ماحولیات
سید نصیر شاہ
محل وقوع کے اعتبار سے ضلع میانوالی کی صورت حال بڑی دلچسپ ہے۔ اس کے شمال میں اضلاع اٹک اور کوہاٹ، مغرب میں بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان جنوب میں بھکر اور مشرق میں خوشاب اور چکوال ہیں۔ یہ صوبہ پنجاب کا انتہائی ضلع ہے اس کے بعد صوبہ سرحد شروع ہو جاتا ہے دوسرے لفظوں میں یہ ضلع پوٹھوہاری ، پختون، پنجابی اور سرائیکی تہذیبوں کا سنگم ہے۔ یہ عظیم نیلاب (دریائے سندھ) کے دونوں کناروں پر واقع ہے اسی طرح کو ہستان نمک کے سلسلہ کی ایک شاخ بھی اس کے وسط سے گزرتی ہے اس کی زمین جغرافیائی لحاظ سے چار قسموں میں تقسیم کی گئی ہے۔ کچہ، پکہ ، تھل کھدری، کچھ وہ علاقہ ہے جو دریا کے کنارے کے اس طرح ساتھ ہے کہ سیلاب کے دنوں میں زیر آب آ جاتا ہے یہ علاقہ کافی
زرخیز ہے۔
دریا ہر سال چکنی مٹی پہاڑوں سے بہا کر لاتا ہے اور اس میں بچھا دیتا ہے اس طرح فصلوں کو تازہ اور زرخیز مٹی ملتی ہے چشمہ جھیل نے اس کا رقبہ بہت کم کر دیا ہے۔ پکہ اس علاقہ کو کہتے ہیں جس کی زمین سخت اور مٹی سرخ رنگ کی ہے اگر ان زمینوں کو سیراب کیا جائے تو بہت پیداوار دیتی ہیں تھل ریگستانی علاقہ کو کہتے ہیں۔ جو کسی زمانہ میں چنے کی فصل کے لئے بڑا موزوں اور معروف تھا۔ اب چھوٹی نہروں کے ذریعے اس کے کچھ حصہ کو سیراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے باقی حصہ ای طرح بارانی پڑا ہے۔ کھدری کا علاقہ پتھریلا ہے جہاں کہیں مٹی والی جگہ آجاتی ہے وہاں فصل ہوتی ہے اس ضلع کے پہاڑ خشک اور بے شجر ہیں لیکن معدنی دولت سے مالا مال ہیں مکڑوال کے قریب معدنی کوئلہ کی کانیں ہیں ، کالا باغ کے ساتھ نمک کی کانیں ہیں، پہاڑوں کے باقی حصوں سے سیلیکا سینڈ فائر کلے، چائنا کلے جسم اور ریڈاو کر نکلتے ہیں کالا باغ کے قریب ریت میں لوہا بڑی مقدار میں ہے۔ کچھ کے علاقہ میں کاہ کاش اور کندر کے جنگل ہیں چشمہ جھیل سے پہلے کچھ کے علاقہ میں سیلواں کے قریب "جھلار” کے ساتھ بہت بڑا جنگل تھا۔ وہ جھیل کی نذر ہو گیا۔
اب میانوالی مظفر گڑھ روڈ پر کندیاں موڑ سے آگے سڑک کے دونوں طرف ایک بڑا جنگل ہے جسے سبزہ زار کہتے ہیں۔ چشمہ جھیل تو دریائے سندھ کے پانیوں کا ذخیرہ کرتی ہے ایک نمل جھیل بھی ہے جو ڈھک کے اس پار ہے۔ پہاڑی نالے اور بارش کا پانی یہاں جمع ہوتا ہے جو پہاڑ میں سے راستہ بناتا ہے اور موسیٰ خیل کے ساتھ ساتھ ایک کھالے میں بہتا آتا ہے۔ داؤد خیل کے قریب جناح بیراج ہے، یہاں سے بڑی نہر تھل پراجیکٹ نکلتی ہے جو پکہ ہیڈ ورکس پر چھوٹی نہروں میں تقسیم ہوتی ہے۔ چشمہ لنک کینال بڑی نہر ہے جو چشمہ جھیل کے ذخیرہ کردہ پانی کو شیر گڑھ کے مقام پر دریائے جہلم میں ڈالتی ہے یہ ۶۲ء کے سندھ طاس معاہدہ کے تحت وجود میں آئی ہے۔ یہ کچی نہر ہے کبھی اوپر اور کبھی نیچے سیم چھوڑتی ہے سیم نے کافی رقبہ تباہ کر دیا ہے اور کوندر اتنی اگ آئی ہے کہ اس کی فصلیں لہلہاتی دکھائی دیتی ہیں زیر کاشت رقبوں میں پوہلی اور پہاڑی بھی آفت ڈھاتی ہیں۔
یہ ضلع کا مختصر جغرافیائی تعارف ہے یا دوسرے لفظوں میں اس کا جغرافیائی ماحول ہے۔ اس گنگا جمنی ماحول کا اثر انسانی طبائع پر بھی پڑا ہے۔ میانوالی شہر سے شمالی علاقہ میں داؤد خیل تک کے لوگ سخت مزاج، بے باک، بے خوف لیکن دل کے کھرے، مخلص اور بچے ہیں، کو ہستان نمک کے اس پار تھانہ چکڑالہ اور ملحقہ علاقہ کے لوگ جنہیں علاقہ اترادہ کے باشندے کہا جاتا ہے بڑے نکتہ رس’ بچے اور کھرے ہیں قانونی معاملات میں ان کا ذہن خوب چلتا ہے اور ایک دوسرے سے قانونی لڑائی لڑنے میں ماہر ہیں جب کہ ان کے متوازی پہاڑ کے مغرب کے لوگ بندوق کے فیصلوں کو زیادہ سچا سمجھتے ہیں اور قتل و غارت کی مصیبت میں مبتلا رہتے ہیں۔ میانوالی شہر سے جنوبی علاقہ میدانی ہے یہ پہلاں تک پھیلا ہوا ہے اس کا کچھ نہری اور باقی بارانی ہے یہاں کے لوگ کھلی طبیعت کے ہیں اور اپنے اختلاقات زیادہ تر گھروں میں طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہاں کی آب و ہوا اور موسم کی عدم یکسانیت انسانی طبائع کے لئے بہت موزوں ہے یہاں وقتا فوقتا طوفان بادو باراں بھی چلتے ہیں جو فضائی آلودگی سے پاک صاف رکھتے ہیں، اس ضلع کا شمالی دروازہ درہ تنگ ہے اس طرح خیال ہے کہ یہ بھی رہوار وحشت پر سوار حملہ آوروں کی آماج گاہ رہا ہو گا اس لئے یہاں کے باشندے ادھر ادھر بکھرتے رہے ہوں گے مسلمانوں کے یہاں بس جانے کے بعد بھی یہ علاقہ وزیریوں اور آفریدیوں کی لوٹ مار کی زد میں رہا۔ یہ قبائل آپڑتے تھے اور زیادہ تر ہندوؤں کو لوٹ کر لے جاتے تھے اسے "لٹ” اور "باڑھ ” کہتے تھے۔ پائی خیل کا منفرد ریلوے سٹیشن انہیں حملوں کا غماز ہے۔ یہاں کی معاشرت قبائلی طرز کی ہے اور لوگ شادی بیاہ کے رشتے بھی عام طور پر خاندان سے باہر نہیں کرتے۔
سندھ طاس معاہدہ کے بعد چشمہ جھیل وجود میں آئی تو کچھ کے لوگ ادھر ادھر بکھر گئے ان کے ساتھ ہی کچھ کے جنگلات بھی ختم ہو گئے جس کا آب و ہوا پر شدید اثر پڑا ہے جنگلات کے ساتھ بہت سے چرند پرند بھی ختم ہو گئے جو ماحولیات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اب یہاں صرف سبزہ زار کا جنگل رہ گیا ہے یا دریا کے کنارے کہیں کہیں درخت اور کاہ کاش کے بوئے ہیں۔
یہاں کے پہاڑ پہلے ہی خشک تھے اور ان پر صرف جھاڑیاں اگتی تھیں جن کی لکڑی ایندھن کے کام آتی تھی اب یہ جھاڑیاں بھی کٹ کٹ کر تقریبا” نا پید ہو رہی ہیں، میدانوں میں مٹی موجود ہے لیکن ناہموار زمینوں میں کم ہو رہی ہے اور بارشوں سے بہہ رہی ہے درخت ہی اسے بچا کر رکھ سکتے تھے اب وہ نہیں رہے اور اگر یہ اسی طرح کم ہوتی گئی تو ماحولیاتی تباہی میانوالی کو اپنی گرفت میں لے لے گی۔ اس ضلع میں چونکہ صنعتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس لئے دھواں اور کیمیکل سے آلودہ پانی فضا کو آلودہ نہیں کرتا۔ اس طرح ماحولیاتی آلودگی نہیں پھر بھی شہر گنجان آبادی اور ٹرانسپورٹ کے چھوڑے ہوئے دھوئیں کے باعث کسی حد تک اسی آلودگی سے متاثر ہو رہے ہیں شہروں کے ارد گرد کافی مضافاتی زمین پڑی ہے اس لئے شہر با آسانی پھیل رہا ہے اور مکان کشادہ ہیں لیکن غریب لوگ جو باہر زمین خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے خاندان کے پھیلنے کے باعث پہلے مکان کی تقسیم در تقسیم سے تنگ مکانوں کی گھٹن کا شکار ہو رہے ہیں۔
سیم کے باعث ماحول آلودہ ہو رہا ہے کہ یہاں لکھی پھر اور دیگر مضرت رساں کیڑے مکوڑے پروان چڑھ رہے ہیں جو صحت بخش ماحول کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ تاہم صنعتوں کے بے تحاشا پھیلاؤ سے پیدا ہونے والی آلودگی یہاں بالکل نہیں۔ ضلع کی جسامت کم ہو گئی ہے اور آبادی میں پاکستان کے دوسرے اضلاع کی طرح تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اگر اضافہ کی شرح یہی رہی تو ضلع کی زمین گھٹتے گھٹتے صرف اتنی رہ جائے گی کہ آدمی بیٹھ یا لیٹ سکیں۔ یہ چیز بھی ماحول کو سکیٹر اور سمٹا کر زوال کی طرف گامزن کر رہی ہے۔
ضلع میانوالی میں پینے کا پانی جہاں جہاں دستیاب تھا بہت ہی صحت مند اور صحت بخش تھا یہاں سے پانی کی بوتلیں بھر کر لوگ اپنے ساتھ لے جاتے تھے لیکن سیم نے اسے بہت ہی آلودہ کر دیا ہے اب پانی میں وہ اجزاء بتدریج کم ہو رہے ہیں جو اس کی صحت بخشی کا سبب سمجھے جاتے تھے۔
نوٹ: یہ مضمون ڈاکرڈ لیاقت علی خان نیازی کی کتاب ” تاریخ میانوالی (تاریخ و تہذیب) سے لیا گیا ہے۔