یوں تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں ہندوستان کا پورا ملک ہی غریبی اور بے بسی کی تصویر تھا تا ہم مظفر گڑھ کچھ زیادہ ہی غربت و افلاس کا شکار رہا ہے۔ اگر عالمی سطح پر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا کے تمام ممالک ترقی کی ارتقائی منازل طے کرتے دیکھے جاتے ہیں۔ 1906ء میں امریکہ جیسے ملک کی حالت یہ تھی کہ پکی سڑکوں کی لمبائی 144 میں تھی اور موٹر کاروں کی تعداد صرف آٹھ ہزار تھی۔ پچانوے فیصد بچے گھر میں پیدا ہوتے تھے۔ جمی کارٹر امریکہ کے پہلے صدر تھے جو ہسپتال میں پیدا ہوئے۔ صرف دس فیصد گھروں میں بجلی تھی اور ہمیں فیصد گھروں میں نلکوں نہیں پانی آتا تھا۔ دس میں ہے ایک گھر میں شاور اور باتھ ٹپ ہوتے تھے۔ اسی طرح ضلع مظفر گڑھ میں بھی 1905 ء تک نہ تو کوئی صنعتی ادارے تھے اور نہ ہی ذرائع آمد ورفت کی بہتر سہولت میسر تھی۔ لوگوں کی گزر اوقات کھیتی باڑی پر تھی جو کنوؤں کے پانی سے کی جاتی تھی، کوئی مستقل نہری نظام موجود نہ تھا۔ دیہاتی علاقوں میں نوے فیصد کچے مکانات تھے جن میں گھاس اور کانے کے بنے ہوئے چھپر اور گریڑے بھی شامل ہیں ۔ صحت اور تعلیم کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں لوگ قرضوں کے بوجھ میں دبے ہوتے تھے ۔ 1951ء میں ضلع میں تعینات مسعود کھدر پوش ڈپٹی کمشنر نے جو صورت حال بیان کی ہے وہ اس طرح ہے: مظفر گڑھ میں ضلع بھر میں زرعی اراضیات کا بیشتر حصہ زمینداروں اور جاگیر داروں کی ملکیت تھا جو مزارعین کے ذریعے کاشت کرتے تھے کسی بھی مزارع کو یہ اختیار نہ تھا کہ وہ زمیندار یا جاگیردار کی اراضی کے خلاف کاشت کے سلسلے میں مناسب منصوبہ بندی کر سکے۔ دو آبہ میں زمیندار غریبوں کی زمینوں پر ناجائز قابض تھے۔ علاقہ بدھ کے ہمدانی لوگوں پر ظلم کرتے تھے اور انہیں سندھ بھجوا دیتے تھے۔ 1964ء کے گزیٹر کے مطابق جب بورڈ آف اکنامک انکوائری نے 1955ء میں سروے کیا تو پتہ چلا کہ پانچ دیہاتوں میں فی خاندان کے ذمہ 5750 روپے قرضہ تھا۔ جب پنجاب میں یہ رقم 414 روپے بنتی ہے مختلف ذرائع سے قرضہ کی صورتحال کا ضلع مظفر گڑھ کا دیگر پنجاب کے اضلاع سے جو موازنہ کیا گیا اس کی وضاحت اس گوشوارے سے ہوتی ہے۔ تاہم 1964ء کے بعد ضلع میں تعمیر و ترقی کا آغاز ہوا۔ بجلی کی فراہمی کا آغاز ہوا سڑکوں کی تعمیر شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ کارخانے لگنے شروع ہوئے ۔ اس طرح معیار زندگی میں تبدیلی کا عمل شروع ہوا۔ اس کے ساتھ زرعی شعبہ میں بھی روایتی طریقوں کے بجائے جدید مشینی کاشت شروع ہوئی اور نہری نظام میں بھی تو نسہ بیراج کی تعمیر سے تبدیلی آئی اور فصلات کیلئے پانی کی فراہمی شروع ہوئی ۔ ترقی کا عمل آہستہ روی سے جاری رہا جس کی مکمل تفصیل آئندہ ابواب میں شعبہ وار بیان کی گئی ہے تاہم 1998 ء کی مردم شماری کے مطابق اب 61.25 فیصد لوگوں کو بجلی کی سہولت حاصل ہے کھانا پکانے کے لیے 77 فیصد لکڑی 1.61 فیصد مٹی کا تیل تقریباً 4 فیصد گیس جبکہ سولہ فیصد دیگر مختلف ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔ چھ فیصد لوگوں کو صاف پانی پینے کی سہولت میسر ہے جب کہ پختہ مکانات کی تعمیر پچاس فیصد سے زائد ہے۔ اس زرعی اور صنعتی ترقی کی بناء پر لوگوں کے لباس طرز معاشرت، رہن سہن اور معیار زندگی میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ دیہاتوں میں سڑکیں اور سولنگ بنی ہیں۔ تعلیم، صحت اور آمد و رفت میں سہولتیں مہیا کی گئی ہیں اور ضلع کے لوگوں کو ان سہولیات کی فراہمی سے ترقی کے مواقع میسر آئے ہیں، لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم کی وجہ سے ضلع کے لوگ سرکاری ملازمتوں میں آئے ہیں، پولیس، فوج، سول بیورو کریسی انجینئر نگ میڈیکل وغیرہ کے شعبہ میں یہاں کے لوگوں کی شمولیت سے ضلع کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس طرح کل گاڑیوں کی تعداد 102703 ہے۔ البتہ ضلع میں دسمبر 2012 تک کو کی بھی ڈبل کیبن ، پجار ویا آئل ٹینکر رجسٹرڈ نہ ہوا ہے۔ ضلع کے بیشتر مقامات پر سوئی گیس کی سہولت موجود ہے جب کہ چھوٹے بڑے اکتالیس ٹیلی فون ایکس چینج کام کر رہے ہیں۔ ضلع ریل اور سڑک کے ذریعے پورے ملک سے منسلک ہے چاروں صوبوں کو جانے والی ریل اور سڑک کی ٹریفک یہاں سے گزرتی ہے۔ ضلع میں 2001 ء سے 2010 تک بہت ترقیاتی کام ہوئے ہیں۔ خصوصاً بجلی کی فراہمی میں بہتری آئی ہے۔ انہی سالوں میں بہت سے دیہات کو بجلی فراہم کی گئی۔ جس سے معیار زندگی میں بہتری آئی ہے۔ یہ صورت حال لوگوں کے رہن سہن اور معیار زندگی میں تبدیلی کی نشانی کرتی ہے۔ 1947 میں لوگ دیہاتوں میں کنوئیں سے پانی لیتے تھے اور صاحب ثروت لوگوں کے پاس ہینڈ پمپ ہوتا تھا۔ آمد ورفت کیلئے گھوڑا ، اونٹ ، گدھا اور بہت کم سائیکل استعمال ہوتی تھا۔ مکانات زیادہ تر کچے اور دیہاتوں میں تو گھروں کے باہر چار دیواری بہت کم ہوتی تھی۔ لباس اور خوراک بہت سادہ تھی۔ البتہ محنت مشقت کی بدولت اور دیسی گھی ہی مکھن کہ وجہ سے صحت کا معیار بہت اچھا ہوتا تھا۔ تا ہم اب شہر ہو یا دیہات انداز معاشرت میں حیرت انگیز تبدیلی آئی ہے۔ مکانات پختہ بنتے جارہے ہیں۔ ہر گھر میں واٹر پمپ جبکہ بجلی والے دیہاتوں میں پانی کی الیکٹرک موٹریں ہیں۔ آمد و رفت کیلئے سائیکل ، موٹر سائیکل اور کاریں تک موجود ہیں۔ بیشتر مکانات پختہ نظر آتے ہیں۔ بصیر، گودر، کرم داد قریشی، گجرات ، سنانواں ، دائرہ دین پناہ ، جوک سرور شہید ، بیٹ میر ہزار ، پرمٹ وغیرہ پر کرائے کی کار میں دستیاب ہیں۔ ان کا کثرت سے استعمال اس بات کا غماز ہے کہ اب دیہاتی علاقوں میں بھی لوگ اشد ضرورت کے تحت کارمیں کرائے پر لیتے ہیں۔ شادی بیاہ کی رسومات پر اب اونٹ یار بڑھی کے بجائے کاریں ٹریکٹر ٹرالیاں استعمال ہوئی ہیں۔ مٹی کے برتن کا استعمال تقر یا متروک ہو چکا ہے۔ امیر غریب بھی کسی کے بجائے چائے پیتے ہیں۔ چائے کے ٹاک جابجا نظر آتے ہیں۔ جہاں صبح سے شام تک لوگوں کا رش رہتا ہے۔ چائے کی پیالی کی قیمت اسوقت پندرہ روپے ہے۔ گڑ اور شکر تو اس وقت کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔ ہر جگہ چینی استعمال ہوتی ہے۔ خواہ اس کی قیمت میں روپے ہویا اسی روپے۔ آج کے مہنگائی کے دور میں لوگ پھر بھی گھروں میں ٹیلی ویژن ، استری، پنکھا استعمال کرتے ہیں اور مہنگائی کے باوجود زندہ ہیں۔
معیار زندگی کی تبدیلی صرف رہائشی مکانات ، لباس ، معاشرت سے ہی نہیں ہے۔ بلکہ زرگی شعبہ میں تبدیلی بھی اس کی بڑی علامت ہے۔ 1960 ء سے پہلے لوگ ہل چلانے کیلئے بیل استعمال کرتے تھے۔ کھیتوں کو پانی دینے کیلئے کنوئیں استعمال میں لائے جاتے تھے کیونکہ نہروں کا ششماہی نظام تھا۔ تونسہ بیراج کے 1958ء میں بننے کے بعد اور پھر سکارب کے ٹیوب ویل لگنے سے فصلوں کیلئے پانی ملنا آسان ہو گیا اور کنوئیں بند ہو گئے۔ ای جدید فارمنگ کا آغاز 1970ء کے عشرے سے ہوا اور بیلوں کی جگہ ٹریکٹر کا استعمال شروع ہوا۔ اس وقت تمام کا شتکار مستاجری اور مزارعے جنکا زیر کاشت رقبہ دس ایکڑ سے زیادہ ہے وہ ٹریکٹروں کے مالک ہیں جبکہ باقی لوگ بھی کرایہ پر ان سیٹر یکٹر حاصل کرتے ہیں۔ چونکہ گزشتہ کئی ماہ سے تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہو رہا ہے۔ اس لئے اب فی ایکڑ سے ہل چلانے کا کرایہ چھ سو روپے فی ایکٹرافی بل ہے۔ جدید صنعتی آلات کے استعمال سے فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ شوگر فیکرو یوں اور کاٹن جنٹینگ ملز کے لگنے سے قیمتیں بھی بہت بڑھ گئی ہیں۔ گندم کی سرکاری قیمت سال 2011ء میں 950 روپے فی چالیس کلو گرام تھی جبکہ 2012 میں یہ قیمت 1200 روپے سرکاری طور پر مقرر کی گئی ہے۔ گنے کی قیمت خرید 175 روپے فی چالیس کلو گرام ہے۔ اس سے زمین کی قیمتوں اور مستاجری کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس سنانواں، گجرات اور بدھ سے لیکر بیت میر ہزار اور جھگی والا تک زمین کی مستاجری آٹھ ہزار روپے فی ایکڑ فی سال سے لیکر پچیس ہزار روپے فی ایکڑ تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح ضلع نے لائیوسٹاک کے شعبہ میں بھی بہت ترقی کی ہے۔ ضلع میں جانور پالنے والے افراد میں سے %7 9 لوگ ایسے ہیں جنگی اپنی کوئی زمین نہیں ہے۔ لیکن وہ یا تو مستاجری پر زمین لیکر یا پھر چارہ کھل اور ونڈہ وغیرہ بازار سے خرید کر جانور پال رہے ہیں۔ یہ لوگ روزانہ حاصل ہونے والے دودھ کو فروخت کرتے ہیں جس سے گھر خرچ چلاتے ہیں۔ جبکہ جانوروں کے بچھڑوں وغیرہ کو قربانی کی عید کے موقع پر فروخت کر بے معقول آمدنی حاصل کرتے ہیں اس وقت دودھ کی قیمت 50 روپے فی لیٹر یا سیر ہے جبکہ دودھ کی ملٹی نیشنل کمپنیاں 110 روپے فی لیٹر کے حساب سے فروخت کر رہی ہیں۔ جانوروں کی مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ اس وقت بیف بڑے جانوروں کا گوشت 1250 روپے فی کلو گرام جبکہ مٹن بکرے کا گوشت 550 روپے فی کلوگرام کے حساب سے فروخت ہو رہا ہے۔ دیہاتوں میں دیسی گھی کی قیمت 1000 روپے فی کلوگرام ہے۔ شہریوں میں کارخانوں کی بہتات ، روزگار کے مواقع معقول اجرتوں کی وجہ سے معیار زندگی بہتر ہے تاہم دیہاتی علاقوں میں اب بھی غربت بہت زیادہ ہے اور لوگ بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ تا ہم معیار زندگی کی بہتری میں سب سے بڑی رکاوٹ غربت، افلاس اور معاشی ناہمواری ہے۔ ضلع کے چند خاندان تمام وسائل پر قابض ہیں۔ جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی کی بنا پر عام آدمی بہت مسائل کا شکار ہے۔ تحصیل کوٹ ادو اور مظفر گڑھ کی مغربی طرف سیم و تھور نے بہت تباہی مچائی ہے۔ جس سے زراعت بر طرح متاثر ہوتی ہے۔ ضلع کی چالیس فیصد زمین بنجر اور غیر زرعی ہے 1980 کے بعد بہت کم صنعتیں لگی ہیں بلکہ کچھ فیکرو یاں بند ہو گئی ہیں۔ آبادی میں اضافے تعلیمی سہولتوں کے فقدان اور صحت کے مسائل کی وجہ سے لوگوں کیلئے بہت مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ رہی سہی کسر مہنگائی نے پوری کر دی ہے۔ پچھلے دس سالوں میں کھانے پینے کی چیزوں کے جو سرکاری نرخ ضلعی سطح پر مقرر کئے گئے ہیں ان کے جائزے سے معلوم ہوگا کہ عام آدمی کی زندگی کی تلخیوں میں کس قدر اضافہ ہوا ہے۔ مختلف اوقات میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کھانے پینے کی چیزوں کے مقرر کردہ ریٹ کی ایک جھلک اس طرح ہے۔ 29 مئی 2006ء کو ضلعی پرائس کنٹرول کمیٹی کا اجلاس میری صدارت میں منعقد ہوا جس میں 34 اراکین نے شرکت کی۔
