ضلع میانوالی نباتات کے اعتبار سے
کچھ نباتات مغربی پنجاب والی ہی ہیں، لیکن مغربی ایشیائی اور حتی کہ میڈی ٹرینیئن اقسام کا ایک زبر دست امتزاج پایا جاتا ہے۔ درخت کمیاب ہیں ماسوائے اُن کے جو خود لگائے گئے ؛ لیکن ٹاہلی کا درخت ( Dalbergia sissoo) دریائے سندھ کے کنارے اکثر ملتا ہے۔ کالا باغ کے مقام پر کوہ نمک کے اپنے مخصوص پودے ہیں جو دریائے سندھ سے مشرق کی طرف پہاڑوں پر ایسی ہی جگہوں میں ملتے ہیں۔ تھل کی ریتلی پہاڑیاں عظیم ہندوستانی میدان کی توسیع ہیں اور اُن کے نباتات زیادہ تر شمال مغربی راجپوتانہ والے ہیں۔ ضلع کے تین مختلف حصوں (پہاڑیاں، اونچی زمینیں اور کچا) کے نباتاتی پہلوؤں کو الگ سے بیان کیا جاتا ہے۔
پہاڑوں میں نباتات
پہاڑیوں میں پودے کہیں کہیں پائے جاتے ہیں، اور درخت سکیسر پہاڑی کی چوٹی یا بھنگی خیل کے قلب کے سوا نشیبی اور ڈھلوانی جگہوں تک ہی محدود ہیں۔ عام درخت پھلاہی ( Accacia modesta)، سنتا (Dodonea Burmaniana)، کنگن (Crocus sativus)، کیکر ( Accacia Arabica) ، انار ، کھبڑی یا جنگلی انجیر (Ficus carica)، توت، بوہر (Ficus Indica)، جال(Salvadora oleoides) ہیں۔ تاہم، پہاڑیاں پودوں اور جھاڑیوں سے بھر پور ہیں جن میں سے کچھ اہم ترین یہ ہیں: ونان، متیارا (Soutellaria lineari) ہری (Armeniaca vulgaris)، وتها من ( Celtis coneasica)، کینگر (Sageretia brandrethiana) اور کو ہیں ۔
اونچی زمینیں
اونچی زمینوں میں عام پائے جانے والے در محت یہ ہیں:
تلھیا کھگل (Tamarix articulate orientalis)۔ یہ سارے ضلع میں اگتا ہے اور بہت کم نمی میں نشو نما پا سکتا ہے، لیکن عام طور پر خود بونا پڑتا ہے اور پہلے چند سال تک حفاظت کرنا پڑتی ہے۔ لکڑی زیادہ کام کی نہیں۔
کیکر (Aocacia Arabica) پہاڑیوں کے دامن میں اور دریا کے اونچے کناروں کے قریب ملتا ہے۔ لکڑی سخت ہے اور زرعی آلات اور چھتوں میں استعمال ہوتی ہے۔
ثالی (Dalbergia sisoo) قصبات کے ساتھ کمیاب ہے۔
جنڈ (Prosopis sisoo) سارے تھل میں ایک عام درخت ہے، بالخصوص کنوؤں اور دیہات کے آس پاس، جہاں اسے کاٹ چھانٹ کے لیے محفوظ کیا گیا جسے لگی کہتے ہیں) جس سے بھیڑوں اور بکریوں کا بہت قیمتی چارہ بنتا ہے۔ سارے موسم سرما میں جب گھاس کی سپلائی بہت کم رہ جاتی ہے، جنڈ کے ان درختوں کی چھوٹی شاخیں آہستہ آہستہ کائی جاتی ہے یہاں تک کہ خالی تنے کے سوا کچھ بھی نہیں رہ جاتا۔ لنگی کا عمل تین ماہ یعنی دسمبر سے فروری تک جاری رہتا ہے۔ سائے کے لیے چند ایک درخت جوں کے توں رکھے جاتے ہیں اور یہاں وہاں کسی بزرگ کی قبر کا احترام بھی آس پاس کے
