میانوالی کے کئی نام ہیں۔ تاریخی طور پر اس کا نام دھنوان تھا جو معرب ہو کر شنوران بنا۔ اسے رام نگر اور ستنام کا نام بھی ملا ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے آباد ہونے کی وجہ سے کبھی بھی کہلایا۔ ۱۸۶۱ء میں جب بنوں ضلع بنا تو کبھی کا دفتر بلوخیل میں تھا۔ سردار محمد حیات خان کنهڑ اپنی کتاب ”حیات افغانی” ۱۸۶۵ء میں لکھتے ہیں کہ یہ علاقہ دریا کے کنارے پر ہونے کی وجہ سے کچھی کہلایا اور ہنوز اسی یعنی کچھی کے نام سے معروف ہے گریرین دریائی مٹی سے بنی ہوئی زمین (Aluvial Land) کو کبھی لکھتے ہیں دراصل کچھی دریا کی دست برد کا علاقہ ہے۔ دریائے سندھ کا مشرقی کنارا تاریخی طور پر سیلابوں کی آماجگاہ بنا رہا۔ اس اعتبار سے کچھی کا علاقہ دریائے سندھ کی زرخیز مٹی کی وجہ سے بہت سر سبز اور آباد تھا ایک روایت کے مطابق مغل شہنشاہ اکبر کے دور میں ۱۵۸۴ء میں شیخ جلال الدین اپنے بیٹے میاں علی کے ہمراہ تبلیغ و اشاعت دین کی خاطر بغداد سے ہندوستان آئے وہ دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر آباد ہوئے یاد رہے کہ یہ سارا علاقہ گھگھڑوں کی عمل داری میں تھا۔ اور اس ملک کے حاکم سلطان سہالت اور سلطان مقرب گھگر تھے۔ شیخ جلال الدین خود تو واپس چلے گئے اور اپنے لخت جگر میاں علی کو چھوڑ گئے ۔ میاں علی کی رہائش کی وجہ سے کچھی "میاں دی میل” اور بعد میں میاں آلی (میاں کی بستی یا میل) بن گئی۔ اردو میں میاں آئی ، میاں والی ہو گئی۔ ”حیات افغانی” کا مصنف لکھتا ہے کہ میاں علی فقیر بن شیخ جلال نے یہاں اپنا خانگی مکان بنوایا۔ جس کی وجہ سے یہ علاقہ میانوالی کے نام سے مشہور ہوا، موضع میانوالی موضع بلوخیل کلاں سے متصل ہے۔
میانوالی جغرافیائی اور تاریخی طور پر وادی سندھ کا ایک اہم حصہ ہے۔آج سے ہزاروں سال پہلے میانوالی شہر دریائے سندھ کی گزر گاہ تھی۔ قدرت کے قانون غرب روی (Westering) کے تحت دریائے سندھ کوہ سلیمان نمک کے مشرقی سلسلے سے ہوتا ہوا میانوالی سے گزرتا ہزاروں سال میں مغرب میں دریائے کرم کی گزرگاہ پر قابض ہو گیا۔ ماہرین کے کہنے کے مطابق شمالی نصف کرہ ارض میں بہنے والے دریا ہمیشہ اپنے شمالی کنارے کو کاٹ کر شمال اور مغرب کی طرف ہٹتے چلے جاتے ہیں۔ یہ عمل خط استوا اور قطب پر رفتار گردش کے فرق کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ دریائے سندھ بھی اس عمل کے تحت موجودہ جگہ تک پہنچا ہے۔ مغربی پہاڑوں کی وجہ سے یہ منچلا دریا مزید آگے نہ بڑھ سکا۔ اور اس نے میانوالی کے مغربی حصے کو مستقل طور پر اپنی گزر گاہ بنا لیا ہے اور میں اپنی جولانی طبع کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے۔
چھ ہزار اشلوکوں پر مشتمل آریاؤں کی مقدس کتاب "رگ دید” یہیں لکھی یا ترتیب دی گئی۔ آریاؤں نے سپتو سندھو سے آگے بڑھ کر گنگ و جمن کی تہذیب کو جنم دیا ۔ اور پھر وہاں سے بہار اور بنگال تک پہنچے۔ وادی سندھ میں ٹیکسلا آریاؤں کی تہذیب کا مرکز بنا وہ وسطی ایشیاء سے چل کر یورپ اور ایشیا کے کئی علاقوں میں رہ کر آئے تھے۔ اس لئے ان کی زبان پر کئی زبانوں کے اثرات مرتب ہوئے۔ وادی سندھ میں آنے تک ان کی زبان نے تحریری شکل اختیار نہیں کی تھی۔ چنانچہ وید کے مقدس اشلوکوں کو محفوظ کرنے کے لئے سنسکرت کو تحریری شکل ملی۔ سنسکرت کی صرف و نحو کو مرتب کرنے کا سہرا پانینی (Panini) کے سر ہے۔ کہا جاتا ہے رگ وید کندن” کے مقام پر ترتیب دی گئی۔ میانوالی میں کندیاں اور کنڈل نام کے شہر موجود ہیں ممکن ہے کنڈن ان دو شہروں میں سے کوئی ایک ہو۔ آریاؤں نے وادی سندھ میں رہنے والے کالے رنگ اور چپٹی ناک کے لوگوں سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں بے دین اور داس (غلام) کہا۔ میانوالی میں مصلی وغیرہ اس شکل و صورت کے لوگ اب بھی موجود ہیں۔ رگ وید میں ستو سندھو (سندھ) کو بھا (کابل) گومانی (گومل) اور کرومور (کرم) دریاؤں کا ذکر ملتا ہے۔
گریرین اپنی کتاب لنگوائیسٹک سروے آف پاکستان (Linguistic Survey of Pakistan) میں وادی سندھ کی زبانوں کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک سندھی زبان اور دوسری اندی، (یعنی مغربی سورج کے اترنے کا علاقہ یا سمت) زبان ۔ وہ لکھتا ہے کہ مغربی زبان (میانوالی سمیت) بولنے والے علاقوں نے ہندوؤں کی مقدس کتابوں رامائن اور مہابھارت کے دو کرداروں کو جنم دیا ہے۔ رامائن مہا بھارت کی نسبت زیادہ قدیم داستان ہے ۔ ہندو بھی ان مقدس کتابوں کے زمانے کا تعین نہیں کر پائے ۔ اندازہ ہے کہ مہا بھارت ۱۵۰۰ سے لے کر ۹۰۰ قبل مسیح میں لکھی گئی۔ لہذا علاقے میں دو ریاستیں تھیں۔ ایک گندھارا اور دوسری کیکایا (Kekaya) گندھارا ٹیکسلا اور ٹیکسلا کے بالائی حصے پر جبکہ کیا یا دریائے سندھ کے زیریں علاقے میں واقع تھی۔ کیکایا سے رامائن کا ایک اہم کردار کیا کائی (کیکی) جو کو سالہ کے راجہ دسرتھ کی دوسری بیوی اور رام چندر کی سوتیلی ماں تھی۔ اس کی کائی کی وجہ سے رام چندر جی نے بن پاس اختیار کیا تھا، گندھارا سے دھر تیار اشتر کی بیوی اور دریودھن اور اسکے 99 بھائیوں کی ماں گندھاری تھی۔ تاریخی طور پر یہ کنبہ کو رو کہلاتا تھا اور ان کے چچا زاد بھائی پانڈو۔ مہا بھارت ان دو رشتہ دار خاندانوں کی لڑائی کے قصوں پر مشتمل ہے۔ یہ سرا پانڈو نے اپنی اور اپنے بھائیوں کی مشترکہ بیوی دروپدی اور اپنا تخت بھی دریود حسن کو رو کے ہاتھوں جوئے میں ہار دیا۔ ہارنے کے بعد پانڈو جنگوں میں چلے گئے ایک روایت ہے کہ ماڑی انڈس میں یہ جوا ہوا تھا۔ ایک اور روایت ہے کہ پانڈو کو رووں کے ڈر سے ماڑی انڈس میں چھپ گئے تھے۔ اور ماڑی انڈس میں بیساکھی کے دن گنگا اور جمنا کی کوئی لہر دریا سندھ میں شامل ہو کر آتی تھی۔ تاکہ چھے ہوئے پانڈوؤں کو اپنے پوتر پانی سے اشنان کرا سکے۔ مہابھارت میں کورو کثیرجنگ میں اہل سندھ نے بھی بھر پور حصہ لیا تھا۔
مسٹر لیمبرک تاریخ سندھ کے صفحہ ۲۰۸ پر مہابھارت کے کشری قبائل کا ذکر کرتے ہیں یہ وہ قبیلے تھے جنہوں نے کو رووں اور پانڈوں کی جنگ میں حصہ لیا۔ ان میں سے دو تریگارڈ اور مدر کاز ہیں۔ ان قبیلوں کا تعلق سندھو سود بر ایا دادی سندھ سے تھا۔ اور انہوں نے نمایاں طور پر کورد گیر جنگ میں نام کمایا۔ اگر ذرا غور سے دیکھیں تو تریگارڈ کا لفظ ہمیں کچھ مانوس سا نظر آئے گا۔ میانوالی میں ترگ اور ترگڑانوالہ ناموں کے شہر اب بھی موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ یہاں کے رہنے والوں یا ان شہروں کا تعلق اسی تریکارڈ قبیلہ سے ہو۔
