کوٹ ادو کا ادب

کوٹ ادو: قاسم راز "چراغ انجمن افروز

پروفیسر اعمران میر

قاسم راز کوٹ اور شہر کے معتبر لکھاری ہیں ان کا مضبوط اور متلکم حوالہ غزل ہے غزل کیلئے جس طرح کے لوازمات درکار ہیں راز کی غزل میں وہ لوازمات ایک خاص تہذیبی رچاؤ سمیت موجود ہیں قاسم راز نے اپنی زندگی تخلیقی سطح بر کی انہیں زندگی کی مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے لکڑی کے ٹال لگانے سے یر سولہ سولہ گھنٹے ٹیوشن تک پڑھانا پڑا، فاقے جھیلے اپنوں کی بے اعتنائیوں کے نشتر ہے والدہ ماجدہ، بھائی جان ، بھائی جان اور بھتیجوں کی موت کا صدمہ بہا مگر ان شکن حالات کے باوجود بھی راز عزم اور استقلال کی چٹان ثابت ہوا یقیناً یہ انہی کا حوصلہ تھا ! کوٹ ادو شہر میں جن اصحاب نے مقدور بھراد بی چراغ فروزاں کیلئے ان میں قاسم راز بھی شریک کار ہیں۔ حیات کی تلخیوں سے بھی رس کشید کر نار از کافن خاص ہے ڈاکٹر اے بی اشرف نے میر غالب اور اقبال نامی تنقیدی کتاب میں میر تقی میر کو رنج کشیدہ لکھا ہے اور بات بھی بجا ہے کہ میر صاحب کبھی شش جہت کی مشکی کا مذکور کرتے ہیں تو کبھی دلی اور دل کی بے وقت موت پر نوحہ کناں نظر آتے ہیں میر صاحب اگر چہ حرماں نصیبی کے ذکر سے توجہ اور ہمدردی حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر ات طبع در اربھی نہیں کرنا چاہتے وہ تمام تر قنوطیت کے باوجود تنہا ہی غم کے قائل رہے اگر بنظر غائر دیکھا جائے راز بھی طبعی حالات اور تاریخی عوامل کے تناظر میں رنج کشیدہ انسان کے روپ میں رچے بسے نظر آتے ہیں مگر ان کے جو اس مختل نہیں ہوتے مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ کریں

