میانوالی میں نقل مکانی
ضلع متضاد سمتوں میں سے ہونے والی تہری نقل مکانی کے ذریعے آباد ہوا۔ شمال مشرق سے اعوان، جنوب سے اوپر دریائے سندھ کی وادی کی طرف جٹ اور بلوچ ، اور شمال مغرب سے پٹھان۔
اعوان
اب اعوان ضلع کے اُس حصے میں آباد ہیں جو کوہ نمک کی ڈھاک شاخ کے مشرق میں واقع ہے اور اسے کھدری، پکھر یا اعوان کاری کہتے ہیں۔ وہ کم از کم چھ سو سال تک اس وسیع خطے کے اکلوتے قابضین رہے اور شاید ساتویں صدی کے عرب حملوں کے بعد سے وہاں مقیم ہوں گے ؛ لیکن ان کا یہ دعویٰ نہایت مشکوک ہے کہ وہ بالاصل عربیبہ سے آئے۔ در حقیقت عین ممکن ہے کہ وہ مشرق سے ہجرت کر کے آئے اور بالاصل راجپوت نسل سے تھے جنھوں نے کمتر قبیلچوں کے ساتھ باہمی شادیوں کی وجہ سے اپنی ذات کو بر قرار نہ رکھا۔ کسی دور میں پکھر راجپوتوں کا گڑھ ہونا نمل سے اوپر نکلی ہوئی پہاڑی پر را جابر کپ کے قلعے کی باقیات سے عیاں ہے اور اُسے سیالکوٹ کے راجار سالو کے ساتھ منسلک کرنے والے گیت آج بھی گائے جاتے ہیں۔ مختلف داڑھیوں (warhis) یا ذیلی شاخوں کے اجداد کے نام (جو روایت کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں، جیسے سنگ سنگھ، ٹر سنگھ، بھاگ سنگھ ) بھی راجپوت ماخذ کی تھیوری کو تقویت دیتے ہیں۔
میانوالی میں لگھڑ حاکمیت کے زوال اور معدومیت سے قبل اعوان مقبوضات مغرب میں کوہ نمک تک پھیلی ہوئی تھیں۔ لیکن نیاز کی (نیازی) پیش قدمی نے انھیں پسپائی پر مجبور کر دیا، اور ایک سو سال سے زائد عرصہ پہلے سکیسر سے کالا باغ کی طرف جانے والی پہاڑی رکاوٹ مشرق میں پٹھان توسیع اور مغرب میں اعوان پسپائی کی حد تھی۔
اعوانوں، جٹوں اور بلوچوں کی ہجرت
پندرھویں صدی سے پہلے ضلع کے زیریں حصے میں غالباً جنوں کے چند ایک قبائل آباد تھے جن کا گزارا اپنے مویشیوں پر تھا۔ دریائے سندھ کی وادی ایک گھنا جنگل تھی جس میں جنگلی سوروں کے غول پھرتے اور بہت سے شیر بھی تھے جبکہ تھل تقریباً مکمل طور پر غیر آباد ہو گا۔
جٹ اور بلوچ قبائل کی ہجرت
لوگوں کی تمام روایات دکھاتی ہیں کہ جنوں کے ملے جلے قبائل (سیار، چھینے ، کھوکھر ، وغیرہ) کی نقل مکانی پندرھویں صدی کے آغاز میں ملتان اور بہاولپور کی سمت سے ہوئی۔ وہ آہستہ آہستہ دریائے سندھ کی وادی میں اوپر میانوالی تحصیل کی طرف گئے اور درمیانی علاقے پر قبضہ کر لیا۔ ان کے زیادہ تر دیہات تھل کے کنارے پر واقع ہوں گے اور مہاجرین کا کچھ حصہ غالباً دریا پار کر کے دائیں کنارے پر آباد ہو گیا۔ ان کے بعد جنوب سے ہی بلوچ آئے۔ لیکن وہ با قاعدہ سرداروں کے ماتحت بڑی تعداد میں تھے اور لگتا ہے کہ اُنھوں نے علاقے پر مالکانہ کی بجائے عسکری طور پر قبضہ کیا۔ وہ حکمران ذات تھے اور متواتر چھوٹی لڑائیوں میں اپنے سرداروں کے تحت لڑتے رہے جو اس وقت ہر سمت میں جاری تھیں۔ ممکن ہے کہ جٹ نقل مکانی بلوچوں کی پہلی آمد کے بعد بھی کچھ عرصے تک جاری رہی۔ معاملے خواہ کچھ بھی رہا ہو ، لگتا ہے کہ تھل کنارے سے ملحقہ تمام کچی علاقہ جٹ خاندانوں نے بانٹ لیا۔ ہر ایک قطعے کے ساتھ تھل کی ایک لمبی پٹی بھی تھی۔ یہ جاگیریں میانوالی تحصیل میں شمال کی طرف کندیاں تک موجودہ موضعوں کا ماخذ تھیں۔ یہ تقریباً سبھی جنوں کے قبضے میں تھے۔ یہاں وہاں بلوچوں کے حصے ہیں، لیکن ان میں سے زیادہ تر بعد کے دور میں خرید کر حاصل کیے گئے۔ اسی طرح دریا کی طرف غیر مقبوضہ زمینوں کو موضعوں میں تقسیم کیا گیا اور علیحدہ جاگیریں تشکیل دی گئیں؛ اور کبھی کبھی جہاں حدیں پہلی بار بنائیں گئیں وہاں بہت زیادہ بنجر زمین تھی، بعد میں پرانی جاگیروں کے بیرونی حصوں کو الگ کر کے نئی حدیں بنائی گئیں۔ حدوں میں یہ تقسیم او پر کندیاں تک جاتی تھی۔ وقت آنے پر ، جب بلوچ ملک میں مقیم ہو گئے تو افراد نے کنوؤں کے لیے زمین کے قطعات حاصل کیے ، لیکن عموما دو حد کے مالکان کے مطیع ہی رہے۔ یہاں وہاں کسی چھوٹے قبیلچے نے مل کر بستی بسالی، لیکن یہ ایک استنشی تھی۔ کچے کے سارے جنوبی حصے میں ، دریاخان تک بلوچ اب بھی کافی تعد ادرکھتے ہیں ؛ لیکن وہ بالا صل حکمران نسل تھے ، پھر بھی زمین کے مالکانہ حقوق کے معاملے میں وہ جٹوں اور سیدوں سے کمتر حیثیت رکھتے ہیں جس کی حدوں پر بر تر ملکیت عموماً تسلیم کی جاتی ہے۔ دریا خان کے شمال میں چند ایک بلوچی ہیں۔ تھل میں آبادی تقریبا کلیتا جٹ ہے۔ مفسر کے ممدانی، بہت پہلے آکر مشرقی تھل میں ڈھنگ نا اور حیدرآباد کے قریب آباد ہونے والا قبیلہ کمی اور میانوالی تحصیل میں ذب کے زورانی غالباً بلوچوں کے واحد قابل ذکر قبیلے ہیں جو تھل میں پائے جاتے ہیں۔
سارے کچی میں دیہات کے مجموعوں کے نام جٹ خاندانوں کے نام پر ہیں جو غالب مالکان ہیں۔ یہ عموماً اصل بانیوں کی اولاد ہیں اور مل کر رہے۔ تھل میں اسی طرح بڑی تعداد میں دیہات مخصوص خاندانوں کے لوگوں سے آباد ہیں؛ لیکن بیشتر میں آبادی بہت مخلوط ہے، تقریباً ہر ایک کنواں مختلف ذات کے آدمی کی ملکیت ہے۔ تھل میں خصوصی ذکر کے لائق واحد جٹ قبائل چھینے اور بھیڑ وال ہیں۔ چھینا علاقہ بچی کے کنارے پر چھینا، بیہل اور نو تک سے تھل کی پرلی طرف پر منکیرہ اور حیدرآباد تک پھیلا ہوا ہے۔ بھڈ وال جھنگ کی سرحد کے آس پاس کرنو والا اور ماہی کے گرد کچھ چھوٹے علاقے پر قابض ہیں۔ وہ ہمیشہ سے ایک اچھا جنگجو قبیلہ رہے ہیں۔
پٹھانوں کی ہجرت
کہا جاتا ہے کہ غزنی کے محمود نے بنوں سمیت ضلع کے بالائی نصف میں لوٹ مار مچائی، ہندو باشندوں کو بے دخل کیا اور ملک کو ایک صحرا بنا کر رکھ دیا۔ چنانچہ کوئی بھی ایسا نہ رہ گیا جو سرحد پار سے نقل مکانی کرنے والے قبائل کی مدافعت کر سکتا ہو۔ بنوں میں افغان ہجرتوں کا سلسلہ مندرجہ
ذیل ترتیب میں ہوا:
(1) بنوچی، جنھوں نے کوئی پانچ سو سال پہلے منگلوں اور پانیوں کے دو چھوٹے قبائل کو بے دخل کیا جن کے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ خٹکوں کی بستی کو بھی ختم کیا جو اس وقت دریائے گرم کے دونوں کناروں پر دلدلی مگر زر خیز علاقے میں تھی۔