ڈھک اور موسیٰ خیل کی پہاڑی کے ساتھ ساتھ خوبصورتی سے تراشے ہوئے پتھروں کی قبریں موجود ہیں۔ یہ سطح زمین سے اونچی ہیں۔ ایک لمبے چوڑے (مربع) چبوترے پر کئی ایک قبریں ہیں۔ ایک بڑے سے پتھر کے اندر دیا رکھنے کی جگہ بھی خوبصورتی سے کھود کر بنائی گئی ہے کئی ایسی قبروں پر لوگوں نے جھنڈے لگا دیئے ہیں اور انہیں بڑے احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ان قبروں کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ سات بھائی تھے جن کے سردشمن نے کاٹ لئے مگر پھر بھی وہ سر کے بغیر چلتے ہوئے اس مقام پر پہنچے تھے۔ یہاں پر راجہ رسالو اور کو کلا رانی کا قصہ بھی مشہور ہے ۔ ایک قصے کے مطابق کو کلا رانی کے محل تک جانے کے لئے ۷۰ سیڑھیاں تھیں۔ اس کا عہد تھا کہ جو اس کے ایک سوال کے ہر سیڑھی پر تین جواب دے گا وہ اس سے شادی کرے گی۔ ایک کہانی یوں بیان کی جاتی ہے کہ کو کلا رانی چوپٹ کھیلتی تھی۔ اس کا اعلان تھا کہ جو اسے اس کھیل میں شکست دے گا وہ اس سے شادی کرے گی چنانچہ چوپٹ میں گڑبڑ کرنے کے لئے ایک چوہا سدھایا ہوا تھا۔ راجہ رسالو اپنے ساتھ بلی لایا۔ یوں چوہا ڈر کے مارے کو کلا رانی کے کام نہ آسکا اور وہ شطرنج ہار گئی اور اسے اپنا وعدہ پورا کرنا پڑا۔ نانگنا کے قلعے کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ قلعہ کو کلا رانی کے لئے راجہ رسالو نے بنایا تھا۔ ایک دن کو کلا رانی نے قلعے کی دیوار سے گر کر خود کشی کر لی۔ یاد رہے کہ یہ وہی راجہ رسالو ہے کہ جس نے راکھشش کو قتل کیا تھا۔ ان قصہ کہانیوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سارا علاقہ ٹیکسلا کی راجدھانی میں شامل تھا۔ موسیٰ خیل میں نانگ سلطان کے مقبرے کے قریب ایک بڑا ٹھیکریال موجود ہے۔ کسی زمانے میں یہاں سے نمل جھیل کا پانی گزرتا تھا۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس بستی کا تعلق سرکپ زمانے سے تھا یا نہیں۔ موسیٰ خیل کے قرب و جوار میں ایسے آثار موجود ہیں جن کا زمانہ قدیم سے صاف تعلق محسوس ہوتا ہے۔ وادی سندھ پر مختلف اقوام کی حکومتیں رہیں۔ ایرانی، یونانی، موریا یونان باختری، ساکا، پارتھین اور کشان کے بعد گپتا دور شروع ہوتا ہے کشان بادشاہ کڈنیز نے سرکپ کے شہر کے ساتھ ہی ٹیکسلا میں سرسکھ کے نام سے ایک نیا شمر بسایا۔ کنشک اس خاندان کا مشہور بادشاہ گزرا ہے۔ جس نے اشوک کی طرح بدھ مت کو پھیلانے میں بھر پور دلچسپی لی۔
جب اسلام کی روشنی پھیلی تو اس وقت تک سندھ اور پنجاب میں بدھ مت موجود تھا۔ یوری گنگوفسکی اپنی کتاب "پاکستان کی قومیتیں” میں لکھتے ہیں کہ ہندوؤں نے بدھوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ چنانچہ انہوں نے دھڑا دھڑ اسلام قبول کرنا شروع کر دیا اور تھوڑے ہی عرصے میں ہندوستان میں جنم لینے والا بدھ مت دم توڑ چکا تھا۔ ساتویں صدی عیسوی میں پنجاب اور سندھ بنوامیہ کے صوبہ داروں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ حضرت امیر معاویہ کے دور خلافت میں عبد الرحمن بن سمرہ سیستان کا گورنر تھا اس نے کابل کو فتح کیا۔ اس کی فوج کا ایک سردار مهلب بن صفراء کابل اور پشاور کی درمیانی گھاٹیوں سے سندھ کی وادی پہنچا۔ میانوالی کے پار دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر پہاڑی پر ایک بڑا مضبوط قلعہ تھا۔ یہ کشمیری ہندوؤں کی قلمرو میں شامل تھا۔ اس زمانے میں یہاں کے راجے کا نام ٹل تھا۔ پروفیسر ملک محمد اسلم کی تحقیق کے مطابق ۴۴ مجری (۶۵ – ۶۶۴) میں یہ قلعہ مہلب بن صفراء نے فتح کیا۔ قلعے کے بڑے دروازے کے سامنے ثبوت کے طور پر قدیم قبریں موجود ہیں ۔ اس قلعے کی فصیل کافی حد تک سلامت ہے۔ اصل قلعے میں مندر بھی موجود ہیں۔ ولی اللہ خان کے کہنے کے مطابق یہ ہندوؤں کے منوتی مندر ہیں اور یہاں پر شوکی
پوجا کی جاتی تھی۔ پنچ نامہ میں وادی سندھ کی ایک ایسی ریاست کا ذکر موجود ہے جس کا نام سود تیرا تھا اور وہ ملکان اور کشمیر کی سرحد یعنی ملتان اور کو ہستان نمک کے درمیانی علاقے میں واقع تھی۔ دو آب سندھ ساگر یعنی میانوالی اس میں شامل تھا۔ مہا بھارت میں بھی وادی سندھ کی چار ریاستوں کا ذکر ہے ان میں سے ایک سندھ سویر اس تھی۔ ممکن ہے کہ سوئیرا اس کی باقیات میں سے ہو۔
ابن حوقل ۵۳ – ۹۵۲ء نے اپنے سفر نامے میں سندھ کی ایک ایسی آزادریاست کا ذکر کیا ہے۔ جس کا نام و یہند” تھا۔ یہ گندھارا بھی کہلاتی تھی ۔ اس کا پایہ تخت و یہند تھا جو اٹک کے کچھ فاصلے پر تھا۔ یہاں کا راجہ ہندو تھا۔ لیکن اس ریاست میں مسلمانوں کی کافی آبادی تھی سلطان محمود غزنوی نے پشاور فتح کرنے کے بعد اس علاقے پر قبضہ کیا تھا۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ اس میں کچھی کا علاقہ بھی شامل تھا۔
دسویں صدی کے اخیر اور اٹھارھویں صدی کی ساتویں دہائی میں سکھوں کی ریاست کے قیام تک ترکوں، افغانوں تاجکوں اور ایرانیوں کے پنجاب آنے کا سلسلہ جاری تھا۔ اس دور کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس علاقے میں اسلام تیزی سے پھیلا ۔ ازمنہ وسطی میں پنجاب کے دو بڑے سیاسی مرکز بنے۔ لاہور مرکز میں مرکزی اور مشرقی پنجاب کا علاقہ شامل تھا اور جنوب مغربی پنجاب اور دو آب سندھ ساگر کا شمالی حصہ ملتان مرکز میں شامل تھا۔
یہی وہ زمانہ ہے جب پٹھان دریائے سندھ کے مغربی کنارے کوہ غور میں آباد تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ غوری نے ہندوستان پر حملے کی وجہ سے اپنی پشت پناہ بنا کر انہیں یہاں آباد کیا تھا۔ نیازی پٹھان میت والا اور عیسی خیل اور پھر دریائے سندھ کے مشرقی علاقے میں آباد ہوئے۔ میانوالی میں ان کی تاریخ کا آغاز اسی زمانہ سے ہوتا ہے۔
سلطان محمود غزنوی اور غوری کے بعد حملہ آور اٹک سے میانوالی داخل ہوتے ۔ کو ہستان نمک پہاڑی کے سلسلے کو عبور کر کے مزید آگے یلغار کرتے تھے۔ جلال الدین خوارزم اس راستے سے چنگیز خان کے حملوں سے بچتا ہوا میانوالی میں داخل ہوا تھا کچھ عرصہ کلورکوٹ میں قیام کرنے کے بعد سندھ سے ہوتا ہوا (طبقات ناصری) ایران چلا گیا۔ امیر تیمور نے ملتان پہنچنے کے لئے چول جرد اور چولی جلال (چول، صحرا) کا راستہ اختیار کیا۔ بابر اسی راستے سے ہوتا ہوا بھیرہ پہنچا۔ شیر شاہ سوری کی حکومت دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے گھروں کی شورشوں کو دبانے کے لئے جہلم میں قلعہ رہتاس اور دریائے سندھ کے مشرقی کنارے کھگل کے قلعے کی بنیاد ڈالی تھی۔ شیر شاہ سوری کے عہد کی یادگار باؤلی واں بھراں میں اب تک محفوظ ہے۔
