میانوالی

میانوالی :میانوالی میں آباد دیگر قبائل

پروفیسر رئیس احمد عرشی

 

                میانوالی میں آباد دیگر قبائل

پروفیسر رئیس احمد عرشی

                                اعوان

لفظ اعوان کی الملا پاک و ہند کے محکمہ مال کے کاغذات میں "آوان” اور ” اعران ” دونوں طرح مرقوم ہے۔ محققین کا ایک طبقہ عربی کے لفظ "عون” جس کے معنی مددگار کے ہوتے ہیں، کو اعوان کا ماخذ بتاتا ہے۔ لفظ اعوان، عون کی جمع ہے۔ مورخین کا ایک گروہ اعوان کی املا کو بشکل ”آوان” درست سمجھتا ہے۔ اور اسے سنسکرت کا لفظ بیان کرتا ہے۔ سنسکرت کے اس لفظ "آوان” کے معانی بھی معاون اور مددگار کے ہوتے ہیں۔ پروفیسر گلشن رائے لفظ آوان کو لفظ آون یا ایون سے مشتق قرار دیتے ہیں۔ وہ شمالی مالوہ کے ایک راجہ کا نام بھی آون بتاتے ہیں اور اعوانوں کے بارے میں آون کی اولاد ہونے کا امکان بھی ظاہر کرتے ہیں۔ بہرحال حقیقت کچھ بھی سی لفظ عون کی معنوی نسبت کو اعوان محققین نے قبیلے کے نام کے لئے دلیل کے طور پر اختیار کر لیا ہے۔

"سب سے پہلے ” اعوان” کا خطاب حضرت علی بیٹھ کی اس اولاد کو ملا جنہوں נגן نے کربلا میں سید الشہداء حضرت امام حسین پیٹھ کا ساتھ دیا۔ یہ خطاب خود حضرت
23 حسین پیچھ نے دیا۔

(1): اعوان مورخین اسم صفت اعوان کی ایک اور وجہ تسمیہ یہ بتاتے ہیں کہ سبکتگین کے جنگی معرکوں میں اعوانوں کی معاونت سے خوش ہو کر سلطان سبکتگین نے انہیں اعوان کا خطاب دیا۔ سلطان محمود غزنوی میٹھے نے اپنے دور سلطان حکومت میں اس خطاب کی تجدید کی۔

یہ تو تھی لفظ اعوان سے متعلق بحث۔ اب آئیے اعوانوں کی اصل کے متعلق بعض نظریات کا ذکر ہو جائے جہاں تک غیر مسلم خصوصا” ہندو اور انگریزمحققین نسبیات کا تعلق ہے تو ان کی تحقیقات اعوان قبیلے کے حق میں اچھے تاثر کی حامل نہیں کہ ان کا زیادہ تر زور اعوانوں کو ہندی النسل یا افغانی النسل ثابت کرنے پر رہا ہے۔

” تاریخ افغانی” کے مولف نے ملک فرعون (حریف موسیٰ) کی اولاد کو اعوان ثابت کرتے ہوئے مصری النسل بیان کیا ہے۔ حالانکہ معتبر روایات یہ ہیں کہ فرعون کی سوائے ایک بیٹی کے اور کوئی اولاد نہ تھی۔ مسٹر برانڈرتھ اعوانوں کو یونانی النسل قرار دیتے ہیں اور سکندر اعظم کے ہندوستان پر حملے کے وقت ان کی برصغیر میں آمد بتاتے ہیں۔ بعض کے خیال میں اعوان ایرانی النسل ہیں جو دار اگستاسب شاہ کے مغربی پنجاب پر حملے کے وقت یہاں آئے۔ ایک گروہ کا اصرار ہے کہ اعوان ترکی النسل ہے۔ جنرل کننگھم کے بقول اعوان اور جنجوع راجپوت ہیں مسٹر ریورٹی انہیں کھڑ اور لکھ ہندوؤں کی نسل قرار دیتے ہیں۔ لیل گریفن ، ہری کرشن کیول اور پروفیسر گلشن رائے بضد ہیں کہ اعوان ہندی النسل
ہیں میانوالی گزیٹیر” (Gazetteer) کے الفاظ ہیں کہ