درختوں کو محفوظ رکھتا ہے۔
بیر(Zizyphus jujube),تھل میں کنوؤں پر لگایا جاتا ہے اور اپنے خوردنی پھل کی وجہ سےقابل قدر ہے۔
جال (Salvadora oleoides) دگر اور تھل میں بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ اس کا پھل پیلو کھایا جاتا ہے اور درخت اونٹوں کی چدائی کے لیے اہم ہے۔
کری (Caparris aphylla) سخت لکڑی والا ایک چھوٹا درخت ہے جو جنگلی طور پر اگتا ہے اور جس کا پھل کھایا جاتا ہے۔
بیبل یا ببول (Accacia jacquemonti) ایک چھوٹ کانٹے دار پودا ہے جو بکریوں کی غذا مہیاکرتا ہے۔
پھوگ (Calligonum polygonoides) ایک چھوٹی بے برگ جھاڑی ہے جس پر بھیڑیں بکریاں چرتی ہیں اور جو بطور ایندھن استعمال ہوتا ہے۔ کبھی کبھی پھل (پھوگلی) کھایا جاتا ہے، لیکن یہ خوش ذائقہ نہیں۔
پیل (Ficus religiosa) قصبات اور بستیوں کے قریب پایا جاتا ہے۔
بوہڑ (Ficus indica) دریائے کناروں کے قریب ملتا ہے۔
عام ملنے والی جھاڑیاں مندرجہ ذیل ہیں: لانا ہلکی ریتلی زمین میں خوب پھلنے پھولنے والا ایک پودا ہے اور جال یا پھوگ کے قریب شاذ ہی ملتا ہے جن کے لیے زیادہ سخت زمین کی ضرورت ہے۔ لانا تھل میں اہم ترین جھاڑی ہے جہاں یہ گرمی کے مہینوں میں اونٹوں کی مرکزی غذا ہے، اور موسم بہار میں بھیڑوں بکریوں کے لیے بھی غذا مہیا کرتا ہے۔
تھل کا لانا haloxylon salicornicum multiflorum ہے اور اسے baloxylon recidivum یعنی کھار یا سجی لانا سے ممیز کیا جاتا ہے جس سے کاربونیٹ آف سوڈا بنتا ہے۔ یہ
دامن کی لانی (Suaeda fruticose) اور گورالانا(Salsola foetida) سے بھی بنتا ہے۔
کیپ (Crotalaria barbia) ایک چھوٹی بے برگ جھاڑی ہے جو تھل میں عام پائی جاتی ہے۔ یہ صرف ایندھن یا چھتیں بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ بوئی (Panderia pilosa ) بنجر زمین کے زیادہ ریتلے حصوں میں ملتی ہے۔ یہ چھوٹی جھاڑی ہے جو مارچ کے قریب چند ایک کو نپلیں نکالتی ہے اور بھیڑیں بکریاں اسے تبھی کھاتی ہیں جب چارہ کمیاب ہو۔ یہ صرف ہلکی ریتلی زمین میں آگتی ہے۔
گھاس
اُگ (Calotiopis gigantean) عام ہے۔ بکریاں نو خیز کو نپلیں کھاتی ہیں۔ اکری ( Withamia
coagulans) اک سے ہی ملتا جلتا ایک چھوٹے سائز کا پودا ہے۔ گھاس گھاس کی بہت سی اقسام ہیں، لیکن زیادہ عام اقسام نیچے دی جارہی ہیں۔
