میانوالی

میانوالی:بلدیاتی ادارے

حیات اللہ خان ملک زئی

۱۸۶ء میں میانوالی کو تحصیل کا درجہ ملا۔ ۱۹۰۱ء میں میانوالی کو ضلع کی حیثیت حاصل ہوئی۔ ۱۹۸۲ء میں بھکر کو میانوالی سے الگ ضلع کا درجہ دیا گیا تو میانوالی کا ضلع عیسی خیل اور میانوالی پر مشتمل رہا۔ ۱۹۸۱ ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع کی آبادی ۵۴۰۶۵۳ ہے۔ ۹۳-۱۹۹۲ء میں آمدنی ضلع کونسل ۲۹۸۸۲۰۰۰ روپے ہے۔ ضلع میانوالی میں مندرجہ ذیل بلدیاتی ادارے کام کر رہے ہیں۔

-1میونسپل کمیٹی میانوالی

ٹاؤن کمیٹی : ٹاؤن کمیٹی عیسی خیل، ٹاؤن کمیٹی کر مثانی، داؤد خیل کالا باغ کندیاں ہرنولی اور پیلاں ہیں۔ ضلع کونسل میانوالی کے ماتحت چالیس یونین کونسل کام کر رہی ہیں۔

یونین کونسل ، اباخیل : یونین کونسل اباخیل موضع اباخیل اور سلطان والا شرقی پر مشتمل ہے۔ موضع اباخیل میں موسیٰ خیل پٹھان آباد ہیں۔ جب کہ سلطان والا شرقی میں نمک زئی قبیلہ آباد ہے۔

بھنگی خیل : کالا باغ کے شمال میں کوہاٹ اور کرک کے ملحقہ پہاڑوں میں بھنگی خیل
خشک قبائل آباد ہیں۔

پائی خیل : یو نین کو نسل پائی خیل، پائی خیل پٹھانوں کا مسکن ہے۔

تیی سر: جنگلی خیل کے ساتھ تی سرواقع ہے، لٹک قبائل آباد ہیں۔

ترگ : عیسی خیل کے شمال میں کچے اور پکے پر مشتمل یو نین کو نسل ہے۔

تبه مهربان شاہ: زرخیز زرعی علاقہ ہے۔

چاہری : خنک قبائل کا علاقہ ہے۔
چکڑالہ : اعوان قبائل کا مرکزی شہر ہے۔ لوگوں کی زبان پو ٹھو ہاری ہے۔

چک نمبر DB / ۲۷: واں بھچراں کے جنوب میں مختلف چکوک پر مشتمل ہوئین
کونسل ہے۔
چھد رو : یونین کونسل چھد رو پہاڑوں میں نمک، جسم ، اعلیٰ قسم کی ریت کے علاوہ کو ئلہ کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔

ہرنولی : رورل ہرنولی میں چدھڑ اور اسرا اقوام کے علاوہ جات قبائل آباد ہیں۔ علاقہ ہرنولی ۱۸۹۲ء میں میانوالی تحصیل میں شامل کیا گیا۔

دو آبہ : دو آبہ دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر تھل کا قدیم قصبہ ہے۔

داؤد خیل دیہی : داؤد خیل دیہی میں کچھ پکہ اور پہاڑی علاقہ شامل ہے۔ پہاڑ معدنیات سے مالا مال ہیں۔
ڈب: تھل کا قدیم قصبہ ڈب، جس میں بلوچ صدیوں سے آباد ہیں۔

ڈھیر امید علی شاہ : سادات کا علاقہ ہے۔ سادات کے علاوہ دیگر اقوام بھی آباد ہیں یہاں کی زمین بہت زرخیز ہے۔
روکھڑی : نیازی پٹھانوں کا قدیم شہر ہے۔

سلطان خیل : سلطان خیل پہاڑی اور میدانی علاقے پر مشتمل یو نین کو نسل ہے۔ یہاں نیازی خاندان کے علاوہ خٹک قبائل بھی آباد ہیں۔ پہاڑوں میں معدنیات پائی
جاتی ہیں۔
سوانس : نیازی پٹھانوں کا علاقہ ہے۔

شاریہ : شادیہ جنجوعوں کا علاقہ ہے۔ تھل اور پکے کا بہترین ملاپ ہے۔ نہر مہاجر برانچ کے بن جانے سے یہاں باغات بہت زیادہ لگ چکے ہیں۔

شهباز خیل : نیازی پٹھانوں کا قدیم دیہات ہے۔ احمد خان والا جیسا زر فہرد اور شاداب علاقہ بھی اسی میں شامل ہے۔

