میانوالی

1915 کے گزٹیئر کے مطابق میانوالی: زمینی ریونیو

دیہی برادریاں اور پٹہ داریاں

:شمال میں رائج حالات جنوبی تحصیل کے حالات سے بہت مختلف ہیں، اور حتیٰ کہ دو شمالی تحصیلیں بھی نہایت مختلف قسم کی تواریخ رکھتی ہیں۔ واحد استثنیٰ یہ ہے کہ میانوالی تحصیل کے دریائی اور تحل کے علاقوں میں پٹہ داری کے حالات کافی حد تک بھکر تحصیل جیسے ہیں۔ ہم محفوظ طور پر کہہ سکتے ہیں کہ بھکر تحصیل میں دیہی برادریوں اور پٹہ داریوں کی تشکیل و ترقی شمالی تحصیلوں کے مقابلے میں بالکل مختلف خطوط پر ہوئی ہے، چنانچہ انھیں الگ الگ بیان کرنا با سہولت ہو گا۔

میانوالی اور عیسیٰ خیل تحصیل

میانوالی اور عیسی خیل تحصیلوں میں رائج پٹہ داریوں کے ماخذ اور تاریخ پر بنوں ضلع کے پرانے گزیٹیئر میں تفصیل سے بات کی گئی ہے جس میں مسٹر تھار برن کی بندوبست رپورٹ برائے ضلع بنوں سے اقتباسات بھی دیے گئے۔ معمولی ترمیم کے ساتھ یہ اقتباسات یہاں نقل کیے جاتے ہیں۔

عیسی خیل کی اونچی زمینوں کی پٹہ داریاں:

عیسی خیل کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جن پر ذیل میں الگ الگ بات ہو گی) جن میں اب قبضہ انفرادی حق کا پیمانہ ہے، اگر چہ بالاصل یہ اجدادی یا روایتی حصص تھا۔ جرمانے اور دیگر محصولات ، اور الحاق سے قبل طاقت ور کی طمع ، اور بعد ازاں بیگانگی اور کو تاہ اندیشی نے تبدیلی کی
راہ ہموار کی ہے۔

بھنگی خیل کے بیٹے:

خشکوں کو ایک مشترکہ جد امجد بولک کی اولاد بتایا جاتا ہے اور بھنگی خیل شاخ کو اپنے موجودہ پہاڑی مسکن میں چار سو سال سے آباد مانا جاتا ہے۔ گزشتہ چار پانچ پشتوں میں ہی انھوں نے خرید نے اور دیگر ذرائع سے اپنے گھری قرابت داروں سے قابل کاشت اراضی بڑی مقدار میں حاصل کرلی ہے۔ لگتا کہ شروع میں اُنھوں نے اپنا سارا علاقہ بلاکس میں تقسیم کیا، ایک یا زائر بلاک ہر ایک شاخ کو الاٹ کیے۔ ہر ایک بلاک میں خاندان اپنی خوشی سے آباد ہوئے یہاں تک کہ سارا قابل کاشت حصہ استعمال کر لیا گیا۔ اُس کے بعد جائیداد معمول کے انداز میں منتقل ہوئی۔ لیکن بھنگی خیلوں کی تعداد بڑھ گئی اور فارن سروس پر معترض نہ ہونے کے باعث متعدد جوانوں نے اپنی جائیداد بیچی اور کسی اور جگہ چلے گئے۔ اب یہ قبیلہ کثیر التعداد ہے اور زیادہ تر دستیاب زمین زیر کاشت لائی جاچکی ہے، چنانچہ انتقال اراضی اکثر ہو تا رہتا ہے۔ ہندوؤں کو زمین میں بہت کم دلچسپی ہے۔ کاشتہ قطعات آس پاس کی بنجر زمین سمیت ( جس کا ڈر بی وہ وصول کرتے ہیں) کسانوں کی ملکیت ہے جو اپنے اپنے کافی بڑے ڈیروں پر رہتے ہیں۔ زیادہ بڑا حصہ پتھریلی پہاڑیوں پر مشتمل ہے جو صرف بھیڑیں، بکریاں، گائیں اور گھوڑے چرانے کے لیے موزوں ہے۔ یہ سارا حصہ اب بھی بلا کس میں اور غیر منقسم ہے۔

نیاز کی اور جٹ دیہات:

کالا باغ سے جنوب میں مٹھ خشک کی طرف بھنگی خیل اور گر خیل خشک ( گنجان دیہات میدان کے اس حصے کے مالک ہیں جو خٹک نیاز کی سلسلے کے کناروں پر ہے۔ ہر ایک گاؤں خود مختار طور پر بسایا گیا۔ 9 میں سے ملاخیل سب سے پرانا ہے ، جو علاقے میں نیازی کے درود سے پہلے کا ہے۔ اگرچہ سب کا اتفاق رائے ہے کہ گاؤں کے قریب زمینیں پہلے اجدادی حصص میں تقسیم تھیں، لیکن اس قسم کے حصص کا اب کوئی سراغ نہیں ملتا۔ نیاز ئیوں کا کہنا ہے کہ خٹک آباد کار نیچے اُترے اور اُن کی اجازت سے ہے اور ان کے مطیع حلیف بن گئے، لیکن ایسا ہونا بہ مشکل ہی ممکن لگتا ہے۔ گزشتہ دو تین پشتوں کے دوران کو ٹکی اور مٹھ خشک میں بہت حد تک خوانین اور دیگر نے خشکوں کو بے دخل کر دیا ہے۔ ترگ، کانجو، کلو اور بھت جنوں سبھی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے ٹانک کے آس پاس آباد ہوئے اور نیازئیوں کے ہمراہ براستہ مروت عیسی خیل میں آئے۔

علاقے کی تقسیم ہونے پر انھیں زمین دی گئی اور وہ الگ الگ برادریوں میں آباد ہوئے۔ انھوں اور نیاز کیوں دونوں نے اپنی جاگیریں آپس میں بذریعہ قرعہ تقسیم کی جس کی بنیاد اجدادی حصص پر تھی۔ اگر چہ عام اسباب، بالخصوص احمد خان اور اُس کے جانشینوں کی طاقت نے بہت سے جنوں کو قابض پٹہ داریوں یا ادنی مالکان کی حیثیت سے دوچار کر دیا، لیکن حصص کی یہ تن یہ تقسیم آج بھی اُن کے دیہات میں بہ آسانی قابل سراغ ہے۔ ترگ کے شمال مغرب میں ایک بڑا گاؤں سلطان خیل غالباً صرف چار پشتیں پہلے ہی بسا، اور وہ بھی رہائش اختیار کرنے (squatting) کے ذریعے۔ جنوب کی طرف طاقت در عیسی خیل نیازئیوں کے درمیان تل، درے اور کچھ اب بھی معروف ہیں، اور کچھ حد تک ان پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ پہلے لفظ یعنی قتل کا کو کسی قبیلچے کو تفویض کہا جاتا سکتا ہے، دوسرا لفظ یعنی وہ تھیلے میں کنبوں کا ایک گروپ ہے، اور تیسر الفظ یعنی لکچھ اس قسم کی تفویض لیکن جٹوں کی طرح عیسی خیلوں کے ہاں احمد خان کی طاقت اور اولوالعزمی میں ایک حصہ ہے۔
(جس کی نمائندگی اب خوانین ‘ کرتے ہیں) نے اعدادی حق کو محو کرنے میں کافی کردار ادا کیا حصص پر عمل صرف وہاں کیا جاتا ہے جہاں تل ابھی تک غیر منقسم ہے، یا جہاں قبیلچہ زمین کاشت کرنے والوں سے ایک طے شدہ لگان وصول کرتا ہے، مثلاً کنڈل اور اٹک پنیالا ہے۔ تحصیل کے جنوب میں اونچے کنارے پر دس دیہات ( جن کا مالک کبھی بیٹی تخیل قبیلہ ہوا کر تا تھا) اب خوانین ، پانچ کے زیادہ تر حصے کے مالک ہیں۔ وہ یا کچھ ایک اراکین بالائی زمین کے چار اور کچھ دیہات میں سے تین دیگر دیہات کے مالک بھی ہیں۔ تاہم ، مؤخر الذکر تین الحاق کے بعد حاصل کیے گئے تھے۔ ‘خوانین’ نے 1856ء کے بعد اپنی تقریباً تمام اجدادی جاگیر آپس میں تقسیم کر لی ہے، اور اس کے آٹھ حصص رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن تقسیم قرعہ اندازی کے ذریعے ہونے کی وجہ سے حصص میں بہت زیادہ فرق ہے۔

کچہ، الحاق ہونے سے پہلے تک:

دریائے سندھ کی طغیانی کی زد میں آنے والا نشیبی علاقہ کچھ یا کچھی کہلاتا ہے۔ الحاق کے وقت اس پر مالکانہ حق بہت ڈھیلا ڈھالا تھا اور اب تعین اور اندراج کردہ پٹہ داریوں کی موجودہ حالت پرانی صورتوں سے فطری ارتقا کا نتیجہ ہے۔ برادریوں کے موجودہ گھروں (آب دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر ) میں تفویض کے کئی سال بعد تک کچھ کی قابل کاشت زمینوں میں کہیں کہیں جنگل تھا، جہاں شیر ، دلدلی ہرن ( گوئیں ، جنگلی سور اور hog deer پائے جاتے تھے۔ یہاں وہاں جٹ خاندانوں کے گروہ، ہر ایہ ، مہین، بھمب، چھینا، جلکھوڑ، انوترا، تریز اور متعدد دیگر گوتیں سیلانی زندگی گزارتے ہیں، وقتا فوقتا اپنی رہائش تبدیل کرتے ہیں کیونکہ ہر لحظہ اپنی گزرگاہ تبدیل کرتا ہو اور یا اُنھیں اس پر مجبور کر دیتا ہے۔ لیکن پٹھان، سید اور جٹ بستیوں کے عین نیچے، دریا کے دونوں اونچے کناروں پر ، صاف کی ہوئی اور کاشت کردہ زمین کے قطعات اجدادی حصص کے مطابق متعدد لوگوں کی زیر ملکیت تھے۔

