ضلع میانوالی میں خواتین کا کردار
سید نصیر شاہ
ضلع میانوالی میں بدھ مت کے آثار ملے ہیں بدھ مت میں عورت کو گناہوں کی پوٹ سمجھا جاتا تھا اس لئے یہاں بھی لازما اس کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہو گا۔ اور اسے معاشرہ میں ذلت آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا۔ انسائیکلو پیڈا انت مین اینڈ لینوکس نے جیمز ہسٹیکنز نے ایڈٹ کیا ہے) کی تفصیل کے مطابق بابلی تہذیب میں سب سے پہلے عورت کو مرد کی جائیداد سمجھا گیا اس طرح اس کی حیثیت مال اور ذرائع پیداوار کی ہو گئی۔ چنانچہ قتل کی دیت میں سو اونٹ یا چالیس اونٹ اور ایک دوشیزہ دی جانے لگی۔ یہ رسم آج بھی قتل خطاء کی صورت میں مصر، اردن اور شام میں عام ہے پھر اونٹوں کی بجائے نقد رقم یا دوشیزائیں دی جانے لگیں باہلی تہذیب میں تقریبا ۱۸۰۰ قبل مسیح میں قتل کی دیت میں قاتل اپنی بیٹیاں یا قریبی رشتہ دار دوشیزائیں دینے لگے اور یہ سمجھا گیا کہ اس طرح پشنی عداوتوں کی جڑیں ختم ہو جائیں گی اور قاتل اور مقتول کے خاندان میں قریبی رشتہ داری سے خون دھل جائے گا۔ یہ صورت حال ضلع میانوالی کے بعض قبائل میں آج بھی موجود ہے ہندومت میں یہ رسم نہیں تھی اب یہ مورخین کا فرض ہے کہ وہ قدیم بابلی تہذیب اور میانوالی کی اس مشترک رسم کے سراغ سے تاریخ میانوالی کا کھوج لگا ئیں۔ تاریخ کی مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان کو زراعت اور کھیتی باڑی سے وابستہ کرنے والی عورت ہی ہے مرد تو شکار کرتے تھے عورت ہی پالتو جانور رکھنے لگی پھر ان کے لئے چارہ کا انتظام کرنے لگی اور یہیں سے کھیتی باڑی کی ابتدا ہوئی۔ قدیم الام کی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ دھرتی کو ماں کا تصور بھی عورت ہی سے ملا کیونکہ زمین اور عورت پیدائش کے عمل میں اشتراک رکھتی ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قدیم زمانہ میں ہل جو نا عورت کا کام تھا خاص طور پر سرزمین عراق میں مدتوں یہ رواج رہا ان قبائل کا تصور بلکہ عقیدہ تھا کہ اس طرح پیداوار زیادہ ہوتی ہے ضلع میانوالی کے کھدری کے علاقہ میں اب بھی کہیں کہیں اس رسم کے آثار ملتے ہیں۔ زراعت پیشہ اقوام میں عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کرتی ہے۔
میانوالی میں بھی یہی صورت حال موجود ہے۔ زراعت پیشہ لوگوں کی عورتیں بے حد جفاکش ہوتی ہیں۔ وہ ایک طرف زرعی معاملات میں مرد کے دوش بدوش کام کرتی ہیں دوسری طرف ہانڈی روٹی کے فرائض بھی سرانجام دیتی ہیں۔ یوں انہیں مردوں سے کئی گنا زیادہ کام کرنا پڑتا ہے پالتو جانور جو زراعت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں ان کی ساری خدمت بھی عورتیں ہی سرانجام دیتی ہیں۔ ادھر وہ بچوں کی نگہداشت بھی کرتی ہیں ان کے اخلاق و کردار کی تربیت بھی کرتی ہیں اس طرح انہوں نے مرد کو بہت حد تک فکر معاش سے آزاد کر رکھا ہوتا ہے اور گھر کے دھندوں اور بال بچوں کی پرورش و تربیت سے تو وہ بالکل بے تعلق رہتے ہیں۔ مرد زیادہ سے زیادہ یہی کرتے ہیں کہ زمین کو قابل کاشت بنائیں فصل اٹھانے میں بھی عورت برابر کا کام کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کے مردوں کو سفید پوشی اور باہمی فساد کے لئے بہت سا وقت مل جاتا ہے وہ جاہلانہ لڑائیوں اور مقدموں میں وقت ضائع کرتے ہیں بہا اوقات جیل چلے جاتے ہیں اور پیچھے تمام مسائل عورت کو حل کرنا پڑتے ہیں۔ زرعی میدان میں میانوالی کی تاریخ جب سے شروع ہوئی ہے عورت معاش پیدا کرنے کا تین چوتھائی کام کر رہی ہے۔ یہاں کی عورتوں میں تعلیمی پسماندگی کے باعث سیاسی شعور بہت کم ہے سیاست کے میدان میں لے دے کے ایک ذکیہ شاہ نواز صاحبہ کا نام ہی آتا ہے وہ خوانین عیسی خیل میں سے ہیں ایک دفعہ صوبائی اسمبلی کی ممبر بھی بن چکی ہیں مگروہ عیسی خیل چھوڑ کر لاہور مقیم ہو گئی ہیں۔ یہاں کی سب سے پہلے تعلیم حاصل کرنے والی عورتوں میں ایک عظیم نام می زینب فیض مرحومہ کا ہے مس زینب فیض و صلہ عظمت خان کے فیض محمد خان کی بیٹی تھیں فیض محمد خان غالبا” پہلے شخص تھے جو اس ضلع سے ڈپٹی کمشنر ہوئے۔
می زینب ان کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ میں فیض نے ساری عمر تعلیم نسواں کے فروغ میں گزاری وہ بڑی روشن خیال عورت تھیں۔
عورتوں کی تعلیم کے سلسلہ میں موچھ کے خان جی عباس خان تابے خیل کا نام بڑا معتبر نام ہے وہ اپنی ذات میں ایک تحریک تھے۔ انہوں نے اس نکتہ کو سمجھ لیا تھا کہ ایک مرد کا پڑھ لیتا صرف ایک فرد کا پڑھ لیتا ہے لیکن ایک عورت کا پڑھ لینا پورے خاندان کا پڑھ لیتا ہے چنانچہ انہوں نے بڑے ہی پسماندہ معاشرہ میں اپنی تحریک کا آغاز کیا خان جی صاحب نے موچھ میں بچیوں کی تعلیم کی تحریک چلائی اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج موچھ پورے پاکستان میں ایک مثالی قصبہ ہے جہاں شرح تعلیم بہت بلند ہے۔ موچھ کا کوئی فرد ان پڑھ نہیں۔
میانوالی میں اس سلسلہ کی دوسری تحریک حال ہی میں کرنل الطاف الٹی ملک نے ملک مولا بخش میموریل ٹرسٹ کے ذریعے شروع کی ہے۔ انہیں یونیسیف کا بھی تعاون حاصل ہے۔ اب ضلع میں عورتوں میں تعلیم کا رواج عام ہو رہا ہے ماجده غلام رسول خان تسنیم نیازی اور دیگر بہت سی خواتین لیڈی ڈاکٹر ہیں۔ پرنسپل ، لیکچرار اور معلمات کی کافی تعداد ہے لیکن ابھی تک عملی سیاست کا میدان ان سے خالی ہے۔ ضلع میانوالی کی شہری عورتوں میں پروہ کا رواج ہے ان کے لئے کوئی تفریح کی جگہ نہیں کوئی لائبریری نہیں مل بیٹھنے اور کوئی ایسوسی ایشن بنانے کی سوچ نہیں اس لئے اجتماعیت کا تصور مفقود ہے۔ مصنف تاریخ میانوالی کی اہلیہ محترمہ تسنیم نیازی گورنمنٹ کینئرڈ کالج لاہور میں اسلامیات کی پروفیسر ہیں ۔ اس لحاظ سے ان کی تعیناتی میانوالی کے لیے باعث اعزاز ہے ۔ آپ نے پنجاب میں پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی تھی۔
وٹ: یہ مضمون ڈاکرڈ لیاقت علی خان نیازی کی کتاب ” تاریخ میانوالی (تاریخ و تہذیب) سے لیا گیا ہے۔