ضلع جھنگ کی موجودہ حدود اور حاضر نقشہ مختلف تبدیلیوں کے بعد وجود میں آئے ہیں ۔ ایک زمانہ تاریخ میں ایسا گزرا جب شورکوٹ کا شہر سندھ سے کشہمیر تک کی راجدھانی تھا۔ اسی طرح تاریخ نے وہ دور بھی دیکھا جب چنیوٹ بجائے خود ایک متمدن اور ترقی یافتہ صوبہ کا درجہ رکھتا تھا۔ لہذا یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جھنگ کی سرزمین متعدد تہزیبوں کا مرکز و این رہی کسی زمانہ میں یہ ایک وسیع ریاست تھی۔ اس کی زرخیزی و شادابی کا شہرہ تھا۔ جب ہم اس خطہ کے محل وقوع اور جغرافیائی اہمیت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ پانچ دریاؤں کے دیس میں تجھنگ قلب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے ڈانڈے ایک طرف درہ بولان کے راستہ ایران سے ملتے ہیں ۔ دوسری طرف خیبر کے راستہ افغانستان سے اور جھنگ واحد آبی گزرگاہ تھی جو سندھ اور کشمیر کے درمیانی رابطہ کا کام دیتی تھی۔ سندھ اور بلوچستان کی طرف سے آنے والے حملہ آوروں کو عموما تریمو گھاٹ پر ہی پڑاؤ ڈالنا پڑتا تھا کیونکہ یہاں سے ملتان جانے کے نے دریائے چناب میں کشتیاں ڈالتے تھے اور کشمیر جانے کے لئے دریائے جہلم میں سفر کرتے تھے۔ گو یا شمالاً جنوباً یہی آبی گزرگاہ فو جوں کا مرکز بنتی تھی زمان قبل از تاریخ کے بارے میں جو کچھ مورخین نے لکھا ہے۔ اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ ساری کوٹ اور لوہ کوٹ قدیم ترین شہر تھے۔ اور ان کی شہرت ان کے مظبوط قلعوں اور چناب جہلم و راوی کے رابطہ کی وجہ سے تھی شور کوٹ چناب کے کنارے آباد ہے اور راوی یہاں سے صرف پندرہ میل دور لہذہ جس بھی قوم نے ہند داستان پر شب خون مارا اس کا پڑاو یہی شہر بنا۔
اسی طرح تریمو گھاٹ اہم گذرگاه رہی۔ ہر حملہ آور کا لشکر یہاں قیام کرتا تھا یہی وجہ ہے کہ ترمیو سے سانگلہ کی پہاڑیوں تک وسیع میدان اب سے تین سو برس قبل موجود تھے ۔ وہ علاقہ جسے ساندل
بار کہا جاتا تھا وسیع فوجی قیام گاہ تھی جس کا سلسلہ کرانہ بار تک پھیلا ہوا تھا ۔ یوں تو ہندوستان کی تاریخ کے مربوط دور کا آغاز آریاؤں کے عہد سے ہوتا ہے جس کا سلسلہ تین ہزار سال قبل مسیح سے سمجھا جاتا ہے ۔ آریہ ترکستان اور ایران وغیرہ سے واردِ سندھے ہوئے تھے اور یہاں کے قدیم باشندوں دراوڑوں کو جنوبی ہندوستان کی طرف بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اور خود سندھ سے کشیتر تک طویل علاقے پر قابض ہو گئے تھے مگر ہم جب ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کے اختیار سے ہندوستان کی تاریخ کا سلسلہ تیس لاکھ سال سے بھی زیادہ بنتا ہے جیسا کہ تاریخ ملتان کے موقف لالہ بال کشن تبرہ نے لکھا ہے کہ بھگت پر بلاو آریہ ہندو تھا۔ اور اس کا زمانہ تیس لاکھ سال قبل کا ہے۔ اس کی حکومت سندھ ملتان پنجاب کشمیر اور دلی تک وسیع تھی ۔ اس کا پائیے تخت ملتان تھا۔ اس زمانہ میں ملتان کا نام کشیپ پوری تھا ۔ اور یہی مورخ لکھتا ہے کہ ملتان کے راشٹر کوٹ برہمن گڑھ اورچندا کوٹ نامی شہر آباد تھے راشٹر کوٹ سے مراد شور کوٹ برہمن گڑھ سے جھنگ اور چندا کوٹ سے چنیوٹ ہیں ) پھر یہی مورخ لکھتا ہے کہ اپ سے دس لاکھ سال قبل راجہ دشرت کی حکومت تھی جس کی متعدد بیویاں تھیں ۔ رام چندر جی اور لچھمن اس کے لڑکے تھے راجہ کی ایک بیوی کا نام کیکئی تھا جو وادی چناب و راوی کے حکمران راجہ اسواپتی کی بیٹی تھی۔
یس کی حکومت کا مرکز سدھو تھا اس رانی کیکئ نے رام چندر کو ولیعہدی سے معزول کر کے بارہ برس کے لیے جلا وطن کر دیا تھا جلاوطنی کی میعاد ختم ہونے کہ بعد رام چندر اپنی بیوی سیتا اور بھائ لچھن کہ ہمرہ سرائے سدھو آیا اور اپنی سوتیلی ماں رانی کیکئ کے درشن کیے اس رام چندر کی عظمت کو دیکھتے ہوے سینے سے لگا لیا اور دشرت کی جگہ تخت کا وارث بنا دیا دریا راوی کے کنارے انہی کی یاد میں لچھن کنڈ سیتا کنڈ رام چونترہ کے مندر تعمیر ہوے جہاں ہر سال بسکھی کا بھاری میلہ لگتا تھا ان مندروں کے آثار اب بھی موجود ہیں بال میک کی رامائن کتے مطابق یہ تینوں دریائے چناب میں کشتیوں ذریعے کشمیر گے رامائن کا مصنف لکھتا ہے کہ راوی سے شمال میں برہمنوں کی بستی ولاقہ جہانگ میں موجودگی ممکن ہے ہندو مورخ کی یہ بات درست ہو مگر لاکھوں برس پہلے کا واقعہ بتاتے ہیں جبکہ یہ آریہ اس علاقے میں آئے ہی نا تھے بد قسمتی سے ہندوں کہ ہاں کوی مستند تاریخ نہی ان کے چار وید الہامی شمار ہوتے ہیں رامائن میں الف لیلہ قسم کے مافوق الفطرت واقعات کی بھرمار ہے ان کے بعد کرشن مہراج کی گیتا کا نمبر ہے جو خالص مذہبی کتاب ہے البتہ مہا بھارت میں کچھ واقعات ملتے ہیں مگر کرشن کا زمانہ اور حضرت ابراہیم کا زمانہ ایک ہی ہے قریباً پانچ ہزار سال قبل کورڈوں اور پانڈوں کی لڑائ میں ایٹمی تیر استعمال ہوئے اسی عہد سے تعلق رکھتی ہے میرے خیال کے مطابق یہی زمانہ آریاوں کی آمد ہند کا ہے اس سے قبل کی تاریخ کے بارے میں کوئی بات وثوق سے نہی کہی جا سکتی کرشن مہراج کا ایک لڑکا سالب تھا جو سندھ اور ملتان کا حکمران رہا اس کے زمانہ میں ملتان کا نام تزون تھا اس کے بعد سالب پوری نام مشہور ہوا تاریخ ملتان کا مولف بال کشن لکھتا ہے کہ اس سالب کی اولاد یادو کہلاتی ہے جسے عرب مورخوں نے جادو لکھااور اس یادو قوم کی حکومت ایران روس اور چین تک پھیلی ہوئی تھی۔ بعض ہندوستانی مورخین نے جادو غبی بھی لکھا ہے (خیال ہے کہ سورچ غبی جیند درغبی یا جادو غبی کی اختراعات بعد کی ہیں) اسی مورخ کا بیان ہے کہ راجہ صاحب کی نسل سے ایک شخصی راجہ گنج گذرا ہے۔ جو ترکستان وغیرہ کا حاکم تھا اس کی سلطنت کا نام گھبتی تھاجو بعد میں غزنی کے نام سے مشہور ہوا۔ اسی راجہ گنج کا ایک لڑکا بلتد نامی تھا جس نے بلتدشہر بسایا۔ اور اس شہر کو بعد میں اس کے لڑکے بھٹی نے رونق بخشی۔
بھٹی راجیوت :
تاریخ ملتان کے مولف بال کشن کا خیال ہے کہ بھٹی نام کا ایک راجہ جیسلمیر کا حکمران تھا۔ اسی نے بلتدرشہر کو رونق عطا کی اور اسی کی نسل راجپوت بھٹی مشہور ہے۔ جو جھنگ ملتان اور بھیرہ پر چار سوربرس تک حکمران رہی ۔ اور اس کی اولاد ان علاقوں میں خوب پھیلی۔ یہی مورخ لکھتا ہے کہ راجہ بھٹی کا ایک حقیقی بھائی چگتو تھا جو چینی اور روسی ترکستان ایران وغیرہ کا حکمران تھا۔ اسی کی اولاد بعد میں مسلمان ہو کر چغتائی کہلاتی اور ہندوستان پر بعد میں حکمران رہی۔ اسی مورخ نے لکھا کہ قلعہ کروڑ یا کوٹ کروڑ چگتو کی اولاد میں سے ایک راجہ کیہر اس کا بانی تھا ۔ جو بعد میں کہیر کوٹ سے بدل کر کروڈ کوٹ مشہور ہوا ۔ اس بارے میں چونکہ اور کوئی تاریخی روایات نہیں ہیں۔ لہذہ اسی کو صیح سمجھنے پر موجودہ دور کے موزع مجبور ہیں ۔ اس روایت کے کچھ آثار بھی تائید کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر خوشاب کروڑ شور کوٹ ملتان پر بھٹی خاندان کی حکومت طویل عرصہ رہی ۔ اور ان علاقوں میں آج بھی بھٹی راجپوت کثرت سے آبادہیں۔ بلکہ اسی مورع نے لکھا ہے کہ لنگاہ خاندان جس نے ملتان اور شورکوٹ پر حکومت کی انہی بھٹی راجپوتوں کی سو لکھی نسل سے تھے بعد میں سلمان ہو گئے، اس سو لکھی نسل سے ایک راجہ راول چاچک گزرا ہے جو ساندل بار کرانہ بار کو ستان نمک اور راولپنڈی تک کے علاقہ کا حکمران تھا۔