پرے کے جنگل میں اوپر مذکور محلہ بان جٹ آباد ہیں اور ہر گروپ اپنی ڈھیلی ڈھالی کی حدود کے اندر مخصوص علاقے تک محدود ہے۔ وہ جٹ کچھ کے قدیم قابضین تھے اور لگتا ہے کہ ان کے مستقل آباد پٹھان پڑوسیوں نے ان کے ساتھ طویل عرصے تک چھیڑ چھاڑ نہ کی۔ اگرچہ عملا ہر کمیونٹی کے لیے بیرونی دنیا کے خلاف لاٹھی ہی قانون تھی، پھر بھی افرادی قوت کم اور زمین وافر تھی، چنانچہ پٹھانوں کے پاس کوئی موقع نہیں تھا کہ دریا کنارے آباد جٹ چرواہوں کو گھیر کر لو ہیں۔ تاہم ، سکھ دور میں تعداد کافی بڑھ گئی۔ دوسرے کنارے پر کالا باغ سے لے کر پہلاں تک وقفے وقفے سے آباد دیہات طاقت ور تھے۔ بقائے باہمی کا ایک مشتر کہ معاہدہ کرناضروری تھا۔ سو آہستہ آہستہ یہ تسلیم کیا جانے لگا کہ گاؤں کے سامنے والا تمام کچھ کسی مشتر کہ حد تک کمیونٹی کی ملکیت ہو گا، بالعموم ا سردیوں کی گزرگاہ کے گہرے مقام تک۔ سر بر آوردہ کمیونیٹیز میں سے مغربی کنارے پر مشانی اور عیسی خیل اور تاجاخیل، اور اُن کے ساتھ مشرقی کنارے پر بلوخیل اور وٹہ فیل سب سے بڑے علاقوں کے مالک تھیں۔ لیکن اس مؤخر الذکر طرف پٹھان بالا دستی کبھی بھی اُس خط سے مزید جنوب کی طرف نہ جا سکی جو گندی کے قریب شرقا غربا کھینچا گیا تھا۔

وہاں دونوں نسلوں کی طلاقات ہوئی، وہ آپس میں مل جل گئیں اور مل کر مساوی شرائط پر دیہی کمیونیٹیز تشکیل دیں۔ یہ گنڈی کئی سال تک سکھ راج کی انتہائی جنوبی حد تھی، جس سے آگے مانگیرہ کے نواب کا علاقہ شروع ہوتا تھا۔ 1822ء کے قریب اسے شکست ہونے پر موجودہ میانوالی کا جنوبی حصہ ایک علیحدہ انتظامی جزو بن گیا اور الحاق تک ایسے ہی رہا۔ بعد ازاں اسے دیوان ساون کل کے صوبہ ملتان میں شامل کر لیا گیا اور وہی اس کا انتظام چلاتا رہا، ماسوائے نو ماہ کے (1831 ء سے لے کر پہلی سکھ جنگ سے کچھ پہلے اس کے قتل تک)۔ اگرچہ سکھوں نے سارے کچھ کو بطور شاہی زمین لیا، لیکن نواح کی پٹھان آبادیوں، بالخصوص عیسی خیلوں اور تاج خیلوں نے کبھی بھی یہ تصور قبول نہ کیا۔ لہذ ا سکھ عبد کے دوران زمین پر جاننے والوں کو دو آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنا تھی۔ متعدد گلہ بان جٹ پہلے سے ایک نیم زراعتی زندگی گزار رہے تھے ، وہ مجبور کیے جانے پر قریب ترین پٹھان گاؤں کی ہلکی سی اطاعت اختیار کر لیتے۔ سادات بھی دعوت ملنے پر یہاں وہاں جاہے، بالخصوص کسی متنازع زمین پر ، کیونکہ اپنا تقدس انھیں حریف دعوے داروں کی جانب سے حملوں سے مامون رکھتا تھا۔

سکھ راج قائم ہونے پر تمام کاشت کار ایک طرح سے تاج کے پٹہ دار بن گئے اور تمام طبقات کے آدمیوں کو جنگل زیر کاشت لانے کی ترغیب دلائی گئی۔ کار داروں کو فیس ادا کرنے پر ایک سند یا پٹہ حاصل ہو تا تھا، اور اس قسم کا وثیقہ تمام قبائلی حقوق کے مقابلے میں کارآمد تھا۔ لیکن اس قسم کی اسناد کے باوجود پڑوس کے پٹھان تھیلے ہر ممکن حد تک کچھ محصولات اینٹھ لیتے تھے۔ لہذا عیسی خیل لوشا تو یزا یا تھالی اور اناج کی بوری لیتے تھے یعنی اپنے اور اپنے گھوڑوں کے لیے مکئی) اور تاجاخیل کھنی ، جو ہر فصل کے اناج میں چھوٹا سا حصہ تھا۔ کبھی کبھار کچھ پٹھان، اپنے ساتھیوں سے زیادہ جفاکش، سند کے ساتھ یا بغیر، اونچے کنارے پر قصبے سے ایک بستی کو ساتھ لے کر اپنی قبائل اقلیم کی لچک دار حدود کے اندر غیر مقبوضہ زمین پر جا مینا۔ جب کوئی قطعہ صاف کر کیا جاتا اور چند جھونپڑے بن جاتے تو کچھ لوگ ساتھ جا ملتے۔

لیکن اس قسم کی بستیاں نا پائیدار تھیں۔ کامیاب بستی ہمیشہ حسدور قابت کو ہوا دیتی اور حسد جلد یا بدیر حملے کی انگیخت دلاتا جس میں سکھ سپاہی (سکھ حکام کے حکم پر یا اُن کی ملی بھگت سے اکثر نمایاں حصہ لیتے۔ سکھ جاگیر دار اور کاردار یا اُن کے کارندے ایک دوسرے کے علاقوں کا بہت کم احترام کرتے تھے، اور بھگوڑے کاشت کاروں کا مجرموں کو واپس آنے پر مجبور کرنے کے لیے یا کسی اور حیلے بہانے سے آزادانہ طور پر ایک دوسرے کے علاقوں میں تجاور کرتے، مویشی کھول لیتے ، جھونپڑے نذرِ آتش کرتے اور موقعہ ملنے پر اناج بھی اُٹھا کر لے جاتے۔ اگر چہ کچھ میں زیادہ تر موجودہ جاگیریں سکھ راج کے دوران قائم ہوئیں، لیکن قبضہ داری کا پٹہ اس قدر غیر مستحکم اور ہر کاردار کی انتظامیہ اس قدر تبدیلی سے عبارت تھی کہ آج بھی من مانے محصولات کو سکھا شاہی کہتے ہیں۔ دیوان سان مل کی حکومت کی حدود کے اندر، جس میں گنڈی سے جنوب کی طرف میانوالی کے دیہات بھی آتے تھے ، جان و مالک نسبتاً محفوظ تھا۔ اُن دیہات میں مالک اور غیر مالک کے درمیان واضح امتیاز موجود تھا۔

جب مؤخر الذکر طبقے کا کوئی شخص کاشت کاری کے لیے نئی زمین حاصل کرتا تو اسے معمولی فیس جمھوری، ادا کر کے خرید تایا ایک طرح کا قابض پٹہ دار بن جاتا اور خفیف مقررہ انجام بطور لگان، کهنی یاسول ستارهویں ادا کرتا۔ ویسے کبھی کبھی مؤخر الذکر بطور لگان نہیں بلکہ دیہی اخراجات کے لیے ایک ریٹ کے طور پر لیا جاتا تھا، آج کے ملبہ والے مفہوم میں ایک محصول۔ اس ایک عنایت یافتہ علاقے کی استثنیٰ کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ الحاق کے وقت کچھ میں انفرادی مالکانہ حقوق وجود نہیں رکھتے تھے ، اور اصل کاشت کاروں کو جو بھی حقوق حاصل تھے وہ مساوی تھے۔ ہر ایک بستی پر جوائنٹ سٹاک اصول کے تحت بنی تھی، اور بانی یا مینیجر بہت ہوا تو معمولی خصوصی فیس کا دعوے دار ہوتا تھا۔ تب اور اب کے درمیان فرق کچھ کے بوڑھوں کا ایک پسندیدہ موضوع ہے۔

اب بھی جیسویں ایسے بوڑھے موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ ان کی جوانی کے دنوں میں کس طرح کچھہ کے طویل حصے درختوں، نرسل اور لمبی گھاس بھر ا جنگل تھے ؛ کس طرح وہ اور اُن کے ہم وطن لوگ کبھی کبھی تمام رقابتیں بھلا کر سینکڑوں کی تعداد میں جمع ہوتے اور کئی کئی دن سفر کرتے ہوئے شکار اور ہرن پکڑے اور کہیں کہیں شیر کو بھی گولی مار کر ہلاک کرتے تھے۔ مدد خان تا جا بخیل کے گاؤں نے 74-1873ء میں 7086 روپے ریونیو ادا کیا تھا، وہ بتاتا ہے کہ کس طرح اُس کا باپ احمد خان دائیں کنارے پر آبائی بستی موچھ سے ایک ٹولے کی قیادت کرتے ہوئے نکلا، زمین  صاف کر کے اپنے اور دوستوں کے لیے جنگل لے وسط میں گھر بنایا، انجام کار ایک رات کو سکھوں نے دھاوا بولا، اُس کے باپ کو ہلاک کیا اور ساری بستی جلا کر خاک کر دی؛ ایک دو سال بعد اُس نے کاردار کی خوشنودی حاصل کر کے سنسان بستی کو دوبارہ بسایا اور اپنے علاقے کی توسیع کرنا جاری رکھی ، یہاں تک کہ 57-1856ء میں اُس کے گاؤں کی حدود کی نشان دہی کر دی گئی۔

اسی طرح حسن خان عیسی خیل کے گاؤں نے 74-1873ء میں 3840 روپے ریونیو ادا کیا۔ وہ بتاتا ہے کہ قرابت داروں نے اُس سے موروثی حصہ چھین لیا، باپ چا اور وہ خود جان بچانے کی خاطر دریا کے اُس پار جنگل میں جائے۔ وہاں اُن پر وٹہ خیلوں اور تاجاخیلوں نے باری باری حملہ کیا: انجام کار سکھوں نے بے دخل کر دیا، اور اُنھوں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کئی سال تک جنوب میں بھا کڑا (Bhakra) کو پناہ گاہ بنایا اور انجام کار امن قائم کر کے اپنی جنگل والی بستی میں واپس چلے آئے۔ 1850ء کے قریب اونچے کناروں کے عین نیچے منقسم شدہ اور کاشتہ زمینوں کو چھوڑ کر یہ تھا کچھ کا حال؛ اور اس کے پیش نظر تاسف ہے کہ الحاق کے وقت زیادہ تر حصے کو سرکاری ملکیت اور حالیہ کاشت کاروں کو تاج کے پٹہ دار بنانے کا اعلان نہ کیا گیا۔ اگر یہ راہ اختیار کی گئی ہوتی اور حکومت ایک بیش بہا خطے کی مالک بن جاتی اور لوگ غیر مختم قانونی چارہ جوئی کی پریشانی سے بچ جاتے۔

الحاق سے لے کر پہلے مختصر بند و بست تک کچہ کی پٹہ داریاں:

