محسوس کیا ہے۔ زندگی جس میں محبت ، خلوص، امن، سکون، خوشحالی ، ایثار اور وفا کے جذبوں سے معمور تھی ،مگر وقت بدلنے کے ساتھ معاشی مسائل نے ان تمام اقدارکو تلپٹ کر دیا اور جب معاشرہ ان کچی اقدار سے خالی ہوتا ہے تو ایک سچا اورکھر ان کا ٹمگین ہو جاتا ہے۔ افتخار بیگ کی شاعری میں مرگ اقدار کا نوحہ موجود ہے۔ ڈاکٹر مزمل حسین رقم طراز ہیں: افتخار بیگ کی ساری شاعری معاشرتی، سیاسی، تہذیبی اور اخلاقی شکست تقسیم ہند کے نتیجہ میں پاکستان وجود میں آیا جس سے اس خطہ میں ایک نئی صورتِ حال نے جنم لیا، جس کو ہر باشعور ادیب نے اپنے فن پارے میں بھر پور انداز میں پیش کیا۔ مابعد سامراج پر پوری دنیا کے ادیبوں نے لکھا اور ٹی صورت حال کا خوبصورتی سے نقشہ کھینچا۔ پاکستان کے ادباء نے بھی اپنی اپنی استعداد کے مطابق تبدیل ہوتی صورتِ حال کے مرقعے پیش کیے۔ افتخار بیگ نے اپنی شاعری میں پاکستان میں لمحہ بہلہ ہداتی صورت حال کو نہایت چابک دستی سے پیش کیا۔ ان کا رہا ہواشعر اقدار کی تبدیلی کونہایت باریک بینی سےمحسوس کرتا ہے اور وہ نہایت چابک دستی سے اسے اپنے اشعار میں بیان کرتے ہیں ۔ مرزا مبشر بیگ لکھتے ہیں: ان کی شاعری میں پاکستانی سماج میں انسان کی بے وقتی اور انسانی اقدار کی ناقدری کا شدید احساس موجود ہے۔ افتخار بیگ نے فنکارانہ انداز میں معاشرتی ، سیاسی ، سماجی مسائل کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ وہ غربت، بے روزگاری، عدم استحکام، انسانی ہے تو قیری، استحصال اور ان جیسے دیگر مسائل کو بہترین انداز میں پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے چابک دستی سے معاشرے کو در پیش تمام تر مسائل کو خوبصورت الفاظ کے پیکر میں اپنے قاری تک پہنچا کر اپنا فرض بھی ادا کیا ہے اور اس بات کا دھیان بھی رکھا ہے کہ ان کا قاری مسائل سے باخبر بھی ہو اور بے مزہ بھی نہ ہو۔ افتخار بیگ سماجی اقدار کی تنزلی پر جس گہرے کرب سے گزرے ہیں اس کو ایک سچا اور کھر افنکار ہونے کے ناطے اظہار کی راہ بھی دی ہے۔ ان کی دور بین نگاہ سے کوئی بھی سماجی اور معاشرتی مسئلہ بیچ نہیں سکا اور انہوں نے بھی ایک بچے فنکار ہونے کے ناطے ہر سازش کی بومحسوس کر کے اپنے قاری کو اس سے آگاہ کیا ہے۔ ان کی شاعری میں پاکستانی سماج اپنی تمام تر سچائیوں کے ساتھ بے نقاب ہوا ہے۔