یہ یونیورسل سچ ہے کہ دنیا میں والدین ، استاد اور کتاب کا کوئی نعم البدل نہیں ۔ اگر کوئی بچہ والدین اور اُستاد کے سایہ ہمسایوں میں پرورش پاتا ہے اور کتاب کو اپنے سینے سے لگاتا ہے تو وہی انسانی سماج میں اپنا لا فانی کردار ادا کرتا ہے۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر مزمل حسین خوش نصیب ہیں کہ ان کو ایمان دار، دیانتدار اور نیک اطوار والدین ملے ، پھر پروفیسر نواز صدیقی جیسا کامل اُستاد بھی ۔ فلسفہ وجودیت میں پتھر وجود تو رکھتا ہے مگر جامد ہوتا ہے، اگر اُسی پتھر کو کیمیائی مراحل سے گزارا جائے تو وہ گوہر نایاب کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔ اگر چہ مزمل حسین نے 25 جنوری 1962ء کو ملک محمد یار کے گھر آنکھ کھولی ، ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1978ء میں ایم سی ہائی سکول لیہ سے میٹرک کیا ، پھر کمرشل کالج لیہ سے ڈی، کام کیا۔ ابتر معاشی حالات کی وجہ سے اُن کو تعلیم چھوڑ کر شوگر ملز لیہ میں ملازمت کرنا پڑی، اس کے علاوہ جونیئر کلرک کے طور پر بھی کام کرتے رہے ۔ اس دوران قسمت کی دیوی اُن پر ایسی مہربان ہوئی کہ انہیں اہل علم کی صحبت میسر آئی ۔ اس حوالے سے پروفیسر نواز صدیقی نے اپنی کتاب وکھرے پیتر پنجاب دے“ میں لکھا ہے کہ پروفیسر سعید احمد ایک دن بھولی بھالی صورت رکھنے والے اور غم حالات کے مارے مزمل حسین کو میرے پاس لے کر آئے اور کہا کہ اس بے چارے کو سنبھالو، تو میں نے یہ فریضہ خوشی سے قبول کر لیا۔ پھر مزمل حسین نے پروفیسر نو از صدیقی کی رہنمائی میں نہ صرف بی۔ اے کیا بلکہ ایم ۔ اے اُردو مانجاب یونیورسٹی اور فنکل کالج لاہور سے کیا ۔ پبلک سروس کا امتحان دیا تو کامیاب ہو کر اُردو کے لیکچرار ہو گئے ۔ پھر 1996ء میں ڈاکٹر خیال امروہوی کی نگرانی میں غافل کرنالی پرایم فل علامہ اقبال اوپن یونیورٹی اسلام آباد سے کیا۔
مزمل حسین نے مرد آہن بن کر تعلیمی سلسلے کو بڑھانے کے لئے اُردو میں علم بیاں اور علم بدیع کے مباحث کے حوالے سے 2007ء کو پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پی ۔ ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ گورنمنٹ کالج لیہ میں پڑھاتے رہے ۔ گورنمنٹ کالج کوٹ سلطان کے پرنسپل بھی رہے۔ اس وقت غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان میں اُردو ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ہیں اور گورمنٹ کالج لیہ کے پرنسپل کا اضافی چارج بھی ہے۔ موصوف لیہ کے روشن فکر دانشور ہی نہیں بلکہ تحقیق و تنقید میں نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔ کئی درجن اُردو ، سرائیکی شعراء کی کتابوں کے دیباچے تحریر کر چکے ہیں ۔ اُردو، سرائیکی کالم روزنامہ ”خبریں“ میں چھپتے رہے ہیں۔ اس وقت ایہ ادبی فورم کے بانی اور سر پرست بھی ہیں ۔ اس ادبی فورم کے تحت مشاعرے بھی کراتے رہتے ہیں۔ علمی ادبی خدمات کے حوالے سے خواجہ فرید ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں۔ اس وقت اُن کی درج ذیل اُردو، سرائیکی کتاب شائع ہو چکی ہیں۔