ہماری حکومت کے پہلے چار سال تک ہمارے حکام کو پٹہ داریوں پر غور فکر کی مہلت ہی نہ ملی۔ اس عرصے میں وسیع و عریض علاقہ زیر کاشت لایا گیا اور بہت سی نئی بستیاں آباد ہوئیں۔ 1853-54ء میں ایک مختصر بندوبست کیا گیا۔ جب یہ جاری تھا تو میانوالی کی طرف پرانے آبادیوں پر کھنی (مالکانہ) لاگو کیا گیا۔ پتا چلا کہ متعدد دیہات نے کبھی کھنی ادا نہیں کیا تھا، اور یہ کہ کبھی کوئی متعین ریٹ موجود نہیں رہا تھا، کیونکہ رقم دونوں فریقین کی طاقت کے مناسبت سے گھٹتی بڑھتی تھی۔ کھٹی در حقیقت ایک جبری محصول تھا جو طاقت ور کمزور سے لیا کرتا تھا۔ سادات اس کی ادائیگی سے مستغنی تھے ، بھٹی کبھی کبھار کوئی فرد، کبھی کوئی قبیلچہ لیتا تھا، اور مختلف نام نہاد قبائلی علاقوں کی سرحدیں متنازعہ تھیں۔ انجام کار زیادہ تر مطالبات کو ممنوع قرار دیا گیا اور جہاں اجازت دی گئی، جیسا کہ تاجاخیل کی حدود کے اندر اور پہلاں علاقہ (ماسوائے بھکر) کے تمام دیہات کو ، وہاں ریونیو پر ایک نقد شرح لاگو کی گئی اور اناج کی شکل میں رئیس ختم کر دیے گئے۔

تا جاخیلوں نے 3 فیصد کا یکساں ریٹ وصول کیا اور بلوچ اور پہلاں علاقہ کے دیگر نے ریونیو پر 10-12-1 روپے فیصد ۔ جن دیہات میں بستی کا بانی یا قائد (بنیاد دار) کوئی تا جاخیل یا سید تھا، وہاں فیصد کا نصف اُس بانی کو جاتا تھا اور نصف تاجا خیل قبیلچے کو۔ سید اور تاجا خیل squatters صرف بانی کو ہی حصہ دیتے تھے۔ دیگر صورتوں میں سارا فیصد تناسب تا جاخیل قبیلچے کو جاتا تھا۔ پہلاں علاقہ میں سارا فیصد مالک خاندان کو ملتا۔ لہذا حالیہ آباد ہونے والے دیہات پر سارے خاندانی اور قبائلی دعوے یکجا یا پھر بر طرف کر دیے گئے۔ ہر دوسرے حوالے سے ہر squatter اپنی جائیداد کا مکمل مالک تھا اور اپنی خوشی سے اسے توسیع دے سکتا تھا۔ بنجر زمین کو زیر کاشت لانے والا جو بھی شخص تاجاخیل کی حدود کے اندر تھا اُس کا اندراج ہونا مار آسامی یا مالگزار کے طور پر کیا گیا؟ یہ دونوں اصطلاحات مبہم ہیں؛ اور ان حدود کے جنوب میں اُسے مکمل مالک کے طور پر لیا جاتا ہے؛ بانیوں کو ہمیشہ لمبر دار بنایا جاتا تھا اور اس مؤخر الذکر استعداد میں اُنھیں بنجر زمین کو منظم کرنا ہوتا تھا۔

گنڈی کے جنوب میں ، دیوان ساون کل کے سابق دائرہ اختیار کے اندر جب کوئی کاشت کار جنگل کی زمین کا کوئی قطعہ زیر کاشت لا تا تو مخصوص کنبوں کو ایک ہی بار تھوڑی سی مالکا نہ فیس (جھوری) لینے کا حق تھا۔ لیکن فیس وصول کرنے والے (خواہ کھٹی ہو یا کجھوری یا سول ستارھواں) لوگ کاشت کاروں کو اپنا کاشتہ رقبہ وسیع کرنے سے باز رکھنے کی واضح اتھارٹی نہیں رکھتے تھے۔ سرمایہ کار بانیوں بلکہ لمبر داروں کا مقصد خود حکومتی کو فروغ دینا اور کمیونٹی کی خواہش پر غیروں کو باہر رکھنا تھا۔ عیسی خیل والی طرف پہلے مختصر بندوبست کے وقت پنوں کے متعلق انکوائری کی کوئی کوشش نہ کی گئی۔ عیسی خیل کچھ کا بہت تھوڑا حصہ مذکورہ بالا وقت پر پانی سے باہر تھا، کیونکہ دریائے سندھ کا زور اپنے دائیں کنارے کی طرف تھا۔ جو زمینیں ابھی تک زیر آب نہیں آئی تھیں، کم از کم ترگ کا جنوب، وہ زیادہ تر اجدادی حصص والی اونچی نہری زمینیں تھیں۔ لیکن زکو خیلوں کی ایک مخصوص شاخ ( اور بالخصوص اُس شاخ کے اندر عمر خان کے خاندان کی سرفرازی اور بالادستی نے اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کے پرانے قانون کو دھچکا پہنچایا اور افراد کو ترغیب دی کہ جو کچھ ہاتھ آئے جھپٹ لیں۔

تاہم، ان کے پاس جھپٹنے کو بہت کم کچھ تھا، کیونکہ پہلے مختصر بندوبست کے وقت عیسی خیل تحصیل کے پاس موجود زیادہ تر کچھ زیر آب تھا۔ میانوالی اور عیسی خیل دونوں میں اونچے کنارے سے دور یا نزدیک جاگیریں ( جو گزشتہ میں سال کے دوران آباد ہوئی تھیں ) بونا ماری میں شمار کی گئیں۔اس سے مراد یہ تھی کہ زیر کاشت لائی گئی بنجر زمین کے مالکانہ حقوق دیے گئے تھے۔

دوسرے محضر بندوبست سے لے کر 1872ء تک کچھ کی پٹہ داریوں میں اضافہ:

دوسری مختصر بندوبست 58-1857ء میں عینی خیل تحصیل اور 61-1860ء میں میانوالی تحصیل کے لیے انجام دیا گیا، اور ان سالوں سے پہلے تک دیہی سرحدوں کی عمومی نشان دہی نہیں کی گئی تھی، لہذا زیادہ مستعد اور فعال برادریوں کو سب سے بڑے علاقے ملنا یقینی تھا۔ پہلے اور دوسرے بندوبست کے درمیان عرصے میں بہت سے غریب تر squatters جنس کی شکل میں ادائیگی کرنے والے مزارعوں کی حیثیت کو پہنچ گئے۔ متعین تخمینوں نے دریا کی غیر یقینی کارروائیوں کے ساتھ مل کر انھیں اپنی زمینیں چھوڑنے پر مجبور کیا یار یو نیو نقد کی بجائے جنس کی شکل میں اپنے لمبر داروں کے ساتھ ملا دیا۔ اس کے علاوہ جنھیں بنجر زمین کا انتظام سونپا گیا تھا اور جو بالعموم کنجوس، تو انا مر د تھے اُنھوں نے اس انتظام کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا اور اب بڑے جاگیر دار بن گئے۔

1857ء سے 1861ء تک بندو بستوں نے 54-1853ء میں کیے گئے اقدامات کو ہی دوہرانے کے علاوہ بہ مشکل ہی کچھ کیا۔ حقوق کے متعلق کوئی انکوائری نہ کی گئی۔ میانوالی میں کاشت کار طبقات بلا امتیاز بسائے گئے ، خواہ ان کا اندراج بطور قابض پٹہ دار تھایا بطور غیر قابض پشه دار یا کمتر یا بھر پور مالکان؛ اور 0-12-19 روپے اور 3 فیصد کھٹی محصولات کو بڑھا کر فیصد کیا گیا اور پہلے والے انداز میں ہی تقسیم کیا گیا۔ عیسی خیل میں تھوڑی سی ریونیو ادا کرنے والی زمین تھی، چنانچہ لمبر داروں کو پٹے دینے اور اس کے علاوہ کوئی اور ریکارڈ نہ رکھنے کا سوچا گیا۔ جب بندوبست کیے جارہے تھے تو دریائے سندھ میانوالی کی طرف کھنک رہا تھا۔ اس تبدیلی نے ہر زمینداری کو متاثر کیا، کیونکہ تخمینے ابھی تک مقررہ تھے اور غریب کاشت کاروں کے پاس اپنی زمینیں چھوڑ کر کہیں چلے جانے یا انھیں زیادہ امیر آدمیوں کے حوالے کر دینے کے سوا کوئی راہ نہ تھی، جس کے بعد اُن میں سے زیادہ تر مزارعے بن کر رہ گئے۔

جب دریا نے کھسکنا جاری رکھا تو اس کی خالی ہونے والی گزرگاہ پر قبضہ کرنے کی کشمکش شروع ہوئی۔ عیسی خیل کے دیہات نے کافی قانونی چارہ جوئی کے بعد اس میں سے زیادہ تر حاصل کر لی اور یہ جائز بھی تھا۔ جنوب کی زمینیں (جن میں سے کچھ ایک کبھی شہری تھیں) زیادہ تر پورے قبیلے حاصل کیں اور زیادہ دور کی زمینیں عمرخان کی اولادوں نے۔ ڈپٹی کمشنر نے بھی مداخلت کی اور حکومت کے لیے ایک حصہ لیا، جو گل 11000 ایکڑ تھا اور اُس میں سے اب صرف 2772 ایکڑ سرکاری ملکیت میں ہے۔ لیکن دریائے سندھ کے پیچھے بنے کے باعث ہونے والی تبدیلیاں اس قدر زبر دست تھیں کہ جلد ہی متعین تخمینے قائم رکھنانا ممکن ہو گیا، اور یوں 1862ء اور 1864ء کے درمیان تخمینے کا ایک متغیر نظام متعارف کروایا گیا۔ اس طرح کاشت کار ریونیو کی ادائیگی کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں چھوڑنے کی مزید ضرورت سے بچ گئے ، اور کاشت کار کو زبر دست تحریک ملی۔

بنجر زمینوں کے منتظمین اپنی قوتوں کو ہر ممکن حد تک بروئے کار لائے اور باہر سے مزارعے لانے، زمین صاف کرنے اور دیگر ذرائع سے ہر ممکن کوششیں کیں۔ باقاعدہ بندوبست قریب ہونے کا جانتے ہوئے اور مختصر بندوبست ریکارڈز میں اندراجات کی مہم نوعیت سے آگاہ رہتے ہوئے سمجھ دار لمبر داروں اور بنیاد داروں یا ان کے جانشینوں نے خود کو مستحکم بنانے کی خاطر متعدد کاشت کاروں کو مائل کیا کہ وہ خود کو tenants at will یا زیادہ سے زیادہ قابض پٹہ
دار تسلیم کرلیں۔

با قاعدہ بندوبست کے تحت کچھ کی پٹہ داریاں:

