مظفر گڑھ پنجاب کا ایک قدیم ضلع ہے۔ مظفر گڑھ کا مطلب مظفر کا قلعہ ہے۔ مظفر علی خان نے 1794ء میں یہاں پر ایک قلعہ تعمیر کرایا تھا اس قلعے کے دو دروازے تھے ۔ خان گڑھ دروازہ اور بصیرہ دروازہ ان دروازوں کے نشانات اب بھی موجود ہیں۔ شہر کے ارد گرد ایک فصیل تھی جو میں فٹ اونچی تھی جس کا قطر 160 گز تھا۔ فصیل میں 16 برج اور متعدد مورچے تھے اور یہ دو سال میں مکمل ہوئی۔ مظفر خان کے نام پر اس جگہ کا نام مظفر گڑھ پڑ گیا۔ وہ 1779ء سے 1818 ء تک ملتان کا حکمران تھا۔ قلعہ کی تعمیر سے پہلے یہ جگہ مسن ہٹی کے نام سے مشہور تھی اور اسی جگہ یعنی ڈیرہ ملتان راستے پر موجود تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ جب مظفر علی خان قلعہ کا سنگ بنیا درکھ رہے تھے تو اس وقت ان کے کندھے سے لٹکی ہوئی تلوار کی پٹی زمین پر گر گئی جس پر یہ کہا گیا کہ اسلحہ زمین پر گرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس قلعہ پر لڑائی نہیں ہوگی اور یہاں کے لوگ امن وسکون سے رہیں گے ۔ اس موقع پر ایک دوسرا واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جب قلعہ کی بنیا درکھنے کے بعد دعا مانگی جارہی تھی تو مشرق کی طرف کیکر کے درخت پر ایک چیل بیٹھی تھی جو ایک پرندے لالی کو کھا رہی تھی ۔ اس منظر سے یہ سمجھا گیا کہ یہاں کے لوگ باہر سے کما کر لائیں گے اور یہاں بیٹھ کر کھائیں گے۔ 1837ء میں مظفر گڑھ پر دیوان ساون مل کا قبضہ ہو گیا۔ 1849ء میں یہ علاقہ انگریزوں کے تسلط میں آ گیا اور 1857 ء سے پہلے اسے لیہ کی کمشنری میں شامل کیا گیا۔ اس کمشنری میں لیہ ڈیرہ اسماعیل خان ڈیرہ غازی خان اور خان گڑھ یعنی موجودہ مظفر گڑھ کے اضلاع شامل تھے ۔ 1859 میں ضلع کا صدر مقام خانگڑھ سے مظفر گڑھ منتقل ہوا ۔ 31 دسمبر 1854ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع کی آبادی دولاکھ گیارہ ہزار نوسو میں پر مشتمل تھی ۔ ضلع خان گڑھ میں تحصیل خان گڑھ پیچھر ، رنگ پور اور سیت پور کی تحصیلیں شامل تھیں اور ان میں مظفر گڑھ، غضنفر گڑھ سیت پور ڈھا کہ جتوئی، شہر سلطان، علی پور رنگ پور مراد آباد گڑھ مہاراجہ اور احمد پور سیال کے شہر شامل تھے ۔ 1859ء میں ضلع کا صدر مقام خان گڑھ سے مظفر گڑھ منتقل کر دیا گیا۔ کوٹ ادو کو ضلع لیہ سے علیحدہ کر کے مظفر گڑھ میں شامل کیا گیا اور ضلع کو ملتان کمشنری میں شامل کیا گیا۔ 1861ء میں رنگ پور تحصیل ختم کردی گئی۔ 1909ء میں لیہ کو مظفر گڑھ کی تحصیل بنادیا گیا۔ 1910ء میں سنانواں میں بارش اور طوفان کی وجہ سے بہت نقصان ہوا اور تحصیل ہیڈ کوارٹرز کو سنانواں سے کوٹ ادو منتقل کیا گیا۔ 1982ء میں لیہ کو مظفر گڑھ سے علیحدہ کر کے ضلع کا درجہ دیا گیا اور یکم جولائی 1991ء کو جتوئی کو تحصیل کا درجہ دیا گیا۔ 