میانوالی

1915 کے گزٹیئر کے مطابق میانوالی کی معلومات

 جائے وقوع، رقبہ اور نام

میانوالی پنجاب کی راولپنڈی ڈویژن کا انتہائی جنوب مغربی ضلع ہے اور 710 و 720 مشرق اور 310 و 330 شمال کے درمیان واقع ہے۔ اس کا رقبہ 5368 مربع میل ہے جس میں سے 4657 مربع میل سندھ کے اس طرف ہیں، اور صرف عیسی خیل تحصیل (711 مربع میل) دریا کے اُس پار ہے۔ ضلع کی کل لمبائی شمال جنوبا 180 میل ہے۔ میانوالی، عیسی خیل کے رخ پر اس کی چوڑائی تقریباً 50 میل ہے، لیکن بھکر میں زیادہ سے زیادہ چوڑائی 70 میل تک ہو جاتی ہے جو مشرق میں دریائے جہلم سے چند میل دور تک پھیلا ہوا ہے۔ 1901ء میں نیا شمال مغربی سرحدی صوبہ تشکیل دیے جانے پر پر انے ضلع بنوں کی دو تحصیلیں میانوالی اور عیسی خیل کو صوبے میں سے نکال دیا گیا، اور ایک نیا ضلع میانوالی (سرکاری نوٹیفکیشن نمبر 995 مورخہ 17 اکتوبر 1901ء کے ذریعے) بنایا گیا جس کے ہیڈ کوارٹرز مرکزی شہر میانوالی میں ہیں۔ میانوالی اور عیسی خیل کے سب ڈویژنل آفیسر کا صدر مقام بھی یہی ہے۔ میاں والی ایک بستی کا نام تھا جو میاں علی نامی بزرگ نے آباد کی (میاں احترام کا لقب ہے)، جو نئے ضلع کے ہیڈ کوارٹرز کا نیو کلیں ہے۔ خاندان نے اہمیت حاصل کی اور تحصیل، جس کے ہیڈ کوارٹرز بستی کے قریب ہیں لیکن قبل ازیں اسے سچی کہا جاتا تھا، کا نام میانوالی پڑ گیا۔ بھکر اور لیہ تحصیلوں نے پرانے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک سب ڈویژن بھی تشکیل دی اور اگر چہ نئے ضلع کی تشکیل کے ساتھ یہ سب ڈویژن ختم ہو گئی ، لیکن اسے دوبارہ قائم کیا گیا اور بھکر ہیڈ کوارٹرز بنا۔ تا ہم ، لیہ تحصیل کو بعد ازاں ضلع مظفر گڑھ میں منتقل کر دیا گیا اور اب صرف ایک تحصیل پر مشتمل ہے، اور ضلع میانوالی میں صرف تین تحصیلیں ہیں۔

حدود

ضلع میانوالی کے شمال میں اٹک اور کو ہاٹ اضلاع، مغرب میں بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان اضلاع، اور جنوب میں یہ تحصیل، جبکہ مشرق میں جھنگ، شاہ پور اور اٹک اضلاع ہیں۔ بالائی نصف میں عیسیٰ خیل تحصیل کی پہاڑیوں کا حلقہ شمال مغربی سرحد صوبے کو الگ کرتا ہے جو پنجاب میں سندھ پار باقی رہ جانے والا پٹھان آبادی کا حامل واحد علاقہ ہے۔ بقیہ مغربی سرحد دریائے سندھ کی گزرگاہ میں ہے۔ سندھ کے اس طرف کا حصہ سندھ ساگر دو آب ( یعنی جہلم اور سندھ دریاؤں کے درمیان واقع علاقہ ) کا زیادہ تر حصہ تشکیل دیے ہوئے ہے۔

عمومی ساخت

موجودہ صورت میں ضلع ایک مخصوص شکل رکھتا ہے، جو کم و بیش انسان کے مشرق کی طرف آگے کو نکلے بالائی دھڑ سے مشابہ ہے۔ میانوالی تحصیل چہرہ اور ناک کا ایک حصہ ہے جبکہ سکیسر کی پہاڑی آگے کو نکلی ہوئی تیکھی ناک جیسی ہے۔ عیسی خیل تحصیل سر کی پچھلی طرف اور بھنگی خیل کلفی جیسی ہیں۔ بھکر تحصیل بالائی دھڑ کا زیریں حصہ بناتی ہے۔