آخر کار جب با قاعده بند و بست کا وقت آیا تو دو بڑے سوالات در پیش تھے : بنجر زمین صاف کرنے والوں کی حیثیت کیا ہو گی اور کیا وہ یا بنیاد دار باقی کی زمین بھی صاف کرنے کا حق رکھتے تھے یا نہیں۔ جہاں تک پہلے سوال کا معاملہ ہے تو صاف ظاہر تھا کہ نسبتا نئے دیہات میں بانیوں نے برسوں تک کاشت کاروں کے لیے ایک دوسرے کے خلاف بولی دی تھی، یہاں تک کہ ایک دور آیا جب بنجر زمین کمیاب اور گراں قدر ہو گئی، اور پٹہ داروں نے کاشت کی اجازت لینے کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ بازی کی۔ ہر ایک گاؤں کے لیے عبوری سال مقرر کیا گیا؛ اُس سال تک جس شخص نے بھی جنگل صاف کیا تھا اسے قابض یا بر تر حق کا مالک قرار دیا گیا، قطعی حیثیت کی بنیاد مختصر بندوبست کے اندراجات، ریونیو ادا کیے جانے کی صورت وغیرہ پر تھی جبکہ جو لوگ بعد میں آباد ہوئے اُنھیں tenants-at-will مانا گیا۔ مختلف دیہات کے لیے یہ سال مختلف تھا، لیکن 1861ء اور 1867ء کے درمیان کا ہی کوئی سال تھا۔

جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے تو پتا چلا کہ ابھی تک تصرف میں نہ لائی گئی بنجر زمین کا رقبہ وسیع و عریض نہیں تھا (ماسوائے دریائے سندھ کی اصل گزرگاہ کے آس پاس)۔ بچی ہوئی بنجر زمین کو زیر کاشت لانے کا حق بنیاد دار یا اس کے نمائندوں کا بتایا گیا۔ چند صورتوں، مثلاً بن ماہی، میں بنجر زمین کی ایک الائنمنٹ ادنی مالکان کے ایک ٹولے کو دی گئی، اور اس کے بعد بقیہ کو بنیاد دار کے سپرد کیا گیا۔ ترک سے جنوب کی طرف عیسی خیل کچھ کے معاملے میں مالکانہ حق کا فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا۔ 1861ء کے بعد زیادہ تر زمین دریا بر آمد ہو گئی تھی۔ اور پٹہ دار، کاشت کار اور عیسی خیل نیلم کے پاس یہ دعوی جتانے کی وجوہ موجود تھیں۔ مؤخر الذکر بہترین زمین تھی جو ایک صدی قبل اونچے کنارے پر اور نمبری تھی۔ دریا بر دی کوئی گھر یا زائد سال پہلے ہوئی تھی، اور تمام صورتوں میں دریا بر آمدی کا واقعہ حالیہ تھا۔ انجام کار قبیلچے نے کنڈل، اٹک پنیالا، کچھ نور زمان شد اور کھنگا نوالہ کے دیہات کا زیادہ تر کچھ اجدادی حصص کی بنیاد پر حاصل کر لیا۔ ‘خوانین زیادہ بیرونی جاگیر میں اپنے پاس رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔

بہت سے خوانین’ کے علاوہ متعدد کچھ مالکان بھی اب خاصی اچھی اور مستقل املاک رکھتے ہیں، البتہ ہمیں سال قبل ان کے حقوق اپنے ہم آباد کاروں سے کچھ ہی بہتر تھے۔ قابض پٹہ داروں میں سے ایک بڑی اکثریت کا اندراج ایسے لوگوں کے طور پر کیا گیا جو مکمل مالک والے انداز میں ہی حق رکھتے ہیں کہ غرق یا کٹائی کی زد میں آنے والی زمین دوبارہ اُبھرنے پر اسے بازیاب کریں۔ اس کے منافی کوئی رواج موجود نہیں تھا، اور کچھ کے پرانے جٹ چرواہوں کی اولادوں کو اس قسم کی مراعات کا تحفظ نہ دینا غیر منصفانہ ہوتا۔ مزید برآں یہ قانون کا ایک تسلیم شدہ اصول ہے کہ محض زیر آب آنے سے زمین کی ملکیت نہیں بدل جاتی، اور یہ کہ پٹہ داری مع حقوق قبضہ بھی اپنی طرح کی ملکیت ہے۔ معاہدے کے تحت زمین پر قابض زیادہ تر لوگ بوٹا مار ہیں جو اگر تحریری طور پر اپنی کمتر حیثیت تسلیم نہ کرتے تو اپنی زمینوں کے کمتر یا مکمل مالکان بن جاتے۔ ذہن نشین رہے کہ کچھ کی پٹہ داریاں پیچیدہ ہیں؛ لیکن خطے کی سابقہ تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے ان میں سادگی پیدا کر نا نا ممکن ہوتا، اور اس کے قدیم جٹ باشندوں کے ساتھ انصاف ہو تا جو نیازیوں اور سادات کے درود سے قبل کچھ کے بے ضابطہ مالک تھے۔

میانوالی کی اونچی زمین پر پٹہ داریاں:

میانوالی کی اونچی زمینیں تین قسم کی ہیں : شمال میں موہر اور ڈنڈا دیہات جنھیں کوہ نمک کی مغربی طرف سے ڈریج وصول ہوتا ہے، اور جن میں سے زیادہ تر نیازی پٹھانوں کی ملکیت ہیں، جنوب میں تھل خاص جس پر جنوں اور متفرق برادریاں قابض ہیں، اور کوہ نمک کے مشرق میں پکھر علاقہ جو اعوانوں کا ہے۔ تینوں میں مالکانہ حق کی صورت کا مختصر تذکرہ ضروری ہو گا۔ اس وقت موجود تینوں پٹھان کمیونیٹیز خود انحصار طور پر آباد ہوئیں۔ زمین وافر اور کاشت کارمعدودے چند ہونے کے باعث لگتا ہے کہ کبھی کوئی باقاعدہ تقسیم نہیں کی گئی۔ ہر ایک خاندان زمین پر جا بیٹھا اور اپنی مرضی کا قطعہ کاشت کیا۔ لیکن دستیاب رقبے پر ڈھیلا ڈھالا تصرف ہو گیا تو با قاعدہ تقسیم ایک اصول بن گئی، اور املاک بیٹوں کو مساوی حصص میں منتقل ہونے لگیں۔

چنانچہ اب زیادہ تر زمین پستی وند لگتی ہے، یعنی پر پستی میں حصہ دار جو مشتر کہ جد امجد کی اولاد
ہیں اور اجتماعی طور پر اُسی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زمین والا معاملہ ہی پہاڑی نالے کے پانی کے ساتھ ہے۔ لیکن اس کی محدود سپلائی، تقسیم کی مشکل اور بالائی بہاؤ پر رہنے والوں کی غیر مختم حرص کی وجہ سے عمومی اصول اب تقریباً سرو با پینا ہے، یعنی اوپر والا پہلے اور سب سے نیچے والا بعد میں۔ لیکن بہت سی صورتوں میں ڈیموں کے سائز اور پوزیشن یا ضمنی نالوں اور ہر ایک کے پانی کے حصے کا فیصلہ سول مقدمے کے ذریعے ہوتا ہے۔ اسی طرح متعد د خاندانوں میں باہمی صلح جوئی سے ایسا ہی نتیجہ حاصل کیا گیا ہے اور بندوبست ریکارڈ میں درج ہے۔

تھل کی پٹہ داریاں:

تھل میں برادریوں اور افراد دونوں نے اپنی بلا شرکت غیرے حقوق زمین آباد کرنے (squarting) کے ذریعے حاصل کیے۔ 57-1856ء میں زمینداریوں کی حدود بن جانے تک حکومت کسی بھی گاؤں سے باہر کی تمام بنجر پڑی زمین پر دعوے کا حق رکھتی تھی۔ جنوب کی طرف جو بھی کنواں کھودتا وہ آس پاس کے کاشتہ رقبے کا مالک تصور کر لیا جاتا تھا، اور ہل چلانے کے بیلوں کی چرائی کے لیے خاطر خواہ زمین پر بھی اُس کا حق مانا جاتا۔ اس گاؤں کا کوئی بھی فرد کنواں کھودنے کا حق رکھتا تھا اور کبھی کبھی باہر کے لوگ بھی سب ڈویژنل آفیسر کی اجازت سے یا اجازت کے بغیر ایسا کر لیتے تھے۔ مذکورہ بالا عمومی اصول میں صرف ایک استثنیٰ ہے۔ واں بھچراں کے فوراً بعد کی زمینیں کوئی ایک سو سال قبل موجودہ ملکوں کے جد امجد ملک سرخروں نامی بندیال سردار نے حاصل کیں۔

اُس نے وہاں ایک قلعہ بنوایا اور ہر کاریگر کو ملحقہ زمین کا ایک قطعہ بطور معاوضہ دیا گیا۔ یوں الاٹ کی گئی زمین تھویی ونڈ کہلائی (تھوڑی سے مراد زمین کی اتنی مقدار ہے جو کوئی شخص اپنے دو ہاتھوں سے کاشت کر سکے ۔ تھیوری کے اعتبار سے بقیه ساری زمین سردار کی تھی، اور پھر اُس کی اولاد کو ملی۔ لیکن آباد کار جلد ہی اُن سے زیادہ طاقت ور ثابت ہوئے ، اور تمام سمتوں میں نئی زمین زیر کاشت لائے۔ الحاق کے بعد اُس وقت ت کے سرداروں (ملک سردار خان اور احمد یار خان نامی دو بھائیوں) نے اپنے گاؤں پر متجاوز افراد کے خلاف اکٹھا ہونے کی بجائے ایک دوسرے کی مخالفت کی اور کافی مقدے بازی ہوئی۔ پہلے با قاعدہ بندوبست کے وقت خاندان کو بحال کرنے کی کوشش میں تمام فالتو زمینوں کو خاندان کے دو سر براہوں کے نام پر ریکارڈ کیا گیا۔ جہاں تک اونچی سڑک کے جنوب میں اور دوسری جگہوں پر واں بھچراں کی بنجر زمین کا معاملہ ہے تو اُس وقت کی باقی ماندہ زمین کو شاملات دیہ کے طور پر ریکارڈ کیا گیا۔ بعد ازاں اس کی تقسیم کر دی گئی۔

پکھر علاقہ میں پنہ داریاں:

مبینہ طور پر اعوان پکھر علاقے پر سلطان محمود کے عہد سے قابض ہیں۔ اسے پانچ بڑے اور دو چھونے دیہات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کالا باغ سردار کے حاصل کردہ مسن اور نیکی کے متعلق نیچے بتایا گیا ہے۔ تھمے والی میں اور کچھ حد تک چکر الا یعنی دو بڑے مرکزی دیہات میں ایک خاندان نے سکھ عہد میں نمایاں حیثیت حاصل کی اور تقریباً سارے اول الذکر گاؤں اور میں فیصد موخر الذکر کا مالک بن بیٹھا۔ مذکورہ بالا مستثنیات کے ساتھ خطے میں زمینداریاں بڑی نہیں اور قبضہ ہی حق کا واحد پیمانہ ہے۔ الحاق کے بعد کئی سال تک کوئی دیہاتی بنجر زمین کو زیر کاشت لانا چاہتا تو اس کا مالک بن جاتا۔ سکھ عہد میں کاشت کاری وسیع پیمانے پر نہیں تھی، کیونکہ جان ومال کو کوئی تحفظ حاصل نہ تھا، اور زمین کی بے قاعدگی کی وجہ سے قطعے کو ہموار اور سیراب کرنے میں بہت زیادہ محنت درکار تھی۔

نیکی اور مسن میں حقوق قبضہ:

نکی پھر میں ایک بیرونی گاؤں ہے اور اس کی تاریخ کافی نشیب و فراز کی حامل ہے۔ انیسویں صدی کے آغاز میں جب سکھوں نے اپنی فتوحات کو دریائے سندھ تک بڑھایا تو مسن اور نیکی کے اعوان قابض مین کو بہت کمزور اور منقسم حالت میں پایا۔ دونوں میں سے کسی گاؤں میں بھی کوئی طاقت ور آدمی موجود نہ تھا۔ اول الذکر گاؤں کالا باغ کے سردار کے زیر انتظام تھا جو اس کی چند بستیوں پر اپنا تسالا اور مالکانہ حق جتا چکا تھا۔ مؤخر الذکر گاؤں میں داخلی اور خارجہ تنازعات نے سر کردہ کر ملی خیل خاندان کی تمام حاکمیت چھین لی تھی، اور یوں اپنے طاقت در قرابت داروں (مسن پر قابض) کو غلبہ پانے کا موقعہ دیا۔ سکھوں نے دونوں علاقے یا دیہات ایک جاگیر دار کو تفویض کر دیا جس نے کچھ عرصے بعد واجبات وصول کرنے کی ذمہ داری کالا باغ سردار کو دے دی اور اسے محصولات کا ایک چوتھائی دینے پر راضی ہو گیا۔ 1822ء تک ایسا ہی تھا۔ تب سے لے کر الحاق تیک نکی کے آدمی اپنی پیداوار کا ایک چوتھائی ادا کرتے تھے، اور کالا باغ کا کلکٹر اُن کا سر پرست اور نیم جاگیر دار بن گیا۔

الحاق کے بعد گاؤں کا مالانہ حق تعین فریقین کے درمیان تنازع کا باعث بنا: کالا باغ سردار، موروثی کسان، اور پرانے آباد کار علی خیل خاندان کی اولاد۔ مؤخر الذکر کا دعویٰ بہت کمزور یہ آسانی بر طرف کیے جانے کے قابل تھا۔ با قاعدہ بندوبست تک پہلے دو فریقین یہ مسئلہ کبھی عدالت میں نہ لائے۔ کاشت کار کمزور اور کو تاہ اندیش تھے، سردار مضبوط اور اتنازیرک تھا کہ اپنی حیثیت کے تعین میں تاخیر کے ہر سال کو اپنا دعویٰ مضبوط ہونے کا باعث سمجھا۔ ہر اختلاف کے نتیجے میں ایک سمجھوتہ ہوا، یہاں تکہ 1862ء میں بہت سے دیہاتیوں نے ایک تہائی اناج دینے اور خود کو قابض پٹہ دار سمجھنے پر رضامندی دے دی۔ لیکن جھگڑ ابد ستور جاری رہا، ایک فریق گاہے بگاہے محصولات پر شکایت کرتا اور مطالبہ زر مقرر کیے جانے کی درخواست دیتا رہا، جبکہ دوسرا فریق سال به سال گاؤں پر اپنی ملکیت مضوبط کرتا گیا۔ انجام کار پہلے با قاعدہ بندوبست کے دوران گاؤں والوں نے ہمت کر کے مالکانہ حقوق کے لیے مقدمہ کیا اور خاصی مقدمے بازی کے بعد کچھ کاشت کاروں کو مخصوص امتناعی شرائط کے ساتھ حقوق قبضہ کا مجاز قرار دے دیا گیا۔ کالا باغ سردار کی جاگیر گاؤں مسن میں پٹہ دار کے حقوق کا تعین بھی کافی حد تک انہی بنیادوں پر ہوا، لیکن وہاں قابض پٹہ داروں کی تعداد زیادہ نہ تھی۔

دریائر د اور دریا بر آمد ہونے والی زمین:

دریا برد اور دریا بر آمد ہونے والی زمین کے حوالے سے مسٹر تھار برن کی بندوبست رپورٹ کا مزید ایک اقتباس دستور کی وضاحت کرتا ہے: انسان ایک اور اہم کام زیر آب میانوالی کچھ کی تقسیم کے لیے انتظامات کرنا تھا۔ میں نے پیچھے ایک باب میں وضاحت کی ہے کہ 1856ء اور 1868ء کے درمیان میانوالی کچھ کا ایک بہت بڑار قبہ دریائی کٹاؤ کی وجہ سے برباد ہو گیا تھا۔ دریا بر آمد زمین پر حق جتانے کا معاملہ عدالت میں گیا۔ سارے کچھ میں گاؤں کی اور انفرادی زمینوں دونوں کے لیے اصول یہ تھا اور ہے کہ ایک بار جو حد بن گئی وہ ہمیشہ رہے گی، خواہ رقبہ پانی کے نیچے ہو یا او پر۔ لہذا جہاں بھی زمین پانی سے باہر آئی، متعدد دعوے دار اپنا حق جتانے لگے کہ وہ ان کی پرانی ملکیت والی جگہ ہے۔ نقشے موجود نہ ہونے کی وجہ ے فیصلے من مانے اور بے ٹیک بازی پر مبنی بھی تھے۔ 74-1873ء میں اس بندوبست کی پیمائشیں ، 36 دیہات سے تعلق رکھنے والے 192388ایکڑ کے انفرادی حقوق فیلڈ نقشوں میں ظاہر نہ کیا جاسکے کیونکہ زمین زیر آب تھی۔ میں متعلقہ برادریوں کو سمجھایا کہ یہ زمینیں دوبارہ نمودار ہونے پر تقسیم کے کچھ انتظامات کرنا کیوں ضروری ہے تا کہ مقدمہ بازی نہ ہو اور انصاف یقینی بنایا جائے۔

تمام دیہات رضامند ہو گئے اور زیر آب زمینوں کو مشترکہ ملکیت تصور کرتے ہوئے سپر نٹنڈنٹ کی زیر نگرانی تقسیم کروائی۔ نتیجتاً سارے علاقے کا نقشہ تیار کر کے اس طریقے سے تقسیم ہوئی کہ ہر حصہ دار کو اپنا حصہ دوبارہ نمودار ہونے پر ملے گا اور اُسے قانونی چارہ جوئی نہیں کرنا پڑے گی۔ چار دیہات کے م دیہات کے معاملے میں تقسیم کی بنیاد سابق فیلڈ نقشے رہے ہیں۔ لیکن دیگر 32 میں سے زیادہ تر خواہش مندوں نے اپنی زیر آب زمینوں کو بلا کس یا قطعات میں تقسیم کر لیا ( اپنے متناسب حصص کے مطابق) ، انفرادی طور پر الاٹ کیا گیا حصہ ریکارڈ کر لیا گیا۔ وہ رقبہ عموماً ایک قابض پٹہ دار یا مکمل مالک کے لیے ہیں، پہلے یا دوسرے مختصر بندوبست کے وقت اُس کے نام پر کسی ایک سال میں اندراج کردہ زیادہ سے زیادہ رقبہ ، یا بعد کی سالانہ پیمائشوں میں متغیر تخمینے کے تحت۔ اگر کچھ بقیہ ہو تو اُس کا اندراج بنیاد داروں کے نام ایک یا زائد قطعات میں یا بطور شاملات دیہ کیا گیا۔

عیسی خیل اور میانوالی تحصیلوں میں دوسرے با قاعدہ بندوبست کے وقت پٹہ داریاں:

اوپر دیے گئے اقتباسات میانوالی اور عیسیٰ خیل تحصیلوں میں پہلے با قاعدہ بندوبست (1878ء) تک کہ تاریخ دکھاتے ہیں، اور دو تحصیلوں کی اسیسمنٹ رپورٹ (مصنف رائے بہادر پنڈت ہری کشن کول ، C.L.E، 1907ء) میں سے مندرجہ ذیل اقتباس موجودہ سن تک کا حال پیش کرے گا۔ انتشار کا عمل اپنا کام کرتا رہا ہے۔ مشترکہ زمین رکھنے والے دیہات درجہ بدرجہ اسے تقسیم کر رہے ہیں اور آہستہ آہستہ پنجاب کی عام ترین پٹہ داری بھائی چارہ کی طرف بڑھ رہے ہیں جو اس وقت یہاں رائج صورت ہے ، ماسوائے چند زمینداری دیہات کے جو فرد واحد یا خاندانوں کی ملکیت ہیں۔ صرف ایک پتی داری گاؤں ہے جو مشتر کہ نقشہ رکھنے والی دو جاگیروں کے ادغام کی وجہ سے وجود میں آیا۔ بھائی چارہ دگاؤں کے اندر مالکانہ حقوق گزشتہ بندوبست کے وقت زمینداروں کے ٹولوں (وزھیوں) نے منظم کیے جنھیں ایک مشترکہ جد امجد کی اولاد تصور کیا گیا۔

ایک وزھی سے تعلق رکھنے والی زمین ایک پتی کی طرح ایک ہی بلاک میں نہیں تھی، بلکہ جابجا بکھری ہوئی تھی، اور ٹولوں نے قطعات کے انتقال اور بیرونی عناصر متعارف کروانے کے ذریعے برادری کا بندھن کھو دیا۔ چنانچہ یہ انتظام ترک کھ دیا گیا، ما سوائے ان جگہوں کے جہاں وڑھیوں کے پاس اپنی علیحدہ مشترکہ زمینیں تھیں ۔ عیسی خیل تحصیل کے جنوب میں چند دیہات میں، نیازیوں کی آباد کاری شروع ہونے سے قبل، رقبہ نال نامی بڑے بلاکوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ لیکن افراد نے وقت گزرنے پر ایک سے زیادہ ٹال میں زمین کو قبضے میں لے لیا۔ میانوالی تحصیل میں زمینی پٹہ داریاں زیادہ پیچیدہ نہیں۔ زمیندار عموماً ایک مکمل مالک ہے جو اپنی زمین میں ہل چلاتا یا حق قبضہ رکھنے یا نہ رکھنے والے پٹہ داروں ( مزارعوں) کے ذریعے کام چلاتا ہے۔ کچھ کا نصف سے زیادہ اور پکا کہ دیہات میں چند دیہات میں اعلیٰ مالکان ادنی مالکان سے زمینی ریونیو کا فیصد ی زائد لیتے ہیں، جبکہ ادنی مالکان زمینی ریونیو کی ادائیگی اور کاشت کاری کے انتظام کے لیے ذمہ دار ہیں۔ کھدری اور پکہ کے دامن کوہ والے حصے میں مشروط پٹہ دار موجود ہیں جنھوں نے زمین صاف کیا اور پشتے بنائے ، اور اگر چہ اُن محض tenants-at-will کے طور پر لیا جاتا ہے، لیکن اُس وقت تک بے دخل نہیں کیا جاتا جب تک وہ پشتوں کو ٹھیک رکھیں یا انھیں زمین زیر کاشت لانے میں اپنی محنت کا معاوضہ ملتا رہا۔