(1) نئے زاویے 2000ء ، اس سے پہلے کرشن چندر نے نئے زاویے کے نام سے کتاب مرتب کی تھی جس کی دو جلدیں ہیں جس میں ترقی پسند ادباء کے مضامین شامل ہوئے تھے ۔
(2) دست وگریباں (مرتب) 2000ء
(3) سرائیکی کلچر مرتب 2001ء
(4) لطافتِ اسلوب ( تحقیق و تنقید ) 2007 ء
(5) بلاغت دافن تے سرائیکی شاعری ( تحقیق و تنقید ) 2007 ء
(6) نگارشات (مضامین)2009ء
(7)حدائق البلاغت ( ترتیب و تہذیب مع مقدمہ 2010ء )
(8) ادبی مطالعات 2010ء
(9) اُردو میں علم بیان اور علم بدیع کے مباحث (پی ۔ ایچ ۔ ڈی کا
مقالہ 2010ء
(10) تھل دالوک ادب (تحقیق) 2007 ء
(11) فکر بلیغ ترتیب و تہذیب مع مقدمه 2012 ء
(12) علامہ اقبال اور لیہ 2014 ء
(13) متاع دست گرداں ( ترتیب و تہذیب مع مقدمہ ) 2015 ء
(14) نشریات ( تحقیق و تنقید 2015 ء
(15) ادبی جہات 2017ء
کیونکہ خاکسار سرائیکی ادباء وشعراء پر کام کر رہا ہے ۔ اس لئے ڈاکٹر منزل حسین کی تین سرائیکی کتب تقل دالوک ادب ، بلاغت دافن تے سرائیکی شاعری اور پڑچھیاں اُتے پھل کا تجزیاتی مطالعہ کرنے کی جسارت کرتا ہے۔
بلاغت دافن تے سرائیکی شاعری:
ایک طالب علم کی حیثیت سے ڈاکٹر مزمل حسین کی اس کتاب کا تجزیاتی مطالعہ کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر گیان چند نے اپنی کتاب تحقیق کا فن میں جو محقق کے اوصاف بیان کئے ہیں ۔ وہ سب ڈاکٹر مزمل حسین میں بدرجہ اتم موجود ہیں ، یعنی موصوف با اخلاق ہی نہیں بلکہ حق گو بھی ہیں اُن میں عرق ریزی سے کام کرنے کا جذبہ اور ولولہ بھی ہے ۔ اُن کے مزاج میں تکبر کی بجائے انکساری ہے ۔ وہ بچے کھرے انسان ہی نہیں بلکہ اخلاق ، جرات کے پیکر بھی ہیں ۔ ڈاکٹر مزمل حسین سماجی شعور رکھنے والے محقق ہیں ۔ اُن کی یہ کتاب سرائیکی تحقیقی کتب میں منفرد اور نمایاں حیثیت کی حامل ہے ۔ موصوف نے اپنی اس تحقیقی کتاب سے سرائیکی ادب کے دامن کو مالا مال کیا ہے کیونکہ اس سے پہلے ایسی مستند اور جامع کتاب میری نظر سے نہیں گزری۔ یہ کتاب ڈاکٹر مزمل حسین کو ایسے لافانی بنا دے گی جس طرح ہومر کی الیڈ اور اوڈیسی ، مکالمات افلاطون ، ارسطو کی بوطیقا، دانتے کی ڈیوائن کو میڈی ، عربی ادب میں امرالقیس رومی کی مثنوی معنوی، شیخ سعدی کی گلستان ، بوستان ، شیکسپیئر کے ڈرامے ، نیٹشے کا فوق البشر ہملٹن کی پیرا ڈائیز لاسٹ، گوئٹے کی فاوسٹ میکسم گور کا ناول ماں، مارکس کی داس کیپیٹل ، اُردو میں دیوانِ غالب ، سندھی شاعری میں شاہ عبداللطیف بھٹائی، پشتو میں رحمان بابا ، ڈاکٹر خیال امروہوی کا پی ۔ ایچ ڈی کا مقالہ ، عقاید مزدک ، سرائیکی میں دیوان خواجہ فرید اور موجودہ عہد میں امریکی دانشور اور بے باک صحافی ناؤم چومسکی کی کتاب ورلڈ آرڈر کی حقیقت۔ ڈاکٹر مزمل حسین کی یہ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے ۔ پہلے باب میں بلاغت کی اُردو لغت ، نوراللغات ، اور فیروز اللغات کی روشنی میں تعریف کر کے ایک قابل اُستاد کی طرح قاری کے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ڈاکٹر مزمل حسین نے دیانت داری اور عرق ریزی سے بلاغت کو نہ صرف تاریخی تناظر میں دیکھا ہے بلکہ قرآن مجید کو فصاحت و بلاغت کی اساس قرار دیا ہے جو تشبیہات ، استعارات اور علامات کا حسین مرقع ہے۔ جس سے اقوام عالم کو رہنمائی اور دوام میلا ہے، اس حوالے سے موصوف نے پروفیسر حکیم علی احد عباسی کی گراں قدر رائے بھی نقل کی ہے ۔ ” قرانی اسلوب وی بک معجزہ ہے ۔ دنیاوی کیس دی زبان دے ادب دی کوئی صنف قرانی اسلوب دا مقابلہ فی کر سکدی۔ علم بدیع کے حوالے سے، عابد علی عابد، سجاد مرزا بیگ، مرزا محمدعسکری، مولانا اصغر علی روحی ، شمس الدین فقیر اور منصف علی خاں سحاب کی گراں قدر آرا بھی دی گئی ہیں اور شعری حوالے سے بھی ۔ عربی زبان میں نہ صرف نئی مباحث کا آغاز ہوا بلکہ منزل حسین نے ایچ۔ اے، آرگب کی کتاب مقدمہ تاریخ ادبیات عربی سے ایک پیرا بھی نقل کیا ہے۔
عربی زبان میں علم بلاغت کے چار ادوار کا ذکر بھی شامل کتاب ہے۔
(1) اصول تنقید کا خصوصی مطالعہ
(2) اُصول تنقید کا عمومی مطالعہ
(3) علم تنقید پر فلسفیانہ بحث اور علم بلاغت کی ترتیب و تنظیم
(4) علم بلاغت کی تدوین کا دور آخر
جنہیں مباحث کا سنہری دور کہا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر مزمل حسین نے الاموی، الجاحظ ، القاضی الجرجانی ، ابن قتیبہ جیسے ماہر ین بلاغت کی کاوشوں کو نہ صرف سراہا ہے بلکہ اُن کی کتب کے حوالے بھی دیئے ہیں۔ موصوف نے عباس خلیفہ ابن المعتز کی کتاب البدیع کا خاص طور پر ذکر کیا ہے جس میں علم بدیع پر مفصل بحث سامنے آئی ہے۔ ارسطو کی بوطیقا کا متی بون یونس کا عربی ترجمہ ہویا دانتے ، انھوں نے بھی علم بدیع کو وسعت دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ڈاکٹر مزمل حسین نے تیسرے دور کے عبدالقاہر جرجانی کی کتاب اسر البلاغة اور چوتھے دور کے ابو یعقوب یوسف السکا کی کی کتاب مفتاح العلوم کے تناظر میں صراحت سے روشنی ڈالی ہے۔
اس کے بعد عہد ساسانی میں عربی شاعری کی تقلید میں فارسی شاعری کا آغاز ہوا، عہد غزنوی بھی فارسی ادب کا سنہری دور ہے ۔ فارسی فنونِ ادب ہو یا اُردو، ان میں نابغہ روزگار ہستیاں پیدا ہوئیں ۔ جنہوں نے علم بدیع کے حوالے سے اپنے انمٹ نقوش چھوڑے۔ میں یہاں کس کس شاعر اور کس کس ماہرین بلاغت کی کتابوں کا ذکر کروں ۔ ڈاکٹر مزمل حسین نے اپنی اس تحقیقی کتاب میں جامع انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ یہ کتاب بار بار پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