چیمبر ( Eleusine flagellifera) ایک فٹ تک اونچی ہوتی ہے۔ یہ بارش کے بعد بہت تیزی کے ساتھ ریت میں سے پھوٹتی ہے ، لیکن مرجھاتی ہی اسی قدر تیزی سے ہے۔ یہ بہت شان دار چارہ ہے اور بہار و خزاں دونوں موسموں میں اگتی ہے۔ سین (غالباًElionurus birsutus) ایک لمبی گھاس ہے جس کی جڑیں عموما گھنٹے گچھے کی شکل میں ہوتی ہیں۔ یہ خزاں میں اگتی ہے جب اس کی اونچائی کمر تک ہو جاتی ہے۔ یہ مویشیوں اور گھوڑوں کے لیے زبر دست چارہ ہے۔ پھنسین نامی ایک قسم ہر سال دو مرتبہ اگتی ہے جسے مویشی اور بھیڑیں کھاتی ہیں۔ سین کی طرح یہ بھی شمالی تھل تک محدود ہے۔ بنجر تھل کی دیگر حقیر پیداواروں میں لیمن گراس (کھوی) بھی شامل ہے لیکن یہ بطور چارہ بہت کم وقعت رکھتی ہے۔ جواہ (اونٹوں کی غذا) دگر میں پائی جاتی ہے لیکن تھل میں نہیں۔ بکھرا (Tribulus Aratus) ایک چھوٹا بیل جیسا پودا ہے جس کی پھلی نوکیلی ہوتی ہے ؛ یہ خاصا عام ہے؛ بھیڑیں اور بکریاں اسے چرتی ہیں اور بیج لوگ قلت کے وقت کھاتے ہیں۔ چارے میں استعمال ہونے والی نسبتا چھوٹی گھاس مدھانا (کیونکہ اس کی شکل مدھانی جیسی ہے) پرائی کے لیے اچھی ہے : ڈوڈک رینگنے والی گھاس ہے۔ اُٹھ پھیرا (اونٹ کا پاؤں)؛ گور کپن (غالب Convolvolus pluricaulis)؛ون ویری، ایک لمبی رینگنے والی گھاس بیجو بھانا یا طلوع آفتاب؛ نیل بوٹی (جنگلی نبیل جسے اونٹ کھاتے ہیں ، بھٹیل (گروندا dandelion) صرف شمالی تھل میں ملتی ہے؛ پھلی اور سیاچہ کو چھوٹا سا سفید پھول لگتا ہے ؛ لوری اور بڑیا، نوکیلے سروں والی گھاسیں ، کملی بوٹی کا چپٹا گوکھرو نما پتا ہوتا ہے؛ ہو چکی ایک تیل جس کے پتے چوڑے اور گول ہیں؛ نٹو ایک کڑوی نیل اور پینچا ایک ہلکی کمزور گھاس۔ پر پڈ بہیرایا ہر قسم کی شکسی عام ہیں اور کھمبی (کھمبیاں ) موسم خزاں کی بارشوں میں ریتلی پہاڑیوں میں وافر آتی ہیں۔ زیادہ بڑی قسم (کمبھور) ہضم نہیں ہوتی۔ لیکن چلی کمبھی نامی کھمبیوں کا ذائقہ اچھا ہے۔ یا ایک خوردنی اسپر اگس نما طفیلیہ ہے جو کری درختوں کی جڑ میں اگتا ہے۔ تندلا جنڈ کی جڑ میں اُگنے والا بوٹی نما پودا ہے؛ پہلے رنگ کا کوڑ تھا یا تما (کٹر وی تو نبی) اپنی ٹھنڈک بخش خصوصیات کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بھگل سبز پیاز جیسا ایک چھوٹا ہو روا ہے جو کنوؤں پر گندم کے ساتھ آتا ہے : پنجاب کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی لوگ پورا اور اس کا بیچ دونوں قلت کے وقت کھاتے ہیں۔ دمانھ (Gagonia crotica) اور ہرمل (Pegamum harmala) چھوٹے پودےہیں جن کا بیج ادویات میں استعمال ہوتا ہے۔ جو ڈل ( جسے کبھی کبھی پھیٹ کنگ کہا جاتا ہے)، سینجی (Melilotus parviflora)، باٹو (Chenopodium album) سب جانے پہچانے پودے ہیں جو دوسری جگہوں کی طرح یہاں بھی کنوؤں کے راستوں پر خود رو اُگتے ہیں۔ پت پاپڑا ( Fumaria parviflora) بھی اسی طرح پھوٹتا ہے اور ادویات میں کام آتا ہے۔ اسی طرح چھوٹا کر وہ چھڑ بھی جو خریف کی فصلوں میں جنگلی طور پر اگتا ہے۔
