تاریخ سادات جیلانی
سید نصیر شاہ
سولہویں صدی عیسوی کے نصف اول میں محبوب سبحانی حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کے اخلاف میں سے ایک بزرگ حضرت شیخ جلال الدین سندھ اور ملتان سے ہوتے ہوئے کلورکوٹ تشریف لائے شیخ کا مقصد تبلیغ دین اور اشاعت اسلام تھا وہ اپنے خاندان سمیت ہجرت کر کے آئے تھے ان کے ساتھ ان کے فرزندان جلیل علی احمد محمد احمد اور عمر تھے۔
میاں اور شیخ کی بحث
جناب عبد القادر جیلانی سادات کے مورثین اعلیٰ میں سے تھے ان کے اسم گرامی کے ساتھ شیخ کا لفظ استعمال ہوا۔ شیخ کے لغوی معانی بوڑھے کے ہیں قرآن حکیم میں ہے کہ حضرت اسحق علیہ السلام کی بشارت پر زوجہ محترمہ حضرت ابراہیم
علیہ السلام (حضرت سارہ) نے کہا۔ انا عجوز و هذا بعلی شیخا۔ میں ازکار رفتہ بڑھیا ہوں اور میرا یہ خاوند بوڑھا ہے۔
قبائلی نظام میں بڑا بوڑھا قبیلہ کا سردار ہوتا تھا اور اس لئے اصطلاحا شیخ کا لفظ سردار کھرے کھوٹے کو پرکھ کر فیصلہ دینے والا کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ علم حدیث میں راوی جس شخص سے روایت کر رہا ہوتا ہے وہ اس کا شیخ کہلاتا ہے۔ جناب صدیق اکبر ہی چھو اور جناب فاروق اعظم پیلو کے لئے تین کا لفظ مستعمل ہے، استاد ہادی اور مرشد کو بھی شیخ کہتے ہیں (لسان العرب)۔ اس لئے جناب عبد القادر جیلانی کے لئے شیخ کا لفظ استعمال ہوا اور پھر یہ لفظ متوارث طور پر استعمال ہونے لگا اور لوگوں نے غلطی سے اسے قوم یا ذات کا مفہوم دے دیا یہ غلط فہمی ۱۹۱۵ء کے گزیٹر آف دی میانوالی ڈسٹرکٹ کے مصنف کو بھی لاحق ہو گئی وہ بھی شیخ کو الگ قوم سمجھتا ہے۔ چنانچہ The Mianas Of Mianwali کے عنوان کے تحت لکھتا ہے۔
"میانوں کو شیخ ہی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ لوگ کبھی قریشی اور کبھی سید ہونے
کا دعوی کرتے ہیں”
گزیٹر آف دی میانوالی ڈسٹرکٹ ۱۹۱۵ء مطبوعہ سنگ میل پبلی کیشتر ص
۷۰ سطر ۶۵
حالانکہ شیخ کا لفظ سابقہ تھا جو بزرگی کے اظہار کے لئے اسی طرح استعمال ہوتا تھا جیسے جناب عبد القادر جیلانی کے نام سے پہلے استعمال ہوا گزیٹر کے مصنف نے ص ۷۷ کے آخری عنوان میں خانقاہ آف شیخ سلطان زکریا” کے الفاظ سے آغاز کیا ہے اس طرح وہ دکھانا چاہتا ہے کہ اگر شیخ کسی قوم کا نام ہے تو سلطان زکریا شیخ ہی
تھے۔
میاں کا لفظ زبان پہلوی میں کمر کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ فارسی
غزل کے ابو الاباء خواجہ کہتے ہیں۔بت مومیاں رانگہ اے صبا (اے مباہال جیسی باریک کمر والے محبوب کا خیال کر)
فارسی لغت برہان قاطع محمد حسین تبریزی المتخلص بہ برہان کا مشہور لسانیاتی کارنامہ ہے اس میں میاں پر بحث میں لکھا ہے پہلوی دور میں حاکم کے منظور نظر غلام کمر میں سیاہ پھولدار پٹکا باندھ لیتے تھے انہیں غلامان میاں بستہ کہا جاتا تھا پھر ترکیب مختصر ہوئی اور میاں بستگان کہا جانے لگا غلامان کا لفظ غائب ہو گے ہو گیا پھر مزید اختصار ہوا اور صرف میاں کا لفظ استعمال میں رہ گیا۔ اگر کسی نام سے پہلے سابقہ کے طور پر یہ لفظ آتا جیسے میاں اعظم تو اس کے معنی ہوتے اعظم نام کا بادشاہ کا منظور نظر غلام فردوسی کہتا ہے۔
(کشتی میں اچھی عادتوں والا حاسب او پر آگیا وہ پاک زاد رستم کا منظور نظر
غلام تھا)