۱۷۳۸ء میں نادر شاہ بنوں میں داخل ہوا۔ پھر وہاں سے دریائے سندھ کے مشرقی کنارے بمقام روکھڑی پڑاؤ ڈالا۔ وہ دو مہینے تک میانوالی میں رہا۔ اس عرصے میں اس نے خوب لوٹ کھسوٹ کی کمروں کے شہر منظم عمر کو حملے کا نشانہ بنایا۔ ۱۷۸۴ء میں احمد شاہ ابدالی نے میانوالی میں گھڑوں کو شکست دی۔ اس جنگ میں مرنے والے سدوزئی حملہ آوروں کی قبریں وانڈھی گھنڈ والی کے قبرستان میں اب تک موجود ہیں۔ ایک قبر پر شہزادہ سلیمان کے نام کی سنگ مرمر کی تختی لگی ہوئی ہے۔
پنجاب میں سکھوں نے ایک مرکزی ریاست کی کوششیں شروع کی ہوئی تھیں۔ رنجیت سنگھ کی حکومت سے پہلے پنجاب بھر میں سکھوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہوا تھا۔ کئی حملے میانوالی پر بھی ہوئے سکھوں نے میانوالی کے آدھے شہر کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا تھا۔ ۱۷۷۲ء میں جھنڈا سنگھ اور گنڈا سنگھ کی قیادت میں میانوالی پر حملہ ہوا تھا۔ موسیٰ خیل کالا باغ اور عیسی خیل کو سکھوں نے فتح کر لیا۔ موسیٰ خیل کے قریب ایک بڑا قبرستان سکھوں کے مقابلے میں شہید ہونے والے مسلمانوں کی بہادری اور جاں فروشی کا امین ہے۔ ایک سال بعد یہ علاقہ رنجیت سنگھ کے والد میان سنگھ نے بختگی سکھوں سے چھین لیا۔ ۱۷۹۲ء میں کچھی کے قلعہ کے حاکم فتح خان پر حملہ کر کے رنجیت سنگھ نے اسے شکست دی اور گرفتار کر لیا۔
رنجیت سنگھ نے ۱۷۹۹ء سے لے کر ۱۸۳۸ء تک سکھوں کی پنجاب میں مرکزی ریاست قائم کی۔ ۱۸۲۱ء میں رنجیت سنگھ نے منکیرہ فتح کیا اور مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ قلعے میں اب تک اس حملے کے آثار موجود ہیں۔
۱۸۵۰ء میں سکھوں کا دور اقتدار ختم ہوا اور پنجاب انگریزوں کی عملداری میں آگیا ۔ انگریزوں نے ۱۹۴۷ء تک پورے ہندوستان پر حکومت کی۔ ۱۸۶۱ء میں میانوالی ضلع بنوں کی تحصیل تھا۔ 1901ء میں یہ چار تحصیلوں ، عیسی خیل، میانوالی بھکر اور یہ پر مشتمل ضلع بنا دیا گیا۔ تحریک خلافت اور تحریک پاکستان میں میانوالی کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
میانوالی بنیادی طور قبائلی نوعیت کا علاقہ ہے۔ یہاں انسانی گروہوں کے معاشرے نے قبائلی زندگی کا انداز اختیار کیا ہوا ہے۔ قبائلی معاشرہ قدیم ہوتا ہے۔ میانوالی میں بھی اس کی جڑیں پرانی ہیں۔ ترقی کے فقدان نے یہ تسلسل اور جمود نہیں توڑا۔ قبیلہ ہی یہاں کے انسانی گروہوں کی شناخت اور قوت کا نشان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں پر بڑے قبیلوں کی عظمت اور طاقت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہاں کی قبائلی زندگی میں تعصب اور عصبیت دونوں کا سکہ رواں ہے خود کو منفرد ممتاز اور افضل سمجھنا اور دوسروں کو کمتر اور گھٹیا جانتا یہاں رواج کے طور پر موجود ہے۔ قبیلوں کے علاوہ عام ہنر مند اور پیشہ ور جنہیں کمی کہا جاتا ہے کیثر تعداد میں موجود ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون ڈاکرڈ لیاقت علی خان نیازی کی کتاب ” تاریخ میانوالی (تاریخ و تہذیب) سے لیا گیا ہے۔