چندر بھان کے جھنگ سے پہلے یہ سلطان کا جھنگ ہے۔ اس مرد باہو کی پیدائش، فروری 1628 میں شور کوٹ کے گرد و نواح میں ہوئی۔ کہتے ہیں ولی بنتے نہیں بلکہ پیدا ہوتے ہیں سو آپ کی پرورش کا اہتمام بھی پہلے سے ہو چکا تھا۔
گھر میں درویشی کے سارے رموز آپ نے اپنی والدہ راستی بی بی سے سیکھے، جو اپنے عہد کی ایک پرہیز گار خاتون تھیں۔ حضرت سلطان باہو نے باقاعدہ تعلیم تو کہیں سے حاصل نہیں کی مگر مرشد کی تلاش میں کچھ خواب، انگلی پکڑ کر آپ کو راستہ دکھاتے رہے۔
سلوک اور معرفت کی دنیا میں آج بھی جب عقیدت مند سرشاری کی منزلوں کو کھوجنے نکلتے ہیں تو انہیں راہنمائی کے لئے ایک بیعت کا سہارا لینا پڑتا ہے جس کے بعد دل سمندروں سے گہرے نظر آتے ہیں۔ سلطان العارفین ہونے کے باوصف، آج بھی نیاز مند جب گڑھ مہاراجہ میں واقع آپ کے مزار پہ جائیں تو لازم ہے کہ پہلے آپ کے والدین کی قبر پہ حاضری دیں۔
جھنگ کی حقیقت ایک تکون میں مضمر ہے۔ تصوف، محبت اور شاعری کی اس تروینی کے گرداگرد یہ شہر آباد ہے۔ حضرت سلطان باہو کے مزار کے علاوہ بھی یہاں مراقد کا ہجوم ہے۔
ان مزاروں میں جہاں مسلمان عقیدت مندوں کے لئے حضرت شاہ شیخاں، حضرت پیر جبو شہید، شاہ کبیر اور روڈو سلطان کے دربار ہیں، وہیں سکھوں کے لئے جگت گرو نانک دیو کا دربار ہے اور ہندوؤں کے لئے وارے سلیمان میں ایک مندر بھی ہے۔
جھنگ کی ان یادگاروں میں معرفت کے علاوہ محبت کا بھی ایک مزار ہے مگر یہاں کوئی قلندر نہیں بلکہ ایک عورت مدفون ہے۔ دنیا کے لئے تو یہ خاتون ہیر وارث شاہ ہے مگر سیالوں سے پوچھا جائے تو وہ اس عارفہ کے باکرہ ہونے کی قسمیں کھاتے ہیں۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ سیال خاندان سے تعلق رکھنے والی مائی ہیر اپنے وقت کی ایک پاک دامن خاتون تھیں، جو جھنگ مگھیانہ کے نواح میں اپنی پاک بازی کے باعث شہرت رکھتی تھیں۔ جب چناب کے پانیوں کے ساتھ ساتھ اقتدار کی کشاکش تمام اخلاقی حدود پار کر گئی تو نولوں نے سیالوں کی حرمت کو داغ لگانے کا منصوبہ بنایا اور ہیر کی بابت ایک ایسا قصہ ترتیب دیا گیا جس سے اس کے کردار پہ انگلیاں اٹھیں اور اس کا عشق حقیقی ہونے کی بجائے مجازی نظر آئے۔
ہیر وارث شاہ کی تصنیف اصلاً تو 1774 میں ہوئی مگر اس سے پہلے ایک خط ہے جو کسی وقائع نگار نے بہلول لودھی کو لکھا ہے۔ خط میں ہیر کی حقیقت اور نولوں کی شرارت کا مفصل حال تحریر ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ کس طرح مقامی بھاٹوں اور منظوم روایات کے ذریعے اس قصے کا پرچار کیا جا رہا ہے۔
اب دنیا کے رنگ دیکھئے کہ نولوں نے جس عفت کا تماشا بنانا چاہا، خدا نے اسے محبت کا تقدس بخش دیا شائد اس لئے کہ عشق حقیقی ہو یا مجازی، اس کا راستہ کہیں نہ کہیں خدا سے ضرور ملتا ہے۔
ہیر کو بیان کرنے والے وارث شاہ کا ذکر تو شیخوپورہ کے ساتھ ہی ہو چکا البتہ کہانی کی کہانی باقی ہے۔ رانجھا قوم کے دھیدو اور سیال قوم کی ہیر کا قصہ کہنے کو تو دنیا کی سب پریم کہانیوں کی طرح ہے مگر اس میں کچھ باتیں بہت خوبصورت ہیں۔
رانجھے اور مسجد کے ملا کے درمیان بحث درحقیقت مذہب اور انسان کے مابین مکالمہ ہے۔ دریا پار کرنے کے لئے لڈن ملاح کی باتیں دراصل دنیا اور دل کی کشمکش ہے۔ ہیر کی خوبصورتی کا بیان داستان گوئی کا فن ہے اور اس کے عشق میں بارہ سال تک بھینسیں چرانا نفی ذات کا مرحلہ۔