عبارت میں میاں کا لفظ کمر اور غلام دونوں معنوں میں استعمال ہوتا رہا۔ میاں حسین ، میاں محمد اصل میں غلام حسین اور غلام محمد کے مترادف تھے۔ نیازیوں کا معروف قبیلہ جو لودھیوں کی مخصوص اور اعلیٰ خدمات بجا لاتا تھا میاں خیل کہلاتا تھا۔ الفاظ سفر کرتے ہوئے احوال و ظروف کے ساتھ الفاظ بدلتے جاتے ہیں۔ یہ لفظ ہندوستان میں وارد ہوا تو مختلف مقامات پر مختلف معانی میں بولا جانے لگا پوٹھوہار کے کھدری کے علاقوں میں میاں امام مسجد کو کہتے تھے۔ جانگلیوں کی زبان میں صاحب، سرکار وغیرہ کے معانی دینے لگا۔ لاہور اور اردگرد کے علاقوں میں شاہی محلات کے باغبان اور ارائیں میاں کہلانے لگے ۔ دکن میں اس کے معنی شوہر ہو گئے بالا خانوں پر خاطر تواضع کرنے والوں کو بھی میاں کہا جانے لگا۔ کچھی کے علاقوں میں خانقاہوں اور مزاروں کے مجاور میاں کہلائے برخوردار اور عزیز کو بھی پیار سے میاں کہا جانے لگا۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شیخ اور میاں قومیں نہیں سابقے ہیں میانہ بھی کسی قوم کا نام نہیں میاں سے یہ لفظ بنا لیا گیا ہے اور جو لوگ اپنی قوم کے طور پر یہ لفظ استعمال کرتے ہیں غلط فہمی کا شکار ہیں اصل میں وہ سید ہیں۔
شیخ جلال الدین کے اخلاف
شیخ جلال الدین کے فرزندان گرامی میں سے "عمر” کے دو بیٹے تھے کیقباد المعروف گلو اور عثمان مو تحمر الذکر لاولد فوت ہوا۔ گلو کا بیٹا عبد الرحمان لاولد تھا دوسرے بیٹے محمد کی اولاد چل رہی ہے بلوخیل کے رہائشی سید شیخ حضرات میں اکثر اسی کی اولاد ہیں۔ شیخ جلال الدین کے فرزند احمد کی اولاد میں سے پانچویں پشت کے احمد لاولد ہو گئے احمد یار اور محمد کی اولاد چل رہی ہے جن میں سے کچھ دیوالہ موضع ، کچھ کلورکوٹ کے نواح اور کچھ بلوخیل میں آباد ہیں۔
شیخ جلال الدین اپنے فرزندان کو سنت ابراہیمی ادا کرتے ہوئے یہاں بسا گئےتھے خود واپس بغداد چلے گئے اور وہیں فوت ہوئے۔ کلورکوٹ میں ان کی یادگاریں گئیں۔ ان کے دوسرے بیٹے محمد کے دو بیٹے تھے بایزید اور حسین موخر الذکر کی اولاد عنایت اللہ ، عمر زمان، حسن، محمد غلام حسین، برخوردار تک کے اسماء ۱۸۸۷ء کے مصدقہ شجرہ میں موجود ہیں ان میں مولانا عنایت اللہ معروف تھے تاریخ الایام (ص ۴۱۷) کے مصنف حسن بیابانی نے انہیں خوش بیان مقرر کہا ہے۔ بایزید کی پانچویں پشت میں میاں فتح محمد تھے جنہوں نے مین بازار کے ساتھ ایک مسجد یادگار چھوڑی ہے جسے آج بھی مسجد میاں فتح محمد کہا جاتا ہے اور اس کے ساتھ کا چوک فتح محمد چوک کے نام سے مشہور ہے۔ ان کے بھائی سلطان احمد کے بیٹے محمد اکبر تھے۔ میاں فتح محمد کے فرزند محمد کے دو فرزند تھے میاں فضل احمد اور فخر الدین میاں فضل احمد عرصہ دراز تک والد کی مسجد کے خطیب اور مستم رہے، سجادہ نشین بھی تھے۔ انہوں نے مسجد کو کبھی سیاسی یا مذہبی اکھاڑا نہیں بنے دیا آج کل اس مسجد کے متولی ضیاء الحق ہیں جو فضل احمد مرحوم کے ہوتے ہیں۔ میاں فخر الدین کے بیٹوں میں میاں نعیم الدین صحافی ادیب اور شاعر ہیں۔
حضرت علی احمد پایہ اور ان کے اخلاف