اعوان غالبا ساتویں صدی میں عربوں کے حملے کے وقت سے یہاں آئے لیکن آیا وہ اصلا” عرب سے ہی آئے ، کافی مشکوک ہے۔ غالب امکانات یہ ہیں کہ وہ مشرق سے ہجرت کر کے آئے اور وہ اصلا” راجپوتوں کی نسل سے ہیں وہ راجپوت جو خود سے کمتر قبائل کے ساتھ شادی بیاہ کے رشتے ناطے ہونے کی بنا پر اپنی نسل کو قائم نہ رکھ سکے (اعوان کہلائے) پکھار (یا پاکھر) کبھی راجپوتوں کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔ جس کی شہادت عمل کی بلند پہاڑی چٹان پر موجود راجہ سرکپ کے قلعے کے کھنڈرات سے آج بھی ملتی ہے۔ پھر روایتی قصے کہانیاں جو اسے (راجہ سرکپ کو سیالکوٹ کے راجہ رسالو سے جا ملاتی ہیں، آج بھی چوپالوں میں گائی جاتی ہیں۔ نیز (یہاں) مختلف وڑھیوں یا قبائلی شاخوں کے سرداروں کے نام مثلا سگ سنگھ نار سنگھ، بھاگ سنگھ وغیرہ ، جو روایتی طور پر ہم تک پہنچے ہیں، سے بھی اعوانوں کے راجپوت الاصل ہونے کے نظریے کو تقویت ملتی ہے۔

(۲): دور جدید کے اعوان محقق غیر مسلموں کے ان نظریات پر سخت چیں بہ جبیں ہوئے ہیں۔ ان کا دعوئی ہے کہ حضرت علی پیٹھ کی تمام غیر فاطمی اولاد اعوان ہیں اعوان نسب نگاروں کی تحقیقات کے مطالعہ سے اعوانوں کی جو نسبی تصویر سامنے آتی ہے۔ اس کی اجمالی تاریخ حسب ذیل ہے۔
حضرت علی بیٹھ نے حضرت فاطمتہ الزہرا کے بعد آٹھ مزید شادیاں کیں۔ جن سے اٹھارہ (بعض روایات کے مطابق انیس بیٹے اور اٹھارہ بیٹیاں تولد ہوئیں ان میں سے صرف تین بیٹوں ، محمد بن الحیفہ پیٹھ ، عمر الا طرف پیو اور حضرت عباس علم دار ہیلو کی اولاد آگے بڑھی۔

عمر بن الحفیہ دی اللہ: کی والدہ ماجدہ عرب کے مشہور قبیلہ حنیف قبیلہ ربیعہ کی ذیلی شاخ سے تعلق رکھتی تھیں۔ جن کا نام خولہ بنت جعفر بن قیس تھا۔ آپ نے محمد بن حنیفہ کے نام سے شہرت پائی۔ "عمدۃ المطالب” کے مولف رقم طراز ہیں کہ "محمد بن حنیفہ پیٹھ حسین پیٹھ کے بعد اولاد امیر المومنین میں سب سے زیادہ افضل تھے”

عمر الا طرف دی اللہ : عمر نام اور اطراف لقب تھا۔ آپ حضرت علی بھٹو کی پانچویں بیوی ام حبیبہ بیٹھو جو صبا کے لقب سے مشہور ہیں، کے بطن سے تھے۔ روایت ہے کہ ”جب سلطان محمود غزنوی نے ملتان (سندھ قدیم) پر حملہ کیا تو اس وقت ملتان کی ریاست پر عمر الاطراف پیٹھ کی اولاد قابض تھی” عبد الحلیم شرر نے اپنی تصنیف تاریخ سندھ میں علویوں (اولاد علی پیٹ ) کی سندھ میں آمد ۱۴۵ھ لکھی ہے۔

