میانولی :دریائی نظام اور جھیلیں
کالا باغ سے عین اوپر دریائے سندھ کوہ نمک کو چیرتا ہوا ایک تنگ گزر گاہ بناتا اور اس ضلعے میں داخل ہوتا ہے۔ یہ اگلے چالیس میل تیک جنوب کی طرف ایک میل میں تقریباً 1 فٹ ڈھلوان کے ساتھ دھیرے دھیرے بہتا ہے۔ اپنی کو ہستانی بندشوں سے آزاد ہو کر یہ تیزی سے میدان میں پھیلتا ہے، یہاں تک کہ عیسی خیل سے چند میل اوپر اِس کے کناروں کا فاصلہ 13 میل تک جا پہنچتا ہے۔اس گزرگاہ کے اندر انتقال پذیر گزر گاہوں کا ایک جال بن جاتا ہے اور مرکزی بہاؤ انھی میں سے کسی ایک میں ہوتا ہے۔ کوئی 60 سال پہلے دریائے سندھ عیسی خیل والی طرف سے بہتا تھا، لیکن پھر بھی اونچے کنارے سے کافی دور ہوتے ہوئے زرخیز سیلابی پٹی (نصف تا دو میل چوڑی) چھوڑ جاتا۔ دریا آہستہ آہستہ اس پٹی پر متجاوز ہوا، یہاں تک کہ الحاق کے فوراً بعد سارا زرخیز علاقہ زیر آب آ گیا۔ 1856ء کے قریب گزرگاہ میں تبدیلی آنا شروع ہوئی، لیکن یہ اس قدر درجہ بدرجہ تھی کہ شروع میں پتا ہی نہ چلا۔ پھر بھی مرکزی دھارا میانوالی کی طرف ایک پرانی گزرگاہ میں واپس جارہا تھا اور 1863ء اور 1864ء کے درمیان یہ عمل مکمل ہو گیا۔ اُس وقت ضلعی حکام نے بہ مشکل ہی غور کیا کہ ایک بہت بڑے دریا نے اپنی گزرگاہ مشرق میں تقریباً آٹھ میل پرے منتقل کر لی تھی۔ عام طور پر اس تبدیلی کی وجہ 1856ء میں کالا باغ سے نیچے ایک مختصر نہر بنانے سے منسوب کی جاتی ہے جس کا مقصد میانوالی والی طرف ایک پرانی اور تقریباً خشک گزرگاہ کو دریائے سندھ کے ساتھ ملانا تھا۔ یوں کچھ پانی اُس نہر میں چلا گیا اور اگلے سال 26 اگست کو شدید سیلاب آیا جس نے اس چھوٹی سی نہر کو وسیع اور گہری گزرگاہ میں تبدیل کر دیا۔ 1864ء سے 1873ء تک دریائے سندھ کا بایاں کنارہ قریب سے قریب تر آتا رہا، ایک کے بعد دوسرے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لیا اور حتیٰ کہ اپنی پرانے کنارے کو بھی بہا کر پرانے دیہات کا صفایا کر دیا جو ایک سو سال سے بنے ہوئے تھے۔ یوں پکی موچھ ، روکھڑی، شہباز خیل ، یاد و خیل، میانوالی ( سول سٹیشن والے حصے سمیت)، بلوخیل، گندیاں اور پہلاں جزوی یا کلی طور پر تباہ ہو گئے۔ 1873ء کے قریب دریا نے بائیں کنارے پر اپنا دباؤ کچھ کم کیا اور اُن دیہات کے خلاف ہو گیا جن کی زمینیں ابھی تک صحیح سلامت اور زر خیز ترین تھیں۔ در یا میانوالی سے گزر کر بھکر تحصیل میں پہنچنے پر اپنی زیادہ تر رفتار (جو کالا باغ کی گھائی سے نکلنے کے بعد حاصل ہوتی ہے) کھو دیتا ہے اور ساری بھکر تحصیل میں کم و بیش متعین راستے کا پابند رہتا ہے۔ دونوں اونچے کناروں کے درمیان علاقے کا مشرقی نصف فطری کھاڑیوں اور مصنوعی نہروں کے جال سے بھر جاتا ہے اور سیلابی پانی اِن گزر گاہوں پر بندوں کی وجہ سے علاقے میں پھیلتا ہے جن کا کنٹرول ضلعی حکام کے پاس ہے۔ دریا کا تکون اس علاقے کے مغربی نصف تک محدود ہے جہاں کناروں سے باہر آنے والا پانی بلا روک ٹوک پھیلتا ہے اور مرکزی بہاؤ ایک سے دوسری گزر گاہ میں منتقل ہو تا رہتا ہے۔ کھاڑیوں اور بندوں کے نظام پر آگے بات کی جائے گی۔
اس ضلع میں صرف ایک نمل جھیل ہی دلچسپی کا باعث ہے جو نمل اور موسیٰ خیل کے درمان ایک گھائی میں بند باندھ کر مصنوعی طور پر بنائی گئی۔ اس کے متعلق باب III کے سیکشن ایف میں بیان کیا جائے گا۔