سرزمین مظفر گڑھ کی بین الاقوامی پہچان ۔۔۔ پٹھانے خان
پٹھانے خان، جمعہ خان ، مائی بھاگی ، الن فقیر ، عالم لوہار، ریشماں ،عنایت حسین بھٹی ہمیں ظہور ، عابدہ پردین، اختر چنال ، عارف لوہار، کشن لعل بھیل جہنم ماروی ، اقبال باہو، جلال چانڈیو، عطا اللہ عیسی خیلوی ،سائیں اختر اور فقیرا بھگت پاکستان میں لوگ موسیقی کے اہم نام ہیں۔ مگر ان میں سے جو مقام درویش اور فقیر منش پٹھانے خان کا اوہ کسی کا نہیں ہے۔ انہیں غزل، کافی اور لوک گیتوں پر بے حد کمال حاصل تھا، پٹھانے خان نے لگ بھگ پچاس ہے وہ سال تک اپنی مدھر آواز کا جادو جگایا۔ حکومت نے اس نامور گلو کار کو 1979ء میں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا۔ پٹھانے خاں نے اپنی سریلی آواز سے کئی دہائیوں تک خواجہ غلام فرید ، شاہ حسین ، بابا بلھے شاہ ، اور پیر مہر علی شاہ سمیت بہت سے صوفی شعرا کا عارفانہ کلام گا کر امن و محبت کا پیغام عام کیا۔ ان کے گائے مشہور صوفیانہ کلام میں میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں اور الف اللہ چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ہو ان کی دنیا بھر میں شہرت کا باعث بنا۔ اس کے علاوہ جندڑی لئی تاں یار کجن ، کدی موڑ مہاراں تے ول آ وطناں، آمل آج کل سوہنا سائیں ، وجے اللہ والی تار کیا حال سناواں اور میرا را جھن ہن کوئی ہور سمیت سینکڑوں گیت لوگوں کے دلوں پر وجد طاری کرتے ہیں ۔ پٹھانے خان بچپن سے ہی سر سنگیت کی دولت سے مالا مال تھے ۔ پٹھانے خان شروع میں درباروں اور محفلوں میں خواجہ فرید کا کلام گاتے گاتے ریڈیو پاکستان ملتان تک جا پہنچے اور 1970ء میں میڈا عشق وی توں میڈا یا روی توں ریکارڈ کرایا اس کافی کے نشر ہونے سے ملک میں تہلکہ مچ گیا۔ ہر سو پٹھانے خان کے چرچے ہونے لگے۔ ان کی گائی ہوئی کافیوں میں روحانیت اور علاقائی ثقافت نمایاں ہے۔ میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں جیسی کافی ان کے فن کمال کا ثبوت ہے۔ وہ بہت حساس دردمند دل اور انسان دوست گلوکار تھے ۔ اپنے منفرد سٹائل کی وجہ سے محفل پر جادو طاری کر دیتے تھے ۔ پٹھانے خان عارفانہ کلام عشق میں ڈوب کر گاتے کہ مداح سر دھنتے رہ جاتے ۔ پٹھانے خاں کی آواز میں درد کے ساتھ ساتھ بے پناہ کشش بھی تھی ۔ اسی لیے آج بھی ان کا عارفانہ کلام سنتے ہی سامعین پر رقت طاری ہو جاتی ہے۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی استاد پٹھانے خان کی دل میں اترنے والی آواز کے معترف تھے ۔ بھٹو پٹھانے خان کے دلدادہ تھے ۔ عارفانہ کلام سننے کے لئے انہیں خصوصی طور پر اسلام آباد مدعو کیا جاتا ۔ ملک غلام مصطفی کھر انہیں اپنے ہمراہ اسلام آباد لے جاتے جہاں ذوالفقار علی بھٹو گھنٹوں ان سے عارفانہ کلام سنتے تھے۔ ساری عمر کسمپرسی اور غربت میں گزار دی لیکن بھی ہاتھ نہیں پھیلایا۔ ایک مرتبہ بھٹو نے کہا کہ پٹھانے خان مانگو کیا چاہیے آفر ہونے کے باوجود بھٹو سے کچھ نہ مانگا بس ایک ہی جواب دیتے اللہ بہوں ڈیوے تے صحت دی بادشاہی ہو دی۔ وسیب دے عوام دی پارت ہووی مشہور کالم نگار رؤف کلاسرہ نے ایک بار پٹھانے خان سے کہا: آپ غریب آدمی ہیں، بھنو سے کچھ مانگ لیا ہوتا ۔ پٹھانے خان اچانک اپنی غنودگی کے عالم سے ابھرے اور کہا: سائیں بھٹو بادشاہ تھا۔ میں ایک فقیر بادشاہ سے مانگتا اچھا لگتا ؟ بھٹو سائیں سے کچھ نہ مانگا گیا۔ یہ تو مصطفی کھر ( جو اس وقت گورنر تھے ) کو چاہیے تھا وہ بھٹو سائیں کو بتاتا کہ پٹھانے خان ہمارے علاقے کا غریب کمہارہے۔ اسے ایک مربع زمین دے دو۔ پھر پٹھانے خان خودہی کہنے لگا لیکن مصطفی کھر اپنے علاقے کے غریب کمہار گلوکار کے لیے کیوں بھٹو کو کہتا 1181۔ بھٹو دور میں انہیں فرانس کے دورے پر ضر ور بھجوایا گیا وہاں بھی انہوں نے
خوب رنگ جمائے اس کے بعد فرانس میں جانے کی دعوت ملنے کے باوجود کوٹ ادو تک ہی محدودر ہے ۔ ان کی سادگی کا اندازہ ٹی وی کے ایک پروگرام سے ملاحظہ کیجئے۔ جب کمپیئر نے ان سے سوال کیا کہ سنائیں زندگی کا سفر کیسے گزرا؟ تو جواب میں کہنے لگے کوٹ ادو توں رات بس تے بیٹھے تے اوں ساکوں دھکے دھوڑے ڈیندے دھمی بدامی باغ آن سے پہلے سوچم ویگن تے باہنواں وت آکھم دی تھی ویسی ولا اتھوں رکشہ کھدے نے ٹی وی سٹیشن آن پہنچا ۔ کمپیئر نے کہا میں نے زندگی کے سفر کی بات کی ہے تو پٹھانے خان نے جواب دیا ۔ سئیں اووی دھکے دھوڑے کھاندیں گزری ائے“۔
پہلی مرتبہ 1955ء میں کوٹ مٹھن میں حضرت خواجہ غلام فرید کے عرس پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ میں منھن کوٹ میں خواجہ غلام فرید کے عرس مبارک میں بن بلائے پہنچ گیا لیکن مجھے خواجہ فرید کا کلام سنانے کی اجازت نہ ملی عرس میں موجود ایک مخدوم کی سفارش پر منتظمین نے مجھے گانے کی اجازت دی پھر کیا تھا ساری رات میں گاتا رہا اور لوگ سنتے رہے۔ سابق آفیسر اطلاعات مظفر گڑھ ممتاز احمد خان کہتے ہیں کہ پٹھانے خان ملتان کے ایک عظیم بزرگ حاجی محمد قریشی کے مرید تھے۔ ایک مرتبہ حاجی محمد قریشی نے پٹھانے خان کی کافی سن کر خوش ہو کر ان کو دعا دی کہ اب تیری آواز پوری دنیا میں گونجے گی ۔ اس بزرگ کی دعا کے بعد پٹھانے خان کو شہرت ملنا شروع ہوئی ۔ مگر اب پیر کو کم اور گلو کار مرید کو زیادہ لوگ چاہتے ہیں [182]۔ پُر سوز آواز، دلگیر انداز اور اپنی منفر د طرز کے مالک سرائیکی وسیب کی پہچان استاد پٹھانے خان 1926 کو مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو کی بستی تبو والی میں ایک انتہائی غریب کمہار گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ابتداء میں آپکا نام غلام محمد ” رکھا گیا۔ آپ کی پیدائش کے بعد اس کے والدین کوٹ ادو منتقل ہو گئے ۔ ابھی اس بچے کی عمر صرف تین سال تھی کہ غلام محمد کو بیماری نے آن لیا۔ علاج کیا لیکن شفانہ ملی۔ والدین بچے کو ایک پیر کے پاس لے گئے ۔ پیر نے کہا بچے کا نام تبدیل کیا جائے پھر والدین نے پیر کے کہنے پر بچے کا نام پٹھا نہ رکھ دیا جو بعد میں پٹھانے خان مشہور ہو گیا۔ ساتویں جماعت تک سکول گئے مگر غربت کی وجہ سے والد نے اپنے ساتھ برتن بنانے پر کھڑا کر لیا۔ جوانی میں پاکستان بننے سے پہلے ایک ہندولڑ کی سے عشق ہو گیا مگر تقسیم ہند کے وقت دولڑ کی ہندوستان چلی گئی محبوب کی جدائی نے اس حساس انسان کے دل پر ایسا گھاؤ لگایا کہ دل کا درد گلے میں آگیا۔ درد بھری آواز میں گانا شروع کر دیا۔ ہجر طاری ہوا تو آنکھیں بند کر کے اپنے محبوب کی تصویر کو تصویر میں لا کر گاتے رہے۔ پٹھانے خان نے اساتذہ سے موسیقی سیکھنے کا آغاز کیا تو لوک اور کلاسیکل موسیقی سیکھنے میں دلچسپٹی ظاہر کی تھیٹر میں کام کیا۔ اُردو، سرائیکی، ہندی، سنسکرت اور فارسی زبان سے آشنائی کے لیے کتابوں کا سہارا لیا۔ 1970ء میں جب ریڈیو ملتان کا آغاز ہوا تو یہ پٹھانے خان کے عروج کا زمانہ شروع ہوا ۔ پاکستان ٹیلی ویژن سے گانا شروع کیا تو انکی شہرت کو چار چاند لگ گئے ۔ پی ٹی وی لاہور کے سابق پروگرام منیجر مشتاق صوفی ان سے خاص محبت کرتے اور بار بار ٹی وی ریکارڈنگ کے لیے لاہور ہلاتے تھے ۔ پٹھانے خان کی گائیکی کا یہ سفر ریڈیو، ٹی وی سے ہوتا ہوا اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا لیکن پٹھانے خان کے حالات تبدیل نہ ہوئے کہ ان کو ہاتھ پھیلانا ہی نہیں آتا تھا۔ ۔ 4 بیٹے اور 7 بیٹیاں ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی تنگ دستی کا اظہار نہ کیا ساری زندگی مفلسی اور بدحالی کے باوجود صابر و شاکر رہے۔ ضیاء الحق نے متاثر ہو کر دو ہزار ماہانہ وظیفہ مقرر کیا اور صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا۔ موسیقی کی نجی کمپنیوں نے ان کی کافیوں اور عارفانہ کلام کی کیسٹیں ریکارڈ کر کے خوب نوٹ کمائے لیکن اس گلوکار کی قسمت میں دھکے ہی رہے۔ والدہ اور جواں سال بیٹے کی وفات سے ان کی کمر ٹوٹ گئی لیکن خود داری کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔ مرحوم نے اپنی زندگی میں بہت سے اعزازات اور ایوارڈ حاصل کئے لیکن یہ تحفے اس کے گھر کے مسائل دور نہ کر سکے ۔ ساری زندگی کوٹ ادو کے ریلوے سٹیشن پر گزاردی۔
پٹھانے خان 74 برس کی عمر میں 9 مارچ 2000ء میں اپنے آبائی شہر کوٹ ادو ہی میں اپنے چاہنے والوں کو اداس کر کے راہی ملک عدم ہوئے ۔ پٹھانے خان نے عارفانہ کلام، لوک گیت ،صوفیانہ کلام اور کافی میں وہ نام کمایا جو شاید ہی کسی کو نصیب ہو ۔ پٹھانے خان کے فن کو زندہ رکھنے کے لیے ان کے فرزند اقبال پٹھانے خان ان کی گائی ہوئی معروف کافیاں گا کر ان کو خراج عقیدت پیش کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ ان کے نواسے اولیس پٹھانے خان اپنے نانا کے فن کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔
مظفر گڑھ۔ قبیلے اور ذاتیں:
ضلع مظفر گڑھ کثیر نسلی اور کثیر قومی ضلع ہے۔ اس ضلع میں کئی قومیں اور برادریاں آباد ہیں۔ کئی نسلوں کےلوگ یہاں رہتے ہیں۔ یہاں بلوچ ، جٹ ، راجپوت، عرب، مقامی باشندے اور خدمت گار قو میں آباد ہیں ۔
عرب ذاتیں:
قریشی:
یہ عرب النسل ہیں ۔ مظفر گڑھ میں قصبہ شیخ عمر، کر مداد قریشی بھٹصہ قریشی اور ڈیڈھے لعل قریشی کے قریشی سینکڑوں سالوں سے یہاں آباد ہیں۔ ان میں زیادہ تر کا شجرہ نسب حضرت بہاؤالدین زکریا ملتان کے خاندان سے جاملتا ہے۔
بخاری سادات:
مظفر گڑھ میں مختلف علاقوں جیسے رنگپور سیت پور اور کوٹلہ رحم علی شاہ میں بخاری سادات گھرانے آباد ہیں ۔
تھمیم:
یہ عرب النسل میں تصمیم در اصل بنو تمیم ہیں جو یہاں کے مقامی لہجے کی بدولت تقسیم ہو گئے ہیں (183)۔ مظفر گڑھ شہر اور گردونواح میں بڑی تعداد میں تصمیم آباد ہیں۔ اپنے آپ کو شیخ کہلواتے ہیں ۔ کچھ ساتھ ملک لکھواتے ہیں۔ شیخ فضل حسین تصمیم مبر قانون ساز اسمبلی رہے تھے ۔ جو کہ سیاست دان میاں محمد حسین مناشیخ کے والد تھے ۔
عاربی:
عار بی بھی اپنے آپ کو عرب نسل بتاتے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ عربی سے یہ عاربی ہوئے ہیں مظفر گڑھ کے گردو نواح میں قلیل تعداد میں موجود ہیں ۔
پرہاڑ:
ان کے بارے میں بھی مورخین کا دعوی ہے کہ یہ بھی عرب سے آئے ہیں ۔ سندھ میں قضا کے عہدے پر فائز تھے (184) تحصیل مظفر گڑھ اور تحصیل کوٹ ادو میں بڑی تعداد میں آباد ہیں ۔ آج کل ان کا پیشہ کاشت کاری ہے۔
ارا ئیں:
کچھ ماہرین ارائیں کو راجپورت اور کچھ جٹ بتاتے ہیں دراصل ارائیں خود کو عرب نسل بتاتے ہیں ۔ تاریخ ملتان ذیشان کے مصنف منشی عبدالرحمن اور تاریخ قوم آرائیاں کے مصنف علی اصغر چوہدری لکھتے ہیں کہ ارائیں قوم کے آبا و اجداد ملک شام کے ایک علاقے اریحا کے رہنے والے تھے وہ وہاں سے ہندوستان آئے اور اریحا کی نسبت سے انھیں اریحائی کہا جانے لگا اور بعد میں یہ لفظ اریحائی بگڑ کر ارائیں ہو گیا ۔ مظفر گڑھ کے مختلف علاقوں کوٹ ادو اور علی پور میں ارائیں کافی افراد میں موجود ہیں۔ علی پور کی مشہور سیاسی فیملی برق ارائیں قوم سے تعلق رکھتی ہے۔ میاں ابراہیم برق پاکستان بننے سے پہلے متحدہ پنجاب کے وزیر تعلیم تھے بعد ازاں ممبر قومی اسمبلی رہے ۔ مظفر گڑھ میں ارائیں کاشتکاری ، پھول بیچنے اور مالی کے پیشے سے وابستہ ہیں اس لئے یہاں ارائیں کو پھول بیچنے والے اور پھول کاشت کرنے والے سمجھا جاتا ہے۔
بلوچ ذاتیں:
بلوچ روایات کے مطابق ان کے آباؤ اجداد ملک شام کے شہر حلب کے رہنے والے تھے ۔ واقعہ کربلا کے بعد حلب سے چل پڑے اور سیستان اور کرمان میں آباد ہوئے ۔ دو برطانوی مورخین ٹی ایچ ہولڈچ اور کرنل اسی موکر بلوچوں کو عرب النسل مانتے ہیں۔ جبکہ بوٹینگر اور پانی کوف کے مطابق یہ ترکمان النسل ہیں اور بحیرہ کیسپیئن سے کرمان اور بلوچستان میں آباد ہوئے ۔ جبکہ ایک اور مؤرخ آربرائن اپنی تحقیق میں بلوچوں کو ایرانی النسل بتاتا ہے ۔ میر جلال بلوچ نے ایران سے بیچ مکر ان کی طرف سفر کیا تو اس کے ساتھ 44 بلوچ قبائل تھے بعد میں ان قبائل سے مزید شاخیں نکلتی گئیں۔ سرزمین مظفر گڑھ پر بلوچ قبائل کی آمد کا سلسلہ بہت پہلے سے شروع ہوا۔ شیر شاہ سوری (1545ء-1540ء) اور ہمایوں کے عہد میں جب رند اور لاشار کی خانہ جنگی کے بعد چاکر اعظم رند کے اتحادی بلوچ قبائل نے ان کی سرکردگی میں موجودہ سرائیکی وسیب اورست گھرہ (اوکاڑا) کی جانب ہجرت کی تو بہت سے بلوچ ڈیرہ غازیخان اور مظفر گڑھ کے اضلاع میں بس گئے [186] ۔ مشرقی بلو چستان سے دریائے سندھ کے کناروں پر ڈیرہ غازیخاں اور مظفر گڑھ کی طرف بلوچوں کی نقل مکانی کا سلسلہ جاری رہا۔ آج بلوچ قبائل مظفر گڑھ کی آبادی کا بڑا حصہ ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ مظفر گڑھ میں بلوچ اکثریت کا ضلع ہے تو بے جانہ ہوگا۔ کئی صدیوں سے مظفر گڑھ میں آبا دا ہم بلوچ شاخوں کی تفصیل اس طرح سے ہے۔
