سال 2017 سے تشکیک والے معاملات شروع ہوئے، عموماً دوستوں کی جانب سے ڈاکٹر زاکر نائیک کو سننے کا مشورہ دیا جاتا۔ میں نے ان کے بہت سارے سیشنز سنے مگر کبھی تشفی نہیں ہوئی۔ تقابلِ ادیان پر تو شاید وہ کسی گیند پر اچھی شاٹ لگا لیں مگر اسلام یا کسی بھی مذہب کو فطری یا آفاقی دین ثابت کرنے میں وہ نئی پیکنگ میں پرانے مولوی ہی ہیں۔
ایک سادہ لوح بزرگ نے کسی سیشن میں ان کے سامنے ایک مشہور حدیثِ قدسی "میں چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے چاہا پہچانا جاؤں” کی بابت کچھ سوال کیا کہ اس حساب سے ہمیں خدا کی نہیں خدا کو ہماری ضرورت ہے، حالانکہ ڈاکٹر صاحب اس حدیث کی صحت کو بھی رد کرکے آسانی سے بڑھ سکتے تھے، مگر انہوں نے سادہ آدمی کو الجھانے کیلئے "ہر علت کا معلول ہوتا، معلول کی علت ہوتی ہے” جیسی کڑچھی گھما کے اپنی کھچڑی دھر لی۔ حالانکہ سورہ الذاریات واضح کرتی ہے "ہم نے انسان اور جنات کو اپنی عبادت یا اپنی معرفت کیلئے پیدا کیا۔ اس آیہ کی صورت بھی بزرگ کا مقدمہ موجود رہتا ہے کہ ہماری عبادات ہماری نہیں بلکہ خدا کی ضرورت ہے۔
کل گورنر ہاؤس سندھ میں ہوئے اجتماع میں اداکارہ یشما گل نے تقدیر کے حوالے سے ایک عام سا سوال کیا "جب تقدیر پہلے سے لکھی جا چکی اور خدا سب جانتا بھی ہے تو پھر ہمارے اعمال کی ذمہ داری ہم پر تو عائد نہیں ہوتی”۔ ڈاکٹر صاحب اپنے مخصوص انداز میں گویا ہوئے "اللہ تعالیٰ کو غیب کا علم ہے، اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ انسان نے اپنی زندگی میں کونسے کام کرنے ہیں پھر چاہے وہ کام اچھے ہوں یا غلط۔ مزید کہنے لگے کہ انسان وہ نہیں کرتا جو اللہ تعالیٰ نے اس کی تقدیر میں لکھ دیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے وہ لکھا ہے جو انسان نے کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو غیب کا علم ہے اور اللہ جانتا ہے کہ فلاں شخص اپنی زندگی کے کس موڑ پر کیا فیصلہ لے گا۔
او بابا پھر امتحان گاہ، عدالتی کارروائی، سزا جزا سب کچھ وقت گزاری کی مشق کے سوا کچھ نہیں، جیسے ہم پنجابی اکثر نا کرنے والے کام یہ کہہ کر لیتے ہیں کہ "چلو شغل ای سئی”۔ حرم کے باہر عورت کی عزت کیلئے جواز نہ ہونا یا کسی سوال پر معافی منگوانا جیسے عوامل نکال بھی دیں تو ڈاکٹر صاحب کا کوئی سیشن بغور سن لیں، نئی پیکنگ میں پرانا مولوی ہی ملے گا۔