کالم

تھل کی معدوم ہوتی ثقافت

محمد آصف کھرل

محمد آصف کھرل

تھل کا علاقہ ایک وسیع اور تاریخی خطہ ہے جسے اپنی منفرد ثقافتی ورثے کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ علاقہ صحرائی نوعیت کا ہے اور یہاں کی ثقافت بھی قدرتی مناظر اور ماحول سے گہرے طور پر جڑی ہوئی ہے۔ مگر، جدیدیت، معاشرتی تبدیلیوں اور دیگر عوامل کے سبب تھل کی ثقافت آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جا رہی ہے۔تھل کی مقامی زبان سرائیکی ہے، جو یہاں کی ثقافتی شناخت کا ایک اہم حصہ ہے۔ سرائیکی زبان کی اپنی ایک مخصوص لسانی اور ادبی وراثت ہے جو یہاں کے لوگوں کے روزمرہ کے مکالمے، شاعری اور گیتوں میں جھلکتی ہے،تھل کی روایتی موسیقی اور رقص علاقے کی تقریبات اور تہواروں میں ایک مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہاں کے لوگ جھومر اور لدڈا جیسے روایتی رقص کرتے ہیں۔ جھومر ایک اجتماعی رقص ہے جو خوشی کے مواقع پر کیا جاتا ہے، جبکہ لدڈا شادی بیاہ اور دیگر خوشی کے مواقع پر خاص طور پر کیا جاتا ہے،تھل کی دیہی زندگی میں مختلف تہوار اور تقریبات کی بڑی اہمیت ہے۔ بیساکھی، میلے اور عیدیں یہاں کی روایتی تقریبات میں شامل ہیں جہاں مقامی لوگ اپنی ثقافتی روایات کے ساتھ مل جل کر خوشیاں مناتے ہیں علاقہ تھل کے لوگ مختلف دستکاریوں میں ماہر ہیں جیسے کہ کپڑوں پر کڑھائی، چادروں کی بُنائی،یہ دستکاریاں نہ صرف ان کے روزمرہ کی ضروریات پوری کرتی ہیں بلکہ ان کی ثقافتی شناخت کی بھی نمائندگی کرتی ہیں۔مگر اب تھل کی ثقافت معدوم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ تھل کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بہتر روزگار اور تعلیمی مواقع کی تلاش میں شہروں کی طرف ہجرت کر رہی ہے۔ اس ہجرت کے نتیجے میں دیہی علاقوں کی آبادی کم ہوتی جا رہی ہے اور یہاں کی روایتی ثقافت ماند پڑ رہی ہے جدید تعلیم اور طرز زندگی نے نوجوان نسل کو روایتی طریقوں سے دور کر دیا ہے۔ وہ جدیدیت کے اثرات کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں اور اپنی مقامی ثقافت سے دور ہوتے جا رہے ہیں، میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے مغربی ثقافت کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے جس سے مقامی ثقافتوں کی قدر کم ہو رہی ہے۔ لوگ ٹیلی ویژن، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور اپنی روایتی ثقافت کو کم ترجیح دیتے ہیں ، معاشرتی اور اقتصادی تبدیلیوں کے باعث روایتی رسم و رواج اور طور طریقے بدل رہے ہیں۔ جدید زندگی کے تقاضے اور تیز رفتار ترقی نے لوگوں کے طرز زندگی میں نمایاں تبدیلیاں پیدا کی ہیں
تھل کی ثقافت کو محفوظ رکھنے کے لئے مقامی سطح پر ثقافتی میلوں اور تقریبات کا انعقاد کیا جانا چاہیے جہاں لوگ اپنی روایتی موسیقی، رقص، اور دستکاریوں کا مظاہرہ کر سکیں۔ یہ میلے نہ صرف ثقافت کی ترویج کریں گے بلکہ مقامی لوگوں کو اپنی جڑوں سے جڑے رہنے کی ترغیب بھی دیں گے، مقامی ثقافت اور تاریخ کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے تاکہ نئی نسل اپنی جڑوں سے جڑی رہے۔ یہ نصاب بچوں کو اپنے ورثے کے بارے میں آگاہی فراہم کرے گا اور ان میں ثقافتی فخر کا احساس پیدا کرے گا۔مقامی میڈیا ، ریڈیو اسٹیشن، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو تھل کی ثقافت پر مبنی پروگرامز اور مواد نشر کرنا چاہیے تاکہ لوگ اس ثقافت سے واقف ہوں اور اسے زندہ رکھ سکیں ، حکومت کی طرف سے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لئے فنڈز اور منصوبے متعارف کرائے جائیں۔ مختلف سطحوں پر حکومتی تعاون سے ثقافتی میلوں کا انعقاد، دستکاری کی تربیت، اور ثقافتی مواد کی نشرواشاعت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔غیر سرکاری تنظیمیں اور سماجی ادارے بھی ثقافتی ورثے کے تحفظ میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان اداروں کو مقامی ثقافت کی بحالی اور ترویج کے لئے مختلف منصوبے شروع کرنے چاہئیں۔تھل کی معدوم ہوتی ثقافت ایک اہم مسئلہ ہے جسے فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ اگرچہ جدیدیت اور معاشرتی تبدیلیاں ناگزیر ہیں، مگر ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کے لئے مناسب اقدامات ضروری ہیں۔ ثقافتی میلوں کا انعقاد، تعلیمی نصاب میں ثقافت کی شمولیت، میڈیا کی مدد، حکومتی سرپرستی، اور معاشرتی آگاہی جیسے اقدامات سے تھل کی ثقافت کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ یہ ورثہ نہ صرف ہماری تاریخ اور روایات کا آئینہ دار ہے بلکہ ہماری شناخت کا اہم حصہ بھی ہے۔ ہمیں اس ثقافت کو زندہ رکھنے اور اسے آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کے لئے مل کر کوشش کرنی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com