میانوالی

میانوالی: زبان اور معاشرت

محمد سلیم احسن

 

میانوالی کی زبان اور معاشرت

محمد سلیم احسن

زبان کی تاریخ قدیم ہے۔ دنیا بھر کے لسانیات اور بشریات کے ماہر اس بات پر متفق ہیں کہ زبان ایک لاکھ دس ہزار سال پہلے وجود میں آئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زبان دنیا کے کس خطے میں پیدا ہوئی۔ اس بارے میں کئی نظریات پیش کئے گئے ہیں۔ ماہرین عموما ” پاکستان کے خطے پوٹھوہار اور افریقہ کی سرزمین کو زبان کی پیدائش کے علاقے سمجھتے ہیں۔ پوٹھوہار دراصل وادی سندھ کا حصہ رہا ہے۔ وادی سندھ دکن سے کشمیر تک پھیلی ہوئی تھی۔ پوٹھوہار کا ایک نام تزک جہانگیری کے مطابق سطح مرتفع نمک تھا۔ 1001ء میں درہ خیبر سے آنے والے مسلمانوں نے اسے نیلاب کا نام دیا۔

جغرافیائی طور پر میانوالی میں کو ہستان نمک کا ایک وسیع سلسلہ موجود ہے۔ یہاں کی کانوں سے ۴ قبل مسیح سے نمک نکالا جا رہا ہے۔ تاریخی طور پر میانوالی گندھارا کا حصہ رہا ہے سرکپ کے احوال و آثار اب بھی موجود ہیں۔ میانوالی سے ۵ میل دور شمال کی طرف دریائے سندھ کے کنارے روکھڑی کے کھنڈرات میں گندھارا کی واضح نشانیاں پائی جاتی ہیں۔ لسانیات کے معروف محقق اور گندھارا ریسرچ پراجیکٹ سنٹر سوات کے ڈائریکٹر جناب پرویز شاہیں لکھتے ہیں کہ

"میری تحقیق کے مطابق سرائیکی زبان خنجراب کے پہاڑوں سے لے کر دکن تک پھیلی ہوئی تھی اور یہ پیا جی خاندان کی زندہ و تابندہ باقیات میں سے ہے۔ چنانچہ اب یہ کافی حد تک طے شدہ بات ہے کہ سرائیکی قدیم زبان ہے۔ اس کا تعلق پشاچی خاندان سے ہے جو دراوڑی کی ایک شاخ ہے یہ سندھی زبان کی سرائیکی شکل ہے جو موجودہ سندھی زبان کے وجود میں آنے سے پہلے کو استان نمک میں موجود تھی۔ آج کے دور میں میانوالی پنجاب کا آخری ضلع اور صوبہ سرحد کے اضلاع کرک بنوں اور ڈیرہ اسمعیل خان کی طرف سے پنجاب کا نقطہ آغاز ہے۔ یہ اس مقام پر واقع ہے جسے زبانوں کا سنگم کہا جاتا ہے۔ یہاں زبانیں مل رہی ہیں اور جدا ہو رہی ہیں چنانچہ پڑوس کی مختلف زبانوں کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ میانوالی کے جنوب مشرق میں پنجابی ملی جلی زبان بولی جاتی ہے۔ شمال میں پوٹھوہاری لجہ نمایاں ہے۔ شمال مغرب اور مغرب میں صوبہ سرحد کے پشتو بولنے والے اضلاع میں البتہ ڈیرہ اسمعیل خان میں سرائیکی بولی جاتی ہے اور جنوب کی طرف سے وہ مسلسل سرائیکی بیلٹ سے جڑا ہوا ہے۔ میانوالی کی زبان تاریخی اور جغرافیائی اثرات کے نتیجے میں ارتقاء اور امتزاج کے مراحل سے گزر کر موجودہ شکل تک پہنچی ہے۔ اس کی اپنی منفرد شناخت ہونے کے باوجود یہ واضح طور پر وادی سندھ کی زبانوں سے گرمی مماثلت اور مشابہت رکھتی ہے۔

