جھنگ

تاریخ جھنگ : شہر اور قصبات

جھنگ صدر :

موجودہ شہر ان دنوں ضلع جھنگ کا صدر مقام ہے تمام ضلعی دفاتر اس جگہ واقع ہیں شور کوٹ سرگودھار  ریلو ے لائین پر آباد اس شہر کی آباد ایک لاکھ پندرہ ہزار پر مشتمل ہے۔ موجودہ شہر سے ڈیڑھ میل جانب مشرق جہاں ماہی پیر کا مزار ہے قدیم شہر اور قلعہ اس جگہ پر تھے۔ سکندراعظم یونانی کے حملہ کے وقت انتہائی با رونق تھا۔ قدیم مورخین نے اس شہر کا نام پر ہمن گڑھ بتایا ہے محکمہ آثار قدیمہ نے اس کی قدامت کا اندازہ لگانے کے لئے زیر زمین حصہ کی کھدائی کرائی تھی تہ سے برآمد ہونے والی انیٹوں کا تجزیہ کرنے کے بعد ماہرین نے خیال ظاہر کیا کہ سکندر اور چندر گپت کے عہد میں تعمیر ہوا تھا –

اس وقت پرہمن گڑھ قلعہ شہر کا تعلق سانگلہ سے شورکوٹ تک پھیلے ہوئے وسیع قلعوں اور فوجی چھاؤنیوں سے تھا۔ اس کے مشرق میں دریائے چناب بہتا تھا جس کی گزر گاہ کے آثار اب بھی ملتے ہیں۔ مگر ان دنوں دریا آٹھ دس میل جانب غرب بہتا ہے مسلسل جنگوں کی وجہ سے برہمن گڑھ اجڑ گیا آج صرف اس کا نام باقی ہے۔ ہیر کا مزار اسی برباد شدہ شہر کے ٹیلہ پر واقع ہے تاریخ میں دوسری مرتبہ یہ شہر مغل تاجدار جہانگیر کے عہد میں ایک جھوٹی سی بستی کی شکل میں میگھا نامی ایک سیال نے آباد کیا تھا۔ میگھا اصل میں لوہ کوٹ کا چرواہا تھا اس نے حاکم بھنگ نواب غازی خان سے گزارہ کے لئے جاگیر حاصل کی اور اسی جاگیر میں ایک بستی بسائی جو بعد میں اس کے نام پر میگھانہ مشہور  ہوئی یہ بستی اس جگہ پر تھی جہاں پر ان دنوں محملہ پنڈی آباد ہے۔ یہ جگہ نسباً بلند تھی کیونکہ قدیم عہد میں یہاں ایک قلعہ  تھا جو تباہ و برباد ہو گیا اس قلعہ کے کھنڈروں پر مگھانہ آباد ہوا اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں اس شہر کی آبادی دو ہزار نفوس پر مشتمل تھی جبکہ سکھوں کے عہد میں اس کی آبادی ۱۲۵۷۴ تک پہنچ گئی تھی۔ اسی عہد میں شہر کے گرد پختہ فصیل تعمیر ہوئی اس کے چاروں طرف پختہ دروار ہے بنائے گئے۔ قیام پاکستان سے قبل شہر کی تجارت پر غیر مسلم قابض تھے۔  قیام پاکستان سے قبل ایک ایم بی مڈل سکول – ایک اسلامیہ ہائی سکول ایک ہندو ہائی سکول – جامع مساجد ۴۳ دوسری مساجد، ایک عیدگاه دو مسلم یتیم خانے۲۱ دھرم شالا ئیں، آٹھ مندرہ گوردوارے چھ ٹھاکر دوار سے در جنج گھروں اور تیم خانے، ایک انٹر کا لج مردانہ، آٹھ مسلمانوں کے مزہبی مدارس چھے ہندووں کے اور دو سکھوں کے مذہبی مدارس موجود تھے۔ قیام پاکستان کے وقت اٹھارہ ہزار غیر مسلم سکونت چھوڑ کر ہندوستان چلے گئے۔ اور ان کی جگہ پرمشرقی پنجاب کے ۲۹ ہزار مسلمان مہاجر آباد ہوئے۔ اس وجہ سے شہر کی آبادی بڑھہ گئی ۔ 1195 میں 55 ہزار نفوس آباد تھے کہ کے سیلاب سے شہر کو سخت نقصان پہنچا۔ حکومت نے تین میل جانب مشرق سٹیلائٹ ٹاؤن بسایا اس وقت جھنگ میں ایک مردانہ اور ایک زنانہ ڈگری کالج ایک انٹر کالج اور دو ٹیکنیکل سکول، پانچ مردانہ اور ایک زنانہ ہائی سکول چار مڈل اور چالیس پرایمری اسکول جاری ہیں ، جھنگ صدر ، مغرب میں حفاظتی بند مشرق میں چنیوٹ موڑ شمال میں آو ھیوال جنوب میں ایبٹ پور تک پھیلا ہوا ہے۔ اس وقت پانچ فلور ملیں۔ ایک شوگر مل اور اٹھارہ دیگر صنعتی ادار ے ، چار سینما ہال موجود ہیں۔ آبادی کی رفتار تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ لہذا شہر مزید وسیع ہوگا ۔ اس شہر کی پہلی جامع مسجد محلہ نپڑی میں مسجد سلطان والی کے نام سے اب بھی موجود ہے جو اورنگ زیب کے عہد میں تعمیر ہوئی تھی دوسری جامع مسجد مولانا عبداللہ صاحب ملتانی نے تعمیر کرائی اس مسجد کے گنبد اور میناکاری کا کام فنی اعتبار سے مشہور ہے۔ قیام پاکستان سے قبل میونسپل تالاب گراؤنڈ کی مشرقی سیڑ ھیوں پر بلند عمارت گلاب دیوی مندر کے نام سے موجود تھی یہ تاریخی مندر تھا اور ہندو یہاں رام لیلا مناتے تھے۔ بہار کے سیلاب میں مندر گر گیا اور تالاب مونسپلٹی نے بند کردیا۔ اس شہر میں اس وقت ۵۳ جامع مساجد ۹۶ دیگر مساجد اور دو عید گاہیں موجود ہیں۔