17 ستمبر 1955ء میں ریاست بہاولپور کے ساتھ انضمام کا معاہدہ عمل میں آیا اور مظفر گڑھ وڈیرہ کو ریاست بہاولپور کے ساتھ شامل کیا گیا تاہم بعد میں یہ اضلاع پھر ملتان کمشنری کا حصہ بن گئے ۔ 1982 ء تک ضلع ملتان ڈویژن میں شامل رہا اور یکم جولائی 1982 ء کے بعد یہ ڈیرہ ڈویژن کا ضلع بن گیا جس میں ڈی جی خان راجن پور اور لیہ کے اضلاع بھی شامل ہیں۔ موجودہ ضلع کا مجموعی رقبہ 8250 کلومیٹر ہے۔ حکومت پاکستان کی سینس رپورٹ 1998 ء کے مطابق ضلع کی کل آبادی 26 لاکھ 35 ہزار 903 افراد پرمشتمل ہے جس میں 52 فیصد مرد اور 48 فیصد عورتیں ہیں ۔ 87 فیصد لوگ دیہاتوں میں رہتے ہیں جبکہ تیرہ فیصد لوگ شہروں میں رہائش پذیر ہیں۔ خواندگی کی شرح 28.45 فیصد ہے جبکہ آبادی کا تناسب 319.5 لوگ فی مربع کلو میٹر ہے۔ ضلع 29 درجے سے 31 در جے شمال عرض بلد اور 70 سے 71 درجے طول بلد شرقی کے درمیان واقع ہے۔ یہ سندھ ساگر دو آب کا حصہ ہے۔ دریاؤں کے ساتھ ہموار اور زرخیز مٹی ہے جسے سیلابی مٹی کہا جاتا ہے اس زرخیزی کی بناء پر یہاں مختلف قسم کی فصلات کاشت کی جاتی ہیں جن میں نقد آور اور غذائی اجناس دونوں شامل ہیں۔ ضلع کے شمال میں ریت کے اونچے ٹیلے ہیں جسے نقل یا ریگستان کہتے ہیں۔ تحصیل کوٹ ادو اور تحصیل مظفر گڑھ کا کچھ علاقہ ان ٹیلوں پر مشتمل ہے۔ یہ ٹیلے ہوا کے عمل سے وجود میں آتے ہیں۔ مجموعی طور پر ضلع کی آب و ہوا گرم اور خشک ہے۔ موسم سرما میں سخت سردی اور گرمیوں میں سخت گرمی پڑتی ہے۔ میدانی علاقوں میں درجہ حرارت اوسطاً 40 سے 45 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان ہوتا ہے۔ جون جولائی یہاں کے گرم ترین مہینے ہیں۔ دن کے وقت چلنے والی کو درجہ حرارت کو مزید بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔ مون سون ہواؤں کی وجہ سے گرمیوں میں بارش زیادہ ہوتی ہے علم جغرافیہ کی رو سے قدرتی ماحول کی جو تعریف کی گئی ہے اس میں زمین آب و ہوا نباتات اور حیوانات شامل ہیں اور انسانی رویہ ہمیشہ اس ماحول کے تابع ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو ضلع کی زمین زرخیز ہے تمام اہم فصلات گندم کپاس، گنا، چاول وغیرہ کاشت ہوتی ہیں۔ آم کھجوڑ انار کے باغات کثرت سے ہیں، پھل پھول بھی عام ہیں۔ حیوانات اور لائیوسٹاک کے شعبے میں ضلع پورے صوبہ میں دوسرے نمبر پر ہے۔ گرمیوں کے موسم میں جب آندھی چلتی ہے تو بگولے بھی کثرت سے آتے ہیں۔ اس طرح اردو ادب میں آندھی اور بگولے کی اصطلاح کا عملی مشاہدہ دیکھنے میں آتا ہے۔ ماضی میں ضلع میں بارش بہت کم ہوتی رہی ہے۔ سال 93-1892 ء میں سنانواں تحصیل میں چودہ انچ بارش ہوئی۔ مظفر گڑھ میں جس جب کہ علی پور میں سات انچ بارش ہوئی۔ 1901ء میں تمام تحصیلوں میں دو انچ کم بارش ہوئی جبکہ 1928ء میں مظفر گڑھ میں تیرہ کوٹ ادو میں چودہ جب کہ علی پور میں آٹھ انچ بارش ریکارڈ کی گئی۔ سرکاری گزیٹر 1913ء کے مطابق مختلف سالوں میں ضلع میں بارش کی طرح اس طرح بیان کی گئی ہے۔
