مظفر گڑھ

 انفرادیت مظفر گڑھ

چھ دریاؤں کی سرزمین:

سرز مین مظفر گڑھ دراصل چھ دریاؤں کی سرزمین ہے ۔ یہاں ملک کے چھ بڑے دریا اکھٹے ہوتے ہیں۔ پنجند کے مقام پر پانچ دریا چناب ستلج، راوی ، جہلم اور بیاس ) اکھٹے ہوتے ہیں۔ جبکہ پنجند سے 20 کلومیٹر بطرف جنوب سیت پور کے نزدیک سرکی کے مقام پر یہ پانچوں دریا دریائے سندھ سے جاملتے ہیں۔

پانچ دریاؤں کا سنگم:

سرز مین مظفر گڑھ پانچ دریاؤں کا سنگم ہے۔ تحصیل علی پور کے پاس پنجند کے مقام پر پانچ دریا چناب پتیج، رادی جہلم اور بیاس ) اکھٹے ہوتے ہیں ۔ مظفر گڑھ میں ایسا کچھ تو ہے کہ قدرت نے پانچ دریاؤں کو مختلف علاقوں سے لا کر مظفر گڑھ میں اکٹھا کر دیا ہے۔

صحرائے تھل کا اختتام:

صحرائے تھل وسیب کے اضلاع میانوالی ، خوشاب، بھکر ، جھنگ ، لیہ اور مظفر گڑھ پر مشتمل ہے ۔ صحرائے تھل کا آخری ضلع ہے۔ اس ضلع میں صحرائے تھل اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔

سندھ ساگر دو آب کا آخری ضلع:

یہ سندھ ساگر دو آب کا بھی آخری ضلع ہے۔ دریائے سندھ اور دریائے جہلم و چناب کے درمیان دو آبے کو سندھ ساگر دو آب کہتے ہیں راولپنڈی، چکوال جہلم ، خوشاب، میانوالی بھکر ، لیہ اور مظفر گڑھے اس سندھ ساگر دو آب کا حصہ ہیں اس کے مغرب میں دریائے سندھ اور مشرق میں دریائے چناب ہے۔

آم و کھجور کی سرزمین:

سرزمین مظفر گڑھ آم و کھجور کی دھرتی ہے ۔ یوں تو پورے سرائیکی وسیب میں آم د کھجور بکثرت پیدا ہوتے ہیں ۔ مگر مظفر گڑھ میں پیدا ہونے والے آم اور کھجور کو خاص مقام حاصل ہے ۔ یہاں کے آم پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ اپنے ذائقے، خوبصورتی، مٹھاس اور خوشبو کی بدولت ان کا خاص مقام ہے ۔ چناب کے مغربی کنارے پر تلیری سے لیکر شہر سلطان تک زمین میں ایسی تاثیر ہے کہ یہاں کے آموں کے باغات کا اپنا رنگ ہے اور آم کا اپنا ذائقہ ہے۔ یہاں پیدا ہونے والے آموں کی دنیا بھر میں مانگ ہے۔ چناب عاشقاں کی مٹی کی تاثیر یہاں کے آموں کی مٹھاس کو دو گنا کر دیتی ہے۔ اسی طرح مظفر گڑھ ،شہر ، مراد آباد، خان پور بگا شیر ، سنانواں اور محمود کوٹ میں پیدا ہونے والی کھجور بھی لا جواب ہے ۔ غرض یہاں کے آم کھجور بھی سرزمین مظفر گڑھ کی مٹھاس بھری پہچان ہیں ۔

ریاست سیت پور:

مظفر گڑھ کے تاریخی قصبے سیت پور میں لودھی نہر بادشاہوں نے خود مختار ریاست قائم کر رکھی تھی۔ رانی سیتا کا سیت پور کبھی لودھی نا ہر حکمرانوں کا دارالحکومت تھا۔ یہاں کی بادشاہی مسجد اور مقبرہ طاہر خان ناہر اس کی کھوئی ہوئی عظمت کے نشانات ہیں۔

سندھ چناب کا سنگم:

مظفر گڑھ کے جنوب میں سیت پور سے آگے سر کی نامی گاؤں میں سر کی تین کے مقام پر دریائے چناب اپنےنمعاون دریاؤں سمیت سندھ سے جاملتا ہے۔ یوں سرزمین مظفر گڑھ سندھ و چناب کا سنگم بھی ہے۔