لوہ کوٹ:
اس کے مقابلہ میں تاریخ اروڑ غبی کے مورخین نے ہندوؤں کی کھتری قوم پر تبصرہ کرتے ہوتے بتایا کہ اصل میں اروڑہ چندر کھتریوں ہی کا حصہ ہیں۔ بعض خاندانوں نے اختلاف کی وجہ سے سرکردہ کھتریوں کے اقتدار سے علیحدہ ہو کر الگ تنظیم قائم کر لی تھی ۔ بعد میں اس تنظیم نے ایک مستقل قوم کی بنیاد ڈالی تاریخ اروڑہ غبی کےمولفین لکھتے ہیں کہ رام چندر جی کے لڑکے کا اصلی نام لوہ تھا اور اسی نے لاہور شہر آباد کیا تھا۔ اب سے ایک ہزار برس قبل تک اس کا نام مور خان نے لہاور لکھا ہے اور بعد کے مورخین نے لہاور کو لاہور لکھنا شروع کیا ۔ راجہ لوہ نے دریا جہلم کے کنارےتھل میں اپنے نام پہ لوہ کوٹ نامی شہر بسایا تھا اور ایک مضبوط قلعہ بھی تعمیر کرایا تھا ۔ جوبعد میں تباہو برباد ہو گیا۔ اور اب اس شہر کے کھنڈر جیلم کے کنارے موجود ہیں۔ اگر مولفین کی اس تحقیق کو درست تسلیم کر لیا جائے تو یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ کہ راجہ لوہ کا بنایا ہوا شہر و قلعہ کھنڈروں کی شکل میں آج بھی موجود ہے۔ اور اسے مقامی زبان میں لوہابھیڑ کہتے ہیں ۔ یہی تاریخ بتاتی ہے کہ راجہ لوہ کی اولاد عرف عام میں لوہاتے مشہور تھی ۔ اور ان کا مرکز لوہ کوٹ تھا۔ جہاں سے وہ سندھ اور کاٹھیا واڑ تک حکومت کرتے تھے اور سندھ کے لو پاتے اس کی نسل سے ہیں تاریخ راجھتسان کا مولف کرتل ٹاڈ بھی اسی خیال کی تائید کرتا ہے کہ رام چندر جی کی اولاد میں راجہ لوہ راجہ کئی دیاتی قصور ) کی نسبت زیادہ مقبول شجاع اور قابل فرمانروا تھا۔ لاہور اس کا پایہ تخت تھا ۔ بلکہ لوہ کوٹ اس کی راجدھانی تھی جو جہلم کے کنارے خوشاب اور شور کوٹ کے درمیان واقع تھی ۔ ان واقعات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جھنگ کا علاقہ ہزاروں لاکھوں برس قبل نہایت متمدن اور تہذیب یافتہ تھا ۔ اور مختلف قوموں نے یہاں پر حکومت کی۔ مگر ان کی زمانہ دار تخصیص بہت مشکل ہے۔ کیونکہ ہندو مورخین رام چندرکازمانہ سے دس لاکھ سال قبل کا بتاتے ہیں جب کہ دیگر شواہد اور آثار اس قدامت کی تائید نہیں کرتے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ راجہ اجیت سے قبل ہندوں میں جوسن جاری تھا اس کے سال اور مہینے موجودہ سال اور مہینوں سے بہت چھوٹے تھے۔ اور اسی وجہ سے ان کی بیان کردہ مدت تنازع فیہ بنی ہوئی ہے۔ اس کے بعد اسی نسل کے دو بڑے گروہوں کا ذکر ہے۔ جاٹ اور مید۔
مید اور جاٹ:
راجپوتوں کی دو شاخیں ہیں پہلی شارخ کھتری کہلاتی ہے اور دوسری شاخ ترکمان نسل کے چینی ہیں جو عرف عام میں شہاک کہلاتے ہیں اور اس سے جات اہیر گجر وغیرہ قبائل ہیں راجہ اسوا پتی کے بعد انہی قبائل کی دوشاخیں مید اور جاٹ حکمران رہیں۔مگردونوں کی لڑایوں کے باعث علاقہ میں امن قائم نہ رہا۔ بالآخر دونوں قبیلوں نے دلی کے راجہ دیور دھن کو اپنا ثالث مقر کیا۔ اس کے فیصلہ کے مطابق مید قبیلہ عراق اور شام کی طرف چلا گیا۔ جہاں انہوں نے حکومت قائم کی۔ مورخین کے مطابق یہی مید عرب میں میڈیا مشہور ہوئے اور پنجاب کی حکومت جاٹوں کے قبضہ میں آگئی۔ ان کا پایہ تخت راوی اور چناب کے درمیان تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ جھنگ کے علاقہ پہ برہراست کچھ عرصہ جاٹ بھی حکمران رہے تقریباً یہی زمانہ مہا بھارت کا ہے جس میں پانڈوں کو شکست ہوگئی تھی، جاٹ قبیلہ کے ایک شخص برہمن نے سندھ سے سیراب ریاست وسیع کر کے ٹھاٹھ سے حکومت کی اس کے بعد ایرانی عہد تک پھر اس علاقہ کی تاریخ گوشہ گمنامی میں ڈوبی نظر آتی ہے ۔ درمیانی عرصہ کے بارے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کی جا سکتی ۔
ایرانی عہد:
اس عہد کے بارے میں صرف اس قدر پتہ چلتا ہے کہ جب شہنشاہ ایران کشاسپ کے حکم پر اس کے جرنیل بہمن تے پنجاب پر حملہ کیا اس کی فوجیں چناب کے کنارے مغرب کی طرف بڑھنے لگیں۔ اس وقت اس علاقہ کا حاکم راجہ کفتدتھا۔ اس کی سلطنت میں ملتان اور بھکر کے شہر شامل تھے ۔ راجہ نے بہمن کا سخت مقابلہ کیا اور تمام ایرانی مقبوضات واگزار کرائے۔ راجہ کفتد کی حکومت بھکر بھیرہ سانگلہ ملتان تک وسیع تھی اس کا پایہ تخت اسکندنامی شہر تھا۔ اس نام کا قصبہ آج بھی تحصیل شجاع آباد میں موجود ہے ۔ ایک روایت کے مطابق شہر بھیرہ بھی اسی راجہ نے بسایا تھا ۔
مصریوں کا حملہ:
عہد عتیق کے مورخین کا بیان ہے کہ اسائریس مصر سے ٹڈی دل فوج لے کر اٹھا اس نے عرب یمن اور سندھ پنجاب تک کو پائمال کر دیا ۔ گنگا پار تک کا علاقہ اپنی مسلمرو میں شامل کر لیا ۔ اسائریس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے آریاؤں کو زراعت اور فن سپاہ گری کی تعلیم دی ۔ اور گائے پوجا کی پرستش کی نیو ڈالی ۔ اس سے قبل آریاؤں میں گائے پوجا کا رواج نہ تھا۔ اس راویت کی تائید ہندویوں کے مذہبی ویدوں سے ہوتی ہے جس میں گائے پوجا کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ محققین کا خیال ہے کہ مندروں کے ہاں الیشور دیوتا کا جو تصور موجود ہے وہ اسی اسائریس سے منسوب ہے۔ کیونکہ اس نے اس قوم کو تہذیب و شائستگی سے آشنا کیا تھا۔
سائر یس کے بعد مصریوں کا دوسرا حملہ فرعون سیا ئتریس کی قیادت میں ہوا۔ اس کی فوجیں ملتان بھیو منکیرہ ، کوٹ کروڈ تریمو پر قابض رہیں مگر اسے زیادہ دیر استحکام نصیب نہ ہوا چند سال بعد مال دولت لوٹ کر وطن واپس چلا گیا۔ اس نے اپنے چند سال کے دور میں گٹو شالہ پرستی کو مزید راج دیا، اپنے مقبوضات میں جگہ جگہ گٹو شا لے تعمیر کرائے ۔ ایشور کوٹ دشور کوٹ) نام کا شہر بسایا جو دریا کے چنیل کے مشرقی کنارے پر آباد تھا ۔ جہاں تک دریاؤں کے کنارے آباد دیگر شہروں کا تعلق ہے تاریخ نے ان کے نام محفوظ نہیں رکھے ورنہ یہ ممکن نہیں کہ اتنے بڑے علاقہ میں چند شہر ہی ہوں ۔ بدقسمتی یہ رہی کہ اس عنوان سے محققین نے توجہ نہ دی۔
ضلع جھنگ کے قدیم شہروں میں لوہ کوٹ اور شور کوٹ کے نام قدیم مورخین نے لکھے ہیں۔ اور ان کا محل وقوع بھی بتایا مورخین نے اس کی یہ توجیہ کی ہے کہ آریان ہند مصری حکمران سائرس کا نام احترام سے لیتے تھے۔ سائرس سنکرت زبان کا ایشور ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آریاؤں نے سائرس کے احسانات کی وجہ سے اسے دیوتا کا درجہ دے دیا تھا اور ایشور کا تصور اسی سائرس سے پیدا ہوا سائرس کی یاد میں تمدن ہند کی عبادت کے مطابق دریا چناب قدیم مورخین نے چناب کو چیل، راوی کو ایراوتی، جہلم کو بہت سندھ کو سائڈرس ستلج کو گھارا پیاس کو باسا کے نام سے لکھا ہے ۔ چناب کے مشرقی کنارے ملتان کے مضافات میں ایشورکوٹ نام کا شہر بسایا تھا۔ لہذا یہ باتابتدائی طور پر تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ ایشور کوٹ بعد میں بگڑ کر شور کوٹ کے نام سے مشہور ہوا ہو گا۔ اس کی تائید مزید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ مصریوں کے بعد دارا نے ایران کے حملہ پنجا سے قبل پنجاب اور ملتان پر کچھ عرصہ آشور کی قوم بھی حکمران رہی۔ ممکن ہے اس قوم نے اپنے دور حکومت میں ایشور کوٹ کا نام آشور کوٹ رکھا ہو یا ان کی وجہ سے از خود آشور کوٹ مشہور ہو گیا ہو۔ تاہم اتنی بات یقینی ہے کہ 639 قبل مسیح میں شور کوٹ نام کا قصبہ موجود تھا ۔