رانجھے کا جوگ اور بالناتھ کی باتیں، تدبیر کے اشارے ہیں اور کھیڑوں کے گاؤں میں سہتی سے نوک جھونک، تقدیر کی رمزیں۔ جس وقت عنائت حسین بھٹی ہیر گاتے گاتے اس مقام پہ پہنچتے ہیں جب ہیر پکار اٹھتی ہے کہ؛
رب جھوٹھ نہ کرے جے ہووے رانجھا،
تاں میں چوڑ ہووی، مینوں پٹیا سو
تو سننے والے کو ہیر، اپنے دروازے کی چوکھٹ سے سر پٹکتی صاف دکھائی دیتی ہے۔ بیان کی خوبصورتی کو مہمیز کرنے والی ادائیگی اتنی مکمل تصویر بناتی ہے کہ ماتھے کی شکنوں سے آنسوؤں کے بہاؤ تک، اور سر کی چوٹی سے پاؤں کی ایڑی تک ہیر کا پچھتاوے میں ملبوس سراپا صاف دکھائی دیتا ہے۔ جی چاہے تو ہاتھ بڑھا کر چھو لیں۔
آخر میں دونوں کی موت دنیا کی بے ثباتی کا ایک اشارہ ہے۔ ہیر وارث شاہ کہانی نہیں بلکہ ایک جہان حیرت ہے۔
جھنگ کی صحرا آمیز بود و باش اس قدر مردم خیز ہے کہ یہاں ایک کے بعد ایک صاحب سخن پیدا ہو تا ہے۔ بات بولنے والوں کا ملتجیانہ لہجہ جب درد میں ڈوب کر شعر اور بیعت میں ڈھلتا ہے تو دل میں ریت کی کرکل اتر آتی ہے۔ یہ کرکل اسی تروینی کا تیسرا احساس ہے جو شاعروں کی صورت جھنگ کو آباد کرتی ہے۔
تقسیم کے بعد ہندوستان سے آنے والے ریاض احمد نے جب جھنگ کو گھر بنایا تو اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ غم جاناں سے جان لیوا بھی کوئی غم ہو سکتا ہے مگر غم روزگار، اس کے اندیشوں سے کہیں زورآور نکلا۔
معاش کی فکر نے ریاض احمد کو رام ریاض بننے کی اجازت تو دے دی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے تخیل کی پرواز قینچ ڈالی۔ غزل کی شاعری میں احساس کی نئی جہتیں دریافت کرنے والا یہ شاعر بالآخر حالات کی نذر ہو گیا۔ بھلا اکادمی ادبیات کے ماہانہ پانچ سو میں کوئی کب تک زندگی گزارتا اور وہ بھی رام ریاض جیسا آدرشی۔
جانے کیا کچھ دل پہ گزری آج جو دیکھا یاروں کو
کیسی مٹی چاٹ گئی ان پتھر کی دیواروں کو
جھنگ کا دوسرا صاحب سخن مجید امجد ہے۔ قلم کے اس مزدور نے اپنے جیتے جی صرف ایک کتاب لکھی اور باقی کا کلام کبھی منظر عام پہ نہیں لا سکا۔ شب رفتہ کی کہانی کہنے والا جب دنیا کو خیر باد کہہ چکا تو سخن نواز وں کو اس کے فن کا علم ہوا۔
گلاب کے پھولوں کو جیتا جاگتا انسان بنا کر پیش کرنے والے مجید امجد کی دوسری کتاب ان کے انتقال کے بعد شائع ہوئی؛
مہکتے جاتے ہیں، چپ چاپ جلتے جاتے ہیں
مثال چہرہ پیغمبراں گلاب کے پھول
آج کے پر آشوب عہد میں محبت کرنے والوں کے لئے اگر شام کے بعد کوئی خوش کن احساس ہے تو وہ یہ غزلیں ہیں جن کی زمینیں شام کے بعد تراشی گئیں ہیں۔
تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تو کسی دن میرے آنگن میں اتر شام کے بعد
ایک عمر تک جوان لوگوں کو موت کے سحر میں مبتلا رکھنے والے فرحت عباس شاہ کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔
مجھے لگا کہ سارا شہر محبت کی آب و ہوا میں بسا ہے۔ ہو سکتا ہے اس کی وجہ شہر میں موجود مولوی امداد علی کا وہ مدرسہ ہو جہاں صاحباں مرزا کے ساتھ پڑھا کرتی تھی مگر اس کے داناباد چلے جانے کے بعد کبھی نہیں آئی۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی وجہ وہ کھڈیاں ہوں جو آج سے بہت سال پہلے ہر گھر کا حصہ تھیں اور شہر کے تمام لوگوں کو بنتر بننے اور جوڑ باندھنے کا ہنر آتا تھا۔ ریلوے اسٹیشن کے راستے میں ایک فقیر کی آواز کان پڑی تو سارا عقدہ حل ہو گیا؛
اسی جھنگ دے واسی لوگ سجن
ساڈا دل دریا ساڈی اکھ صحرا