لغاری:
یہ لغار خان رند کی اولاد ہیں ۔ یہ بلوچستان اور سندھ میں بھی رہتے ہیں۔ مشہور ٹالپور قبیلہ جس نے ایک زمانے میں سندھ پر حکومت بھی کی تھی اس قبیلہ کا ہی حصہ شمار کیا جاتا ہے۔ سندھ اور ڈیرہ غازیخاں میں ان کے قبائل موجود ہیں ۔ مظفر گڑھ میں لغاری بیٹ میر ہزار میں آباد ہیں ۔ سردار اقبال لغاری ، چنوں خان لغاری اور مشیر وزیر اعلی خرم سہیل لغاری اہم افراد ہیں ۔
جتوئی:
جتوئی قبیلے کی وجہ تسمیہ کے حوالے سے کئی روایات ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ جتوئی میر جتوال کی اولاد ہیں جبکہ کچھ مورخین کا کہتے ہیں کہ جتوئی میر جلال کی بیٹی جتو مائی کی اولاد ہیں۔ میر گل خان نصیر ا سے عقیدے کے قائل ہیں۔ ایک مشہور روایت یہ ہے کہ بلوچ سرداروں میررند، میر کورائی ، میر لاشار اور مہر ہوت کی ایک بہن تھی جس کا نام جبتو مائی تھا۔ جو مائی کی اولا د نہیں تھی اس نے اپنے بھائی میر رند کے ایک بیٹے کو گود لیا تھا اور جتوئی اسی جتو مائی کے لے پالک بیٹے کی اولاد ہیں۔ جبکہ سابق وزیر مملکت سردار معظم علی خان جتوئی کہتے ہیں کہ جتوئیوں کی خاندانی تاریخ اور ڈھائی سو پشتوں پر مشتمل خاندانی شجرے کی رو سے جتوئی در اصل بلوچ سردار میر جاتن کی اولاد ہیں ۔ جتوال کی نسبت سے انھیں جتوئی کہا جاتا ہے۔ سندھ ، بلوچستان، پنجاب اور سرائیکی وسیب میں جتوئی قبائل موجود ہیں۔ مظفر گڑھ، ڈیرہ غازیخاں ، جھنگ ، ساہیوال اور سندھ میں شکار پور، دادو، نوشہرو فیروز میں جتوئی آباد ہیں ۔ مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی میں جتوئی قبیلے کا چیف قبیلہ آباد ہے۔
دستی:
دستی در اصل دشتی ہیں مکران کے علاقے دشت کی نسبت سے ان کو دشتی کہا جاتا ہے ۔ دشتی در اصل رند بلوچ ہیں۔ رندولا شار کی جنگ میں انہوں نے میر چاکر رند کا ساتھ دیا تھا۔ مظفر گڑھ کے گردو نواح میں دستی آباد ہیں۔
مگسی:
مگسی قبیلے کا نام مغربی بلوچستان کی نہر مگس کے نام پر ہے ۔ ایران سے بلوچ قبائل جب مکران میں داخل ہوئے تو ایک گروہ نہر مگس کے کنارے آباد ہوا ۔ بعد میں یہ قبیلہ مگسی کہلانے لگا۔ مگسی اور چانڈ یہ لاشار قبیلےکے بڑے تمن ہیں ۔
کشکوری:
کشکوری در اصل کشکور سے یعنی گش ندی جو وادی بلیدہ کو سیراب کرتی ہے وہاں سے آئے ہیں ۔ کشکو ر مکران میں کوئی ندی تھی ۔ یہ خالص رند قبیلہ ہے۔ رندوں اور لشاریوں لڑائی میں ان کے جد امجد بیورغ نے رند کا ساتھ دیا تھا۔ مظفر گڑھ میں سنانواں میں ان کی بڑی تعداد آباد ہے۔ نیاز خاں گشکوری ان دنوں ممبر صوبائی اسمبلی ہیں۔
چانڈیہ:
یہ ڈیرہ اسماعیل خاں، ڈیرہ غازیخاں، مکران، کوئٹہ اور مظفر گڑھ میں آباد ہیں ۔ چانڈ یہ لشاری بلوچوں کا ایک نامور تمن ہے ۔ اکبر دور میں چانڈیہ جاگیران کی مملکت تھی [192]۔ چانڈیہ یا چانڈیو جعل لمسی ، لاڑکانہ سمیت سندھ، ڈیرہ غازیخاں اور مظفر گڑھ میں آباد ہیں مظفر گڑھ میں چانڈیہ تھل کے علاقے میں آباد ہیں۔
گوپانگ:
یہ قبیلہ خان ہوت بلوچ کی اولاد ہیں۔ میر چاکر ہندوستان گیا تو یہ قوم ساتھ تھی ۔ ستگھرہ کے بعد یہ ڈیرہ غازیخاں مظفر گڑھ اور راجن پور میں دریائے سندھ کے کنارے آباد ہوئے ۔ مظفر گڑھ میں سیت پور کے نزدیک دریائے سندھ اور دریائے چناب کے سنگم پر دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر گوپانگ قوم آباد ہیں۔
غزلانی:
تحصیل جتوئی ، راجن پور، لیہ، ڈیرہ غازی خان ، ملتان میں آباد غزلانی قوم ایک دلیر اور جھگڑالو قوم کی شہرت رکھتی ہے جس کا شجرہ نسب رند بلوچ و مری قبائل سے ملتا ہے۔ تحصیل جتوئی میں شہر جتوئی کے چاروں اطراف میں کثیر تعداد میں آباد ہے۔ قابل ذکر آبادی موضع قیصر غزلانی ، بیٹ سلیمان اور جتوئی جنوبی میں آباد ہے ۔
کورائی:
میر جلال کے بیٹے میر کو رائی کی اولاد کو رائی کہلاتی ہے۔ بلوچ روایات کے مطابق میر جلال خان کے چار لڑکے، رند ، لا شمار ، کورائی اور ہوت تھے۔ رند و لا شمار لڑا کے تھے، جب کہ کو رائی اور ہوت چرواہے تھے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ کو رائی اگر چہ لڑا کا نہیں تھے مگر انہوں نے منگولوں کے خلاف مزاحمت کی حمایت اور مدد کی تھی ، اس لیے انہیں بلوچ وفاق میں شامل کر لیا گیا تھا۔
کشک:
خشک یا کشک پاکستان کے صوبہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں واقع ایک بلوچ قبیلہ ہے۔ یہ رند بلوچ کی ایک شاخ ہے اور میر چاکر خان کی اولاد ہیں خشک سندھی زبان کا لفظ ہے اور اسے سرائیکی وسیب میں کشک بلوچ کہتے ہیں اس قبیلے کے لوگ ضلع مظفر گڑھ میں بھی لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں ۔
لاشاری:
میر جلال کے بیٹے میر لاشار کی اولا دلا شاری کہلاتی ہے [197] ۔ میر لاشار کی نسبت سے ایران میں پہاڑی اور ندی ان کے نام سے منسوب ہے۔ تاریخ کی ورق گردانی کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لاشاری شروع ہی سے فطر تا جنگجو اور بلوچی روایات کے امین رہے ہیں جب بلوچوں نے سرزمین بلوچستان پر قدم رکھا تھا تو رند اور لا شمار جو اس وقت بلوچوں کے دو مرکزی اور بڑے قبیلے شمار ہوتے تھے تو یہ لوگ میر چاکر رند اور گوہرام لاشاری کی قیادت میں آگے بڑھتے ہوئے بیچ مکران کے علاقوں کو فتح کرتے ہوئے بھی گنداواہ بھی اور گا جان کے علاقوں کو آپس میں تقسیم کر لیا گنداواہ اور گا جان کے علاقوں سے چھی کے علاقے تک لاشاریوں نے قبضہ کر لیا ان علاقوں میں آج تک وہ آباد ہیں۔ دراصل میر چاکر رند کے ساتھ میں سال تک ہونے والی جنگوں نے ان کا شیرازہ اور قوت کو پاش پاش کر دیا اگر لاشاری امن کے ساتھ آگے بڑھتے تو شاید پوری بلوچ قوم میں آج لاشاری تمن سب سے زیادہ اور طاقتور ہوتے [198] ۔ لشاری مظفر گڑھ کے طول و عرض میں آباد ہیں۔
مشوری:
مشوری بلوچ مظفر گڑھ میں بکثرت موجود ہیں۔ صحرائے تھل میں مشوری قبیلے کے کئی گاؤں موجود ہیں ۔
قندرانی:
قندرانی یا قلندرانی قلندر خان بلوچ کی اولاد میں جو کوئٹہ سے ہجرت کر کے مظفر گڑھ کے نزدیک بصیرہ نامی جگہ پر آباد ہوئے تھے ۔ ان کی وجہ سے یہ جگہ بصیرہ قلندرانی کے نام سے مشہور ہوئی ۔ نامور قلند رانیوں میں غلام رسول قلندرانی، غلام سرور ندیم ، نوازش قلندرانی ، عبدالسمیع قلندرانی، ارشد قلندرانی اور جہانزیب قلندرانی شامل ہیں ۔ اس قوم کے سردار فتح محمد خان قلند برائی کا انگریز دور میں بڑا نام تھا سجاد حیدر پرویز نے لکھا ہے کہ انگریزوں نے سردار فتح محمد خان قلندرانی کو خدمات کے عوض لائل پور میں جاگیر عطا کی تھی اور آنریری مجسٹریٹ کا عہدہ عطا کیا تھا مگر فتح محمد خان قلندرانی نے اسلامی قانون کے مقابلے انگریز قوانین کو ماننے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے انگریز سرکار نے جاگیر اور عہدہ دونوں ضبط کرلئے ۔ سردار شیخ محمد خان قلندرانی لائل پور سے واپس بھیرہ آ گیا اور یہاں کوٹ ادو کے نزدیک ساتھ مربع بنجر اراضی خرید لی۔ اسی طرح ملکہ وکٹوریہ کی آمد پر فتح محمد خان قلندرانی نے ملکہ کو سجدہ تعظیمی ادا کرنے سے بھی انکار کر دیا اس پر ملکہ نے ناراضی کا اظہار نہ کیا تح محمد خان قلندرانی نے ملکہ وکٹوریہ کو کچھ اراضی پیش کی جس پر آج وکٹوریہ میموریل ہال کی عمارت موجود ہے متح محمد خان قلندرانی بہت بھی آدمی تھا اور بزرگان دین کا بڑا قدر دان تھا۔ بھیرہ میں جامع مسجد تعمیر کروائی جبکہ خطہ قتل میں واقع بہت سے بزرگان دین کے مزارات بھی بنوائے ان میں حضرت شہاب الدولہ ( کر امداد قریشی) ، حضرت بابا بگا شیر ( خان پور ) حضرت شاہ جمال ( گھر ) حضرت سنیل شہید اور شیخ لدھو کے مزارات تعمیر کروائے اس کے علاوہ اس خاندان کے سردار حسن خان قلندرانی بہت علم دوست انسان ہو گزرے ہیں جن کی ذاتی لائبریری میں بہت اہم اور قیمتی کتابیں موجود تھیں جن میں شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے ہاتھ کا لکھا قرآن اور علامہ اقبال کے زیر اثر چلنے والے مقدمات کے کا غذات شامل ہیں۔
گبول:
ڈاکٹر شاہ محمد مری کے مطابق یہ قبیلہ رند دولشار جنگ (1456 ، 1486ء) میں چاکر اعظم رند کی طرف سے خوب لڑا ۔ وہ سب قبائل جو چاکر اعظم کی طرف سے لڑے وہ سب رند کہلاتے ہیں ۔ گبول مظفر گڑھ کے طول و عرض میں موجود ہیں علی پور اور جتوئی میں بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
سہرانی:
یہ دراصل سہر بلوچ کی اولاد ہیں جنھیں سہرانی کہا جاتا ہے یہ رند ہونے کے دعویدار ہیں ۔ سہرانی مظفر گڑھ میں بصیر و قلندرانی اور کرامداد قریشی کے علاقوں میں آباد ہیں۔
پتافی:
پتانی بلوچی زبان کے لفظ پیاف سے نکلا ہے ۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے اپنی کتاب بلوچ قوم میں لکھا ہے کہ پیاف بلوچی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے دھوپ والا علاقہ ۔ یہ کسی بڑے کو ہستانی سلسلے کے دامن میں آباد علاقوں کے اوصاف ہوتے ہیں ۔ پہاڑوں کے دامن میں دھوپ والے علاقوں میں آباد ہونے کی وجہ سے یہ پتانی مشہور ہو گئے ہیں ۔ پتانی مظفر گڑھ میں لنڈی پتافی اور تھل کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں ۔ سردار اقبال خان پتانی نامور افراد میں شامل ہیں ۔
رند:
بلوچوں کے مورث اعلیٰ میر جلال کے بیٹے تھے میررند ، میر لاشار ، میر ہوت ہمیر کو رائی اور میر جتوال ۔ میر جلال کی وفات کے بعد ہر بیٹے کے نام پر ایک قبیلہ بن گیا۔ رند در اصل میر رند کی اولاد میں ۔ میر چاکر اعظم رند اس قبیلے کے نامور سردار تھے ۔ مظفر گڑھ میں رند بلوچ کوٹ ادو ، مظفر گڑھ اور جتوئی میں آباد ہیں کوٹ ادو سے اشرف رندان دنوں ممبر صوبائی اسمبلی ہیں۔
گورمانی:
ٹھٹھہ گورمانی کے نواب خاندان کے چشم و چراغ نواب سیف الدین گورمانی کے مطابق یہ بلوچ سردار گورمان خان یا گوہرام خان کی اولاد میں (202) مظفر گڑھ میں گورمانی، کوٹ ادو بھٹھہ گورمانی اور سنانواں کے نواح میں آباد ہیں یہ میر لاشار خان کی نسل سے ہیں ۔ کوٹ ادو تحصیل میں قصبہ ٹھٹھہ گورمانی ان کا مرکز ہے ۔ نامور افراد میں نواب مشتاق خان گورمانی سابق گورنر مغربی پاکستان ، غلام جیلانی گورمانی ، طارق گورمانی ، خالد خان گورمانی اور ذیشان گورمانی شامل ہیں ۔ عارف خان گورمانی ایڈوکیٹ ممبر پنجاب بار کونسل بھی قصبہ ٹھٹھہ گورمانی سے تعلق رکھتے ہیں ۔
مستوئی:
ڈیمز ان کو بلوچوں کے غلام قبیلوں میں شمار کرتا ہے چاچا کورند نے اپنی بہن بانری کی شادی کے موقع پر مستوئی قبیلہ اسکی خدمت کیلئے عطا کیا تھا۔ بانڈی نے بعد میں ان کو آزاد کر دیا [203]۔ اس وقت مظفر گڑھ میں جتوئی اور علی پور کے علاقوں میں مستوئی آباد ہیں۔
پٹھان ذاتیں:
ضلع مظفر گڑھ کے طول و عرض میں کہیں کہیں پٹھان بھی آباد ہیں۔ مظفر گڑھ میں بسنے والی پٹھان ذاتوں میں ترین
( قصبہ گجرات ) ، بابر خان گڑھ ( قابل ذکر ہیں۔ دیگر میں ملیز کی ، خاکوانی اور سدوز کی بہت قلیل تعدادمیں موجود ہیں ۔
راجپوت ذاتیں:
بھٹہ:
بھٹہ در اصل سورج بنسی راجپوت نسل ہے سرائیکی وسیب اور پنجاب میں یہ بھٹہ جبکہ سندھ میں بھٹو کہلاتے ہیں ۔ یہ چولستان کے ایک راجپوت بھٹہ راجہ کی اولاد ہیں۔ رحیم یارخان میں بھٹہ واہن کا قلعہ اور شہر اسی کی یاد گار ہے۔ اوچ شریف کے آخری بھٹہ حکمران راجہ انگ پال بھٹہ تھے جس کی قطب الدین ایک سے جنگ ہوئی اس جنگ میں بھٹہ حکمران کو شکست ہوئی ۔ ایک مشہور لوک گیت ہے:
اوچ نہ ڈتا بھیاں نہ ڈتی سی ناز
دانا پانی جگ تے چین موتی ہار
اس جنگ کے بعد بھٹے سندھ اور پنجاب میں پھیل گئے ۔ مظفر گڑھ میں بھٹہ قوم بھٹہ پور، مراد آباد، مانکا بھٹہ، عمر پور جنوبی اور ابراہیم والی میں آباد ہیں کوٹ ادو میں بھی بھٹہ ذات کے لوگ آباد ہیں ۔ مظفر گڑھ کے مشہور بھٹہ سرداروں میں سردار غلام رسول خان بھٹہ ، سردار غلام قادر خان بھٹہ ، سردار سجاد خان بھٹہ ، سردار اقبال خان بھٹہ اور
میاں اسماعیل خان بھٹہ کا بڑا نام ہے۔
بنجرا:
یہ قدیم گلہ بان قبیلہ ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جٹ ہیں مگر اصل میں یہ راجپوت ہیں ان کا مورث اعلیٰ بنجر انو حصار سے ہجرت کر کے گوجر انوالہ کے قریب آباد ہوا تھا اور انسب نامی شہر کی بنیاد رکھی تھی [206] ۔ انڈیا میں حصار میں ان کی بڑی تعداد موجود ہے۔ پاکستان میں ضلع گوجرانوالہ، گجرات، جہلم، راولپنڈی، سیالکوٹ ،سرگودھا، لاہور، جھنگ، ساہیوال اور مظفر گڑھ میں اس قوم کے افراد موجود ہیں مظفر گڑھ میں بنجر احسان پور میں آباد ہیں۔ سیاسی طور پر ان کا بڑا نام ہے ۔ ملک سلطان محمود مسنجر اضلع ناظم مظفر گڑھ رہے ہیں ۔