ایرانیوں کا دوسرا حملہ:
شاہنامہ کے مندرجات سے معلوم ہوتا ہے کہ دارائے ایران فریدوں نے پنجاب فتح کر کے اسے اپنی ریاست میں شامل کر لیا تھا ۔ ایرانی افواج درہ بولان کے ذریعہ بلوچستان بسندھ۔ ملتان منکیرہ تک قابض رہیں۔تریمو گھاٹ انکی اہم گزر گاہ تھی۔ ایرانیوں کا تسلط 529قبل مسیح تک رہا میں بہ میں سبوئی ملوٹی کھٹوئی قبائل حکمران رہے۔
سکندر اعظم کا حملہ:
ملتان سے جہلم تک سکندر اعظم یونانی کے محلہ ہند نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ یہ حملہ قریب 325 قیل مسیح میں ہوا۔ اس وقت ہندوستان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں مقیم تھا۔ ملتان پرمل قوم حکمران تھی۔ اسی قوم کے قدیم افراد نے مل استھان نام کا شہر بسایا تھا جو بعد میں بگڑ کہ ملتان مشہور ہوا ۔ مگر اس روایت کے بر عکس بعض مورخین نے لکھا کہ ملتان پر بلاد بھگت کے عہد میں موجود تھا۔ اور اس شہر میں پر ہلاد کامندر بھی تھا۔ جیسا کہ قبل ازیں عرض کر چکا ہوں کہ پر ہلا د بھگت کا زمانہ رام چندراور سیتا سے قبل کا ہے۔ دونوں روائیتی دوست بھی ہوسکتی ہیں۔ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ ملتان پہلے آباد ہو گا پھر اُجڑ گیا ۔ دوبارہ مل قوم نے تعمیر کروایا سکندر یونانی کے عہد میں مل قوم حکمران تھی اور ملتان کا نام مل استھان تھا۔
بہرحال سکندر یونانی آندھی اور بگو لے کی طرح اٹھا پر استہ کابل پنجاب پر حملہ آور ہوا اس وقت ٹیکسلا کے راجہ نے اپنی شکست مان کر سکندر کو آگے بڑھنے کا راستہ دیدیا سکندر نے جہلم کے راجہ پورس کے مقابلہ میں فوج کوروک لیا سکندر نے پورس پر فتح پائی اور پھر سکندر نے اپنی فوج کو دو حصول می تقسیم کیا۔ پہلا حصہ شیخوپورہ کے علاقہ سے ہوتا ہوا سانگلہ۔ ساندل بار کرانہ بار چنیوٹ پہنچا۔ فوج کا دوسرا حصّہ دریا ئے جہلم میں داخل ہوا اور کشتیوں کے ذریعے تریمو گھاٹ پہنچا۔ فوج کا جو حصہ چنیوٹ گیا تھا وہ بھی کشتیوں کے ذریعے دریائے چناب عبور کر کے تریمو گھاٹ پہنچ گیا ۔ سانگلہ اور ساندل بار کے علاقہ میں پیدل فوج بھی پیش قدمی کرتے ہوئے جھنگ کے قریب خیمہ زن ہوئی ۔ تین اطراف سے فوجوں کا حملہ اس اختیار سے کا میاب رہا کہ آس پاس کی تمام چھوٹی چھوٹی ریاستیں مفتوح ہوئیں اور دریائی گزر گاہوں کے قریب آباد شہر بھی قبضہ میں آتے چلے گئے ۔ اس طرح ، تریمو گھاٹ کے چاروں طرف تیس چالیس میل تک یونانی سپاہ کا پڑاؤ پھیلا ہوا تھا۔ یہ برہمن گڑھ کا قلعہ نہایت مضبوط تھا۔ جو بلا مقابلہ یونانیوں کے ہاتھ آگیا سکند نے اپنا قیام ترمیمو گھاٹ پر کیا ۔ جہاں سے وہ شور کوٹ کا قلعہ فتح کرنا چاہتا تھا۔ تا کہ ملتان جانے کے لئے راستہ صاف ہو سکے سکندر کو برابر یہ اطلاعات مل رہی تھیں کہ مشرق کے قبائل کٹھیٹھ سہوئی مل وغیرہ جو نہائیت جنگجو ہیں۔ قلعہ کی حفاظت کے لئے پوری تیاریاں کر چکے ہیں۔ تاہم سکندر تے قلعہ شور کوٹ فتح کرنے کے لئے دو طرفہ حملا کرنے کا فیصلہ کیا۔ ساندل بار اور قلعہ برہمن گڑھ میں موجود افواج کو آگے بڑھ کر راوی کے کنارے کنارے پیش قدمی کرنے کا حکم دیا تا کہ اس رخ سے دباؤ ڈالا جائے۔ اور فوج کے دوسرے حصہ کو کشتیوں میں ڈال کر چناب کے ذریعے شورکوٹ پہنچایا جائے سکندر خود بھی اسی راستہ سے شورکوٹ گیا تھا۔ یہاں اس بات کا خیال رہے کہ کا ٹھیا قوم کا اصل وطن سانگلہ تھا اور اس قوم کے لوگ سانگلہ ۔ ساہیوال، اور شور کوٹ تک پھیلے ہوئے تھے ۔
برہمن گڑھ کا قلعہ:
تاریخ میں برہن گڑھے قلعہ کا جو محل و قوع بتایا گیا ہے اس سے یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ قلعہ وہاں پر موجود تھا ۔ جہاں آج کل مائی ہیر کا مزار ہے ۔ یہ جگہ اب بھی بلند ٹیلہ کی صورت میں ہے اور ہیر کا مزار بھی اسی ٹیلہ کے اوپر واقع ہے۔ ارد گرد قبرستان ہے۔ سکندر کے حملہ پنجاب کے بارے میں مور خین تے جو کچھ لکھا ہے اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی ہے کہ قلعہ کے مشرق میں دریائے چناب بہتا تھا۔ چنانچہ آج بھی چناب کی قدیم گذرگاہ کے نشانات مزار ہیر کے مشرق میں موجود ہیں۔ سال1974 میں ماہرین آثا قدیمہ کی ایک ٹیم نے اس ٹیلہ کی زیر زمین کچھ حصہ کی کھدائی کرائی تھی۔ اس کھدائی کے دوران قلعہ کی دبی ہوئی دیواروں سے جو اینٹیں انہوں نے حاصل کیں اُن کا تجزیہ کرنے کے بعد انہوں نے بتایا کہ یہ اینٹیں سکندر یونانی اور چندر گپت موریہ کے عہد سے قبل کی ہیں ۔ ماہرین کے اس خیال سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ سکندر کے حملہ میں جس قلعہ برہمن گڑھ کا ذکر ملتا ہے وہ یہی ہے جو بعد میں تباہ بریاد ہو گیا تھا۔ اور اس تباہ شدہ قلعہ کے کھنڈروں پہ مائی ہیر کا مزار تعمیر کیا۔ اسی طرح مورخین نے قلعہ شور کوٹ کی مزاحمت و صداقت کا ذکر کرتے ہوے مل اور کٹھٹھ قبیلوں کی موجودگی تاریخ ملتان کامولف بال کشن بھی تائید کرتا ہے اس نے لکھا ہے کہ جیسلمیر سے ایک راجپوت قبیلہ بھی اٹھا اور اس نے ملتان پر حکومت کی۔
اسی قبیلہ کو مورخین نے مل اور موھیال وغیرہ کا نام دیا ہے جواب بھی جھنگ کے آس پاس آبا د ہے ۔ اور اس سے مراد مول ہے ۔ اس کے بارے میں اس کے علاوہ اور کوئی تاریخی سند دستیاب نہیں ہوسکی ۔ چونکہ ان تینوں قوموں کے علاوہ اور کسی قوم کا مورخین نے ذکر نہیں کیا ۔ اور مرورِ زمانہ سے قوموں قبیلوں اور شہروں کا نام عموماً بگڑ جاتے رہے ہیں ۔ اسی وجہ سے مل کا موبل بن جانا اور کٹھٹھ کا کاٹھیا مشہور ہونا ویس کا محتاج نہیں ۔
شور کوٹ پر حملہ :
سکندر نے قلعہ شور کوٹ پر پوری تیاری سے حملہ کیا۔ یہ حملہ دور طرف سے تھا ینی چناب کے کنارے اور راوی چناب کے دوآبہ کے خشک راستہ سے اس جگہ شدید جنگ ہوئی ۔ سات روز تک اس جنگ کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ سکند نے قلعہ اور شہر کا محاصرہ تنگ کر دیا جس کی وجہ سے شہر کے لوگ جنگ سے دستبردار ہو گئے مگر قلعہ فتح نہ ہو سکا۔ انہی دنوں میں دریائے چناب میں شدید طغیانی آگئی۔ سکندر کی جو فوج دریا کے کنارے پھیلی ہوئی تھی سیلاب کی وجہ سے بھاگ کو شہر میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئی کیونکہ شہرسیلاب سے محفوظ تھا ۔ دریا اور شہر کے درمیان قلعہ موجود تھا۔ اس طرح اہل قلعہ کی رسدو کمک کا ذریعہ بھی دریائی راستہ تھا سیلاب کی وجہ سے ان کی رسدو کمک میں بھی کمی آگئی ۔ تاہم دونوں طرف کی افواج مقابلہ پر ڈٹی رہیں ۔ دو ماہ تک جنگ جاری رہی بالآخر سکندر نے آتشیں ہتھیاروں کے استعمال کا حکم دے دیا تاکہ اگر قلعہ فتح نہیں ہو سکتا تو اسے تباہ کر دیا جائے۔ چنانچہ دس دس سیروزن کے بارودی گولے منجنیقوں کے ذریعے قلعہ کی طرف پھیکے گئے جس سے قلعہ کے اندر آگ لگ گئی ۔ جب آگ نے عمارت کو احاطہ میں لے لیا۔ اس وقت اہل قلعہ جان بچانے پر مجبور ہو گئے ۔ انہوں نے دروازہ کھول دیا ۔ مگر اس وقت قلعہ تباہ ہو چکا تھا ۔ ہزاروں سپاہی جل سڑکر ڈھانچوں کی صورت اختیار کر چکے تھے۔ قلعہ میں خوراک کے ذخیرے گولہ بارود سونا چاندی ہتھیار اور تمام سامان جل کر پگھل گیا تھا سکندر نے قلعہ تباہ کرکے فتح پائی۔ یہاں سے سکندر ملتان کی طرف بڑھ گیا قلعہ شور کوٹ کے کھنڈرات سے آج بھی پگھلی ہوئی دھاتوں کے ٹکڑے اور سڑا ہوا سامان ملتا ہے)
