سرزمین مظفر گڑھ عہد بہ عہد
زمانہ قدیم
سرزمین مظفر گڑھ کی تاریخ ملتان کی تاریخ سے جدا نہیں ہے ۔ یہ علاقہ ہمیشہ سے خطہ ملتان کا حصہ رہا ہے یہ خطہ ہزاروں سال پرانے منڈا قبائل کا مسکن رہا ہے ۔ آج بھی اس نام سے کچھ علاقے جیسے چوک ما کا اور تیل منڈا موجود ہیں۔ عین الحق فرید کوئی اپنی تحقیق پر مبنی کتاب "اردو زبان کی قدیم تاریخ میں یوں لکھتے ہ) آریاؤں کی آمد سے پہلے وادی سندھ میں دراوڑی قبائل کو بالا دستی حاصل تھی۔ دراوڑی قبائل بھی یہاں حقیقی باشندے نہ تھے بلکہ آریاؤں کی آمد سے کوئی ہزار ڈیڑھ ہزار سال پہلے یہاں آئے تھے۔ عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ منڈا قبائل برصغیر کے قدیم ترین باشندے ہیں اور دراوڑوں کی آمد سے پہلے یہاں آباد تھے۔ برصغیر کا منڈا گروه کول، بھیل، سنتقال ، منڈا ، ساورا ، کوردا، جانگ اور کور کو وغیرہ قبائل پر مشتمل ہے۔
یہ علاقہ وادی سندھ کی تہذیب کا حصہ رہا ہے۔ وسط ایشیاء سے آرین کے ہاتھوں وادی سندھ کی تہذیب کی تباہی کے کئی صدیوں بعد ٹیکسلا میں گندھارا تہذیب پھلی پھولی اور یہ خطہ ( سندھ ساگر دو آب ) گندھارا سلطنت میں شامل رہا ۔ ماضی میں یہ علاقہ ایرانی بادشاہوں کے تسلط میں بھی رہا ہے۔ سکندر سے پہلے یہ علاقہ ملی قوم کی حکومت کا حصہ رہا تھا۔ بعد میں چندر گپت موریہ اور اشوک کی سلطنت کا حصہ رہا ۔ اشوک کے دور میں اس علاقہ میں بدھ مذہب پھلا پھولا ۔ بدھ مذہب کے اثرات اب بھی اس علاقے کے لوگوں کی زبان روایات اور مزاج میں نظر آتے ہیں ۔
سکندراعظم کا دور اور چندر گپت موریہ کا عہد:
ملتان میں سخت مزاحمت کے بعد 327 قبل از مسیح میں سکندراعظم کی افواج کا دریائے سندھ کے راستے واپسی کے سفر میں اس علاقہ سے گزر ہوا۔ کہتے ہیں کہ مظفر گڑھ کا قصبہ بصیرہ دراصل بسیرا ہے [60]۔ سکندر کی افواج نے کچھ عرصہ یہاں قیام کیا تھا۔ سکندراعظم نے فتح ملتان کے بعد دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی اپنا گورنر مقرر کیا لیکن 304 قبل مسیح میں چندر گپت موریہ نے ملتان کو فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کیا تو یہاں یونانی اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔ ڈاکٹر مہر عبدالحق نے اپنی کتاب تھل میں لکھتے ہیں کہ چندر گپت مور خاندان سے تھا ۔ مور بھی اس پوری وادی سندھ کے مالک تھے کیونکہ یہ دریائی جانور کھاتے تھے اس لئے آریاؤں نے حقارت سے انھیں پشاچ کہا ہے ۔ چندر گپت موریا تھل کا رہنے والا تھا 161۔ ٹیکسلا میں زیر تعلیم رہا۔ اس کے استاد چانکیہ نے اسے مگدھ کے بادشاہ سے متعارف کروایا۔ بادشاہ نے اسے اپنا جرنیل بنالیا۔ مگر جلد ہی بادشاہ نے اسے برخاست کر دیا۔ اسی دوران چندر گپت موریہ نے سکندر یونانی کے خلاف چھاپہ مار کاروائیوں کا آغاز کیا اور جلد ہی سکندر یونانی اور اس کی فوج کو اس علاقے سے نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔ سرائیکی کی مشہور کہاوت ہے، چوریں کوں پئے گے مور ( یعنی حملہ آور یونانیوں کو مور قوم نے دبوچ لیا )۔ چندر گپت موریہ نے اس وادی سندھ سمیت پورے ہندوستان مین مور یا سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ خطہ ملتان اور تھل کے علاقے بھی اس کی سلطنت میں شامل تھے ۔ چندر گیت موریہ کے بعد یہ خطہ اشوک سلطنت کا حصہ رہا ۔ چندر گپت موریہ کے بعد اشوک عہد میں یہ خطہ اشوک سلطنت کا حصہ رہا۔ مور یہ خاندان کے عہد میں یہاں کے لوگوں کی اکثریت بدھ مت کی پیرو کا تھی۔
ہندو شاہی عہد:
ہندوشاہی کے عہد میں یہ علاقہ رائے خاندان (524 تا 632) کی حکومت کا حصہ رہا۔ رائے سہرس دوم کے زمانے میں یہ علاقہ ملک سندھ کی حدود میں شامل رہا۔ رائے خاندان کے بعد جب برہمن خاندان (632 تا712) سندھ میں برسراقتدار آیا تو یہ علاقہ برہمن حکومت کے زیر اثر رہا
محمد بن قاسم کا عہد:
712ء میں محمد بن قاسم نے راجہ داہر کو شکست دیکر سندھ میں اسلام کا پر چم لہرایا اور وہ ملتان تک آئے ۔ ان کی افواج یہاں سے گزری۔ مظفر گڑھ کے علاقوں میں موجود کھجور کے باغات اسی وجہ سے یہاں پیدا ہوئے [65]۔ محمد بن قاسم کی آمد کے کئی عشروں بعد یہ علاقہ ہمہاری قریشی حکومت کے زیر اثر چلا گیا۔ ہماری حکومت کے بعد اسماعیلی قرامطہ نے یہاں حکومت قائم کرلی۔
غزنوی عہد:
1006ء میں محمود غزنوی نے خطہ ملتان کو فتح کیا اور اسے اپنی حکومت میں شامل کیا۔ اس وقت خطہ ملتان کا حاکم شیخ ابو الفتح داؤد بن نصر تھا۔ قرامطہ کو سن 1006ء میں سلطان محمود غزنوی سے شکست دیکر سندھ اور اس علاقے پر قبضہ کر لیا [66]۔ اس دور میں معروف مورخ، سیاح و جغرافیہ دان اور سائنسدان البیرونی کا اس علاقے میں گزر ہوا جس نے اپنی مشہور کتاب ” کتاب الہند میں مظفر گڑھ میں واقع دریائے سندھ اور چناب کے سنگم پر واقع علاقوں کے بارے میں حیرت انگیز باتیں لکھی ہیں۔ ابوریحان البیرونی نے اپنی کتاب الہند میں پنجند کے بارے میں یوں لکھا ہے ” جب یہ سب دریا ملتان کے بیچ ایک مقام پر جس کا نام پنجند یعنی پانچ دریاؤں کا مجمع ہے۔ جمع ہو جاتے ہیں تو ان کی مقدار بڑی ہو جاتی ہے اور چڑھاو ( یعنی سیلاب) کے وقت بلند ہو کر وہ سب تقریباً دس فرسخ پھیل جاتا ہے۔ جنگل کے درخت اس میں اس طرح ڈوب جاتے ہیں کہ سیلاب کے ہوتے ہوئے مادے ان کی شاخوں کے سروں پر جمع ہو کر چڑیوں کے گھونسلے کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔
سلاطین عہد:
غزنوی عہد کے بعد یہ علاقہ غوری سلاطین کے زیر قبضہ آ گیا۔ ناصر الدین قباچہ کچھ عرصہ اس خطے کا حکمران رہا مگر سلطان شمس الدین التمش نے اسے شکست دیکر یہ علاقہ اپنی سلطنت میں شامل کر لیا [68] ۔ بارہویں صدی عیسوی کے قریب ملتان میں حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی کی آمد کے بعد یہ خطہ بڑی تہذیبی تبدیلی سے ہمکنار ہوا، آپ کی آمد کے بعد اس خطے میں آباد مسلمانوں کو ایک بڑی رہنمائی اور بصیرت ملی آپ نے اپنے عہد میں قلعہ کہنہ پر اپنا معروف مدرسہ بہائیہ قائم کیا۔
سومرا اور سمہ عہد:
عربوں کے بعد یہ علاقہ سمرا قوم کی ریاست (1026 ء تا 1356ء ) کا حصہ بن گیا۔ سمرا کے بعد سمہ خاندان (1356 15247ء) نے سندھ پر حکومت قائم کر لی اور یہ علاقہ بعض وقتوں میں سمرا اور سمہ خاندان کی حکومتوں کے
زیر اثر رہا
لنگاہ عہد:
1445ء میں سبی کے لنگاہ خاندان نے خطہ ملتان پر قبضہ کر لیا اور مظفر گڑھ کا کچھ علاقہ بھی لنگاہ حکومت کی عملداری میں چلا گیا۔ لنگاہ خاندان کے عہد حکومت میں سلطان حسین لنگاہ نے اپنے دربار کے نامور بلوچ قبائل کو
سیت پور اور دھن کوٹ میں آباد ہونے کے لئے بھیجا
مغل عہد:
(1526 تا 1857) 1526ء میں ظہیر الدین محمد بابر نے ہندوستان پر قبضہ کر لیا ۔ مغلوں کے عہد میں بھی سیت پور علی پور اور جتوئی کے علاقوں پر نہر اور مخادیم کی حکومتیں رہیں ۔ کوٹ ادو، لیہ محمود کوٹ اور چھی کے علاقوں میں بلوچوں کی حکومت رہی۔ مغل اعظم جلال الدین اکبر کے دور میں خطہ ملتان کو ایک صوبے کی حیثیت حاصل تھی ۔ اکبر کے اہم وزیر ابوالفضل کی مشہور کتاب آئین اکبری میں سیت پور اور رنگ کا ذکر بطور حصہ ضلع کے طور پر آیا ہے ۔ روایت ہے کہ مغل بادشاہ اکبر دائرہ دین پناہ کے صوفی بزرگ حضرت دین پناہ کا مرید تھا ۔ اور اسی نے حضرت دین پناہ کان مقبرہ بنوایا۔
مغلوں کے عہد (1526 تا 1857 کے دوران مختلف ادوار میں مظفر گڑھ کے شمال مغربی حصے میرانی بلوچوں کے زیر تسلط بھی رہے ۔ جبکہ آخری عہد میں خطہ ملتان اور مظفر گڑھ افغان قبضے میں بھی رہے ۔ بعد میں سکھوں نے یہاں قبضہ کر لیا ۔ مغلوں کے دور میں سرزمین مظفر گڑھ کے کچھ حصے نواب بہاولپور کے قبضے میں بھی چلے
گئے تھے ۔
سیت پور کے نا ہر حکمرانوں کا عہد ۔ 1445 تا1830:
فیروز شاہ تغلق کے عہد حکومت میں ملتان کا گورنر ملک مردان تھا۔ اس دور میں ایک نو جوان بہرام لودھی نے اپنے قبیلہ سے ناراض ہو کر ملتان میں ملک مرد ان کی ملازمت اختیار کرلی ۔ ملک مردان کی وفات کے بعد سید خضر خان ملتان کا گورنر بنا۔ ملک بہرام کے بیٹے ملک سلطان نے خضر خان کی ملازمت اختیار کی ۔ ملک سلطان نے اپنی محنت و وفاداری اور بہادری سے خضر خان کے دل میں جگہ بنالی۔ اس کی لیاقت دیکھ کر خضر خان نے اسے اسلام خان کا خطاب دیا اور ساتھ ہی سرہند اور ملتان کی صوبہ داری سونپ دی [74]۔ اسلام خان نے یہ صوبہ داری اپنے بھیجے بہلول لودھی کے سپرد کر دی۔ جب سید خاندان زوال کا شکار ہوا، تو بہلول لودھی نے 1451ء میں تخت دہلی پر قبضہ کر لیا اور دہلی کے تاجدار بہلول لودھی (1451ء تا 1489ء) نے یہ علاقہ اسلام خان لودھی کو دید یا [75]۔ یہ ریاست سیت پور تخت دہلی پر بہلول لودھی کے قبضے کے بعد عمل میں آئی ۔ نہر خاندان کے مشہور حکمرانوں میں اسلام خان، قاسم خان اور طاہر خان نہر شامل ہیں جنہوں نے دریائے سندھ کے دائیں کنارے لودھی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ سیت پور میں قائم لودھی حکومت کا صدر مقام سیت پور کو بنایا گیا ۔ اس پر نا ہر حکمران 1445 ء سے اٹھارویں صدی تک حکومت کرتے رہے۔ سیت پور کی یہ ریاست اُچ سے کشمور تک پھیلی ہوئی تھی ۔ یہ لودھی حکمران اپنی جفاکشی ،سختی اور علم کی وجہ سے ناہر ( بھیٹر یا ) مشہور ہوئے اسلام خان کے دو بیٹے اسلام خان ثانی اور جلال خان تھے ۔ اسلام خان ثانی نے سیت پور کی سلطنت میں حکمرانی کی۔ یوں یہ سلسلہ اسلام خان دوم، اکرام خان اور اس کے دو بیٹوں سلطان محمد خان اور شاہ عالم خاں تک چلتا رہا۔ سلطان محمد خان کی حکمرانی اور اصولوں کے ڈنکے طول و عرض میں بجتے تھے پھر اس کے بیٹے طاہر محمد خان نے حکمرانی سنبھالی۔ روایت ہے کہ سخی حکمران ہونے کی وجہ سے یہ طاہر محمد خان بھی کہلانے لگا [77]۔ اس نے کثیر سرمائے سے اپنے باپ کا مقبرہ اور شاہی مسجد بھی تعمیر کرائی جواب تک قائم ہے۔ مقبرہ میں طاہر خان بھی اپنے والد سلطان محمد خان کے پہلو میں دفن ہے۔ ۔ ابتداء میں ریاست کا نظم و نسق چلانے اور اس میں موجود تمام شہروں اور قصبوں کا آپس میں رابطہ جوڑنے کے لئے ایک سڑک قائم ہوئی جو سیت پور کو کشمور سے ملاتی تھی ۔ بعد میں امو رسلطنت میں عدم دلچسپی اور باہمی نا چاقی کی بناء پر نا ہر حکومت زوال پذیر ہونا شروع ہوگئی۔ بالآخر محمد خان ناہر کے تین لڑکوں طاہر خان، اسلام خان اور قاسم خان نے اس ریاست کو آپس میں تقسیم کر لیا۔ طاہر خان کے حصہ میں سیت پور، اسلام خان کے حصے میں بھا گسر اور قاسم خان کے حصہ میں رکن اور کشمور کے علاقے آئے [78]۔ اسلام خان کے حصہ میں آنے والی بھا کسر کی حکومت میں کوٹ مٹھن اور روجھان بھی شامل تھے ۔ اس حکومت کا صدر مقام بھا گسر تھا۔ جہاں کبھی کبھار اسلام خان رہائش پذیر ہوتا تھا۔ اسلام خان انتہا درجہ کا سادہ لوح تھا اور اپنی اس سادگی کی وجہ سے علاقہ میں بھولا بادشاہ مشہور تھا۔ جب طاہر خان ثانی کا دور حکومت شروع ہوا تو یہاں کثیر تعداد میں مخادیم آباد تھے جو نہر حکومت کی طرف سے مختلف علاقوں میں ناظم مقرر تھے ۔ لالہ ہتو رام کی کتاب "گل بہار کے مطابق نہر خاندان کی حکومت اس وقت کمزور ہوگئی جب نادر شاہ کے دور میں مخدوم شیخ محمود نے اپنی سلطنت کا اعلان کر دیا
مخادیم سیت پور کا عہد:
جب سیت پور میں ناہڑ لودھی حکومت کمزور پڑ گئی تو سیت پور میں مقیم مخدوم شیخ محمود جو اس وقت نا ہڑوں کی طرف سے امیر ریاست مقر رتھا، چند قطعات مملکت پر قابض ہو گیا ۔ مخدوم شیخ محمود کے بعد اُس کا بیٹا شیخ محمد راجو ( راجن شاہ ) اس کا جانشین ہوا ۔ اُن دنوں والی خراسان نادر شاہ درانی نے ہندوستان پر چڑھائی کر رکھی تھی ۔ بہاولپور گز میر میں لکھا ہے کہ شیخ محمد راجو نے اپنے اثر و رسوخ اور ذاتی قابلیت کی بنا پر نادرشاہ سے سیت پور کی حکومت کا پروانہ اپنے نام لکھوالیا اور ناہروں کو وہاں سے ہمیشہ کے لیے بے دخل کر دیا۔ اس زمانے میں شیخ محمد راجو ( راجن شاہ) نے اپنے علاقے میں بڑا اثر ورسوخ حاصل کر لیا تھا اور کافی دولت جمع کر رکھی تھی ۔ مخدوم را جن نے 1730ء میں علی پور، کوٹلہ مغلاں، بھا گھر، کوٹ مٹھن اور عمر کوٹ کے علاقوں پر مکمل طور پر قبضہ حاصل کر کے اپنی حکومت قائم کی اور 1732ء میں اُس نے راجن پور کی بنیاد رکھی۔ مخادیم سیت پور نے مختلف اوقات میں اپنے علاقوں کی ترقی کے لیئے بہت زیادہ ترقیاتی کام کئے۔ ان میں نالوں کی کھودائی زیادہ اہم ہے [80]۔ اُس زمانے میں بھی سیت پور اور ڈیرہ غازی خان کی ریاستیں کابل کے ساتھ ملحق رہیں ۔ احمد شاہ ابدالی کی وفات 1783ء میں ہوئی اور اُس کے بعد اُس کا بیٹا تیمور شاہ تخت کابل پر ممکن ہوا ۔ تیمور شاہ نے بھی مخادم سیت پور کو علاقوں کی آباد کاری کے لیے مناسب مواقع فراہم کرنے کا عمل جاری رکھا۔ البتہ آمبیانے کے طور پر ٹیکس کی ادائیگی سخت کر دی گئی ۔
1781ء میں تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا اور نواب بہاول خان ثانی نے شیخ را جو ثانی کے دور میں جتوئی پر قبضہ کر لیا 1790ء میں جب دریائے سندھ کا رخ سیت پور کے مغرب میں ہوا تو نواب آف بہاولپور کے لیے مزید آسانیاں پیدا ہو گئیں ۔ یوں نواب آف بہاولپور نے علی پور ، شہر سلطان اور خیر پور سادات کے علاقے سیت پور سے ریاست بہاولپور میں شامل کر دیے -1816ء میں رنجیت سنگھ نے اس علاقے کی بچی بھی ریاست کو اپنے قبضے میں لیا یوں مخادیم کی حکمرانی بھی ختم ہوگئی اور سیت پور ایک معمولی علاقے تک محدود ہو کر رہ گیا
میرانی عہد:
سولہویں اور سترویں صدی میں ڈیرہ غازی خان کا علاقہ ایک علیحدہ ریاست کا درجہ رکھتا تھا جس پر میرالی قوم کی حکمرانی تھی ۔ نادر شاہ کے حملوں سے دہلی کا تخت تو اُس کے قبضے میں نہ آسکا البتہ اُس نے مغلیہ تخت میں شامل کچھ ریاستوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا تھا۔ ان میں سیت پور اور ڈیرہ غازی خان کی ریاستیں بھی شامل تھیں جو ایک عرصہ تک والی خراسان نادر شاہ کے زیر تسلط رہیں۔ البتہ مقامی طور پر سیت پور کی ریاست میں مخادیم سیت پور اور ڈیرہ غازی خان میں گجر حکمرانوں کا عمل دخل رہا جبکہ اہم فیصلوں کے لیے والی خراسان سے رُجوع کرنا پڑتا تھا۔ اس دور میں مظفر گڑھ کے کچھ حصے بلوچوں کی ریاست کا حصہ رہے۔ کوٹ ادو اور لیہ کے علاقوں پر میرانی خاندان کی حکومت رہی۔ غازیخان اول نے پیجھر ( موجودہ شاہ جمال ) کی بنیاد رکھی ۔ غازی خان میرانی کے ایک رشتہ دار ادوخان نے کوٹ ادو کی بنیاد رکھی ۔ غازی خان کے ایک رشتی دارا دو خان نے کوٹ ادو کی بنیا د رکھی۔
گجر عہد:
1769ء میں میرانی حکومت ختم کر کے محمود گجر نے ڈیرہ غازیخان اور مظفر گڑھ کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا محمود کوٹ کا قلعہ تعمیر کرایا۔ محمود گجر نے 30 سال تک ڈیرہ غازی ، کوٹ ادو محمود کوٹ اور مظفر گڑھ کے شمال مغربی علاقوں پر حکومت کی۔ 1758 میں احمد شاہ درانی نے ڈیرہ غازی خان پر قبضہ کر کے محمود گجر کو گورنر مقرر کیا۔ محمود گجر نے سکھوں کی کئی مشکلوں کے خلاف کافی جنگیں لڑیں سکھوں کے خلاف جنگ میں ان کے دو جرنیل داد خان پتافی اور باغ خان پتافی شہید ہوئے جن کی قبریں آج بھی محمود کوٹ کے پاس ایک گاؤں میں موجود ہیں۔ محمود گجر کے دور کی یاد گار قصبہ محمود کوٹ مظفر گڑھ میں واقع ہے۔ ان کے دور میں یہ خطہ اور آس پاس کے علاقے سکھ بھنگی مثل کے حملوں کی زد میں تھا محمود گجر کے بعد اس کا بھتیجا برخوردار خان گجر برسراقتدار آیا 1779ء میں اسے قتل کر دیا گیا۔
عباسی حکومت:
1750ء میں بہاولپور کے نواب مبارک عباسی نے سیت پور علی پور اور شہر سلطان کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا ۔ 1780 ء میں نواب امیر محمد بہاول عباسی کے دور میں جتوئی ، علی پور ، شہر سلطان ، سیت پور تک کے علاقے بہاولپور ریاست میں شامل کر لیے گئے۔ بعد میں سکھوں نے مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازیخان کے علاقے عباسی خاندان سے چھین لیے ۔ 1820 ء میں سکھوں نے مظفر گڑھ کے جنوبی علاقے ڈھائی لاکھ روپے سالانہ پر نواب بہاول خان عباسی سوم کو دے دیئے ۔ لیکن کچھ سالوں بعد زر سالانہ ادا نہ کرنے پر سکھوں نے دوبارہ یہ علاقہ نواب بہاولپور سے واپس لے لیا۔
سدوزئی عہد (1738ء تا 1818ء) :
اٹھارہویں صدی میں جب مغل کمزور ہوئے تو اس علاقے پر سدوز کی حکمران بن بیٹھے۔ نواب مظفر خان سدوزئی 1818ء – 1779ء کے عہد میں مظفر گڑھ شہر کی بنیاد رکھی گئی۔ اس دور میں خانگڑھ ضلع ، سیت پور ، سنانواں اور رنگپور تحصیلیں تھیں ۔ 1767ء میں کابل کے خود مختار حکمران تیمور شاہ نے نواب شجاع خان سدوز کی کو ملتان اور آس پاس کے علاقوں کا حاکم بنادیا (87) شجاع خان کے بعد ان کا بیٹا مظفر خان 1779ء میں حاکم بنا۔ اس دور میں نواب مظفر خان نے 1794ء میں مظفر گڑھ میں قلعہ بنوایا۔ شہر کی بنیا درکھی [88] غضنفر گڑھ کا قلعہ بنایا گیا، خانگڑھ میں قلعہ بنوایا، مظفر گڑھ ، خانگڑھ، غضنفر گڑھ، رنگپور، مراد آباد، علی پور اور سیت پور تک کے علاقے نواب مظفر خان کی عملداری میں چلے گئے [89]۔ بعد میں سکھوں نے نواب مظفر خان کو شہید کر کے سرزمین مظفر گڑھ پر قبضہ کر لیا۔
بادوزئی عہد:
جب مظفر گڑھ پر نواب مظفر خان سدوزئی کی حکومت تھی تو اس دور میں جب مظفر گڑھ پر نواب مظفر خان کی حکومت تھی تو مظفر گڑھ کے قصبے دائرہ دین پناہ پر نواب عبد الصمد با دوز کی کی حکومت تھی [90] ۔ نواب عبد الصمد با دوز کی اور نواب مظفر خان ایک دوسرے کے سخت حریف تھے ۔ نواب عبد الصمد با دوز کی کی مدد سے رنجیت سنگھ نے نواب مظفر خان کی ریاست پر حملہ کر دیا۔ جھنگ کے رستے سکھ فوج مظفر گڑھ داخل ہوئی سب سے پہلے مظفر گڑھ اور خانگڑھ کے قلعوں پر قبضہ کیا ۔ اور بعد میں پورے ضلع پر تسلط جما لیا ۔ نواب عبد الصمد خان با دوز کی اور نواب مظفر خان سدوز کی ایک دوسرے کے حریف تھے۔
سکھ عہد (1818ء تا 1849ء) :
1793ء میں تیمور شاہ کا انتقال ہوا تو اُ کا بیٹا زمان شاہ کابل کے تخت پر جلوہ افروز ہوا۔ زمان شاہ کو پنجاب کے فتح کرنے کا بڑا شوق تھا اُس نے 1798ء میں کے بعد دیگرے دو حملے کر کے لاہور کو فتح کر لیا۔ لاہور سے واپسی پر زمان شاہ کی بھاری تو ہیں دریائے جہلم میں پھنس گئیں جن کے نکالنے میں رنجیت سنگھ نے اُسکی بڑی مدد کی جس پر زمان شاہ نے لاہور حکومت کی باگ ڈور رنجیت سنگھ کے ہاتھ میں دے دی، جس سے پنجاب پر سکھوں کو حکومت کرنے کا موقع مل گیا جس کے حصول کے لئے وہ احمد شاہ ابدالی کے زمانے سے کوشاں تھے اور کئی باراحمد شاہ ابد الی کے فتح کردہ علاقوں پر قابض ہوئے ۔ 1802ء میں رنجیت سنگھ نے خطہ ملتان پر قبضہ کرنے کے لئے حملوں کابآغاز کیا۔
