میانوالی کا موجودہ ضلع بنوں ضلع کی تحصیل تھا جب کہ ضلع بھکر ڈیرہ اسماعیل خاں کی ایک تحصیل تھا۔ گویا موجودہ اضلاع راجن پور، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں کرک، میانوالی، بھکر، خوشاب، سرگودھا اور جھنگ کے لئے صرف ایک ڈویر تل حج ہوتے تھے۔ ان دنوں ضلع کا انچارج ڈسٹرکٹ حج ہوا کرتا تھا۔ جس کو ابتدائی طور پر ہر قسم کے مقدمات دیوانی وصول کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ ان میں سے مالیت دعوئی کے پیش نظر وہ کچھ مقدمات اپنے پاس برائے تصفیہ رکھ لیتے تھے باقی دعوئی جات کو وہ اپنے ماتحت منصف صاحبان کو سپرد کر دیتے تھے۔ ہر تحصیل اور ضلع ہیڈ کوارٹر پر منصف درجہ سوم دوم اور اول تعینات ہوتے تھے۔ طریق کار کے مطابق منصف صاحبان اور ڈسٹرکٹ جج صاحبان کے فیصلہ جات کی اپیل ہائے دیوانی کی سماعت ڈویڑنل حج ہی کیا کرتے تھے جملہ اپیل ہائے ڈسٹرکٹ حج کے پاس دائر ہوتی تھیں جو کہ بعد ازاں ڈویژنل جج کے ہاں برائے تصفیہ ارسال کرنے کے پابند تھے۔
اویٹ مل بیج نوٹس ہائے پیروی بنام فریقین جاری کرتے تھے۔ جن کی تعمیل کنندگان کی عرفت تعمیل کرائی جاتی تھی تعمیل کنندگان دو قسم کے ہوتے تھے۔ اول وہ جو نوٹس ہائے پردی حاصل کرنے کے بعد پیدل سفر کر کے تعمیل کرانے پر مامور ہوتے تھے انہیں "پیارہ ” کہا جاتا تھا۔ دوئم وہ جو کٹھن مسافت یا طوالت فاصلہ کے پیش نظر اولوں پر سفر طے کر کے فرائض منصبی سرانجام دیتے تھے انہیں "شتر سوار ” کہتے تھے۔ آج کل شتر سوار کا تصور ختم ہو چکا ہے۔ کام کی زیادتی کی وجہ سے بعض اوقات ڈویژتل حج کے علاوہ ایڈیشنل ڈویژنل حج بھی مختلف اضلاع میں تعینات کر دیئے جاتے تھے تاکہ نسبتا کم وقت میں بہتر سہولت کے ساتھ اپیلوں کو نپٹایا جا سکے۔
1900ء میں ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈسٹرکٹ جج جناب اے بی کیسول (AB Kettewell) تعینات تھے۔ اور لیفٹیننٹ (Lt. S.A.J Oberien) ڈسٹرکٹ بیج بنوں تھے جب کہ ڈویژنل حج ڈیرہ جات کیمپ شاہ پور جناب اے بی برجز صاحب (A. Bridges) ۱۹۰۱ء میں ضلع بنوں کے حصص کر کے تحصیل بھکر، میانوالی اور عیسی خیل پر مشتمل ایک جداگانہ ضلع میانوالی قائم کر دیا گیا۔ جس کے پہلے ڈسٹرکٹ حج سردار بلونت سنگھ متعین ہوئے۔ عین اس وقت لیفٹینٹ اے جے او برائن ڈسٹرکٹ جج بنوں کو کیپٹن کے عہدے پر ترقی یاب کر کے بطور ڈپٹی کمشنر میانوالی تعینات کر دیا گیا۔
