قیام پاکستان کے بعد امیر عبداللہ خان روکھڑی نے مہاجرین کی آباد کاری میں بھر پور معاونت کی۔ آپ ضلع کونسل میانوالی کے پہلے غیر سرکاری چیئر مین بلا مقابلہ منتخب ہوئے اور یہ چیئرمینی ۱۹۵۸ء تک رہی۔ صوبائی حلقہ نمبرا میانوالی سے ۱۹۴۶ء میں پہلی مرتبہ مسلم لیگی ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ آپ کے مقابلہ میں امیر عبداللہ خان پہلاں نے انتخاب لڑا اور پھر کئی مرتبہ آپ ایم پی اے منتخب ہوتے رہے۔
بعد ازاں آپ ممبر قومی اسمبلی اور سینیٹر بھی منتخب ہوئے۔ آپ نے علاقائی تعمیر و ترقی میں بہت کام کیا آپ کو تحریک پاکستان ایوارڈ ملا ہے۔ آپ کے بعد آپ کے بھانجے گل حمید خان روکھڑی چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل اور ایم پی اے منتخب ہوئے وہ صوبائی وزیر بھی رہے ہیں۔ بعد میں موصوف روکھڑی صاحب کا اکلوتا صاجزادہ عامر حیات خان ایم پی اے اور ایم این اے منتخب ہوا۔ غرضیکہ روکھڑی خاندان نے کسی نہ کسی شکل میں علاقائی خدمات سرانجام دے کر اپنا مقام پیدا کیا۔ نو میر۱۹۴۷ء میں بھارت سے ہجرت کے بعد ہی میرا ان مسلم لیگی حضرات ے قریبی واسطه و رابطہ ہو گیا تھا۔ جن میں نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان امیر عبداللہ خان روکھڑی ، ڈاکٹر نور محمد خان، ملک اور نگ زیب جھمٹ، برخوردار خان ایڈووکیٹ، حکیم عبدالرحیم خان، ملک فتح شیر جھمٹ، ڈاکٹر محمد عظیم خان موصوف بالا را نا رحمت علی ، ولی داد خان عیسیٰ خیل، غلام سرور خان بلوچ، مولوی اکبر علی مخدوم، سردار خان و ته خیل، میجر غلام شبیر، ڈاکٹر عبدالکریم خان خنگی حبیب اللہ خان مستی خیل، امیر عبداللہ خان یا رو خیل، میجر غلام حسن خان پنوں خیل ایڈووکیٹ، غلام محمد خان نیازی، محمد اکبر خان میانہ احمد گل خان، میجر ظفر اللہ خان شیرمان خیل ، مولانا احمد الدین گانگوی صاحب، مولانا عبد الستار خان نیازی، محمد افضل خان ڈھانڈلہ وغیرہ شخصیات شامل ہیں۔ ان تمام حضرات نے تحریک پاکستان اور تعمیر پاکستان میں بھر پور تاریخی کردار ادا کیا ہے۔
میجر ظفر اللہ خان شیرمان خیل بھی اپنے وقت کے سرکردہ مسلم لیگی رہنما ہیں۔ اپنی خدمات کی بدولت ۱۹۴۶ء میں صدر ٹی مسلم لیگ میانوالی منتخب ہوئے۔ موصوف بڑے ہی جوش و جذبہ جرات و جسارت کے پیکر ہیں، آپ نے تحریک پاکستان میں اپنی بھر پور صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ وہ ۱۹۵۰ء میں پاکستان نیشنل گارڈ کے آنریری میجر بنے۔ کرکٹ کا عالمی کھلاڑی عمران خان آپ کا حقیقی بھتیجا ہے۔ عمران خان نے پاکستان بھر کے واحد کینسر ہسپتال لاہور کی تعمیر شروع کی ہے۔ موصوف کے بڑے بھائی کرنل فیض اللہ خان قائد اعظم اہلیہ کے باڈی گارڈ دستے کے انچارج رہے ہیں آپ کے چھوٹے بھائی امان اللہ خان ایڈووکیٹ سال ہا سال ضلع مسلم لیگ میانوالی (کونسل) کے صدر رہے ہیں۔
موصوف کا تمام خاندان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نظریہ پاکستان پر کامل یقین رکھتا ہے۔ ایک مرتبہ ڈاکٹر نور محمد خان صاحب سے جولائی ۱۹۴۹ء میں ذاتی کام کے لئے میرا واسطہ پڑا۔ مجھے ضلع میانوالی سے بحیثیت سکاؤٹ پاکستان کی نمائندگی کے لئے بین الاقوامی سکاؤٹ رووموٹ (اجتماع) میں ناروے اور انگلینڈ جانا تھا۔ اس لئے میڈیکل فٹنس سرٹیفکیٹ بنوانے کے لئے موصوف ڈاکٹر نور محمد خان کی خدمت میں حاضر ہوا اور اظہار مدعا کیا تو مطلوبہ سرٹیفکیٹ انہوں نے بنا دیا۔ میں فیس دینے لگا تو موصوف اس میں سو روپے مزید شامل کر کے میری جیب میں ڈالنے لگے۔
