مظفر گڑھ کے شہر اور قصبے ۔ ۔ ۔ تعارف اور وجہ تسمیہ
نواب مظفر خان کا بسایا۔۔ مظفر گڑھ مظفر گڑھ کا مطلب ہے مظفر کا قلعہ بھی یہ چناب کے کنارے پر ایک چھوٹی سی بستی تھی جو موسن دی ہٹی کے نام سے مشہور تھی ۔ پھر وائی ملتان نواب مظفر خان سدوزئی نے 1794ء میں موجود ہ شہر کے مقام پر قلعہ مسجد اور قلعہ کے اندر رہائشی مکانات بنوائے اور باقاعدہ شہر کی بنیاد رکھی۔ ان کی نسبت سے اس جگہ کا نام مظفر گڑھ مشہور ہو گیا۔ انگریز دور میں اسے ضلع کا درجہ دیا گیا تھا۔ اب یہ ضلعی ہیڈ کوارٹر ہے۔ یہ ضلع کا سب سے بڑا شہر ہے دریائے چناب سے 8 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے قلعہ مظفر گڑھ کے چار دروازے تھے۔ مشرق میں ملتانی دروازہ مغرب میں بصیرہ دروازہ ،شمال میں ریلوے دروازہ اور جنوب میں خانگڑھی دروازہ تھا۔ ان دروازوں میں صرف دو دروازوں جنوبی اور شمالی کے آثار اب بھی موجود ہیں اب ان کے نام باب عثمان اور باب عمر ہیں ۔ اب شہر قلعہ کی فصیل سے باہر کافی دور تک پھیل چکا ہے۔ شہر کے مشہور بازاروں میں سے ملتانی بازار، خان گڑھی بازار، بصیرہ بازار اور ریلوے روڈ باز ارشامل ہیں ۔ چوک طباخیاں ، رشید حلوائی چوک ، قنوان چوک ، جھنگ موڑ چوک ، پرانی چونگی نمبر 2 تھل چوک ، کچہری چوک تیری چوک، ریلوے پھاٹک ، ملتان روڈ پلی پور روڈ ، جھنگ روڈ اور ڈیرہ غازی خان روڈ شہر کے بارونق علاقے ہیں جہاں ہمہ وقت رونق رہتی ہے۔ فیصل اسٹیڈیم سپورٹس کمپلیکس، سپورٹس گراؤنڈ اور فیاض پارک شہر کے تفریحی مقامات ہیں
۔ خان بی بی کے نام سے موسوم ۔۔ خانگڑھ:
مظفر گڑھ شہر سے 16 کلومیٹر کے فاصلے پر علی پور روڈ پر واقع یہ قصبہ نوابزادہ نصر اللہ خان کا آبائی قصبہ ہے۔ خان گڑھ کا مطلب ہے خان بی بی کا قلعہ ۔ یہاں نواب شجاع خان واستی ملتان نے اپنے بیٹے نواب مظفر خان کی زیر نگرانی ایک قلعہ تعمیر کرایا تھا جسے انکی بیٹی خان بی بی سے منسوب کیا گیا تھا۔ یہ علاقہ نواب شجاع نے اپنی بیٹی خان بی بی کو عطا کیا تھا۔خان بی بی اپنے بھائی نواب مظفر خان کی فوج میں سپہ سالار تھی اور جنگ منکیرہ میں شہید ہوگئی تھی، مولانا نور احمد فریدی کی ” تاریخ ملتان اور دیگر تاریخی کتابوں کے ساتھ ساتھ خان گڑھ کی صدری تاریخ کے مطابق قلعہ خان گڑھ نواب شجاع خان نے اپنی بیٹی خان بی بی کے نام پر آباد کیا تھا [112] لیکن” تذکرۃ الملوک” جو نواب مظفر خان کے ہم عصر شہزاد علی محمد خان کی فارسی تصنیف ہے میں ایک اور روایت سامنے آتی ہے، وہ یہ کہ نواب شجاع خان نے خان گڑھ اپنی پھوپھی خدیجہ معروف بہ خان بی بی کے نام پر آباد کیا تھا، تذکرۃ الملوک کے مطابق نواب شجاع خان کی پھوپھی جن کا نام خدیجہ تھا نواب عابد خان سدوزئی کی بیٹی تھیں یہ عبداللہ خان معروف بہ جیون خان کی زوجہ تھیں، جوانی میں بیوہ ہو گئی تو اپنے بھائیوں اور بھتیجوں کے پاس رہنے لگیں، انہوں نے بڑی لمبی عمر پائی، یہ بہت عابدہ اور زاہدہ تھیں، پشتو اور فارسی میں شعر کہتی تھیں ، خان گڑھ کا قلعہ انہی جان حور معروف بہ خان بی بی کے نام پر قائم ہوا ۔ عمر کمال خان ایڈووکیٹ کی کتاب ” نواب مظفر خان اور ان کا عبد” میں بھی قلعہ خان گڑھ کی تعمیر انہی خان بی بی سے منسوب کی گئی ہے۔ قلعہ خان گڑھ کے دروازے بھی تھے اور قدیم شہر قلعے کے اندر تھا۔ اب دو دروازے باقی ہیں انکے نام شمالی دروازو اور جنوبی دروازہ ہیں۔ یہ دروازے اب بھی موجود ہیں ۔
اکبر علی خان نہر کے نام سے موسوم ۔ علی پور:
سولہویں صدی عیسوی کے شروع میں سیت پور ریاست کے حکمران خاندان کے ایک فردا کبر علی خان نہڑ نے آباد کیا تھا اس نسبت سے اسے علی پور کہتے ہیں یہاں نہر اور مخدوم خاندان کی حکومت رہی ۔ 1790ء میں نواب بہاولپور نے یہاں قبضہ کرلیا۔ علی پور ہیڈ پنجند کے نزدیک واقع ہے ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل ہے ۔ پنجند کے مقام پر خطے کے پانچ دریاؤں تلج، بیاس، چناب ، راوی اور جہلم کا پانی اکٹھا ہوتا ہے یہ مقام پانچ دریاؤں کا سنگم ہے۔ پہلے یہ یت پر تفصیل میں شامل تھا، پھر تحصیل صدر مقام علی پور منتقل کر دیا گیا۔ اس وقت علی پورضلع مظفرگڑھ کی ایک تحصیل ہے ۔
اروخان میرانی کا بسایا ۔ ۔ کوٹ ادو:
کوٹ ادو کا مطلب ہے ادو کا قلعہ ۔ حاکم ڈیرہ غازیخان غازی خان میرانی نے اپنے دور حکومت میں اپنے ایک عزیز ادو خان میرانی بلوچ کو یہاں حاکم مقرر کیا جس نے اس قصبے کی بنیاد رکھی اور یہاں ایک قلعہ تعمیر کرایا ۔ تونسہ بیراج کے قریب دریائے سندھ کے کنارے پر واقع یہ شہر اب مظفر گڑھ کی تحصیل ہے۔
جتوئی بلوچوں کا مسکن ۔۔جتوئی:
مظفر گڑھ کا ایک مشہور قصبہ جتوئی ہے۔ یہ مظفر گڑھ شہر سے بطرف جنوب دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے۔ یہاں بلوچوں کا ایک بڑا قبیلہ جتوئی آباد ہے۔ اس وجہ سے اس قصبے کا نام جتوئی ہے۔ 1991 میں جتوئی کو تحصیل کا درجہ دیا گیا۔
نواب غضنفر خان کے نام پر بسایا غضنفر گڑھ:
یہ چھوٹا سا قصبہ خان گڑھ سے آگے مرکزی شاہراہ سے تھوڑا ہٹ کر وسندے والی کے قریب واقع ہے۔ یہاں بھی والٹی ملتان نواب شجاع خان نے ایک قلعہ تعمیر کرایا تھا اور اسے اپنے چھوٹے بیٹے غضنفر خان کے نام سے منسوب کیا تھا۔ اب قلعہ کے آثار مٹ چکے ہیں۔ اس قصبے کے نزدیک واقع غضنفر جھیل بھی سوکھ چکی ہے اور اس قصبے کی رونق ماند پڑ چکی ہے ۔
سیتارانی کا سیت پور:
سرزمین مظفر گڑھ کا سب سے قدیم اور تاریخی شہر سیت پور علی پور کے جنوب میں واقع ہے۔ کہتے ہیں کہ زمانہ قدیم میں یہاں ایک ہندو راجہ کی حکومت تھی جس کی دو بیٹیاں تھیں جن کا نام او چا اور سیتا تھا۔ او چا کے نام سے اوچ شہر مشہور ہے اور سیتا کے نام سے سیت پور ۔ سیت پور مظفر گڑھ کا قدیم ترین قصبہ ہے جو علی پور سے بطرف جنوب دریائے سندھ اور دریائے چناب کے سنگم پر واقع ہے ۔ یہ سیت پور سلاطین دہلی کے عہد میں لودھی نہر ریاست کا دارلحکومت تھا یہاں اب بھی شاہی مسجد اور مقبرہ طاہر خان نہر موجود ہیں۔ شہر دو حصوں میں تقسیم ہے خانانی اور شیخانی۔
مخدوم سلطان کے نام سے منسوب ۔ ۔ سلطان پور:
سیت پور کے نزدیک یہ بھی ایک تاریخی قصبہ ہے جو صدیوں سے آباد ہے۔ اس کا نام حاکم سیت پور مخدوم سلطان کے نام سے سلطان پور ہے۔ کبھی یہ شہر قلعہ اور فصیل کے اندر تھا اسکے پانچ دروازے تھے ۔ اب یہ ایک چھوٹانسا قصبہ ہے
کندی مائی کا گاؤں :
کندائی دریائے سندھ کے کنارے آباد یہ قصبہ علی پور تحصیل میں واقع ہے۔ مقامی روایات کے مطابق سیتا رانی کے دور میں یہاں ایک عورت کندی نام کی آباد تھی جس سے اس قصبے کا نام کندی سے بگڑ کر کندائی ہو گیا ۔
پرمٹ:
علی پور کے نزدیک مظفر گڑھ جانے والے سڑک پر واقع ہے۔ یہاں سے ایک سڑک جتوئی کو جاتی ہے ۔ یہ علاقہ کبھی ریاست بہاولپور کے ماتحت تھا اور کہتے ہیں کہ اس دور میں یہاں پر چوکی تھی جہاں سے لوگوں کو ریاست بہاولپور میں داخل ہونے کا پرمٹ ملتا تھا جس سے اس جگہ کا نام پر مٹ مشہور ہو گیا۔
روہیلوں کا گاؤں ۔۔ روہیلاں والی:
یہ قصبہ مظفر گڑھ شہر سے 38 کلومیٹر دور علی پور روڈ واقع ہے۔ روہیلانوالی لفظ روہیلہ سے نکالا ہے کہتے ہیں کہ برسوں پہلے روہیلہ پٹھان قبیلے کے کچھ افراد نے اسکی بنیاد رکھی تھی ان کی وجہ سے اس کا نام روہیلانوالی پڑ گیا۔ یہ کافی بڑا قصبہ ہے۔ یہاں کے عوام کا پر زور مطالبہ ہے کہ اسے تحصیل کا درجہ دیا جائے ۔
سلطان چھجڑہ کا شہر سلطان:
یہ قصبہ حضرت عالم پیر بخاری کے مرید میاں سلطان چھجڑہ کی نسبت سے شہر سلطان کہلاتا ہے ۔ دریائے چناب کے کنارے پر واقع یہ قصبہ بڑی اہمیت کا حامل ہے. عالم پیر بخاری کا مقبرہ یہاں واقع ہے۔ ہر سال بیساکھی کے موقع پر میلہ بھی لگتا ہے۔
رنگوخان کا شہر ۔۔ رنگ پور:
مظفر گڑھ شہر سے 65 کلومیٹر دور جھنگ روڈ پر تھل کے صحرا میں دریائے چناب سے تھوڑے سے فاصلے پر رنگ پور واقع ہے۔ یہ ایک تاریخی قصبہ ہے پنجاب کی مشہور عشقیہ لوک داستان ہیر رانجھا کا رنگ پور سے خاص تعلق ہے کیونکہ ہیر سیال کی شادی رنگ پور ہی کے ایک شخص سیدے کھیڑے کے ساتھ ہوئی تھی ۔ یوں مظفر گڑھ کے اس قدیمی قصبے کو ہیر کے سسرال ہونے کا شرف حاصل ہے۔ کہتے ہیں کہ رنگ پور کا یہ قصبہ بنگال کے شہر گورمکھ کھیڑا سے آنیوالے رنگو نامی ایک پہلوان سے منسوب ہے۔ رنگو نے ملتان کے شاہی پہلوان کو شکست دی تھی اور حاکم ملتان نے اسے یہ علاقہ بطور انعام عطا کیا تھا ۔ بعد میں رنو کا پورا خاندان یہاں آکر آباد ہوا اور حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ رنگپور کا یہ قصبہ دریائے چناب کے کنارے واقع تھا اور کئی مرتبہ دریا کی نذر ہوا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قدیم رنگ پور کو سچا پیار کرنے والے ہیر اور رانجھا کی بد دعا لگی تھی جس کی وجہ سے وہ دریا برد ہوا ۔ سہتی مراد کی عشقیہ داستان کا تعلق بھی رنگ پور سے ہے۔
حضرت بابا شاہ جمال کے نام سے منسوب ۔ ۔ شاہ جمال:
اس کا پرانا نام پتھر ہے۔ جہاں کانے یا کا نھ کے جنگل ہوں اسے جھر کہتے ہیں سنجھر کا شہر اصل میں کا نھ جھر تھا یعنی کانوں کا جنگل ۔ یہ دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ہے اس کی بنیاد حاکم ڈیرہ غازیخان غازی خان غازی خان میرانی نے رکھی تھی 1978 ء میں اس کا نام بدل کر یہاں کے ایک بزرگ شاہ جمال کے نام پر رکھا گیا۔ ان کا مزار اس قصبے میں واقع ہے ۔
قند رانی بلوچوں کا ٹھکانہ ۔۔ بصیرہ:
کچھ روایات کے مطابق اس کا اصل نام بسیرا ہے جو بعد میں بصیرہ ہو گیا ۔ کہتے ہیں کہ سکندراعظم نے جب ملتان سے واپسی کا سفر شروع کیا تو اس کی افواج نے دریائے سندھ کے ذریعے کشتیوں کے ذریعے سفر شروع کرنے سے پہلے دریا کے کنارے ان ٹیلوں میں کچھ دن کے لئے بسیرا کیا تھا۔ اس وجہ سے اس جگہ کا نام بسیرا پڑا [1126۔ بعد میں بلوچ قبیلے قدرانی کے یہاں آنے کی بنا پر اب اسکا نام بصیر اقتدرانی ہے ۔ یہاں قند رانی ، پتافی اور سہرانی بلوچوں کی اکثریت ہے۔
سنانواں قوم کا شہر ۔ ۔ سنانواں:
یہاں سنانواں نامی قوم آباد ہے۔ اس وجہ سے سنانواں کہلاتا ہے۔ یہ بھی تحصیل ہیڈ کوارٹر تھا۔ سنانواں کے جاگیر دار گورمانی اور کھر بہت مشہور ہیں۔ یہاں تین بڑی قومیں آباد ہیں سنانواں ، پر ہاڑ اور گوراہا۔ 1857ء کو سنانواں کو تحصیل کا درجہ دیا گیا ۔ 1913ء میں سیم و تھور اور بارشوں کے سیلاب کی وجہ سے سنانواں سے تحصیل ہیڈ کوارٹر کوٹ ادو منتقل کر دیا گیا ۔ 1922ء میں کوٹ ادو کو تحصیل کا درجہ دیا گیا۔ سنانواں گنے کی پیدوار کیلئے مشہور ہے ۔ یہاں دو شوگر ملز واقع ہیں۔
راجہ دائرہ اور حضرت دین پناہ کا شہر ۔۔ دائرہ دین پناہ:
پانچ صدیاں پہلے اس قصبے کا نام دائرہ تھا جو ہندو راجہ دائرہ کے نام پر آباد تھا۔ لیکن جب سید عبدالوہاب شاہ بخاری المعروف حضرت دین پناہ یہاں تشریف لائے تو ان کے نام کی نسبت سے یہ دائرہ دین پناہ مشہور ہو گیا۔ حضرت دین پناہ سے مغل بادشاہ اکبر اعظم کو بڑی عقیدت تھی آپ کی وفات کے بعد اکبر بادشاہ نے یہاں ان کا عالی شان مقبرہ بنوایا جوشغل فن تعمیر کا اعلی نمونہ ہے
منڈا قبائل کا ۔۔ چوک منڈا (چوک سرور شہید) :
قدیم منڈانامی قبائل کے نام پر اس مقام کا نام چوک منڈا تھا جسے اب چوک سرور شہید کہتے ہیں ۔ کیونکہ اب یہ نشان حیدر پانے والے میجر راجہ محمد سرور شہید کے نام سے منسوب ہو گیا ہے۔
سہتی اور مراد بلوچ کے نام سے منسوب ۔۔ مراد آباد:
عشقیہ داستان سہتی مراد کے کردار مراد بلوچ کے نام سے یہ قصبہ مراد آباد کہلاتا ہے کیونکہ مراد اور سہتی نے کچھ دیر یہاں قیام کیا تھا۔کہتی ہیر کی نندتھی جو مراد بلوچ کے ساتھ محبت کرتی تھی ۔ مراد آباد میں سیال قوم کی اکثریت ہے
سردار میر ہزار خان لغاری کا بیٹ۔۔ بیٹ میر ہزار خان:
دریائے سندھ کے بیٹ کا یہ سر سبز و شاداب علاقہ بلوچ سردار میر ہزار خان کی نسبت سے مشہور ہے۔ دریانکے کنارے علاقہ بیٹ کہلاتا ہے۔ یہاں لغاری بلوچ آباد ہیں۔
محمود گجر کا بسایا کوٹ محمودکوٹ:
محمود کوٹ ضلع مظفر گڑھ کا معروف قدیمی شہر ہے۔ اس کی تاریخ بارھویں صدی عیسوی کی تاریخی کتابوں میں ملتی ہے۔ شروع میں اس شہر کو حضرت جادن سلطان نے آباد کیا ، بعد میں ان کے بیٹے حضرت شیخ پلیا سلطان اور ان کی اولاد میں سے خواجہ میاں محمد حسین نے یہاں کے لوگوں کو اپنے روحانی کرشمہ سے دین اسلام کے نور سے منور فرمایا۔ 1720 ء میں نواب محمود گجر نے اس قصبے کی بنیاد رکھی اور یہاں ایک قلعہ عمیر کرایا تھا۔محمود گھر میرانی حکمرانوں کا وزیر تھا بعد میں ان کو شکست دیکر ان علاقوں کا حاکم بن بیٹھا۔ یہ قصبہ محمود گجر کے نام پر محمود کوٹ مشہور ہے ۔
غازی خان میرانی کے نام سے منسوب گھاٹ ۔۔ غازی گھاٹ:
دریائے سندھ کے کنارے پر واقع یہ قصبہ بھی غازی خان میرانی کے نام سے منسوب ہے یہاں دریائے سندھ پر ایک گھاٹ تھا جو غازی گھاٹ کہلاتا تھا جس کے ساتھ یہ گاؤں آباد ہوا۔ اسحاق بھجڑہ کا بسایا گاؤں ۔۔ بندہ اسحاق دریائے چناب کے کنارے واقع بندہ اسحاق در اصل بھنڈہ اسحاق ہے، بھنڈہ دریا کے عین درمیان میں خشک نیلے کو کہتے ہیں ۔ پرانے وقتوں کے بزرگوں کا دعوی ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ دونوں دریا سندھ اور چناب بندہ اسحاق کے پاس آپس میں ملتے تھے۔ یہ اسحاق بھجڑہ نامی بزرگ سے منسوب ہے۔ جس نے اس قصبے کی بنیاد رکھی ۔ یہاں چھجڑ اقوم کی جاگیریں ہیں ۔ یہ مظفر گڑھ شہر سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔
نوٹ: مضمون محمد شہزاد کی کتاب "سر زمین مظفرگڑھ” سے لیا گیاہے