جوئیہ:
بعض جوئے اپنے قبیلے کو عربی انسل کہتے ہیں مگر اصل میں جوئیہ قوم ہند کی ایک قدیم قوم ہے ۔ ٹاڈ کے مطابق جوئیہ قوم سری کرشن جی کی اولاد ہے یہ قوم پہلے بھٹی ، ناگور اور ہریانہ کے علاقہ میں حکمران تھی ۔ ایک روایت کے مطابق راجا پورس جس نے سکندر اعظم کا مقابلہ کیا، جوئیہ راجپوت تھا۔ یہ ملتان بار اور جنگل کے بادشاہ مشہور تھے۔ چونکہ سرسبز گھاس والے میدان کو جوہ کہا جاتا ہے۔ اس وجوہ کے مالک ہونے کی وجہ سے یہ جو ھیہ اور جوئیہ مشہور ہوئےجو بابا فرید رحمتہ اللہ کے دست حق پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ مظفر گڑھ میں اس قوم کے افراد موجود ہیں۔
سیال:
بیان کیا جاتا ہے کہ سیال ایک پنوار راجپوت رائے شنکر کی اولاد ہیں جو الہ آباد اور فتح پور کے درمیانی علاقہ دار انگر کا رہنے والا تھا ایک کہانی یہ بھی ہے کہ پنواروں کی ایک شاخ دار انگر سے نقل مکانی کر کے جونپور چلی گئی جہاں شنکر پیدا ہوا ۔ گورنر پنجاب ای ڈی میکلین کے مطابق شنکر کے ہاں تین بیٹے ہوئے جن کے نام گھیو،ٹیو اور سیکو رکھے گئے انہی سے جھنگ کے سیالوں شاہ پور خوشاب کے ٹوانوں اور پنڈی گھیب کے گھیوں کی نسل چلی [208]۔ مظفر گڑھ میں سیال صحرائے تھل ، رنگ پور، مراد آباد اور ٹھٹھہ سیالاں میں آباد ہیں ۔ مہر ارشاد احمد سیال اس وقت ممبر قومی اسمبلی ہیں ۔
پنوار:
پر مار یا پنوار کا تعلق اگنی کل راجپوت قبیلے سے ہے [209]۔ اور اگنی کل میں سے سب سے اعلیٰ ہیں ۔ یہ اگنی کل تمام رجپوتوں میں بہادر اور شجاع ہیں۔ پنوار مظفر گڑھ اور خان گڑھ میں آباد ہیں ۔ کبھی ملک نیاز پنوار کا مقامیسیاست میں بڑا نام تھا۔
گانگا:
گانگا راجپوت قبیلہ ہے۔ گانگا برادری ساڑھے سات سو سال قبل ہندو گنگا سے مسلمان ہو کر گا نگا میں تبدیل ہوئی ضلع مظفر گڑھ ، ملتان کے علاوہ ضلع رحیم یار خان میں کثیر تعداد میں آباد ہے۔ صوبہ سندھ میں شکار پور، مورد نوشہرہ فیروز لاڑکانہ، حیدر آباد وغیرہ میں بھی آباد ہے۔ بھارت میں ضلع گنگا نگر اور راجھستان کے کئی علاقوں میں آباد ہے۔ گانگا برادری کے بزرگ خلیفہ جام صلاح الدین گانگا جو کہ حضرت شیخ حمید الدین حاکم کے خلیفہ اعظم تھے . ان کی آخری آرام گاہ تاریخی قلعہ مو مبارک شریف ضلع رحیم یار خان میں حضرت شیخ حمید الدین حاکم کے مزار مبارک کے احاطے میں ہی ان کے عین قدموں میں واقع ہے۔ مظفر گڑھ میں موضع گا نگا اور گردو نواح میں آباد ہیں ۔
کھیڑا:
کھیڑا بر صغیر پاک و ہند کی ایک قوم کا نام تاریخی طور پر ہے اس کی تاریخ پر مختلف آراء ہیں۔ کوئی اسے جٹ قوم کہتے ہیں تو کوئی راجپوت قبائل کی لڑی کہتے ہیں لیکن تاریخی طور پر کھڑے راجپوت ہیں۔ کھیرا فیملی کا تعلق آریا قوم کے کھشتری گھرانے سے ملتا ہے۔ عام طور پر ھیتی باڑی کرنے والے کو جٹ کہتے ہیں اس لئے یہ بھی جٹ مشہور ہیں۔ ان کی شاخیں مدھانے ، ھشیا نے ، بلکا نے ، شریا نے ہی پہلیا لے اور نجی لشکر پوری وغیرہ ہیں۔ کھیڑا قوم کو عظیم بزرگ حضرت بہاوالدین زکریا ملتانی نے مسلمان کیا۔ مظفر گڑھ میں رنگ پر کھیڑا ان کا مرکز ہے ۔
نون:
نون قوم کی تاریخ مختلف روایات کا مجموعہ ہے تمام روایات ایک دوسرے کے اُلٹ ہیں۔ کوئی اپنے آپ کو عربی النسل، کوئی راجپوت، کوئی جٹ، گجر اور کوئی یوشع بن نون کی اولاد کہتا ہے۔ نون قوم لبنان یمن عراق مصر اور ایران میں آباد ہیں۔ عرب میں موجود نون عروہ بن ہانی کی اولاد ہیں۔ تمام روایات کو جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا اور نہ ہی درست تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ عالمی طور پر جانی پہچانی شخصیت ملک فیروز خان نون اپنا تعلق بھٹی راجپوت قبیلے سے بتاتے ہیں۔ دراصل یہ راجپوت ہیں ۔ ایک روایت کے مطابق راجہ ودھن کے 5 بیٹے تھے ۔ کیا ، نون ، کانجو، اترا اور کلیار ۔ راجہ ودھن نے حضرت جلال الدین سرخ پوش بخاری اوچ شریف کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔ شجاع آباد کے نون لوگوں کی روایت کے مطابق یہ راجہ سج چندر بنسی راجپوت کی اولاد ہیں اس راجہ کی ایک اولا دہی سے راجہ نانو نے مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے ہاتھوں اسلام قبول کیا ۔ شہنشاہ اکبر کے دور میں ان کو رانا کا لقب دیا گیا۔ اس لئے ملتان اور مظفر گڑھ کے نون اپنے نام کے ساتھ رانا کا اضافہ کرتے ہیں۔
اُترا:
غازی گھاٹ کے قریب اتراقبیلے کے لوگ موضع پینٹ اترا میں آباد میں ہیں ۔ اترا بھی راجپوت ہیں اور اپنے نام سے پہلے رانا لکھتے ہیں۔ یہ را جاودھن کے بیٹے اترا کی اولاد ہیں ۔ نامور کالم نگار اور دانشور را نا محبوب اختر اتراقبیلے کے اہم فرد ہیں ۔
گھلو:
ایک راجپوت قبیلہ جن کے مورث اعلیٰ ہندو و راٹھ ( راجپوت ) کو مخدوم جہانیاں جہاں گشت نے مسلمان کیا تھا۔ علی پور کے نزدیک آباد ہیں۔
کھا کھی:
تاریخ دان ایچ۔ اے۔ روز کے مطابق کھا بھی قوم مغل بادشاہ جہانگیر کے دور میں پھٹنیر سے یہاں آباد ہوئے ۔ قوموں اور ذاتوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں کھا بھی قوم کے بارے زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔ سینہ بہ سینہ روایات کے مطابق کھا بھی کسی ہندو راجہ لکھ پال کی اولاد ہیں اس راجہ کی اولاد میں سے کچھ افراد نے اوچ شریف کے مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے ہاتھوں اسلام قبول کیا اور جلال پور پیروالا اور شجاع آباد کے درمیان دریائے چناب کے کنارے کے کنارے آباد ہوئے۔ خاندانی سینہ بہ سینہ تاریخ کے مطابق یہ اپنے آپ کو کسی راجہ مگو کی اولاد جماتے ہیں۔ تمام روایات کی رو سے ایک بات طے ہے کہ ان کے آباؤ اجداد راجستھان سے اس علاقے میں منتقل ہوئے تھے ۔ روایات کے مطابق یہ راجپوت ہیں مگر کا شتکاری سے وابستہ ہونے کی وجہ سے انھیں جٹ بنا دیا گیا ہے۔ ان کی خاندانی اور فطری خصوصیات بہادری ضد اور خوداری انھیں راج پوت ظاہر کرتی ہے کھابھی قوم کی مزید کئی گوتیں ہیں جیسے شیدائی، جسمانی، مسمانی ، جبکہ ہیجہ اور ڈولی وغیرہ ۔ کھا بھی قوم ضلع مظفر گڑھ کے علاقے روہیلانوالی کے نزدیک دریائے چناب کے کنارے آباد ہیں ان کے کافی گاؤں میں جیسے گندی کھا بھی ، آلو دے والی موہری والا ، آدم کھا بھی بحال کھا بھی اور پنجابی کھا بھی وغیرہ۔