تاریخ میں ایک روایت مشہور ہے کہ سکندرزہرآلو د تیر لگنے سے زخمی ہوا اور اسی زخم سے وہ بعد میں جاں بحق ہو گیا ۔ کچھ مورخین نے لکھا کہ اُسے شورکوٹ قلعہ کی مہم کے دوران تیر لگا اور کچھ کا خیال ہے کہ ملتان میں اُسے واقعہ پیش آیا۔
یونانی حکومت کا سر براہ:
ٹیکسلا سے سند ھ تک کا علاقہ یونانی فوج کی تحویل میں آچکا تھا۔ سکندر نے ملتان کی فتح کے بعد روانگی کا عزم کیا۔ اس نے چناب و رادی کے سنگم پر سرائے سدھو میں اجلاس عام بلایا ۔ آج ملتان شور کوٹ چنیوٹ منکیرہ کوٹ کروڑ بھیرہ تک کے حکمران اور سالانہ باریاب ہوئے اور اپنی وفاداری کی ضمانت پیش کی ۔ ملتان میں سکندر تے قلب کو اور شور کوٹ سے پھیرہ تک کیلئے فیلقوس کو اپنا نائب مقرر کیا ۔ سرائے سدھو میں جو اس وقت اہم فوجی چھاؤنی اور بحری اڈہ کی حیثیت رکھتا تھا ۔ جہاز سازی کا ایک کارخانہ بنایا گیا وہیں سے وہ نئے جہانوں پر سوار ہو کر فوج لئے ہندوستان سے اپنے وطن روانہ ہوا مگر اسی سال وہ زہر آلودہ تیروں کے زخم سے بابل میں فوت ہو گیا ۔
یونانیوں کے خلاف بغاوت:
چند ہی ماہ گزرے تھے کہ اہل شورکوٹ و مضافات نے یونانی حکومت کے خلات بغاوت کر دی یوں یونانی حکمران اپنے مذہبی و سیاسی نظریات طرز معاشرت اور زبان کو زیر دستی ان علاقوں پہ مسلط کرنے کی فکر میں سرگرداں تھے۔ اہل پنجاب کے لئے یہ جبر یہ تبدیلی قابل قبول نہ بھی۔ چنانچہ اس بغاوت کے دوران علاقہ پر یونانی حکمرانوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ بغاوت کی یہ خبریں ہندستان کے دوسرے علاقوں میں بھی پہنچیں۔
چندر گپت موریہ
چندر گپت موریہ شمالی ہندوستان کا مضبوط حکمران تھا۔ اس نے سکندر یونانی کے حملہ کے دوران بھیس بدل کر پنجاب کادورہ کر کے حالات کا جائزہ لیا۔ جونہی مغربی پنجاب کے اس علاقہ کے لوگوں نے یونانیوں کے خلادت بغاوت کی چندر گیت نے ان کی فوجی امداد کا اعلان کر دیا ۔ اور اپنی فوجیں لے کہ پنجاب میں داخل ہو گیا ۔
چانکیہ کا کردار:
چنیوٹ کا ایک صاحب علم شخص جو برہمن خاندان سے تھا ۔ مورخین نے اس کا نام چانکیہ لکھا ہے کئی کتابوں کا مصنف تھا سکندری حملہ کے دنوں میں ٹیکسلا میں بطور ٹیچر متعین تھا۔ اس نے اپنے وطن کی غلامی کو شدت سے محسوس کیا اور ٹیکسلا کے راجہ کو سکندر کا مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ کرنا چاہا مگر راجہ نے سکندر کی افوج کثیر دیکھ کر مقابلہ سے انکار کر دیا۔ اس کا چانکیہ کو سخت دکھ ہوا ۔ اس نے راجہ کی ملازمت چھوڑ دی ۔ اور سکندر کی فوجوں کے ساتھ ساتھ پھرتا رہا ، ہر جگہ پر اس نے را جاؤں کو یونانیوں کے مقابلہ پر اٹھارا لیکن راجگان نے بزدلی دکھائی ، مایوس ہو کہ چانکیہ نے راجہ پاٹلی پتر سے ملاقات کی اور اسے آمادہ کرنا چاہا کہ دیگر راجگان کی امداد سے یونانیوں کا مقابلہ کر کے مغربی پنجاب آزاد کرائے، مگر راجہ پاٹلی پتر نے مقابلہ سے انکانہ کر دیا ۔ چانکیہ ادھر سے مایوس ہو کہ راجہ چندر گپت موریہ کے ہاں پہنچا۔ اسے صورت حال سے آگاہ کیا ۔ چندر گیت یونانیوں کے خلاف لڑنے پہ آمادہ ہو گیا۔ چنانچہ چندر گیت نے فوج لے کر پہلے راجہ پاٹلی کو شکست دی اور ٹیکسلا سے جہلم تک کا علاقہ اپنی صفوں میں شامل کر لیا۔ اس کے بعد بھیرہ چنیوٹ شور کوٹ امرانی ملتان کے باغیوں کی حمایت میں اپنی فوج استعمال کی ۔ یونانی حکمران شکست کھا کر بھاگ گئے اور تمام علاقہ یہ چندر گیت کی حکومت قائم ہو گئی۔ اس نے سیاست مدن پر ایک کتاب لکھی جس کا نام ارتھ شاستر ہے، اسی کا ترجمعہ اب جرمنی اور انگریزی زبانوں میں بھی ہو چکا ہے ۔ کتاب کے دیباچہ میں چانکیہ نے اپنے وطن چنیوٹ کا بھی ذکر کیا ہے۔ اور کچھ حالات زندگی بھی لکھے ہیں۔ چانکیہ پہلا ہندستانی محقق مصنف ہے جس کی کتابوں کے ترجمے عربی میں عباسی خلیفہ مامون الرشید نے کرائے تھے۔
یونانیوں کا دوسرا حملہ:
مغربی پنجاب کی بغاوت اور چندرگپت کی حکومت کی خبریں جو نہی یونان پہنچیں سکندر کا ایک نائب سیلوکس فورا مسلح افواج لے کر بغاوت فرو کرنے کے لئے شورکوٹ پہنچا۔ اس کا حملہ اتنا زور دار تھا کہ چندر گیت کو ہر مقابلہ میں شکست ہوئی پنجاب پر قبضہ کرنے کے بعد سیلوکس دہلی کی طرف پیش قدمی کرتا چاہتا تھا کہ یونان میں اس کی حکومت کے خلاف زبرست بغاوت ہو گئی ۔ اس نے پریشانی کے عالم میں نہ صرف پیش قدمی روکنے کا بلکہ چندرگیت سے صلح کر کے پنجاب کی حکومت سے دستبردار ہو گیا ، اور اپنی لڑکی چندرگیت سے بیاہ دی اپنی لڑکی کی دل بستگی کے لئے کچھ یونانی خاندان ہندوستان میں ٹھہرائے ۔بعد میں خاندان کو ہستان ٹیکسلا شور کوٹ بھیرہ اور ملتان میں آباد ہوئے ۔ ان کی اولاد آج بھی ان علاقوں میں موجود ہے۔ نون جویا اور لانگ وغیرہ قبائل انہی یونانیوں کی نسل سے ہیں۔
موریہ خاندان کی حکومت:
۳۲۳ سے ۲۹۸ قبل مسیح تک چندر گپت بلا شرکت غیر سے حکمران رہا۔ اس نے اپنی سلطنت کی حدود افغانستان تک وسع کر لیں اس کے پاس چھ لاکھ پیاده تیس ہزار گھوڑ سوار فوج9 ہزار جنگی ہاتھی تھے۔ ہندئوں کی تاریخ میں پہلا شخص گزرا ہے جس نے وسیع ریاست پر حکومت کی ۔ اس کی وفات کے بعد چانکیہ کی تجویز پر اس کے درمیانے لڑکے ہندو سار کو حکمران بنایا گیا۔ اس نے اپنے باپ کی حدود سلطنت کو قائم و برقرار رکھا
اشوک اعظم اور بدھ مت :
بندوسار کی موت کے بعد اس کا لڑکا اشوک تحت پر بیٹھا جو تاریخ میں اشوک اعظم کے نام سے مشہور ہے اشوک بدھ مذہب کا پیرو تھا۔ اس نے اپنے عہد حکومت میں اس مذہب کو فروغ دیا۔ جگہ جگہ اس نے مندر تغیر کراےچناچہ شور کوٹ متن اور داڑہ سلمان میں اسی عہد کے تعمیر شده مندروں کے آثار ابھی تک موجود ہیں ۔ اور ان کے ملبہ سے اب بھی بدھ کی مورتیاں دستیاب ہوتی ہیں۔ شور کوٹ میں بدھوآنہ ، مندر سے بدھ کی مٹی کی مورتیاں ، تانبے کے سکے جن پر ایک طرف مہاتما بدھ اور دوسری طرف اشوک کی شبہیں کنندہ ہیں، اب بھی بعض لوگوں کے پاس موجود ہیں۔ اشوک کے بعد اس کا بیٹا حکمران ہوا۔ مگر باختر کے بادشاہ انراوی ٹس نے پنجاب پر حملہ کر کے چندرخاندان کو شکست دیدی۔ اس طرح یہ تمام علاقہ اس کی حکومت میں شامل ہو گیا اور پنجاب پھر غیروں کا غلام بن گیا ۔
تہذیبی تصادم:
جھنگ گذشتہ ہزاروں برس سے مختلف حملہ آوروں کی دست و نبود کا نشانہ بنتا رہا جس کی وجہ سے اس علاقہ میں مختلف تہدیبوں کا ٹکرا و قدرتی بات تھی۔ گومل دراوڑ تامل آریا یونانی ایرانی بکڑین ۔ بدھ اور مسلم تہد ہوں نے بیہاں اپنے اثرات مرتب کئے۔ زبان اور اس کے محاروں تلفظ لب و لہجہ میں تبدیلیاں آئیں ۔ طرزتمدن اور طرز معاشرت بدلتے رہے۔ اگر ان ہزار ہا برس پر نگاہ ڈالی جائے ۔ تو تہذیبی تصادم کی بے شمار سلسلے سامنےآتےہیں چونکہ کتاب کا یہ موضوع نہیں ورنہ ان واقعات کی نشاندہی بھی کی جاتی اور ان کے مظاہر بتائے جاتے ۔
اہل باختر:
ایل باختر نے انراڈی ٹس کی قیادت میں اس علاقہ میں جو حکومت قائم کی وہ طویل عرصہ قائم رہی۔ اس سال یونان کے ایک قبیلہ بکڑین جو اپنے وطن سے جلاوطن ہو کہ آوارہ ملک در مک پھر رہا تھا نے پنجاب پہنچ کہ شورش پیدا کی۔ یہ قبیلہ خاصا جنگجو تھا۔ اس نے فنور کوٹ ملتان جینیوٹ کروڑ اموانی کے علاقے فتح کر لئے اور اپنی حکومت بنائی ۔ باقی پنجاب پر اہل باختر ہی کی حکومت رہی ۔ مگر ان علاقوں میں جلد بغاوت ہو گئی۔ اہل باختر نے مقامی راجوں مہاراجوں کو مزید مراعات دے کہبکڑین کو اپنے علاقوں سے باہر نکالنے پر آمادہ کر لیا اور مسلح بغاوت کے باعث یونانیوں کو شکست ہوگئی ۔ اور ان کا سربرہ بھاگ کر بھکر جانا چاہتا تھا کہ تریمو گھاٹ پر اُسے گرفتار کر لیا گیا ۔ اور بعد میں اسے پھانسی دے دی گئی ۔ اس طرح ایل باختر نے پنجاب پر اپنا دوبارہ مکمل تسلط قائم کر لیا ، تاہم عملاً حکومت مقامی راجوں ہی کی تھی ۔ ان میں بیشتر چندرخاندان سے تھے ۔
یوچی اور کشان
چینیوں نے کشمیر کے راستہ سے حملہ کر کے پنجاب پر قبضہ کر لیا یہ لوگ ہنزہ اور نگر کے راستے سے داخل ہوئے تھے (موجودہ شاہراہ ریشم)ان میں پوچی اور کشان خاندان مشترک حصہ دار تھے۔ لیکن اپنے ملک سے دوری کی وجہ سے ان کی حکومت رفتہ رفتہ ختم ہوتی چلی گئی۔ بالا چندر خاندان کے مہاراجوں نے مشترکہ جدجہد کر کے چینیوں کی حکومت بھی ختم کردی۔ اور اہل یاختر سے بھی باقی علاقے آزاد کرا اکر پر چم لہرایا چندر خاندان میں ایک شخص چندر گیت گذرا ہے جس نے رفتہ رفتہ تمام راجوں مہارا جوں کو اکٹھا کر کے پھر ایک وسیع سلطنت قائم کی ۔ ایک روایت کے مطابق چینی عہد میں چنیوٹ کا نام چنین آؤٹ یا چناں اوٹ مشہور تھا ۔ مگر اس روایت کی سند نہیں ملتی ۔
راجہ بکرما جيت:
ہندوستان کی تاریخ میں چندرخاندان سے بکرماجیت کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ چندر گیت اشوک اور سمندر گیت کی طرح بڑا ذہین تھا۔ اس نے پہلے یو چی اور کشان قبیلوں کو شکست دی ۔ پھر اہل باختر کی غلامی سے ملک آزاد کرایا۔ اس کا دور حکومت تاریخ کا نمایاں باب ہے۔ اس نے اپنے مقبوضات میں متعد د مندر تعمیر کرائے ۔ جھنگ شہر کا مند اسی کے نام سے منسوب تھا۔ ممکن ہے ان کی شکست وتعمیر کا سلسلہ بعد کے عہد میں بھی ہوتا رہا ہو ۔ مگر ابتدا اسی عہد میں ہوئی تھی۔ بکرماجیت کی موت کے بعد پھر اس خاندان میں کوئی ایسا جی دار شخص نہیں ابھرا جو وسیع سلطنت کو سنبھال سکتا، ہندستان اور پنجاب پھر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو گئے۔ مورخین کے مطابق یوچی اور کشاں قبائل کے خلاف بکرماجیت کی فیصلہ کن جنگ کروڑپکا ۔ شور کوٹ اور ملتان کے علاقہ میں ہوئی تھی ۔ اس میں یکرماحیت کا میاب ہوا ۔ شورکوٹ قلعہ سے ایک ایسی نتختی بر آمد ہوئی ہے حسیں یہ بکرماجیت کی فتح مندی کے بارے میں عبارت درج ہے ۔
اہل یورپ کی یلغار:
پنجاب کئی ریاستوں میں تقسیم تھا کہ یورپی قبیلہ ھن کے سفید فام آوارہ گردوں نے فا ئدہ اٹھاتے ہوئے پنجاب کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر لیا یہاں تک کہ بھیرہ سے ملتان تک کا تمام علاقہ ان کی تحویل میں آ گیا اس قبیلہ کے حکمران سنگ دل ظالم اور بے رحم تھے انہوں نے اتنی سختی کی کہ لوگ دب گئے مشہور چینی سیاہ ہیون تسانگ نے اپنا سفر شروع کیا اور جب وہ ملتان جاتے ہوئے تریمو گھاٹ سے گزرا اس وقت ھن حکومت کر رہے تھے ہیون تسانگ لکھتا ہے کہ جب میں تریمو گھاٹ پہنچا دریا طغیانی پر تھا کشتی رانی بند تھی طغیانی کم ہونے کہ انتظار میں کچھ عرصہ قیام کیا یہ علاقہ بڑا زر خیز و شاداب تھا ہیون نے لکھا ہے ملتان اور شور کوٹ پر سانگلہ نامی راجہ سفید ہنز کے تعاون سے حکومت کر رہا تھا بعد میں ھن قبیلہ کی حکومت کو ترکوں نے ختم کیا ترک پنجاب کے راجوں کی درخواست پر آئے تھے ترکوں نے اس قبیلے کو اس بری طرح شکست دی کہ ان کا شاید ہی کوئی بالغ فرد قتل سے بچ گیا ہو۔
سیکڑوں بچے اور عورتیں زندہ رہیں جو بعد میں مستقل طور پر پنجاب میں آباد ہوئے ان کی نسل میانوالی جھنگ سرگودھا اورملتان کہ غربی علاقوں میں موجود ہے چونکہ یہ نسل بعد میں غلط ملط ہو گئی تھی اس لئیے مکمل نشاندہی نہی کی جا سکتی اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ قدیم مورخین نے فتوحات کے ضمن میں کوئی تفصیل نہیں دی اور نہ ہی پنجاب کے تہذہبی و لثانی معامالات میں دلچسی لی ہے لہذا کوئی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی البقہ عرب مورخین وسیاحوں نے اپنے عہدمیں جوتاریکن یا سفر نامے مرتب کیے ان سے بعض جزویات تلاش کی جا سکتی ہیں
رانی پدما کی حکمرانی:
جن دنوں ھن قبیلہ حکمران تھا اور اس کا ایک سردار بھیرہ چنیوٹ خوشاب تریمو اور شور کوٹ کا حکمران تھا اس کے اس کے ظلم ستم سے علاقہ کے لوگ خوفزدہ تھے۔ تو ان کو کسی نا معلوم شخص نے قتل کردیا اور اس کا لڑکا ہر گل حاکم بنا۔ اس نے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے علاقہ میں ایسے خوفناک مظالم کئے کہ مورخین کے علم وہ تفصیلات لکھنے سے قاصر ہے انہی دنوں چندر خاندان کی ایک عورت پدما ہو بھیرہ میں رہتی تھی مظالم دیکھ کر تڑپ اٹھی اور اس نے مالوہ کے راجہ نینو دھرمن سے خفیہ طور پر فوجی امداد حاصل کی اور خانہ میں مہر گل پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ ہر گل بدھو اس ہو گیا ۔ پرما نے مہر گل کو قتل کر کے علاقہ کا نظم ونسق سنبھال لیاپدما کو راجہ مالوہ نے بھیرہ تا شور کوٹ تمام علاقہ عنائت کیا۔ پنجاب کی تاریخ میں یہ پہلی عورت ہے جس نے حکومت سنبھالی اور نہر کو شکست دی مگر دو سال حکومت کرنے کے بعد فوت ہو گئی۔ پھر اس علاقہ پر اسی کی اولادقابض رہی تا آنکہ چند خاندان کے راجہ چچ نے جو اس میں حکمران بنا تھا یہ علاقہ بھی اپنی عملداری میں لے لیا۔
رائے چچ کا عروج:
سفید ھن یورپی قبیلہ کی شکست کے بعد حکومت چچ خاندان کے قبضہ میںآ گئی۔ اس میں رائے چچ حکمران ہوا ۔ اس کی سلطنت سندھ کے علاوہ ملتان، کروڑ لیہ بھکر، شورکوٹ بھیرہ برہمن گڑھ تلواڑہ ، چائی تک وسع تھی ۔ چچ کے بعد ساہی رائے حکمران بنا اس کی موت کے بعد اس کے بیٹے ہریش نے حکومت سنبھالی۔ پریش نے اپنی سلطنت کو انتظامی اعتبار سے چار مختلقت صوبوں میں تقسیم کر دیا ۔ ان کے نام یہ تھے ۔
ا سیوستان ۲ملتان۔ اسکلندہ ۲۔ برہمن گڑھ ۔
بر ہمن گڑھ :
اس نام کا ایک قلعہ اور شہر موجودہ جھنگ صدر کے قریب موجود تھا جس کا ذکر گذشتہ صفحات پر آچکا ہے۔ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جھنگ کو ایک صوبہ کا درجہ دیا گیا ، اس کی حدود میں پنڈی بھٹیاں۔ تلوارہ یہ علاقہ جہلم پار اب بھی تلوارہ کھو کھراں کے نام پر موجود ہے ) چچ (چنیوٹ، شور کوٹ لیتہ امرانی ریالیوں کے علاقے شامل تھے۔ راجہ ہریش نے تلوارہ کے آس پاس ایک مضبوط قلعہ بنوایا تھا۔ ایک قلعہ بھپ کے نام سے چناب کے کنارے تعمیر کرایا تھا غالباً یہ لفظ آج کل میں مشہور ہے ۔ اور کوٹ عیسے شاہ تحصیل جھنگ کے قریب ہے) راجہ ہریش کو قلعہ جات کی تغیر کا شوق تھا۔ اس کے عہد میں بہت سی عمارتیں تعمیر ہوئیں۔ مگر را جہ کو شاہ نیم رو تر نے حملہ کر کے شکست دے دی جس کے بعد اس کا لڑکا ساہی رائے تخت پر بیٹھا لیکن ابھی نظم و نسق نہ سنبھال سکا تھا کہ قتل ہو گیا تاہم حکومت اسی کے خاندان میں قائم رہی۔ یہاں تک کہ رائےچندر حکمران مقر ہوا ۔ یہ پہلا حکمران تھا جس نے اپنی سلطنت کے ہر صوبہ میں اپنا محل تعمیر کر ایا ۔ ایک محل برہمن گڑھ (جھنگ) میں بھی بنوایا تھا۔ اس کے نشان نہیں ملتے ) پریشن کے بعد چچ ثانی اور اس کے بعد رائے چند ر حکمران ہے۔ اسی کے دور میں ہر من رائے نے بغاوت کر دی۔ برمن رائے چنیوٹ کا رہنے والا تھا بغاوت کشمیر تک پھیل گئی لیکن رائے چندر نے ہر من رائے کو شکست دے کر اپنی سلطنت کشمیر تک بڑھائی اور بغاوت فرد ہوگئی ۔