مارکیٹ میں تمام اشیاء ان مقرر کردہ ریٹ سے زیادہ قیمت میں ملتی ہیں۔ اگر چہ حکومت نے مختلف محکمہ جات کے آفیسران کو بطور خاص پر ائس مجسٹریٹ مقرر کیا ہے جن میں رنیو، انڈسٹری لیبر اور لائیوسٹاک وغیرہ شامل ہیں تاہم مناسب پڑتال اور مانیٹرنگ نہ ہونے کی وجہ سے ان مقرر کردہ قیمتوں پر عمل درآمد نہ ہوتا ہے جس سے عام آدمی کو مہنگائی کے اس دور میں بعض تاجروں کی جانب سے اور چار جنگ کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ غریب آدمی کیلئے پھل فروٹ ، چھوٹا گوشت تو در کنار خرید نا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ مارکیٹ کمیٹی کے مورخہ 2012-2-22 کے مقرر کردہ ریٹ کے مطابق پیاز 25 روپے فی کلو ٹماٹر 35 روپے، ادرک 80 روپے ، آلو 15 روپے لہسن 90 روپے سیب کالا کلو 180 روپے فی کلو گرام جبکہ کیلا 80 روپے فی درجن مقر ر ر ہے تاہم بازار میں ریٹ اس زیادہ ہیں اور مختلف لوگ اپنی مرضی سے قیمتیں وصول کر رہے ہیں۔
حکومت پنجاب کے بیورو آف شماریات کی MICS رپورٹ 08-2007 کے مطابق یہ اعداد شمار لوگوں کی تعلیم ،صحت ، معیار زندگی ، طرز معاشرت اور سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ اسی طرح کھانا کھانے سے پہلے صرف 19.7 فیصد لوگ صابن سے جبکہ 27.3 فیصد صابن کے ہاتھ دھوتے ہیں تحصیل کوٹ ادو میں یہ شرح 27 فیصد علی پور میں 17 فیصد مظفر گڑھ میں 17 فیصد جبکہ جتوئی میں 14 فیصد ہے۔ سب سے زیادہ آلودہ پانی تحصیل مظفر گڑھ میں پایا جاتا ہے جسکی شرح 64.7 فیصد فیصد ہے شرح خواندگی میں مرد 57.8 فیصد جبکہ خواتین میں یہ شرح 30.6 فیصد ہے۔ جبکہ مجموعی طور پر 45 فیصد ہے۔ تحصیل کوٹ ادو میں ادو 53.4 فیصد مظفر گڑھ 43.6 فیصد جتوئی 39.9 فیصد علی پور 36.5 فیصد ہے۔ پانچ سال سے نو سال تک کی عمر کے بچوں میں 75.6 فیصد بچے پرائمری سکولوں میں . جاتے ہیں۔ جن میں سے کوٹ ادو میں 92.3 فیصد مظفر گڑھ میں 80.1 فیصد علی پور میں 48.4 فیصد جبکہ جتوئی میں یہ شرح 98.7 ہے بچوں میں سے 69.3 فیصد سرکاری سکولوں میں جبکہ 28.7 فیصد پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ 0.2 فیصد مدرسوں میں جبکہ 1.8 فیصد دوسرے اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ پرائیویٹ اداروں میں پڑھنے والے بچوں میں سب سے زیادہ 33.6 فیصد تحصیل کوٹ ادو جبکہ سب سے کم جتوئی میں زیر تعلیم ہیں۔ سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم بچوں میں سب سے زیادہ بچے جتوئی (78 فیصد ) ہیں جبکہ مظفر گڑھ اور علی پور میں 70 فیصد کوٹ ادو میں 63.9 فیصد ہیں۔ سیکنڈری سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی شرح 16.7 فیصد ہے جن میں سے زیادہ کوٹ ادو میں (22 فیصد ) اور سب سے کم علی پور میں 13.3 فیصد ہے۔ ضلع میں موجودہ لڑکوں کے پرائمری سکولوں میں سے دو کلو میٹر کے اندر اسی فیصد اور پانچ کلو میٹر کے اندر 13 فیصد اور 5 کلومیٹر کے اندر 5.8 فیصد سکول ہیں۔ جبکہ لڑکیوں کے سکول دو کلو میٹر کے اندر 73.6 فیصد دو اور پانچ کلو میٹر کے اندر 17.3 فیصد جبکہ کلومیٹر تک 9.1 فیصد سکول ہیں۔ لڑکیوں کے سیکنڈری سکول پانچ کل میٹر کے فاصلے کے اندر صرف 45 فیصد ہیں۔
