میانوالی

ضلع میانوالی کا جنوبی حصہ

ضلع کو درانی سلطنت کا حصہ بنائے جانے سے پہلے اور بعد کے دور میں جنوبی حصے پر مشتمل بھکر تحصیل کی تاریخ علیحدہ تذکر کے متقاضی ہے۔ اس کی تاریخ ڈیرہ اسماعیل خان اور لیہ کی تاریخ سےجڑی ہوئی ہے، اور کچھ حد تک ڈیرہ غازی خان کی تاریخ سے بھی۔

ڈوڈ کی اور موت

کی احمد شاہ کی حکومت کے زیادہ تر حصے میں کابل کی حکومت کی طرف سے کوئی باقاعدہ حاکم تعینات نہ کیے گئے۔ ملک ہوت اور جسکانی سرداروں کے درمیان تقسیم تھا جن کے پیش رو دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ بستیاں بنانے والے اولین بلوچ سردار تھے۔ اولین بلوچ سرداروں کی اصل بستیوں کے حوالے فرشتہ کے ہاں اور فارسی قلمی نسخے میں ملتے ہیں جس کا ذکر مسٹر Tuckers کی بندو بست رپورٹ برائے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں آیا ہے۔ مؤخر الذکر کے پیش کردہ بیان کے مطابق 874 (1469ء) میں سلطان حسین ابن قطب الدین نے ملتان کی حکومت حاصل کی۔ اُس نے ضلع لائلپور میں شور کوٹ اور چنیوٹ، کوٹ کروڑ (کروڑ واقعہ 1748ء کے قریب پیش آیا اور اس کے ساتھ ہی گھڑوں کا میانوالی کے ساتھ طویل عرصے سے قائم تعلق ختم ہو گیا۔ لگتا ہے کہ وہ شہنشاہ اکبر کے طرف سے دو سر داروں کو علاقہ جاگیر میں ملنے سے بھی پہلے شمالی حصوں میں غالب رہے۔ کہا جاتا ہے کہ جہانگیر کے عہد کی سول ہلچل کے دوران نیاز ئیوں نے گکھڑوں کو کوہ نمک کے پار دھکیل دیا اور اگلے دورِ حکومت میں اگرچہ مؤخر الذکر نے اپنی پوزیشن بحال کر لی، پھر بھی علاقے پر اُن کا قبضہ غیر مستحکم تھا اور اٹھارھویں صدی کے تقریباً وسط میں اختتام کو پہنچا۔ اُن کے مقامی صدر مقام معظم نگر کی باقیات دریائے سندھ کے بائیں اونچے کنارے پر میانوالی سے کوئی چھ میل جنوب میں نظر آتی تھیں۔ یہاں تک کہ 1870ء کے قریب دریا اُنھیں بہالے گیا۔ یوں نیازئیوں نے کوئی تین سو سال سے زیادہ عرصہ پہلے عیسی خیل میں خود کو آباد کیا، لیکن اُن کی سرہنگ شاخ نے میانوالی میں اپنی موجودہ مقبوضات حتمی طور پر کوئی 150 سال بعد تک حاصل نہ کیں۔ اُن کی سندھ سے اس طرف کی املاک کا حصول درجہ بدرجہ ہو اہو گا، علاقے میں ایک باضابطہ مگر کمزور حکومت تھی اور یہاں اعوان اور جٹ آباد تھے۔ نیاز کی ، مٹک اور بھنگی خیل نیاز ئیوں سے پہلے عیسی خیل تحصیل میں آنے والے چند ایک خٹک میدانی سلسلے کے دامن میں ہی رہنے لگے اور نیاز کی اُنھیں وہاں سے نہ نکال پائے۔ خشکوں کی ایک چھوٹی سی شاخ بھنگی خیل کوئی 400 سال قبل بھنگی خیل علاقے میں پھیل گئے اور آج بھی وہیں رہتے ہیں۔
بلوچ پٹھان بلوچ پٹھانوں کے چند خاندان پنیالا کی پہاڑیوں سے دریائے سندھ پار کر کے آئے۔ ان میں سے ایک پہلاں میں غالب آیا جبکہ دیگر تھل میں چلے گئے اور انجام کار جنڈاں والا میں اور آس پاس رہائش
اختیار کرلی۔ شمال میں لگھڑوں کی حکومت
1738ء میں نادر شاہ کی یلغار سے قبل ضلع کے شمالی حصے کی تاریخ کے حوالے سے بتانے کو بہت کم کچھ ہے۔ ضلع کے شمالی نصف پر لکھڑوں کی حکومت تھی جو مغلیہ سلطنت کے باجگزار بن گئے اور نادر شاہ کے حملے تک ضلع مغلیہ سلطنت میں ہی شامل رہا۔ 1738ء میں اُس کی فوج کا ایک حصہ بنوں میں داخل ہوا اور اس کی دست درازیوں نے بنوچیوں اور مروتوں کو اس قدر خوف زدہ کیا کہ اُن پر بھاری خراج عائد کیا گیا۔ فوج کے ایک اور دستے نے پیزو درہ پار کیا اور نیچے ڈیرہ اسماعیل خان کی لال عیسن ) اور دین کوٹ (نز و کالا باغ) کے قلعوں پر قبضہ کیا۔ جلد ہی ڈوڈ کی بلوچ ملک سہر اب اپنے بیٹے اسماعیل خان اور فتح خان و دیگر قبیلے والوں کے ہمراہ کیچ مکر ان سے آیا اور سلطان حسین کی ملازمت اختیار کر لی۔ چونکہ صوبہ ملتان میں پہاڑی ڈا کو بہت مشکلات پیدا کرنے لگے تھے، لہذا سلطان حسین ملک سہراب کی نیک شگون آمد سے بہت خوش ہوا اور کروڑ قلعے سے لے کر دین کوٹ تک کا علاقہ اُسے تفویض کر دیا۔ ” یہ خبر ملنے پر بہت سے بلوچ بیچ مکر ان سے سلطان کی خدمت میں آئے۔ دریائے سندھ کے کناروں پر کاشتہ اور بنجر زمینیں بلوچوں کو تفویض کی گئیں اور شاہی ریونیو بڑھنے لگا۔ ڈیرہ غازی خان اور ملتان کے پرانے باشندے بتاتے ہیں کہ سہر اب کی آمد کے بعد حاجی خان اپنے بیٹوں غازی خان اور کئی قبیلے والوں و عزیز و اقارب کو ساتھ لے کر سلطان کی خدمت میں دوبارہ پیچ مکر ان سے آیا۔ جب سندھ کے ساتھ ساتھ والے علاقے ملک سہر اب اور حاجی خان کے ہاتھوں میں تھے۔ ملک سہراب نے اسماعیل خان کے نام پر ایک ڈیرہ بسایا اور حاجی خان نے غازی خان کے نام پر ۔ ” مورخ فرشتہ نے اس بیان کی تصدیق کی ہے، البتہ کچھ کم تفصیل ہے۔