میانوالی کی فطری تقسیم

سر تشکیل دینے والی دو شمالی تحصیلیں جنوبی تحصیل بھکر اور سے اس قدر مختلف ہیں کہ انھیں دو .
علیحدہ حصوں کے طور پر لینا بہترین ہو گا۔
شمالی تحصیلیں ضلع کے انتہائی جنوب میں اور دریائے سندھ اور کوہاٹ کی مشک پہاڑیوں کے درمیان واقع عیسی خیل تحصیل کا اوپر کو نکلا ہو ا سینگ نما حصہ بھنگی خیل کہلاتا ہے۔ یہ پہاڑی قسم کا علاقہ تیکھی ڈھلوانوں اور گہری گھاٹیوں کے سلسلے پر مشتمل علاقہ ہے۔ کاشت کاری ہموار کی گئی چوٹیوں پر یا پہاڑیوں کے پہلوؤں پر یا پہاڑی نالوں کی گزر گاہوں تھے کناروں پر ہوتی ہے۔ اس سینگ کے دامن میں پہاڑیاں دو شاخوں میں بٹ جاتی ہیں۔ میدانی یا خشک نیازی نامی سلسلہ عیسی خیل تحصیل کے شمال اور مغرب کے گرد کمان کی صورت میں ہے اور درہ تنگ کے مقام پر ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی خسور اور پنیالا پہاڑیوں کے اوپر کو نکلے ہوئے حصے کو چھوتا ہے۔ درہ تنگ دریائے گرم کے پانی نے کٹاؤ سے بنایا ہے۔ خسور پہاڑیاں عیسیٰ خیل تحصیل کی جنوبی سرحد کے ساتھ ساتھ اور پھر دریا کے متوازی چلتے ہوئے میانوالی تحصیل کی جنوبی حد بناتی ہیں۔ دوسرے سلسلے کو دریائے سندھ کا تنگ دھارا کاتا ہے اور یہ جنوب مشرق کی طرف جاتے ہوئے میانوالی تحصیل سے گزرتا ہے، اور سکیسر کے مقام پر خاص کوہِ نمک سے منسلک ہوتا ہے۔ یہ ذیلی سلسلہ میانوالی تحصیل کے مرکزی حصہ سے کھدری نام کا حصہ علیحدہ کرتا ہے جو چٹانوں سے بھر پور کھردری زمین پر مشتمل اور ندی نالوں سے کٹا ہوا ہے۔ اس سلسلے اور خٹک نیازی کے درمیان کا علاقہ پہاڑیوں کے حلقے میں ایک باقاعدہ وادی ہے۔ اس کے جنوب میں ریتلی زمین آہستہ آہستہ مشرق میں خوشاب تحصیل کے تھل اور جنوب میں بھکر کے تھل میں مل جاتی ہے۔ وادی کے وسط میں عظیم دریائے سندھ بہتا ہے جسے بھنگی خیل کے مشرق کی طرف سارے راستے میں ملحقہ چٹانیں تنگ بناتی ہیں اور یہ تنگ گزر گاہ میں محدود رہنے کے بعد کالا باغ کے مقام پر آزاد ہوتا اور وسیع علاقوں میں اپنا پانی پھیلاتا ہے۔ علاقے کے مرکزی اوصاف یہ ہیں: (1) آس پاس کی پہاڑیاں جو طاس (catchment) کے علاقوں کے طور پر مفید ہیں، میدانوں پہاڑی نالوں کے ذریعے میدانوں کو پانی مہیا کرتی ہیں جو ایک طرح سے بیسن (Basin) کا کام دیتے ہیں؛ اور (2) دریائے سندھ مہیب مقدار میں پانی ساتھ لاتا اور اپنی تلون مزاجی کی وجہ سے مشہور ہے۔ دریا کے اونچے کناروں سے اوپر کی زمینیں کاشت کاری میں مرکزی انحصار پہاڑیوں سے آنے والے پانی یا مقامی بارش پر کرتی ہیں، دریائے سندھ کی طغیانی مہیب گزرگاہ کی انتہائی حدود کے اندر واقع کاشتہ زمینوں کو نمی مہیار کھتی ہے۔ گرم دریائے سندھ کے مقابلے میں غیر اہم ہونے کے باوجود ایک طاقت ور دریا ہے۔ یہ درہ تنگ کے مقام پر عیسی خیل تحصیل میں داخل ہوتا اور اس تحصیل کے جنوبی حصے سے عین مشرق کی طرف بہتا ہوا دریائے سندھ کے پانیوں میں سما جاتا ہے۔ عام طور پر یہ ایک چھوٹا اور آسانی سے قابل عبور پہاڑی نالہ ہوتا ہے، لیکن یہ بارشوں کے دوران بنوں کی پہاڑیوں سے بڑی مقدار میں پانی لاتا ہے۔ یہ طغیانیاں زیادہ عرصہ تک نہیں رہتیں، لیکن جب دریا میں طغیانی آئی ہو تو تیز بہاؤ اور گزرگاہ میں ریت کی نا قابل بھروسا نوعیت کی وجہ سے اسے پیدل پار کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ دریا متعدد چھوٹی نہروں کے ذریعے عیسی خیل تحصیل کے جنوب میں زمینوں کو پانی سپلائی کرتا ہے۔ ا اس کی طبعی خصوصیات کے حوالے سے ضلع کا بالائی نصف چار بڑی فطری تقسیمات پر مشتمل ہے: (1) بھنگی خیل، مع اپنی مخصوص پوزیشن اور حالات ہے ؛ (2) کٹا پھٹا علاقہ جسے کالا باغ سے سیسر تک آتی ہوئی کوہ نمک کی ایک شاخ مرکزی بلاک سے علیحدہ کرتی ہے اور جسے کھدری (کھردرا علاقہ ) یا بکھر کہتے ہیں؛ اور پہاڑی حلقے میں میدان مع بقیہ دو تحصیلوں کے جنھیں مزید تقسیم کیا جا سکتا ہے؛ (3) دریائے سندھ کی وادی؛ (4) دریائے سندھ کے اونچے کناروں اور پہاڑیوں کے در میان واقع اونچی زمینیں ، یا میانوالہ تحصیل کے انتہائی جنوب میں خوشاب کا تھل۔ عیسی خیل تحصیل کے جنوب میں دیہات کا گروپ دریائے گرم سے نکالی گئی نہروں سے سیراب ہوتا ہے اور پانچویں تقسیم تشکیل دیتا ہے جو فطری نہیں بلکہ مصنوعی ہے۔