علو والی : یونین کونسل علو والی میں جاٹ قبیلے کی مختلف اقوام آباد ہیں۔

غنڈی : تری خیل پٹھانوں کا علاقہ ہے۔ غنڈی پہاڑی اور میدانی علاقے پر مشتمل یونین کونسل ہے۔

قریشیاں : یونین کونسل دلے والی قریشیاں میں قریش قوم کی تعداد باقی قوموں کی نسبت زیادہ ہے۔

کندیاں دیہی : کندیاں دیہی کے علاقے میں تھل کے جنگلات بھی آتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھنڈی کا مشہور قصبہ دیہی میں واقعی ہے۔

کوٹ چاندنہ : کوٹ چاندنہ کو شہرت افغان مہاجرین کی آمد کی وجہ سے ملی ہے۔ کوٹ چاند نہ یونین کونسل میں خشک قبائل بھی آباد ہیں۔

کلور کوٹ شریف : عیسی خیل کے شمال میں واقع قدیمی قصبہ ہے۔ یہاں کے لوگ بہت مہمان نواز ہیں۔

کمرمشانی دیبی : یہاں پر مثانی پٹھان آباد ہیں۔ یہاں کے لوگ کاروباری اور سخت جان واقع ہوئے ہیں۔

کھولہ : یونین کونسل میں کبھی بکھرا شہر آباد تھا مگر ۱۸۴۳ء کے سیلاب نے اس شہر کو برباد کر دیا۔ بکھڑے کے مین کھولہ” کے مقام پر آباد ہوئے۔

گل میری : وتہ خیل پٹھانوں کا علاقہ ہے، یہاں کا گڑ بہت مشہور ہے۔ کھلانوالہ : دریائے کرم کے شمالی کنارے پر آباد گاؤں ہے ۔ کئی بار دریا نے اس کو برباد کیا۔

مسان : اعوان قبائل کا علاقہ ہے۔

موچھ : تاجے خیل پٹھانوں کا قدیم مسکن ہے۔

ماڑی انڈس : ماڑی انڈس بہت قدیمی قصبہ ہے۔ ریلوے کا جنکشن ہے۔ اڑھائی فٹ ریلوے لائن لکھی ، عیسی خیل بنوں کو جاتی ہے۔

موسیٰ خیل : موسیٰ خیل معدنیات سے مالا مال پہاڑ ہیں۔ موضع بازار بہت خوبصورت وادی ہے، عمل نسر کے پانی سے کافی علاقہ سیراب ہوتا ہے، یہاں کے ملی کے گھڑے بہت مشہور ہیں۔

مظفر پور : مظفر پور کا پرانا نام "چور والا” تھا ملک مظفر رئیس آف واں بھچراں کے نام پر مظفر پور رکھ دیا گیا۔ مظفر پور میں ناگنی مشہور قصبہ ہے یہاں کا گڑبت مشہور ہے۔

نمل : خوبصورت وادی ، نمل جھیل کی سیر بہت مزہ دیتی ہے، دور دور سے سیاح پیر کرنے آتے ہیں، ہزاروں سال پرانی تہذیب کے آثار یہاں ملتے ہیں۔ نمل کے جنوب مشرقی میں سکیسر کا مقام ہے، یہاں کے لوگ جفاکش اور محنتی ہیں، زبان اور رسم و رواج پوٹھوہاری ہیں۔

و چویں بالا : نقل کا قدیم تاریخی قصبہ ہے۔ یہ قصبہ ۱۸۶۲ء میں تحصیل میانوالی میں شامل کیا گیا ہے۔ ”بالا الگ گاؤں ہے لیکن عام بول چال میں وچویں بالا کہا جاتا ہے۔

واں بھچراں :تھل اور پہاڑی علاقے یعنی کے علاقے کا خوبصورت ماپ وہاں : بھچراں، جسے شیر شاہ سوری نے آباد کیا تھا، جس کی یادگار واں ” کنواں آج بھی موجود ہے۔ واں بھچراں میں بھر گھنجیرہ اور دیگر اقوام آباد ہیں۔
و یہ خیل : وتہ خیل چھانوں کا قدیمی قصبہ ہے۔

مارو خیل : یارو خیل کا پرانا قصبہ میونسپل کمیٹی میانوالی کی حدود میں شامل ہو چکا
ہے۔
نئی ضلعی حکومتوں کے قیام کے بعد تہ میں میانوالی کے پہلے ناظم حمیر حیات خان روکھڑی منتخب ہوئے ۔

 

نوٹ: یہ مضمون ڈاکرڈ لیاقت علی خان نیازی کی کتاب ” تاریخ میانوالی (تاریخ و تہذیب) سے لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com