راجہ داہر :
چندر کی موت پہ اس کا بھتیجہ راجہ داہر تخت پر بٹھا لیکن اس کے اپنے خاندان کے افراد نے بغاوت کر دی، اور رائے انمل کی قیادت میں منظم ہو کر اس کی ریاست میں داخل ہو گئے ۔ انہی دنوں عرب کا ایک سردار محمد علاقی جو قاتل اور مفرور تھا اور عرب سے بھاگ کر سندھ میں پناہ گزین ہوا تھا۔ داہر کا ہمنوا نیا محمد علاقی نے عبد الرحمن بن اشعث کو قتل کیا تھا۔ یہ وہی اشعت کے خیس کا تعلق حضرت امام حسن کے واقعہ زہر خورانی سے ہے ۔ چونکہ محمد علاقی بہادر اور شجاع تھا۔ اس نے راجہ داہر کو جنگی مشورے دیئے جن پر عمل کرتے ہوئے اسے کامیابی ملی پس نے اپنی ریاست کو مستحکم کیا اور ۲۵ برس پورے دیدیہ اور طنطنہ سے حکومت کی چناب جہلم کا تمام علاقہ اس کی عملداری میں شامل تھا۔ کیونکہ سندھ اور کشمیر کے درمیان صرف دریائی راستے ان دنوں تعیل ہوتے تھے۔ داہر نے دونوں دریاؤں کے کنارے چوکیاں – اصطبل اور سرائیں تعمیر کرائی تھیں ۔ ”
چنیوٹ کی فتح:
محمد بن قاسم نے سندھ سے راوی چچ در آیہ تک قبضہ کرنے کے بعد مختلف سالاروں کو علاقے تفویض کر دئیے کہ وہ حکومت کا نظام چلائیں۔ خود پچاس ہزار سواروں کے ہمراہ کشمیر جانے کے لئے چنیوٹ روانہ ہوا۔ چنیوٹ پر ابھی راجہ چچ کی حکومت تھی محمد بن قاسم نے چنیوٹ پر دو طرفہ حملہ کیا ایک حصہ فوج دریائے چناب میں کشتیوں کے ذریعے پہنچا۔ دوسرا حصہ فوج ساندل بار کے گھنے جنگلات سے گزرتا ہوا سانگلہ کی سمت سے حملہ آور ہوا۔ چنانچہ راجہ نے لڑائی سے قبل ہی ہتھیار ڈال دیئے۔ اور صلح کر کے اپنی شکست تسلیم کر لی۔ محمد بن قاسم نے چنیوٹ پر اسلامی پرچم لہرایا ؟ یہاں سے فتح پانے کے بعد اس نے ایک سالار کو کشمیر روانہ کیا ۔ اور خود چنیوٹ کے قریب ایک مقام پر درخت لگائے تا کہ اس فتح کی یاد ہمیشہ قائم رہے اس جگہ کا تعین نہیں ہو سکا کیونکہ مورخ یعقوبی نے چنیوٹ کی فتح کے واقعات لکھتے ہوئے درخت لگاتے کا ذکر کیا ہے اور صرف یہی لکھنے پر اکتفا کیا کہ اس جگہ راجہ چچ نے بھی کچھ درخت اپنے عہد میں لگاتے تھے ) محمد بن قاسم سندھ سے پنڈی بھٹیاں تک و سع سلطنت قائم کرنے کے بعد شور کوٹ واپس آگیا۔ جہاں اس نے اپنے سالاروں اور عمائدین علاقہ کا اجلاس بنایا ۔ اس میں نظام حکومت کے بارے میں سالاروں کو ہدایات دیں۔ اوبر عمائدین کو اسلام کی تبلیغ کے لئے خاص طور پر توجہ دینے کے لئے کہا چناچہ ان کی تبلیغ سے بہت سے قبائل سلمان ہوئے ۔
تیرہ ہزار من سوتا:
سندھ سے چنیوٹ تک کی فتوحات مکمل ہوتے ہی مال غنیمت کا حساب لگایا گیا ۔ پر سوار کے حصہ میں چار سو درہم پیادہ کے حصہ میں تین سو درہم کے حساب سے تقسیم ہوئے ۔ چھ کروڑ درہم نقد دربار خلافت کو بھیجے۔ جو اس سونے کے علاوہ تھا جو تختلف مندروں سے بر آمد ہوا ۔ تاریخ ملتان کے مولف مولانا نور احمد فریدی لکھتے ہیں کو تمام سونا صرف ملتان کے مندروں سے حاصل کیا گیا تھا۔ لیکن یہ بات خلاف واقعہ ہے۔ اصل میں اموی خلاقت نے محمدبن قاسم کی مہم کے لیے تھے چھ کروڑ درہم مخصوص کئے تھے فتوحات کے بعد محمد بن قاسم نے یہ چھ کروڑ درہم واپس در بار خلافت کو دیئے۔ مزید چھ کروڑ درہم اور راجہ داہر کا سر بھی بھجوایا۔ ۔
سونے کی برآمدگی کا واقعہ یوں ہوا کہ ملتان کے ایک برمین نے محمد بن قاسم کو بتایا کہ ملتان کے مندر میں سونا دفن ہے جس کا خفیہ راستہ وہ بتا سکتا ہے ۔ چنانچہ محمدبن قاسم نے مندر کی تلاشی لی اور وسیع مقدار میں سونا بر آمد کر لیا۔ اس پہ محمد بن قاسم نے حکم دیا کہ ساری سلطنت جس قدرمندر موجود ہیں سب کی تلاشی لی جائے ۔ مندروں میں عمومًًا مورتیاں سونے چاندی کی ہوتی تھیں۔ لہذا تمام مورتیاں جمعہ کر لی گئیں ۔ اس میں صرف ملتان کی بات نہیں ۔ مزیدچچ نامہ نے بھی تائید کی کہ ایشو کوٹ، برہمن گڑھ چنیوٹ کے مندروں سے تمام خزانہ سونا چاندی مسلمان فاتحین نے حاصل کر کے ملتان میں جمع کرایا تھا۔
دربار خلافت میں تبدیلی :
ابھی محمد بن قاسم شور کوٹ میں تھا کہ سلیمان بن عبد الملک کی خلافت کا اعلان ہو گیا سلیمان چونکہ حجاخ کا سخت دشمن تھا۔ اس نے حجاخ کے جاری کر دہ احکامات منسوخ کر دیئے۔محمدبن قاسم کو واپس بلالیا۔ عراق کے نئے گورنریزید بنمہلب کو حکم دیا کہ محمد بن قاسم کو گرفتارکر لائے ۔ اس نے یزید بن ابی کبشہ کو سندھ و پنجاب کا حاکم مقر کیا۔یزیدنے محمد بن قاسم کو گرفتار کر لیا۔ بہر حال محمد بن قاسم کو واسط کے جیل خانہ میں اذیت ناک موت سے ہمکنار کیا گیا ۔
خلافت بنو عباس:
اموی خلافت ختم ہوتے یہ عباسی خلفاء کا سلسلہ شروع ہوا ۔ ان میں سب سے زیادہ شہرت عمر بن حفص کی ہے جو در پردہ فاطمی تحریک کا ہمنوا تھا ۔ اور اس کی وجہ سے سندھ سے شورکوٹ تک باطنی تحریک کا آغاز ہوا اس علاقہ میں راج پایا۔ اس سے قبل اس علاقہ کے لوگ شیعہ عقائد سے ناواقف تھے مگر عباسی خلیفہ منصور نے عمربن حفص کو افریقہ تبدیل کر دیا۔ اور اسی علاقہ میں ہشام بن عمر گورنر مقرر ہوا چونکہ سندھ سے شورکوٹ تک کا علاقہ باطنی تحریک سے متاثر ہو چکا تھا ۔ مسلمانوں کے عقائد و نظریات تبدیل ہو گئے تھے ۔ لوگوں کی نگاہ میں ہشام کی تقریری سخت گیری کا پیش خیمہ تھی ۔ نیز انہی دنوں میں سید عبدالله جو باطنی تحریک کے علمبردار تھے۔ اپنے بھائی کے ہاتھوں قتل ہو گئے تو ان کا مزار سہون شریف میں ہے چنانچہ لوگوں میں غم وغصہ پھیل گیا ۔ ملتان کے لوگوں نے بغاوت کر دی ۔ مگر شام نے زبردست حملہ کر کے باغیوں کو قتل کرا دیا اس تحریقسے ، جھنگ منکیرہ ، لیہ کروڈ چنیوٹ وغیرہ کے علاقے متاثر نہ ہوئے ۔ کیونکہ ان علاقوں میں یا طنیت ابھی متعارف نہی تھی۔ البتہ شورکوٹ میں اس کے معمولی اثرات تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ملتان میں باطنیت نے شیعیت کا رنگ اختیار کیا جب کہ دوسرے علاقوں میں صورت مختلف رہی ۔
کھوکھروں کی حکومت:
محمد بن عدی جب ملتان پہنچا تو یہاں کے لوگ باغی ہو چکے تھے ۔ روڈ کا صوبیدار باغیوں کا ہمنوا تھا ۔ شور کوٹ اور چنیوٹ کے لوگ خلافت کے دفا دار تھے محمد بن عدی نے اپنا صدر مقام شور کوٹ بنائیا ۔ اور دوسرے صوبوں کی امداد لے کہ متان پر حملہ آور ہوا لیکن شکست کھائی۔ اہل ملتان نے محمد بن عدی کا سامان تک لوٹ لیا۔ اس طرح ملتان کا صوبہ خلافت عباسیوں کی غلامی سے آزاد ہو گیا ۔ جب یہ صورت حال دوسرے صوبوں نے دیکھی اورانہوں نے محسوس کیا کہ خلافت کی گرفت ڈھیلی ہوچکی ہے تو دیگر صوبے بھی آزاد ہو گئے ۔ ہر صوبہ کے لوگ اپنا حاکم خود مقدر کرنے لگے۔ جو کسی کے ماتحت نہ ہوتا تھا۔ چنانچہ ملتان کے صوبیدار نے موقع پا کر کوٹ کروڑ پر قبضہ کر لیا ۔ اور اسے اپنی ریاست میں شامل کر لبا شور کوٹ کے حاکم نےلیہ منکیرہ تک کے علاقے اپنی حدود میں ملائے ، چنیوٹ کے حکمران نے واڑہ کی ریاست پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت کھو کھر بڑے منظم تھے انہوں نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے اپنی خود مختار حکومت کا اعلان کر دیا۔
ریاست چنیوٹ کی حدود:
.