شیخ جلال الدین کے فرزند اول حضرت میاں علی احمد شاہ صاحب تھے میانوالی کی بستی انہی کے نام سے آباد ہوئی۔ بڑے صاحب علم اور صاحب کرامت بزرگ تھے، ان کی ولادت بغداد کی تھی۔ اس وقت اس علاقہ پر لگکھڑوں کی حکمرانی تھی حضرت علی احمد شاہ صاحب نے مقامی پٹھانوں کو ترغیب دی کہ وہ گکھڑوں کی غلامی کا طوق اتار پھینکیں۔ انہوں نے اپنی پیش گوئی بھی سنائی کہ پٹھان گکھڑوں کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے پیش گوئی پوری ہوئی اور گکھڑوں کا نام و نشان بھی نہ رہا حضرت علی احمد کے چار بیٹے تھے سلطان زکریا محمد اسحاق ، محمد ابراہیم ، محمد سلیمان ان میں سے محمد سلیمان کی اولاد تین پشتوں تک چل کر ختم ہو گئی۔ محمد ابراہیم شاہ کی اولاد موجود ۔ موجود ہے ان میں نامور سلطان محمود شاہ گرد اور مرحوم اور حکیم غلام ین شاہ تھے ۔ حکیم غلام یسین شاہ کے فرزند حکیم عبدالقیوم بھی ماہر طب ہیں اوراپنے والد کا مطب چلا رہے ہیں ۔سلطان محمود کے فرزند احمد شاہ بینک مینجر ہیں اور ان کے دوسرے فرزند فضل الرحمن شاہ ہیں۔ ابراہیم حیل بھائیوں میں غلام فرید اچھے تعلیم یافتہ شخص ہیں اور ویٹرنری ڈیپارٹم رٹمنٹ میں ملازم ہیں۔
سلطان زکریا اور ان کے اخلاف
سلطان زکریا بڑے صاحب کرامت بزرگ تھے میانوالی کے مغرب میں بلوخیل کے پاس ان کا مزار مرجع خلائق ہے۔ حضرت علی احمد شاہ نے چونکہ پٹھانوں کو گھڑوں پر سیاسی تسلط دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اس لئے پٹھانوں بالخصوص وتہ خیل پٹھانوں میں سلطان زکریا صاحب اور ان کی اولاد سے عقیدت تھی بعض کہتے ہیں اصل نام ذکریا تھا سلطان کا سابقہ سلطان باہو کی طرح ولایت و سلوک میں سلطانی پر فائز ہونے سے لگایا گیا مگر تاریخی طور پر یہ بیان سرا سر غلط ہے کیونکہ خاندانی مصدقہ شجره نیز گزینٹر آف دی بنوں ڈسٹرکٹ اور گز ٹیمٹر آف دی میانوالی ڈسٹرکٹ کے مطابق ان کا نام سلطان زکریا ہی لکھا گیا ہے۔ مراتب سلطانی کے مصنف نے یہ غلط خیال کر لیا کہ سلطان سابقہ ہے اور نام میں شامل نہیں۔ مراتب سلطانی کے مصنف نے ایک اور صریح غلط بیانی کی ہے کہ محمد اسحاق، محمد ابراہیم محمد سلمان کسی اور ماں سے تھے جو ہندو سے مسلمان ہوئی تھی اس لئے محمد اسحاق محمد ابراہیم اور محمد سلیمان کو شیخ کہا جانے لگا حالانکہ جیسے پہلے وضاحت کی جا چکی ہے سلطان زکریا کو بھی تاریخ میں شیخ لکھا گیا ہے اور پھر اگر ماں کے ہندو سے مسلمان ہونے کے باعث کوئی شیخ کہلاتا ہے تو شیخ عبد القادر جیلانی کے متعلق کیا خیال
ہے؟
سلطان زکریا صاحب حضرت علی احمد شاہ کے فرزند اکبر تھے۔ خلافت ہمیشہ بڑے بیٹے کو ملتی آئی ہے بشرطیکہ وہ صلاحیت اور اہلیت رکھتا ہو اس لئے سلطان زکریا صاحب ہی سجادہ نشین ہوئے لیکن مراتب سلطانی کے مصنف نے یہاں بھی عجیب کہانی کا سہارا لیا ہے وہ لکھتا ہے کہ باپ نے تمام بیٹوں سے کہا کہ پانی پر چلتے ہوئے دریا پار کر جاؤ سلطان زکریا صاحب چلنے لگے اور بھائیوں کو کہا میں اللہ اللہ کرتا ہوں تم ذکری ذکری کہتے آؤ اس طرح یہ لوگ چل پڑے منجدھار میں پہنچے تو دوسرے بھائیوں کو بھی خیال آیا کہ وہ بھی اللہ اللہ کیوں نہ کہیں ایسا کیا تو ڈوبنے لگے زکریا نے کہا تم ذکری تک نہیں پہنچے اللہ تک کیسے پہنچو گے انہوں نے پھر زکری ذکری کہنا شروع کیا اور دریا پار کر گئے ( مراتب سلطانی ص ۲۶ ملخص) یہ کہانی بہت سے مرید اپنے پیروں کے متعلق سناتے رہے ہیں بالکل یہی کہانی حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر کے متعلق بھی بیان کی گئی ہے ثبوت کے لئے دیکھئے (تصوف کی حقیقت ص ۲۲۰ ایڈیشن اول ستمبر ۱۹۸۱ء) ایسی کہانیاں قرآنی تعلیمات کے یکسر خلاف ہیں مگر عقیدت میں ڈوبے ہوئے قلم بعض اوقات بصارت اور بصیرت سے محروم ہو جاتے ہیں ایسی کہانیوں سے حضرت سلطان زکریا کی شان میں تو کوئی اضافہ نہیں ہوتا ہاں لکھنے والا خدا کی شان میں گستاخی کر بیٹھتا ہے (معاذ اللہ ) ۔