وادی سندھ جس کا پھیلاؤ شمالا” جنوبا” زیادہ اور شرقا غربا” کم ہے کے نسبتاً لیے اور کم چوڑے علاقے میں سندھی کے علاوہ کئی زبانیں بولی جاتی ہیں جن کے نام ریاستی مانی، اچی، ہند کو ہند کی دیرہ والوی، جنکی، تھلی تھوجی لندی اور جگدای وغیرہ ہیں۔ اہل سندھ نے اس بالائی علاقے کی زبانوں کے لئے سرائیکی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جہاں تک وادی سندھ میں میانوالی کا تعلق ہے۔ اس خطے کی زبان کو بھی کئی نام دیئے گئے۔ ملکی ، ملتان، جنگی، تھلی لہندی اور ہند کو اور ہند کی قابل ذکر ہیں۔ میانوالی کی پرانی نسل یہاں کی زبان کو آج بھی ہند کو کہتی ہے۔ البتہ نی بڑھی کسی نسل میں سرائیکی کا نام مقبول ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے سرائیکی کا نام کیوں دیا گیا ہے۔ یہ نام اسے اہل سندھ نے دیا ہے۔ سندھی میں سرو (SIRO) کے معنی سریا سرے کے ہیں یہ لفظ شمال (ابھے) کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ دریائے سندھ کے بالائی ہے (UP-STREAM) کو سرو کہتے ہیں۔ چنانچہ اس مفہوم میں دریائے سندھ کے منبع تک کا علاقہ سرو اور اس علاقے کی زبان سرائیکی ہے۔ ڈاکٹر ٹرمپ سرائیکی کو سندھی زبان کی جدید اور خالص ترین شکل قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر مر عبد الحق لکھتے ہیں کہ سندھ کی لسانی تاریخ میں 1100 کا سال بہت اہم ہے وادی سندھ اس پرورش پانے لگی اور ایک حصے کی زبان سرائیکی کہلائی۔

سال سیاسی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ دونوں حصوں میں ایک ہی زبان مختلف زبانوں کے اثرات کے باوجود میانوالی زبان کا اپنا ایک مخصوص لہجہ ہے اور یہ لہجہ اس کی مخصوص شناخت ہے۔ بلاشبہ یہ سرائیکی ہے اور اظہار کے حوالے سے سرائیکی کا کھڑا لجہ ہے۔ میانوالی زبان کی گرائمر، افعال اور افعال کی گردائیں، حروف، ضمائر اور اسماء، محاورے، لوک روایات لوک گیت اور پانچ آوازیں یعنی پ، چ، ڈگ اور ن وہی ہیں جو سرائیکی کی مخصوص شناخت خصوصیت اور تشخص کا اظہار کرتی ہیں۔ لندن یونیورسٹی کے مشرقی اور افریقی زبانوں کے مطالعہ کے شعبہ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر کرسٹوفر شیکل نے ۱۹۷۴ء میں سرائیکی علاقہ کی زبان کا مطالعہ کرنے کے بعد وی سرائیکی لینگوئج آف سنٹرل پاکستان کے نام سے تحقیقی مقالہ لکھا۔ اس میں انہوں نے میانوالی کی زبان کو سرائیکی قرار دیا ہے۔ انہوں نے سرائیکی بولنے والے علاقہ کو چھ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ میانوالی اور ڈیرہ اسمعیل خان کی زبان کو قریبی مشابہت کی بناء پر ایک ہی ذیل میں رکھتے ہوئے اسے سرائیکی کا شمالی لجہ کہا ہے۔ ڈاکٹر کرسٹوفر شیکل کا خیال ہے کہ یہ شمالی الجہ سرائیکی زبان کے وسطی لہجہ کے زیادہ قریب ہے۔ وہ ملتان اور مظفر گڑھ کی زبان کو سرائیکی کا وسطی لجہ قرار دیتے ہیں۔

سرائیکی زبان کی جڑیں

اوپر کی بحث میں ہم ثابت کر چکے ہیں کہ سرائیکی بہت قدیم زبان ہے اس کی جریں ہزاروں سال پر پھیلی ہوئی لسانی تاریخ میں موجود ہیں۔ سرائیکی آج جس شکل میں موجود ہے۔ چینی طور پر ہزاروں سال پہلے اس کی صورت کچھ اور ہو گی۔ ہندوستان کی قدیم ترین زبانوں میں منڈا (MUNDA) زبان بھی شامل ہے عین الحق فرید کوئی کی تحقیق ہے کہ آریاؤں کے آنے سے پہلے یہاں تین زبانیں موجود تھیں، جن میں سے ایک کا تعلق اس منڈا قبیلہ سے تھا۔ سنتقال منڈاری زبان کالتے تھے اس قدیم زبان کے ان گنت الفاظ آج بھی سرائیکی زبان میں موجود ہیں.