جھنگ شہر :

یہ شہر مل خان سیال حاکم اول کے عہد سے ضلع کا صدر مقام یا حالات رہا یہاں قدیم زمانہ میں وسیع جنگل موجود تھا درختوں کے گھنے جھنڈ تھے جن کو مقامی زبان میں جھنگی کہتے ہیں چونکہ اس کے ارد گرد سیال قبید کے لوگ آباد تھے اس وجہ سے جگہ کا نام جھنگی سیالاں مشہور تھا۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ یہاں با قاعره طور پر حضرت شیر شاه جلال کرخ بخاری اُچی نےشہر کی بنیاد رکھی۔ چونکہ موصوف سیال قبیلہ کے پیشوا اور مرشد تھے۔ انہوں نے اسے جھنگی سیالاں کے نام سے منسوب کیا ۔ کہ میں جبکہ اس شہر پر نول قبیلہ حکمران تھا جونواب بہلول لودھی حاکم دیبا  لاہور کو بر وقت سرکاری واجبات ادانہ کرسکا۔اس بنا پر ہیلوں لودھی نے ہیر کے چچازاد بھائی مل کو جو کہ چو چک کے
بعد اپنے خاندان کا سربراہ بنا تھا۔ جھنگ پر قبضہ کر لینے کی اجازت دے دی مل خان کو ٹلی باقر غربی کنارہ جہلم جہاں در سکونت پذیر تھا اٹھا اور نول قبیلہ کو شکست دے کر جھنگ پر قبضہ کرلیا۔ اس جنگ میں شہر کو نقصان پہنچا۔ مل خان نے دوسری مرتبا اسے بسایا اور پھر اپنی حکومت کا مرکز بنالیا۔ یہی شہر سیالوں کا پایہ تخت رہا۔ انہوں نے شہر کے ارد گرد بہت سے مضبوط قلعے بنوائے جن میں سے خفیہ سرنگیں دریائے چناب کے کنارے کھلتی تھیں۔ تسیری مرتبہ سیلاب کی وجہ سے شہر کو نقصان پہنچا اس بار ایک بزرگ بابا نورشاہ مداری نے تعمیر کرایا چوتھی مرتبہ پھر سیلاب نے تباہ کر دیا ہندووں کے مشہور با والال ناتھ نے سیالوں کے تعاون سے 1627 میں تعمیر کرایا۔ اس وقت کا مندر آج بھی موجود ہے۔ اس کے بعد آخر می سیال حکمران احمد خان سے سکھوں نے ریاست کاقبضہ لیا۔ اس وقت سے آج تک اس شہر میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی  انگریزیوں نے حکومت سنبھالی ابتدائی سولہ برس تک وہ بھی اسی شہر میں کچہری اورعدالتیں لگاتے رہے بعد میں انگریزوں نے جھنگ شہر اور جھنگ صدر کے عین وسط میں جہاں آج کل جنرل بیس ٹینڈ ہے سرکاری دفاتر تعمیرکرایا اور ان میں منتقل ہوئے۔ لیکن اس سال چناب کے شدید سیلاب نے ان عمارتوں کو تباہ وبرباد کر دیا۔ اس وجہ سے انگریزوں نے اپنے دفاتر وضع کچہری جنگ صدر میں بنائی جو آج تک اس جگہ پر ہے۔جھنگ شہر کی تجارت و معیشت پر سخت برا اثر پڑا اور شہر کی آبادی سمٹ گئی اس کے مقا بلہ میں جھنگ صدر کی آبادی میں اضافہ ہوا ۔ اس شہر کے گرد بھی پختہ فصیل تھی اور چاردروازے تھے ان میں صدر دروازہ جھنگ روڈ پر تھا۔ جو سیلااب میں گر گیا باقی تینوں  ابھی تک صحیح سلامت موجود ہیں۔ اس شہر میں سیالوں کا وسیع قلعہ تھا، جس کا ایک برج ابھی تک شکستہ حالت میں موجود ہے۔ لال ناتھ کا مندر، آریہ سماج اور سناتن دھرم مندر زمین دوز سرنگیں، جامع مسجد اہل حدیث دیکھنے کی چیزیں ہیں۔ جھنگ شہراور جھنگ صدر دونوں پرمشتمل ایک ہی میونسپل کمیٹی ہے ۔اس شہر کی آبادی 1944 میں چالیس ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ تاہم اس شہر میں تجارت برائے نام ہے اور شہر کی عام حالت بھی بہتر نہیں اس وقت زنانہ مردانہ دو ہائی سکول او تیرہ پرائمری سکول جارہی ہیں ان کے علاوہ مسلمانوں کے ساتمذ ہببی مدارس بھی قائم ہیں حکومت نےیہاں اونی پارچہ بانی کا مرکز قائم کیا تھا جواب ایک وسیع ادارہ کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔

چنیوٹ:

زمانہ قبل از تاریخ سے بہ شہر دریائے چناب کے کنارے آباد ہے سکندر اعظم کے حملہ ہند اور چندر گپت موریہ کے عہد میں اس شہر کا ذ کر ملتا ہے چینی سیاح ہیون تسانگ کے مطابق کشمیر سے لے کر دمبل کے ساحل تک لوگوں کی آمد نفت کا ذریعہ جہلم و چناب تھے اور عموما نتجارت چینی تاجروں کے  ہاتھ میں تھی ان چینی تاجروں نے اس علاقہ کا نام چین اوٹ رکھا ہوا تھاجو بعد میں بگڑ کر چنیوٹ مشہور ہوا۔ سب سے قدیم روایت اس شہر کے نام کے بارے میں یہی ہے جس کا تنذر قدیم میں ملتا ہے۔ یہ شہر ہر دور میں اور ہرا عتبار سے زرخیر و شاداب رہا ۔ اس خطہ کی شادابی کو یونانیوں اور منگولوں نے بھی تسلیم کیا ہے بعد میں اسی خطہ سے چانکیہ جیسا مدیر ٹوڈ ریل جیسا نظام مال گذاری کا ماہر قاضی محمد یوسف قاضی القضاة نواب سعد اللہ خان ۔ نواب وزیر خان جیسے نابغہ روزگار شخصیتوں نے جنم لیا۔ تاریخ کے مطابق چنیوٹ کو ماچھی خان کے عہد میں نقصان پہنچا۔ شہر جل کر تباہ ہو گیا اور اس کی بہن چینی نے اسے دوبارہ تعمیر کرایا پھر جہا نگیر شاہ جہان کے عہد میں نواب وزیر خان نے اس شہر میں ایک مضبوط قلعہ ریختی متعد حمام بن چکیاں پختہ تفصیل اور کئی نبی خانے تجارتی منڈی اور تاجروں کے کڑے تعمیر کرائے ۔ جامع مسجد شاہی مقبرہ شاه بربان ایسی دلکش عمارتیں نواب سعد اللہ خان نے تعمیر کرائے میں اس وقت میونسپل حدود کی آبادی ۷۰ ہزار کے قریب ہے جبکہ  اس شہر کی آبادی10731 نفوس پر مشتمل تھی۔ اس شہر میں فن مینا کاری، فن تعمیر اور لکڑی کے کام کا فن بر صغیر میں مشہور ہے۔ اس وقت تین مردانہ ہائی سکول ایک کالج دو زنانہ مڈل سکول اور دس پرائمری سکول
جاری ہیں۔