1818ء میں سکھ فوج نے فیصلہ کن جنگ کے لئے مظفر گڑھ قلعہ کا محاصرہ کیا اور جلد فتح کر لیا ۔ یہاں سے سکھ ملتان کی طرف بڑھے ۔ 2 جون 1818ء میں نواب مظفر خان سکھ فوج سے لڑتے ہوئے اپنے پانچ بیٹوں سمیت شہید ہو گیا۔ خطہ ملتان اور مظفر گڑھ سکھوں کے قبضے میں چلا گیا۔ ملتان کی فتح کے بعد رنجیت سنگھ نے محمود کوٹ اور کوٹ ادو پر بھی قبضہ کر لیا۔
ساون مل کا عہد (1821ء تا 1843ء) :
1821 ء میں رنجیت سنگھ نے خطہ ملتان کی حکومت دیوان ساون مل کھتری کو ٹھیکہ پر دیدی ۔ دیوان ساون مل نے مظفر گڑھ، مراد آباد اور شجاع آباد کے علاقے بھی ٹھیکے پر لے لئے ۔ 1843ء میں دیوان ساون مل کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا دیوان مول راج خطہ ملتان و مظفر گڑھ کانٹے دار مقرر ہوا ۔ 1820ء میں سکھوں نے مظفر گڑھ کے جنوبی علاقے ڈھائی لاکھ روپے سالانہ پر نواب بہاول خان عباسی سوم کو دے دیئے ۔ لیکن کچھ سالوں بعد زرسالانہ ادا نہ کرنے پر سکھوں نے دوبارہ یہ علاقہ نواب بہاولپور سے واپس لے لیا۔ بعد میں سکھوں نے یہ علاقہ ایک ایک کر کے دیوان ساون مل کو ٹھیکے پر دے دیا ۔ 1837 ء تک دیوان ساون مل پورے ضلع مظفر گڑھ ، ضلع ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسماعیل خاں اور جھنگ کا مالک بن چکا تھا۔
دیوان مول راج کا دور (1844ء تا 1849ء) :
1843ء دسمبر میں دیوان ساون مل قتل ہوا تو اُس کا بیٹا دیوان مولراج باپ کی جگہ ملتان کا گورنر بنا۔ باپ کی وفات کے بعد اُس کی صوبہ داری مغرب میں کوہ سلیمان، مشرق میں چیچہ وطنی اور جنوب میں سندھ کی سرحد تک محیط تھی ۔ جبکہ لاہور اور پنجاب کے اکثر علاقوں پر انگریزوں کا مکمل قبضہ تھا۔ مولراج بڑا اکھڑ اور مطلق العنان گورنر تھا ۔ اگر چہ ملتان میں مول راج کی حکومت انگریزوں کے تابع قائم تھی لیکن انگریزوں کو اُس کی مطلق العنانی ہرگز پسند نہ تھی ۔ چنانچہ انگریزوں نے کا ہن سنگھ کو روانہ کیا کہ وہ مولراج سے فورا ملتان کا چارج سنبھال لے۔ اُس وقت دو انگریز مشیر، وان اگلیو اور اینڈرسن بھی کا ہن سنگھ کیساتھ تھے چارج دیتے وقت مولراج کسی بات پر الجھ پڑا اور کا ہن سنگھ کے انگریز مشیروں پر حملہ آور ہوا جس سے وہ مارے گئے ۔ جب کہ مول راج نے انگریزوں کی طرف سے نامزد صو بیدار کا ہن سنگھ کو گرفتار کر لیا۔ اس پر انگریز سخت برہم ہوئے اور مول راج کو اس حکم عدولی کا مزا چکھانے کی ٹھان لی ۔ ادھر مولراج نے مقامی طور پر مسلمانوں ہندؤں اور سکھوں سے مشورہ کر کے ہیں اپریل 1848 ء کو انگریزوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ انگریزوں نے ملتان، ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ غازی خان سے بھاری تعداد میں فوج بھرتی کی اور اُسے سکھوں کے خلاف لے آئے ۔ سکھوں اور انگریزوں کی جنگ میں نواب بہاول پور نے انگریزوں کا بھر پور ساتھ دیا۔ آخر مولراج کو ہتھیار ڈالنے پڑے اس طرح 1849ء میں ان علاقوں پر انگریزوں کے ہاتھوں سکھ حکومت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گیا ۔
انگریز دور:
1849ء میں انگریزوں نے خطہ ملتان و مظفر گڑھ پر دیوان مول راج کو شکست دیکر قبضہ کر لیا۔ اس دور میں ضلع خانگڑھے اور اس کی تحصیلیں علی پور، مظفر گڑھ اور گڑھ مہاراجہ اور احمد پور سیال کے علاقے اس میں شامل تھے۔ 1859ء میں خانگڑھ کی بجائے مظفر گڑھ کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر بنایا گیا۔ ضلع کی چار تحصیلیں تھیں ، خانگڑھ ، رنگپور، پیجھر
( شاہ جمال ) اور سیت پور ۔ کوٹ ادو کو ضلع لیہ سے علیحدہ کر کے اس میں شامل کیا گیا۔ 1861ء میں رنگپور کی تحصیل حیثیت ختم کر کے احمد پور سیال اور گڑھ مہاراجہ کے علاقہ ضلع جھنگ میں شامل کر دیئے گئے ۔ پیچھر کی تحصیل حیثیت ختم کر دی گئی۔ سیت پور کی تحصیلی حیثیت ختم کر کے اسے علی پور میں شامل کیا گیا۔ 1909ء میں لیہ کی ضلعی حیثیت ختم کر کے اسے مظفر گڑھ کی تحصیل بنا دیا گیا۔ انگریز دور میں ضلع مظفر گڑھ ملتان ڈویژن کا حصہ تھا۔ ملتان ڈویژن میں ضلع منٹگمری ، جھنگ اور ڈیرہ غازیخان بھی شامل تھے ۔ انگریز دور 1849ء تا 1947 ء تک کا ہے۔ موجودہ ضلعی نظام انگریز انتظام کا تسلسل ہے۔ ضلع بھر میں انگریزی تعلیم کے ادارے بنا شروع ہوئے ۔ ہیلتھ سنٹر قائم ہوئے۔ جدید عدالتی نظام رائج کیا گیا۔ ضلع میں کئی معززین آنریری مجسٹریٹ اور سب حج مقرر ہوئے ۔ جن کو عوام کے فیصلے کرنے اور سزا و جزا کا اختیار دیا گیا۔ انگریز کے حامی افراد میں جاگیریں انعامات اور اعزازات بانٹے گئے ۔ اس دور میں مظفر گڑھ ، کوٹ ادو ہعلی پور اور لیہ سمیت دیگر قصبوں میں سرکاری سکول قائم کئے گئے ۔ ضلع کے انتظامی امور کیلئے ڈپٹی کمشنر تعینات کیا گیا۔ ضلع میں پولیس کا نیا نظام رائج ہوا اور سپرٹینڈنٹ پولیس کا عہدہ قائم ہوا ضلع بھر میں تھانے بنائے گئے جدید عدالتی نظام کے تحت عدالتیں قائم ہوئیں ۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مظفر گڑھ میں تعینات ہوئے اس دور میں سڑکیں پختہ کی کئیں ۔ دریائے چناب پر ریلوے برج کی تعمیر ہوئی اور یہ برج ایک عرصہ تک عام ٹریفک کیلئے بھی استعمال ہوتا رہا۔ ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے درمیان دریائے سندھ پر لوگوں کے آنے جانے کیلئے سٹیمر ز چلتے تھے ۔ اس دور میں 1931ء میں علی پور کے نزدیک پنجند کے مقام پر پنجند ہیڈ ورکس بنایا گیا۔ نہری نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا۔ 1939ء میں تریموں ہیڈورکس سے نہریں نکالی گئیں جس سے مظفر گڑھ کے علاقے سیراب ہونا شروع ہوئے اور ضلع میں زرعی انقلاب کا آغاز ہوا ۔ نہری پانی کی دستیابی سے فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ ضلع کے مشرقی علاقوں میں آموں کے باغات میں اضافہ ہوا۔ ضلع میں جدید انگریزی نظام کے تحت تعلیم ، صحت ، بلدیات آبپاشی ، زراعت اور دیگر سماجی خدمات کے ادارے قائم ہوئے ۔ بلدیاتی نظام کے تحت ڈسٹرکٹ بورڈ کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ اس دور میں عوامی نمائندوں کے چناؤ کیلئے انتخابات کا آغاز ہوا ۔ بیسویں صدی کے شروع میں سیاسی بیداری کا دور شروع ہوا ۔ یہاں کے نمائندے اعلیٰ ایوانوں کیلئے منتخب ہوئے ۔ جدید انفراسٹرکچر بنا شروع ہوا ۔ شہر میں جدید عمارتیں قائم ہو ئیں ۔ جن میں ڈپٹی کمشنر آفس ضلع کچہری ، سول ہسپتال ، ہائی سکول کی عمارت وکٹوریہ میموریل ہال اور ریلوے اسٹیشن کی عمارت شامل ہے۔
تحریک پاکستان (1906ء تا 1947 ء) :
سیاست کے اہم مراکز دہلی ، لاہور اور کراچی سے بہت دور اور سیاسی بیداری کے نہ ہونے کی وجہ سے ضلع مظفر گڑھ میں تحریک پاکستان کو زیادہ پذیرائی نہ ملی ۔ پنجاب کے دیگر اضلاع کی طرح ضلع مظفر گڑھ کے امرا اور جاگیر دار انگریز کے حامی تھے اور زیادہ تر جاگیر دار سیاستدان جیسے میاں ابراہیم برق ، ملک قادر بخش جھکڑ اور فضل کریم بخش قریشی انگریز نواز اور کانگریس کی اتحادی جماعت یونینسٹ پارٹی میں شامل تھے۔ ضلع کے ہندوؤں کی اکثریت انڈین نیشنل کانگریس کی حامی تھی ۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد مجلس احرار سے بھی وابستہ تھی ۔ سردار عبدالحمید خان دستی پہلے پہل انڈین نیشنل کانگریس میں شامل تھے بعد میں انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس اور سرکاری وکالت چھوڑ کر سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا ۔ 1945 ء کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کا علم بلند کیا۔ علی پور تحصیل میں ایک مسلمان وکیل ملک غلام فرید لنگڑیال نے آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم قائم کی اور علاقے کے جاگیر داروں اور زمینداروں کو آل انڈیا مسلم لیگ اور قائد اعظم محمد علی جناح کی طرف راغب کیا۔ ان کی کوششوں سے سردار نصر اللہ خان جتوئی آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور انہوں نے 1945 ء کے انتخابات میں میاں ابراہیم برق کا مقابلہ کیا ۔کوٹ ادو اور لیہ سے گورمانی خاندان کے میاں غلام جیلانی گورمانی آل انڈیا مسلم لیگ کے امیدوار تھے [99]۔ 1945ء کے تاریخی اور فیصلہ کن انتخابات میں لے کے رہیں گے پاکستان اور بن کے رہے گا پاکستان کے نعرہ کے تحت الیکشن لڑنے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے تینوں امیدواروں نے بھاری اکثریت سے اپنے حریفوں یونینسٹ پارٹی کے امیدواروں اور احراری لیڈروں کو شکست دی۔ سردار عبدالحمید خان دستی ،میاں غلام جیلانی اور سردار نصر اللہ خان جتوئی نے اپنے مخالفین سے کہیں زیادہ ووٹ لئے ۔ سرزمین مظفر گڑھ کے لوگوں نے ان انتخابات کے ذریعے پاکستان کے حق میں فیصلہ سنایا۔ یوں دیر آید درست آید کے مصداق آخر کار سرزمین مظفر گڑھ کے لوگ بھی تحریک پاکستان کے قافلے میں شامل ہوئے ۔ اس دوران سردار عبدالحمید خان دستی اور دیگر مسلم لیگی رہنما کوقید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔
پارلیمانی دور (1947 ء تا 1958ء) :