ان میں نانا نانی ، پھیھا، پھپھی ، سانڈھو ، سالا، ماسی، بوہڑ برگد دھتورا، نم، ڈانگ مام گھانسٹری ، دھڑا ، لپ ، پیڑھی، چر، الہار کثیرہ اور کنڈ وغیرہ منڈاری زبان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ منڈا قبیلے کی آخری گفتی ہیں (کوڑی) تھی۔ ہمارے ہاں آج بھی سو کو سوکھنے کی بجائے پنج ویہ (پانچ ہیں) کہتے ہیں۔
اسلام کے آنے کے بعد وادی سندھ میں عربوں کا اثر و رسوخ پھیلا۔ عربوں نے یہاں تقریبا ۱۳۰ سال حکومت کی۔                                                                                                                                    عربی زبان نے سند نے سندھ کی تہذیب اور زبان کو بہت حد تک بدل ڈالا اور اس پر واضح طور پر اسلام کی چھاپ نظر آنے لگی۔ عربوں کے بعد شمال جنوب سے آنے والے مسلمان حملہ آور اپنے ساتھ فارسی لائے۔ سید سلیمان ندوی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ عربی اور فارسی کا سب سے پہلے جن زبانوں سے رابطہ قائم ہوا وہ سندھی اور ملتانی تھیں۔ اس کے بعد پنجابی اور پھر دہلوی (اردو) کا نام آتا ہے۔ سرائیکی میں عربی اور فارسی کے لاتعداد الفاظ شامل ہیں۔ کچھ تو اصلی شکل میں موجود ہیں اور کچھ بگڑ گئے ہیں کچھ ایسے الفاظ بھی ہیں جن کا تلفظ بدل گیا ہے۔ مثلا” بصل سے وصل، قوم سے تھوم (سن) تسبیح سے نسبی، تعویز سے تویز یا تویت سراویل سے سلوار، ایمان سے امان ، مسجد سے میت وغیرہ عربی کے بگڑے ہوئے الفاظ ہیں۔ فارسی الفاظ نے بھی علاقائی شکل اختیار کی جانور سے زناور یا جناور نزدیک سے نزیک۔ شاباش شابش یا شابا – طباخ سے طباخری خفتن سے خفقان (سونے کا وقت) وغیرہ کی فارسی الفاظ کی چند مثالیں ہیں۔ سرائیکی کی گرایم بنیادی طور پر فارسی سے متاثر ہے۔

معاشرت

یہاں کی معاشرت قبائلی طرز کی ہے۔ لوگ گروہوں، برادریوں اور قبیلوں کی شکل میں رہتے ہیں اور ہر فرد کی پہچان اس کے قبیلے یا ذات برادری سے ہوتی ہے۔ نسلی عصبیت اور تفاخر موجود ہے۔ رشتے ناطے برادری میں کئے جاتے ہیں۔ پردے کا عام رواج ہے۔ دیہاتوں میں عورتیں مردوں کے دوش بدوش کام کرتی ہیں۔ سادہ لباس پہنتی ہیں سر پر دوپٹہ ” کرتا اور چادر سمجھلا یہ عا ملا یہ عام لباس ہے مرد کا روایتی لباس پگ یا لنگی کرتا اور چادر ہے اور اب شلوار کا عام رواج ہو رہا ہے۔ پاؤں میں پہنے کے لئے خاص قسم کے زری کے جوتے (کھیڑیاں) بنوائے جاتے ہیں۔ خصوصا” عید کے موقع پر جوتے بنانے والوں کے پاس شائقین کا اکٹھ ہوتا ہے۔ وہ اپنی نگرانی میں جو تا بنواتے ہیں اور تلہ گنگ کے دیہاتوں خاص کر کفری” میں زرنگاری کا کام ہوتا ہے۔ عورتیں ایک زمانے میں نوک والی جوتی یا کمرہ استعمال کرتی تھیں عید اور تہواروں پر بھر پور خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ میانوالی میں کالے بیڑے کا رواج عام تھا۔ مرد اور عورتیں دونوں بیڑے کا استعمال کرتے تھے۔ پشاوری حقہ بھی کثرت سے پیا جاتا تھا۔ مگر اب وہ پہلی سی بات نہیں رہی کالے بیڑے کے ساتھ سبز نسوار اور حقے کی بجائے سگریٹ کا رواج ہو گیا ہے۔ میانوالی میں عام کھیلوں کے علاوہ کبڈی اور پڑ کبڈی (پڑ کوڈی) کو آج بھی پسند کیا جاتا ہے یہ زور طاقت اور پھرتی کا کھیل ہے۔ صفر کے آخری بدھ کو چوری روزہ یا سوکھا ہوتا ہے اس بدھ کو حضرت محمد کو حضرت عائشہ نے صحت یابی کے بعد چوری کھلائی تھی چنانچہ میانوالی میں کئی طرح کی چوری کوئی اور بنائی جاتی ہے۔ موسموں کے بدلنے کے ساتھ یہاں مختلف پکوانوں کا رواج تھا ادگره ، بھت غروبہ ، بھنگور ، چاول سویاں، وٹویاں سویاں و شلی، ستا پڑی ، ڈیڑی (پراٹھ) بینی روٹی، روٹہ ، بری اور مریضوں کے لئے لیٹی پکائی جاتی ہے۔ اب یہ چیزیں دم توڑتی جا رہی ہیں۔ یہاں پر پیری فقیری کا سلسلہ ہے۔ مزاروں پر جانے کا رواج ہے اور وہاں رونہ دیکھیں اور شیرنی بانٹی جاتی ہے منتیں مرادیں مانی جاتی ہیں۔ مرغ اور بکرے دیئے جاتے ہیں۔ چادریں چڑھائی جاتی ہیں اور دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ بارش نہ ہو رہی ہو تو میانوالی میں حضرت سلطان ذکریا الیہ کے قبرستان میں واقع "ٹو بھے سے مٹی نکالی جاتی ہے۔ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اس طرح سے
بارش ہو جاتی ہے۔

