کالم

عاصم پورے وسیب کو تنہا کرگیا

صابرعطاء

محمد محمود احمد نے اپنی ایک نظم” اللّٰہ الصمد "میں کہا تھا
"موت کی آنکھیں نہیں ہوتیں یہ ہر صورت میں ہر صورت پہ آتی ہے "
موت سے کسی کو مضر نہیں اس کا ذائقہ ہر ذی روح نے چکھنا ہے اس کا وقت اور لمحہ بھی طے ہے اور یہ راز صرف رب کائنات ہی جانتا ہے
 بحیثیت انسان ہم سب اس پر ایمان رکھتے ہیں ہم سمکھتے ہیں کہ اگر مرنے والا اپنی زندگی کی بہاریں مکمل دیکھ چکا ہے تو اس کے جانے پہ غم کی کیفیت اور طرح کی ہوتی ہے لیکن اگر کوئی جواں مرگ ہوجائے تو اس کا بچھڑنا ایک بہت بڑا صدمہ ہوتا ہے جس کے اثرات تادیر رہ جاتے ہیں۔
بزرگوں سے سنتے ہیں کہ” شالا کسی کی جوان فصل نہ اجڑے "
موت کا حادثہ بن کر آنا اور پھر اس حادثے میں کسی ایسی محبوب ذات کا بچھڑنا جو خاندان کے ساتھ ساتھ معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو واقعی ناقابل برداشت حادثہ ہوتا ہے
سرائیکی وسیب گزشتہ دنوں ایک ایسے ہی حادثے سے دوچار ہوا ہے جس میں سرائیکی وسیب کا جواں سال شاعر عاصم تنہا ہم سب سب سے بچھڑ گیا ہے۔
عاصم تنہا کا اصل نام ماجد خان ہے ماجد خان 27دسمبر 1992ء کو سرائیکی وسیب کے خطے تھل کے ضلع بھکر کے قصبے ڈیلی کراس (چاندنی چوک )میں پیدا ہوئے ۔
ماجد خان نے شعوری زندگی میں اپنا تخلص عاصم رکھا جسے بعد ازاں حوادث کی روشنی میں” تنہا "کا لفظ بھی دان کیا اور یوں ادبی دنیا میں وہ عاصم تنہا کے طور پر سامنے آئے۔
عاصم تنہا کا خاندان ویسے تو چراغ خیل کہلاتا ہے مگر” اخروٹا "برادری کے نام سے تھل میں ایک بڑا قبیلہ گردانا جاتا ہے میانوالی اور بھکر میں اس قبیلے کے کئی خاندان آباد ہیں ۔ان کے خاندان میں میانوالی کے دیگر قبائل  کی طرح قتل و غارت اور جھگڑا عام طور غلط رسم کے طور پر پائی جاتی ہے۔
عاصم تنہا نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں ویٹرنری کا ڈپلومہ کرکے پروفیشنل زندگی اختیار کرلی۔
شاعری کا شوق ہوا تو انہوں نے ابتدا میں سرائیکی دوہڑا نگاری شروع کی طبعیت اردو کی طرف مائل ہوئی تو اردو غزل کے میدان میں اتر گئے جاندار خیالات اور شاندار غزلیاتی تجربات کے باعث عاصم دنوں میں ہی تھل کے ادبی افق پرنوجوان شاعر کے طور پر چھا گئے اسی دوران سرائیکی وسیب کی  ادبی اور انتظامی تحریک سے اختلافی رویے کے باعث خطے میں ایک منفرد آواز کے طور پر بھی سامنے آئے مگر جلد ہی وہ اپنے موقف سے ہٹ گئے اور سرائیکی زبان و ثقافت کے حوالے سے فکری مغالطوں سے دور ہوگئے ۔
عاصم تنہا کی خوبی یہ تھی کہ وہ مکالمہ کا آدمی تھا سوال کرتا تھا اور اس سے بڑھ کر خوبی یہ تھی کہ وہ مباحثوں میں ضدنہیں کیا کرتا دلائل کا قائل تھا اور یہی وصف انہیں ممتاز کرتا تھا ۔
عاصم باتوں کی بجائے محنت اور عمل پہ یقین رکھتا تھا اس کا کہنا ہوتا تھا کہ سوچو اور پھر اس پہ کر گزرو ۔۔۔
گیت نگاری کی طرف آنے کی بھی ایک وجہ تھی ایک بار لاہور میں ایک گیت نگار کی طرف سے انہیں طنز کا شکار کیا گیا ان کی شاعری کو کم تر کہا گیا ویسے بھی اس شاعر کا کمپلیکس ہے وہ اپنے سوا کسی کو کچھ نہیں سمجھتے ۔
بس وہ دن تھا کہ عاصم نے لنگوٹ کس لیا اور گیت نگاری کی طرف نکل پڑے کچھ سالوں کی بات ہے عاصم نے وہ لازوال اور لاجواب گیت لکھے اور ریکارڈ کروائے جنہوں نے عوامی شہرت کے جھنڈے گاڑ دیے۔
عاصم کے مشہور زمانہ گیتوں میں