پاکستان بننے کے بعد 1955 ء تک یہ ضلع ملتان ڈویژن میں شامل رہا مگر ون یونٹ 1955 ء کے بعد ضلع مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازیخان کو ریاست بہاولپور کے ساتھ بہاولپور ڈویژن میں شامل کیا گیا مگر بعد میں مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازیخان بہاولپور سے علیحدہ کر کے دوبارہ ملتان ڈویثرن میں شامل کر دیئے گئے ۔ اس دور میں سردار عبدالحمید خان دستی کی کوششوں سے مظفر گڑھ کے پہلے گورنمنٹ کالج کی میں بنیاد رکھی گئی۔ ان کی وزارتنمیں تمام اضلاع میں ہسپتالوں کے منصوبے شروع ہوئے۔ سردار عبد الحمید خان دستی اس وقت کے وزیر زراعت نے 30 جولائی 1953 ء کو کالج کی تعمیر کے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا [102]۔ 1952ء میں دریائے سندھ پر کوٹ ادو کےمقام پر تو نسہ ہیڈ ورکس کے کام کا آغاز ہوا۔
ایوب خان کا دور (1958 ء تا 1969ء) :
مظفر گڑھ شہر کے مغرب میں ڈیرہ غازیخان روڈ پر مظفر گڑھ میں پہلا بڑا صنعتی کارخانہ تھل جیوٹ ملز 1964ء میں قائم ہوا (103) تھل جیوٹ مزا بھی تک کام کر رہی ہے، کسی وقت یہاں 4 ہزار کار کن کام کرتے تھے ۔ ایوب خان نے 1958ء میں دریائے سندھ پر کوٹ ادو کے مقام پر بنے والے تونسہ ہیڈ ورکس کا افتتاح کیا۔ اس ہیڈ ورکس سے مظفر گڑھ کینال نکالی گئی۔ اس نہر نے مظفر گڑھ میں زمینوں کی آبادکاری اور زرعی ترقی کو عروج بخشا۔ اس دور میں ضلع بھر میں کئی نئی نہریں بھی نکالی گئیں ۔
بھٹو دور:
ملک بھر کی طرح مظفر گڑھ کی تاریخ میں بھی یہ دور سیاسی گہما گہمی اور دور کر نوازی کا دور تھا ۔ بھٹو نے تمام صنعتیں اور نجی ادارے قومی تحویل میں لے لئے۔ اس دور میں مظفر گڑھ کے ملک غلام مصطفیٰ کھر دو مرتبہ وزیر اعلیٰ اور دو مرتبہ گورنر مقرر ہوئے ۔ ملک غلام مصطفے کھر نے اپنے دور میں مظفر گڑھ کے عوام کی بہت خدمت کی ضلع بھر میں نے سکولز ،ہسپتال اور سڑکیں بنوائی گئیں ۔ عام آدمی کی اقتدار کے ایوانوں تک رسائی ممکن ہوئی ۔ پہلی مرتبہ نوکر شاہی حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت کرتی ہوئی نظر آئی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کی حکومت مخالفت مہم کی وجہ سے ضلع حکومتی توجہ کا مرکز رہا۔ 1974ء میں ملتان اور مظفر گڑھ کے درمیان شیر شاہ کے تاریخی ریلوے پل کے او پر پل تعمیر کیا گیا جو 2009 ء تک استعمال ہوتا رہا ۔
ضیا دور (1977ءت1988ء) :
1982ء میں تحصیل لیہ کو مظفر گڑھ سے علیحدہ کر کے الگ ضلع بنا دیا گیا۔ یکم جولائی 1982 ء میں ضلع مظفر گڑھ کو ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں شامل کر دیا گیا ۔ گورنر غلام جیلانی کے دور میں مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان کے درمیان غازی گھاٹ کے مقام پر دریائے سندھ پر پل تعمیر کیا گیا۔ جس سے عوام کو بڑی سہولت ملی ۔
بے نظیر ، نواز شریف دور (1988ءتا1999ء) :
وزیر اعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کے دور میں سردارند ر محمد خان جتوئی کی کوشش سے یکم جولائی 1991ء میں جتوئی کو تحصیل کا درجہ دیا گیا ، بے نظیر دور ( 96 – 1993 ء ) میں نوابزادہ نصر اللہ خان کی کوششوں سے خان گڑھ اور روہیلانوالی کے علاقوں میں دریائے چناب پر فلڈ بند کی تعمیر کا میگا پرا جیکٹ شروع کیا گیا۔ اس کی تکمیل سے یہ علاقے سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ ہو گئے۔ سردار عبد القیوم خان جتوئی کی کاوش سے جتوئی اور علی پور کے علاقوں میں دریائے سندھ پر فلڈ بن کی تعمیر ہوئی ۔ اس دور میں ضلع مظفر گڑھ کے ہزاروں دیہاتوں میں بجلی کی فراہمی ہوئی نئے سکول بنے اور بنیادی مرکز صحت بنائے گئے۔
مشرف دور (1999 تا2008ء) :
مشرف دور میں نئے بلدیاتی نظام میں ضلع ناظم کو بہت سے اختیارات حاصل تھے ۔ اس دور میں مظفر گڑھ شہر اور پورے ضلع میں کافی ترقیاتی کام ہوئے ۔ یہ ترقی کا دور تھا۔ ضلع ناظم سلطان محمود بنجر ا کے دور میں نئی سڑکیں بہنیں ، شہر کی سڑکیں دورویہ کی گئیں گورنمنٹ کالج کو پوسٹ گریجوایٹ کالج کے طور پر ترقی ملی ۔ یکم فروری 2002 ء کو گورنر خالد مقبول نے دورہ مظفر گڑھ کے دوران ڈگری کالج کو پوسٹ گریجوایٹ کالج میں اپ گریڈ کرنے کا اعلان کیا ۔ 15 اکتوبر 2002ء کو کالج میں اردو، انگلش، اکنامکس اور ریاضی میں ماسٹر سطح کی کلاسز کا آغاز ہوا۔ ضلعی حکومت نے اپنے وسائل سے پوسٹ گریجوایٹ بلاک کی تعمیر کروائی، اس بلاک کا افتتاح اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی نے 29 مارچ 2004ء کو کیا۔ مرکزی ہال کا افتتاح اس وقت کے ضلع ناظم ملک سلطان محمود منجراہ نے 27 جون 2005 ء کو کیا۔ مشرف دور میں 2005ء میں اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے انجینئر شاہد جمیل قریشی سابق وزیرمملکت برائے مواصلات کی کاوشوں سے دریائے چناب پر نئے پل کی تعمیر کا آغاز ہوا ۔ یہ پل 2009ء میں مکمل ہوا اس وقت وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس کا افتتاح کیا۔ اس دور میں مظفر گڑھ سدرن بائی پاس اور خان گڑھ بائی پاس کی تعمیر ہوئی ۔ مشرف دور میں روہیلا نوالی بائی پاس کی تعمیر ہوئی ۔