کچھ میں زمین صاف کرنے والے اسی طرح کے په دار بونی مار کہلاتے ہیں۔ زمیندار کبھی کبھی کاشت کاری کا حق کسی مزارعے کو پٹے پر دینے کے عوض کچھ رقم لیتا ہے جو مزارعے کو نکالنے سے پہلے واپس کرنا ہوتی ہے۔ عینی خیل تحلیل کی زمینی پیشہ داریاں در حقیقت بہت پیچیدہ ہیں۔ وہاں پکا اور کچھ میں اعلیٰ مالکان 0،6-4-6 یا ادنی مالکان سے آنے والے زمینی ریونیو کا 25 فیصد وصول کرتے ہیں یا پھر مشتر کہ ڈھیر سے 1/10 بطور کھتی لیتے ہیں۔ 25 فیصد زیمینی ریونیو یا 1/10 پیداوار ادا کرنے والے ادنی مالکان اور زمینی ریونیو کے علاوہ تقریباً اتنے ہی رئیس پر لگان ادا کرنے والے قابض پنہ داروں کے درمیان بہت تھوڑا فرق ہے۔ اس کے علاوہ بوٹی مار اور مانجھے مار پٹہ دار ہیں جنھوں نے بنجر زمین صاف کی یا پٹتے تعمیر کیے یاز میں ہموار کی اور انھیں زر تلافی ادا کیے بغیر بے دخل نہیں کیا جا سکتا اور جو اپنے حقوق بیچ یا پنے پر دے سکتے ہیں۔ اس تحصیل میں زمین کے حقوق تھوڑے تھوڑے کر کے منتقل کرنے کا ایک مخصوص طریقہ ہے۔ مثلاً کوئی اعلی مالک اپنا حق (کھنی) ایک شخص کو فروخت کرے گا یا نئے پر دے گا، اپنا ادنی مالکانہ حق (محصول) دوسرے کو اور حق کاشت کسی تیسرے کو۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف متعدد تغیرات کی توثیق کرنا پڑتی ہے بلکہ کبھی کبھی معاملات بہت دقیق ہو جاتے ہیں۔ دوسری جگہ ۔ دوسری جگہوں پر جیسے ولوں کچھ بھی غیر عام نہیں جس میں زمیندار اپنی زمین پئے پر دیتا ہے لیکن بطور حقیقی مالک پیداوار میں تھوڑا سا حصہ لینے کا حق قائم رکھتا ہے یا جہاں کوئی شخص زمین پے پر لیتا لیکن مولویوں کی پابندیوں سے بچنے کے لیے پنہ دینے والے کو معمولی حصہ دینے پر رضامند ہوتا ہے۔ پیچیدہ ترین پٹہ داریاں نہری زمینوں پر ملیں گی۔

نبری سرکل کے 1/6 سے زائد میں نہری آب پاشی کے پرانے نظام کا نتیجہ ہر مالک کی زمین تین حصوں میں تقسیم ہونے کی صورت میں نکلا: نصف حصہ سجی کے تحت پاس رہا،3/8 واکو کو گیا اور 1/8 ماشکی کو۔ ماشکیوں کو ذیلی مالکان کے طور پر لیا جاتا ہے جنھیں اس صورت میں نکالا جاتا ہے جب وہ زمین کے سجھی والے نصف کے لیے پانی مہیا کرنے میں ناکام ہو جائیں۔ وانگوؤں کا اندراج ماشکیوں کے تحت ہوتا ہے اور یہ دو قسم کے ہیں: (1) مشروط، جو اُس وقت تک بے دخل نہیں کیے جاتے جب تک وہ نہر صاف کرنا جاری رکھیں اور یہ اپنے حقوق منتقل کر سکتے ہیں؛ اور (2) عارضی، جنھیں زرعی سال مکمل ہونے پر بے دخل کیا جا سکتا ہے، اور اس دوران وہ نہر کی بھل صفائی کرتے ہیں۔ ماشکی اور وانگو اپنے قطعے کا زمینی ریونیو ادا کرتے ہیں، ماشکی اپنے پٹہ دارواکو سے ریونیو کی ادائیگی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

جلانے کی لکڑی کاٹنے کا حق:

کاشت کاروں کے تمام طبقات مشتر کہ زمینوں سے جلانے کی لکڑی لینے کے مجاز ہیں۔ غیر کاشت کار، جیسے تاجر اور دست کار مشتر کہ زمینوں سے گھاس اور لکڑی اور منج لینے کے دعوض 8 آنے سالانہ ادا کریں گے ۔ اس ضمن میں ہونے والی ادائیگیوں سے چرائی کی جمع کی ادائیگی ہو گی، اور یہ اعلیٰ مالکان کو نہیں ملے گی۔
میں نے ماضی اور مستقبل میں بنجر زمینوں کے انتظامات پر مفصل بات کی ہے جن کا اطلاق کچی کے دیہات پر ہوتا ہے کیونکہ یہ معاملات بار بار تنازع کا باعث بنتے رہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ علاقے کے تمام دیہات کے لیے ایک ہی جیسے قواعد مقرر نہیں؛ اور اگر اعلیٰ اور ادنی مالکان چاہیں تو باہمی رضامندی سے ان میں ترمیم کریں گے۔

سندھ کے اس طرح کچی میں مشتر کہ پٹہ داری کے اہم عناصر:

بندھ کے اس طرف کچی میں مالکانہ حق کے نظام کا خلاصہ یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ علاقہ حدوں میں تقسیم ہے جو موضع کی حد پر ختم ہو جاتی ہیں؛ ہر ایک حد اعلیٰ مالکان کے چھوٹے سے ٹولے کی ملکیت ہے، جو غیر منقسم حصص رکھتے ہیں اور کبھی کبھی تقسیم شدہ پتیاں۔ ان اعلیٰ مالکان سے نیچے انفرادی اعلیٰ مالکان، ادنی مالکان اور پٹہ داروں پر مشتمل ایک مخلوط تنظیم ہے جنھوں نے بنجر زمین زیر کاشت لانے کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کیے ہوتے ہیں، اور جو بھائی چارہ نظام کے تحت سرکاری ڈیمانڈ ادا کرتے ہیں، یعنی اپنی املاک کے تناسب سے۔ بیشتر دیبات میں ایک خاص مقدار شاملات بنجر زمین کی ہے جو اعلیٰ مالک کی ملکیت ہے اور برادری کے دیگر طبقات بھی اس پر مخصوص حقوق رکھتے ہیں۔

کچھ دیہات میں، زیادہ تر دریا کنارے پر ، کوئی اونی مالکان نہیں سب بوٹی ماروں کی زمرہ بندی بطور قابض پٹہ دار کی گئی ہے اور اعلیٰ مالک طبقہ مکمل مالک بن جاتا اور خصص پر ریونیو ادا کرتا ہے۔ اس قسم کے دیہات میں واحد ادنی مالک کی موجودگی اونی ات ملکیت کی پٹہ داری کو زمینداری سے بھائی چارہ میں تبدیل کر دیتی ہے۔ دیگر صورتوں میں دو الگ الگ حدوں کی ایک موضع میں شمولیت اعلیٰ ملکیت کی پنہ داری کو زمینداری سے بھائی چارہ میں
بدل دیتی ہے، البتہ ہر ایک حد انفرادی طور پر عام زمینداری پٹہ داری کے تحت ہوتی ہے۔

دیسی اصول کے تحت زمینی ریونیو:

الحاق سے پہلے کے دور میں میانوالی عیسی خیل تحصیلوں میں تخمینے کے دوٹوک نظام کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ بس اتنا معلوم ہے کہ زمینی ریونیو کی طلب عموماً مجموعی پیداوار کے 1/4 تھی اصل میں کافی کم لیا جاتا تھا ) جسے نقد میں تبدیل کیا جاتا۔ اس کے علاوہ نذرانہ 2 تا 5 روپے فی بل) اور کمیانہ ( تمام غیر زراعتی کنبوں پر ٹیکس بھی عائد تھے۔ پیداوار کا اندازہ عموماً کھڑی فصل کے تخمینے کے ذریعے لگایا جاتا ہے۔ پرانے زمانے میں جنوبی تحصیل کا تخمینہ تیار کرنے کے نظاموں کا بھی بہت کم علم ہے۔ بس دیوان ساون مل کی انتظامیہ سے منسلک مخصوص حقائق ہی معلوم ہیں۔ سکھ عہد سے پہلے سدوزئی حکومت کے دوران لگتا ہے کہ تھل میں ایک نقد تخمینہ لاگو کیا گیا تھا جو ہر ایک کنوئیں کی استعداد کے مطابق تھا، جبکہ دریائی خطے میں غالباً 8 آنے فی پچھ (25 تا 30 من ) لینے کا قدیم اصول ہی لاگو رہا جسے نواب محمد خان سدوزئی نے بڑھا کر 1/8 بٹائی کر دیا اور بعد ازاں 1/6 یا اس سے بھی زائد۔ ہر کنواں پانچ تا دس روپے کا طے شدہ جمع ادا کر تا تھا۔

سکھ دور میں یہ علاقہ صوبہ ملتان میں شامل تھا اور مشہور دیوان ساون کل اُس کا حاکم تھا یہ اُس نے تھل میں اس بنیاد پر نقد تخمینہ عائد کیا کہ کوئی عام کنواں خریف میں 5 روپے اور ربیع میں 7 روپے ادا کرے گا۔ نظام کو ”ست، پنج، باراں“ کا نام دیا گیا۔ اچھے موسموں میں نذر مقدم، یا شکرانہ’ جیسی فیس بھی لاگو کی گئی تھیں۔ مویشیوں پر "ترنی رسن“ نامی ٹیکس ادا کیا جاتا تھا اور اونٹوں پر ”ترنی شتر اں۔“ دریا کنارے کی زمینوں پر پیداوار کو تولا جاتا اور حکومت کا حصہ کاشت کار کو واپس دیا جاتا تھا جس کا نرخ وہ خود مقرر کرتا۔ جہاں ضرورت پڑتی وہاں ضبطیانہ اور دیگر محصولات بھی لاگو کیے جاتے تاکہ طلب مکمل ہو سکے۔ تمباکو ، کپاس اور شکر پر ضبطی” (نقد) ریٹ لاگو کیے جاتے تھے۔ بحیثیت مجموعی دیوان ساون مل کی جمع بندی ( جو لوگوں کی رائے میں نرم اور قابل قبول ہوا کرتی تھی) حقیقت میں نرم نہیں ہو سکتی تھی۔ مقامی حالات کا گہرائی میں علم اور طلب کا نہایت لچک دار ہو نا غالباً اس نظام کی مقبولیت کا سبب تھا، حالانکہ جمع بندی مکمل طور پر وصول کی جاتی تھی۔