حضرت سلطان زکریا صاحب کی اولاد نے اپنے خاندان کے لئے ایک نیا نام (میانہ” تراش لیا۔ میانہ فارسی کا لفظ ہے جس کے معنی درمیان والا کے ہیں حالانکہ یہ لوگ سید تھے۔
بهر حال حضرت سلطان زکریا صاحب کے ایک فرزند تھے علی محمد ان کے تین بیٹے تھے غوث علی مراد علی چراغ علی ان سے آگے تین شاخیں چلیں گز – شیر آف ، دی میانوالی ڈسٹرکٹ کا مصنف لکھتا ہے۔
ان سے چلنے والی تین شاخیں چراغ علی خیل، مرادوند خیل اور غوث علی خیل کھلاتی ہیں۔ آخری نسل میں دو اہم آدمی میاں سلطان علی اور میاں علی نور ولد میاں مراد وند تھے۔ میاں سلطان علی بڑی شاخ کے فرد تھے اور اپنے دور کے انتہائی بااثر آدمی تھے۔ انہیں ان کے بیٹے میاں سردار علی نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ میاں علی نور نے خاندان کے روحانی پہلو کی نمائندگی کی۔ وہ تعویز بیچا کرتے تھے اور دم درود کرتے تھے خاندان کی تین شاخوں کے موجودہ نمائندہ میاں عباس علی، میاں فضل علی اور میاں فتح شیر ہیں۔ ایک اور رکن میاں حیات علی کندیاں کے ذیلدار ہیں اس خاندان کے لوگ بڑے صحت مند ہیں اور ان میں سے اکثر پر تعیش زندگی گزارتے ہیں” (گز – شئیر ص ۷۰ – ۲۹)۔
حضرت میاں مراد علی کی اولاد
حضرت میاں مراد علی کو مراد وند کہتے ہیں۔ صاحب کرامت بزرگ تھے ان کے تین بیٹے تھے بہادر علی محمد علی اور علی نور۔ ان میں سے بہادر علی کے دو بیٹے تھے علی شیر اور علی حیدر – من حیدر۔ موخر الذکر کے دونوں بیٹے محمد امین اور ان کے فرزند میاں چن پیر غلام دستگیر اور میاں پرویز سجادہ نشین ہیں میاں زمان علی صاحب کی اولاد میں سے میاں محمد اکرم شاہ بابا کریا نوالے کے نام سے دم درود کا سلسلہ قائم رکھے ہوئے ہیں اور خلق خدا کو فیض یاب کر رہے ہیں۔
چراغ علی خیل
میاں چراغ علی کے دو بیٹے تھے حسین علی اور مہر علی میاں سلطان علی صاحب سرکار دربار میں بڑا مرتبہ رکھتے تھے۔ میانہ محلہ کی بہت بڑی مسجد جو دیوبند مکتب فکر کا مرکز ہے انہی کی بنا کردہ ہے اور انہی کے نام سے مسجد میاں سلطان علی” کہلاتی ہے۔ میاں سلطان علی کے دو فرزند تھے بڑے بیٹے میاں سردار علی تھے اور چھوٹے میاں محمد حیات۔ میاں محمد حیات کے دو فرزند میاں محمد شیر اور میاں محمد عمر ہیں۔ میاں محمد شیر کئی دفعہ کو نسلر منتخب ہو چکے ہیں میان سلطان کے دوسرے بیٹے میاں سردار علی وہی ہیں جن سے گز شیر کے مصنف نے والد کے قتل کو منسوب کیا ہے ان کے تین فرزند تھے میاں فتح شیر، میاں حیات علی اور میاں فلک شیر۔ ان میں سے میاں حیات علی کی اولاد میں میاں برکت علی شاہ معروف حکیم ہیں۔ میاں فلک شیر کی اولاد میں میاں رقیب الدین مرحوم اچھے صاحب مطالعہ شخص تھے۔ میاں فتح شیر کے فرزندوں میں عطا محمد بڑی سیاسی شخصیت ہیں کئی دفعہ کو نسلر منتخب ہوئے یونین کمیٹی کے چیر مین بھی رہے ہیں بڑے بااثر آدمی ہیں ان کے بھائی میاں ضیاء الدین اور میاں شیر محمد فوت ہو چکے ہیں۔
غوث علی خیل