ڈیرہ جات کے سرداروں کا شیر شاہ کی اطاعت اختیار کرنا، 1540ء

اس کے بعد ہم 1540ء میں ان سرداروں کا سنتے ہیں۔ اس سال شہنشاہ شیر شاہ ضلع شاہ پور میں خوشاب اور بھیرہ گیا اور پنجاب کے جنوب مغربی حصوں کو مطیع بنانے کے انتظامات کیے۔ تب پیش ہو کر اطاعت اختیار کرنے والے سرداروں میں اسماعیل خان، غازی خان اور فتح خان، ڈوڈ کی بلوچ شامل تھے۔ یہ غالباً اُن آدمیوں کی اولاد تھے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے، کیونکہ ان خاندانوں میں ایک مشتر کہ نام رکھنے کا رواج تھا اور حکمران سردار اسی نام سے جانا جاتا تھا۔ چنانچہ ڈیرہ اسماعیل خان کے ہوت سردار ہمیشہ اسماعیل خان کہلاتے تھے ، جبکہ ڈیرہ غازی خان کے میر انی غازی خان اور حاجی خان کہلاتے تھے۔ بلوچوں کا ذکر اُس دور کے تذکروں میں ایک بربری اور نڈر قبیلے کے طور پر ملتا ہے جن کی بڑی تعد اد زیریں پنجاب میں بہت عرصے سے آباد تھی۔ مسٹر فرائر نے ضلع ڈیرہ غازی خان کے متعلق اپنی بند و بست رپورٹ میں ذکر کیا ہے کہ پہلے غازی خان کا ثبوت اُس کی قبر پر درج تاریخ (1491ء) سے ملتا ہے۔ یہ محولہ بالا مسودے میں درج تاریخ کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے، اور یوں مرکزی بلوچ مہاجرت کا دور پندرھویں صدی کا نصف آخر بنتا ہے۔ اس سے بلوچ سرداروں کو 1540ء میں شیر شاہ کی خوشاب آمد کے وقت تک ملک میں تسلیم شدہ سردار بننے کی مہلت بھی مل جاتی ہے۔ ان بلوچ آبادیوں کی تاریخ خشک اور گڑ بڑ سے عبارت ہے جس کی وجہ بہت حد تک قصبات اور دیہات کی تاسیس کو ابتدائی آباد کاروں کے سرداروں یا اُن کے بیٹوں سے منسوب کرنے کا رواج ہے جن کے نام پر ان دیبات کے نام رکھے گئے۔ 50 ساله را ہم نے قدیم تاریخ سے اخذ کردہ حقائق مرکزی حقائق یہ اخذ کیے جاسکتے ہیں کہ قدیم آباد کاروں کو دو سر کردہ خاندانوں کے تحت گروپ بند کیا گیا: اسماعیل خان اور غازی خان۔ یہ دونوں غالباً ایک ہی نسل سے تھے ، یعنی ڈوڈ کی بلوچ ؛ لیکن یہ نام ڈوڈ کی ایک دم غائب ہو جاتا ہے اور مقامی تاریخ میں غازی خان قبیلہ میرانی بلوچوں اور اسماعیل خان کا قبیلہ ہوت بلوچوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بلوچوں کے مطابق ڈوڈ کی ستھا سومر اشاخ سے تعلق رکھنے والا جٹ ماخذ کا ملا جلا قبیلہ ہیں اور لیہ کے سومرا ان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اُن کے بانی ڈوڈا نے ایک بلوچ بیوی سے شادی کی۔ یہ قبیلے بلوچ یلغار سے قبل ڈیرہ غازی خان کا مالک تھا اور بلوچوں میں ضم ہو کر اپنا قبضہ قائم رکھا۔ ڈیرہ غازی خان کے میرانی ڈوڈ ئی تھے ، اس کے بر عکس ہوت خالص خون والے بلوچ تھے۔ بلوچ روایت کے مطابق ہوت اُن پانچ مرکزی شاخوں میں سے ایک تھے جن میں بلوچ بالا صل تقسیم تھے، یعنی رند ، اشاری، ہوت، کورئی اور جتوئی۔ ان کے نام مشتر کہ جید امجد میر جلالن کے چار بیٹوں اور بیٹی سے منسوب ہیں۔ چنانچہ وہ بہ مشکل ہی ڈوڈٹی کی ایک شاخ ہو سکتے ہیں۔ لگتا ہے کہ ملتان کے حاکم نے ان دو گھرانوں کو دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر چناب کے ساتھ اس کے سنگم سے لے کر اوپر تک زمین تفویض کی۔ پہلے انھوں نے خود کو دائیں کنارے پر آباد کیا لیکن آہستہ آہستہ کچھ ٹولوں نے ان میں سے نکل کر مشرقی کنارے پر بھی قبضہ کر لیا۔ ڈیرہ فتح خان کے گلا چی سردار ہو توں اور میر انیوں سے کمتر پوزیشن پر ہی رہے اور ابتدا میں خود مختار ہونے کے باوجود ہونے کے باوجود ہوت سرداروں نے انھیں اٹھارھویں صدی کے آغاز سے پہلے کس وقت مطیع بنایا۔ ہوت بلوچوں کے ہیڈ کوارٹرز پہلے ڈیرہ اسماعیل خان سے ہیں میل جنوب کی طرف بابر نامی گاؤں میں متعین کیا گیا تھا۔ بعد میں اُنھوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کی بنیاد رکھی۔ اس خاندان کے حکمران سردار نے ہمیشہ اسماعیل خان کا لقب اختیار کیا۔ اپنی طاقت کے عہد عروج میں وہ سانگھڑ کی سرحد سے لے کر خسور پہاڑیوں تک مکل واد پر بھی مختار رہے۔ یہ نہیں لگتا کہ انھوں نے مغربی دامن کے پٹھان قبائل کے اوپر کوئی حاکمیت رکھی۔ ہو توں نے دریا خان اور بھکر تحصیل کے شمالی حصے پر بھی حکومت کی جہاں اناج ناپنے کا ایک پیمانہ ہوت والا ٹو پہ آج بھی بھکر ٹوپہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے جو قبل از میں جسکانی کے ماتحت علاقے میں رائج تھا۔ ان ہوت سرداروں کے متعلق بہت کم معلومات ہیں۔ انھوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنی پہلی آباد کاری سے لے کر 1770ء تک تواتر سے حکومت کی جب ان میں سے آخری نصرت خان کو بادشاہ احمد شاہ نے معزول کیا اور قیدی بنا کر کابل لے گیا۔ ہوت اپنے عروج کے دوران متواتر گنڈا پوروں اور سرحد کے دیگر پٹھان قبائل کے ساتھ چھوٹی موٹی جنگوں میں مصروف رہے۔ نور محمد کلہوڑا کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ اُس نے نادر شاہ کی یلغار (1738ء) کے کچھ ہی عرصے بعد ہوتوں کے ساتھ ایک جنگ لڑی جس کے دوران ملک میں پیش قدمی کرتے ہوئے باہر تک گیا۔ نادر شاہ اور درانی بادشاہ کی افواج گاہے بگاہے ڈیرہ جات پر یلغار کرتی رہیں لیکن انھوں نے ملک کی اندرونی حکومت کے معاملات میں بہت کم دخل اندازی کی۔ نصرت خان کی معزولی کے بعد ہمیں سال تک ڈیرہ اسماعیل خان پر براہِ راست کابل سے مقرر کیے گئے حکمران حکومت کرتے رہے۔ 1791ء میں نصرت خان کو قید سے رہا کر کے ایک سند کے ذریعے ڈیرہ اسماعیل خان کی حکومت دوبارہ سے عطا کی گئی۔ تاہم، وہ مختصر مدت کے لیے قابض رہا۔ 1794ء میں صوبے کی حکومت محمد خان سدوزئی کو منتقل ہو گئی ، نتیجا نصرت خان کو ڈیرہ چھوڑنا پڑا۔ تاہم، اس نے احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک امیر تاجر کو بھی ساتھ لیا جس سے بعد ازاں بھاری تاوان لیا۔ یہ اُس کا آخری عوامی اقدام تھا۔ اب ہوت تاریخ سے غائب ہو جاتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ نصرت خان واپس آیا اور بلوٹ کے قریب آباد ہوا؛ لیکن اس کے پاس کوئی جائیداد نہ تھی، اور سروز کی نوابوں نے اُس کے خاندان کو ایک معمولی سی پینشن جاری کی جسے 1855ء میں نواب شیر محمد کی وفات پر روک دیا گیا۔