بھکر تحصیل

ضلع کا جنوبی نصف بھکر تحصیل پر مشتمل ہے اور اس کی دو بڑی فطری تقسیمات ہیں: (1) دریائے سندھ کی وادی یا دریائے سندھ کے دو اونچے کناروں کے درمیان واقع علاقے کا وہ حصہ جو ضلع میانوالی کو ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے الگ کرنے والی مصنوعی سرحد کے ساتھ ہے؛ اور (2) تھل، اونچے کنارے سے او پر واقع عظیم صحرا اور چراگاہ۔ دریا اونچے کنارے سے کافی پیچھے ہٹ جانے کے باعث دریائے سندھ کی وادی کا مشرقی حصہ پشتوں اور نالوں کے ایک نظام کے ذریعے پر اب کیا جاتا ہے۔ یہ نظام میانوالی والے نظام کی بہ نسبت زیادہ وسیع و عریض ہے جبکہ مغرب میں مزید آگے دیہات براہ راست دریا کی حدود سے باہر نکلا ہو اپانی وصول کرتے ہیں۔

تھل

بھکر تحصیل کے تھل کے دو فطری حصے ہیں: یعنی تھل کلاں اور دگڑ ۔ یہ سارا خطہ 2551 مربع میل رقبے پر مشتمل ہے جو سارے کا سارا (چند ایک مقامات کی استثنیٰ کے ساتھ ، جہاں دریائے سندھ نشیبی تھل زمینوں میں آجاتا ہے) کھیتی باڑی کے لیے چاہی آب پاشی پر منحصر ہے۔ کہیں کہیں بارش، بے شجر ریتلی زمین اور غیر معتبر و انکاؤ کا چراگاہیں اسے آج پنجاب میں باقی رہ جانے والے انتہائی بنجر مخطوں میں سے ایک بناتا ہے۔ یہ زیادہ تر حقیقی صحرا ہے، بنجر اور بے جان نہ صرف پرندوں و جانوروں سے بلکہ نباتات سے بھی تقریبا تہی۔ شمال کی طرف سب سے اوپر سارا علاقہ متواتر جنوب کی طرف ڈھلوانی ہے۔ تھل کلاں خطے کے سارے مشرقی حصے پر محیط ہے۔ اونچی ریکی پہاڑیوں کی قطاریں اس کے زیادہ تر شمال مشرقی اور جنوب مغربی حصے میں سے گزرتی ہیں اور ان کے درمیان میں تنگ نشیبی زمین آتی ہے جو کہیں کہیں کرخت اور سخت ہے لیکن اکثریت سے ڈھکی رہتی ہے۔ تھل کے وسط کی جانب آئیں تو پہاڑیاں نیچی ہو جاتی ہیں اور تشکیل کم و بیش با قاعدہ ہے۔ تھل کلاں کے مغرب میں جائیں تو دگر نامی علاقہ آتا ہے۔ یہاں پہاڑیاں کم اونچی اور کم با قاعدہ ہیں، اور ریت بھی کم نمایاں ہے۔ لیکن دگر کا مرکزی وصف وسطی مرکز ہے، مستحکم ، ہموار زمین کی تنگ سی پٹی جو بہت حد تک ایک دریا کی طرح چلتی ہے۔ یہ شمال جنو با رخ پر آگے بڑھتے ہوئے دگر دیہات کے وسط تک جاتی ہے۔ اس پٹی میں واقع کنوؤں کی قطار سے ہی دگر کا نام منسوب ہے۔ ڈنر کے مغرب میں ایک پٹی ( جسے پورہ کہتے ہیں) دریائے سندھ کے کنارے پر ہے۔ کنارہ کو ئی میں فٹ اونچا ہے۔ پر وہ شمال میں کوئی تین میل چوڑی ہے جہاں یہ متواتر اور ریکی ہے، لیکن جنوب میں آتے ہوئے تنگ اور مسطح ہوتی جاتی ہے۔ اس میں زیادہ تر بڑے دیبات شامل ہیں جو دریائی طغیانی کی پہنچ سے باہر رہنے کے لیے
یہاں تعمیر کیے گئے۔ دریائی کنارے کے بالکل ساتھ ملحق اونچی زمین کو ڈھا بسا کہتے ہیں۔