جس طرح سردار بلونت سنگھ اپنے مخصوص لباس چوڑی دار پاجامہ ، اچکن اور پگڑی میں ملبوس اپنی ذاتی بگھی پر سوار ہو کر کچہری میں آیا کرتے تھے ۔ بالکل اسی طرح جناب اے جے او برائن صاحب برجس، پتلون، ٹائی بش شرٹ، ٹی شرٹ فیلٹ ہیٹ پہن کر دفتر تشریف لاتے تھے اور خاص خیال رکھتے تھے کہ فیلٹ ہیٹ میں مرغابی کا پر ضرور ہو جسے وہ خوش بختی تصور کرتے تھے ۔ ہر دو افسران نے پوری دلجمعی سے کام لیا۔ پہلے ڈپٹی کمشنر نے 9 نومبر ۱۹۰۱ء کو چارج سنبھالا یہ چارج انہوں نے 9 اپریل ۱۹۰۵ء کو چھوڑا ۔ ان کے جانشین ہیری سن (M.H. Herrison) زیادہ کامیاب نہ ہو سکے۔
اس لئے لیفٹیسٹ اے جے او برائن کو کیپٹن کے عہدے پر ترقی دے کر دوبارہ ایک سال کے لئے ۱۹۰۶ء میں تعینات کر دیا گیا اور پھر تیسری بار انہیں اکتوبر ۱۹۱۴ء میں دو سال کے لئے یہ عمدہ – عہدہ سونپا گیا البتہ اس بار انہیں میجر کا عہدہ دے دیا گیا۔ جناب اے بی کیسول جو قبل از میں ڈسٹ ں ڈسٹرکٹ جج ڈیرہ اسماعیل خان تھے کو بھی اس درمیانی عرصہ میں ایک سال چار ماہ کے لئے بطور ڈپٹی کمشنر میانوالی تعینات کیا گیا۔ سر حال ان ایام میں ڈسٹرکٹ حج اور ڈپٹی کمشنر کے عہدہ جات کو ہم پلا سمجھا جاتا تھا یہی وجہ ہے کہ حافظ عبدالحمید صاحب جو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج میانوالی تھے کو بھی بطور ڈپٹی کمشنر بعد ازاں کچھ عرصہ کے لئے تعینات کر دیا گیا۔ چونکہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو جو کہ بطور ضلع کلکٹر (ریونیو) مقدمات کی اپیلوں کی سماعت کرتا تھا ہم کسی حد تک عدلیہ کا جزو کہہ سکتے ہیں کہ وہان اختیارات کے استعمال کے ذریعہ وہ بھی عدل و انصاف کرتے تھے۔
تحصیل عیسی خیل میں قیام پاکستان سے قبل جدا گانہ طور پر کسی منصف کی تعیناتی نہ ہوئی البتہ میانوالی میں متعین منصف صاحبان دورہ پر جا کر مقدمات کا فیصلہ کرتے تھے ۔ ۱۸۹۹ء میں ٹینڈر (Tender) صاحب بطور منصف درجه اول تعینات تھے۔ ان کے تبادلہ پر سردار محمد یوسف خان کو ۱۹۰۰ء میں منصف درجہ اول میانوالی تعینات کر دیا گیا۔ ضلع میانوالی کے قیام پر پیر قمر الدین صاحب اور سردار نہال سنگھ کو منصف درجہ اول کے طور پر متعین کیا گیا۔ اس کے علاوہ پنڈت کنول لال منصف درجہ دوم لاله گیلا رام منصف درجہ سوم کو دیوانی مقدمات کو نپٹانے کے لئے متعین کیا گیا۔
نیز جی ایم وینٹ (G. Vent) اسٹنٹ کمشنر میانوالی کو منصف درجہ دوئم اور لالہ کھیسو رام تحصیل دار میانوالی کو منصف درجہ سوئم کے اختیارات حاصل تھے۔ گویا ۱۹۰۰ء اور ۱۹۰۲ء کے درمیان متذکرہ بالا منصف صاحبان فرائض منصبی سرانجام دیتے رہے اسی طرح تحصیل بھکر میں سردار محمد مسعود صاحب کو 1901 ء میں بطور منصف درجہ اول تعینات کیا گیا۔ جب کہ لالہ بھوجن رام منصف درجہ سوکھے سوئم کو ان کی مدد کے لئے متعین کیا گیا نوعیت مقدمات کے پیش نظر اگلے ہی سال ۱۹۰۲ء میں لالہ ٹوبی رام (L.TObi Ram) کو بطور منصف درجہ دوئم اور دیوان کنہیا لعل کو بطور منصف درجہ سوئم تعینات کر دیا گیا۔ گویا حکومت برطانیہ کی پر زور کوشش رہی کہ مقدمات کے فیصلے حتی المقدور جلد سے جلد ہو سکیں تاکہ عدلیہ کا وقار بلند ہو اور مظلوم اور بے کس اشخاص کی حتی المقدور فوری طور پر داد رسی کی جائے۔