حضرت عباس دی ھو بن علی دی تھہ : (۲۶ سے (۶ھ) آپ ام النبین فاطمہ بنت خرم کلابی (بعض کے نزدیک ام حبیبہ ) کے بطن سے تھے۔ حضرت عبد اللہ ہیلو ، جعفر ی ہو اور عثمان پیلو آپ کے سگے بھائی تھے اور تینوں آپ کے ساتھ ہی میدان کربلا میں شہید ہو گئے تھے۔ سلسلہ نسب عباس علم دار کے بیٹے عبداللہ سے جڑ پکڑتا ہے۔ حضرت عباس دیکھ علم دار کی دسویں پشت میں عون بن علی (۴۱۹ھ ۔ ۵۵۶ھ) پیدا ہوئے جن کا لقب قطب شاہ مشہور ہوا۔ شیخ عبد القادر جیلانی پایہ کی خالہ حضرت عائشہ درپیجہ سے ان کا عقد ہوا۔ شیخ عبد القادر جیلانی روایہ ہی کی ایما پر عون قطب شاہ تین سو جانثاروں کے ہمراہ تبلیغ اسلام کی خاطر ہندوستان آئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ عمد حضرت خواجہ معین الدین اجمیری، حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی اور حضرت گنج بخش کا تھا۔ آپ قطب الہند مشہور ہوئے۔

بعض محققین اسی ہستی (عون قطب شاہ) کو قطب شاہی اعوانوں کا جد اعلیٰ تصور کرتے ہیں۔ جب کہ جدید ترین تحقیقات اس کی نفی کرتی ہیں۔ محمد حسین اعوان اپنی کتاب! اعوان! تاریخ کے آئینے میں یہ اصرار دعوی کرتے ہیں کہ قطب شاہی اعوانوں کے جد اعلیٰ قطب شاہ حضرت عباس کے اخلاف میں سے نہیں بلکہ محمد حنفیہ مایہ کی اولاد میں سے ہیں۔ جن کا پورا نام سالار میر قطب حیدر شاه (۵۳۸۵ – ۵۵۵ھ) تھا۔ جو سلطان سبکتگین کی فوج کے سپہ سالار میر عطا اللہ غازی امان شاہ کے بیٹے اور دولت غزنویہ کے نائب السلطنت اور سلطان محمود غزنوی کے بہنوئی امیر ساہو کے چھوٹے بھائی تھے۔ میر عطاء اللہ شاہ دارالخلافہ غزنی میں فوجی خدمات پر مامور تھے جب کہ ان کے تینوں بیٹے میر سا ہو سالار ، میر قطب حیدر شاہ اور میر سیف الدین اکثر بیرونی معرکوں میں برسر پیکار رہے۔ وادی سون سون سکیسر سے لے کر مری کی پہاڑیوں تک جسے پوٹھوار کا علاقہ کہا جاتا ہے اور پھر لاہور سے لے کر دہلی تک کا علاقہ انہی اعوان مجاہدوں کے ہاتھوں فتح ہوا۔

(۳):میر قطب شاہ نے سب سے پہلے دریائے سندھ عبور کر کے سون سکیسر کے راجہ کو شکست دی اس کے بعد پرتھوی راج کپور چوہان (یہ شہاب الدین غوری کے ہاتھوں شکست کھانے والے قنوج کے حکمران پر تھوی راج نہیں) کو شکست دی اور اسے مشرف بہ اسلام کیا۔ پھر کالا باغ کا رخ کیا اور کالا باغ کے نواح دھنکوٹ کے مقام پر راجپوت راجہ کلک کو شکست دی اور اس علاقے میں سلطان محمود غزنوی کی سلطنت کا جھنڈا لہرا دیا ۔

میر قطب شاہ نے چار شادیاں کیں ایک بیوی کا نام بی بی عائشہ تھا جو ہرات (افغانستان) کے علاقے سے تعلق رکھتی تھی۔ دوسری ہندوستانی کھوکھر راجہ کی بیٹی بی بی زینب تھی، تیسری پرتھوی راج کپور چوہان کی بیٹی بی بی خدیجہ تھی جبکہ چوتھی راجپوت راجہ کلک کی بیٹی ام کلثوم تھی ۔۔۔۔۔ آپ کے ان بیویوں سے گیارہ بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ عبداللہ گولڑہ اور محمد کندلان دونوں بی بی عائشہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ مزمل علی کلگان در یتیم جہان شاہ اور زمان علی نے بی بی زینب کی کوکھ سے جنم لیا۔ نجف علی، فتح علی اور محمد علی بی بی خدیجہ سے پیدا ہوئے جب کہ نادر علی ، بہادر علی اور کرم علی کی والدہ بی بی ام کلثوم تھیں۔