منظر

ضلع کا بالائی نصف بہت خوب صورت ہے۔ بھنگی خیل کی برہنہ پر ہاڑیاں عموماً غیر پر کشش ہیں، لیکن شمال کی طرف زمین کی دلکش سبز پٹیاں فصلوں سے بھر پور ہیں اور ان کے گرد بھی مساوی پرکشش پہاڑیوں کا حلقہ ہے، جبکہ گھاٹیوں میں درخت اور جھاڑیاں ہیں۔ ان پہاڑیوں کی چوٹیوں سے ملنے والا نظارہ قابل تعریف ہے۔ Ridges (مینڈ ھیں) سطح سمندر سے دو تا چار ہزار فٹ اوپر ہیں۔ نگر پہاڑی کی بلند ترین چوٹی سیستکانی میں کہلاتی ہے اور 4500 فٹ اونچی ہے۔ پورے ضلع میں سب سے دلکش مقام کالا باغ ہے جہاں دریائے سندھ پہاڑیوں سے نیچے اترتا ہے۔ دریا کے دونوں طرف پہاڑیاں بچھو کی ڈم کی طرح باہر کو پھیلی ہوئی ہیں، سامنے ایک بڑا میدان ہے اور دور پس منظر میں پہاڑیاں حسین منظر پیش کرتی ہیں۔ کالا باغ سے کوئی دو میل اوپر اور ماڑی کے بالمقابل ٹکڑاں والا وانڈھا نامی ایک جھونپر بستی غروب آفتاب کا خوب صورت منظر دیکھنے کے لیے شان دار مقام ہے۔ میدانی اور ڈھاک سلسلے برہنہ اور کٹے پھٹے ہیں۔ دریائے سندھ کی وادی عملاً ہموار ہے اور سردیوں میں میل با میل تک سبز فصلیں لہلہاتی ہیں، بس کہیں کہیں کوئی کھاڑی، ریت کا کوئی جزیرہ یا نسل کا گھنا جنگل آجاتا ہے۔ میانوالی اور عیسی خیل تحصیلوں میں اونچی زمینیں پہاڑی نالوں سے کئی ہوئی ہیں اور خطہ خشک سالی میں نہایت بنجر دکھائی دیتا ہے، لیکن اچھی بارش والے سال میں سارا علاقہ سبزے سے ڈھک جاتا ہے۔
میانوالی تحصیل میں کھدری دیکھنے میں اُتنا ہی غیر دلچسپ ہے جتنے دشوار گزار، بالخصوص شمال میں۔ تاہم، ایک مہیب ہموار خطے کے وسط میں ہرم کی طرح اوپر کو نکلی ہوئی سکیسر پہاڑی کافی سر سبز اور ٹھنڈی ہے (سطح سمندر سے بلندی 2 499 فٹ)۔ یہ ان تین اضلاع ( میانوالی، شاہ پور اور اٹک ) کا مشترکہ صحت افزا مقام ہے۔ سکیسر نام شک (طوطا ) اور ایشور (خدا) کا مرکب ہے۔ یہ نام لمبے سبز پرندے سے مشابہت کی وجہ سے ہی پڑا ہو گا۔ بارش کے بعد صاف آسمان والی صبح کو پہاڑی کی چوٹی پر جائیں تو شمال مشرق میں کشمیر کی پہاڑیوں تک پھیلا ہوا ایک عظیم الشان منظر دکھائی دیتا ہے جس کے ایک طرف دریائے سندھ اور دوسری طرف دریائے جہلم بہتا ہے ، جبکہ کوہاٹ کی پہاڑیاں، شیخ بدین اور تخت سلیمان شمال مغرب اور مغرب میں نظر کی حد بناتی ہیں۔ مشرق میں آپ مسطح علاقے میں دور تک دیکھ سکتے ہیں اور دریائے چناب کی جھلک بھی نظر آجاتی ہے ، جبکہ جنوب کی طرف تھل کلاں میں کوئی حسین منظر نظر نہیں آتا۔ ضلع کے سارے بالائی نصف میں وادی کے اختتام پر پہاڑیاں ہموار میدانوں کی یکسانیت توڑتی ہیں۔ لیکن جب آپ میانوالی تھل کی جنوبی سرحد پار کرتے ہیں تو منظر غیر پر کشش بن جاتا ہے اور آپ چاروں طرف ہموار زمین کے سوا کچھ بھی نہیں دیکھتا، جبکہ مشرق میں ریت کا غیر مختم سمندر پھیلا ہوتا ہے۔ دریائے سندھ کی وادی اپنے درختوں کے ساتھ شاداب شکل رکھتی ہے لیکن اونچے
