تاریخ شور کوٹ
ضلع جھنگ کی تحصیل شورکوٹ بہت بڑی تاریخی اہمیت کا حامل۔جس کی تاریخ شہر کے پاس مٹی کے بھرے ٹیلوں میں چھپی ہوٸی ہے
325 قبل مسیح سکندر اعظم جب ہندوستان پہ حملہ آور ہوا تو یہاں شورکوٹ بھی آیا شہر جھنگ سے 58 کلو میٹر جنوب میں واقع شور کوٹ ایک قدیم اور تاریخی شہر ہے۔اس شہر کی روحانی اہمیت بھی بڑی اہم ہےحضرت سلطان باہو کے والد حضرت ابو زید محمد اور والدہ حضرت بی بی راستی صاحبہ کے مزارات اس شہر میں ہونے کی بنا پر اسے مائی باپ کاشہر بھی کہا جاتا ہے۔تاریخ کا جاٸزہ لیں تو شورکوٹ جھنگ سے بھی پرانی تاریخ رکھتا ہے۔
تاریخ دان بلال زبیری اپنی کتاب ‘تاریخِ جھنگ’ میں لکھتے ہیں اس کے پرانے ناموں میں۔ سمیر کوٹ، آشور کوٹ، ایشور کوٹ، شیو کوٹ، سور کوٹ، شور کوٹ وغیرہ ہیں اُن کے مطابق یہاں موجود کھنڈرات ثابت کرتے ہیں کہ 10 ہزار سال قبل مسیح میں بھی یہاں زندگی کے آثار موجود تھے اور تاریخ میں یہ بات درج ہے کہ یہ شہر قدیم ترین قبائل سمیریوں، بابلیوں اور آشوریوں کے تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا ہے۔
شہر کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ فرعون سیاستریس نامی سپہ سالار نے اس کی بنیاد 10 ہزار سال قبل مسیح سے بھی پہلے رکھی اور اپنے خدا کے نام سے منسوب کرتے ہوئے اسے ایشور کوٹ کا نام دے دیا لیکن اس بارے میں کوئی واضح تاریخی حوالہ نہیں ملتا۔
شور کوٹ میں داخل ہوتے ہی قدیم قلعہ "بھڑ” کے آثار واقع ہیں جو سمیری قبائل نے آباد کیا اور یہ قلعہ سمیریوں کے بعد کئی دیگر قدیم قبائل آریا، بھیل، دراوڑ اور آشوریوں کا مسکن رہا۔
325 قبل مسیح میں سکندر اعظم جب ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو وہ کئی علاقوں سے ہوتا ہوا شورکوٹ پہنچا اس وقت یہاں کٹھیٹھ اور مل قبائل آباد تھے ۔
مؤرخین لکھتے ہیں سکندر یونانی دو ماہ تک اس قلعے کا محاصرہ کرنے کے باوجود اسے فتح نہ کر سکا تو غصے سے سیخ پا ہو کر اسے بھاری منجنیقوں کی مدد سے تباہ کر دیا۔ (بھڑ کا مطلب تباہ ہونا ہے)
سکندر یونانی کے غیض و غضب سے بچ جانے والوں نے قلعے کے شمال میں مختلف جگہوں پر اپنی الگ سے بستیاں آباد کر لیں۔
تاریخ دان یعقوبی لکھتے ہیں محمد بن قاسم نے جب 712 میں سندھ کو فتح کیا تو اس نے سندھ سے چینوٹ تک کی مختلف ریاستوں کو پانچ صوبوں میں تقسیم کر دیا۔ جن کو روڑ (روہڑی)، ملتان، برہما پور (شورکوٹ)، جندور (چنیوٹ ) کوٹ کروڑ کے نام دئیے گئے۔محمد بن قاسم کے دور میں پہلی بار شورکوٹ کو صوبے کا درجہ دیا گیا اور اس کا پہلا مسلمان گورنر جلال الدین محمود غازی کو بنایا۔
یہاں سے شور کوٹ میں مسلمان دور کا آغاز ہوا۔ محمد بن قاسم کے علاوہ یہ علاقہ عباسی اور فاطمی خلافتوں کا حصہ بھی رہا۔
بلال زبیری لکھتے ہیں کہ مغل بادشاہ شاہجہاں کے عہد میں شورکوٹ، جھنگ اور کوٹ کروڑ کو صوبہ ملتان میں شامل کیا گیا۔
شاہجہاں نے ہی حضرت سلطان باہو کے والد کو ان کی اسلامی خدمات کے صلہ میں قلعہ قہرگان کے قریب دریائے چناب کے کنارے جاگیر دی جس میں شور کوٹ کا بھی کچھ حصہ شامل تھا۔
محققین کے مطابق صوفی بزرگ سلطان باہو کی پیدائش بھی شور کوٹ میں ہوئی جنہوں نے اپنی تصانیف میں اس علاقے کا نام قلعہ قہرگان اور شور شریف لکھا ہے
انگریزوں کے آنے سے پہلے راجہ رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں شور کوٹ کو ضلع جھنگ کی تحصیل بنا کر اس علاقے کی اہمیت اور مرکزی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ انتطامی تبدیلیاں کی گئیں۔
1908 میں شہر سے 11 کلو میٹر پہ ریلوے لاٸن بچھاٸی جسے دو سال بعد ہی جنکشن کا درجہ دے دیا گیا۔ جس سے کراچی تا پشاور ریلوے لائن کی آمدورفت ممکن ہوئی۔
1965 کی جنگ کے دو سال بعد پاک فضائیہ نے شورکوٹ میں ائیربیس قاٸم کی اور کینٹ کا درجہ دیا
شور کوٹ دو حصوں، شور کوٹ شہر اور شور کوٹ کینٹ میں تقسیم ہے۔
اگرچہ یہ شہر مختلف ادوار میں کئی تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے اور تاریخی اعتبار سے بھی یہ شہر پاکستان کے دیگر تاریخی شہروں سے پرانا ہے لیکن بدقسمتی سے اس کی تاریخی اہمیت کو اجاگر نہیں کیا گیا نا ہی یہاں سے ملنے والی تاریخی نوادرات کے لیے ایک میوزیم بنا کے اس کی تاریخی حیثیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔
ہم پاکستانی شورکوٹ کو کینٹ کے حساب سے تو شاید جانتے ہوں لیکن تاریخی اہمیت تہزیبی اہمیت سے شاید ہی کوٸی واقف ہو۔وقت کی اہم ضرورت ہے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا جاۓ جو اس کے تعارف کے ساتھ ساتھ اہم تاریخی اہمیت کو بھی سامنے لانے میں مدد گار ہو اور صدیوں پرانی اس تہزیب کو دنیا کے سامنے لایا جاسکے