تاریخی مقامات :
ضلع میں ماضی میں ایک درجن کے قریب قلعے تعمیر ہوئے جن میں سے اب صرف کچھ کے نشانات باقی ہیں۔ قلعہ مظفر گڑھ 1794ء میں تعمیر ہوا۔ شہر کے گرد ایک فصیل تھی جو تمہیں فٹ اونچی تھی جس کا قطر 160 گز تھا فصیل میں 16 برج اور متعدد مورچے موجود تھے۔ یہ دو سال میں مکمل ہوئی۔
قلعہ محمود کوٹ :
1720 میں محمود خان نے تعمیر کرایا۔ رنجیت سنگھ کے دور میں یہ قلعہ برباد ہو گیا۔ یہ حمود کوٹ قصبہ کے مغرب میں واقع تھا اور اب بھی اس کے کچھ آثار باقی ہیں۔
قلعہ غضنفر گڑھ :
مظفر خان کے بھائی غضنفر خان نے تعمیر کرایا۔ علی پور روڈ پر خان گڑھ سے آگے واقع ہے۔ قلعہ کے اندر محلات اور بازار تھے لیکن اب ختم ہو گیا ہے۔
مقبرہ طاہر خان :
طاہر خان لودھی سیت پور کے حاکم نے 1745ء میں اپنی زندگی میں تعمیر کرایا۔ یہ شہر کے جنوب میں واقع ہے۔ آٹھ کونوں کا یہ مقبرہ 23 فٹ قطرل ، دائرے میں موجود ہے۔ یہ بہت خوبصورت عمارت ہے اس کی مرمت 1951 ء میں کرائی گئی۔ یہ محکمہ آثار قدیمہ کے قبضہ میں ہے۔ مقبرے کے باہر ایک بورڈ چسپاں ہے جس پر تحریر ہے کہ جو شخص آثار قدیمہ کی حفاظت کے قانون 1906 کے تحت ان آثار قدیمہ کو نقصان پہنچائے گا اسے قید اور جرمانہ کی سزا ہو سکتی ہے
شاہی مسجد :
سیت پور کے حکمرانوں نے اسے پندرہ ہویں صدی میں تعمیر کرایا تھا۔ یہ بہت خوبصورت اور تاریخی مسجد ہے۔ؔ
یادگار کلب :
یہ عمارت سال 1909ء میں تعمیر ہوئی اور اب بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ کبھی اس عمارت میں ڈسٹرکٹ بورڈ کا دفتر رہا گر کر ڈگری کالج کی ابتداء بھی اس عمارت سے ہوئی۔ تا ہم زیادہ عرصہ یہ ان ڈور گیمز اور تفریح کے لئے استعمال رہا ہے۔ کلب سے ملحقہ کھجوروں کا باغ تو اب تقریباً ختم ہو گیا ہے اور جنرل بس سٹینڈ بننے سے اس جگہ کی ہیئت تبدیل ہو گئی ہے تاہم کلب اب بھی سپورٹس اور تفریحی مقاصد کیلئے استعمال ہو رہا ہے۔ ضلع کونسل نے یہاں پر نہانے کا تالاب بھی بنوایا ۔ ضلع گورنمنٹ کے نظام کے بعد یہ کلب کمیونٹی ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی تحویل میں آیا ہے۔ کلب کے اپنے بائی لاز ہیں۔ شہر کے لوگ اکثر شادیوں اور تقریبات کیلئے کلب کے لان اور عمارت کو استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک پر سکون اور کشادہ جگہ ہے۔
نوٹ: یہ مضمون خیرمحمد بُدھ کی کتاب (تاریخ مظفرگڑھا) سے لیا گیا ہے۔