2) نیازی، جو 150 سال بعد ٹانک سے مروت نامی میدان میں آئے جہاں گلہ بان جنوں کی چھدری آبادی تھی۔ 3 مروت، اسی قبیلے کی ایک نوجوان شاخ جو مروت پر نیازی آباد کاری کے بعد ایک سو سال کے اندر اندر آئے اور اُنھیں مشرق میں مزید آگے اُن علاقوں میں دھکیل دیا جو اب عیسی خیل اور میانوالی کہلاتے ہیں۔ نیازئیوں نے عیسیٰ خیل میں آباد اعوانوں کو بے دخل کیا اور متفرق جٹ
باشندوں کو نیم غلام بنالیا۔
نیاز ئیوں ( نیازیوں) کی ہجرت
بنوچی تقریبا دو سو سال تک آباد رہے ہوں گے اور پھر مروت میں نیاز ئیوں کی یلغار ہوئی۔ نیاز کی لودھی ہیں اور سانگھر کے آس پاس پہاڑیوں میں مقیم تھے جو اس وقت سلیمان خیلوں کے پاس ہیں۔ یہاں تک کہ غلزئیوں کے ساتھ ایک جھگڑے نے انھیں کسی اور طرف ہجرت پر مجبور کر دیا۔ بے دخل کیے گئے قبیلے نے جنوب اور پھر مشرق کی طرف ہجرت کرتے ہوئے ٹانک میں کچھ عرصہ قیام کیا۔ نیاز کی کئی پشتوں تک وہاں آباد رہے، تاجروں اور حمالوں کا پیشہ اپنایا، جیسا کہ اُن کے قرابت دار لو پانی پاوندے آج کے دن تک کرتے ہیں۔ انجام کار پندرھویں صدی کے آخر میں متعدد شمال کی طرف میدان میں پھیل گئے جو اب مروت کہلاتا ہے اور دریائے گرم اور گمبیلا کے کناروں پر (بنوچی بستیوں سے کوئی 15 میل نیچے ) چرواہے بن گئے ، اور شاید کاشت کاری بھی کی۔ وہاں وہ کوئی پچاس برس تک پر امن انداز میں رہے جب مروت لوہانیوں (لودھی گروپ کی ایک نئی شاخ) ان کے پیچھے پیچھے علاقے پر یلغار کی، انھیں لڑائی میں شکست دی اور تنگ درہ کے مقام پر گرم کے پار اُس وادی میں بھگا دیا جس سے پرے اُنھیں اپنا حتمی مسکن ملا۔ نیاز کی یلغار کے وقت مروت غالباً بالکل غیر آباد تھا، ماسوائے کہی کہیں گلہ بان جٹوں کے ، لیکن دریائے سندھ کا کنارہ ایک خاصی بڑی جٹ اور اعوان آبادی کو سہارنے کے قابل ہو گا۔ بے دخل کیے گئی نیازئیوں کی اہم شاخیں عیسیٰ خیل، مشانی اور سر ہنگوں کا ایک حصہ ۔ اول الذکر نے اپنے نئے علاقے کے جنوب میں جڑیں گہری کیں اور جلد ہی زراعت کار بن گئے ؛ مؤخر الذکر شمال میں مزید آگے کمرمشانی کے گرد آباد ہوئے اور لگتا ہے کہ کچھ وقت کے لیے گلہ بانی کی زندگی گزاری؛ سرہنگوں میں سے کچھ ایک نے سلطان خیل میں مسکن بنایا جبکہ دیگر نے متعدد پشتوں تک ادھر اُدھر پھرنے کے بعد خود کو مستقل طور پر دریائے سندھ کے اس طرف آباد کر لیا ( معظم نگر میں گھڑ قلعے پر احمد شاہ کی ایک سالار کے ہاتھوں تباہی کے بعد )۔ یہ واقعہ 1748ء کے قریب پیش آیا اور اس کے ساتھ ہی گھڑوں کا میانوالی کے ساتھ طویل عرصے سے قائم تعلق ختم ہو گیا۔ لگتا ہے کہ وہ شہنشاہ اکبر کے طرف سے دو سر داروں کو علاقہ جاگیر میں ملنے سے بھی پہلے شمالی حصوں میں غالب رہے۔ کہا جاتا ہے کہ جہانگیر کے عہد کی سول ہلچل کے دوران نیاز ئیوں نے گکھڑوں کو کوہ نمک کے پار دھکیل دیا اور اگلے دورِ حکومت میں اگرچہ مؤخر الذکر نے اپنی پوزیشن بحال کر لی، پھر بھی علاقے پر اُن کا قبضہ غیر مستحکم تھا اور اٹھارھویں صدی کے تقریباً وسط میں اختتام کو پہنچا۔ اُن کے مقامی صدر مقام معظم نگر کی باقیات دریائے سندھ کے بائیں اونچے کنارے پر میانوالی سے کوئی چھ میل جنوب میں نظر آتی تھیں۔ یہاں تک کہ 1870ء کے قریب دریا اُنھیں بہالے گیا۔ یوں نیازئیوں نے کوئی تین سو سال سے زیادہ عرصہ پہلے عیسی خیل میں خود کو آباد کیا، لیکن اُن کی سرہنگ شاخ نے میانوالی میں اپنی موجودہ مقبوضات حتمی طور پر کوئی 150 سال بعد تک حاصل نہ کیں۔ اُن کی سندھ سے اس طرف کی املاک کا حصول درجہ بدرجہ ہو اہو گا، علاقے میں ایک باضابطہ مگر کمزور حکومت تھی اور یہاں اعوان اور جٹ آباد تھے۔
نیازئی ،خٹک اور بھنگی خیل
نیاز ئیوں سے پہلے عیسی خیل تحصیل میں آنے والے چند ایک خٹک میدانی سلسلے کے دامن میں ہی رہنے لگے اور نیاز کی اُنھیں وہاں سے نہ نکال پائے۔ خشکوں کی ایک چھوٹی سی شاخ بھنگی خیل کوئی 400 سال قبل بھنگی خیل علاقے میں پھیل گئے اور آج بھی وہیں رہتے ہیں۔
بلوچ پٹھان
بلوچ پٹھانوں کے چند خاندان پنیالا کی پہاڑیوں سے دریائے سندھ پار کر کے آئے۔ ان میں سے ایک پہلاں میں غالب آیا جبکہ دیگر تھل میں چلے گئے اور انجام کار جنڈاں والا میں اور آس پاس رہائش اختیار کرلی۔
شمال میں لگھڑوں کی حکومت
1738ء میں نادر شاہ کی یلغار سے قبل ضلع کے شمالی حصے کی تاریخ کے حوالے سے بتانے کو بہت کم کچھ ہے۔ ضلع کے شمالی نصف پر لکھڑوں کی حکومت تھی جو مغلیہ سلطنت کے باجگزار بن گئے اور نادر شاہ کے حملے تک ضلع مغلیہ سلطنت میں ہی شامل رہا۔ 1738ء میں اُس کی فوج کا ایک حصہ بنوں میں داخل ہوا اور اس کی دست درازیوں نے بنوچیوں اور مروتوں کو اس قدر خوف زدہ کیا کہ اُن پر بھاری خراج عائد کیا گیا۔ فوج کے ایک اور دستے نے پیزو درہ پار کیا اور نیچے ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف گیا۔ علاقے میں لوٹ مار ہوئی اور بنوں وڈیرہ اسماعیل سے بھرتی کیے گئے دستے نادر شاہ کے جھنڈے تلے دہلی کو لوٹنے کے لیے روانہ ہوئے۔ 1739ء میں دریائے سندھ سے مغرب کی طرف
کا علاقہ شہنشاہ دہلی نے نادر شاہ کے سپرد کر دیا اور اُس کی موت کے بعد احمد شاہ ابدالی کو ملا۔
1748ء میں لگھٹڑوں کی بے دخلی
1748ء میں احمد شاہ کے جرنیلوں کی زیر قیادت ایک درانی فوج نے لکھڑوں کا باہر نکالا جو ابھی تک ضلع میں دریائے سندھ کے اِس طرف والے علاقوں میں حکومت کر رہے تھے اور شہنشاہ دہلی سے برائے نام نسبت رکھتے تھے۔ ان کا گڑھ معظم نگر زمین کے برابر کر دیا گیا اور اُن کی بے دخلی پر ان علاقوں میں مغل شہنشاہ کی اتھارٹی کی آخری باقیات بھی بہہ گئیں۔
1756ء میں ضلع کا درانی بادشاہت میں شامل کیا جاتا یا احمد شاہ کی افواج نے بار بار ضلع کے راستے مارچ کیا۔ اس کا دریائے سندھ سے اس طرف کا حصہ بقیہ پنجاب کی طرح 1756ء میں درانی بادشاہت کا حصہ بن گیا، اور احمد شاہ اور نئی قائم شدہ سلطنت کامل کے تخت پر بیٹھنے والے جانشینوں نے اگلے 60 سال تک ضلع سمیت اپنے مشرقی صوبوں پر ایک غیر مستحکم قبضہ قائم رکھا۔