جناب اے برجز ڈویژنل جج ڈیرہ جات شاہ پور کے تبادلہ پر ان کی جگہ خان بهادر عبدالغفور صاحب بطور ڈویژنل حج شاہ پور تعینات ہوئے۔ چونکہ منصف صاحبان کی تعداد کافی ہو چکی تھی اس لئے اپیلوں کو جلد نپٹانے کے لئے ایک عدالت ناکافی تھی۔ اس لئے جناب ڈبلیو ای ریناؤف (W.E. Renauf) کو بطور ایڈیشنل اویرنل جج شاہ پور بمقام جھنگ تعینات کیا گیا اور پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا عدالت ہائے اپیل کی تعداد میں اضافہ کیا جاتا رہا۔ چنانچہ رائے بہادر چوٹی لال کو ۱۹۱۳ء میں بطور ایڈیشنل ڈویژنل اینڈ سیشن جج میانوالی تعینات کر دیا گیا۔ بعد ازاں ان کے جانشین خان بهادر عبد الغفور خان آف زائده خان بهادر خواجہ تصدق و غیره تعینات ہوتے رہے۔ اس طرح سے ضلع میانوالی میں ڈسٹرکٹ جج صاحبان جو فیصلہ فرماتے تھے ان کی اپیل بر حال صرف ڈویژنل حج خود ہی سماعت کرتے تھے۔ ان کا ہیڈ کوارٹر ۱۶ – ۱۹۱۵ء میں شاہ پور کی بجائے سرگودھا بنا دیا گیا اور سرگودھا کو ضلع بنا دیا گیا۔ شاہ پور کو ضلع مذکورہ کی تحصیل کا درجہ دے دیا گیا۔ موسم گرما میں اپیلوں کی سماعت کے لئے سیکیسر کو ہیڈ کوارٹر بنا دیا گیا۔
ضلع میانوالی کی خوش بختی ہے کہ یہاں پر تاریخ ساز افسران عدلیہ کی تعیناتی ہوتی رہی۔ مسٹر جسٹس ایم آر کیانی بطور ڈویژنل مجسٹریٹ بھکر تعینات ہوئے اور اپنی تیز ضمی، برجستہ گفتگو طنز و مزاح کے ان مٹ نقوش لوگوں کے دلوں پر چھوڑ گئے۔ مسٹر جسٹس فضل کریم بھی بطور سول حج بھکر کافی عرصہ تک تعینات رہے۔ اسی طرح سے مسٹر جسٹس ایس اے رحمان، مسٹر جسٹس جناب اے ایل فلیچر (AL. Fletcher، مسٹر جسٹس اختر حسین ملک، مسٹر جسٹس خواجہ خالد پال اور مسٹر جسٹس محمد امیر ملک بطور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج میانوالی رہے۔ جب کہ مسٹر جسٹس میاں غلام احمد بطور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اور مسٹر جسٹس محمد الیاس مسٹر جسٹس عبداللہ خان اور مسٹر جسٹس محمد خورشد خان کا تعلق صوبہ سرحد سے تھا۔
جب ون یونٹ ٹوٹا تو ان کی تقرری بطور رجڑار ہائی کورٹ پشاور کر دی گئی اور بعد ازاں وہ وہاں پر ہی بطور حج ہائی کورٹ کافی عرصہ تک ملک کی خدمت کرتے رہے۔ یہ ایک پرانی ضرب المثل ہے کہ وکلاء اور عدالتوں کا کردار گاڑی کے دو پیوں کی طرح ہوتا ہے اور اگر ایک پہیہ کسی وجہ سے خراب ہو تو سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ حصول انصاف کے لئے وکلاء حضرات جو کردار ادا کرتے ہیں اس سے کسی شخص کو انکار نہیں ہو سکتا۔ جب 1901ء میں میانوالی کے ضلع کا قیام عمل میں آیا تو عدالت ہائے اپیل میں ضلع میانوالی کی طرف سے کم و بیش صرف تین وکیل ہی پیش ہوا کرتے تھے۔ جن کے نام سائیں داس ایڈووکیٹ پیر سٹر لالہ بھاگو رام پلیڈر اور لالہ بھواں داس پلیڈر سر فہرست تھے۔ یہ وکیل اپیلوں کی پیروی کے لئے اپنے مقررہ ایام میں شاہ پور میں جا کر فرائض منصبی سرانجام دیتے تھے۔ انہی ایام میں فوجداری مقدمات کی پیروی کے لئے جناب محمد خان سنبل ایڈووکیٹ کا نام سر فہرست تھا۔
آپ موسیٰ خیل تحصیل میانوالی کے رہائشی تھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے اور طالب علمی کے زمانہ میں یونیورسٹی کی یونین کے صدر بھی رہے۔ مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی جوہر کے کالج فیلو ہونے کا شرف بھی انہیں حاصل تھا۔ اسی طرح سے فوجداری مقدمات کی پیروی ایک دوسرے مسلمان وکیل جناب نواب خان آف موسیٰ خیل بھی خوب کرتے تھے ۔ بعد ازاں آپ بھکر منتقل ہو گئے اور آخری دم تک وہیں پیشہ وکالت سے منسلک رہے۔ ۱۹۱۰ء تک وکلاء کی تعداد میانوالی میں بہت کم تھی۔ مگر نئے ضلع کے قیام کی بدولت لوگوں میں حصول تعلیم کا رجحان تیز ہو تا چلا گیا۔ پیشہ وکالت کو اولین ترجیح دی جانے لگی۔ جس کی بدولت وکلاء حضرات کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ ۱۹۳۵ء میں وکلاء کی تعداد میتیں (۳۷) تک پہنچ گئی۔ قیام پاکستان سے قبل بار کے ممبروں کی تعداد کسی مرحلہ پر بھی اڑ تمیں سے تجاوز نہ کر سکی۔ ۱۹۳۸ء میں تعداد اراکین بار ۴۳۸ ۱۹۴۴ء میں ۴۴۴ ۱۹۴۵ء میں ۳۵ اور ۱۹۴۶ء
میں 19 رہ گئی۔
وكلاء حضرات کی کانفرنس ۱۹۳۵ء میں بمقام لاہور منعقد ہوئی جس میں میانوالی بار نے بھی نمائندگی کی۔ وہاں یہ قرار پایا کہ میانوالی بار کو ہائی کورٹ لاہور کی بار کے ساتھ الحاق کرنا چاہئے ۔ چنانچہ ۱۹۴۲ء میں میانوالی بار کی طرف سے ایک چٹھی اعزازی سیکرٹری ہائی کورٹ بار لاہور کو تحریر کی گئی۔ جس کا جواب دیتے ہوئے جناب مالک رام کپور اعزازی سیکرٹری نے تحریر کیا کہ سالانہ چندہ پچیس روپے اور رکنیت کی فیس دس روپے ادا ہونے پر الحاق ہو سکتا ہے۔ میانوالی بار سے اس بار کا الحاق کر دیا گیا جو اب تک بدستور قائم ہے۔
ڈسٹرکٹ بار میانوالی نے ہمیشہ رشوت اور چور بازاری کے خاتمہ کے لئے جھنڈا بلند کئے رکھا۔ ۱۹۳۶ء میں اینٹی کرپشن کمیٹی کے سرگرم رکن لالہ سیتا رام مینی، چوہدری اور ھے بھان اور ظہیر الدین قریشی تھے۔ یہی کمیٹی بدستور کام کرتی رہی یہاں تک کہ ۱۹۴۷ء میں لالہ اتم چند، چوہدری کشور چند اور چوہدری اور ھے بھان اس کے رکن منتخب ہوئے۔ اس کمیٹی کی بدولت عدالت کے کسی المکار کو کسی قسم کی بخشش طلب کرنے یا وصول کرنے کی جرات نہ تھی۔