چائلڈ لیبر میں سے تنخواہ دارور کر 1.3 فیصد غیر تنخواہ 0.6 فیصد گھریلو ملازمین میں 0.9 فیصد فیملی بزنس میں 3 فیصد اور چائلڈ لیبر مجموعی طور پر 5.1 فیصد بنتی ہے۔ بے روزگاری میں سب سے زیادہ کوٹ ادو 6.5 فیصد اور کم علی پور 2.7 فیصد ہے۔ ضلع میں لوگوں کی کچی چھتیں 35 فیصد اور کچی دیوار میں 43.8 فیصد ہیں۔ 20410 ہاؤس ہولڈز میں سے 77.2 فیصد کے پاس واچ 61.6 فیصد کے پاس بائیسکل 19.5 کے پاس موٹر سائیکل جبکہ 11.5 فیصد کے پاس کچھ نہیں ہوتا 3114 ہاؤس ہولڈز میں سے 46.8 فیصد کے پاس زمین تھی 73.4 فیصد کے پاس جانور تھے لائیو سٹاک کی علی پور میں 82 فیصد مظفر گڑھ میں 71.6 فیصد جتوئی میں 76.9 فیصد جبکہ کوٹ ادو میں 69.3 فیصد شرح ہے۔
ہاؤس ہولڈ سائز 6 6 پایا گیا جبکہ فی کمرہ لوگوں کی شرح 4.1 فیصد سامنے آئی۔ یوٹیلٹی سٹور میں سے صرف 6.1 فیصد لوگ خریداری کرتے ہیں۔ ان میں 15.3 فیصد باقاعدگی سے جبکہ 8. 78 فیصد کبھی کبھار جاتے ہیں ۔ ان میں سے 18 فیصد اس خریداری کو درست سمجھتے ہیں ۔ جبکہ 71.8 فیصد غیر مطمئن ہیں۔ صحت کی صورتحال کے بارے میں جو صورتحال سامنے آئی ہے اس کے مطابق 15 فیصد لوگ کھانسی 0.7 فیصد ٹی بی ، 1.2 فیصد ہیپٹائٹس میں مبتلا ہیں۔ ضلع میں 13-2010 Three Years Rolling Plan کے مطابق لٹریسی ریٹ 45 فیصد ہے جس میں تحصیل علی پور 44.3 جتوئی میں 50.7 مظفر گڑھ 54.0 جبکہ کوٹ ادو میں 64.8 ہے ۔ پرائمری سکول کی سہولت دو کلو میٹر کے اندر صرف 81 فیصد طلبہ کو حاصل ہے۔ ضلع میں 0.5 فیصد لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی سہولت ہے ۔ لوگوں کے 35 فیصد پکے مکانات ہیں ۔ سات فیصد لوگ بغیر گھروں کے رہتے ہے جبکہ 73 فیصد لوگ لا ئیوسٹاک کے مالک ہیں۔ تا ہم اگست 2010 میں آنے والے سیلاب نے بہت تباہی پھیلائی جس سے لاکھوں مکانات گر گئے ۔ سڑکیں ، عمارتیں ، پل تباہ ہو گئے ۔ فصلات اور لائیو سٹاک کا بہت نقصان ہوا۔ پورا معاشرتی نظام متاثر ہوا اور ضلع ایک بار پھر کئی بر پیچھے چلا گیا۔ البتہ ایک تبدیلی جو اس سیلاب کے بعد آئی وہ یہ ھی کہ لوگوں کو وطن کارڈ کے ذریعے میں ہزار روپے کی دو تین قسطیں حکومت کی جانب سے دی گئی بہت سے لوگوں نے اس رقم سے موٹر سائیکل خرید لئے ہے۔ چنانچہ ضلع میں موجود جون 2010 تک 56 ہزار موٹر سائیکلوں کی تعداد ایک سال میں بڑھ کر 78 ہزار تک پہنچ گئی ۔
نوٹ: یہ مضمون خیرمحمد بُدھ کی کتاب (تاریخ مظفرگڑھا) سے لیا گیا ہے۔