میاں غوث علی کے پانچ بیٹے تھے میاں شرف علی، میاں مقصود علی، میاں حسن علی، میاں کرم علی، میاں جام علی اور میاں صاحب علی۔ میاں مقصود علی کے فرزند میاں سیف العلی بڑے نامور تھے۔ انہوں نے بھی ایک مسجد تعمیر کرائی جو مسجد میاں سیف العلی کے نام سے مشہور ہے۔ میاں شرف علی کے کے دو فرزند تھے میاں فضل علی اور میاں عباس علی میاں فضل علی بڑے معزز و محترم تھے۔ ان کے اخلاف میں میاں مردان علی فرزند اکبر تھے ، سرکار دربار میں بااثر تھے۔ ان کے فرزند میاں غلام حیدر، میاں حیدر چراغ اور میاں ضیف احمد تھے اور جن میں میاں موجود ہیں۔ میاں فضل علی کے چھوٹے صاحبزادوں میں میاں اصغر علی بڑے نامور ہوئے ہیں وہ ایک حق کو عالم دین تھے اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ان کا شیوہ خاص تھا۔ انہوں نے وقت کے ہر فرعون کو للکارا اور جرات و عزیمت کے حسیں باب رقم کئے۔ ان کے فرزند پروفیسر میاں محمد اشرف علی شاہ، میاں محمد علی شاہ اور پروفیسر میاں احمد علی شاہ ایم ایس سی اپنے والد مکرم کے نقش پا کی تقلید کر رہے ہیں میاں فضل علی کے سب سے چھوٹے بیٹے میاں عبد الحق شاہ انتہائی معزز شریف النفس اور زاہد و عابد شخص تھے۔ ان کے فرزند میاں صفدر صفدر علی شاہ مبارک علی شاه رشید احمد شاہ حشمت علی شاہ اور محمد رفیق ہیں۔ میاں اصغر علی شاہ کے بھتیجے میاں عطاء اللہ شاہ صاحب تھے۔ ان کے فرزند میاں کفایت اللہ شاہ بینک ملازم ہیں، میاں عطا محمد تھانیدار کے فرزند میاں حبیب علی شاہ اور میاں برکت علی شاہ ہیں۔
تھانیدار صاحب کے بھائی میاں خدا بخش کے فرزند میاں سعادت علی شاہ بڑے شریف النفس انسان ہیں۔ میانوں میں ایک بڑی محترم شخصیت میاں محمد اکبر کی تھی انہوں نے مسجد بھی عمیر کرائی تھی سیاسی لحاظ سے بڑا مقام حاصل کیا قیام پاکستان سے پہلے جب ہندو مقامی سیاست پر چھائے ہوئے تھے مسلمانوں میں وہ واحد شخص تھے جو بلدیہ میں پہنچ کر ان کا مقابلہ کرتے تھے۔ ان کی اولاد میں میاں ریاض احمد بی اے اور میاں فیاض احمد موجود ہیں۔
اس خاندان کا ایک حصہ چاہ میانہ پر آباد ہے ان میں میاں مظفر علی شاہ نے ولایت اور طبابت میں بڑا نام پایا ان کے بعد ان کے فرزند میاں محمد فیروز شاہ بھیاانی کے صحیح جانشین ثابت ہوئے۔ ان کے فرزند میاں ریاض احمد اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔ جب نواز شریف اور چنهه کی چپقلش شروع ہوئی اور میاں منظور وٹو پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تو میاں ریاض احمد نے وٹو کا ساتھ دیا یہ رفاقت آج تک قائم ہے ۹۳ء کے انتخابات میں انہیں مسلم لیگ (ج) کا ٹکٹ ملا اور صوبائی انتخابات میں حصہ لیا مگر نا کام ہو گئے۔
میانہ خاندان کی سیاسی حیثیت
انگریزوں کے عہد تک اس خاندان کی سیاسی حیثیت مسلم رہی۔ انگریز گئے تو ان میں میاں محمد اکبر اور میاں مردان علی نمایاں حیثیت رکھتے تھے پھر یہ لوگ سیاسی طور پر قیادت کے منصب سے ہٹ کر شملہ گروں میں آگئے۔ ملک امیر محمد خان کے عہد اقتدار میں اس کے پاس آمد و رفت رہی اور اسے سیاسی بالادستی دلانے کے لئے کارکن بنے رہے۔ ملک صاحب کے قتل کے بعد کچھ اسی گھرانے سے وابستہ رہے اور کچھ امیر عبداللہ خان روکھڑی کے حاشیہ بردار ہو گئے۔ عرصہ دراز تک ان کا یہی کام رہا کہ دوسروں کو سروں پر اٹھا کر تخت پر پہنچاتے رہے۔ ان میں پہلی حریت پسند روح میاں اصغر علی کی تھی جنہوں نے کوشش کی کہ یہ خاندان اپنے تشخص کی بازیافت کرے۔ مگر اپنوں نے ان سے اختلاف کر کے اپنا نقصان کیا اب میاں ریاض کی شکل میں انہیں کچھ سنبھالا ملا۔ مگر ان میں سے زیادہ تر اس کے مخالف رہے اس طرح ایک دفعہ پھر پس منظر میں چلے گئے۔ نئی نسل میں تعلیم کی لہر آئی ہے۔ میاں محمد سعید ولد میاں نواز علی کے بیٹے میاں عبد الواحد بی اے ہیں میاں قربان علی ایم ایس سی ہیں، میاں آل رسول ایم بی بی ایس ہیں، میاں شاہ ولد میاں دوست محمد شاہ کے بیٹے بھی کچھ پڑھ لکھ گئے ہیں ان کے بھائی میاں محمد صادق شاہ کے بیٹوں میں میاں پرویز شاہ بی ایس سی ایم اے ہیں، میاں سلطان نمبردار کے بیٹے میاں محمد اشرف علی شاہ ایم اے ہیں۔ میاں محمد علی شاہ بی اے ہیں۔ میاں شیر محمد کے بیٹے میاں پرویز بی اے ہیں۔ میاں ممتاز علی شاہ کے بیٹے میاں شوکت علی شاہ تعلیم یافتہ اور اچھا دینی شعور رکھتے ہیں۔ میاں محمد اکرم شاہ کے بیٹوں میں میاں حشمت علی بی اے ایل ایل بی ہیں اور سیاسی سوچ بھی رکھتے ہیں اس طرح یہ امید پیدا ہو چلی ہے کہ شاید یہ خاندان اپنی بازیابی کے سفر پر روانہ ہو اور کھویا ہوا مقام حاصل کرلے۔
شاہ محمد اسحاق اور ان کے اخلاف
شاہ محمد اسحاق حضرت علی احمد شاہ کے دوسرے بیٹے تھے۔ اپنے بڑے بھائی سلطان ذکریا کے برعکس انہوں نے حکومت میں عمل دخل کی بجائے دینی علوم کی طرف توجہ کی اور بلند پایہ علمی مقام حاصل کیا کچھ کا علاقہ ان کی جولاں گاہ تھا۔ عیسی خیل کے ساتھ شیخا نوالہ اور سیلواں کے ساتھ گانگی ان کے دو مستقل ٹھکانے تھے۔ گائے بھینس پالتے تھے اور اپنی زمینیں کاشت کر کے روزی پیدا کرتے تھے۔ طالب علموں کا ہجوم ساتھ رہتا ان کے جانور اور ان کی زمین ان کے خاندان اور ان کے شاگردوں کی مشترکہ ملکیت تھی شاگرد بھی ان کے ساتھ کام کراتے اور مطمئن زندگی گزارتے۔ کبھی کسی امیر کے گھر جا کر کچھ نہیں مانگا۔ تذکرہ علمائے سندھ (ص ۱۲۹) کے مطابق ”مولانا نور الحق گشکوری، مولانا عبد الرحمن سندھی اور مولانا عبد الطیف سانگھڑی، کچھی کے علاقہ کے مولوی محمد اسحاق شاہ کے شاگرد تھے ان میں سے مولانا عبدالرحمن سندھی نے قرآن حکیم اور موطا امام مالک کا سندھی میں ترجمہ کیا تھا جس کا قلمی نسخہ عبد الواحد سندھی نے دیکھا تھا”
اس طرح دور دراز سے طلبہ ان کے پاس آتے اور فیض یاب ہوتے تھے۔ گز مشیر آف دی بنوں ڈیرہ اسماعیل خان اور اذکار الفاضلین کے مطابق شاہ محمد اسحاق کو حصول علم ہی کی لگن تھی۔ سیاست سے لا تعلق تھے۔ حضرت علی کا یہ قطعہ ان کے ورد زبان رہتا
"رضينا قسمت الجبار فينا لنا علم و للجهال مال
فان المال فان عقريب وان العلم باق لايزال”
اہم خدائے جہار کی اس تقسیم پر راضی ہیں کہ اس نے ہمیں علم اور جاہلوں کو مال دے دیا مال عنقریب فنا ہونے والا ہے لیکن علم باقی رہنے والا اور لازوال ہے)
پھر ان کی وصیت تھی کہ ان کی اولاد میں ہر مرنے والا باپ اپنی اولاد کے لئے اپنے ہاتھ سے یہ قطعہ لکھ کر چھوڑ جائے اس طرح سالہا سال تک یہ روایت چلتی رہی۔ شاہ محمد اسحاق کے دو فرزند تھے محمد عثمان شاہ اور عبدالرحمان شاہ۔ موخر الذکر کی شاخ یعقوب، سلطان، عبدالرحمن تک ایک پشت میں چلتی رہی عبدالرحمن کے تین بیٹے تھے شیر محمد عمر اور اللہ جوایا۔ ان میں یعقوب بڑے عالم تھے باقی نوشت و خواند کی حد تک محدود تھے۔ شاہ محمد اسحاق کے فرزند اکبر محمد عثمان شاہ معروف عالم دین ہوئے ۔ اذکار الفاضلین (ص اے) کے مصنف نے انہیں مفسر کچھی کے نام سے یاد کیا ہے اس لقب سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے شاید قرآن حکیم کی کوئی تفسیر لکھی تھی جو دست برد زمانہ ۔ محفوظ نہ رہ سکی۔ محمد عثمان شاہ کے ایک ہی فرزند تھے مولانا عبد الواحد ، ان کے تین فرزند تھے مولانا بہاؤ الدین مولانا محمد حسن اور مولانا خیر محمد۔ ان میں مولانا محمد حسن بہت بڑے فاضل تھے اذکار الفاضلین میں ان کی ایک کتاب پارسی آموز” کی نشاندہی کی گئی ہے جو ”نصاب ضروری” کی طرز پر لکھی گئی تھی بلکہ نصاب ضروری کی پیش رو تھی مولانا محمد حسن لاولد فوت ہو گئے خیر محمد کے چار بیٹے تھے محمد حامد محمود، میاں عمر۔ مولانا عبد الواحد کے بڑے بیٹے مولانا بہاؤ الدین بھی اچھے عالم دین اور درویش صفت بزرگ تھے سے
ان کے دو بیٹے نامور ہوئے مولانا غلام علی اور مولانا اشرف علی۔
پھر اس خاندان کے کچھ افراد شیخا نوالہ کچھ گانگی اور کچھ نبی میں مقیم ہو گئے۔ اہل ٹبی میں مولانا اکبر علی غلام سرور (شاہیانوالہ) اور مولوی محمد حیات معروف ہیں۔ مولانا اکبر علی کے فرزند مولانا حکیم غلام حیدر ہیں جن کا بڑا لڑکا صاجزادہ محمد صفدر شاہ صحافی ہے۔ مولانا اکبر علی کے دوسرے بیٹے مولوی محمد امین اور مولوی غلام ٹین ہیں۔ مولوی محمد امین شاہ کا فرزند حافظ مولوی محمد امیر شاہ گلیمری پر خطیب ہے اور غلام نین کا بیٹا فخر الدین جنگلات میں ملازم ہے۔ شیخانوالہ سے ایک خاندان شاہ پور صدر گیا جس کے سربراہ محمد سلطان تھے۔ ان کے فرزند غلام حسین بڑے بااثر آدمی تھے ان کا بڑا بیٹا محمد اسلم آصف تھانیدار ہوا۔
دو سرا احمد اقبال شاہ اور تیرا محمد انور ہے۔ غلام حسین کے چھوٹے بھائی محمد حسین وچھ ضلع سرگودھا میں مقیم ہوئے ان کے بیٹے محمد اشرف، محمد افضل اور محمد یوسف ہیں۔ محمد سلطان کے فرزندان خادم حسین اور فضل حسین بے اولاد ہیں۔ گانگی میں مقیم مولانا غلام علی کے تین بیٹے تھے غلام حسن احمد الدین اور شیر محمد۔ ان میں شیر محمد لاولد فوت ہو گئے احمد الدین بڑے فاضل ہوئے اور مولانا گانگوی کے عرف سے مشہور ہوئے۔ ان کی کئی قلمی کتابیں تھیں مولانا احمد الدین گانگوی ابتدائی دور میں سرائیکی شاعری بھی کرتے تھے اور دلسوز تخلص تھا۔ مولانا احمد الدین گانگوی کے بیٹوں میں مولانا غلام فخر الدین گانگوی معروف عالم دین تھے۔ باپ بیٹا سیال شریف سے خلافت بھی حاصل کر چکے تھے۔ مولانا کے دوسرے بیٹوں میں میاں شیر محمد غلام فرید اور بہاؤ الدین لاولد فوت ہوئے میاں غلام ٹین اور میاں نظام الدین صاحب اولاد ہیں اور ملازمت پیشہ ہیں۔ غلام نین کا اکلوتا بیٹا میاں اورنگ زیب شاہ ہے۔ میاں نظام الدین کے فرزند میاں نعیم الدین شاہ سلیم الدین ، ظہیر الدین شاہ اور فخر الدین شاہ ہیں۔ مولانا غلام علی کے بھائی مولانا شرف علی بھی بڑے عالم دین تھے۔ ان کے چار بیٹے تھے مقصود علی، سلطان محمد فاضل اور میاں احمد ان میں سے سلطان اور میاں احمد لاولد فوت ہو گئے۔ مقصود علی اور محمد فاضل کی اولاد آگے چلی ہے۔
مولانا مقصود علی بڑے عالم اور درویش منش انسان تھے ان کے دو فرزند تھے بڑے بیٹے محمد اکبر علی بڑے صوفی اور صاف باطن بزرگ تھے بڑے متقی اور پارسا تھے خاموش طبع انسان تھے۔ سادگی میں عمر گزار دی۔ محمد اکبر علی کے برادر خورد مولانا محمد امیر علی شاہ بہت بڑے عالم دین تھے کئی تصانیف ان کی یادگار ہیں طب و حکمت میں بھی یگانہ روزگار تھے سرائیکی کے بہت بڑے شاعر تھے ان کی تصانیف دینی اور طبی موضوعات پر ہیں۔ منظوم مجموعے بھی ان کی یادگاریں ہیں۔ ان کے دو بیٹے میں سید محمد مسعود شاہ ایم اے بی ایڈ پر نسپل ہائر سکینڈری سکول دریا خان اور راقم الحروف۔ سید محمد مسعود شاہ کے دو فرزند ہیں نوید مسعود شاہ اور ندیم مسعود شاہ۔ راقم کا ایک ہی بیٹا ہے۔ سید بدر جہانگیر شاہ۔