جسکانیوں کا عروج

غازی خان غازی علاقے کے ایک حصے کے طور پر یہ صوبے کے بھی مالک رہے، بالکل اُسی طرح جیسے ڈیرہ کے ہوت دریا خان کے مالک تھے۔ دونوں میں سے کسی کے بھی ہیڈ کوارٹرز دریائے سندھ سے اس پار کی تحصیلوں میں نہیں تھے۔ یہ تھے وہ حالات جن میں جسکانی اقتدار میں آئے۔ سترھویں صدی کے آغاز میں اُنھوں نے اپنے سردار بلوچ خان کی زیر قیادت ڈیرہ غازی کے میر انیوں سے خود مختاری حاصل کی جن کالیہ صوبے پر قبضہ ختم ہو گیا تھا۔ لیہ کی طرح بھکر کے سبھی سر کردہ بلوچ قبائل بلوچ خان کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان میں مندرانی، محمدانی، کندانی اور سرگانی شامل ہیں۔ بلوچ خان کی جگہ جسک خان، بھکر خان، لنگر خان اور اُس کے خاندان کے دیگر سرداروں نے لی جن کے کارنامے مقامی روایت میں بہت مبالغے کے ساتھ بیان کیے جاتے ہیں۔ الان جسکانی علاقے کی حد STY سترھویں صدی کے آغاز میں جسکانیوں نے بھکر اور لیہ پر اور تھل کے اُس پار چناب کے کنارے تک حکومت کی۔ وہ کبھی کبھار سکھوں کے ساتھ رابطے میں آئے جو اُس وقت پنجاب میں طاقت حاصل کر رہے تھے۔ ان جسکانیوں میں سے ایک مشہور ترین بلوچ خان نابینا 1746ء میں سکھ راہنماؤں جھنڈا سنگھ اور گنڈا کے ساتھ لڑائی میں مارا گیا۔ غالباً اس واقعے کی اصل تاریخ کچھ بعد کی ہے، اور یہ وہی جھنڈا سنگھ ہے جس نے 1772ء میں ملتان فتح کیا۔ نظم کی ہسٹری آف سکھی” میں ذکر ہے کہ 1772ء میں کابل کے بادشاہ کی جانب سے ملتان واپس لینے جانے کے بعد سے بھنگی سکھ سارے جنوبی پنجاب میں غالب تھے اور یہ لگتا ہے کہ اُنھوں نے ملتان کے ساتھ ساتھ منکیرہ پر بھی قبضہ کیا، اور کالا باغ سے نیچے کی طرف خراب لاگو کیا۔ ” مقامی روایت اس بات کے خلاف ہے کہ منکیرہ پر سکھوں کا قبضہ رنجیت سنگھ کی حتمی تسخیر سے پہلے ہوا تھا، اور اس سمت میں بھیجی گئی کوئیبھی مہم ایک عارضی یلغار سے زیادہ بہ مشکل ہی کوئی اثر رکھ سکتی تھی۔ !

فتح خان جسکانی

، 1770-1746ء فتح خان اپنے باپ بلوچ خان نابینا کا جانشین تھا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے نصرت خان ہوت اپنے دور حکومت کے اواخر میں دریا پار کر کے بھکر گیا اور فتح خان کے بیٹے نصرت کو شکست دی اور قیدی بنا کر ڈیرہ لے آیا۔ تب فتح خان کے وزیر حسن خان لشکرانی کو ڈیرہ پر حملہ کرنے کا حکم دیا گیا، لیکن اس نے بہانے تراشے اور نصرت جسکانی کی ماں اُسے رہائی دلوانے کی ایک کوشش کے نتیجے میں نصرت خان ہوت کے ہاتھوں بے آبرو ہوتے ہوتے بچی۔ نصرت جسکانی اس رہائی کے لیے کوشاں تھا، لیکن اُس نے اور اُس کے باپ فتح خان نے شرمندگی کے مارے زہر کھا لیا۔ سارا معاملہ بہت بدنامی کا باعث بنا؟ اور چونکہ نصرت خان ہوت جبر و استبداد اور شراب نوشی کی وجہ سے بُرے کردار کا مالک تھا، لہذا بادشاہ احمد شاہ (جو نیم خود مختار صوبوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتا تھا) نے اسے جواز بنا کر اس کو حکومت سے محروم کر دیا اور بطور قیدی کا بل بھیجا۔

وزیر حسن خان لشکرانی، 1779-1770ء

وزیر حسن خان لشکرانی نے سابق سردار فتح خان کے پوتے حیات خان کے ایما پر دریائے سندھ سے اس طرف کے علاقے پر حکومت کی۔ تاہم، حکومت کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کا خواہش مند ہونے کے ناطے اُس نے منکیرہ کے قلعے میں حیات خان کو بلوغت حاصل کر لینے کے بعد بھی کڑی نگرانی میں رکھا۔ انجام کار حیات خان بیچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ اُس نے ایک دستہ جمع کیا، حسن خان کو شکست دی اور قیدی بنا لیا۔ بعد ازاں حسن خان کو بھی حیات خان کے کسی خادم نے مار ڈالا جو اُس کا مخالف تھا۔ تاہم، جسکانیوں کی حکومت اب تیزی سے ٹوٹ رہی تھی۔ اس وقت سرگانی ایک طاقت ور قبیلہ تھے جنھیں حیات خان نے کافی بڑھاوا دیا۔ اُنھوں نے اُچ کے نیک آدمی گل محمد کے خلاف حیات خان کی تیار کردہ ایک مہم پر دھاوا بولا۔ گل محمد چناب کے علاقے میں اپنی خود مختاری قائم کرنے کی کوشش میں تھا۔ سرگانیوں نے سازشی طریقے سے حملہ کر کے اُسے اپنے منکیرہ والے قلعے میں مار ڈالا۔ یہ 1787ء کا واقعہ تھا۔ اس کے بعد سرگانیوں نے اپنے سردار گولا سنگھ کے تحت کچھ دیر تک مرحوم حیات خان کے بھائی اور جانشین محمد خان کا مقابلہ کیا۔ انجام کار جسکانی دستے نے اُنھیں دیوان لدھا ( Ladda) رام کی زیر قیادت شکست دی اور اُن کا سردار گولا اس کارروائی میں مارا گیا تو سرگانیوں نے محمد خان سے صلح کرلی اور جواب میں منڈا شیر گڑھ کا علاقہ جاگیر میں حاصل کیا۔ انجام کار سرائیوں (Serais) نے عبد النبی کی زیر قیادت جسکانیوں کا تختہ الٹا۔

کر ہوڑوں کے سرائے

یہ سرائے کلہوڑے ہی تھے جنھیں 1772ء میں سندھ سے بے دخل کیا گیا۔ وہ ڈیرہ غازی خان علاقے پر بالادستی کے لیے کابل کے بادشاہوں سے طویل عرصے سے تنازع میں شریک تھے جہاں وزیر محمود خان کی زیر قیادت میرانیوں نے دوہری چال چلی: کبھی ایک اور کبھی دوسرے فریق کا ساتھ دیا۔
کلہوڑا شہزادوں میں سے ایک نور محمد ڈیرہ اسماعیل خان کے ہوتوں کے ساتھ لڑا تھا، اور یہ خلاف امکان نہیں ہے کہ کلہوڑوں نے نادر شاہ شاہ کی یلغار سے پہلے کچھ عرصے تک یہ میں جسکانیوں پر اپنی حاکمیت لاگو کی تھی۔ اُنھوں نے کابل کے بادشاہوں کے باوجود ڈیرہ غازی خان پر دعوئی جتایا، یہاں تک کہ 1772ء میں تالپوروں نے اُنھیں سندھ سے نکال دیا۔ اس واقعے نے انھیں مکمل طور پر شاہان کابل کے ہاتھ میں کر دیا، اور وہ اپنے ساتھیوں سمیت ڈیرہ غازی خان ضلع میں چلے گئے جہاں انھیں خاصی جاگیریں عطا ہوئیں۔ چنانچہ وہ اپنے پرانے نام کلہوڑا کی بجائے سرائے کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ سراؤں نے خود کو ایک بڑے مسلح جتھے کے ہمراہ ڈیرہ غازی خان میں پھنسا ہوا پایا تو کسی ایسے علاقے کی تلاش میں لگ گئے جہاں وہ ایک نئی رعیت کی بنیاد رکھیں۔ اندرونی دھڑے بازی کا شکار اور پرانی روایت کے تحت ڈیرہ غازی خان صوبے سے منسلک جسکانی علاقہ قریب ہی تھا اور اس مقصد کے لیے ہر لحاظ سے موزوں تھا۔ چنانچہ تیمور شاہ سے ایک سند لے کر عبد النبی سرائے (غلام شاہ کا بھائی) نے سرکش سرگانیوں کے ساتھ اتحاد کیا اور لیہ کے خلاف چڑھائی کی۔ محمد خان جسکانی کو شکست ہوئی اور وہ ٹوانہ علاقے اور پھر بہاولپور کی طرف بھاگ گیا۔ بہاولپور کے نواب نے اُسے اپنا علاقہ بازیاب کروانے میں مدد دیتا مگر بلوچ تفاخر سے بھرے ہوئے محمد خان نے نواب کو عقاب پالنے کے متعلق ایک گراں قدر کتاب دینے سے انکار کر دیا اور ساگر کے نو تکانی سردار ہر خان کے ماتحت کی حیثیت میں اپنے دن پورے کیے۔ یوں دو سو سال سے زائد عرصہ تک حکومت کے بعد جسکانی
سرداروں کا سلسلہ ختم ہوا۔