سالار قطب حیدر شاہ نے زندگی کا بیشتر حصہ انگہ میں گزارا۔ کچھ عرصہ کالا باغ کے نواح دھنکوٹ میں بھی قیام کیا۔ تاہم آخری ایام اپنے آبائی وطن میں گزارنے کے لئے اپنے دو بیٹوں کے ہمراہ غزنی پلٹ گئے۔ یہاں سے جاتے وقت انہوں نے شاہ پور چکڑالہ ، ایک دھنکوٹ اور اس کے نواحی علاقے اپنے باقی نو بیٹوں میں برابر برابر تقسیم کر دئیے تھے۔ ان کے بیٹے مزمل علی کلگان (بعض اسے معظم علی کلفان لکھتے ہیں) کے حصے میں قلعہ دین کوٹ یا دھنکوٹ کے علاوہ چکڑالہ سکیسر، نمل کالا باغ اور تلہ گنگ آئے۔ مزمل علی کلگان کی ریاست کا صدر مقام کالا باغ تھا۔ کالا باغ کے موجودہ نواب مزمل علی کلگانی کے اخلاف ہیں۔

سالار قطب حیدر شاہ کی اولاد نے قطب شاہی اعوان کا نام اختیار کر لیا۔ سالار قطب شاہ سے پہلے اعوان عموما علوی کہلاتے تھے۔ اعوان لکھاریوں نے حضرت سلطان باہو میجہ (جھنگ) خواجہ شمس الدین سیالوی (سیال شریف) حضرت بابا سجاول مانسہرہ)، حافظ محمد ابراہیم وٹے پٹ (سون سکیسر) اور حافظ قادری ابراہیم ساڑھی والے (سون سکیسر) کو اعوان صوفیائے کرام کی فہرست میں رکھا ہے۔

اعوانانوالہ کے ماہر تعلیم گل حسین اعوان نے اس موضوع پر راقم کو غیر معمولی معلومات فراہم کیں۔ اس اعانت پر میں ان کا حد درجہ ممنون ہوں)

اعوان مصنفین کا زور اس بات پر رہا ہے کہ علویوں (اعوانوں) کی یہاں آمد تبلیغ کی خاطر تھی۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی دعوی کرتے ہیں کہ "محمود غزنوی کے زمانہ میں جب اس نے ملمان و سندھ پر حملہ کیا تو ملتان پر عمر الا طرف پیٹو کی اولاد حکمران تھی۔ اس زمانے میں حضرت علی ہی کی اولاد اپنے آپ کو اعوان نہیں کہلاتی تھی بلکہ زیادہ تر علوی محمودی یا عمری کہلاتے تھے چونکہ یہ حضرت علی پیار کی ہی اولاد سے ہیں اس لئے اعوان کہلانے کے مستحق ہیں۔ ”

(۴):تاریخ شاہد ہے کہ محمود غزنوی اور اس کے باپ ناصر الدین سبکتگین نے جب ہندوستان پر حملے کئے تو اس وقت پنجاب کا حاکم راجہ جے پال ابن اشتمال قوم برہمن تھا۔ سرہند یعنی انبالہ تا پشاور طولا” اور کشمیر سے ملتان تک عرضا” اس کی نور محروسہ ریاست تھی

(۵): اب اگر ان حملوں کے وقت یہاں علوی مبلغین موجود تھے۔ تو سبکتگین اور = محمود غزنوی یہاں کیا لینے آئے تھے۔ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ یا تو علوی یہاں موجود نہیں تھے یا پھر ان کا مشن تبلیغ اسلام نہیں تھا۔ اور وہ یہاں آکر ہندوستانی را جاؤں کو رام کرنے کی بجائے خود رام ہو گئے تھے۔

اعوانوں نے محمود غزنوی اور سبکتگین کی کامیابیوں کا سہرا اعوانوں کے سر باندھا ہے اگر واقعی ایسا ہوتا تو نیازیوں پر انہیں ہر میدان میں برتری حاصل ہونا چاہئے تھی نہ کہ نیازی تاریخ میں اس قدر اہمیت حاصل کرتے۔

