یہی بہت ہے کہ رائیگانی میں آگیا ہوں
میں دشت حیرت کی سائبانی میں آگیا ہوں
میں ایک کردار ایک معیارِ داستاں تھا
سو دھول ہوتا ہوا کہانی میں آ گیا ہوں
یونہی نہ مجھ کو ہوائیں دے کر سزائیں دو تم
میں جانتا ہوں میں کتنے پانی میں آگیا ہوں
عجب سرابی مسافتیں ہیں یہ عشق وادی
نیا سفر تھا گلی پرانی میں آگیا ہوں
میں حرف مردہ تھا میر ، تیرے ہی معجزے سے
سلیس ہوتا ہوا روانی میں آگیا ہوں