برطانوی دور میں بندوبست اور جائزے:

الحاق سے لے کر 54-1853ء تک عیسیٰ خیل تحصیل میں ریونیو بذریعہ تخمینہ یا appraisment اکٹھا کیا جاتا تھا، جبکہ میانوالی میں ایکسٹرا اسٹنٹ ریذیڈنٹ مسٹر براؤنگ نے 1848ء میں نقد تخمینے متعارف کروائے۔ کل طلب ایک لاکھ روپے سے زائد مقرر کرتے ہوئے کیپٹن ہو لنگز نے 1850ء میں بھکر تحصیل کا پہلا مختصر بندوبست تیار کیا اور گزشتہ تین سال کی اوسط وصولیوں کی بنیاد پر تخمینہ تیار کیا جو یوں تھا:
زمینی ریونیو                                      70,609 روپے

ترنی                                              25,336 روپے

گل : 95,945 روپے

میجر نکلسن نے عیسیٰ خیل تحصیل کا پہلا مختصر بندوبست 54-1853ء میں تیار کیا جبکہ ڈپٹی کمشنری یہ مسٹر ڈی کیمسن نے 1853ء سے 1855ء کے درمیان کوہ نمک سے مغرب کی طرف میانوالی تحصیل کا پہلا مختصر بندوبست اور بھکر تحصیل کا دوسرا مختصر بندوبست تیار کیا۔ عیسی خیل تحصیل کا دوسرا مختصر بندوبست 58-1857ء میں میجر Coxc اور میانوالی تحصیل (کوہ نمک سے مغرب) کا دوسری مرتبہ بند و بست کیپٹن پارسنز اور Smyly نے 61-1860ء تیار کیا۔ کوہ نمک سے مشرق کی طرف کے حصہ کا دوبارہ بندوبست ایکسٹر اسٹنٹ کمشنر مسٹر کاؤمین نے 64-1863ء میں بنایا۔ بھکر تحصیل کا تیسرا مختصر بندوبست 1862ء میں کیپٹن میکنزی نے انجام دیا۔
بھکر تحصیل کا دوسرا اور تیسرا مختصر بندوبست بھی دو شمالی تحصیلوں کے پہلے اور دوسرے بندو بستوں کے ساتھ ہوئے۔ اعدادو شمار سے ظاہر ہو گا کہ شمالی تحصیلوں کا ریونیو پہلے اور دوسرے بندوبست کے بعد بہتر ہوا، لیکن بھکر تحصیل کی جمع بندی (جو دوسرے مختصر بندوبست میں ناجائز طور پر بڑھادی گئی تھی) کو کم کر کے پہلے بندوبست کی جمع سے بھی نیچے لانا پڑا۔ موجودہ شکل میں پورے ضلع کا گل ریونیو پہلے با قاعدہ بندوبست سے پہلے 2,70,026 تھا۔

پہلا باقاعدہ بند و بست:

پہلا با قاعدہ بندوبست 1872ء سے 1878ء کے دوران مسٹر تھار برن نے دو تحصیلوں میں انجام دیا جو پرانے بنوں ضلع میں آتی تھیں، اور مسٹر ٹکر نے بھکر تحصل کا بندوبست تیار کیا جو پرانےضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں شامل تھی۔ تحصیلوں کو جمع بندی کے حلقوں (سرکلز) میں بانٹا گیا اور زمینوں پر ریس تجویز کیے گئے۔ دریا کے اونچے کنارے سے اوپر علاقے کی ترنی سمیت جمع بندی مقرر کی گئی، لیکن دریائی زمینوں پر ایک متغیر جمع بندی لاگو ہوئی۔ میانوالی اور عیسی خیل کی ساری دریائی زمینوں کی جمع بندی سال بہ سال فی ایکڑ کاشتہ رقبہ پر مندرجہ ذیل رئیس کے تحت ہونا تھی (یعنی وہ رقبہ جس پر خریف یار بیع کی فصل ہوئی گئی ):

چاہی زمینوں پر کوئی اضافی ریٹ لاگو نہ کیا گیا۔ ترنی جمع کا اطلاق 0-2-3 روپے فی 100 ایکڑ کے یکساں ریٹ پر دریائی علاقے میں بنجر زمینوں پر سال بہ سال ہونا تھا، بشر طیکہ گاؤں کی بنجر زمینیں اُس گاؤں کے کاشتہ رقبے کے مساوی یا زائد ہوں۔ کانه saccharum munja)، کنڈر (bulrush) اور کنک (saccharum spontaneum) اگر محفوظ بنائے گئے ہوں تو اُن پر بھی پورے کا شتہ رئیس لاگو ہوئے۔ بھکر تحصیل میں متعارف کر وایا گیا نظام تھوڑا سا مختلف تھا۔ پورے علاقے کے لیے ایک یکساں سیلاب ریٹ کی بجائے ہر گاؤں پر ایک ریٹ عائد کیا گیا۔

کنوؤں پر آبیانہ نام کا ایک مجموعی مالیہ عائد کیا گیا جو مظفر گڑھ ضلع والے طریقے سے طے کیا گیا۔ جھلاروں سے سیراب ہونے والی زمینوں نے سیلاب کی بہ نسبت زیادہ مالیہ ادا کیا جس کا ریٹ ہر گاؤں کے لیے مقرر تھا۔ ترنی جمع سال به سال بنجر رقبے پر 80-3 فی 100 ایکڑ کے حساب سے لاگو کیا گیا تھا۔ بھکر تحصیل میں کھجور کے درختوں سے مقررہ ریونیو 682 روپے ہے تھی۔ دریائی زمینوں کی جمع بندی کے نظام میں متعارف کروائی گئی تبدیلی سب سے زیادہ مفید تھی۔

رائے بہادر پنڈت ہری کشن کول (سی آئی ای) کی جانب سے دوسرے با قاعدہ بندوبست کی حتمی رپورٹ میں سے مندرجہ ذیل اقتباسات بندوبست اور سروے کے نظام سے متعلقہ مختلف امور کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں:

حکومت پنجاب نے نوٹیفکیشن نمبر 158 مورخہ 6 اکتوبر 1898ء کے تحت بھکر تحصیل میں حقوق کے ریکارڈز کی ایک خصوصی ڈہرائی کا اختیار دیا جو اُس وقت ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں شامل تھی اور حکومت پنجاب نے نوٹیفکیشن نمبر 21918 مورخہ 28 ستمبر 1903ء کے ذریعے میانوالی اور عیسیٰ خیل تحصیلوں میں یہی اختیار دیا۔ سارے ضلع کی دوبارہ سے پیائش مربع نظام کے تحت ہوئے ، ماسوائے مندرجہ مستثنیات کے:

1۔   بھنگی خیال کے پہاڑی علاقے کے نقشے جہاں کاشت کاری میں گزشتہ بندوبست کے بعد سے زیادہ ردو بدل نہیں        ہوا۔ کاشت کاری کے حوالے سے گزشتہ بندوبست کی پیمائشیں بالکل درست پائی گئیں۔

2۔ اسی طرح دریا کے مشرق میں واقع چار کھدری دیہات کے نقشے ، جہاں مربع سازی ناممکن تھی، اور کاشت کاری ہموار قطعات تک محدود تھی۔ لہذا صرف اُنھیں میں ردو بدل ہوا۔ تاہم، یہاں نقشے زیادہ درستی نہیں رکھتے، اور ترمیم میں لگنے والی محنت کو مد نظر رکھتے ہوئے شاید گاؤں کی نئے سرے سے پیمائش کرنا بہتر رہے گا۔

3۔ میانوالی تحصیل سے اُس پار اور عیسی خیل تحصیل کے شمال، مغرب اور جنوب میں پہاڑیوں کی پیمائش plane-table کے تحت کی گئی۔

4۔ وافر بارانی کاشت والے میانوالی تھل (جس کی دوبارہ پیمائش ہو چکی ہے) کے برعکس بھکر تھل کو اس قدر وسیع اور بنجر سمجھا گیا کہ اُس کی دوبارہ پیمائش کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔

پیمائشوں کے نتائج:

گزشتہ بندوبست کے وقت ضلع کا کل رقبہ 33,65,782 ایکڑ تھا اور اب 34,42,871 ایکڑ ہے۔ اضافہ کی جزوی وجہ یہ ہے کہ معینی خیل تحصیل میں شمال اور مغرب کی طرف کے پہاڑی علاقے گزشتہ بندوبست میں شامل نہیں کیے گئے تھے۔ لیکن بڑا فرق بھکر تحصیل میں آیا۔ تھل کے نئے نقشے کیپٹن Crosthwaite کی زیر نگرانی تیار کیے گئے جو 79-1873ء کے ریونیو سروے نقشوں کی نقل تھے۔ حقوق کے نئے ریکارڈ میں کل رقبہ سروے ڈیٹا سے لیا گیا۔ کھیتوں
کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ پایا گیا جو کاشت کاری کی توسیع کا فطری نتیجہ ہے۔ شمالی اور جنوبی تحصیلوں میں معمولی فرق کے ساتھ مندرجہ ذیل کا غذات نئے سٹینڈنگ ریکارڈز آف رائٹس میں اکٹھے کیے گئے ہیں:

1۔ روبکار ابتدائی۔

2۔ شجرہ کشتواڑ ( فیلڈ میپ ) مع انڈیکس میپ اور انڈیکس مساوی۔

3۔ شجرہ نسب

4۔ زمین کی جمع بندی مع کھیتوں کا اشاریہ۔

5۔ تاریخ جمع بندی، صرف بھکر تحصیل میں۔۔

6۔ جمع بندی تیتر نی، صرف بھکر تحصیل میں۔

7۔ فہرست معافیات و پیشن۔

8۔ نقشہ حقوق چاہت۔

9۔ نقشہ حقوق آب پاشی یا رواج آب پاشی۔

10۔ واجب الارض

11۔ جمع کا تعین کرنے والے کلکٹر کا حکم نامہ ۔

12۔ جمع بندی کی تقسیم کا حکم نامہ (مع فہرست جس میں تھل کے مشترکہ کنوؤں کی جمع بندی اور
رقبہ دکھایا گیا ہے)۔