اگر تمام غیر فاطمی اخلاف علی بیٹھ اعوان ہیں تو مسلمانوں کی باقی افرادی قوت لا محالہ بنو امیہ یا ان کے معاونین پر مشتمل ہو گی۔ تو کیا ہندوستان پر حملہ کرنے والا کوئی اموی النسل نہ تھا اور اگر تھا تو علوی ان کے ہمنوا اور مددگار کیسے بنے جبکہ شهادت امام حسین کے بعد بنو امیہ اور بنو ہاشم میں بعد المشرقین واقع ہو گیا تھا۔ تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ "دولت ساسانیہ ” کا بانی اسماعیل ساسانی خلافت عباسیہ کا باغی تھا۔ جبکہ سبکتگین کو خاندان ساسانیہ کے نامور سپوت اسحاق بن الپتگین سے حکومت منتقل ہوئی تھی۔ ایسے میں علویوں کا سبکتگین کی مدد کرنا، جیسا کہ اعوان دعوی کرتے ہیں، قرین قیاس نہیں ٹھہرتا۔

اس طرح کے بہت سے نئے نکات اعوانوں کی تحقیقات نے اچھال دیئے ہیں۔ جو ابھی تصفیہ طلب ہیں ہاں یہ ضروری ہے کہ اعوان محققین نے بعض ابہامات کی گرہیں ڈھیلی ضرور کر دی ہیں۔ ممکن ہے کہ مستقبل کا محقق ، اب نسبتا” الجھے ہوئے سروں تک جلد پہنچ پائے۔ المختصر اعوان قبیلے کی اصل نسل کے متعلق حتمی رائے قائم کرنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔

واضح رہے کہ میانوالی ضلع میں اعوانوں کی، اعوانانوالہ، کالا باغ ڈھوک۔

نورشاه کلری، چکڑالہ ناصر خیل ، با خیل ، غازی خیل تھے والی بن حافظ جی ڈھوک علی خان ڈھوک میر محمد ڈھر نکہ ڈھوک ہے خیل، ڈھوک کس گامے خیل ، ڈھوک ڈھر نال پائی خیل، موسیٰ خیل، سمند والا اچھری جیکی نواں بھیجر اس ڈھبہ کر سیال بھی عمل کندیاں اور ڈھوک متال میں کثرت ہے۔

سنبل :

سنبل نیازیوں کی معروف شاخ ہے۔ سنبل اور عیسیٰ خیل، عم زاد قبیلے ہیں اور دونوں نیازی کے منجھلے بیٹے جمال کی اولاد سے ہیں۔ شیر شاہ سوری نے جب ہیبت خان نیازی کو لاہور اور ملتان کا فرمانروا نامزد کیا تو اس نے اپنے بھیجے مبارک خان کو بھی ہیبت خان کی ماتحتی میں کوہستان کے نمک کے اس حصے کا حاکم مقرر کیا جو سجلوں کے زیر تسلط تھا۔ شیر شاہ کی حکمت عملی یہ تھی کہ نیازیوں کے بڑھتے ہوئے سیلاب پر قابو پانے کے لئے ان کی ہمدردیاں حاصل کی جائیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ اس کا بھتیجا مبارک خان ہیبت خان کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکے اور حکومت کے لئے نیازیوں کی طرف سے اگر کوئی خطرہ جنم لے تو وہ پر وقت شیر شاہ کو خبر دار کر سکے۔