چھاں عاشقاں:

سرز مین مظفر گڑھ اور دریائے چناب کا ساتھ کافی طویل ہے یہ دو سوکلو میٹر سے زیادہ مظفر گڑھ کی حدود میں بہتا ہے مظفر گڑھ کے جنوب میں پنجند کا مقام آتا ہے جہاں خطے کے پانچوں دریا جہلم، چناب، راوی ستلج اور بیاس پنجند کے مقام پر آپس میں ملتے ہیں۔ دریائے چناب کی کل لمبائی 960 کلو میٹر ہے اور سندھ طاس معاہدہ کی رو سے اس کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم ہے۔ ویدک زمانہ (قدیم ہندوستان ) میں اس کو الکنی یا سکتی کے نام سے اور

باب اوّل: تعارف و تاریخ

سرزمین مظفر گڑھ قدیم یونان میں آچپ سائنز کے نام سے جانا جاتا تھا (136۔ وسیب کی تہذیب میں چناب کا مقام ایک علامت کے طور پر ہے اور ہیر رانجھا اور سہتی مراد کی سرائیکی رومانوی داستانیں دریائے چناب کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ سرزمین مظفر گڑھ میں بسنے والے لوگوں کی زندگی پر چناب کا بڑا اثر ہے۔ چناب خوشحالی محبت اور ترقی کا استعارہ ہے۔

سندھ صادقاں:

سرزمین مظفر گڑھ اور دریائے سندھ کا ساتھ لگ بھگ دو سو بیس کلو میٹر سے زیادہ ہے۔ دریائے سندھ شمال مغربی طرف مظفر گڑھ کی حدود میں بہتا ہوا جنوب مغرب میں سرکی چین کے مقام پر دریائے چناب سے ملتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں دریائے سندھ کا بالائی میدان ختم ہو جاتا ہے اور زیریں میدان شروع ہوتا ہے۔ دریائے سندھ میں پائی جانے والی اندھی ڈالفن دنیا میں پائی جانے والی ڈالفن کی ان چار نایاب نسلوں میں سے ایک ہے جو دریا کے تازہ پانیوں میں رہتی ہیں  – سرائیکی وسیب میں اس اندھی ڈالفن کو بہن کہتے ہیں۔ عظیم دریائے سندھ کے کنارے بسنے والوں کی اپنی الگ تہذیب اور ثقافت ہے۔ دو عشقیہ داستانیں ۔ ہیر رانجھا کہتی مراد سرائیکی وسیب کی دو مشہور عشقیہ داستانوں کا تعلق سرزمین مظفر گڑھ سے ہے یہ دونوں داستانیں چناب عاشقاں کے کنارے واقع معروف قصبہ رنگ پور سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہیر رانجھا اور سہتی مراد کی یہ لوک عشقیہ داستان رنگ پور میں وقوع پذیر ہوئیں۔ ہیر رانجھا کا تعلق خطہ جھنگ سے ہے مگر کیونکہ ہیر کی شادی رنگ پور کے کھیڑا خاندان میں ہوئی تھی اس لئے داستان کا باقی حصہ رنگ پور میں وقوع پذیر ہوا جبکہ ہی مراد کی مکمل داستان رنگ پور میں ہی رقم ہوئی۔ سیت پوری رسم الخط سرزمین مظفر گڑھ کے تاریخی قصے سیت پور کی الگ انفرادی شناخت ہے ۔ ماضی میں خطاطی کی دنیا میں یہاں کے خطاطوں کی طرف سے متعارف کروایا گیا سیت پوری رسم الخط بہت مشہور تھا ۔ یہاں کے ماہر خطاط نیلی سیاسی
(جودہ خود تیار کرتے تھے ) سے تاریخی عمارتوں پر، کتبوں پر اور مزارات پر سیت پوری رسم الخط میں خطاطی کرتے تھے ۔ سرائیکی وسیب خاص طور پر سرزمین مظفر گڑھ کی بہت کی تاریخی یادگاروں اور مزارات پر سیت پوری رسم الخط کے نمونے موجود ہیں۔ ان میں مقبرہ طاہر خان ناہر سیت پور ) اور دیگر مزارات قابل ذکر ہیں۔

نوٹ: مضمون محمد شہزاد کی کتاب "سر زمین مظفرگڑھ” سے لیا گیاہے

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com