"اساں دل دے ہتھوں مجبور تھی گئے ہاں۔”
"ماہیا مینوں ونگاں "
مینوں کیتا تنہا تیڈی دوستی”
"سنگتاں”
"طلاق”
وغیرہ شامل ہیں
انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے لیے اور عمران خان کے لیے لاتعداد ترانے بھی تخلیق کیے جن میں مشہور زمانہ ترانہ
"ہم کوئی غلام تو نہیں”بھی شامل ہے بعد ازاں ان لکھے گئے ترانوں کو کتابی شکل بھی دی گئی کتاب کا نام "ہم کوئی غلام تو نہیں "رکھا گیا
انہوں نے ریکارڈنگ اور ریلیزنگ کمپنی بھی قائم کی اور ان دنوں ملک کے ممتاز گلوکاران کو ریکارڈ کرکے اپنے چینل "ناز سٹوڈیو "سے ریلیز کر رہے تھے۔
عاصم تنہا کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند تھی وہ اپنے دکھ اور سکھ ہمیشہ سب کے سامنے رکھا کرتے تھے ۔ناز نام ان کی زندگی میں خوشگوار حیرت بن کر آیا اور پھر ناخوشگوار یادیں چھوڑ کر چلا گیا ان کی اکثر پوسٹیں اور شاعری ناز نام کے گرد گھومتی رہتی تھیں ۔
خوشی اور غمی دونوں کو وہ بھر پور طریقے سے منایا کرتے تھے۔
ان کی وفات بھی ایک ایسا حادثہ تھی جس بارے انہوں نے کچھ دن قبل ویڈیو پیغام کے ذریعے فیس بک پر دوستوں کو آگاہ کیا ۔اس میں وہ دوستوں کو بتا رہے تھے کہ یہ ویڈیو شاید ان کی زندگی کی آخری ویڈیو ہو وہ دوستوں سے معافی کے طلب گار بھی تھے
جمعہ کے روز ان کے قتل کی خبر نے سوشل میڈیا کے ذریعے پورے وسیب جو سوگوار کردیا
اطلاعات کے مطابق چچازاد بھائیوں سے اختلاف ہوا اور چچازاد بھائی سمیع اللہ اخروٹا جو عاصم کے برادر نسبتی بتائے جا رہے ہیں نےعاصم کو قتل کر ڈالا اسی موقع پر عاصم کے بھائی نے موقع پر ہی قاتل کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا
وجہ کوئی اتنی بڑی بھی نہیں تھی مگر نام نہاد انا ،ضد اور جاہلیت نے ایک ہی گھر کو اجاڑ کے رکھ دیا ۔
عاصم سے زیادہ تو نہیں کم ازکم دس ملاقاتیں تھیں عاصم پیار کرنے والا عزت احترام دینے والا بے لوث انسان تھا۔ابتدا میں ان سے سرائیکی وسیب کے حوالے سے  فکری اختلاف رہا مگر ان سے مکالمے ہوئے اور انہوں نے فکری مغالطے دور کر لیے۔
3مئی 2019کو آخری ملاقات ہوئی تھی لاہور میں۔ہم دن بھر اکٹھے رہے موٹر سائیکل پر گھومتے رہے ۔مجھے سٹی ٹرمینل پہ چھوڑنے آئے۔ہم نے کھانا بھی  اکٹھے کھایا ۔
دو ہفتے پہلے ان کی کال آئی کسی گلوکار کے لیے ان کا حکم ہوا تھا کہ موصوف گلوکار کے لیے ایک سو سے زائد گیتوں کو سرائیکی اور  پنجابی میں کمپوز کرنا ہے اور آپ کمپوز کرکے دیں ۔میں نے کہا تعمیل ہوگی کہنے لگے جلد ہی ان گیتوں کے لنک بھیجوں گا۔اس اتوار کو طے تھا کہ ملاقات ہوگی مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا
عاصم وسیب سے محبت کرنے والے،انسان دوست ،معصوم شخصیت کے مالک تھے گیت نگاری کی طرف راغب ہوئے تو دنوں میں ہی شہرت کی بلندیوں پہ پہنچ گئے سرائیکی گیت نگاری میں شاندار اضافے کررہے تھے۔
متعدد نئے چہروں کو گائیکی کے میدان میں متعارف کرایا ۔فرح لعل ،نصیبو لعل،ضیغم عباس ،عون عباس،عمران عباس،شہباز پھپڑہ،خرم ذیشان،انصر خان،ابرار خان کے لیے نغمے لکھے ۔
بہر حال یہ سانحہ پورے وسیب کو سوگ وار کر گیا ہے جواں مرگ موت نے ان مٹ نقش چھوڑے ہیں ۔ہم دعا گو ہیں
اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائیں اور ان کی منزلیں آسان فرمائیں

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com