پلٹ پلٹ کے تجھے بار بار کیا دیکھوں
پس سفر ہے بلا کا غبار کیا دیکھوں

شاعر اگر چہ منزل پر نگاہیں گاڑے پیش بندی کا قائل نظر آتا ہے مگر پس سفر کے غبار سے بھی آگاہی رکھتا ہے اس طرح کے شعر پر تاثیر ہونے کے ساتھ ساتھ پہلو دار بھی ہوتے ہیں اور کثیر المعیت کے حامل بھی ہوتے ہیں کیونکہ لحہ موجود میں رہتے ہوئے زندہ ماضی تک رسائی حاصل کرنا اور پھر مستقبل کی فکر کر نازندہ انسان کا وطیرہ ہے۔ زبان وادب کے متعلق بے شمار دانشوروں کے بے شمار نظریات تاریخ کا حصہ ہیں سوسیئر کا کہنا ہے کہ زبان میں فقط صوتی تضادات ہیں اور تصورات جو اس کے اپنے نظام کی رو سے کارگر ہیں یعنی زبان ایک(Form) ہے جو ہر یا مادہ (Substance) نہیں یہ ساخت ہے جس کے اپنے طور طریقے (Modes) ہیں جبکہ مارکس کا کہنا ہے ثقافت کے دوسرے شعبوں کی طرح ادب بھی جدلیاتی عمل اور تفاعل (Imteraction) کے ذریعے پیداوار کے رشتوں کو منسلک کرتا ہے جبکہ بے بیباک نظریہ ساز اور نکتہ رس ساختیاتی ناقد رولاں بارتھ Rolamd) (Barthes معنی کی وحدت کے خلاف ہے اس کے خیال میں ادب اشیاء عوامل کی معنی خیزی (Signification) کا پیغام ہے۔ محض معنی کا نہیں ادھر جمالیات کے نظریہ ساز کروچے جو فلسفہ جمالیات میں اظہاریت(Expressiomism) کا سب سے بڑا علمبردار شمار ہوتا ہے وہ منطق کے بجائے جمالیاتی اقدار پر زور دیتا ہے۔ یہ دلچسپ افکار و نظریات انسان کی سمت نمائی کیلئے اہم ثابت ہو سکتے ہیں اگر دقت نظری سے ان افکار کو پرکھا اور سمجھا جائے۔۔۔ راز کی شاعری اگر چہ نہ تو ماضی کی ماضیت ہے اور نہ ہی تاریخیت زدہ ہے بلکہ جس جمال کی شاعری ہے جس میں شاعر نے منائی سے کام لے کر لفظوں کے آہنگ اور ترتیب و توازن سے کائناتی سچائیوں کو تصویر کرنے کی فنکارانہ مساعی کی ہے کیونکہ خلاق شاعر موجود حسن کو محض فروع ہی نہیں دیتا بلکہ وہ معمولی مواد سے بھی حسن تخلیق کر سکتا ہے قاسم راز کی شعری کائنات فطری رنگوں سے مزین ہے جس طرح ارضی عرفان کی مفقود ہوتی صورتیں انسان کی پہنی انتشار پذیری کا سبب بن رہی ہیں اور انسان کشاکش حریصانہ کی وجہ سے پندار اور اقدار کو خیر باد کہہ کر جس طرح کے اعمال کر یہ سرانجام دے رہا ہے اسکے نظائر قاسم کی غزل کا موضوع ہیں ہوا میں بارود گھلنے کی ہو نگاہوں کی ریزی کی اور روح کے نوحوں کی صدائے بازگشت راز کی غزل کو تحیر سے جوڑ دیتی ہے۔

ہوا کے لمس سے رنگینیاں نہ جھڑ جائیں
مرے گلاب تیرے پتیاں نہ جھڑ جائیں
میں لکھ رہا ہوں ابھی تک تو روح کا نوحہ
پھر اس کے بعد مری انگلیاں نہ جھڑ جائیں

راز کی غزل حریت اور استقلال کے استعاروں سے مزین نظر آتی ہے۔ عہد تاریک میں خیر محض کو ڈھونڈ نا کفر والحاد سے بیچ کر انسانیت کا دم بھرنا لوگوں کو حدود دائروں سے نکالنے کی مساعی کرنا اور اپنے احساسی جذبوں سے انسان کو ممسک کرنا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاتال غم میں جھانک کر زندگی کو پکارنا یہ کام شاعر کے بے پایاں حوصلوں پر دلالت کرتا ہے راز کی شاعرانہ فکر زندگی اور زندگی کے متعلقات سے جڑ کر نہیں بھر پور غزل کومنانے کیلئے کارگر ثابت ہوگی  نمونہ کلام غموں کے اندھے کنویں میں جھک کر صدا لگائی تھی زندگی کی جواب آیا یہاں پہ زندہ کوئی نہیں ہے کوئی نہیں اے

تم کو ہے اہل مظالم کی خوشامد مطلوب
تم کسی طشت میں رکھ کر مرا سر لے جانا
کوئی آیا ہے جس کے آنے
راز چہروں رنگ آیا ہے
بے خبر میں تھا ، وہ مجھ سے باخبر پہلے سے تھا
وقت کی دیوار میں قسمت کا در پہلے سے تھا
حال پوچھا ہے تو سب زخموں کے لب ہلنے لگے
مجھ میں یہ اعجاز اظہار ہنر پہلے تھا

 

یہ مضمون پروفیسر اعمران میر کی کتاب ” پس غبار "سے لیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com