میں نے ان کا ہاتھ پکڑا تو فرمانے لگے کہ "آپ میرے . ے مہاجر بھائی ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ آپ ضلع کی طرف سے نمائندگی کے لئے یورپ جا رہے ہیں۔ میرا حصہ بھی شامل کر لیں۔” میں نے شکریے کے ساتھ عرض کیا کہ جناب یہ سرٹیفکیٹ ہی آپ کا یادگار حصہ ہے میں نے کل رقم واپس کر دی اور انہوں نے میری فیس کی رقم تھیں روپے مجھے مرحمت فرما دی۔ موصوف مرحوم کا وہ سرٹیفکیٹ آج تک میری ذاتی فائل کی زینت ہے۔ کبھی دیکھتا ہوں تو ان کی بے ساختہ یاد آتی ہے۔ آپ نیازی پٹھان خنکی خیل قبیلہ سے تھے۔ تحریک پاکستان میں مردانہ وار یادگار خدمات انجام دی ہیں۔ مہاجر کیمپوں میں بھی مفت طبی خدمات انجام دیتے رہے۔ انتہائی مخیر ڈاکٹر تھے۔ سادہ مزاج خوش وضع قطع کے انسان تھے۔
میجر غلام حسن تحریک پاکستان کی فعال شخصیت تھے۔ نہایت ذہین، مدیر دور اندیش انسان تھے۔ ۱۹۲۴ء سے ۱۹۳۹ء تک میانوالی میں وکالت کرتے رہے۔ اپنے دور کے نام ور وکیل تھے۔ کئی سال تک میونسپل کمیٹی میانوالی کے وائس پریذیڈنٹ رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج میں شامل ہو گئے۔ بعد ازاں ریٹائر ہو کر ملی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا ۔ ۹۵۹ یا۔ ۱۹۵۹ء میں اس دار فانی سے عالم جاودانی کو سدھار گئے۔ وہ بڑے مشفق اور رفیق طبع شخصیت تھے۔ نیازی پٹھانوں کے پنوں خیل قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ تمام قبیلہ کے لوگ نہایت تعلیم یافتہ اور نام در ہیں۔
ملک فتح شیر جھمٹ دلے والہ کے ذیلدار اور بڑے زمیندار تھے۔ تحریک پاکستان میں بڑا ہی یادگار کردار ادا کیا۔ ۱۹۴۶ء میں آپ نے مسلم لیگی صوبائی امیدوار امیر عبداللہ خان روکھڑی کے انتخاب میں ان کا بھر پور ساتھ دیا تو اس وقت کے افسران نے آپ کو مسلم لیگ کی امداد کرنے سے منع کیا۔ اس پر آپ نے ذیلداری سے استعفیٰ دے دیا۔ پھر تمام پولنگ سٹیشنوں کے انچارج بن کر مسلم لیگ کی انتخابی مہم کو کامیاب کرایا ۔ ۱۹۴۶ء میں ہی آپ ضلع مسلم لیگ میانوالی کے صدر نتخب ہو گئے تھے۔ نہایت ہی بیباک محرر و مقرر ہیں۔ لکھنے پڑھنے میں بڑے ہی تیز طرار فشی قسم کے آدمی تھے۔
موصوف ملک صاحب صوبائی اسمبلی پنجاب کے نمبر بھی رہے ہیں۔ ان کا بڑا لڑکا ملک اور نگ زیب ممبر ڈسٹرکٹ کونسل نہایت مستعد اور فعال مسلم لیگی اپنے والد مغفور کی روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ نظریہ پاکستان کا زبردست حامی ہے۔ محمد برخوردار خان ایڈووکیٹ مسلم لیگی شخصیت تھے۔ تحریک پاکستان کے سرگرم جوشیلے، سنجیدہ و فهمیدہ کارکن تھے ۔ دوران انتخابات ہر مسلم لیگی امیدوار کے بغیر فیس وکیل بنتے تھے ۔ ن میں بھی ان کا مشکور ہوں کہ میرے ہر انتخاب بلدیہ میں مجھے اپنی قانونی معاونت و مشاورت سے نوازا، میری سماجی و جماعتی تربیت میں امیر عبد اللہ خان روکھڑی ، ملک فتح شیر جھمٹ اور نواب کالا باغ کے علاوہ موصوف کا بھی گہرا تعلق ہے۔ نظریہ پاکستان پر ایمان رکھنے والے اور ہر کسی کے دوست
تھے۔
یوں تو جینے کو بھی جیتے ہیں اپنے واسطے
ہے عبادت گر جیں ہم دوسروں کے واسطے