کھر:
کھر دراصل کھرل ہیں ان کا آبائی وطن گوگیرہ ضلع اوکاڑہ ہے شیخو پورہ سے اوکاڑہ، فیصل آباد، ساہیوال اور کمالیہ تک دریائے راوی کے مشرقی اور مغربی کناروں پر کھرل قوم آباد ہے۔ گوگیرہ ، جھامرہ اور کمالیہ ان کے بڑے مراکز ہیں ۔ کھرل راجپوت ہیں مگر کچھ انھیں جٹ بتاتے ہیں۔ راوی کنارے دانا آباد کا مرزا جٹ دراصل کھرل تھا جو پنجاب کی مشہور رومانوی داستان مرزا صاحباں کا کردار ہے۔ کھرل اپنا شجرہ نسب بھو پا سے ملاتے ہیں جو راجہ کرن کی اولاد میں سے تھا یہ اوچ شریف آباد ہوئے اور مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ راوی کے کنارے آباد کھرل اپنی سرکشی، بہادری اور وحشت کی وجہ سے مشہور ہیں۔ انگریز دور میں رائے احمد خان کھرل شہید کی زیر قیادت بغاوت کی اور 1857ء کی جنگ آزادی میں حصہ لیا۔ 1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور رائے احمد خان کھرل کی شہادت کے بعد انگریزی سرکار نے ضلعی ہیڈ کوارٹر گوگیرہ سے منٹگمری منتقل کیا اور راوی کے کنارے کھرلوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ کھرلوں کی اکثریت جنگلوں اور بیلوں میں روپوش ہوگئی اور کچھ خاندانوں نے ملتان اور سندھ کی طرف ہجرت کی۔ ان ہجرت کرنے والوں میں کھر خاندان کے اجداد بھی شامل تھے۔ تہمینہ درانی نے اپنی کتاب مائی فیوڈل لارڈ میں لکھا ہے کہ اس ہجرت کے دوران ان خاندانوں نے اپنی خواتین اور بچیوں کو دشمنوں سے بچانے کیلئے ذبح کر دیا تھا اور مرد جان بچا کر وہاں سے بھاگ نکلے تھے ۔ سوال یہ ہے کہ یہ کھرل سے کھر کیسے ہوئے اس حوالے سے کئی سینہ بہ سینہ روایات ہیں۔ ایک روایت جو کہ تہمینہ درانی نے لکھی ہے کہ گوگیرہ سے بھاگ نکلنے کے بعد کھرل قوم کا ایک خاندان ملتان کے پاس مقیم ہوا اور وہاں کسی کسان کے گنے کے کھیت سے گنے کاٹ کر مویشیوں کو ڈال دیئے اور کسان کے پوچھنے پر اسے کہا کہ ہم سمجھے تھے شاید یہ کوئی خودرو گھاس ہے اس لاعلمی پر اس کسان نے غصے میں کہا کہ تم کھرل نہیں تم خر ہو بعد میں یہی خرگھر بن گیا ۔ دوسری روایت یہ ہے کہ کوٹ ادو کے ان گھروں کے جد نے پیر پٹھان آف تونسہ شریف کے ہاتھ بیعت کرنا چاہی تو پیر نے اعلی ذات پوچھی تو انہوں نے کھرل بتائی ۔ پیر پٹھان خود خواجہ نور محمد مہاروی چشتیاں شریف ذات کھرل کے مرید تھے لہذا انہوں نے کہا کہ میں خود کھرل کا مرید ہوں تمہیں کیسے اپنا مرید بنا سکتا ہوں ۔ اگلے برس جب دوبارہ پیر پٹھان کے پاس گئے تو ایک دوست کے مشورے سے کھرل کال بنا کر اپنے آپ کو کھر ظاہر کیا اس پر پیر پٹھان نے انھیں اپنا مرید بنا کر دعا دی۔ تب سے یہ کھرل سے کھر ہو گئے ۔ مظفر گڑھ میں کھر غربی،سنانواں اور لسوڑی میں آباد ہیں۔
دیوڑا:
دیوڑا چوہان راجپوتوں کی ایک ذیلی شاخ ہے ۔ لفظ دیوڑا کیسے وجود میں آیا اس نام کے حوالے سے کئی روایات ہیں ۔ راجستھان میں دیوڑا قوم کی خاندانی روایات کے مطابق دیوڈا راؤ لکھن آف نا ڈول مارواڑ راجستھان کی اولاد ہیں ۔ کہتے ہیں کہ راؤ لکھن کی بیوی بہت خوبصورت اور کسی دیوی کی طرح سخی اور مہربان تھی ۔ اس لیے ان کے بیٹے دیوی ڈا مطلب دیوی کے بیٹے کہلائے ۔ بعد میں یہی دیوی ڈا لفظ دیوڑا بن گیا۔ ایک اور روایت کے مطابق دہلی میں مسلمان فاتح شہاب الدین غوری کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد پرتھوی راج چوہان کے ایک چچانے راجستھان کے علاقوں جلور اور چند روتی کو اپنا مرکز بنایا اور حکومت قائم کی ۔ بعد میں ان کے ہاں ایک دیوراج نام کا با اثر شخص ہوا۔ دیوراج کی اولاد بعد میں ان کے نام سے دیوڑا کہلاتی ہے۔ را ؤ د یوراج نے 1311 ء میں یہ علاقہ سح کیا اور ریاست سروہی کی بنیاد رکھی۔ یہ ریاست 1947 ء تک قائم رہی۔ اس ریاست کے تمام حکمران دیوڑا راجپوت تھے ۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔ ان میں سے اکثر نے بعد میں پنجاب اور سندھ سمیت ہندوستان کے دیگر علاقوں کی طرف ہجرت کی اور وہیں بس گئے ۔ اسی طرح بمبئی سمیت بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی یہ آباد ہیں ۔ پاکستان میں سندھ اور پنجاب میں یہ لوگ خال خال ہیں۔ پنجاب میں ضلع مظفر گڑھ ، شہر سلطان، فیصل آباد، تاندلیانوالہ خانیوال، تونسہ، ضلع ملتان اور ضلع گجرات میں محدود تعداد میں آباد ہیں۔ ان میں کچھ لوگ 1947 ء سے پہلے ان علاقوں میں آباد ہیں اور کچھ خاندانوں نے آزادی کے بعد ہجرت کی اور پاکستان کے علاقوں میں آبسے ہیں۔ ضلع مظفر گڑھ میں شہر سلطان، موضع جھنڈے والی اور موضع فیض پور میں ان کے سینکڑوں خاندان آباد ہیں۔
ڈینہ:
خاندانی شجرہ کے مطابق یہ بھی راجہ ہنسپال کی اولاد ہیں ۔ اصلاً راجپوت ہیں ۔ مظفر گڑھ میں چوک پرمٹ میں آباد ہیں۔
دھنوتر:
خاندانی شجرہ نسب کے مطابق یہ راجہ ہنسپال کی اولاد ہیں اگر چہ کا شتکاری سے وابستہ ہیں مگر راجپوت ہیں ۔ مظفر گڑھ میں قصبہ شاہ جمال کے آس پاس کافی تعداد میں آباد ہیں
مظفر گڑھ کی جٹ ذاتیں
مورخین کے درمیاں ہمیشہ اختلاف رہا ہے کہ جٹ اصل میں کون ہیں۔ کچھ انھیں انڈ ویتھین بتاتے ہیں۔ انگریز مؤرخین جنرل الیگزینڈر نھم اور ٹاڈ کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک صدی قبل مسیح وسط ایشیاء سے پنجاب کی طرف آئے میجر ٹاڈ انہیں راجپوتوں کا ایک بڑا قبیلہ شمار کرتے ہیں۔ لیکن جنرل نکلھم اس سے متفق نہیں ہے اس کا خیال ہے کہ راجپوت اصل مقامی نسل ہیں اور جٹ کا تعلق بعد ازاں شمال مغرب سے آنے والے میتھین نسل سے ہے۔بہت سے مؤرخین نے جٹ اور راجپوت گوتوں کو ایک دوسرے میں خلط ملط کر دیا ہے حقیقت یہ ہے کہ عادات ، رسم ورواج ، رہن، بین، صلاحیت ، بہادری، دلیری، افتاد طبع ، مزاج اور جسمانی خدو خال کو مد نظر رکھا جائے تو جٹ اور راجپوت دو علیحدہ علیحدہ نسلی گروہ ہیں۔ راجپوت زمانہ قدیم میں سپاہ گری اور حکومتی معاملات سے منسلک تھے جبکہ جٹ قبائل کھیتی باڑی، گلہ بانی اور کاشت کاری سے وابستہ ہو گئے ۔ برصغیر میں جب انگریز افسروں نے مختلف علاقوں کے اعداد وشمارا کٹھے کر کے گزمیئر لکھے تو انہوں نے ہر اس قبیلے کو جٹ بنادیا جو کا شتکاری سے وابستہ تھا۔ جٹ کاشتکار ہیں مگر ہر کاشت کار جٹ نہیں ہے۔ ذاتوں کے بارے مکمل سچائی پر مبنی معلومات کیلئے ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
