حکیم یا میں انور کوٹ ادو کے بزرگ شاعر ہیں آپ پیرانہ سالی کے باوصف امنگوں اور آرزوں کا چھلکتا ساغر ہیں زندگی کی ہمہ بھی سے لبریز دل آپ کے سینہ میں دھڑکتا رہتا ہے ادبی محافل کا انعقاد ہو، شعری مجالس کا اہتمام ہو یا کسی باہر سے آنے والے دوست کا آدور ہو حکیم صاحب نہ صرف فعال اور متحرک ہو جاتے ہیں بلکہ بہت سوں کیلئے تحرک کا باعث بھی بنتے ہیں آپ کی شاعری متنوع موضوعات پر محیط ہے جس میں حمد، نعت ، سلام، منقبت، قصائد ، مرثیے منظوم شخص نذرانے اور غزل شامل ہے دوسرے لفظوم میں ہم آپ کو ہمہ جہت تخلیق کار بھی کہ سکتے ہیں محکیم جی کے متعلق ہم نے بہت پہلے ایک مضمون لکھا تھا جسمیں آپ کی نعتیہ شاعری اور آپ کی شخصیت کو موضوع بحث بنایا تھا مضمون درج ذیل ہے۔ و حکیم یا مین انور کوٹ ادو کی ہمہ جہت ادبی شخصیت ہیں۔ مشاعروں کا نعقاد، ادبی 4 مباحثوں اور تنقیدی مجالس کے انعقاد میں ہر وقت کوشاں رہتے ہیں مشاعرہ منعقدہ کروانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ، آپ بزم ارتباط کوٹ ارو کے چیئر مین اور بزم اقبال کوٹ ادو کے صدر بھی ہیں مگر سچائی یہ ہے کہ آپ ان عہدوں اور ستائش وصلہ سے بے نیا سراپا ایثار وقتل اور اپنی دنیا میں مست رہنے والے درویش شاعر ہیں کبھی سرائیکی اردو یا پنجابی کے لسانی بکھیڑے میں نہیں پڑے یہی وجہ ہے کہ آپ کے دولت کدے پر نہ صرف اردو بلکہ سرائیکی شعراء کا جم غفیر بھی ہر وقت موجود ہوتا ہے۔ حکیم جی سرا پا شاعر ہیں ہر وقت مصرعے موضوع کرتے رہتے ہیں۔ آپ کا غزل رنگ بھی کلاسیکیت اور جدیدیت کا پیکر ہے آپ کار اور قطعہ نگاری کا اسلوب بھی جدا گانہ ہے آپ غزل غم احمد اسلام ومناقب اور لمیں بھی کہتے ہیں گرفت آپ کا بنیادی موضوع ضمن ہے نعت کہنا بتا سکیل ہے کہ سے کہیں زیادہ مشکل بھی ہے بقول محقق نعت راجہ رشید محمود کہ نعت کہنا پل صراط سے گذرنے کے مترادف ہے نعت کہنے کیلئے جہاں وسعت مشاہدہ مطالعے کی کثرت اور حب رسول” کے عناصر کلیدی اہمیت رکھتے ہیں وہیں محبت میں احتیاط اور اعتدال بھی نعت نگاری کیلئے جزو لازم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نعت نگاری کیلئے شاعر کوزیادہ شعور وآگہی اور محنت دریافت سے کام لینا پڑتا ہے اور خوش قسمت ہیں وہ شعرار کرام حب احمد میں ہمہ وقت سرشار رہتے ہیں ان کا قلم ہر وقت سیرت محمد ، فضائل احمدیت اور کارنامہ ہائے رسول لکھنے کیلئے رواں دواں رہتا ہے حکیم یا مین انور بھی انہیں خوش نصیب اور بخت آور شاعروں میں سے ہیں جن کا موزیست شنائے آقائے دو جہاں رحمت اللعالمین ہے حکیم صاحب کی نعت سچے عاشق رسول کی نعت ہے آپ کی نعتیں آپ کے گہرے مشاہدے اور آپ کے سماجی شعور کی غماز ہیں آپ گہری سوچ بچار اور مطالعے کے بعد قلم اٹھاتے ہیں کبھی سیرت کو موضوع بناتے ہیں تو کبھی صورت رسول کو، آپ کی کبھی ہوئی نعتیں آپ کے مطالعے اور خردمندی کی واضح مثالیں ہیں حکیم جی اس عہد زر میں پھیلتی ہوئی برائیوں کو اسوہ رسول سے دوری کا سبب جانتے ہیں، آپ اپنی نعتوں میں جہاں محبت کیف اور عشق رسول میں ڈوبے نظر آتے ہیں وہیں لوگوں کو بھی دعوت فکر وعمل اور اسوہ رسول اپنانے کی سعی کرتے ؟ بھی نظر آتے ہیں آپ کی نعتیہ شاعری جہاں زبان و بیان اور فصاحت و بلاغت کی عمدہ پیکر تراشی نظر آتی ہے وہیں اس کے باطن میں آپ کے گہرے مشاہدے اور مطالعے اور سرمستی کے عوامل کی بازگشت بھی صاف سنائی دیتی ہے آپ بلبل مدینہ کے روپ میں متن نعت میں جلوہ افروز نظر آتے ہیں ہمہ وقت یاد نبئی میں چہکتے اور نہتے نظر آتے ہیں، کہتے ہیں۔
مدح سراہوں اسی ذات باصاف کیلئے
اٹھے نہ ہاتھ کبھی جس کے بد دعا کیلئے
چارا گروں کو کب سے تمہاری تلاشی تھی
سونی درونِ قلب کا درماں تمہی تو ہو
کولرج کے نزدیک بہت سے شعراء Imagination کے بغیر شاعری کرتے ہیں یعنی قوت متخیلہ سے محروم ہوتے ہیں۔ اور ان کا کلام Fantacy یعنی حصور کا نمونہ نظر آتا ہے جبکہ حکیم جی کے نعتیہ اشعاران کی قادر کلامی اور بھر پور خیل پر دال ہیں مثال کے طور پر ۔
شہر طیبہ کے بام ورور کو سلام کرتیں ہیں میری آنکھیں
آنکھوں آنکھوں میں جانے کس سے کلام کرتیں ہیں میری آنکھیں
مدینے میں جس کو لد مل گئی
اسے مغفرت کی سندیل گئی ہے
کچھ مانگتے نہیں ہیں کسی بھی بشر سے ہم
وابستہ امید ہیں ان کی نظر سے ہم .
حکم جی کی نعتیہ شاعری جہاں حسن لفظی ومعنوی کی حد مشکل ہے وہیں آپ کی لکھی ہوئی نعتیں سلاست اور سہل ممتنع کی بھی ریت روایت کی حامل نظر آتی ہیں آپ سادہ گر پر کار اور پر تا ثر نعتیں لکھتے ہیں تمثال آفرینی ، ایمائیت اور بلاغت کے حوالے سے آپ کے اشعار خاصے اہم اور جدا گانہ اسلوب کے حامل نظر آتے ہیں۔ آپ کے کلام میں جہاں خوش سلیقگی اور ظاہری دیدہ زیبی کے منظر نظر آتے ہیں وہیں کر کے کلام کے باطنی مظاہر یعنی ان میں چھپے عشق کیر مز یاد مصطفی آرزو عقیدت اور سوز دل وغیرہ کو اگر ہم بغور دیکھیں اس امرکی تصدیق ہوتی ہے حکیم یا مین انور نے اپنے باطنی جذبے اور صدق دل سے جو اشعار تخلیق کئے ہیں یقینا جہاں ارباب علم و دانش سے پذیرائی حاصل کریں گے وہیں انھی نجات اور ابرار شہرت کا ذریعہ بھی بنیں گے ۔
جسے عشق شاہ اہم ہو گیا ہے
وہ پابند رسم حرم ہو گیا
ترا کلمه کے زمانے میں انور
خدا کی قسم محترم ہو گیا ہے
باعث تسکین دل ، تسکین جاں تیرا جمال
دونوں عالم میں ہے بحر بیکراں تیرا جمال
چلے ہیں سب کے سب سوئے حرم طلبیدہ طلبیدہ
نہیں جن کا بلاوا سب ہیں وہ نمدیدہ نمدیدہ
حکیم می ایک کعبہ مشق شاعر ہیں ان کی سیمانی بستی کو کسی کل چین نہیں پڑتا یہی وجہ ہے کہ کوٹ ادو سے زیادہ آپ کے احباب کراچی، ملتان ، لیہ ، لاہور اور ملک کے دیگر شہروں میں پائے جاتے ہیں آپ بلا کے سامع تو نہیں البتہ غضب کے مقرر ضرور ہیں موضوعات کے لا مختم سلسلے حکیم صاحب کی زبان سے جب جاری ہوتے ہیں تو سماعتیں لطف دوام کے ساتھ نیند کے خرام کیلئے بھی بے چینی ہو جاتی ہیں صلے اور ستائش سے بے نیازی کا اندازہ محض ایک بات سے آپ لگا سکتے ہیں کہ میں