کنارے پر درخت مخصوص عنایت یافتہ قطعات یا معدودے چند کنوؤں تک ہی محدود ہیں۔ کچی علاقے کے فطری اوصاف دریائے سندھ کی گزر گاہ چوڑی اور غیر منظم ہے۔ سارے موسم سرما کے دوران بنجر ریتلی زمین کی چوڑی چٹیاں اس کے ساتھ ساتھ موجود ہوتی ہیں۔ کھاڑیاں اور ضمنی آبی راستے معتدل سائز کے متعین راستے رکھتے ہیں اور سال کے زیادہ تر حصے میں وہ اپنے کناروں تک بہتے ہیں۔ ان نالوں کی اطراف میں کنوئیں، جھلار اور کہیں کہیں دیہات ہیں، اور کاشتہ کھیت نیچے پانی کے کنارے تک آتے ہیں۔ مالی دریائے سندھ کی وادی بحیثیت مجموعی ایک خوشگوار علاقہ ہے؛ اس کا تقریبا نصف رقبہ کاشتہ ہے، بقیہ میں اونچی سر گھاس اُگی ہوئی ہے اور دریا کے قریب کم اونچے تمرس (لنی) کا جنگل ہے۔ دریائی جزائر میں اکثر کانے کا گھنا جنگل ملتا ہے جو بھکر تحصیل میں جنگلی سور کا پسندیدہ مسکن ہے۔ تھل کے کنارے سے کوئی دو تین میل تک علاقے میں جابجا کنوئیں ہیں جہاں ڈیرے بنے ہوئے ہیں۔ زیادہ تر بڑے گاؤں دریائے سندھ کی وادی میں اوپر سے جھانکتے ہوئے تھل کے کنارے پر ہیں۔ یہاں وہ سیلابوں کی پہنچ سے باہر ہیں۔ کچی کے دریائی علاقے میں رہنے والے لوگ اتنے کاہل ہیں کہ کٹائی کےبعد اپنی فصلوں کو تھل میں منتقل نہیں کرتے ؛ وہ اُنھیں گٹھوں کی شکل میں کنوؤں اور دیہات کے قریب اونچی جگہوں پر رکھ دیتے ہیں، نتیجتاً زیادہ سیلاب والے سالوں میں اُنھیں بھاری نقصان ہوتا ہے۔ دریائے سندھ کی طرف جاتے ہوئے کچی کا علاقہ عموما کنوؤں سے محروم ہے اور ساری کاشت کاری سیلا بہ ہے۔ بچی کے سارے اندرونی علاقے میں تقریباً ہر جگہ پر دیہات اور کنوؤں کے گرد درختوں کے خوشگوار جھنڈ ملتے ہیں۔ ٹاہلی اور بیر غالب ہیں اور کہیں کہیں شرینہ یا پیپل بھی ملتے ہیں۔ اس علاقے میں درختوں کی تعداد کافی ہے۔ دریائے سندھ کی جانب بیرونی علاقے میں درخت نہ ہونے کے برابر ہیں، لیکن یہاں وہاں بھائی جنگل کے کچھ قطعات مل جاتے ہیں۔ بھکر کے دریائی علاقے میں کھجور کے جھنڈ موجود ہیں، عموماً اونچے کنارے پر ۔ سب سے بڑے جھنڈ قصبات کے قریب یا ارد گرد ہیں۔
بھکر تھل ایک ریتلا صحرا ہے جو عموماً لانا ، پھوگ یائونی کی شکل میں جھاڑیوں سے ڈھکا ہوا ہے، کہیں کہیں کریل اور جنڈ کے درخت بھی ملتے ہیں۔ بھکر تھل کے وسط میں ایک بڑا علاقہ جال کے درختوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ دریائی اونچے کنارے سے ملحقہ تھل کے دگر جنڈ اور جال کے درمحت بکثرت ہیں۔ سارے تھل میں کنوؤں پر اور آس پاس جنڈ کو محفوظ رکھا گیا ہے، اور کھگل جنگ جگہوں پر حفاظت میں جو خوب پھلتا پھولتا ہے۔ کنو میں نشیبی لکوں (Laks) کے ساتھ ساتھ تھل میں بکھرے ہوئے ہیں۔ اک ریتلی پہاڑیوں کے درمیان سخت قابل کاشت زمین کے ہموار قطعات ہیں۔ درختوں کے جھنڈ سحرا میں نخلستان جیسے لگتے ہیں۔ ریتلی پہاڑیاں شمال اور جنوب کی طرف ہیں اور جنوب سے مشرق کی طرف جاتے ہوئے ان کا حجم اور اونچائی زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ شمال میں زیادہ مسطح زمین ہے؛ چنانچہ آپ کثیر بارانی کاشت اور چھیمبر، سائیں اور دیگر گھاسیں بارش کے بعد اگتی ہوئی دیکھتے ہیں اور یہ مویشیوں کے لیے زبر دست غذا مہیا کرتی ہیں۔ اچھی بارش والے سال میں تھل بہت خوش نما لگتا ہے، لیکن خشک سالی کے دنوں میں شدید اور ناسازگار اور ویران نظر آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com