مهمان نواز سٹیلوں نے مبارک خان کی آمد پر اس کی بڑی خاطر تواضع کی یہاں تک کہ سنبل قبیلے کے سردار خواجہ خضر جو مکھڈ کے نواح میں اپنے مضبوط قلعے میں مقیم تھا نے اپنا قلعہ مبارک خان کے حوالے کر دیا۔ مبارک خان ایک کثیر زادہ تھا اور اچھے کردار کا مالک نہیں تھا۔ اس نے اللہ داد خان نامی ایک سنیل کی بیٹی کے غیر معمولی حسن کا شہرہ سُنا۔ تو اُس کا ہاتھ مانگے بنانہ رہ سکا۔ سنبل خاندان کی طرف سے چار افراد پر مشتمل ایک وفد مبارک خان کو سمجھانے کے لئے بھیجا گیا۔ مگر مبارک خان اپنی ضد پر قائم رہا۔ یہاں تک کے اس نے اللہ داد خان کی بیٹی کو زبر دستی اٹھا لے جانے کی دھمکی دی۔ جس پر سنیل سرداروں نے مبارک شاہ کو انتہائی سخت الفاظ میں سرزنش کی اور کہا تم ایک لونڈی زادے ہو تم غیرت مند لوگوں کے طور طریقے نہیں جانتے ہو۔ تمہارے لئے مناسب یہی ہو گا کہ اپنی حدود میں رہو۔ اس پر مبارک خان نے اپنے دربانوں کو آواز دی۔ سنیلوں نے جو درباری دستور کے مطابق اپنا اسلحہ باہر چھوڑ کر آئے تھے۔ مبارک خان کو موقع پر ہی قتل کر دیا اور اس کے تمام دربانوں کا بھی کام تمام کر دیا ۔ شیر شاہ سوری کو مبارک خان کے قتل کی خبر پہنچی تو اس نے جیبت خان کو اپنے قبیلے (سنلوں) سے قصاص لینے کا حکم دیا۔ سنبل اس دوران میں کو ہستان نہ میں چلے گئے تھے۔ جیبت خان نے انہیں صلح کا جھانسہ دے کر دعوت پر بلایا اور بدی میدردی سے نو سو سنبل نوجوانوں کو تہہ تیغ کر دیا۔ بچے کچھے سمبلوں نے ہمت نہ ہاری اور بہت جلد دین کوٹ اور اس کے مضافات پر قابض ہو گئے۔

اورنگ زیب کا دور آیا تو سیلوں کو ایک اور دور ابتلا کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک مغل فوجدار کو حملے کے لئے بھیجا گیا۔ جس نے سنبلبوں کو دریائے سندھ کے مشرقی علاقے سے سندھ پارو ھکیل دیا۔ گو سنبلوں نے بعد میں فوجی چوکی پر حملہ کر کے متذکرہ فوجدار کو قتل کر دیا تا ہم ایک اور مغل فوجدار سنیلوں کی سرکولی کے لئے آن پہنچا۔ روایات ہیں کہ اس جنگ میں سوائے چند نفوس کے باقی تمام سنبل سورما بے جگری سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔ اس لڑائی میں مغل حکومت کو اُس زمانے میں دو لاکھ روپے مال غنیمت ہاتھ لگا۔ اس سے اس قبیلے کی مالی مضبوطی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس حملے میں جو بھی سنیل جچ رہے وہ ” مسان” اور "کی” میں رہائش پزیر ہوئے۔ اس قبیلے کے کچھ گھرانے "داؤد خیل” کے مضافات میں آباد ہو گئے۔ جہاں سے وہ مختلف علاقوں میں اقامت پذیر ہوئے۔ دور حاضر میں پائی خیل، حنفی ، سلطان والا ترکھان والا میانوالی، علی والی زبان سنبل اور کندیاں میں سنبلوں کی کثیر افرادی قوت آباد ہے۔