سلطان محمود غزنوی کے حملہ پھرہ کے بعد ریاست چنیوٹ کی حدود بھیرہ پنڈی بھٹیاں، خوشاب بر ہمین گڑھ سانگلہ ۔ تر یمو گھاٹ تک وسع تھیں تاریخ کے مطابق چنیوٹ کی ریاست ادھر کو ہستان سے ملتی تھی، ادھر واڑہ سے ساندل باز تک کھچی اور دچین کا علاقہ بشمول تر میمو گھاٹ کھوکھروں کی عملداری میں تھا اور شور کوٹ کا علاقہ ملتان کے صوبہ میں شامل تھا۔
محمود کا دوسرا حملہ :
محمود نے دوسرا بڑا حملہ کیا اس کی خواہش تھی کہ ملتان کے حاکم کو بے خبری میں جا کہ دبوچ لے گا۔ چنانچہ محمود خیبر کے راستہ سے لاہور آنا چاہتا تھا مگر را جہ جے پال کے لڑکے آنت پال نے محمود کو راستہ دینے سے انکار کر دیا ۔ بلکہ استند پال نے محمود کو روکنے کے لئے اپنا لشکر پشاور تک پھیلا دیا۔ دونوں میں زیردست جنگ ہوئی۔ اندپال شکست کھا کہ دریائے چناب کی طرف بڑھا تا کہ دریا کے راستہ سے وہ کشمیر جاسکے، محمود نے اس کا تعاقب جاری رکھا۔ انتہ پال محمود کے پہنچنے سے قبل تریمو گھاٹ سے براستہ چناب کشمیر کو روانہ ہوچکا تھا تاہم محمود نے تر یمو کے پاس قیام کیا ۔ اور ملتان پر حملہ کی تیاری کرنے لگا۔ اسی جگہ پر اس کا سالار من دوم تاج الدین جس کا لقب اٹھارہ ہزاری تھا تریمو گھاٹ پر بیمار ہو کر فوت ہوا محمود کو اپنے اس قابل سالار پر بڑا فخر تھا۔ محمود نے اس کی نش دریا کے غربی کنارے دفن کی ۔ اور اس پر مزار تغیر کرایا۔یہ مزار اب بھی موجود ہے۔ اور اس جگہ کا نام اٹھارہ ہزاری مشہور ہے۔ یہاں سے محمود نے شور کوٹ پر حملہ کیا اور کسی بڑی مزاحمت کے بغیر فتح کر لیا۔ پھر ملتان پہنچا حاکم ملتان نے شہر کے سرکردہ اصحاب کو درمیان میں لا کر صلح کر لی۔ جس کے مطابق قلعہ شورکورٹ ریاست چنیوٹ میں شامل کر لیا گیا۔ اور سندھ کا علاقہ ملتان سے کاٹ کر علیحدہ صوبہ بنایا گیا ۔ دو لاکھ درہم سالانہ خراج بھی حاکم ملتان نے دینا منظور کیا ۔
راجپوتوں کا حملہ:
خاندان غزنویہ کا اثر و اقتدار رفتہ رفتہ ختم ہوتا گیا۔ اور ان کی سلطنت غزنی تک محدود ہوگئی۔ پنجاب کے راجپوتوں نے دوبارہ منظم ہو کر اپنے علاقے آزاد کرانے کی جدوجہد شروع کردی چنانچہ یہ ایک سو سال کا عرصہ بار بار کی بغاوتوں جھگڑوں اور ریاستوں کی ٹوٹ پھوٹ میں گزرا ۔ بھیرہ تا شورکوٹ کا علاقہ پھر راجپوتوں کے قبضہ میں آگیا ہے عملاً حکومت پر کھو کھر قابض تھے جن کی وسع آبادی دریائے جہلم کے غربی کنارے دور تک پھیلی ہوئی تھی ۔ کھوکھروں نے اس ریاست کا صدر تقام بھی بدل دیا ۔ اور تلوارہ میں نئی حکومت کی نیو ڈالی ۔ دوسری طرف ملتان بظاہرسومرون کی حکومت تھی۔ مگر حقیقت میں قرامطی ہی نظم نسق چلا رہے تھے ۔ بلکہ وہ سیاہ و سفید کے مالک تھے مسلمانوں کی آواز تنظیم و موثر نہ تھی۔ ابھی تک ہندوستان کے دیگر علاقوں میں مسلمانوں کا دائرہ وسیع نہ ہوا تھا۔ یہ لوگ بڑی کشمکش میں مبتلا تھے ۔ کہ اسی دوران غوری خاندان ابھرا ۔
غوری خاندان کی حکومت:
اس خاندان کے سربراہ کا نام غیاث الدین غوری تھا۔ نہایت بہا در جرنیل تھا۔ یہ علاقہ غور سے اٹھا اور غزنی پر حملہ کر دیا غزنی فتح کرنے کے بعد اس نے تخت نشینی کی رسم ادا کی ۔ اور اپنے چھوٹے بھائی شہاب الدین محمد غوری کو نائب السلطنت مقرر کیا ۔ غیاث الدین کی وفات کے بعد ہی غزنی کا بادرت تسلیم ہوا ۔ اور اس نے اپنا لقب معز الدین اختیار کیا۔ محمد غوری کو بھی مہندوستان سے بڑی دلچسپی تھی ابھی دو غزنی کے تخت پر نہیں بیٹھا تھا بلکہ اپنے بھائی کا نائب تھا کہ اسے ملتان میں فرقہ قرامطہ کے عقائد کے بارے میں معلومات حاصل کر کے دُکھ پہنچا۔ اس نے ملتان وغیرہ پر حملہ کرنے کے لئے سیاہ فراہم کی اور حملہ کر دیا۔ ملتان ارج . اور لاہور فتح کر کے قرامطی فرقہ کے لوگوں کا قتل عام کیا ۔ اور یہ فرقہ بظا ہر نیست و نا بود ہو گیا۔ شور کوٹ ملتان کے تابع تھا وہ اس کی سلطنت کی حدودمیں آگیا۔ جو علاقے لاہور کے تابع تھے وہ بھی نئی ریاست کے تابع ہو گئے۔
کھوکھروں کی حکومت کا خاتمہ:
محمود غزنوی کے بعد کھوکھروں نے بھیرہ سے شورکوٹ تک کا علاقہ سنبھال لیا تھا اور ملتان کے قرامطی گورنر سے معاہدہ کر رکھا تھا۔ اس وجہ سے کھوکھروں نے محمد غوری کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ۔ اس پر محمد غوری نے کھوکھروں کو شکست دے کر تمام علاقہ قطب الدین ایبک کی براہ راست نگرانی میں دے دیا۔ کھوکھروں کو اپنی سلطنت کے کھو جانے کا سخت افسوس تھا اور وہ دوبارہ حکومت حا صل کر نے کی فکر میں تھے۔ اس عرصہ میں ایک مسلمان سیاسی اتفاق سے کھوکھروں کے علاقہ میں چلا گیا جسے انہوں نے گرفتار کر لیا ۔ جب کھو کھروں نے اس کی عبادت کے طور طریقے دیکھے تو ان کے سردار نے سپاہی سے دریافت کیا کہ اگر میں محمد غوری کی خدمت میں حاضر ہو کہ مسلمان ہو جاؤں تو وہ مجھ سے کیسا سلوک کرے گا۔ مسلمان نے جواب دیا جو بادشاہ بادشاہ سے کرتا ہے۔ چنانچہ اس مسلمان ) قیدی نے محمد غوری کو سردار کی گفتگو سے بذریعہ عرضداشت آگاہ کیا مجھ غوری نے جواب میں دونوں کو بلا لیا کھو کھر سردار مسلمان ہو گیا۔ محمد غوری نے صرت کچھ کے علاقہ و گذار کرد یا۔ جہاں ان کی حکومت برقرار رہی۔ باقی علاقوں کیلئے اس نے کوئی فیصلہ نہ کیا جبکہ نول جنجوعہ اور کھوکھر قبیلے حکومت کی جستجو میں تھے۔
کھوکھروں کی معاشرت :
تاریخ فرشتہ لکھتا ہے کہ کھو کھرراچوت نسل سے تعلق رکھتے تھے ان کا کوئی دین مذہب نہیں تھا۔ مسلمانوں کے سخت دشمن تھے ان میں دختر کشی عام تھی۔ ان میں رواج تھا کہ کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی اُسے اٹھا کر دروازہ سے باہرلاتا اور یہ آواز دیتا کوئی ہے جو اس لڑکی کو سنبھالے ۔ اگر کوئی شخص تیار ہو جاتا تو لڑکی کی جان صلامت ہوتی ورنہ گھر کے باہر اسے جان سے مار دیتے تھے ، ایک عورت کے کئی شوہر ہوتے تھے اگر اس عورت کے پاس کوئی شوہر مباشرت کے لئے جاتا اوروہ اپنا نشان دروازہ پر لگا جاتا تا کہ اس کے دوسرے شوہر مداخلت نہ کریں ۔ تاہم مسلمان ہونے کے بعد ان کی رسومات بھی بدل گئیں ۔ اور نظریات بھی اصلاح پذیر ہوئے ۔
نولوں کی حکومت:
تاریخ الفی کے مطابق ان میں محمد غوری کو خوارزم شاہ کے مقابلہ میں شکست ہوئی۔ کھوکھروں نے یہ سمجھا کہ وہ اب لوٹ کہ ہند وستان نہیں آئیگا اور بغاوت پھیلا کر اپنے سابقہ مقبوضات واپس چھین کر حکومت وسیع کر لی اور اسلام سے بھی محرف ہو گئے چنانچہ محمد غوری پھر واپس آیا۔ اس نے ملتان کے قرامطیوں اور جھنگ کے کھوکھروں کو شکست دی۔ ملتان پر کر جاخ نامی گورنر مقرر کیا جو سندھ، ملتان ، کوہستان ، شورکوٹ ، جھنگ ، چنیوٹ کا نگران تھا اور جھنگ کی حکومت ٹوڈر نامی نول سردار کے سپرد کی۔ جھنگ کی تاریخ میں اس قبیلہ کوہ پہلی بار حکومت ملی۔
جھنگ میں غوری عہد کے شہر اور قلعے:
یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ بر صغیر میں سب سے پہلی اسلامی حکومت محمد بن سام معز الدین شہاب الدین غوری نے قائم کی تھی اس سے قبل مختلف حملہ آور آتے اور جاتے رہے عباسی اورفاظمی خلافتوں کا بھی بعض علاقوں – پر کنٹرول رہا مگر غوری نے جس مسلم سلطنت کی بنیاد ڈالی تھی وہ مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے عہد تک کسی نہ کسی شکل میں قائم رہی۔ غوری کا پہلا حملہ ملتان فرقہ قرامطی کی سرکوبی کے لئے تھاوہ درہ گومل کے ذریعے داخل ہوا اور دریائے سندھ عبور کر کے دریائے جہلم کے کنارے کچھی میں خیمہ زن رہا۔ یہاں سے وہ شور کوٹ پہنچا اور پہلی فوجی چھاوئی کی گڑھ مہاراجہ کے میدان میں ڈالی ۔ اسی جگہ بیٹھ کر ملتان کے محاز کے لئے تیاری کرتارہا۔ چنانچہ ان کی فتح کے بعد اپنی اس فوجی چھاونی کو باقاعدہ شہر میں بدلا اس شہر کا نام شاہ نگر تھا۔
غوری نے دوسری مرتبہ حملہ کیا۔ کیونکہ کھوکھروں نے بغاوت کر دی تھی۔ غوری نے اس بغاوت کو رد کرنے کے بعد جہلم کے کنارے اپنی فتح کی خوشی میں ایک نیا شہر اور قلعہ تعمیر کرایا۔ اس شہر اور قلعہ کی دیواریں کھنڈرات کی صورت میں آج بھی ریت کے بلند ٹیلوں کے درمیان موجود ہیں ۔ یہ کھنڈرات تین میل رقبہ پر محیط ہیں اور سات ٹیلوں نے ان کو ڈھانپ رکھا ہے۔ بر صغیر کی پہلی مسلم سلطنت میں یہ پہلے شہر ہیں جو اس علاقہ میں بسائے گئے تھے۔
مغلوں کا حملہ :
