مظفر گڑھ

مظفرگڑھ : سماجی خدمات

خیرمحمد بُدھ

یہ ایک حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں صنعتی انقلاب کے بعد معاشی اور اقتصادی طور پر قوموں کے درمیان مقابلہ کی کیفیت پیدا ہوئی۔ اقتصادی لحاظ سے ملک کو خوشحال بنانے کیلئے صنعت و حرفت و تجارت کو فروغ ملا اور اس شعبہ میں اپنی برتری اور اجارہ داری قائم کرنے کے لیے مختلف ممالک نے منصوبہ بندی کی۔ اس عرصہ میں سماجی شعبہ کی طرف بہت کم توجہ دی گئی یہاں تک کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد بین الاقوامی سطح پر سماجی خدمات کے نظریہ نے جنم لیا اور مختلف تنظیموں کی شکل میں بیمار اور غریب و نادار افراد کی فلاح و بہبود کے لیے محدود سطح پر خدمات کا آغاز ہوا۔ رفتہ رفتہ یہ نظریہ فروغ پاتا گیا اور جنگ عظیم دوئم کے بعد پوری دنیا میں پھیلی ہوئی بربادی اور تباہ کاریوں کے پیش نظر جہاں اقوام عالم نے آباد کاری اور بحالی کا پروگرام شروع کیا وہاں حکومتی اقدامات کی حمایت اور تعاون کے لیے سماجی تنظیموں نے بھی کام کرنا شروع کیا اور اس طرح این جی اوز قائم ہوئیں جنہوں نے مختلف شعبہ جات میں رضا کارانہ طور پر انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے کام کا آغاز شروع کیا۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو ان این جی اوز کی تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے بلکہ ان کا آغاز باضابطہ طور پر بیسویں صدی کے آغاز میں ہوا ہے اور آج دنیا کے ہر ملک میں یہ تو تنظیمیں سوشل سیکٹر میں حکومتوں کے شانہ بشانہ سول سوسائٹی کی فلاح و بہبود کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ ضلع مظفر گڑھ اس لحاظ سے خوش قسمت ہے اور پاکستان میں سماجی خدمت کے حوالے سے سب سے آگے ہے کیونکہ جب پوری دنیا میں این جی اوز با ضابطہ طور پر وجود میں نہیں آئی تھیں۔ اس وقت اس ضلع کے ایک فرزند سردار کوڑے خان نے اپنی جائیداد ضلع کے عوام کے لیے وقف کر کے انسانی خدمت کی ایک مثال قائم کی۔ سردار کوڑے خان ولد سردار سید خان ذات جتوئی بلوچ ساکن جتوئی جنوبی تحصیل علی پور ضلع مظفر گڑھ نے بروئے وصیت محررہ مصدقہ مورخہ 1884-10-5 بروئے دستاویزات نمبر 2 بہی نمبر 3 جلد اول صفحه 22-23 اپنی کلیم اراضی کا 3/9 بنام لوکل فنڈ بطوراللہ برائے خرچ رفاہ عام منتقل کرنے کی ہدایت فرمائی۔ سردار صاحب مورخہ 1896-05-15 کو بقضائے الہی وفات پاگئے اور ان کی ملکیتی اراضی کا 3/9 صہ بقدر 82753 کنال 14 مرلے10344 ایکڑ سال 1897ء میں لوکل بورڈ کو منتقل ہوا۔ انہوں نے جتوئی میں 1875 میں پرائمری سکول اور ایک شفاخانہ بھی قائم کیا۔ ان کی وصیت کی نقل درج ذیل ہے۔

 

نوٹ: یہ مضمون خیرمحمد بُدھ کی کتاب (تاریخ مظفرگڑھا) سے لیا گیا ہے۔

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com