ماضی قریب میں اس خانوادے کے تین بھائیوں شیر خان، احمد خان اور حاجی خان سنبل کا بڑا چر چا رہا۔ شیر خان کے اخلاف نے کندیاں۔ احمد خان کے علی والی اور حاجی خان کے اخلاف نے میانوالی کو جائے مسکن کے طور پر منتخب کیا۔ شیر خان خیلوں میں بڑے بڑے نامی گرامی سردار گزرے ہیں۔ سردار یوسف خان کندیاں اور اُس کے مضافات میں ایک نہایت ہی وقیع اور موثر حیثیت کے مالک تھے۔ ان کے صاحبزادے الحاج خان محمد امیر خان سنبل میانوالی ضلع کی ایک انتہائی سر بر آوردہ اور محترم شخصیت تھے۔ آپ نے اپنے ضلع کے ایک کریم النفس روشن ضمیر۔ خدا شناس اور دوست نو از انسان اور ایک کشادہ دست زمیندار کی حیثیت سے بڑی شہرت پائی۔ آپ نے اپنے پیچھے مداحوں اور جان نثاروں کا ایک انبوہ کثیر چھوڑا ہے۔ آپ کا مزار میانوالی شہر سے گیارہ کلو میٹر کے فاصلے پر سنیل آباد میں آج بھی مر جمع خلائق ہے۔ آپ ہی کی تربیت کا فیضان تھا کہ آپ کے چاروں بیٹے نہ صرف ملازمتوں میں اعلیٰ ترین مناسب پر فائز ہوئے اپنی نجی زندگی میں بھی بے داغ
کردار کے حامل اور دیانت داری کے پیکر مشہور ہوئے۔ بڑے صاحبزادے محمد اقبال خان سنبل پولیس سروس آف پاکستان میں آئی۔ جی پولیس کے عہدے پر پہنچ کر فیڈرل پبلک سروس کمشین کے ممبر کے طور پر مرکزی حکومت کے سیکرٹری کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ آپ کے ایک صاحبزادے بھی سول سروس میں ہیں اور اس وقت اور ڈپٹی کمشنر ایک اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ بریگیڈیئر ڈاکٹر محمد ظفر خان سنبل نے پاکستان آرمی اور ایئر فورس میں بہت سے اعلیٰ عہدوں پر خدمات سر انجام دیں۔ ان کی اعلیٰ کار کردگی کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا۔ ریٹائر منٹ کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو خدمت خلق کے لئے وقف کئے رکھا اور محیثیت ڈاکٹر علاقے کے حاجتمند، نادار مریضوں کی ہر طرح سے بے لوث خدمت کی۔ آپ انسانی همدردی کا پیکر اور ایک ولی صفت انسان تھے۔ آپ کے ایک صاحبزادے جو ڈاکٹر ہیں فوج میں میجر کے عہدے پر فائز ہیں۔

پروفیسر محمد اکبر خان سنبل ایک غیر معمولی اوصاف کی حامل شخصیت ہیں۔ ساری زندگی شعبہ تدریس سے منسلک رہے 18 سال ایک ڈگری کالج کے پرنسپل رہ کر ڈائریکٹر جنرل لا ہر میریز حکومت پنجاب ریٹائر ہوئے۔ شرافت وضع داری استغنا اور زہد و اتقا کے لئے مشہور ہیں۔ آپ کے ہاتھوں تربیت پانے والے بڑے بڑے عہدے داروں کی ایک کثیر تعداد صوبے کے طول و عرض میں پائی جاتی ہے جو آپ کا نام نہایت احترام سے لیتے ہیں۔ آپ کے ایک صاحبزادے فوج میں کپتان کے عہدہ پر فائز ہیں۔
الحاج محمد امیر خان سنبل صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے محمد حیات اللہ خان سنبل سی۔ ایس۔ پی ہو کر بطور ڈپٹی کمشنر کمشنر معوم سیکرٹری ڈائریکٹر جنرل سول سروس اکیڈمی ممبر پبلک سروس کمیشن اور بیچو قسم کے مختلف عہدوں پر فائز رہنے کے بعد سرکاری ملازمت کے اعلیٰ ترین عہدہ سے بطور سیکرٹری حکومت پاکستان ریٹائر ہوئے۔ محمد حیات اللہ خان سنبل نے کم و بیش ملک کے تمام

صوبوں میں ملازمت کی جہاں وہ اعلیٰ ترین عہدوں پر فائزر ہے۔ آپ ایک دیانت دار اور قبیل افسر کی حیثیت سے ملک کے طول و عرض میں نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ آپ کے دو صاحبزادے سول سروس میں ڈپٹی سیکرٹری (ڈپٹی کمشنر ) اور اسٹنٹ کمشنر کے عہدہ پر فائز ہیں۔