رجوعہ:

چنیوٹ سے لائل پور جانیوالی سڑک کے مغرب میں یہ تاریخی قصبہ آباد ہے ۔ اسکی بنیاد مغل تاجدار اکبر کے عہد میں حضرت شاہ دولت بخاری نے رکھی تھی اکبر آپ کا عقیدتمند تھا اور یہ علاقہ بطور جا گیر آپ کو عطا ہو ا تھا۔ کافی مدت رجو عدا الگ ریاست کے طور پر قائم رہا۔ سکھوں کے عہد میں اسے محض جاگیر کی حیثیت دیدی گئی اور انگریزی دور سے اب تک اس کی یہی حیثیت قائم ہے۔ قصبہ کی آبادی سات ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں کی سادات دنیاوی اور سیاسی اعتبار سے شہرت رکھتی ہے کیونکہ انگریزی دور سے آج تک  رجوعہ اقتدار کے ساتھ منسلک رہے ہیں قصبہ میں ایک ہائی سکول تین مذہبی مدارس دو جامع مساجد موجود ہیں انکے علاوہ سادات کے محلات عمارتیں بھی قابل دید ہیں۔

ماچھیوال:

دریا، جہلم کے مغربی کنار ے علاقہ کچھی تحصیل جھنگ میں خوشاب مظفرگڑھ روڈ  پر اس نام کا قصبہ موجود ہے۔ مرور ایام سے اب اس کی حیثیت قصبہ کی رہ گئی ہے ورنہ تاریخ قدیم کے مطابق یہ عظیم الشان  شہر تھا اس کے دامن میں لوہ کوٹ کا وسیع در عریض قلعہ تھا جو اب برباد ہو کر ٹیلے کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔ تاریخ اروڑ پیشی کے مطابق لوہ کوٹ کو رام چندر کے بیٹےنےبسایا  تھا اور صدیوں تک یہاں آریاوں  کی حکومت رہی ایک زمانہ میں بدھ مت کا مرکز رہا اور ماچھیوال کو دریائی بندر گاہ کی حیثیت حاصل رہی کشمیر کا سامان تجارت اور سندھ کا مال اسی شہر میں اترتا تھا اور پھر خشکی کے راستے پہاڑی و صحرائی شہروں میں اونٹوں کے ذریعہ پہنچایا جاتا تھا خوشاب ملتان روڈ آباد شاہراہ تھی اس کے دونوں طرف چھوٹے چھوٹے قلعے چوکیاں  سرائیں موجود تھیں آج بھی سرائے کرشنا اور سرائے بھر پڑی کے نشانات موجود ہیں۔ آموں اور کھجوروں کے ویسیع باغات تھے ۔ علاقہ شاداب تھا اور شہر کی وسعت کا انداز اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قلعہ کے تین اطراف تین میل ایک کشادہ میدان تھا لیکن مختلف زمانوں میں یہ شہر اجر تا چلا گیا۔ قلعہ لوہ کوٹ تباہ ہونے کے بعد اس شہر کی رونق اور تجارت ختم ہوگئی جس زمانہ میں محمود غزنوی نے اس علاقہ پر حملہ کیا تھا یہ شہر راجہ جے پال کے قبضہ میں تھا۔ محمود غزنوی کی فتوحات کے دوران بھی شہر کو نقصان ہوابعد میں جب مغلوں کا ابتدائی دور شروع ہوا تو بھیرہ کے حاکم ماچھی خان نے اس شہر کو دوبارہ بنایا اور شہر اسی کے نام سے بعد میں ، ماچھیوال مشہور ہوا۔ اس شہر میں ایک بزرگ سخی سلطان کا مزار موجود ہے جس پر کم وبیش دو گزلمبےاور ایک گز چوڑے پتھروں کی دیوار چینی ہوئی ہے یہ پتھربربادشدہ قلعہ لوہ کوٹ کاورثہ ہیں۔

حویلی بہا در شاه:

یہ قصبہ جھنگ صدر سے 16 میل شورکوٹ روڈ کے مغرب میں واقع ہے اسکی بنیاد  قریشی خاندان کے بزرگ بہادر شاہ نے رکھی اور سیال حکمران عنائت اللہ خان کے عہد میں اسے جنگی نوعیت کی اہم جو کی کادرجہ حاصل تھا۔ یہیں پر ڈیرہ غازیخان کی سمت جانے والی افواج تیار کی جاتی تھیں۔ بہادر خان قریشی سیاں حکمران کا قابل اعتماد مشیر اور وزیر تھا۔ بعد میں یہ علاقہ بطور جاگیر اس کی الاد کو عطا ہوا اس قصبہ سے نامور لوگ پیدا ہو ئے جن میں مخدوم کبیر، شیخ یوسف شاہ مرحوم اختر علی قریشی، انور شاہ قریشی بھی شامل ہیں۔ اس وقت قصبہ کی آبادی آٹھ ہزار نفوس پر مشتمل ہے ،اس میں  چار جامع مسجد اور 18 دیگر مسجدیں ایک ہائی اسکول اور چھہ پرائمری اسکول موجود ہیں۔

احمد پور سیال:

یہ قصبہ دریائے چناب کے غربی کنارہ پر آباد ہے جھنگ سے ۶۰ میل جانب جنوب اس قصبہ کی مختصر تاریخ اس طرح مورخوں نے بیان کی ہے کہ جب جھنگ پر سیا لوں کو حکومت ملی تو مختلف سیال قبائل نے چھوٹی چھوٹی جا گیریں  حاصل کر لیں اور وہاں اپنے ہم کن  لوگوں کو لا بسایا اور مغل تا جودار کبر میں ایک سیال نے یہ علاقہ غازی خان حاکم جھنگ سے بطور جاگیر حاصل کیا اور اپنے بڑے لڑ کے احمد خان کے نام یہ شہر بسایا۔ بعد میں اورنگزیب یہاں ایک لڑکے قلعہ تعمیر ہوا۔ جو اب تباہ ہو چکا ہے مگر اس کے آثار باقی ہیں۔ اورنگزیب ہی نے احمد پور کا علاقہ جنگ سے علیحدہ کر کے ریاست ملتان میں شامل کیا جبکہ اورنگ زیب حاکم ملتان تھا۔ چنانچر تقریب دو سو سال یہ قصبہ ملتان کی ریاست میں شامل رہا۔ سکھوں سے قبل یہاں جھنگی سردار حکمران رہے جن کو رنجیت سنگھ نے شکست دی جب انگریزوں نے جھنگ اور ملتان پر قبضہ کہ لیا  یہ قصبہ پھر جھنگ کی حدود میں شامل کر لیا گیا۔ اس وقت سے آج تک اس ضلع میں شامل ہے۔

پیر عبد الرحمن:

یہ قصبہ گڑھ مہاراجہ اور احمد پور سیال کی سٹرک پر جانب غرب آباد ہے۔ تاریخی اختیار سے ضلع جھنگ میں اسلام کی تعلیم پہنچنے کے ابتدائی دور میں اس قصبہ کی بنیاد رکھی گئی ۔ ایک روایت کے مطابق پیر عبدالرحمن معاویہ بن یزید کے عہدبراستہ سندھ ملتان پہنچے اور پھر محمد بن قاسم کے حملوں کے درمان آپ نہیں رہے۔ آپ نے ہی اس جگہ کو موزوں سمجھو کہ جھانپڑی  ڈال لی بعد میں رفتہ رفتہ شہر آباد ہوتا چلا گیا۔ یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے بھی اہم تھا۔ کیونکہ ملتان اورڈیرہ غازی خان کے درمیان آمد ورفت اس راستہ سے ہوتی تھی۔ قدیم عہد میں یہاں تباہ شدہ فلعوں اور شہروں کے آثار اب تک موجود ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ علاقہ عہدقدیم میں  بھی آباد تھا تاہم موجودہ قصبہ  تیرہ سو سال قبل وجود میں آیا ۔ پر عبدالرحمن قریشی کی اولاد ہی یہاں موثر ہے اور  ان میں سے بہت سے اصحاب اعلی ملازمتوں پر فائز ہیں۔

شورکوٹ شہر:

قدیم تاریخ میں ضلع جھنگ کے کسی شہر کا نام اگر ملتا ہے تو وہ یہی ہے۔ البتہ اس کے نام مختلف مگر ملتے  جلتے کتابوں میں نظر آتے ہیں مثال کے طور پر مصریوں کے عہد میں ایشوکوٹ، آریاؤں کے عہد میں الیشور کوٹ ، شوریوں کے عہد میں شور کوٹ اور یونانیوں کے عہد میں شور کوٹ کا تذکرہ ملتا ہے۔ اصل میں ایک ہی شہر کو مختلف زبانوں میں مختلف تلفظ اور نہی میں لکھا اور بولا جاتا رہا سکندر یونانی کے عہد سے قبل یہ شہر اپنے مضبوط قلعے کی وجہ سے مشہور تھا اور یہاں جنگجو اقوام کا تسقط تھا۔ سکندراعظم کے حملہ کے وقت قلعہ شور کوٹ تباہ ہو گیا تولوگوں نے قلعہ کے شمال میں نیا شہر بسایا۔ سلطان شیر شاہ سوری کے عہد میں تاج الدین سوری نے بطور گورنر قلعہ کی کھدائی کرانے کی کوشش کی تاکہ اسے دوبارہ تعمیر کیاجاسکے مگر ناکام رہا اور آج تک برباد شدہ قلعہ کے کھنڈرات اسی طرح پڑے ہیں کسی بھی حکومت کو کھدائی کرانے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ محمد بن قاسم کے حملہ کے وقت مسلمان فوجوں نے اس علاقہ پر قبضہ کیا تھا اور مسلمانوں کے پہلے گورنر جلال الدین محمود غازی مقرر ہوئے جن کا مزار شہر کے مشرق میں موجود ہے مگر لوگوں نے اسے غازی پیر کے نام سے اب موسوم کر رکھا ہے۔ سلطان العارفین حضرت سلطان محمد باہو کا مسکن بھی یہی شہر ہے اور سلطان صاحب نے اپنی تصانیف میں متعدد مقام پر اس کا ذکر کیا ہے۔ قیام پاکستان تک اسی شہر کی آبادی چھ ہزار نفوس پر مشتمل تھی شہر میں دو بڑے مندر، آٹھ دھرم شالا میں ، ایک گئو شالا، دو گوردوارے ۲۰ مساجد ایک عید گاہ اور پانچ مسلمانوں کے مذہبی مدارس موجود تھے اس قصبہ کی آبادی ۹۵۴۶ تک پہنچ چکی ہے۔
اس شہر میں قدیم عہد کے بر باد شدہ مقعد کے کھنڈرات سیاحوں در حقون کے لئے بڑی کشش کے حامل ہیں اور دوسری کشش حضرت سلطان محمد ہا ہوں کے عقید تندوں کے لئے مخصوص ہے کہ سلطان صاحب کے والدین حضرت ابوزید محمد اور حضرت بی بی راستی صاحبہ کے مزارات اسی شہر میں واقع ہیں اور عقید تند جن کا تعلق سندھ بلوچستان سرحد سنجارا د غزنی تک پھیلا ہوا ہے مزار پر حاضری دیتے ہیں ۔شور کوٹ شہر میں مغل شہنشاہ تیمور کے عہد کی ایک جامع مسجد بھی موجود ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تیمور کے حکم پر تعمیر کرائی گئی تھی ۔

لالیان:

یہ قصبہ چنیوٹ سرگودھار یلو ے لائن پر دریائے چناب کے کنارے آباد ہے۔ اس میں لالی اور نسوا نے قبائل کی آبادی زیادہ ہے۔ اس کی بنیاد حافظ محمد صدیقی لالی نے کھی اس وقت پنجاب پراحمد شاہ ابدالی کی حکومت تھی۔ حافظ صاحب اپنے دور کے ولی کامل اور علم و عمل کے بہتر تھے ان کی علمیت کی شہرت عام ہوئی تو ان کی جھونپڑی جو جنگل بیابان میںتھی  مرجع خلائق بن گئی ان کے عقیدتمندوں نے حافظ صاحب کی محبت میں آس پاس اپنی جھونپڑیاں ڈالیں اور رفتہ رفتہ قصبہ کی آبادی بڑھتی گئی 1928میں یہاں درجہ سوم میونسپلٹی بنائی گئی اس وقت قصبہ کی آباد ی 3094 تھی اور میونسپلٹی کی سالانہ آمدنی ۱۱۷ا تھی مگر 1974 میں آبادی 10557 نفوس تک پہنچ گئی۔ قیام پاکستان سے قبل یہاں تین مندر ایک گٹو نالہ، ایک گوردوارہ11 مساجد تین جامع مساجد ایک عید گاہ تین غیر مسلموں کے مذہبی مدارس اور پانچ مسلمانوں کے مذہبی مدارس موجود تھے تجارت پر بندوں کا قبضہ تھا۔ اس وقت ایک ہائی سکول تین پرایمری سکول اور پانچ مذہبی مدارس جاری ہیں۔

گڑھ مہاراجہ:

تحصیل شورکوٹ میں دریا کے اُس پار جھنگ سے ۵۲ میل جانب جنوب میں آباد تاریخی حیثیت کا حامل قصبہ ہے اصل شہر سلطان شہاب الدین غوری کے عہد میں موجودہ قصبہ سے جانب جنوب کچھ فاصلہ پر بسایا تھا۔ کیونکہ شہاب الدین کو ملتان میں فرقہ قرامطہ کی سرکوبی کیلئے تازہ دم فوج کی ضرورت تھی یہ جگہ موندل سمجھ کر شہر بسایا گیا ۔ اس کا نام شان نگر تھا مگر یہ شہر بعد میں مختلف جنگوں کی زد میں آکر تباہ و برباد ہو گیا۔ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں یہاں چھوٹا سا قلعہ اور ایک فوجی چھاونی تعیر ہوئی تھی جو کہ یہ تمام علاقہ صوبہ ملتان کا حصہ تھا اور حاکم ملتان اپنی فوجی ضرورت کے مطابق یہاں انتظامی تبدیلیاں لاتا رہا ۔ سکھوں کے عہد میں یہاں شدید سیلاب آیا جس سے عمارتیں منہدم ہو گئیں چنانچہ دیوان مواراج کے عہد نظامت میں نو از شش علی خان کے دادانے بہت 19ء میں موجودہ قصبہ کی بنیاد ڈالی اور یہ علاقہ بھر آباد ہو تا چلا گی سکھوں کے بعد انگریزی دور میں بھی قصبہ آبادی کے لحاظ سے ترقی کرتارہا اس شہر میں موجودہ قصبہ کے شمال مشرق میں نوازش علی خان نے اپنے نام پر نیا قصبہ نوازشی نگر کے نام پر ایسا یا۔ گڑھ مہاراجہ کو اب سب تحصیل کا درجہ حاصل ہے یہاں ایک ہائی سکول اور ٹاؤن کمیٹی قائم ہے۔ زرعی اعتبار سے بھی علاقہ شاداب ہے لیہ نشان، مظفر گڑھ کو یہیں سے سڑکیں جاتی ہیں اہم شاہراہ پر واقع ہے سیاسی اعتبار سے سیال خاندان کے افراد مقتدر ہیں ۔

ریوه:

یہ قصبہ چنیوٹ سرگودھاریلو ے لائن روڈ پر آباد ہے۔ قیام پاکستان کے بعد قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود نے قادیان سے ترکِ سکونت کے بعد اپنی جماعت کے افراد کو بسانے کے لئے دریائے چناب کے کنارے پہاڑیوں کے دامن میں اس علاقہ کو منتخب کیا اور جب پنجاب میں نواب ممدٹ کی مسلم لیگی حکومت قائم تھی، انجمن احمد یہ پاکستان کی طرف سے دس ہزار ایکر رقبہ سر کاری حاصل کرنے کے لئے درخواست دی گئی جسے اس وقت کے۔ وزیر مال سرور شوکت حیات نے مسترد کر دیا بعد میں جب مبارک علی مرحوم انوار مال بنے تو انہوں نے سر ظفر اللہ وزیر خارجہ کے کہنے پر رقبہ دینے کی اجازت دے دی اور جون میں ڈپٹی کمشنر جھنگ نے وسع علاقہ قادیانیوں  کی تحویل میں دے دیا۔ جہاں اس جماعت نے اپنا مرکز قائم کیا۔ اس وقت ربوہ میں 98 فیصہ قادیانی آباد ہیں۔ ان کے شعبہ دار دفاتر – قصر خلافت ۔ مسجد اقصی اور دیگر مساجد موجود ہیں۔ انہوں نے بہشتی مقبرہ کے نام پر وسیع قبرستان بنایاہوا ہے جس میں مرے دفن کرنے کی اجرت لی جاتی ہے۔

