دریائے سندھ
تلوک چند محروم
اے سندھ ! تری یاد میں جمنا کے کنارے
آنکھوں سے ایل آتے ہیں احساس کے دھارے
وابسته طفلی و جوانی وہ نظارے
موجود تصور کی نگاہوں میں ہیں سارے
آزادی تخیل کا اعجازعیاں ہے
پابندمکاں ہےنہ یہ محتاج زماں ہے
اک گاؤں ترے ساحل قرم پہ ہے آباد
ساحل وہ ترا جلوه که حسن خدا دار!!
یہ ساٹھ برس پہلے کی اے سندھ ہے روداد
اس عالم پیری میں بھی آتے ہیں مجھے یاد
وہ کھیت وہ جنگل وہ جزیرے وہ سفینے
وہ حسن دل آویز کہ جاں بخش قرینے
بھولا نہں عالم تری امواج رواں کا
وہ ماضی رقصاں مری عمر گزارں کا
تو اور تلاطم مرے ذوق نہاں کا
افسوس کہاں میں ہوں یہ قصہ ہے کہاں کا
گورشتہ کناروں سے ترے توڑ کہ آیا
طفلی بھی جوانی بھی وہیں چھوڑ کہ آیا
میں وہ کہ لڑکپن سے جو تھا تیرا پجاری
ظاہر میں نا تھا گر عمل سجدہ گزاری
تھا میری نظر میں کرم خالق باری !
وہ سیر کناروں کی وہ موجوں کی سواری
چکر ترے گرداب کے ہیں اب بھی نظر میں
دل میں وہی طوفان ہے سودا وہی سر میں
تقدیس چمن سے مجھے ہےانکار نہیں ہے
گر پاک نہیں اس سے سروکار نہیں ہے
کیا کیجئے وہ آر نہیں پار نہیں ہے
آسودہ کسی طور دل زار نہیں ہے
وہ ہمہمہ وہ جوش و خروش اس میں کہاں ہے
آسودہ سی بے جان سی اک نہر رواں ہے
ساون وہی گھنگھور گھٹائیں بھی وہی ہیں
دکھن کے سمندر کی ہوائیں بھی وہی ہیں
سبزے کے لیکنے کی ادائیں بھی وہی ہیں
ایسے میں ترا جوش طرب یاد جوآئے
دل پہلو میں کس طرح نہ طوفان اٹھائے
نوٹ: یہ مضمون ڈاکرڈ لیاقت علی خان نیازی کی کتاب ” تاریخ میانوالی (تاریخ و تہذیب) سے لیا گیا ہے۔