عبدالنبی سرائے ، 1892-1879ء

عبد النبی سرائے صرف تین سال کے لیے لیہ کا حاکم رہا۔ اُس کے استبدادی طرزِ حکومت کی شکایات بادشاہ تک پہنچیں، جبکہ محمد خان سدوزئی کے لیے ایک تقریری چاہی گئی۔ یہ شخص ملتان کے نواب مظفر خان کا کزن تھا، اُس کے لیے وہ کچھ عرصہ ملتان کا گورنر بھی رہا اور بادشاہ مطمئن تھا۔ چنانچہ جلد ہی ایک سند جاری کی گئی جس میں محمد خان نواب اور کلور کوٹ سے محمود کوٹ اور دریائے سندھ سے دریائے چناب تک سندھ – سندھ ساگر دو آپ کا گورنر تعینات کیا گیا۔ محمد خان نے ابھی اقتدار سنبھالنا تھا، لیکن یہ کام لڑائی کے بغیر نہیں ہونا تھا۔ لیہ کے قریب اُس کا سامنا عبد النبی سے ہوا اور لڑائی میں ابتدائی طور پر سرائے کا پلڑا بھاری رہا اور نواب کے لوگ بھاگ گئے۔ نواب محمد خان خود بھی یہ کہتے ہوئے بھاگنے کو تیار تھا کہ ”فوج کے بغیر بادشاہ کیا کرے؟“ لیکن جمعدار نے اُسے روکتے ہوئے کہا، ” بھاگنے سے تو بہتر ہے کہ مرجائیں۔ آخر کار اس نے اپنی فوج کو مجتمع کیا اور دریں اثنا کچھ لبا نے بھنگ کے ایک کھیت میں سے رینگ کر آئے اور پیچھے سے سراؤں پر حملہ کر کے محمد عارف ابن عبد النبی کو ہلاک کر ڈالا جو لڑائی کی روح رواں تھا۔ سرائے بددل ہو گئے۔ سراؤں کو اپنی املاک سمیٹنے کے لیے ایک دن کی مہلت دی گئی۔ وہ کشتی کے ذریعے جنوب کی طرف اپنے علاقے میں چلے گئے۔

دریائے سندھ کے اس طرف کی تحصیلوں میں انتشار

نواب محمد خان کی آمد سے قبل افرا تفری کے دور میں علاقے بھر کے سرکردہ افراد خود مختار سردار بن گئے تھے۔ نواب انھیں آہستہ آہستہ اپنی اطاعت میں لایا۔ کچھ صورتوں تو اسے خاصی مشکلات کا سامنا بھی ہوا۔ نواب نے واں بھچر اس (میانوالی میں ) کے لوگوں کو مطیع بنایا اور بعد ازاں ملک خان محمد کے ماتحت ٹوانوں پر حملہ کر کے انھیں شکست دی اور نور پور کو لوٹا۔ البتہ نواب نے ٹوانہ علاقے پر قبضہ برقرار نہ رکھا۔ یہ ملتانی پٹھانوں اور ٹوانوں کے درمیان تنازعے کا ماخذ تھا۔ مشہور و معروف ملک فتح ٹوانہ ( جس نے الحاق سے عین پہلے کے سالوں میں ڈیرہ اسماعیل خان کی تاریخ میں سر کردہ کردار ادا کیا) اسی ملک خان محمد کا بیٹا تھا نواب نے دیوان مانک رائے کو بھی سندھ پار خسوروں کے خلاف بھیجا جنھوں نے بلوٹ کے ایک مقدس سید کو قتل کر ڈالا تھا۔ خسوروں کو شکست ہوئی اور نواب نے ان کے علاقے پر قبضہ کر کے وہاں ایک قلعہ تعمیر کروایا۔

نواب محمد خان کا شہزادہ ہمایوں کو پکڑنا

دریں اثنا تیمور شاہ 1793ء میں مر گیا۔ اُس کی جگہ زمان شاہ نے لی، تاہم اُس کے عہدے کو شہزادہ ہمایوں نے چیلنج کر دیا۔ 1794ء میں ہمایوں نے زمان شاہ سے بادشاہت بازیاب کرنے کی دوسری کوشش کی، لیکن شکست کھائی اور بھاگ کر ساگر چلا گیا جہاں مشو خان نوتکانی (ساگر کا سردار) نے اس کی مدد کی اور وہ اسے ڈیرہ فتح خان میری سے پارلیجانے میں کامیاب ہو گئے۔ والیہ پہنچا اور ایک کنوئیں پر رکا جہاں اُس نے چند گنوں کی قیمت ادا کرنے کے لیے ایک اشرفیاں دیں تو کچھ لوگوں کا ماتھا ٹھنکا۔ خبر نواب محمد خان کے کانوں تک پہنچی جو اُس وقت لیہ میں ہی تھا۔ نواب کو شک گزرا کہ یہ ضرور شہزادہ ہمایوں ہو گا، کیونکہ زمان شاہ نے اُسے گرفتار کرنے والے کے لیے انعامات کا اعلان کر رکھا تھا۔ چنانچہ اُس نے کچھ گھڑ سوار ساتھ لیے اور لیہ سے کوئی پندرہ میل دور تھل میں ایک کنوئیں پر ہمایوں کو جالیا۔ ہمایوں کے ساتھ میں تھیں گھڑ سوار تھا جنھوں نے ایک آخری کوشش کی۔ ہمایوں کا کمسن شہزادہ مارا گیا اور ہمایوں کو قید کر کے لیہ میں لایا گیا۔ نواب نے فوراً بادشاہ زمان شاہ کو ہمایوں کو گرفتار کیے جانے کی اطلاع بھجوائی جس نے ہمایوں کی آنکھیں اور اُس کے ساتھیوں کی انتریاں نکلوانے کا حکم جاری کیا۔ اُس نے نواب کو سر بلند خان کا خطاب، ڈیرہ اسماعیل خان کی حکومت(پہلے سے حاصل علاقے کے علاوہ) بھی عطا کی۔ بادشاہ کے احکامات پر لیہ میں عمل ہوا۔ شہزادہ ہمایوں کے سزا پانے والے خادموں میں فتح خان بار کزئی کا ایک بھائی بھی تھا۔ ہمایوں نے اپنی باقی
زندگی قید خانے میں گزاری۔

پٹھان قبیلوں کو مطیع کرنے کی کوششیں

ڈیرہ کا صوبہ ، جس کا اب محمد خان گورنر بن گیا تھا، خسور رینج سے ساگر علاقے تک پھیلا ہوا تھا اور اس پر نوتکانی سردار کا راج تھا۔ سارے مکل واد نے فور انٹے نواب کی اطاعت اختیار کرلی۔ البتہ پٹھان قبیلوں سے آباد علاقوں نے ایسا نہ کیا۔ یہ قبائل بادشاہ کو گھڑ سواروں کا ایک دستہ یا خدمت کی بجائے نقد ادائیگی کرنے کے پابند تھے۔ بادشاہ نے سارے دامان میں ہندوؤں پر جزیہ بھی لاگو کیا۔ پٹھان قبائل ریونیو ادا کرنے کے علاوہ بالکل خود مختار رہے اور اُن کا اپنا مقامی حاکم تھا۔ محمد خان نے میاں خیلوں کو مطیع بنانے کی ایک کوشش کی، اُن کے بہت سے دیہات پر قبضہ کر لیا اور خان کو بھاگنے پر مجبور کیا لیکن بھگوڑا خان اپنے دشمن گنڈا پوروں کے پاس گیا اور داخلی حسد در قابت کے با وجود قبائل عظیم سرور خان کی زیر قیادت جمع ہو گئے اور نواب کو اپنا منصوبہ ترک کرنا پڑا۔ تاہم، جب درانی بادشاہت ٹوٹنا شروع ہوئی تو محمد خان کی طاقت بڑھتی چلی گئی۔ آخر کار 1813ء میں اُس نے دیوان مانک رائے کی زیر قیادت گنڈا پوروں کے خلاف ایک بڑا دستہ بھیجا اور تدی (Maddi) میں اُنھیں شکست دے کر کلاچی قصبہ جلا ڈالا۔ گنڈا پوروں پر ایک جرمانہ عائد کیا گیا اور وہ اس کی ادائیگی میں ناکام ہوئے تو انھیں اُن کے تمام مشرقی دیبات سے محروم کر دیا گیا۔ بعد ازاں دیوان مانک رائے نے اسی طریقے سے میاں خیلوں کی سرحدوں کو درست کرنے کا عمل شروع کیا اور محمد خان کی وفات سے پہلے تمام دامان (ماسوائے ٹانک) پر اُس کی حکومت کچھ حد تک قائم ہو گئی تھی۔ ٹانک کے خلاف اُس کی کاوشوں کو سرور خان نے ناکام بنایا جو اُس کے قریب آنے پر آس پاس کے علاقے میں پانی چھوڑ دیا کرتا تھا۔ نواب محمد خان کے ہیڈ کوارٹرز منکیرہ و بھکر میں تھے ، اور ایک نائب
رینہ اولاد نہ تھی اور داماد کے ذریعے ڈیرہ پر حکومت کرتا تھا۔ 1815ء میں وہ فوت ہو گیا۔ اُس کی نرینہ اولاد نہ کی حافظ احمد خان جانشین بنا۔

