بانی مظفر گڑھ ۔۔ نواب مظفر خان شہید
لفظ مظفر گڑھ کا لغوی مطلب ہے ” مظفر کا قلعہ ” 1792ء میں والٹی مامتان نواب مظفر خان شہید نے یہاں ایک قلعہ اور مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا انکی نگرانی میں یہ قلعہ، رہائشی مکانات اور مسجد 1794ء میں مکمل ہوئے ۔ انھوں نے دریائے چناب کے مغربی کنارے پر اس قلعے کو اپنا اہم حکومتی مرکز بنایا اور یہ مقام ان کے نام کی نسبت سے مظفر گڑھ مشہور ہو گیا ۔ نواب مظفر خان نے یہاں کھجور کا باغ بھی لگوایا جو آج بھی مظفر گڑھ میں موجود ہے یوں نواب مظفر خان شهید بجاطور پر مظفر گڑھ شہر کے بانی ہیں۔
دہلی میں مغل سلطنت کے زوال اور کمزوری کے بعد جب جنوبی ہند کے مرہٹوں نے زور پکڑا اور ملتان پر بھی قبضہ کر لیا اور ملتان کا مسلم حاکم جہاں خان کا بل فرار ہو گیا۔ امام شاہ ولی اللہ دہلوی کی دعوت پر افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان پر چڑھائی کی اور پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کو فیصلہ کن شکست دے کر ان کی قوت کو توڑ دیا ملتان کو بھی مرہٹوں کے قبضہ سے نجات دلائی۔ ملتان کے ساتھ احمد شاہ ابدالی کا خصوصی تعلق بھی تھا کہ اس کے باپ خان زمان نے ملتان میں یہاں کی خاتون سے شادی کی تھی اور احمد شاہ ابدالی اسی خاتون کے بطن سے ملتان میں ہی پیدا ہوا تھا۔ نواب مظفر خان سدوزئی شہید کے مورث اعلیٰ خان سرد تھے اور اسی نسبت سے یہ خاندان سروز کی کہلاتا ہے احمد شاہ ابدالی سدوز کی تھا اور بابائے افغان کہلایا ۔ ان کے آباؤ اجداد بغرض تجارت و فکر معاشی و نا مساعد حالات کی وجہ سے قندھار سے ملتان آگئے تھے صوبہ ملتان پر سروز کی خاندان کی حکومت کی بنیاد نواب زاہد خان سدوزئی نے رکھی۔ نواب زاہد خان انتہائی ذہین و فطین قابل، جہاں دیدہ اور حلیم الطبع شخص تھا۔ اپنی فہم و ذکاء ، خداداد قابلیت اور صلاحیت کی بنا پر ملتان میں آباد تمام پٹھان قبائل کو متحد کرنے میں نہ صرف کامیاب ہوا بلکہ ملتان میں اپنے اثر ورسوخ کی بنا پر "سرداری” کے عہدے پر متمکن ہوا۔ لاہور و ملتان کے گورنر نواب عبد الصمد خاں کا اعتماد حاصل کر کے گیارہ سال تک نائب گورنر صوبہ ملتان رہے ۔ 1738ء میں نواب زاہد خاں اپنے انتہائی قریبی مخلص دوست نواب قمر الدین وزیر اعظم دہلی کے اثر و رسوخ کی بنا پر گورنر ملتان کی نظامت بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ زاہد خان 1748ء میں فوت ہوا ۔ 1757ء میں مرہٹوں نے ملتان پر قبضہ کر لیا احمد شاہ ابدالی نے قبضہ چھڑالیا اور زاہد خان کے دوسرے بیٹے شجاع خان کو ملتان کی نوابی دے دی ۔
1775ء میں جب شجاع خان کا انتقال ہوا تو مظفر خان کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملتان پر سکھوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ یہ صورتحال مظفر خان کو قبول نہ تھی۔ اس نے افغانستان کے حکمران تیمور شاہ سے درخواست کی کہ وہ ملتان کو سکھوں سے چھڑانے کے لیے اس کی مدد کرے۔ تیمور شاہ 1779ء میں ملتان آیا۔ ایک طویل محاصرے کے بعد قلعے کو سکھوں سے چھڑا لیا گیا۔ جنگ میں مظفر خان نے بہادری کے جوہر دکھائے ۔ تیمور شاہ نے 23 سال کے نوجوان مظفر خان کو ملتان کا گورنر بنا دیا [168] مظفر خان نے سکھوں کے زخم خوردہ ملتان کو نئے سرے سے آراستہ کیا۔ 1779ء سے 1818 ء تک نواب مظفر خان سدوز کئی ملتان کا حکمران رہا۔ بہت سی مشکلات کا سامنا ڈٹ کر کیا۔ اپنے غدار ہو گئے لیکن نواب مظفر ثابت قدم رہا۔ نوجوان مظفر خان چاروں طرف سے مشکلات میں گھرا ہوا تھا۔ ایک طرف افغانستان کا بادشاہ تھا، جسے باقاعدگی سے ایک مخصوص رقم بھیجنا ہوتی تھی۔ دوسری طرف دہلی کا تخت جہاں کے بادشاہ ملتان کو حریصانہ نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ تیسری طرف بہاولپور کی ریاست تھی، جس کے حکمران کی نظریں ملتان کے کچھ حصوں پر تھیں ۔ چوتھی طرف رنجیت سنگھ کی جارحانہ حکومت تھی ۔ 1802ء کے بعد رنجیت سنگھ نے آئے روز ملتان پر یلغار اور حملے شروع کر دیئے۔ پے در پے شکست اور ناکامیوں نے رنجیت سنگھ کو ضدی بنا دیا۔ ملتان کی فتح کو اس نے اپنی ضد اور انا کا مسئلہ بنالیا۔ بھی منہ مانگا خراج لیکر واپس چلے جاتے بھی شکست ان کا مقدر بنتی ، بھی بڑے لشکروں کے ساتھ لوٹ مار کر کے بھاگ جاتے ۔ ملتان پر 8 نا کام حملوں کے بعد جنوری 1818ء میں فیصلہ کن جنگ کے ارادے سے 25 ہزار سکھ جنگجوؤں کا لشکر جو کہ تمام سامان حرب سے لیس تھا، کھڑک سنگھ کی کمان میں دیوان مصری چند جیسے آزمودہ جرنیل کے ساتھ پھر ملتان پر حملہ آور ہوا۔ نواب مظفر خاں نے بڑی جرات و بہادری سے دفاع کیا۔ ذلت آمیز شرائط صلح کو نفرت و حقارت سے ٹھکرا کر سرفروشی کی داستان رقم کی [170]۔ 2 ہزار جانثاروں پر مبنی مختصری فوج 25 ہزار کے لشکر کا کہاں تک مقابلہ کرتی ۔ کئی روز کی خون ریز معرکہ آرائی کے بعد نواب مظفر خاں نے شہر سے قلعہ ملتان کی طرف پسپائی اختیار کی اور اس طرح فروری 1818 ء ملتان شہر پرسکھوں کا قبضہ ہو گیا۔ قلعہ ملتان اپنی ساخت کے اعتبار سے ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے قریباً 4 ماہ تک سکھ قلعہ ملتان کو صح نہ کر سکے۔ درمیان میں گفت و شنید اور صلح کی باتیں بھی ہوتی رہیں خون ریز معرکہ آرائی یکم جون تک جاری رہی ۔ آخر کار نواب مظفر خان اور سکھوں کے درمیان فیصلہ کن جنگ کا مرحلہ بھی آن پہنچا۔ یکم جون کو سکھوں نے قلعے پر زبر دست گولہ باری کر کے متعدد شگاف کر دئیے۔ نواب مظفر خان جانباز ساتھیوں کے ہمراہ ڈٹے رہے، خطرات کی پرواہ کئے بغیر ذوق شہادت سے سرشار خود کمان کرتے رہے۔ جرات و بہادری کے وہ جو ہر دکھائے کہ سکھ فوج حیران اور ششدر رہ گئی ۔ 2 جون کو سکھ فوج قلعے میں داخل ہو گئی جس سے گھمسان کا رن پڑا۔ نواب مظفر خاں اپنے بیٹوں کے ہمراہ آخری معرکہ کیلئے کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے شمشیر برہنہ کے ساتھ سکھوں پر ٹوٹ پڑے۔ سکھ فوجیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔ شمشیر زنی کی تاب نہ لا کر سکھ فوج توڑے دار بندوقوں کے استعمال پر اتر آئی۔ ایک گولی لگنے سے آپ شہید ہو گئے ۔ نواب مظفر خان نے ملتان کا دفاع اپنے خون سے کیا۔ انہوں نے اپنے 5 بیٹے، بی اور اپنا پورا خاندان وطن پہ قربان کر دیا۔ وسیب کی تاریخ مظفر خان شہید کو ہیرو قرار دیتی ہے۔ نواب مظفر خان سرائیکیوں کے لیے وطن پرستی اور دھرتی سے محبت کی علامت ہیں، بیرونی جارحیت ، استعاریت اور سامراجیت کے خلاف مزاحمت کا استعارہ ہیں۔ نواب مظفر خان شہید ایک ایسی غیرت مند شخصیت کا نام ہے جس کی بے مثال شجاعت اور بہادری پر ہمیشہ سرزمین ملتان اور سرزمین مظفر گڑھ ناز کرتی رہے گی ۔ یہ مرد حریت تن تنہا 38 سال تک صوبہ ملتان اور اس کی رعایا کو مسلسل سکھوں کی یلغار سے حفاظت کرتا رہا۔
مظفر بر بساط مرگ بنشست
مسلمانی زملتان رخت بر بست
آپ ملتان میں حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کے مزار کے احاطے میں آسودہ خاک ہیں۔ نواب مظفر
خان شہید کے کتبہ مزار پر یہ اشعار درج ہیں:
شجاع ابن شجاع و حاجی …. امیر ملتان ز ہے مظفر بروز میدان به تیغ و باز و …. چه حمله آور وچوں غضنفر چوں سرخروئے شد بسوئے جنت ۔ بانت رضواں بیا مظفر
نوٹ: مضمون محمد شہزاد کی کتاب "سر زمین مظفرگڑھ” سے لیا گیاہے