مظفر گڑھ

ضلع مظفر گڑھ تاریخ کے آئینے میں

مظفرگڑھ سے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلوں پر مبنی خبریں،تبصرے اور تجزیے
جنوبی پنجاب کا ایک شہر ہے۔ یہ دریائے چناب کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔یہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا 39 واں بڑا شہر ہے۔ ضلع کی تحصيليں جن ميں مظفرگڑھ، علی پور، جتوئی، چوک سرور شہید شامل ہيں

2017ء کی مردم شماری کے مطابق آبادی 26 لاکھ ہے ۔ ضلع مظفر گڑھ میں عمومی طور پر سرائیکی(٪86.3)، اور بلوچی، پنجابی رانگڑی اور اردو وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 8249 مربع کلومیٹر ہے۔

مغل سلطنت کے زوال کے بعد سکھوں نے ضلع مظفرگڑھ فتح کیا۔ 1848ء میں برطانوی راج نے یہاں کی حکومت سنبھالی۔

مظفرگڑھ کا پرانا نام موسن دی ہٹی تھا۔ یہاں نئے شہر کی بنیاد اس وقت کے ملتان کے گورنر نواب مظفر خان نے 1794ء میں رکھی۔

” ملتان سے دس میل دور مظفر آباد کا قصبہ آباد کیا مزید دس میل آگے دریائے چناب کے دائیں کنارے ایک دکان تھی جہاں سے مسافر خوردونوش کی اشیاء لیتے تھے خاص کر وہاں کی کھجور مشہور تھی اور رات کو وہاں قیام کرتے تھے مالک کا نام موسن تھا اسلئے دکان کا نام موسن دی ہٹی تھی۔ یہ ہٹی (دکان) چناب سے ڈیرہ غازیخان جاتے ہوئے راستہ میں تھی۔ نواب محمد مظفر خاں نے اس ہٹی سے نصف میل کے فاصلہ پر 1798ء میں قلعہ تعمیر کروایا پھر شہر آباد ہو گیا اس طرح قلعہ اور شہر مظفر گڑھ کی بنیاد رکھی گئی

مظفرگڑھ کا مطلب ”مظفر کا قلعہ“ ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ تاریخی شہر نواب مظفرخان نے قلعے کی چار دیواری میں تعمیر کیا تھا۔1864ء میں یہ ضلع مظفرگڑھ کا صدر مقام بن گیا۔ اس جگہ کو ”کالا پانی“ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ جگہ دو دریاؤں دریائے سندھ اور دریائے چناب کے درمیان واقع ہے۔ برطانوی دور میں اسے پلوں کے ذریعے مضافاتی علاقوں سے ملایا گیا۔ پاکستان کی تحریک آزادی کے دوران اس علاقے کے مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کی حمایت کی۔ 1947ء میں جب پاکستان کو آزادی ملی تو اس علاقے کے ہندو اور سکھ بھارت ہجرت کر گئے جب بھارت سے آنے والے مسلمان مہاجرین مظفرگڑھ کے علاقے میں بھی رہائش پذیر ہوئے۔

اگر اس کی قدیم تاریخ پہ نظر ڈالی جاۓ تو یہ آبادی اور اسی ضلع کی قبل از مسیح کی ہے جس پہ بہت سی حکومتیں ہوٸی بہت سے عروج زاول دیکھے اور آج یہ شہر یا ضلع ہمارے سامنے اپنی تاریخ لیے کھڑا ہے

سندھ تہزیب کے دور میں مظفرگڑھ کا علاقہ زرعی اور جنگلاتی تھا۔ اس کے بعد ویدک دور آیا۔ اس دور کی خاص بات پنجاب صوبہ میں ہند آریائی لوگوں کی آمد تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قدیم قصبے اور گردونواح کے اضلاع میں کئی دوسری تہذیبیں حکومت میں آئیں۔ ان میں اہم کمبوجہ، داراداس، کیکایا، مدراس، پوراوا، یودھیا، ملاوا اور کرو مملکت شامل ہیں۔

331 قبل مسیح میں ہخامنشی خاندان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سکندر اعظم نے 50 ہزار سپاہیوں کے ساتھ آج کے صوبہ پنجاب کا رخ کیا۔ مختلف ادوار میں مظفرگڑھ موریا سلطنت، مملکت يونانی ہند، کشان سلطنت، گپتا سلطنت، ہیپھتھال، کشان ساسانی بادشاہت، ترک شاہی اوربرہمن شاہی حکومتوں کے حکمرانی میں رہا۔

وقت گزرتا گیا اور پھر 997ء میں محمود غزنوی نےسلطنت غزنویہ کا انتظام سنبھالا اور1005ء میں کابل سلطنت کو فتح کیا، اور ساتھ ہی پنجاب پہ بھی حکمرانی قاٸم کی۔ سلطنت دہلی اور مغلیہ سلطنت نے بھی مظفرگڑھ کے علاقے پر حکومت کی۔ ان ادوار میں مظفرگڑھ کا موجودہ علاقہ مسلم اکثریتی علاقہ رہا۔ اس کی وجہ اس وقت بھی اس علاقے میں موجود مبلغین اور صوفیائے کرام تھے، جن کی درگاہیں آج بھی اس علاقے میں موجود ہیں۔ (اور ان ہستیوں میں سے کافی کا زکر پہلے پیج میں موجود پوسٹس میں ہو چکا ہے اور باقی بھی بہت جلد ترتیب سے ہوتا رہے گا)

موسمی اعتبار سے گرم خشک موسم پورا سال رہتا ہے ملتان کی طرح یہاں بھی آم اچھی مقدار میں ہوتا ہے یہاں کٸ ایک مشہور شخصیات گزری ہیں جن میں 19 صدی میں مشھور شخصیت سردار کوڑے خان جتوئی بلوچ تھے۔جو 1400 مربع زمین کے مالک تھے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com