نواب حافظ احمد خان، 1825-1815ء

محمد خان بلاشبہ عظیم کردار کا حامل شخص تھا اور اُس کے جیتے جی سکھ لیہ کے علاقوں پر حملہ کرنے سے گریزاں رہے۔ اس کی موت کے فوراًبعد اُس کے جانشین حافظ احمد خان سے خراج کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے انکار پر خان گڑھ اور محمود کوٹ کے قلعوں پر سکھوں نے قبضہ کر لیا اور قرب وجوار کی مسلمان آبادی پر سنگین مظالم توڑے، یہاں تک کہ حافظ احمد خان نے بڑی رقم ادا کر کے سکھ گیریژن کی واپسی ممکن بنائی اور اپنے قلعے بازیاب کیسے ، نیز لوٹے گئے مال کا کچھ حصہ بھی واپس لیا۔ اس کے بعد سکھ حکومت نواب سے ہر قسم کے مطالبات کرتی رہی۔ دیگر چیزوں کے علاوہ رنجیت سنگھ اگر کسی گراں قدر گھوڑے کے متعلق سنا تو اسے اپنے قبضے میں لینے کا خصوصی طور پر شوقین تھا۔ اُس نے نواب سے اُس کے کچھ پسندیدہ گھوڑے چھین لیے۔ 1818ء میں نواب مظفر خان کی بہادرانہ مدافعت کے باوجود ملتان پر سکھوں نے قبضہ کر لیا۔ نواب حافظ احمد خان نے جدوجہد می اپنے بھائی نواب اور عزیز و اقارب کا ساتھ دیا۔

منکیرہ کے نواب کا عیسی خیل اور میانوالی پر قبضہ کرنا (1818ء)

دریں اثنا انیسویں صدی کے آغاز پر ان سابق باج گزاروں مگر اب خود مختار شہزادوں کے در میان علاقے کے لیے عمومی تگ و دو میں نواب حافظ احمد خان 1818ء میں میانوالی میں دریائے سندھ کے اس طرف والے علاقے کے ساتھ ساتھ عیسی خیل کا الحاق کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اس کے افواج نے ریونیو کلکٹر دیوان مانک رائے کے ہمراہ مروت پر چڑھائی کی۔ لیکن اپنی تسخیر کے ثمرات کا مزہ زیادہ عرصے تک نہ لے سکا۔ 1821ء کے موسم خزاں میں رنجیت سنگھ نے زیادہ سنگین معاملات سے توجہ ہٹا کر اسے مطیع بنانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ اس نے لشکر کے ہمراہ شاہ پور کے راستے دریائے سندھ کے کنارے ڈیرہ اسماعیل کے سامنے ایک مقام تک پیش قدمی کی۔ اُس نے 8000 آدمیوں کا ایک دستہ دریا کے پار بھیجا اور اس پر قصبے کے گورنز دیوان مانک رائے نے ہتھیار ڈال دیے۔ بھکر ، لیہ، خان گڑھ اور موج گڑھ سبھی نے باری باری بلامد افعت اطاعت اختیار کی۔ منکیرہ کی فصیل کچی تھی اور قلعہ پختہ اینٹوں سے بنا ہوا تھا، لیکن صحرا کے وسط میں واقع ہونے کی وجہ سے محفوظ تھا۔ اب وہی ایک باقی رہ گیا۔ فوج کے ایک دستے نے 18 نومبر کو اِس مقام کو زیر کرنے کے لیے پیش قدمی کی۔ بہادر اور جلد باز سردار خان بدوزئی نے نواب کو مشورہ دیا کہ فوراً آگے بڑھ کر سکھوں پر حملہ کر دے۔ میدان میں لڑنا شیر کا اور اپنے سوراخ میں جا چھپنا لو مڑ کا کام ہے۔“ تاہم، نواب کو ترغیب نہ ہوئی اور اُس نے محاصرے کا سامنا کرنے کو ترجیح دی۔ اب سکھوں نے بیلدار منگوائے تا کہ افواج کے پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کچے کنوئیں کھو دیں، اور دریں اثنا پانی اونٹوں اور بیلوں پہ موج گڑھ سے لانا پڑتا تھا۔ 25 نومبر تک کنوئیں تیار ہو گئے اور تب رنجیت سنگھ اپنے مرکزی لشکر کو لے کر منکیرہ گیا اور 26 نومبر کو گھیر او مکمل ہو گیا۔ گولہ باری اگلے دس دن تک جاری رہی، لیکن محاصرہ کرنے والوں کو کوئی نقصان نہ ہوا۔ آخر کار قلعے کی مسجد کا ایک مینار سکھ فائر سے ٹوٹ گیا۔ نواب نے اسے ایک بد شگونی خیال کیا اور سوچا کہ عزت و آبرو کی خاطر کافی کوشش کر لی گئی ہے۔ اس نے تجاویز پیش کیں اور اس شرط پر قلعہ حوالے کرنے پر مان گیا کہ اُسے اپنے اسلحے اور املاک سمیت باہر آنے اور ڈیرہ کے صوبے اور قصبے پر، ایک موزوں جاگیر کے ساتھ قبضہ رکھنے کی اجازت دی جائے۔ رنجیت سنگھ شرائط مان گیا اور اسی کی مطابقت میں قلعے نے ہتھیار پھینک دیے۔ نواب کے ساتھ بہت مہذب سلوک ہوا اور اسے ایک حفاظتی دستے کے ہمراہ ڈیرہ بھجوایا گیا۔ رنجیت سنگھ نے دریائے سندھ کے اس طرف کی تحصیلوں اور ڈیرہ فتح خان علاقہ کا الحاق کر لیا۔ ساتھ ہی اس نے ٹانک اور ساگر کے سرداروں پر خراج عائد کرنے کے لیے دوستے بھیجے۔ منکیرہ قلعے میں ایک گورنر تعینات کیا گیا جو براہ راست سکھ حکومت کے ماتحت تھا اور کبھی بھی مقامی کارداروں کو نہ سونپا گیا۔