گیلانی دور (2008 ء تا2013ء) :
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ہونے والے الیکشن میں پاکستان بھر کی طرح مظفر گڑھ میں بھی پیپلز پارٹی نے کلین سویپ کیا اور چھ قومی اور گیارہ صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیت لیں ۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے سید یوسف رضا گیلانی ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ۔ اس دور میں مظفر گڑھ میں کافی ترقیاتی کام ہوئے ۔ دریائے چناب پر مظفر گڑھ ملتان کے درمیان پل کے نامکمل کام کو مکمل کیا گیا۔ عوام کے دیرینہ مطالبے پر ہیڈ محمد والا کے نزدیک دریا ئے چناب پر پل تعمیر کیا گیا۔ اس پل کی تعمیر سے مظفر گڑھ کے علاقے کوٹ ادو ، رنگ پور اور ضلع لیہ کے عوام کو بہت آسانی ہوئی ۔ ملتان اور ان علاقوں کے درمیان فاصلہ بہت کم ہو گیا۔ مظفر گڑھ شہر میں جنوبی بائی پاس کی تعمیر ہوئی۔ مظفر گڑھ شہر میں مغربی جانب بائی پاس روڈ کا منصوبہ مکمل ہوا ۔ جتوئی میں سوئی گیس پہنچانے کا منصوبہ شروع ہوا۔ اس کے علاوہ ضلع بھر میں سینکڑوں آبادیوں کو بجلی اور گیس کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔ خان گڑھ بائی پاس روڈ کی تعمیر ہوئی۔ 2010ء میں مظفر گڑھ کو تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا ۔ سیلاب کے بعد غیر ممالک خاص طور پر ترکی کی مدد سے مظفر گڑھ شہر کے نزدیک ترکی کالونی قائم کی گئی جبکہ ترکی نے ایک ہسپتال رجب طیب اردوان بنوا کر دیا جو پنجاب حکومت کے تحت پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چل رہا ہے ۔ ترکی حکومت نے بصیرہ میں ایک شاندار تعلیمی ادارہ امینہ اردوان گرلز ہائی سکول بنا کر دیا ۔ یہ ہسپتال اور سکول ترک عوام کی طرف سے مظفر گڑھ کے عوام کیلئےتحفہ ہیں ۔
نواز دور (2013ءتا2018ء) :
2017ء میں رجب طیب اردوان ہسپتال کے توسیع کے منصوبے کا آغاز ہوا ۔ 2017ء کے آخر میں مظفر گڑھو تا ڈیرہ غازی خان سٹرک کو دورویہ کرنے کے منصوبے کا سنگ بنیا د رکھا گیا جو اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف نے رکھا۔ اس دور میں مظفر گڑھ میں فیصل اسٹیڈیم میں سپورٹس کمپلیکس تعمیر کیا گیا ۔ ای لائبریری قائم ہوئی ۔ سید محمد والا تا کوٹ اور روڈ کی تعمیر مکمل ہوئی۔ مگر کوئی میگا پراجیکٹ شروع نہ ہو سکا ، النا ضلعی حکومت کا نظام جب یکم جنوری 2017 ء کو ختم کیا گیا تو مظفر گڑھ کے اربوں روپے کے فنڈز لا ہور منتقل کر دیے گئے ۔ موجودہ عمران خان دور (2018 ء تا حال) جب اگست 2018 میں تحریک انصاف کی صوبائی وفاقی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو ڈیرہ غازی خان تا مظفر گڑھ روڈ دو رویہ کرنے کا منصوبہ اور رجب طیب اردوان ہسپتال کی توسیع کا منصوبہ یہ دونوں تاخیر کا شکار اور نامکمل تھے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے خصوصی دلچسپی سے ان کو مکمل کرایا ۔ وزیر اعظم عمران خان نے ان منصوبوں کا افتتاح کیا ۔ اس وقت کے چیئر مین ضلع کونسل سردار عمر خان کو پا جنگ کی کاوش سے ضلع کونسل کمپلیکس میں شہر کا سب سے بڑا اور پہلا آڈیٹوریم مکمل ہوا ہے۔ فیاض پارک اور کی تعمیر وترقی اور تزئین و آرائش کے منصوبہ مکمل کیا گیا ۔ فیصل سٹیڈیم کی بحالی اور گراؤنڈ کی بہتری کا منصوبے شروع کیا گیا۔ شہر میں پہلی بار گرین بیلٹس قائم کئے گئے ۔ کچہری چوک تا جھنگ موڑ سٹریٹ لائٹس کو بحال کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کے قیام کے لئے ہائر ایجو کیشن کمیشن کو 1200ایکڑ اراضی دی گئی ۔ انڈسٹریل پارک کے لئے 1400 ایکڑ اراضی مختص کی گئی ۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیمی اصلاحاتی پروگرام نافذ کیا گیا ہے۔ سول کلب یادگار چوک کی تزئین و آرائش کی گئی۔ مظفر گڑھ میں ڈپٹی کمشنر آفس میں اپنی نوعیت کا پہلا سہولت سنٹر بنایا گیا ۔ اس میں عوام کے مسائل کے حل کیلئے ہیلپ لائن بھی شروع کی گئی
نوٹ: مضمون محمد شہزاد کی کتاب "سر زمین مظفرگڑھ” سے لیا گیاہے