نے برادرم شفیق شاہ سے مل کر حکیم جی کے فن اور شخصیت پر سمینار اور مشاعرہ رکھا بڑی مشکل سے حکیم جی راضی ہوئے مشاعرہ کے کارڈ چھپ گئے مہمانان ومقالہ نگار پنڈال میں پہنچ گئے شاعروں کے قوس در قوس قافلے مقررہ وقت پر حاضر ہو گئے اور ہم انتظار میں ادبی دو لیئے کے کہ وہ آئیں اور ادبی بارات فکر و انجذاب کے انتہ جلو میں آغاز پذیر ہو کر حکیم صاحب نائب جب انتظار سوہان روح ہوا حاضرین محفل میں بیقراری کی لہریں دوڑیں تو ہم چشم زدن میں حکیم صاحب کے گھر آن سکے تو کھلا کہ موصوف گزشتہ رات کراچی تشریف لے گئے ہیں ہم نے کس طرح مقالہ نگاروں اور شاعروں کو سنبھالا ہوگا یہ ایک الگ داستان ہے عرض کرنے کا مطلب
صرف یہ ہے کہ حکیم جی ستائش و صلے سے بے نیازانہ زیست بسر کرتے ہیں۔ تحکیم جی کی شاعری سیدھے سادے واقعات کو مشخص کرتی ہے۔ وہ فلسفیانہ مباحث شاعری میں نہیں چھیڑ تے بلکہ اپنے اردگرد سے مواد اکٹھا کر سکے سلیس پیرائیہ میں بیان کرنے کے قائل ہیں کیونکہ وہ شعریت کے ساتھ ابلاغ کے قائل ہیں نہ کہ بو جھل گراں بار لفظیات کے مثلاً یہ اشعار
مرنا بدل گیا مرا جینا بدل گیا
عمر رواں کیسا تھ قرینہ بدل گیا
آئنوں کے گھر بنے ہیں ٹوٹ نہ جائیں کہیں
دوستوں اور دشمنوں کے ہاتھ میں پتھر نہ دو
اہل دل کا اب جہاں میں آج کل فقدان ہے
دل کا نذرانہ کسی کو بھول کر انور نہ دو
اب ارضی ماحول جس نوع کا نقشہ کر رہا ہے اس کی تلخی سے مفر نہیں مگر حکیم تھی اس کھلی سے شعری اس کشید کر کے اپنی استادانہ روش کو آ شکار کرتے ہیں مثلاً یہ شعر
زباں سے بات کرو جو بھی صاف صاف کرو
ذرا سی بات پہ ہم سے نہ اختلاف کرو
یعنی حکیم صاحب بڑی بات پر اختلاف کو روا سمجھتے ہیں مگر چھوٹی غلطیوں سے درگزری کا حوصلہ بھی رکھتے کیونکہ یہی چھوٹی غلطیاں ہی تو بڑی امراض کا پیش خیمہ ہو اکرتی ہیں حکیم جی کے شعر سادگی پر دلالت کرتے ہیں۔ اگرچہ اب خطوط دل پذیر اور تصویر بتاں کے زمانے لدچکے ہیں مگر حکیم جی اب بھی ماضی کی یاد گاروں کو نہ صرف زادراہ سمجھے ہوئے ہیں بلکہ ان کی غزلیں ایسے انکار سے مملو ہیں جس میں تصویر یار اور نقش و نگار یار ایسے مضامین پڑھنے والے کو محظوظ کرنے کیساتھ ساتھ حکیم جی کی زندہ دلی کا سراغ بھی دیتے ہیں۔ مثلاً حکیم جی کہتے ہیں۔
نہ ساغر نہ مینا نہ جام و سبو ہے
نہ تصویر تیری نہ تو رو برو ہے
شب و روز تیرے تصویر میں گم ہوں
خیالوں میں خوابوں میں بس تو ہی تو ہے
حکیم صاحب کی غزلیہ شاعری گنجلک اور پیچیدہ نہیں ہے اور نہ ہی اس میں معنوی تہہ داری کے عناصر ہیں بلکہ آپ کی شاعری اطراف اکناف میں پھیلے المیوں پر استوار ہوتی ہے اس میں روز مرہ معمولات کے عکوس اور شخصی رویوں کے نقوش دیکھے جاسکتے ہیں حکیم صاحب بڑی سے بڑی کا ئناتی سچائی کو بھی آسان پیرائیہ میں بیان کر دیتے ہیں دوسرے معنوں میں کہا جاسکتا ہے کہ آپ پیچیدگی کو سادگی کے قالب میں ڈھال کر شعر کا ابلاغ آسان کر دیتے ہیں مثلاً
معاف کرنا خدا کا شیوہ
آدمی کا خطا رشته ہے.