عیسی خیل میں رنجیت سنگھ کی پیش قدمی، 1823ء

کبھی نہ مطمئن ہونے والے رنجیت سنگھ نے جو نہی دریائے سندھ کو بطور سر حد حاصل کر لیا، وہ کوہ سلیمان کی طرف پیش قدمی کرنے کا سوچنے لگا۔ 1823ء میں اس نے ایک بڑے لشکر کی قیادت کرتے ہوئے دریائے سندھ پار کیا، عیسی خیل اور مروت میں سے بلامد افعت گزرا، اور بنوں کے نواح تک جا پہنچا۔ لیکن ایک دو ماہ قیام کرنے کے بعد وہ سندھ پار ملک میں ایک گیریژن تعینات کرنے کی کوشش کے بغیر واپس آگیا۔ اب رنجیت سنگھ نے رتن چند کو بھکر اور یہ تحصیلوں کے الحاق کر دہ علاقوں میں زمینی لگان اور راج کور کو کسٹمز کا انچارج بنایا۔ دو سالہ بعد انھیں خراب انتظامیہ اور جبر و استبداد کی وجہ سے معطل کر دیا گیا۔ نارائن داس گوردارا (جس کا خاندان اب بھی منکیرہ کا رہائشی ہے) کو اُن کی جگہ تعینات کیا گیا۔ بھڈ والوں نے تیرنی ادا کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے خلاف بھیجے گئے سکھ دستے کو شکست دی، لیکن انجام کار انھیں سبق سکھایا اور بھاری جرمانہ عائد کیا گیا۔ نارائن داس کی حکومت صد روجہ استبدادی تھی اور جب لوگوں نے رنجیت سنگھ سے شکایت کی تو نارائن داس کے کھاتوں کی جانچ پڑتال کے لیے جنرل مینٹورا کو تعینات کیا گیا۔ نارائن داس نے زہر کھا لیا اور اُس کے بیٹے تیج بھان پر دباؤ ڈال کر تمام خردبرد کردہ رقم جمعہ جرمانہ وصول کی گئی۔ جب اُسے باپ کی جگہ پر تعینات کر دیا گیا؟ لیکن پورا تخمینہ ادا نہ کر سکنے کے بعد اسے ایک سال بعد ہٹا دیا گیا۔ ڈیرہ دین پناہ کا جاگیر دار نواب عبد الصمد بدوز کی گورنر مقرر ہوا (1828ء)۔ اس کا ساگر کے بہد خان کے ساتھ سرحدی جھگڑا تھا، دریائے سندھ کی گزرگاہ میں کچھ زمینوں کے حوالے سے۔ نواب کی افواج بیت بانو میں ہر خان کی فوجوں سے ٹکرائیں، لیکن قائد نفر خان پوپلزئی ( دوچہ خا کا) اور بھنڈ وال گھڑ سواروں کی شجاعت کے باوجود نواب کی باقی افواج بھاگ گئیں، اور متنازعہ علاقہ ہر خان کے قبضے میں ہی رہا۔ اب رنجیت سنگھ نے خوشحال سنگھ خالصہ عبد الصمد خان کا معاون مقرر کیا۔ وہ اپنی افواج کے ہمراہ منکیرہ آیا اور ہد خان کو ساگر سے باہر نکالنے کی کوشش کی اور اُس کا علاقہ 25 ہزار روپے میں عبد الصمد خان کو دے دیا۔ رقم ادا ہونے پر وہ دریا پار کر کے ساگر چلا گیا اور مزید تنگ نہ کرنے کے عوض ہسد خان سے مزید 25 ہزار روپے اینٹھے۔ یوں اُس نے 50 ہزار روپے سمیٹے اور لاہور واپس چلا گیا، اور عبد الصمد خان اور ہد خان کو لڑ کر فیصلہ کرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اس ساری لڑائی اور رشوت بازی نے عبد الصمد خان کو اپنار یونیو (اجاره) ادا کرنے سے باز رکھا، چنانچہ اُس نے اُسے بیچ دیا گیا اور اُس کی ڈیرہ دین پناہ جاگیر ضبط کر لی گئی۔ 1831ء میں راج کو ر کو اجارہ دار تعینات کیا گیا، اور اُس کے بعد خالصہ خزان سنگھ کو ۔ انجام کار 1837ء میں سند سے اس طرف کا سارا علاقہ (میانوالی تک ) ملتان کے سکھ گورنر ساؤن مل کو دے دیا گیا۔ بعد ازاں اُسی کے نام پر بیٹے کرم نارائن اور پوتے وزیر چند نے یکے بعد دیگر حکومت کی۔ ساؤن کل ایک دانا اور قابل گورنر تھا جس نے ریونیو کا انتظام چلانے میں کمال اور زراعت کی عمومی حوصلہ افزائی کی وجہ سے کہیں زیادہ شہرت کمائی۔ اُس کا نام اب بھی سندھ کے اِس طرف کی تحصیلوں میں گھر گھر جانا جاتا ہے۔ وہ 1845ء میں فوت ہوا اور اُس کی جگہ بیٹے مول راج نے لی۔ اس کے فوراً ہی بعد دوسری سکھ جنگ چھڑ گئی اور پھر انگلش حکومت نے پورے علاقے کا الحاق کر لیا۔

میسی تخیل اور میانوالی میں سکھ غلبہ

عیسی خیل تحصیل 1836ء تک بدستور ڈیرہ کے نواب کے ماتحت رہی جب اسے باضابطہ طور پر سکھ بادشاہت میں شامل کر لیا گیا۔ لیکن 1823ء میں رنجیت سنگھ کی مہم جوئی کے بعد دس بارہ سال کے لیے نواب کی حاکمیت محض سائے جیسی تھی۔ 1823 ء سے 1845ء تک مروت اور بنوں پر ہر دوسرے یا تیسرے سال ایک بڑی سکھ فوج حملہ کرتی اور ان مہمات میں سکھ ضرورت پڑنے پر میسنی خیل سے گزرا کرتا تھا، اور اُنھوں نے نواب اور اُس کی حکومت کا بہت کم احترام کیا۔میانوالی تحصیل کے ساتھ سکھوں کا تعلق تیمور شاہ کی حکومت کے اواخر میں شروع ہوا۔ 1793ء میں اُس کی موت سے پہلے سکھ افواج نے متعدد موقعوں پر میانوالی کے زیادہ تر حصے پر چڑھائی کی، اس کے دیہات پر خراج عائد کیا، لیکن 1822ء میں منکیرہ کی شکست تک اس کا مکمل طور پر الحاق اور تصفیہ نہ ہوا۔

سندھ سے اس طرف کی تحصیلوں میں سکھ جاگیریں

یہ تصور نہیں کرنا چاہیے کہ سکھوں کے ماتحت سارے سندھ سے اس طرف کا علاقہ ایک جامع حکومت تشکیل دیے ہوئے تھا۔ اس کا ایک بڑا حصہ جاگیر میں تھا۔ ہر جاگیر دار اپنی جاگیر کی حدود میں عدالتی اور انتظامی اختیار رکھتا تھا اور کاردار پر غیر منحصر تھا جسے ضلع کا خالصہ حصہ پے پر دیا جاتا تھا۔ یہ تقریبا سبھی جاگیر دار غیر رہائشی تھے اور اپنی جاگیروں کا انتظام چلانے کے لیے کارندے (حاکم) مقرر کرتے۔ کم و بیش ان حاکموں کو ایک دوسرے پر لوٹ مار کے لیے حملے کرنے اور مویشی و زمین چرانے کی عادت تھی، یہاں تک کہ ساؤن کل کے دور میں بھی معاملات کافی ابتر تھے۔ یہ جاگیریں زیادہ تر تھل میں تھیں۔ حیدر آباد، خان پور، ڈنے والا، نور پور سبھی سکھ سرداروں کے ماتحت تھیں۔ سیدھانوالا خاندان پینچ کو ٹا علاقے کا مالک تھا جس کا نام اس میں شامل پانچ مرکزی مقامات کی وجہ سے تھا ( ہر ناولی، جنڈ انوالہ سہلاں، کلور اور دریا خان)۔ پانچ کونجا جاگیر 1844ء کے قریب بازیاب ہوئی اور اجارہ پر ساؤن نل کو دی گئی، اور بڑی جاگیروں میں سے کوئی بھی الحاق کے بعد جاری نہ رہی۔ سندھ کے اس طرف کی ساری جاگیریں سکھ حکومت نے دی تھیں، ماسوائے ایک یا دو چھوٹے دیبات کے،جنھیں بحال کر دیا گیا۔