میانوالی کے لوک گیتوں اور لوک فنکاروں نے خوب نام کمایا ہے۔ ۵۸-۱۹۵۳ء 19ء میں ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے میانوالی کے لوک گیت کے نام سے با قاعدہ ایک پروگرام ہوا کرتا تھا۔ عیسی خیل کے امتیاز خالق اور داؤد خیل کے گلستان خان اس پروگرام میں اپنی آواز کا جادو جگایا کرتے تھے۔ میانوالی سے معروف پنوں خیل قبیلہ کے سجاد سرور خان نیازی جو ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز رہے۔ موسیقی سے گہرا شوق رکھتے تھے۔ وہ شاعری بھی کرتے اور خود دھنیں بھی بنایا کرتے تھے۔ ان کی دو بیٹیوں ناہید نیازی اور نجمہ نیازی نے باپ کی سرپرستی میں گانے میں بڑا نام کمایا۔ ناہید نیازی کی بیٹی نزمین نیازی نے بھی اپنے نانا کے ذوق کو فراموش نہ کیا یہ بھی خوب گا رہی ہے۔

پاکستان کی فلمی دنیا کے نامور موسیقار خورشید انور مرحوم کا تعلق میانوالی سے تھا۔ ان کی دھنیں آج بھی اہل ذوق سے بے تحاشہ داد وصول کرتی ہیں۔ میانوالی کے لوک گیتوں کو نہ صرف گلی کوچوں بلکہ پاکستان سے باہر تک پھیلانے کا سرا عطاء اللہ خان عیسی خیلوی کے سر ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر خوشی کا اظہار مختلف طریقوں سے کیا جاتا تھا۔ ناچنے والے پیشہ ور لوگ نٹ یا نچوے کہلاتے تھے اور شادی بیاہ کے موقع پر موجود ہوتے تھے۔ ناچنے والے یہ فنکار زبانہ میک اپ اور کپڑوں میں خوشیوں کو دوبالا کرتے تھے۔ یہ رواج ابھی بھی ہے مگر پہلی سی بات نہیں رہی۔ خوشیوں کے موقع پر ہننے اور ہنسانے والے بھی ہوا کرتے تھے جنہیں بھانڈ کہا جاتا تھا۔ کیسٹ ٹیکنالوجی نے اس فن کو خوب ترقی دی ہے۔ میانوالی میں ہنسی محول پر مشتمل کئی کیسٹ مارکیٹ میں آچکی ہیں۔ ان ہننے ہنسانے والوں میں شمیر خان ، مشتاق رانا طارق نیازی ، نصیر بھٹی، تسلیم ملک فیاض احمد ، مختار ثناء اور انتظار ہاشمی قابل ذکر ہیں۔

 

نوٹ: یہ مضمون ڈاکرڈ لیاقت علی خان نیازی کی کتاب ” تاریخ میانوالی (تاریخ و تہذیب) سے لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com