مکول:
یہ دعوی کرتے ہیں کہ مکول بنیادی طور پر سعودی عرب کے شہر مکہ سے آئے ہیں ۔ مکہ دل مشہور ہوئے ۔ دائرہ دین پناہ میں آباد ہوئے۔ دائرہ دین پناہ کی مشہور دربار بھی مکول قوم سے منسوب ہے۔ ابھی بھی کچھ وہیں آباد ہیں۔ اور کچھ چوک مکول اور بیٹ رائلی میں آباد ہو گئے ۔ کاشت کاری سے وابستہ ہیں اور اب انھیں جٹ قبیلہ شمار کیا جاتا ہے
جانگلہ:
علی پور جتوئی اور مظفر گڑھ کا جٹ کا شتکار قبیلہ ہے ۔ شاہ جمال کے نزدیک مہر پور محمود کوٹ ، چک روہاڑ کی شہر سلطان اور کوٹ ادو میں جانگلہ برادری کے لوگ موجود ہیں۔ ملتان ، راجن پور، ڈیرہ غازیخاں میں بھی جانگلہ برادری کے لوگ موجود ہیں۔ جانگلہ برادری کے افراد کے مطابق یہ شمالی پہاڑوں سے پنجاب میں آئے ہیں [224]۔ جانگلہ قوم کے ایک فرزند پروفیسر ڈاکٹر میر محمد سعید اختر چیئر مین ادارہ تعلیم و تحقیق پنجاب یونیورسٹی ایک بڑااور نمایاں نام ہے۔
مونڈا:
ہند و مرتاضیوں کا ایک فرقہ جو جسم کے تمام بال مونڈ دیتے تھے ۔ بعد میں کچھ مونڈا افراد نے اسلام قبول کیا۔خان گڑھ میں مونڈ اقوم آباد ہے
لانگ:
ذاتوں کے انسائیکلو پیڈیا کے مصنف نے انھیں زراعت پیشہ جٹ قبیلہ لکھا ہے ۔ خان گڑھ کے قریب لانگدریائے چناب کے کنارے پر آباد ہیں
گدارا:
یہ بھی ایک زراعت پیشہ جٹ قبیلہ ہے۔ شہر سلطان اور جتوئی میں آباد ہیں۔
پتل:
تحصیل کوٹ ادو میں تیل قوم کے افراد آباد ہیں ۔ پتل منڈا ان کا مرکز ہے۔ یہ بھی کا شتکار ہیں۔
زرگر:
زرگ مہر کہلواتے ہیں۔ رنگپور میں کافی تعداد میں آباد میں زمیندار ہیں پیشہ کا شیکاری ہے۔
سندیلہ:
ذاتوں کے انسائیکلو پیڈیا میں صفحہ نمبر 265 پر ان کو جٹ قبیلہ بتایا گیا ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ یہ شاہ جہاں کے دور میں دہلی سے آئے اور پنجاب میں آباد ہوئے ۔ مظفر گڑھ میں بھی یہ کثرت سے آباد ہیں۔
پنوہاں:
کا شتکاری سے وابستہ اس ذات کے لوگ دریائے چناب کے کنارے موضع شکر بیلہ اور مڈ والا میں آباد ہیں ۔
درکھ:
یہ کاشتکاری سے وابستہ ہیں۔ اس ذات کے لوگ بندہ اسحاق ہستی درگھ (خانگڑھ ) ، فیض پور اور دیگر علاقوں میں آباد ہیں۔ یہ جام کہلاتے ہیں
مرالی:
زراعت پیشہ جٹ قبیلہ کے لوگ مظفر گڑھ کے بہت سے علاقوں میں آباد ہیں۔
کھلنگ:
تحصیل جتوئی اور علی پور میں آباد ہیں یہ ایک کاشتکار قوم ہے ۔ موضع جھلا ریں کے کھلنگ بڑے زمیندار ہیں ۔ تحصیل جتوئی اور علی پور کے علاوہ تحصیل مظفر گڑھ میں کھلنگ شمالی اور جنوبی کے نام سے دو مواضعات ہیں بھی سرور اور ڈیرہ غازی خان میں بھی بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
جھورڑ:
جھور ڑ بھی چند بڑی ذاتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جھورڑ پاکستان میں جنوبی پنجاب میں آباد ہیں، بلوچستان اور سندھ کے علاوہ یہ راجن پور مظفر گڑھ لیہ سمندری فیصل آباد، فورٹ آباد مروٹ میں بڑے گھرانے ہیں۔ زیادہ تر زمیندار اور کاشت کار ہیں۔ جیسے مظفر گڑھ کے ملک رسول بخش جھور ڈ ایڈوکیٹ ہائی کورٹ ۔
ماڑھا:
رو بیلانوالی کے نزدیک قصہ ماڑھا اور موضع سنکی میں ماڑھا قوم کے لوگ آباد ہیں ۔ یہ جام کہلواتے ہیں۔مازحا بنیادی طور پر کاشت کار ہیں ۔
کھاڑک:
شاہ جمال کے علاقے میں کھاڑک قبیلہ کاشت کاری سے وابستہ ہے۔
ڈیسی:
مراد آباد اور تھل کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں۔ کاشتکاری سے وابستہ ہیں اپنے آپ کو مقامی ذات بتاتے ہیں ۔ لفظ دیسی سے ڈیسی ہو گئے ہیں ۔
بدھ:
ڈاکٹر مہر عبدالحق نے اپنی کتاب تھل کے صفحہ نمبر 14 پر لکھا ہے کہ مظفر گڑھ سے سات میل دور مغرب کی طرف تھل کے بڑے بڑے ٹیلوں کے درمیان بدھ نام کا ایک گاؤں اور قوم آباد ہے جس کا براہ راست تعلق یقینی طور پر مہاتما بدھ اور اس کے قدیمی مذہب بدھ مت سے ہے ۔ قصبہ بدھ میں آباد بدھ قوم کا شتکاری سے وابستہ ہے ۔ بدھ قوم کی ایک نمایاں شخصیت ملک خیر محمد بدھ ہے، جو کہ سابق بیورو کریٹ و مصنف ہیں۔ ان کے ایک صاحب زادے ملک اسد بدھ اسٹنٹ کمشنر ہیں ۔
کالرو:
صحرائے تھل میں کالر و آباد ہیں۔ یہ بھی ایک کاشت کا رقبیلہ ہے۔
ابرینڈ:
شاہ جمال میں اس برادری کے لوگ آباد ہیں۔ زمیندار ہیں اور کاشت کاری سے وابستہ ہیں۔
خدائی:
کاشت قبیلہ جو سنکر سرائے ، مراد آباد اور خدائی بنگلہ میں آباد ہیں ۔
پہوڑ:
اس برادری سے وابستہ لوگ مظفر گڑھ شہر کے شمالی مغربی حصے میں آباد ہیں۔
دیگر متفرق ذاتیں
سنانواں:
ان کی خاندانی تاریخ کے مطابق 1550ء میں ریاست جموں و کشمیر کے سکھ مہا راجے سارنگ کی اپنے خاندان سے لڑائی ہو گئی ۔ وہ وہاں سے ناراض ہو کر چل پڑے اور دریائے چناب کے کنارے کنارے سفر کرتے ملتان کے نزدیک پہنچ گئے اور یہاں پڑاؤ ڈالا ۔ یہاں کے بزرگ مخدوم شیر شاہ نے ان کو اسلام کی دعوت دی ۔ سارنگ نے ان کی دعوت پر اسلام قبول کر لیا ۔ سارنگ کے خاندان کے افراد کی عقل و دانش سے متاثر ہو کر کہا کہ آج سے تم سہانے ہو ۔ یہ سہانا بعد میں بگڑ کر سنانواں بن گیا۔ حضرت شیر شاہ نے سارنگ کو قافلے سمیت اپنے چچا حضرت رم علی شاہ اور عزیز حضرت شاہ حسین کے پاس کوٹ ادو کے نزدیک بھیج دیا اور جاگیر عطا کرنے کی سفارش کی ۔ یوں نانواں خاندان کے افراد کوٹ ادو کے نزدیک صحرائے تھل میں ( موجودہ قصبہ سنانواں آباد ہوئے ۔ انگریز دور میں سنانواں برادری کے سربراہ ملک غلام علی سنانواں آنریری مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز رہے موجودہ دور میں ملک عبدالاحد سنانواں کئی بار مبر ضلع کونسل اور چیئر مین یونین کونسل سنانواں منتخب ہوئے ہیں ۔ اب انکے بیٹے عبد القادر سنانواں سیاست میں فعال ہیں۔ سارنگ کی قبر دربار رحم علی شاہ ( سنانواں ) میں موجود ہے ۔ سنانواں کے نزدیک سارنگ نام کی بستی بھی موجود ہے۔ جبکہ اس قوم کے ملک فتح محمد سنانواں ذیلدار اور سب رجسٹرار کے عہدوں پر فائز رہے ۔ سنانواں قوم کا دعویٰ ہے کہ ان کے اجداد میں سے ملک فتح محمد اور ملک غلام محمد سنانواں کو ان کے مخالف زمیندار ملک فتح محمد کھر نے زہردے کر مروا ڈالا تھا۔
چھجڑا:
تاریخ مظفر گڑھ کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حیدر پرویز نے میاں محمد حسین سجاد معجزہ مرحوم کی روایت بیان کی ہے کہ دراصل حضرت نظام الدین اولیا کے وقت میں ان کی جد امجد میں سے دو بچے پڑھنے کیلئے افغانستان سے ہندوستان آئے یہ بچے اسماعیل اور اسحاق تھے وہ ایک عمارت کے چھجے کے نیچے بیٹھ کر پڑھتے تھے اساتذہ نے ان کو چھجڑے کہنا شروع کر دیا، ان کی اولا داب چھجڑہ کہلاتی ہے، ان دونوں کے مزار مظفر گڑھ کے قصبے گجرات میں ہیں ، اسماعیل لا ولد تھا جبکہ اسحاق کی اولاد آج مانک والی ضلع ملتان، بندہ اسحاق، کلر والی ، قادر پور شریف چھجڑہ اور ا مظفر گڑھ میں آباد ہے۔ معجزہ قوم کے ایک اور روایت یہ ہے کہ معجزہ در اصل ملک چھجو کی اولاد ہیں ، ملک چھجو سلطان غیاث الدین کا درباری تھا، دوسری روایت یہ ہے کہ سمہ قوم جو جام کہلواتی تھی نے 1351 میں ملتان پر قبضہ کیا تھا، اسی زمانے میں ہندوستان سے کچھ تو میں میاں، بھٹی اور پھجڑے ہندوستان سے آکر ان علاقوں میں آباد ہوئے۔ زیادہ قرین از قیاس یہ ہے کہ مچھجڑے ملک چھجو کی اولاد ہے۔
والوٹ:
والوٹ مغل بادشاہ اکبر سے رشتہ جوڑتے ہیں۔ مغل خاندان کے چار فرد حضرت بہاوالدین زکریا ملتانی کے ساتھ ملتان تشریف لائے ۔ جب حضرت ملتان آرہے تھے کہ اچانک گھوڑی کی رسی ٹوٹ گئی جو ان کے ساتھ چار فرد تھے وہ جلدی سے اپنی اپنی سواری سے اترے اور گھوڑیوں کے بال کاٹے اور بالوں کے ساتھ ری بنائی تو حضرت نے جب یہ دیکھا تو فرمایا آپ تو پکے والوٹ ہو اس سے یہ والوٹ مشہور ہو گئے ۔ ان لوگوں نے ملتان کو خیر باد کہا اور وہاں سے ہجرت کی اور چار لوگوں نے مختلف علاقوں میں جاکے اپنے گھر آباد کیے اور وہ مختلف علاقوں تحصیل علی پور موضع مفتح پور، شیر شاہ ملتان شاہ جمال اور خانگڑھ ڈومہ میں آباد ہوئے
گجر:
محمد عبد المالک نے شاہان کو جڑ میں لکھا ہے کہ دوسرے ممالک میں اس قوم کو خزر، جزر، جندر اور گنور بھی کہا گیا ہے۔ برصغیر میں یہ پہلے گرجر کی صورت پھر گوجر ہو گیا۔ یہ لوگ گرجستان سے آئے تھے۔ بحیرہ خزر کے ارد گرد خزر یعنی گوجر آباد تھے ۔ شاہان گوجر میں اگنی کل کی چاروں قوموں چوہان، چالو کیہ، پڑھیار اور پنوار کا ذکر گوجروں کے ضمن
میں کیا ہے۔
حسن علی چوہان نے تاریخ گوجر میں لکھا ہے کہ رامائین میں گوجر کے معنی غازی کے آئے ہیں اور یہ کشتری ہیں جو بعد میں گوجر کہلانے لگے۔ اس میں سورج جنسی ، چند جنسی ، چوہان، چالو کیہ، پڑھیار، پنوار اور راٹھوروں کو بھی گوجر کہا گیا ہے۔ مگر ان اقوام نے بھی گوجر ہونے کا دعوی نہیں کیا اور نہ ہی گوجروں نے بھی ان اقوام سے اپنا نسلی تعلق ہونے کا دعوی کیا ہے۔ مظفر گڑھ میں گجر مختلف علاقوں میں آباد ہیں
کپاہی:
ذاتوں کے انسائیکلو پیڈیا میں انھیں کھتریوں کی ایک شاخ لکھا ہے۔ جب کہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت فیروز سلطان ہند سے سترہویں صدی کے آغاز میں ہجرت کر کے سیہون شریف تشریف لائے فیروز سلطان صوفی منش انسان تھے ان کو دنیا داری سے کوئی غرض نہ تھی فیروز سلطان کے بزرگ اس وقت برصغیر پاک و ہند کے بہت بڑے جاگیردار تھے لیکن حضرت کو ان چیزوں سے کوئی لگاؤ نہ تھا حضرت کی سیہون شریف دربار پر پانی بھرنے کی ڈیوٹی لگا دی گئی کافی عرصہ وہاں قیام پذیر رہے اور اللہ کی عبادت کے ساتھ اپنی ڈیوٹی بھی سرانجام دیتے رہے جب آپ کو اپنے مرشد نے ہجرت کا حکم دیا تو آپ نے ہجرت کی اور آپ دائرہ و دھو تشریف لائے جس کا زیادہ تر رقبہ جنگل پر محیط تھا۔ جب آپ دائرہ ودھو پہنچے تو کچھ عرصہ بعد آپ کی وہاں پر شادی ہوگئی جب پہلے بیٹے کی پیدائش ہوئی تو آپ نے اپنے مرشد کو دعوت پر مدعو کیا جب آپکے پیر و مرشد تشریف لائے تو آپ نے احترام کرتے ہوئے انکے قدموں کے نیچے کپاس بچھائی جہاں سے کیا ہی کے نام سے مشہور ہوئے فیروز سلطان کی شادی دائرہ ودھو کے زمیندار گھرانے میں ہوئی آپ کے پانچ بیٹے پیدا ہوئے دو دائرہ ودھو میں رہے اور دو موچیوالی آگئے ایک لا ولد فوت ہو گئے فیروز سلطان کا مزار دائرہ ودھو میں ہے اور پانچوں بیٹے بھی وہیں پر آپ کے مزار اندر دفن ہیں۔ آج کی ان کی اولاد کیا ہی کہلاتی ہے۔
تاریخی مقامی ذاتیں:
موہانےٓ سرائیکی زبان میں موہانا اور سندھی میں موہانو پکاری جانی والی ذات ہے۔ موہا نے وادی سندھ کا قدیم ترین لوگوں میں سے ہیں ۔ ماہی گیری سے وابستہ اس قبیلے کے لوگ مظفر گڑھ میں دریائے چناب اور دریائے سندھ کے کناروں پر آباد ہیں ۔
کہل:
دریائے سندھ کے کنارے غازی گھاٹ کے مقام پر خود کو دریا کے پونگ ( مچھلی کا بچہ ) کہلانے والی ایک برادری آباد ہے جنہیں یہل کہا جاتا ہے۔ یہل سرائیکی زبان میں اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کا نہہ (ٹی ) کا تا ہو جیسا کہ اردو زبان میں لکڑی کاٹنے والے کو کٹر ہارا کہا جاتا ہے [234]۔ کیمبل بنیادی طور پر کون ہیں اور دریائے سندھ کے کنارے کب سے آباد ہیں اسکے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا اور تاریخ کی کتابیں بھی اس بارے میں مکمل طور پر خاموش نظر آتی ہیں۔ یوں تو کچھ مؤرخ، ناول نگار اور ادیب اپنے فن پاروں میں اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ جب آریائی نسل برصغیر پر حملہ آور ہوئی تو یہ لوگ سندھ کی وادیوں میں آباد تھے لیکن اس حقیقت کے اثبات کے لیے اُن کے ہاں ٹھوس شواہد اور دلائل کا فقدان نظر آتا ہے۔ یہ لوگ دراصل خانہ بدوش ہیں جو بھی دریائے سندھ کے کنارے کشتیوں میں رہا کرتے تھے اور ان کا ذریعہ معاش دریا سے مچھلی پکڑ کر بیچنا تھا۔ کیہل قوم کی ایک نمایاں شخصیت ملک امام بخش کھیل علیگ، پہلے پرنسپل ایلمنٹری کالج مظفر گڑھ ہیں۔
مہاگی:
دریائے سندھ اور چناب کے کناروں پر آباد ہیں ۔ ماہی گیری اور کاشت کاری سے وابستہ ہیں۔
مور:
ڈاکٹر مہر عبدالحق نے اپنی کتاب تھل میں لکھتے ہیں کہ وادی سندھ کے دریاؤں پر صدیوں تک مور قوم کا تسلط رہا ہے ایک تحقیق کے مطابق ملتان کا اصل نام مورستان ہے جو لسانی اصولوں کے مطابق درست معلوم ہوتا ہے۔ مور دنیا کے اولین جہاز راں اور کشتی ساز سایتھین لوگ تھے انہوں نے دریاؤں کے ساتھ ساتھ ہر جگہ مچھلی منڈیاں قائم کر رکھی تھیں ۔ ماہی گیری سے وابستہ اس قبیلے کے لوگ مظفر گڑھ میں دریائے چناب اور دریائے سندھ کے کناروں پر آباد ہیں ۔
جھبیل:
ماہی گیری سے وابستہ اس قبیلے کے لوگ مظفر گڑھ میں دریائے چناب اور دریائے سندھ کے کناروں پر آباد ہیں
نوٹ: مضمون محمد شہزاد کی کتاب "سر زمین مظفرگڑھ” سے لیا گیاہے