حاجی خان کے اخلاف میں بھی نامی گرامی شخصیات نے جنم لیا۔ رسالدار سردار احمد خان نے بڑے فوجی اعزازات پائے۔ تاج برطانیہ کی طرف سے ریٹائر منٹ کے بعد اس صدی کے اوائل میں آنریری مجسٹریٹ کے عہدہ پر فائز رہے۔ کرنل عطاء اللہ خان سنبل کی اولی، معاشرتی اور سیاسی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ اپنے بے داغ کردار کی بدولت وہ عہدوں کے تعاقب میں نہیں نکلے خود عہدے ان کا تعاقب کرتے رہے۔ آپ نے کم عمری ہی میں خود کو قومی خدمت کے لئے وقف کر دیا تھا۔ حکومت کی طرف سے آنریری مجسٹریٹ نامزد ہوئے۔ بعد میں آنریری انسپکٹر کو آپریٹو سوسائٹیز، چیئرمین عشروز کوت کمیٹی (۱۳ سال تک) چیئر مین ضلعی بیت المال کے عہدہ ہائے جلیلہ پر متمکن رہے۔ عمر کے آخری دور میں بھی متعدد سماجی تنظیموں کی جان اور ادبی و سماجی تقریبات کی روح رواں شخصیت رہے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے انہیں بڑی لائق اور صالح اولاد عطا فرمائی۔ ان کے بیٹے محمد افتخار اللہ خان کمشن افسر تھے۔ بلوچستان آپریشن اور بنگال میں مستحسن خدمات انجام دیں۔ ان کے بیٹے حبیب اللہ خان نے بھی اپنے آپ کو فوجی خدمات کے لئے پیش کیا۔ سخت مزاج تھے، چنانچہ کمپنی کمانڈر سے اختلاف کے باعث فوجی حصار سے باہر نکل آئے۔ ان کے تیسرے صاحبزادے محمد عزیز اللہ خان نے کنزرویٹر محکمہ جنگلات کے عہدے پر بھی خدمات انجام دیں۔ حج کے دوران مکہ مکرمہ میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے۔ آپ کے چوتھے سپوت کیپٹن محمد حمید اللہ خان شہید تھے ۔ 1965 ء کی پاک بھارت جنگ میں انہوں نے مثالی خدمات انجام دیں۔ ماہنامہ حکایت کے شمارہ اکتوبر 1993 میں عنایت اللہ نے ان کی ہوش ربا جراتوں کی داستان تحریر کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ آپ نے 11 ستمبر 1965 کو جام شہادت نوش کیا۔

انیسویں صدی میں بھی سنبل خانوادے میں نامی گرامی ہستیوں کا ذکر ملتا ہے۔ محمد خان سنبل صاحب نے انیسویں صدی کے آخری ربع میں علیگڑھ یونیورسٹی سے فی ۔ اے۔ ایل ایل بی کیا۔ میانوالی چونکہ اس وقت تک ضلع نہیں بنا تھا۔ اس لئے خان صاحب موصوف نے وکالت کی ابتدا جہلم ضلع سے کی۔ 1901 میں جب میانوالی کو ضلع کا درجہ عطا ہوا تو آپ نے اپنے ضلع میں وکالت شروع کی۔ اس دور میں میانوالی کے بار میں ایک آدھ کو چھوڑ کے بھی وکلاء ہندو یا سکھ تھے۔ خان صاحب نے اس دور میں ایک انتہائی اعلیٰ پائے کے وکیل اور عالم دین کی حیثیت سے بہت نام پایا۔ بیسوی صدی کے اوائل میں آپ کے صاحبزادے خان محمد اسلم خان سنبل نے بھی علیگڑھ یونیورسٹی سے ہی لی۔اے۔ ایل ایل بی کیا اور ایک طویل مدت تک میانوالی بار میں ایک نامی گرامی وکیل کی حیثیت سے مشہور رہے۔ محمد صلاح الدین خان سنبل ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر لاہور اور طارق محمود خان سنبل محمد شوکت خان سنبل مرحوم کے صاحبزادے اور جناب محمد خان سنبل صاحب وکیل مرحوم کے پوتے ہیں۔

اسی طرح ظفر عالم خان سنبل سیکریٹری آرمی ویلفیر ٹرسٹ جناب محمد اسلم خان
سنبل وکیل مرحوم کے پوتے ہیں۔

 

نوٹ: یہ مضمون ڈاکرڈ لیاقت علی خان نیازی کی کتاب ” تاریخ میانوالی (تاریخ و تہذیب) سے لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com