کچا (کچہ)
کچا یا دریائی کنارے کے مخصوص درخت یہ ہیں:
بھان (Populus Euphratica)، جو نئی تشکیل شدہ زمین پر خود رو اگتا ہے جہاں گاہ بہت زیادہ جمع ہوئی ہو۔ لکڑی ہلکی ہے اور چار پائیاں، چوکھٹیں اور چھتیں بنانے کے کام آتی ہے۔
لائی (Tamarix dioica) بھی نئی گار بچھی زمین پر خود رو اگتا ہے لیکن عموماً بڑے سائز کا نہیں ہوتا۔ شاخیں چھت ڈالنے اور ٹٹیاں بنانے کے جبکہ لکڑی جلانے کے کام آتی ہے۔
ٹاہلی Dalbergia sissoo)، کیکر (Accacia arabica) بیر (Zizyphus jujube) بھی ملتے ہیں لیکن اکثر یہ خود بوئے جاتے ہیں۔
اہم پودے اور گھا میں مندرجہ ذیل ہیں:
سرکانا، جسے عام طور پر مونج کانا (Saccarum sara) کہتے ہیں، نئی تشکیل شدہ زمین پر وافر اگتا ہے اور بہت کارآمد چیز ہے۔ تنے کا بالائی حصہ (تلی) ٹوکریاں بنانے کے کام آتا ہے: اس کا مونج گوٹ کر رسیاں بنائی جاتی ہیں: پھول (بلو) گایوں کو بطور دو کھلائے جاتے ہیں۔ کاٹھ ( Saccarum spontaneum) ایک نرسل ہے جو زبردست چارا بنتا ہے اور کھپریل ڈالنے کے کام آتا ہے۔
کندر (Typha august folia) دلدلی گھاس ہے جو دریاؤں کے کناروں اور کھاڑیوں اور کم گہرے پانی میں آتی ہے۔ یہ چٹائیاں ، نوکریاں اور رسیاں بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔ (Comodon dartylon) گھوڑوں کے لیے بہترین چارا ہے اور مویشی بھی اسے کھاتے ہیں۔ دربھ(Cragrossis oynosuroides) ایک کھردری گھاس ہے جو شور زدہ زمین پر بھی اگ جاتی ہے۔ یہ کیسی جڑوں والی اور سخت جان ہوتی ہے۔ مویشی اسے کھاتے ہیں لیکن یہ اچھا چارا نہیں۔ مندرجہ ذیل بوٹیاں عام ہیں اور انہاں اس سنجی، مینا، جو انہ یا camel-thorn، بیہو ، جو ہد را ( جنگلی oats)، اوزی اور کھیوی۔
کھجور اور پھل دار در محت
بھکر میں اونچے کنارے کے قریب اور کالا باغ اور عیسی خیل کے قصبات میں باغات موجود ہیں۔عام پھل دار درخت آم، مالٹا، انار، شہتوت، لیموں، لوکاٹ ، ناشپاتی اور انگور ہیں۔ کھجور کے درخت بھکر تحصیل میں نشو و نما پاتے ہیں، زیادہ تر اونچے کنارے کے آس پاس۔ کھجور کے درخت کے ہر حصے کا الگ نام ہے۔ پھل کو کھجی کہتے ہیں۔ تنا کھڑی حالت میں منڈھ ، کالے اور چھانے جانے پر چھنڈا کہلاتا ہے۔ درختوں کے جھنڈ کو جھٹ کہتے ہیں۔ پتو اچھری، نیٹ ورک فائبر گبل ہے۔ درخت کی چوٹی پر پتوں کا جھرمٹ غاچہ، جبکہ ناچہ کے اندر کو بھی نما گچھا گری ہے۔ کانٹے ٹھو آئیں۔ پھل کے پکنے کے مراحل کی مطابقت میں کئی نام ہیں، اور پچکے ہوئے پھل کو پنڈ کہتے ہیں۔