سکھ جنگ کی چنگاری، 1848ء

1847ء میں سر ایچ ایڈورڈز (جو اُس وقت لاہور میں اسٹنٹ ریذیڈنٹ تھے ) کو ان علاقوں کے دورے پر مامور کیا گیا۔ وہ ڈیرہ فتح خان میں موجود تھے جب اپریل 1848ء میں انھوں نے دوسری سکھ جنگ شروع ہونے کی خبر سنی۔ انھوں نے فوراً دریا پار کیا اور لیہ پہنچے، لیکن دیوان مول راج کے بھیجے ہوئے ایک دستے کی پیش قدمی کے باعث اُنھیں پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اگلا مہینہ لیہ کے نواح میں جنگی چالوں اور جوانی چالوں میں گزرا۔ دریں اثنا ایڈورڈز نے زیادہ تر ماتانی پٹھانوں اور گندابی ، اشترانہ اور دیگر سرحد قبائل کے افراد پر مشتمل مخلوط فوج جمع کی۔ 21 مئی کو انھیں خبر ملی که Van Cortlandt کی زیر قیادت دریائے سندھ کے دائیں کنارے کے ساتھ ساتھ بھیجے ہوئے ایک دستے نے ڈیرہ غازی خان پر قبضہ کر لیا ہے۔ تب وہ ملتان کی جانب بڑھا۔ پیش قدمی کے دوران اُس نے کنیری اور سروزام کی لڑائیاں لڑیں جن میں اُس کے لیویز نے زبر دست بہادری دکھائی۔ اٹھی دستوں نے ملتان کے محاصرے میں حصہ لیا جس کی قیادت جنرل Whish کر رہے تھے۔ 22 جنوری 1849ء کو ملتان پر قبضہ ہو جانے پر زیادہ بڑی تعداد کو فارغ کر دیا گیا اور وہ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔ تاہم، ایڈورڈز والے دستے کے دو ہزار لیویز سرکاری ملازمت میں واپس آگئے اور سب سر کردہ سرداروں کو کافی اچھی پنشن ملی۔

پنجاب کا الحاق، 1849ء

29 مارچ 1849ء کو پنجاب کا الحاق ہو گیا اور اب میانوالی ضلع میں شامل علاقے با قاعدہ طور پر برطانوی سلطنت کا حصہ بن گئے۔ اس کے فوراً بعد ہونے والی صوبے کی تنظیم سازی میں لیہ اور ڈیرہ اسماعیل کے اضلاع بنائے گئے۔ عیسی خیل تحصیل اور مروت کو ڈیرہ اسماعیل خان ضلع میں ڈال دیا گیا، جبکہ سندھ کے اس طرف کی تحصیلوں (ماسوائے ضلع میانوالی کے کوہ نمک سے مشرق والے حصے کے جو اُس وقت ضلع جہلم کا حصہ تھا) کو یہ ضلعے میں شامل کیا گیا۔ الحاق کے وقت سے لے کر 1857ء کی بغاوت تک خطے کی تاریخ میں کوئی بڑا واقعہ نہ ہوا۔

غدر، 1857ء

1857ء کے واقعات کا مندرجہ ذیل بیان پنجاب میونٹی رپورٹ سے لیا گیا ہے: اس ضلعے میں بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے دو سٹیشنوں پر پنجاب انفنٹری کی دور جمنٹیں، دو پنجاب کیلوری، دو پنجاب بیریز ، ایک سکھ انفنٹری رجمنٹ، ایک بہت کمزور پولیس بٹالین اور 180 پولیس گھڑ سوار تھے۔ ان میں سے بہت سے دستوں کو فور آپشاور ، جہلم وغیرہ جانے کا حکم دیا گیا اور دو دن کے لیے، ڈیرہ اسماعیل خان سے تیسری سکھ انفنٹری کے آجانے تک بنوں سٹیشن کو صرف پنجاب آرٹلری کی ایک بیٹری اور علاقے کے باشندوں نے ہی محفوظ رکھا۔ ڈپٹی کمشنر کیپٹن Coxe کا کہنا ہے کہ اس تجربے کو طول دینا خطرناک ہو سکتا تھا۔“ افواج کی تیز پیش قدمی نے بنوں کے تاجروں میں عارضی ہلچل پیدا کی۔ کیپٹن Coxe نے پھاٹک بند کر دیے اور لوگوں کو سمجھا کر اُن کا خوف دور کیا۔ پریشانی کی ایک نئی وجہ جہلم سے مشکوک 39m Native انفنٹری کی آمد پر پیدا ہوئی۔ کیپٹن Coxc نے محسوس کیا کہ اُن کی موجودگی چھ سات سو ملتانی گھڑ سواروں کے آجانے تک خطرے کا باعث ہے جو ڈیرہ اسماعیل خان میں اکٹھے کیے گئے تھے ۔ 139h Native انفنٹری کو 14 جولائی کو خاموشی سے غیر مسلح کر دیا گیا۔ اس سے تین دن قبل تھر ڈسکھ انفنٹری کی کمانڈ کرتے کیپٹن Renny نے ڈپٹی کمشنر کو خبر دی تھی کہ ان کی رجمنٹ کے 113 ہندوستانیوں میں تمام افسروں کو قتل کرنے ایک سازش تیار کی جاری تھی۔ ان 113 افراد کو اسی شام غیر مسلح کر کے بعد ازاں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ ان کی سازش کامیاب نہ ہو سکی، اگر چہ اس بارے میں بہت کم شک ہے کہ سازش واقعی تیار کی گئی تھی۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں 39h Native انفنٹری کے درمیان ایک اور سازش کی رپورٹ ملی جس کا مقصد قلعے پر قبضہ کرنا تھا۔ جب میانوالی میں Irrregular Cavalry 9 کے اس حصے کی بغاوت کی اطلاع کیپٹن Coxe پہنچی تو وہ ملتانی بارس کا ایک دستہ لے کر دریائے سندھ کی طرف بڑھے اور 17 گھنٹے میں 60 میل کا سفر طے کر کے سارے علاقے کو ضرورت پڑنے پر اُن کے خلاف کارروائی کی تحریک دلائی اور ایکسٹرا اسٹنٹ کمشنر مسٹر Cowman کو فالواپ رکھنے کے لیے روانہ کیا۔ اُن کے دستے نے کپٹن Hockin کی پارٹی کے ساتھ مل کر عمل کرتے ہوئے تباہ کن کارروائی کی۔ اس عرصے کے دوران سرحدی قبائل عادت کے مطابق شورش پر مائل رہے، لیکن چیف کمشنر کے
بھجوائے ہوئے ایک متحرک دستے کی موجودگی نے اُنھیں علاقے میں لوٹ مار سے باز رکھا۔ ضلع لیہ بہت پر سکون رہا۔ غدر کے حوالے سے بس ایک دو ہلکی سی سزائیں ہی دی گئیں۔ ایک موقعے پر کیپٹن Hockin کی زیر قیادت 17th Irregular کیولری کے ایک ونگ کی آمد پر کافی ہلچل پیدا ہوئی۔ ستمبر میں جب کھرل شورش پھوٹی تو کیپٹن Hockin نے باغیوں کے خلاف پیش قدمی کی اور اپنے چالیس آدمی لیہ میں ہی چھوڑ گئے جن پر شک تھا۔ ان کی روانگی سے ایک روز پہلے خبر لیہ پہنچی کہ میانوالی میں ساری 9ah Irregular کیولری نے بغاوت کر دی ہے۔ کیپٹن فینڈال کا کہنا ہے: ”یقینا میں نے پہلے سوچا کہ یہ سارے ملک کو بھڑ کانے کے لیے ایک گہری سازش ہے، کہ gah Irregular کیولری ڈیرہ اسماعیل کے سامنے ظاہر ہو گی، 39eh Native انفنٹری بھی ساتھ مل جائے گی اور لیہ کی طرف آکر 17 لائٹ کیولری کے ونگ کو ساتھ لے گی اور گو گیرا کی جانب جائے گی تاکہ قبائل کا ساتھ دے سکے اور پھر ملتان کی طرف بڑھے (جہاں دیسی انفنٹری کی دو مشتبہ رجمنٹس موجود تھیں۔ یہ قابل عمل تھا اور عارضی طور پر زیریں پنجاب ہمارے ہاتھ سے نکل جاتا۔ “ لیکن یہ خوفناک اتحاد عمل میں نہ آیا۔ اطلاعات مبالغہ آمیز ثابت ہوئیں۔ 9th Irregular کیولری کے غدریوں (جو عجیب بات ہے کہ سبھی تلج سے اس طرف کی ریاستوں سے تعلق رکھتے تھے اور اُن کی تعداد صرف 30 تھی) کو ایکسٹرا اسٹنٹ کمشنر لیہ مسٹر تھامسن نے ایک کٹھن لڑائی میں نیست و نابود کر دیا اور خود بھی شدید زخمی ہوئے۔ اُن کا بہادرانہ طرز عمل قابل ذکر ہے۔
الحاق کے بعد سرحدوں میں رد و بدل 1860ء تیک بھکر تحصیل دریا خان کے نام سے جانی جاتی تھی جو اس کا سابق ہیڈ کوارٹرز سٹیشن تھا۔ الحاق ہونے پر اس میں شامل خطہ پرانی منکیرہ اور دریا خان تحصیلوں میں منقسم تھا۔ 54-1853ء میں منکیرہ تحصیل ختم کر دی گئی، خوشاب تعلقہ شاہ پور میں منتقل ہو گیا؛ چوبارہ، نواں کوٹ اور موج گڑھ تعلقے لیہ میں چلے گئے ، بقیہ تحصیل کو دریا خان میں شامل کر لیا گیا۔ پہلاں اور ہر ناؤلی کے تعلقے (جو پر انی دریا خان تحصیل سے تعلق رکھتا تھا) بھی میانوالی میں منتقل ہو گئے جو اس وقت کی تحصیل کہلاتی تھی۔ میٹھا ٹوانہ اور نور پور تعلقے، جنھیں بعد ازاں شاہ میں منتقل کر دیا گیا، میانوالی سے تعلق رکھتے تھے نہ کہ بھکر تحصیل ہے۔ ڈیرہ تحصیل کے چند دیہات ( دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر 1857ء میں بھکر کو منتقل کر دیے گئے۔ ان دیہات کی تعداد 19 تھی اور دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ گشکوری سے لے کر بیت بو گھاتک ایک پٹی تشکیل دیے ہوئے تھے۔ انجام کار بھکر تحصیل مندرجہ ذیل تعلقوں پر مشتمل تھی: کلور ، دریا خان، نواب پور (نجاں)، کوٹلہ ، بھکر ، چینا، چونگ (شیخانی)،
نو تک، بیہل ، پیر اشب، خان پور ، جنڈاں والا، ڈنے والا، منکیرہ اور حیدر آباد۔ یکم جنوری 1861ء کو ضلع لیہ ختم کر دیا گیا اور بنوں ( انتہائی شمالی ضلع) کو ساتھ ملا کر ڈیرہ جات ڈویژن بنایا گیا۔ بنوں، مروت اور عیسی خیل کی دریائے سندھ پار تحصیلیں (جو قبل ازیں ڈیرہ اسماعیل خان ضلع سے تعلق رکھتی تھیں)، ایڈورڈز آباد کے مقام پر ہیڈ کوارٹرز کے ساتھ ، نیز دریائے سندھ سے اس طرف کی میانوالی تحصیل (جو ضلع لیہ کی ایک سب ڈویژن تھی) نے اب نیا ضلع بنوں تشکیل دیا۔ خطے کو پکھر یا کھدری کہا گیا جو کوہ نمک کے مشرق میں واقع ہے۔ 1862ء میں اسے ضلع جہلم سے میانوالی میں منتقل کیا گیا جبکہ نور پور علاقہ کے 18 دیہات میانوالی سے شاہ پور میں منتقل کیے گئے۔ میانوالی اور عیسیٰ خیل تحصیلوں کو ملا کر ایک سب ڈویژن بنائی گئی جس کے ہیڈ کوارٹرز میانوالی میں تھے۔ دوسری طرف لیہ اور بھکر تحصیلوں کو نئے ضلع ڈیرہ اسماعیل میں شامل کر دیا گیا جس کا وہ ایک سب ڈویژن بنیں۔ شمال مغربی سرحد صوبہ پنجاب سے الگ کیے جانے پر ایک اور تشکیل نو ہوئی، اور 9 نومبر 1901ء کو عیسیٰ خیل، میانوالی، بھکر اور لیہ کی چار تحصیلوں سے ضلع میانوالی بنایا گیا۔ اول الذکر دو تحصیلیں ضلع بنوں کی لی گئیں اور مؤخر الذکر دو ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے۔میں نیست و نابود کر دیا اور خود بھی شدید زخمی ہوئے۔ اُن کا بہادرانہ طرز عمل قابل ذکر ہے۔