۱۹۴۷ء میں شیخ منظور حسین دسمبر میں ملک عبد العزیز ، سید باقر حسین شاہ سید کرامت حسین شاہ سید محمد یونس شاہ ۱۹۴۸ء میں خان بہادر فیض محمد خان ملک محمد زکریا صاحب، میاں قربان صادق اکرام ، محمد رفیق خان، ۱۹۵۲ء میں بشیر حسین شاہ محمد افضل خان نیازی یا رو خیل ، ملک محمد دل بند جوئیہ ۱۹۵۳۴ء میں خان امان اللہ خان نیازی ، ۱۹۵۴ء میں محمد اسلم خان نیازی بلو خیل، ۱۹۵۵ء بـ ۱۹۵۵ء میں شیخ مظفر ح غلام قاسم جوئیہ خان حق نواز خان اور ملک لطف علی جوئیہ، ۱۹۵۶ء میں ملک حسین
۱۹۵۷ء میں ملک یارن خان ملک احمد نواز خان محمد عظیم خان ۱۹۶۰ء میں گل حمید خان روکھڑی ، محمد اشفاق خان نیازی، ملک عبد الکریم، جناب محمد حیات بھٹی، حبیب اللہ خان ۱۹۶۰ء میں عبد الحمید خان نیازی اور میاں دوست محمد ۱۹۶۱ء میں مسلم وکلاء کی تعداد چھیں تک پہنچ گئی اور یہ تعداد کافی عرصہ تک بدستور رہی۔ مگر بعد ازاں اس میں بتدریج اضافہ ہونے لگا اس وقت ممبران کی تعداد ۱۳۰ ہے۔ میانوالی بار کے لئے یہ بات باعث فخر ہے کہ ایک سرگرم رکن جناب میاں قربان صادق اکرام ایڈووکیٹ بطور جج لاہور ہائی کورٹ منتخب ہوئے ریٹائرڈ ہونے کے بعد اس وقت لاہور میں پریکٹس کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ سابقہ ممبران بار ملک لطف علی جوئیہ ، خان محمد عظیم خان ، ملک احمد نواز ان دنوں بطور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن بج، پیر مسعود احسن شاہ ، کرامت حسین نیازی ، ممتاز منور نیازی عطاء رسول جو سیه دوست محمد کھیمٹہ اور ممتاز خان بطور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ، جب کہ محمد اقبال نیازی آف گلمیری ضیاء اللہ خان نیازی آف موسیٰ خیل بطور سول جج صاحبان فرائض منصبی ادا کر کے بار کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ شیخ مظفر حسین بطور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ج جب کہ عبدالحمید خان نیازی بطور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہو کر دوبارہ پیشہ وکالت سے منسلک ہیں۔ جناب لیاقت سے عمر نے وفا نہ کی اور وہ و ته خیل) محمد اقبال خان نیازی (گلوخیل) محمد آصف خان نیازی کا نام بھی قابل ذکر
ہے۔
مضمون کو ختم کرنے سے قبل یہ سخت نا انصافی ہو گی کہ اگر میں اس موقع پر محمد عارف خان نیازی ایڈووکیٹ ، ملک منیر احمد جوئیہ ایڈووکیٹ اور خالد جاوید خان سالار ایڈووکیٹ کا شکریہ ادا نہ کروں۔ جن کی دن رات کی تحقیقی کاوشوں سے یہ مواد اکٹھا ہوا۔ جس کی بدولت مضمون ہذا مرتب ہوا۔ (محمد عارف خان نیازی اب سول جج ہو گئے ہیں)