13۔ ردو بدل کے کاغذات۔

زمین کی جمع بندی:

نۓ ریکارڈ آف رائٹس کا ایک حصہ جمع بندی پر مشتمل ہے۔ یہ تینوں تحصیلوں میں کھتونیوں کی سیکشن سی – زمینی ریونیو موقع پر تصدیق شدہ نقل ہے؛ اور کسی خاص تحصیل میں کسی پورے سال کا ریکارڈ آف رائٹس ہونے کی بجائے پیمائش جمع بندی ہے جو ہر گاؤں میں کھتونی کی حتمی توثیق کے وقت کی صورت حال پیش کرتی ہے۔ بھکر تحصیل میں 98-1897ء میں ایک تفصیلی جمع بندی تیار کی گئی اور میانوالی و عیسی خیل تحصیلوں میں 03-1902ء میں بندوبست کی کارروائی شروع ہونے سے مین پہلے ۔ پیمائش کے وقت تیار کردہ کھتونیوں کو جمع بندی، بندوبست ریکارڈ کے حوالے سے تصدیق کیا گیا اور شجرہ کو اپ ڈیٹ کیا گیا۔ جب نائب تحصیل دار اور تحصیل دار نے کھتونی کی مکمل توثیق کر دی تو اس کی بنیاد پر جمع بندی جوں کی توں تیار کی گئی۔

تب تک ہونے والی تمام تبدیلیوں کو کھتونیوں میں شامل کیا گیا، نئی تبدیلیوں کی خاطر بعد میں جمع بندی تیار کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ جنوبی تحصیل کی جمع بندیاں 03-1902ء کے آخر میں مکمل ہو گئیں۔ اس تحصیل میں ریکارڈز کی پانچ سالہ تصدیق کا آغاز 05-1904ء سے ہوا۔ دیہات کی کل تعداد کے ایک چوتھائی کی مفصل جمع بندی ہر سال تیار ہوئی۔
شمالی تحصیلوں میں کچھ ایک مواضعات کا سائز بہت بڑا تھا۔ کچھ صورتوں میں ایک گاؤں کے مختلف حصوں کے درمیان کوئی تعلق واسطہ نہ تھا، دیگر میں دیہی نقشے محض انتظامی حدود مع اراضی دکھاتے تھے جو مختلف دیہات کے رہائشیوں کی ملکیت تھی اور ان دیہات کی جمع بندیوں میں اندراج شدہ تھے ، جبکہ کچھ صورتوں میں تقسیم کے عمل، انفرادی حقوق کے دعوے اور جھونپڑوں کی تعمیر نے خود مختار بلاک تخلیق کر دیے تھے۔ ایسی تمام صورتوں میں صرف ایک پٹواری کے لیے پورے گاؤں کا کام انجام دینا نا ممکن تھا اور ایک سے زائد پٹواریوں کی تعیناتی نے زمینداروں کی مشکلات اور خود پٹواریوں کے کام میں رکاوٹوں میں اضافہ کر دیا۔

چنانچہ ان جاگیروں کو دو، تین، چار، پانچ چھ یا سات حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دی گئی جو فنانشل کمشنر نے چھٹی نمبر 2317،5784 اور 817 مورخہ 28 ستمبر 1905ء، 30 اگست 1906ء اور 9 فروری 1906ء کے ذریعے منظور ہوئیں۔ کچھ صورتوں میں ایک گاؤں کے نئے ضمنی دیہات میں پانچ پٹواری بھی تعینات کیے گئے ہیں۔ غیر معمولی حد تک بڑے سائز کے دیہات اور کاغذات کا موازنہ کرنے کی مطلوبہ احتیاط کے تقاضوں نے تصدیق اور پیمائشوں کی تکمیل کے کام کو نہایت پیچیدہ بنادیا۔ بندوبست کے دوران کچھ بہت بڑی تقسیمات بھی کی گئیں، جیسے گاؤں واں بھچراں کی جس کا کل رقبہ تقریباً ایک لاکھ ایکڑ ہے۔ ان تحصیلوں سے مخصوص پیچیدہ پٹہ داریوں (جن پر یہاں بحث کرنے کی ضرورت نہیں) نے بھی تصدیق کے کام کو بہت مختلف بنا دیا، اور لاتعداد چھوٹے چھوٹے حصص پر اعلیٰ ملکیت نے کام شدید مشکل بنا دیا۔ موچھ (میانوالی) کے تاجاخیل کچھ کے 19 دیہات میں اعلیٰ ملکیت رکھتے تھے ، ہر جگہ پر اُن کے حصص ایک جیسے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اُن میں سے ایک کی موت نے 19 دیہات میں ناموں کی تبدیلی ضروری بنا دی، حالانکہ اعلیٰ ملکیت میں اُس کا حصہ صرف ایک آنہ تھا۔

اُن سب کی رضامندی سے اعلیٰ ملکیت کی تقسیم کی گئی، ہر ایک گاؤں میں اعلیٰ ملکیتوں کی مخصوص تعداد دی گئی جس سے معاملات کافی سادہ ہو گئے۔ اس کے علاوہ جمع بندیوں میں لائی گئی اہم تبدیلی متعدد دیہات میں وازهیوں یا خاندانوں کی گروپنگ کے نظام کا خاتمہ تھا۔ وازھی میں پتی جیسی کوئی بات نہیں، یعنی یہ مخصوص حدود کے اندر زمین کے مالکان کا گروپ نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب ہے کہ ایک خاندان کے اراکین اپنے نام دہندہ مشترکہ جد امجد کے قریب تر ہیں۔ خاندان کے اراکین کی زیر ملکیت تمام زمین کو داڑھی سے متعلقہ قرار دیا گیا، اور اراکین میں سے کسی سے زمین خریدنے والا شخص داڑھی کا رکن بھی بن گیا۔

واڑھیوں کے درمیان آزادانہ شادی اور انتقال اراضی کے نتیجے میں واڑھیاں بس ہیئت کو ہی رہ گئیں۔ واڑھیوں کے نظام کے نتیجے میں نام شجرہ نسب میں بار بار آئے اور ایک شخص کی جائیداد جمع بندی میں درجن بھر حصوں میں بٹ گئی۔ خود لوگوں نے ترجیح دی کہ ان کی املاک کو یکجا کیا جائے۔ چنانچہ واڑھیوں کا نظام ختم کر دیا گیا، ماسوائے ان دیہات کے جہاں داڑھیوں کی ملکیت مشتر کہ زمین تھی، اور یہ نظام جوں کا توں رکھا جانا تھا۔ لہذا بیشتر دیبات میں اب ہر کتبہ شجرہ نسب میں صرف ایک بار ظاہر ہوتا ہے، اور ایک مالک کی تمام زمین جمع بندی میں یکجا کی گئی ہے۔

کھجور کی جمع بندی:

بھکر تحصیل میں، جہاں کھجور کے درخت متعدد ہیں اور اُن پر مالیہ کا تخمینہ لگایا گیا ہے، اراضی کی جمع بندی کے علاوہ کھجور کی جمع بندی بھی تیار کی گئی ہے۔گزشتہ بندوبست کے وقت تیار کردہ کھجور کی جمع بندی کی تجدید نہ کی گئی، اور نتیجتا درختوں پر حقوق کی ایک محتاط توثیق تیار کرنا پڑی۔ کھجور کے درختوں کی دو بار گفتی ہوئی (1899ء اور 1901ء)، اور دوسری گنتی کے نتائج جمع بندی میں درج کیے گئے جو درختوں کے مالک، متعلقہ زمین کے مالک اور تخمینہ لگائے گئے مالیہ کی ر تم بھی بتاتی ہے ۔ ریکارڈ آف رائٹس میں استعمال کردہ فارم میں آئندہ کے لیے تھوڑی سی ترمیم کی گئی ہے۔

ترنی جمع بندی:

زنی جمع بندی بھکر تحصیل میں ہر ایک گاؤں کے لیے تیار کی گئی جس میں مویشیوں کے مالکان، مویشیوں کی تعداد (مع تفصیل) اور جمع بندی کے سال میں چدائی کی ادا کر وہ جمع دکھائی گئی۔ تھل کے کچھ دیہات میں یہ ریکارڈ درکار تھا جہاں واجب الارض کے حالات کے مطابق تقسیم کے وقت چرواہوں کو مشترکہ بنجر زمین میں حق تھا۔ مستقبل میں ان جمع بندیوں کی تیاری غیر ضروری ہے، کیونکہ مویشیوں کی گنتی کی فہرستوں، جو سال بہ سال تیار کی جاتی ہیں، میں تمام معلومات شامل ہیں اور دستور العمل میں دی گئی ہدایات کے مطابق مشترکہ زمینوں کی تقسیم ہو جانے تک محفوظ ر کھی جائیں گی۔

رواج آب پاشی:

رواج آب پاشی یا کنوؤں کے علاوہ دیگر ذرائع آب پاشی میں سٹیٹمنٹس آف رائٹس گزشتہ بندوبست کے موقعے پر تیار کی گئیں (شمالی تحصیلوں میں تمام پہاڑی نالوں اور گرم نہروں کے لیے)۔ یہ سٹیٹمنٹ اپ ڈیٹ کی گئی ہے۔ عیسی خیل تحصیل میں پانچوں پہاڑی نالوں اور گرم نہر کے لیے ایک مجموعی سٹیٹمنٹ تیار کی گئی ہے، جبکہ دونوں تحصیلوں میں ہر گاؤں کے ذرائع آب پاشی کے لیے بھی اسی نوعیت کا ایک ریکارڈ بنایا گیا ہے۔

واجب الارض:

نیا واجب الارض یاد یہی انتظامی کاغذ کسی گاؤں میں نافذ رواج کی سٹیٹمنٹ ہے جس کا تعلق لینڈ ریونیو اصول 203 میں بتائے گئے امور سے ہے۔ نئی انتظامی دستاویز کی تیاری میں پرانے واجب الارض کی نقل کی گئی ہے، اور اُن حصوں کو چھوڑ دیا گیا ہے جن کا تعلق قانون میں واضح طور پر شامل کردہ امور سے ہے، اور ضروری رد و بدل کیا گیا ہے تاکہ سٹیٹمنٹ کو اصل رائج دستور کی مطابقت میں لایا جائے۔
واجب الارض بھکر تحصیل کے ریکارڈ آف رائٹس کے ساتھ منسلک ہے جسے کئی صورتوں میں نامکمل پایا گیا یا پھر اس میں شامل مواد نہ تو پرانے واجب الارض سے نقل کیا گیا تھا اور نہ ہی موزوں تصدیق کے بعد شامل کیا گیا۔ در حقیقت واجب الارض تیار کرنے کی ایک موزوں تصدیق کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ چنانچہ فنانشل کمشنر کے کی توثیقی چٹھی نمبر 4698 مورخہ 10

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com