محمد اکبر علی کے دو بیٹے تھے مولانا نور محمد شاہ اور مولانا حکیم دوست محمد شاہ نور محمد شاہ اچھا دینی فہم رکھتے تھے بڑے مرنجاں مریج اور درویش صفت انسان تھے ۔ سکوت پسند در ویٹی میں عمر گزار دی۔ ان کے ایک ہی فرزند ہیں پروفیسر محمد فیروز شاہ ایم اے ، ایم ایڈ اعلیٰ پائے کے شاعر اور خوب صورت نثر نگار ہیں۔ صاحب تصانیف ہیں اور شب و روز علمی مشاغل میں منہمک رہتے ہیں۔ مولانا حکیم دوست محمد شاہ بڑے معروف طبیب تھے کچھ کے علاقہ میں مسیحا شمار ہوتے تھے ان کے پانچ فرزند ہیں عبد العزیز شاہ عبد المجید شاہ عبدالحمید شاہ حبیب اللہ شاہ فضل الرحمان شاہ ایم ایس سی ہیں۔
مولانا مقصود علی کے بھائی مولانا محمد فاضل کے فرزند حکیم علی محمد گانگوی بڑے معروف طبیب ہوئے ہیں۔ علاقہ کچھ کے طول و عرض میں ان کی خذاقت کا طوطی بولتا تھا۔ ان کے بڑے بیٹے حکیم محمد حنیف شاہ ہیں دوسرے بیٹے محمد شریف اپنی یادگار ایک لڑکا امتیاز احمد شاہ چھوڑ کر فوت ہو گئے۔ تیرے بیٹے محمد سعید شاہ ارشد گانگوی تھے۔ اچھے شاعر اور حاذق طبیب تھے تین عالم شباب میں فوت ہو گئے۔ خوش در بخشیده ولی شعله مستعجل بود
ان سے چھوٹے محمد لطیف شاہ بڑے صاحب مطالعہ شخص ہیں اور تدریسی مہارت کے حامل ہیں ان سے چھوٹے محمد رشید شاہ تھے ، سرائیکی میں شاعری کرتے تھے (اب ان کا انتقال ہو چکا ہے)۔
ای خاندان کے ایک درویش صفت آدمی غلام حیدر تھے ان کے فرزند سردار علی شاہ تھے۔ جن کا بیٹا حیات علی شاہ کندیاں کے قریب لنگر خیلانوالہ میں مقیم ہے طب و حکمت سے دلچسپی رکھتا ہے۔
مولانا محمد مظہر بھی اسی خاندان کے فرد تھے جن کے فرزند مولوی غلام حسین شاہ ہیں۔ مولانا خادم حسین شاه فاضل درس نظامی خطیب لنگرے خیلانوالہ انہی مولوی غلام حسین شاہ کے صاحبزادے ہیں مولانا خادم حسین دینی کتب کی تدریس میں بھی بڑی مہارت رکھتے ہیں جو آج کل بہت کم مولویوں کو نصیب ہے۔ وہ قائد آباد کندیاں، خواجہ آباد شریف کے مدارس میں بھی برسوں مصروف تدریس ہے ابتدائی اور انتہائی دونوں طرح کی کتب کی تدریس میں مہارت تامہ رکھتے ہیں۔ ان کے بھائی طالب حسین، عارف حسین محمد اقبال اور صادق حسین ہیں، مولانا خادم حسین نے ایک کتاب بھی لکھی تھی۔
سلطنت علم و ادب
میاں علی احمد شاہ صاحب کے فرزندوں میں سلطان زکریا کی اولاد سیاست و حکومت میں اپنا کردار ادا کرتی رہی شاہ محمد اسحاق کی اولاد سلطنت علم و ادب کی وارث رہی اور محمد ابراہیم کی اولاد بین بین رہی۔
آج بھی اگر یہ کھرا ہوا خاندان متحد ہو جائے اپنی خامیوں اور کمزوریوں کے ازالہ کی کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ضلع میانوالی کی سیادت اور قیادت سادات جیلانی کی طرف نہ لوٹ آئے۔ قومیں باہمی بغض و عناد اور بے جا غرور و تکبر سے برباد ہوتی ہیں۔ دولت کی ہوس اور انانیت کی لیک بھائیوں میں بھی فاصلے پیدا کر دیتی ہے اور پھر یہ فاصلے بعد بعید کی آخری حدود چھو لیتے ہیں اللہ ہر ایک کو اس شر سے محفوظ رکھے۔ آمین
نوٹ: یہ مضمون ڈاکرڈ لیاقت علی خان نیازی کی کتاب ” تاریخ میانوالی (تاریخ و تہذیب) سے لیا گیا ہے۔