الحاق کے بعد سرحدوں میں رد و بدل

1860ء تیک بھکر تحصیل دریا خان کے نام سے جانی جاتی تھی جو اس کا سابق ہیڈ کوارٹرز سٹیشن تھا۔ الحاق ہونے پر اس میں شامل خطہ پرانی منکیرہ اور دریا خان تحصیلوں میں منقسم تھا۔ 54-1853ء میں منکیرہ تحصیل ختم کر دی گئی، خوشاب تعلقہ شاہ پور میں منتقل ہو گیا؛ چوبارہ، نواں کوٹ اور موج گڑھ تعلقے لیہ میں چلے گئے ، بقیہ تحصیل کو دریا خان میں شامل کر لیا گیا۔ پہلاں اور ہر ناؤلی کے تعلقے (جو پر انی دریا خان تحصیل سے تعلق رکھتا تھا) بھی میانوالی میں منتقل ہو گئے جو اس وقت کی تحصیل کہلاتی تھی۔ میٹھا ٹوانہ اور نور پور تعلقے، جنھیں بعد ازاں شاہ میں منتقل کر دیا گیا، میانوالی سے تعلق رکھتے تھے نہ کہ بھکر تحصیل ہے۔ ڈیرہ تحصیل کے چند دیہات ( دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر 1857ء میں بھکر کو منتقل کر دیے گئے۔ ان دیہات کی تعداد 19 تھی اور دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ گشکوری سے لے کر بیت بو گھاتک ایک پٹی تشکیل دیے ہوئے تھے۔ انجام کار بھکر تحصیل مندرجہ ذیل تعلقوں پر مشتمل تھی: کلور ، دریا خان، نواب پور (نجاں)، کوٹلہ ، بھکر ، چینا، چونگ (شیخانی)، نو تک، بیہل ، پیر اشب، خان پور ، جنڈاں والا، ڈنے والا، منکیرہ اور حیدر آباد۔ یکم جنوری 1861ء کو ضلع لیہ ختم کر دیا گیا اور بنوں ( انتہائی شمالی ضلع) کو ساتھ ملا کر ڈیرہ جات ڈویژن بنایا گیا۔ بنوں، مروت اور عیسی خیل کی دریائے سندھ پار تحصیلیں (جو قبل ازیں ڈیرہ اسماعیل خان ضلع سے تعلق رکھتی تھیں)، ایڈورڈز آباد کے مقام پر ہیڈ کوارٹرز کے ساتھ ، نیز دریائے سندھ سے اس طرف کی میانوالی تحصیل (جو ضلع لیہ کی ایک سب ڈویژن تھی) نے اب نیا ضلع بنوں تشکیل دیا۔ خطے کو پکھر یا کھدری کہا گیا جو کوہ نمک کے مشرق میں واقع ہے۔ 1862ء میں اسے ضلع جہلم سے میانوالی میں منتقل کیا گیا جبکہ نور پور علاقہ کے 18 دیہات میانوالی سے شاہ پور میں منتقل کیے گئے۔ میانوالی اور عیسیٰ خیل تحصیلوں کو ملا کر ایک سب ڈویژن بنائی گئی جس کے ہیڈ کوارٹرز میانوالی میں تھے۔ دوسری طرف لیہ اور بھکر تحصیلوں کو نئے ضلع ڈیرہ اسماعیل میں شامل کر دیا گیا جس کا وہ ایک سب ڈویژن بنیں۔ شمال مغربی سرحد صوبہ پنجاب سے الگ کیے جانے پر ایک اور تشکیل نو ہوئی، اور 9 نومبر 1901ء کو عیسیٰ خیل، میانوالی، بھکر اور لیہ کی چار تحصیلوں سے ضلع میانوالی بنایا گیا۔ اول الذکر دو تحصیلیں ضلع بنوں کی لی گئیں اور مؤخر الذکر دو ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے۔ ہیڈ کوارٹرز میانوالی میں بنائے گئے، بھکر سب ڈویژن قائم رکھی گئی اور ضلع ملتان ڈویژن میں
شامل کر دیا گیا۔ کیم اپریل 1909ء سے لیہ تحصیل ضلع مظفر گڑھ میں منتقل کر دی گئی، اور ضلع میانوالی اب صرف تین تحصیلوں پر مشتمل ہے جو راولپنڈی ڈویژن میں شامل ہو گیا۔ غدر کے بعد سے ضلع کی تاریخ میں کوئی قابل ذکر واقع نہیں ہوا، ماسوائے گاہے بگاہے سنگین نوعیت کی مسلح ڈکیتیوں کے جو ضلع سے باہر کے لٹیروں نے کیں۔ ضلعے کی خوش حالی میں بتدریج اضافہ ہو تا رہا۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com