دوسرے باب میں صنائع لفظی اور تیسرے باب میں صنایع معنوی کی نہ صرف تعریف کی گئی ہے بلکہ ستر کے قریب صنعتوں کے تناظر میں سرائیکی شعراء کے اشعار بھی دیئے گئے ہیں ۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر مزمل حسین کی یہ کتاب سرائیکی تحقیق میں نا در ارمغاں سے کم نہیں ۔ ڈاکٹر ممتاز کلیانی جو سرائیکی ریسرچ سنٹر بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے ڈائر یکٹر ہیں میری اُن سے گزارش ہے کہ اس کتاب کو ایم ۔ اے سرائیکی کے نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ طلباء کو استفادے کا موقع ملے اور نئی نسل کے سرائیکی شعراء کو خاص طور پر اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہئے تا کہ اُن کی شاعری معائب کی بجائے محاسن سے مالا مال ہو۔ یہ کتاب معلومات کا خزینہ ہی نہیں بلکہ بصیرت افروز بھی ہے۔
پڑچھیاں اُتے پھل :
رفعت عباس سرائیکی کے جدید غزل گو شعراء میں منفرد اور نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اُن کا یہ شعری مجموعہ 1984ء میں چھپا تھا جسے ادبی اور عوامی حلقوں سے بے حد پذیرائی ملی تھی۔ ڈاکٹر مزمل حسین کو رفعت عباس کی شاعری ایسے دل کونگی کہ موصوف نے اپنے گراں قدر مقدمے کے ساتھ 2017ء میں دوبارہ چھاپا۔
ڈاکٹر ممتازاحمد خاں نے اپنے دیباچے میں سرائیکی ادب کے جدید تقا د اسلم رسو پوری کے حوالے سے یوں لکھا ہے کہ کہیں کتاب دا کمپلینٹ اونداد یا چہ ہوندے کیوں جو او یک لفظ وانگوں ہوندے ، ابتے کتاب اوندے معانی وانگوں“ ڈاکٹر مزمل حسین رفعت عباس کے بحر افکار کے ایسے خواص ہیں کہ عمیق گہرائی میں موتی چن کر ہم سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ خاکسار نے موصوف کا مقدمہ بار بار اس لئے پڑھا ہے کہ شاعر کے رفعت تحلیل تک رسائی حاصل کر کے بصیرت پاسکے۔ ڈاکٹر مزمل حسین نے کمال ہنر سے شاعر کے ہمہ پہلوؤں کو اُجا گر کر کے روشن فکر نقاد ہونے کا حق ادا کر دیا ہے ۔ سرائیکی وسیب کے عوام صدیوں سے محزوم تمدن میں کراہ رہے ہیں ۔ وہ ایسے مسیحا کی شدت سے اپنی آنکھیں بچھائے راہ تک رہے ہیں، جو آکر اُن کے زخموں پر مرہم لگائے ۔ اُن غم زدوں میں خوشیاں بانٹے ، اُنھیں نئے عزم سے جینے کا حوصلہ دے، استحصالی طبقوں کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرنے کی جرات دے، اپنی تہذیب و ثقافت کا محافظ بنائے۔
ڈاکٹر منزل حسین نے رفعت عباس کی شکل میں مسیحا دے کر اپنے وسیب کی مٹی کا قرض چکا دیا ہے، لیکن موصوف نے اکثر سرائیکی شعراء کو اُردو زدہ بھی کہا ہے کیوں کہ وہ اپنی مادری زبان کے الفاظ استعمال کرنے کی بجائے اُردو کو ترجیح دیتے ہیں ، خاکسار کو ڈاکٹر صاحب سے اختلاف ہے۔ اس حقیقت کو بھلا کون جھٹلا سکتا ہے کہ سرائیکی زبان کی فصاحت و بلاغت بے مثل ہی نہیں بلکہ اِس کا دامن اتنا کشادہ ہے کہ دوسری زبانوں کے الفاظ اپنے اندر سمو سکتی ہے۔ ویسے موصوف نے بھی اپنے مقدمے میں انگریزی اور اُردو کے الفاظ کا جابجا استعمال کیا ہے ۔ میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب نے بہت اچھا کیا ہے۔ اُن میں خوبی یہ ہے کہ اُنھوں نے الفاظ ایسے قرینے سے استعمال کئے ہیں کہ ثقالت در نہیں آتی۔ دیسے رفعت عباس جیسے شاعر نے بھی اپنی غزلوں میں دوسری زبانوں کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ مثلاً کاٹھ ہندی اور دلاور فارسی کا لفظ ہے ۔ یکھی سنسکرتی لفظ پکشی کی بگڑی شکل ہے، ہندی میں پکھیرو ہے، کچاوے فارسی لفظ کجاوے کی بگڑی شکل ہے۔ جھمر ہندی لفظ جھومر اور جھا گھر ہندی لفظ جھانجن کی بگڑی شکلیں ہیں۔ پاسا ہندی الغورزے عربی لفظ ہے۔ اور شالا سنسکرتی لفظ ہے ۔ اسی طرح بارش ، خوشبو اور مشکی فارسی الفاظ ہیں ، اور جہاں تک اُن کی غزل کا تعلق ہے تو اُس میں جدت بھی ہے اور ندرت بھی، اُن کا غم ہجر ذاتی بھی ہے اور کائناتی بھی ، کائناتی اس لئے کہ انسان دشمن قوتوں نے نسلی، لسانی اور مذہبی نفرت کی دیوار میں حائل کر کے انسان کو انساں سے عبدا کر دیا ہے ۔ اس تناظر میں مجھے انگریزی شاعر رابرٹ فراسٹ کی نظم (Manding wall) یاد آ رہی ہے، جس میں اُس نے بڑے پتے کی بات کی ہے کہ فطرت تو دیوار میں گراتی ہے اور انسان شب و روز اُسارتا ہے۔
کیونکه فع رفعت عباس در دانسانیت رکھنے والا تخلیق کار ہے، اُن کا مطالعہ ذات وسیع اور مشاہدہ کائنات عمیق ہے ۔ اُن کی غزل میں سلگتے ارمان بھی ہیں اور مسائل حیات کا نوحہ بھی ، صداقت فکر بھی ہے اور انقلاب آفریں پیغام بھی فنی فکری پختگی بھی ہے اور نئے نئے استعارت ، تشبیہات اور علامات کا خوب صورت استعمال بھی حسنِ بیاں بھی ہے اور لہجے کی حلاوت بھی۔ مختصر یہ کہ پڑچھیاں اُتے پھل کی غزلوں میں روایتی کے بجائے اچھوتا پن ایسا کہ حیران کن ہے، کیوں کہ فلسفہ کی رو سے حیرانی سے ہی صداقتوں کی گرہیں کھلتی ہیں ۔ اس لئے شاعر کا ہر ایک شعر قاری کو فکری گہرائی میں اُترنے کی ترغیب دیتا ہے تا کہ وسیب کے اس انمول ہیرے سے آنے والی نسلیں ضیا پاتی رہیں۔
تھل دالوک ادب:
ڈاکٹر مزمل حسین کی تیسری کتاب "نقل کا لوک ادب“ ہے، لیکن یہ بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ موصوف کو تھل کی تہذیب و ثقافت کا پراجیکٹ سرائیکی ریسرچ سنٹر بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان نے دیا تھا جس کا دیانت داری اور عرق
ریزی سے حق بھی خوب ادا کیا گیا ہے۔ یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے ۔ جس میں ڈاکٹر علمدار حسین بخاری ، ڈاکٹر حمید اُلفت ملغانی بنیم اختر اور تنویر شاہد محمد زئی کی گراں قدر آراء نے اس تحقیقی کاوش کو مزید اعتبار بخشا ہے۔ پہلے باب میں ڈاکٹر مزمل حسین نے تحقیقی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے عرق ریزی سے تھل کی نہ صرف تعریف کی ہے بلکہ تاریخی پس منظر میں دیکھتے ہوئے مختلف کتب اور شعری حوالے بھی دیئے ہیں۔ ڈاکٹر مہر عبدالحق اور پروفیسر اکرم میرانی کی آراء بھی شامل کتاب ہیں ۔ جن سے تھل کی تاریخ ، تہذیب و ثقافت ، زبان اور لوک ادب کا نہ صرف احاطہ کرتی ہے بلکہ معاشرتی رویوں کا انداز بھی ہوتا ہے ۔ موصوف نے تحقیقی مقالے کی اہمیت مزید اجاگر کرنے کے لئے ڈاکٹر مبارک جیسے بچے ، کھرے تاریخ داں کا پیرا بھی نقل کیا ہے جو تھل کے تاریخی حقائق کا آئینہ دار ہے۔ ڈاکٹر مزمل حسین نے واضح کیا ہے کہ تھل کے مکینوں کی زندگیاں فطرت کے قریب تر ہیں لیکن جہالت کی وجہ سے ضعف الاعتقادی ، اوہام و خرافات ، تصوف پسندی، پیر پرستی اور قبر پرستی اُن کے خون میں شامل ہیں ۔ اُن کی غلہ بانی کا مفت کاری مہمان نوازی عشق و محبت اور موسیقی کا ذکر بھی تفصیل سے کیا ہے۔ لیکن میرے خیال میں تمدنی رسومات ، ہندوانہ ہیں ۔ مثال کے طور پر بیساکھی میلہ، دیوالی اور شادی بیاہ کی رسمیں وغیرہ وغیرہ۔ موجودہ عہد میں کم تو ہوئی ہیں لیکن ختم نہیں ۔ دوسرے باب میں مزمل حسین نے لوک ادب کی تعریف اور اُس کی خوبیوں کا ذکر کیا ہے، کیونکہ گیتوں میں اپنے وسیب کی مٹی ، تہذیب ثقافت سے نہ صرف محبت نظر آتی ہے بلکہ اُن کے اندر ایسا سوز وگداز ہوتا ہے جو ہر ایک دل میں اتر کر سحر طاری کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے نسیم اختر کا یہ پیرا بھی شامل کیا ہے جس میں گیتوں کی اہمیت مزید اجاگر ہوتی ہے ۔ لوک گیت اور لوک دھنیں عوام کے فطری جذبوں کا بے ساختہ اظہار ہوتی ہیں ، نہ تو لوک گیت فن شعر کے تابع ہوتے ہیں اور نہ لوک دھنیں موسیقی کی پابند ہوتی ہیں ۔ بہر حال ڈاکٹر مزمل حسین کا لوک ادب پر تحقیقی کام قابل صد تحسین ہے۔ تیسرے باب میں تھلوچی لوک گیتوں کا تفصیلی ذکر ہے ۔ جن میں خاص طور پر ماہیا، ڈھولا ، ہے ، چھکے دے گیت ، مندری داگیت، بگڑ و، گھڑا، کھوہ ، فصلاں دے گیت ، پیلھوں دے گیت ہمی (سمی راول جو لوک ادب کی عشقیہ داستان ہے سُنا ہے کہ اس کا تعلق تو نسہ شریف کے کسی علاقے سے ہے۔
اس طرح گنڈی گڑے دے گیت، خانقاہیں تے مزاراں دے نال جڑے گیت کو ٹھے دے گیت ، اُٹھاں دے گیت ، چر کھے دے گیت ، لولی بھیڑ دے گیت اور سہرا وغیرہ کی تفصیل کے ساتھ وضاحتیں اور شعری نمونے شامل کئے گئے ہیں جو دلچسپ ہی نہیں بلکہ دلوں کے تاروں کو چھیٹر تے بھی ہیں۔ چوتھا باب تھلوچی لوک کہانیوں پر مبنی ہے جن میں روایتی پن اور عشق و محبت کو زیادہ دخل ہے ۔ ڈاکٹر مزمل حسین تھل دا لوک ادب کی تلاش میں کسی حد تک کامیاب تو ہوئے ہیں لیکن موصوف کا روشن فکر دانش ور ہونے کے ناطے یہ فرض بنتا تھا کہ وہ پھل کے مکینوں کا فکری، سیاسی ،سماجی اور مذہبی شعور بھی اُجاگر کرتے ۔ آخر میں خاکسار کا تھل کے مکینوں کو پیغام ہے کہ اس سائنسی عہد میں جدید علوم کی شمع اپنے دلوں میں جلا کر ماضی کے اندھیروں سے نکلیں اور جہد پیہم سے اپنے نقل کو باری بارم بنا ئیں ۔
یہ مضمون جسارت خیالی کی کتاب ” تحقیقی ننقیدی اور شعری خدمات "سے لیا گیا ہے