موت سے کوئی بچ نہیں سکتا
ہر کسی کا قضا سے رشتہ ہیے
انسانی سیرت میں بگاڑ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان تو کل اور قناعت پسندی ایسی اوصاف سے کنارہ کش ہو کر حریصانہ خواپنا ہے ایسے لیے انسانی پنی نجر ہو کر تھور سوچوں کو جنم دیتا ہے اور انہی تھور سوچوں کے زہر یلے عناصر پورے معاشرے کو متعفن کر کے اخلاقی اقدار کو ملیا میٹ کر دینے پر تل جاتے ہیں اس لیئے انسان کیلئے مناسب یہی ہے کہ وہ راضی بہ رضا ہے کیساتھ خود اعتمادی سے منزل کی جاب بڑھنے کا تعین کرے اور اہل دنیا سے بیر رکھنے کے بجائے تخمیر جہاں کو اپنا ہدف بنا کر اپنے زاویہ نگاہ کی درستی کا سامان کرے۔ حکیم صاحب محبت کے شاعر ہیں اس لئے راستی کی خو اپنا کر اور مسلک و عقائد ماورا ہوکر محبتیں بانٹنے کو کو شعار حیات بنائے ہوئے ہیں حکیم جی زرخلوص بانٹنے کا عمل جہاں ایک طرف انتشار زمانہ کو کم کرنے کی شعوری کاوش کے طور پر اہم ہے وہی لسانی اور گروہی تعصب میں منقسم معاشرہ کو حرب وجدل ایسی کیفیات سے نکال کر دار الامان بنانے کےحوالے سے بھی لائق توصیف ہے۔ مثلاً
میں نے نفرت سے کسی کو آج تک دیکھا نہیں
میری نظروں میں سبھی اہل جہاں محبوب ہیں
محبوب کے کٹھور پن کے تذکرے شاعری کا عمومی موضوع ہیں عینیت پسند (Idealist) حسن کو قائم بالذات سمجھتے ہیں حکیم صاحب کے اشعار میں بھی محبوب کے پر اجلال خدو خال پوری تابانی کیساتھ موجود ہیں محبوب کی رعنائی جمال کے سامنے عاشق کی حالت زار کو اس طرح بیان کرتے ہیں۔
مفہوم تمنا کھو بیٹھے اس حسن کا عالم کیا کہیے
آغاز محبت یاد رہا ، انجام محبت بھول گئے
ہے قیامت کی طرح یار وشب ہجراں طویل
اے خدا دشمن کی بھی قسمت میں تنہائی نہ ہو حکیم جی کوٹ اور شہر کی ادبی محافل کی جان ہونے کے ساتھ ساتھ اس شہرنا پر سال کی آن بھی ہیں ادبی ریہ روایت کو آگے بڑھانے والوں میں آپ کا نام نامی سرفہرست ہے۔ بہت سی ادبی تقیوں کی سرپرستی کیساتھ ساتھ نئے لکھاریوں کا بھی حوصلہ بڑھاتے رہتے ہیں ہم ارتبالا کوٹ اردواور خواجہ فریدا میری فورم کی بھی سر پرستی کر رہے ہیں حکیم جی کی مختلف موضوعاتی شاعری اپنی سلاست اور سہل بیانی کے باوصف موثر ابلاغ کی بھی حامل ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کے اشعار سماجی رویوں کی تصویر ٹور کرتے ہیں حکیم جی کی شاعری لطافت اسلوب اور دل خوش کن لفظیات کے برمحل استعمال کے حوالے سے خاصی اہم ہیں حکیم جی کی خلاقیت اور فی نزاکتوں پر کامل دستگاہ ان کے اشعار سے مترشح ہوتی ہے۔ مثلا اشعار
اپنی پڑی ہوئی ہے ہر اک کو جہان میں
انور نہ اب کسی کو کسی کا خیال ہے
ہمارے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے
کسی کے مشوروں سے ہو رہا ہے
ہمارا آج یہ اج گلشن
ہماری حرکتوں سے ہو رہا ہے
کھو گئے جاکر کبھی کوئے بتاں کے آس پاس
ایک بھی پہنچانہ تیرے آستاں کے آس پاس
انتہائے شوق میں یہ کیا کیئے جاتا ہوں میں
عالم وحشت میں مرمر کر جئے جاتا ہوں میں
کس قدر تم آفریں ہے یہ تمہاری بے رخی
ہائے کیا کیا اپنے سینے میں لیئے جاتا ہوں میں
متکیم ہی جس طرح محمد داعت اہتمام سے کہتے ہیں ویسے ہی موضوعاتی شاعری بھی بصد شوق تخلیق کرتے ہیں بنیادی طور پر آپ نعت کے شاعر ہیں گر موضوعاتی انمیں اور بطور خاص شخصی قصیدہ لکھنے میں بھی آپ کو قدرت حاصل ہے۔ ان کی منظوم مشخص نذرانوں، پر منی کتاب آئینہ شخصیات زیر اتی ہے جس میں حکیم جی نے اپنے سماجی شعور کو بروئے کار لا کر ملک کے نابغہ روزگار ہستیوں کو ہدیہ تبریک پیش کیا ہے اور بطور خاص ان معتبر ہستیوں کے اسماء کو خوبصورتی سے اشعار کے ردیف میں بدل کر اپنی خلاقانہ خوک آ شکار کیا ہے ذیل میں کچھا انتخاب پیش خدمت ہے۔شاعر مشرق علامہ محمد اقبال
ملک و وطن کی شمع شبستاں تمہی تو ہو
شام غزل کی صبح درخشاں تمہی تو ہو
چارہ گروں کو ڈھونڈتی ہے کیوں نگاہ شوق
قلب حزیں کا درد کا درماں تمہی تو ہو
( احمد ندیم قاسمی )
علم وفن کا دوستو معیار تھا احمد ندیم
شعر کی دنیا کا ایک شاہکار تھا احمد ندیم
ہاتھ باندھے تھے کھڑے الفاظ اس کے سامنے
کاروان علم کا سالار تھا احمد ندیم
( بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان )
قوم کے خادم وطن کے رہنما نصر اللہ خاں
کشتی جمہوریت کے ناخدا نصر اللہ خاں
پیکر اخلاص تھے اور پیگیر صبر ورضا
قوم پر تھے جان سے دل سے خدا نصر اللہ خاں
( محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان )
رتبہ ترا ذیشان ہے عبد القدیر خان
ہر دل میں تو مہمان ہے عبدالقدیر خان
تیرا وجود کھٹکا عدو کی نگاہ میں
تو صاحب قرآن ہے عبدالقدیر خان
( جدید طرز احساس کے شاعر افتخار عارف )
سرور و شعر کی رنگیں ادا ہیں افتخار عارف
جہان شعر میں نغمہ سرا ہیں افتخار عارف
ضیائیں علم و فن کی آپ نے ہر سو بکھیری ہیں
جہان شعر کا روشن دیا ہیں افتخار عارف
( محقق، ناقد اور بے بدل افسانہ نگار: ڈاکٹر انوار احمد )
علم کی شمع فروزاں ڈاکٹر انوار ہیں
مثل خورشید درخشاں ڈاکٹر انوار ہیں
رونق بزم ادب آرائش صحن چمن
علم و دانش کا دبستاں ڈاکٹر انوار
( معروف شاعر اقبال ارشد )
مودب مونس و مخلص بڑا اقبال ارشد
مقیم دل میں نگا ہوں میں بسا اقبال ارشد
( معروف شاعر اور محقق پروفیسر افضل صفی )
علم وفن سے آشنا شاعر، ادیب
فن کے سانچے میں ڈھلا افضل صفی
ہیے لبوں پر مسکراہٹ کی کرن
پیکر مہر و وفا افضل صفی
یہ مضمون پروفیسر اعمران میر کی کتاب ” پس غبار "سے لیا گیا ہے