1974 میں قادیانی اور لاہوری  جماعتوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا اور ربہ کو کھلا شہر بنانے کا فیصلا ہوا جس کے تحت ۲۳۴ کنال پر مشتمل مسلمانوں کے لئے کالونی زیر تعمیر ہے۔ ربوہ میں ہر قسم کی رہائش اور دیگر سہولتیں  موجودہیں۔ ایک مردانہ ایک زنانہ کالج دو ہائی سکول متعدد پرائمری سکول اور کچھ قادیانیوں کےمزہبی مدارس بھی جارہی ہیں۔ ربوہ بین الاقوامی شہرت کا حامل شہر ہے۔ کیونکہ دنیا کے جن ممالک میں قادیانی مشن قائم ہیں۔ ان کا رابطہ اسی شہر سے ہے1950میں  ٹاؤن کمیٹی بنائی گئی تھی اس وقت قصبہ کی آبادی پانچ ہزار تھی 1972میں  آبادی ۱۵۸۹۷ تک پہنچ چکی ہے ۔ آس پاس کے علاقے اب ربوہ ٹاؤن کمیٹی کی حدود میں شامل کرنے سے مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اس قصبہ سے ایک روز نامہ پانچے ماہنامے شائع ہوتے ہیں۔ مرزا ناصر احمد مولانا ابوالعطاء نسیم سیفی مشہور شخصیتیں  ہیں۔ اس علاقے کی قدیم تاریخ کے بارے میں قادیانی جماعت کے ایک فرد نے جو پمفلٹ شائع کیا اس کے مطابق قبل مسیح عہد میں یہاں سنسکرت کی بڑی درسگاہ تھی جو بعد میں تباہ و بربہار ہو گئی۔

واصو:

جھنگ بھکر روڈ 18 ہزاری سے دو میل دور واصو  نام کا قصبہ موجود ہے، تاریخی اعتبار سے یہ علاقہ قدیم عہد میں علمی اعتبار سے بہت مشہور تھا کیونکہ یہاں ایک زمانہ قبل سنسکرت کی بہت بڑی درسگاہ تھی اور آریاؤں نے اس درسگاہ کے ارد گرد مضبوط قلعےاور فوجی چوکیاں بنائی ہوئی تھیں جن کے آثار قدیمہ کے نشانات اور علامتیں اب بھی نظر آتی ہیں بعد میں یہ تمام علاقہ اجڑ گیا۔ موجودہ قصبہ کی بنیاد چیلا خاندان کے بزرگ واصل حق نے تقریبا1010 میں رکھی۔ یہاں دینی مدرسہ قائم کیا جو بعد میں ان کی اولاد چلاتی رہی قصبہ کی آبادی پانچ ہزار کے قریب ہے کسی زمانہ میں اہم تجارتی شہر تھا اب اس کے حیصیت باقی نہیں رہی یہاں ایک ہائی سکول او تین  پرایمری تین مزہبی  مزارس موجود ہیں۔ چیلا خاندان کے افراد سیاسی و دنیاوی طور پر با اثر ہیں۔

اٹھارہ ہزاری:

جھنگ بھکر روڈ پر یہ قصبہ تاریخی حیثیت کا حامل ہے سلطان محمود غزنوی نے اس علاقہ کو تاراج کیا۔ اس مہم میں اس کا ایک سالار مخدوم تاج الدین اسی جگہ فوج کی کمان کرتا ہوا بیمار ہو کر جان بحق ہو گیا غزنوی ر نے ان کو اسی جگہ دفن کیا۔ بعد میں سلطان آیار  نے ان  کا پختہ مزار تعمیر کرایا۔ اس وقت قصبہ کی آبادی تین ہزار کے قریب ہے ۔ اور خوشاب مظفر گڑھ شاہراہ پر واقع ہے۔ یہ شاہراہ زمانہ قدیم سے موجود ہے۔

محمدی شریف:

جھنگ چنیوٹ روڈ پر بھوانہ سے پانچ میل دور مغرب میں محمدی شریف نامی قصبہ موجود ہے اس قصبہ کا پہلا نام کڑک محمدی تھا اور اس کی بنیاد میاں محمدی جو کھوکھر قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے عہد کے ولی کامل تھے 1150میں رکھی ان سے قبل یہ علاقہ جنگل بیابان تھا۔ میاں محمدی مرشد کے حکم پر اس جگہ آئے اور مستقل سکونت اختیار کرلی۔ اس دور میں اس قصبہ کی اہمیت مولانا محمد زاکر ایم این اے کی قائم کردہ اسلامی یو نیورسٹی کی وجہ سے ہے۔ موصوف کی ذاتیدلچسپی اور محنت سے یہاں بہت بڑا دینی دار العلوم، یتیم خانہ عظیم الشان مسجد ، انٹر کالج اور ہائی سکول جاری ہیں۔ یہاں کے عربی فاضل کو مدینہ یو نیور سٹی نے بھی فاضل تسلیم کر لیا ہے۔ اس قصبہ کی آبادی تین ہزار کے قریب ہے۔

 

نوٹ:یہ مضمون بلال زبیری کی کتاب ( تاریخ جھنگ ) سے لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com