جونہی جلال الدین خوارزم شاہ اور کھوکھروں کے درمیان فوجی اتحاد کی خبریں چنگیز خاں کو ملیں اس نے اپنے ایک جرنیل طرطائی کو ہندوستان روانہ کیا ۔ طرطائی تھل عبور کر کے بھیرہ پہنچا ۔ اس نے اہل شہر کو حکم دیا کہ وہ اس کی فوج کے لئے کشتیاں تیار کریں ۔ جب کشتیاں تیار ہوگئیں تو ان میں وزنی پتھر رکھوائے یہاں سے سینکڑوں کشتیوں کے ذریعے دریا جہلم عبور کرتا ہوا کھوکھروں کی ریاست خوشاب پہنچاجہاں اس نے تمام علاقہ تباہ و بر بیاد کر دیا۔ یہاں تک کہ خوراک کے ذخیرے لوٹ لئے ۔ مال واسباب چھین لیا ۔ لوٹ مار کا سامانلیے تریمو پہنچا۔ یہاں ایک ماہ قیام کیا ۔ آس پاس کے قبیلوں کو اپنی حمایت کے لیےبلایا جس قبیلہ نے تعاون سے انکار کیا اسکے سرکردہ افراد کو سرعام قتل کرا دیا۔ نول تقبیلہ کے کئی جوان اس کے ہاتھوں قتل ہوئے اور کچھ روپوش ہوگئے یہاں سے وہ شور کوٹ پہنچا ۔ شہر کو خوب لوٹا ۔ قلعہ سے سامان حرب حاصل کیا اور اس طرح سپاہ لئے ملتان پر حملہ آور ہوا ۔ محنیقوں کے ذریعہ قلعہ ملتان پر سنگ باری اور آتشباری کی قباچہ کو شکست یقینی نظر آرہی تھی۔ انہی دنوں حضرت قطب الدین بختیار کاکی نے ایک تیر قباچہ کو عنایت کیا کہ وہ رات کے وقت دشمن سپاہ کی طرف پھینکے۔ اس نے اسی طرح کیا۔ تیر کا زمین پر گر نا تھا کہ صفوں کے حوصلے پست ہو گئے اور وہ محاصرہ سے دستبردار ہو کر واپس چلا گیا۔
تاج الدین یلدرز کا حملہ بنجاب:
محمد غوری کے بعد غزنی کا وارث تخت پنجاب پر للچائی ہوئی نظر رکھتا تھا۔ اس نے پنجاب پر حملہ کر دیا۔ جونہی یہ سندھ عبور کر کے تھل میں پہنچا۔ التمش نے جھنگ کے نول حکمران کو آگاہ کر دیا ۔ قبول خاں نول ایک لشکر لے کر تریمو گھاٹ عبور کر کے دس میل دور تھل میں خیمہ زن ہوا ۔ اسی طرح کو ہسان سے جنجموعہ خوشاب سے کھوکھر اور شور کوٹ سے کاٹھیا اقوام کے بہادر مقابلے کے لئے پہنچے۔ سلطان التمش بھی شکر جرار لے کر بھیرہ اور پنڈی بھٹیاں کے قبائل کے ہمراہ خود تھل آیا ۔ یہاں سخت لڑائی ہوئی اس میں تاج الدین نے شکست کھائی اور گرفتارہوا ۔ التمش نے اس خوشی میں خوشاب کی حکومت کھو کھروں کو کو ہستان کی حکومت جنجوعوں کو . اموانی تھل کی حکومت میکنوں کو اور جھنگ کی حکومت نولوں کو عطا کی ۔ ان قریبی ریاستوں میں رابطہ کے لئے چنیوٹ کو خاصمقام عطا کیا۔
غیاث الدین بلین:
ناصر الدین محمود کا وزیر الخ خان جو بعد میں سلطان غیاث الدین بلین کے نام سے ہندوستان کا بادشاہ بنا، اصل میں ترکلی النسل غلام تھا۔ جب مغلوں نے اس کا وطن تباہ کر دیا تو وہ بطور غلام مغلوں کے ہاتھ آگیا مغلوں نے اسے سوداگر کے ہا تھ فروخت کر دیا جس سے آگے خواجہ جمال الدین بصری کے پاس پہنچا بصری دیگر سینکڑوں غلاموں کے ہمراہ اسے ہندستان لایا ۔ جب سلطان التمش نے ان غلاموں کو خریدا تو اس نے بلین کو رد کر دیا کیونکہ یہ چھوٹےقدکا سیاہ رنگت تھا۔ بلبن نے التمش سے سوال کیا کہ آپ نے اتنے غلام کس لئے خریدے ہیں، اس نے جواب دیا اپنے لئے۔ اس پر بلین نے کہا کہ مجھے خدا کے لئے خرید لیجیے ۔ بلین کی بات سن کر التمش ہنس پڑا ۔ اور اسے بھی خرید لیا۔ بلین انتہائی ہوشیار چالاک اور زہین تھا التمش نے اسے سقہ مقرر کیا۔ رضیہ سلطانہ نے اسے افسر شکار بنایا۔ پہرام شاہ نے میرآخور کا منصب دیا علاو الدین مسعود نے امیر حاجب مقرر کیا، اورناصرالدین محمود نے اپنا وزیر اعظم بنایا ، یہ بے وارث غلام ہندوستان کا جہاند یدہ بادشاہ بنا الخ خان جب وزیر اعظم تھا اس نے ملتان کی حکومت اپنے چچا زاد بھائی شیر خاں کو عطا کی تھی ۔ ملتان میں ٹبی شیر خاں اسی کے نام سے موسوم ہے سلطان ناصرالدین محمود فوت ہوا تو الخ خاں ہی غیاث الدین بلین کے نام سے بادشاہ بنا۔ اس کے عہد میں جھنگ کو سیاسی عروج ملا۔ اور اس علاقہ میں اسلام کی
تبلیغ وسیع ہوئی.
بابا فرید الدین نفخ شکر:
حضرت با با فرید الدین گنج شکر جو سلسلہ حیثیتہ کے بلند پایہ ولی درویش اور مبلغ تھے۔ صوفیا ہیں چہار یار کی ایک ترکیب مشہور ہے۔ اس میں شیخ الاسلام حضرت بہاؤ الدین ذکریا ملتانی سید مخدوم شیر شاہ منیر سرخ جلال بخاری – حضرت خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر اور حضرت مخدوم لعل شہباز قلندر شامل ہیں یہ حقیقت ہے کہ پنجاب ، دہلی ۔ بنگال بہار اڑیسہ اور دکن میں انہی بزرگوں کی تبلیغ سے اسلام پھیلا گوحکو متیں بیشتر مسلمان تھیں مگر تبلیغ ان ہی کے حصہ میں آئی سلطان غیاث الدین بلین حضرت خواجہ فرید کا مرید بھی تھا اور ان کا مسٹر بھی ۔خواجہ صاحب کا بلبن کے دربارمیں وسیع اثر تھا۔
تیمور سے قبل مغلوں کے حملے:
مغل سرداروں نے تیمور سے قبل پنجاب فتغ کرنے یا پنجاب کی دولت سمیٹنے کے لئے دس زور دار حملے کئے ۔ یہ حملہ آور سندھ کے راستہ سے آتے رہے اور تریمو گھاٹ سے چنیوٹ خوشاب اور بھیرہ کو نشانہ بناتے رہے۔ ان حملوں میں اہل جھنگ کو پوری ایک صدی ٹھیک سکون و اطمینان نہ مل سکا اور اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس طویل عرصہ میں اہل جھنگ پر کیا گزری ہو گی۔
پہلا حملہ:
وہ تھا جب چنگیز خان کی فوج نے جلال الدین خوارزم شاہ کا ہندوستان میں تعاقب کیا۔ گو چنگیز خان نے اُس وقت سند ھ عبور نہیں کیا تھا۔ تاہم جلال الدین کی وجہ سے شورکوٹ ، خوشاب، چنیوٹ کے لوگ متاثر ہوئے ۔
دوسرا حملہ:
مغل سردار سائے نو ئین نے حاکم ہرات سلطان شمس الدین کی فوجی امداد سے ملتان پر حملہ کیا ۔ جس روز وہ ملتان پہنچا مسلمان عیدالضح کی تیاریوں میں مصروف تھے ۔ حاکم ملتان نے حضرت غوث بہاؤ الدین ذکریا کے ذریعہ اس بلا کو ٹالنے کی کوشش کی چنانچہ حاکم ہرات نے خواجہ ذکر یا کی بات مان لی . ایک لاکھ اشرفی خواجہ صاحب نے منگول سردار کو اپنی گرہ سے پیشیں کی جس پر وہ راضی ہو گیا ۔ اور اپنی فوج کوملتان سے واپس لے کر چلا گیا ۔ اس حملہ کا علاقہ کے لوگوں پر براہ راست کوئی اثر نہ پڑا۔
تیسرا حملہ
چنگیر خان کے نواسہ الفوخان نے کیا اس نے پنجاب کو بری طرح نشانہ بنایا۔ جونہی اس کی فوج بھیرہ سے گذر کر دہلی کی طرف بڑھی جلال الدین خلجی نے اس سے صلح کر لی الفو خان مسلمان ہو گیا ۔
چوتھا حملہ:
میں دواخان نامی مغل سردار نے کیا۔ ایک لاکھ فوج تھی تریمو گھاٹ سے گزر کر بھیرہ پہنچا اور زبر دست تباہی مچائی اسے علاء الدین خلجی نےشکست دی۔
پانچواں حملہ:
دوا خان کے لڑکے قتلق خان نے کیا اس نے اپنے باپ کا بدلہ لینے کے لئے جھنگ کے کھوکھروں ۔ جنجو عوں اور سیالوں کو اس طرح قتل کیا جیسے گاجر مولی مگر شاہی فوج کے مقابلہ میں شکست کھا گیا۔
چھٹا حملہ:
مغل سردار ترتاک نے کیا جسے تغلق بیگ نے چنیوٹ کے پاس شکست دی۔
ساتواں حملہ:
ترتاک کے لڑکے کنک نے کیا۔ علاء الدین خلجی کے سالار ملک قازی نے اسے شکست دی اور کنک خوشاب کے پاس قتل ہو گیا ۔
آٹھواں حملہ:
اقبال مند نامی ایک مغل سردار نے کیا اس نے کہ تریمو سے بھیرہ تک لاشوں کے انبار لگا دیے۔ بستیاں جلا ڈالیں یہاں تک کہ جو لوگ خوف کی وجہ سے جنگلوں میں چھپ گئے تھے بھوک کی وجہ سے مر گئے اسے بھیرہ کے قریب شاہی فوج نے شکست دی۔
نواں حملہ:
تیموشین نامی ایک سردار نے کیا زبردست جنگ ہوئی مگر سلطان محمد تغلق نے اس سے صلح کر لی۔
دسواں حملہ:
مغل فوج نے سندھ کے علاقہ میں کوہستان خوشاب، چنیوٹ کو فتح کر لیا مگر بھیرہ کے قریب شکست کھا گیا ۔
شہر جنگ کی تعمیر جدید:
جس جگہ آج کل جھنگ شہر آباد ہے یہاں گھنا اور رسیع جنگل تھا اس کے ڈانڈے ساندل یار سے ملتے تھے۔ ایک چھوٹی سی بستی تھی جیسے خانہ بدوشوں کی جھو نپڑیاں ہوتی ہیں یہاں سے دو میل جنوب مشرق کی طرف بر یمین گڑھ کا قلعہ اور شہر تھا۔ اسی برباد شده قلعہ پر ہیر کا مزار موجود ہے ، چو نکہ رائے سیال اور اس کی اولا دباجازت خواجہ فرید شکر گنج حضرت شیر شاہ جلال بخاری سے بیعت ہو چکے تھے۔ اور سید السادات سال در سال میں عموماً بھیرہ جوشاب چنیوٹ ساہیوال: شاہ پور وغیرہ علاقوں میں آتے جاتے رہتے تھے انہوں نے اس وسیع جنگل میں شہر بسانے کا ارادہ کیا چونکہ جھنگی یا جھانگ کے نام سے یہ علاقہ پہلے ہی مشہور تھا حضرت شاہ جلال نے رائے سیال کی اولاد کو بشارت دی کہ آنے والے وقت میں اس علاقہ یہ تمہاری حکومت ہوگی اس بشارت ہی کے تحت نئے شہر کی بنیاد رکھی اور اس کا نام جھنگ سیالاں رکھا۔ اس کے صرف تین سال بعد شاہ جلال وفات پاگئے ۔
نوٹ:یہ مضمون بلال زبیری کی کتاب ( تاریخ جھنگ ) سے لیا گیا ہے۔