ذات کا عصر پنجاب میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ذاتوں کے بارے میں دو باتیں بہت اہم ہیں۔ پہلی یہ کہ ذات ہندو مذہب کا ایک اہم ادارہ ہے اور اس مذہب میں ذات کے تصور کو بہت مقام حاصل ہے۔ دوسرا ذات Caste is per petual and immutable در اصل پیشہ ذات کی اصل بنیاد ہے لیکن اسے بھی مکمل وجہ نہیں کہا جا سکتا ۔ ہندوستان میں اسلام آنے کے بعد روایات میں تبدیلی شروع ہوئی اور اسلامی روایات نے قبائل کے رسم و رواج کو بہت تبدیل کیا۔ پنجاب کی ذاتیں مطبوعہ گورنمنٹ پریس پنجاب 1916ء میں بتایا گیا ہے کہ پہلی دفعہ 1881ء میں پنجاب میں سینس Censes شروع کیا گیا جو سرابی ٹینسن نے کیا۔ مصنف نے ذاتوں اور قوموں کے بارے میں جو رائے پیش کی ہے وہ دلچسپ ہے ان کے الفاظ میں ضلع میں مختلف قو میں آباد ہیں جن میں جٹ بلوچ، سید قریشی ارائیں راجپوت اور پٹھان قابل ذکر ہیں۔ پور اضلع مختلف ذاتوں اور قبیلوں میں منقسم ہے۔ ہر قبیلے کی مختلف گوٹھ اور شاخیں ہیں اور اکثر لوگ اپنے نام کے ساتھ ذات بھی لکھتے ہیں۔ سرکاری گزیٹر کے مطابق ماضی میں مختلف قوموں کی تعداد ضلع میں اس طرح تھی۔
جٹ قبیلے میں پنواز پر ہاڑ چھچھڑہ بھیٹے ڈاہا، گورایہ بھٹی، سہو سیال جانگلہ ترگڑ سمرا مکول، پیتل دھنور پنجر اکھر پر ہار ڈونہ بدھ کہیم لنگاہ چدھڑ وڑائچ ، ساہی باجوہ کاہلوں ڈھلوں، ورک سندھو بھلر رندھاوا جکھر، وغیرہ شامل ہیں۔ بلوچ قبائل میں گرمانی سرانی گوپانگ جتوئی غزلانی لغاری مستوئی دریشک بزدار قیصرانی اور چانڈیہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ سید خاندانوں میں بخاری گیلانی، کاظمی بشمسی شیرازی زیدی اور مشہدی جب کہ قریشی قوم صفحہ قریشی کرم داد قریشی اور شیخ عمر میں آباد ہیں ۔
مسٹر او برائن نے جٹ کے بارے میں بہت سی باتیں تحریر کی ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ وہ جٹ ہی نہیں جسے اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں صحیح معلومات ہوں ۔ انہوں نے مزید لکھا ہے کہ مظفر گڑھ میں لوگ تیزی سے جاٹ بنتے جارہے ہیں۔ جٹ سندھ میں بھی آباد ہیں ۔ 1901ء کی انڈیا کی مردم شماری کے مطابق مسٹر او برائن نے مظفر گڑھ کے جاٹ کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ جٹ دراصل راجپوت ہیں۔ جاٹ ہمیشہ راجپوتوں سے ریکروٹ کیے گئے ہیں وہ جٹ ہی نہیں جسے اپنے بزرگوں کے بارے میں صحیح و مستند معلومات ہوں۔ وہ ہمیشہ ہی سے یہی کہے گا کہ وہ راجپوت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جاٹ اور مسلمان راجپوت کے درمیان امتیاز ناممکن ہے۔ جٹ کی تعداد پنجاب میں بالعموم اور مظفر گڑھ میں بالخصوص بہت زیادہ ہے۔ جٹ کے صرف تحصیل سنانواں میں 165 گوٹھ اور قبیلے ہیں۔ جٹ کا لغوی مطلب کا شتکار ہے مختلف قبائل میں حیران کن مماثلت ہے۔ ہر قبیلے کے آباؤ اجداد راجپوت تھے، ہندوستان کے بادشاہوں سے بغاوت کر کے وہ مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔ ان میں سے کچھ راوی کے کنارے آباد ہوئے اور بہاءالدین زکریا اور بابا فرید گنج شکر سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئے اور پھر یہ لوگ کھرل خاندان سے مل گئے اور کاشتکاری کا پیشہ اختیار کرنے کی وجہ سے وہ جٹ مشہور ہو گئے۔ انگریزوں کے دور میں وہ بہت ہی شریف اور دیانتدار مشہور ہوئے۔ مسٹر او برائن نے جٹ کے بارے میں بہت سے مقولے اور کہاوتیں بیان کی ہیں ان کی تحریر سے یہ اقتباس بطور نمونہ درج کیے جاتے ہیں۔
ماضی میں ہندوستان میں یہ بدقسمتی رہی ہے کہ پورا معاشرہ ذاتوں اور قبیلوں میں اس قدر تقسیم ہو چکا تھا کہ ایک فرد جس قدر بھی محنت اور کوشش کرتا وہ کبھی بھی انفرادی خوبیوں کی بناء پر ترقی اور قدر و منزلت حاصل نہیں کر سکتا تھا بلکہ اس کی عزت اور سماجی رتبہ سب کچھ اس کی ذات سے منسلک تھا۔ کسی بھی فرد کیلئے ذاتی صلاحیتوں کے باوجود ذات پات کے بندھن سے نکلنا بہت مشکل تھا کیونکہ سماج میں ہر جگہ انسان کی پہچان اس کے قبیلے سے منسلک تھی نہ کہ اس کی شکل وصورت یا ذاتی اوصاف سے۔ گویا یہ شناخت موروثی تھی جو ذات اور قبیلے کی وجہ سے ہوتی تھی۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق پنجاب کی آبادی کا 27 فیصد جاٹ تھے۔ جاٹ کے بارے میں ایک لطیفہ مشہور ہے کہ وہ گندم کی ڈھیری کے پاس خوش ہو کر کھڑا تھا تو اس کے پاس سے بادشاہ کی سواری گزری تو اس نے بادشاہ کے ہاتھی کے ڈرائیور کو مخاطب کر کے پوچھا کہ کیا یہ چھوٹا گدھا بچو گے۔ جاٹ کے بارے میں انگریزوں کی رائے یہ تھی مظفر گڑھ میں جاٹ کی آبادی زیادہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جٹ گیارہویں صدی میں پنجاب اور سندھ میں آباد ہونا شروع ہوئے۔ یہ دراصل راجپوت ہیں اور آرین Seythian Race سے ان کا تعلق کا ہے۔ انگریزوں نے جب Punjab alienation of land Act نافذ کیا تو اس کے تحت زمینداروں کی فہرستیں بننا شروع ہوئیں تو جٹ راجپوت بلوچ پٹھان سید اور قریشی اقوام کو یہ زمینیں ملنی شروع ہوئیں اور ان کا شمار سر کاری کا غذات میں زمینداروں میں ہونا شروع ہوا۔ ضلع میں کاشتکاری کے فروغ زمینوں کی منتقلی ذرائع آبپاشی کی بہتری اور لوگوں کی نقل مکانی کی وجہ سے ذاتیں اور قبیلے تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ جاٹ قبیلہ کی تو یہ حالت ہے کہ یہ لوگ ایک ضلع میں جاتے ہیں جب کہ اسی صوبہ کے دوسرے ضلع میں یہ راجپوت کہلواتے ہیں کہیں انہیں چودھری کہا جاتا ہے اور کہیں ملک کہتے ہیں۔ مسٹر او برائن کے مطابق مظفرگڑھ میں لوگ تیزی سے جاٹ بنتے جارہے ہیں۔ سرکاری گزٹ میں تحریر ہے کہ جٹ عموماً اپنی کاشت کاری سے مطمئن ہے وہ اپنا ٹیکس خاموشی اور احترام سے ادا کرتا ہے لیکن جب غلط حرکات پر اتر آئے تو پھر قمار بازی سے لے کر قتل اور عورتوں کے اغوا تک کے جرائم کرتا ہے۔ ضلع کی سیاست میں جاتے اور بلوچ خاندانوں کو ایک منفرد مقام حاصل رہا ہے۔ حسب نسب اور ذات کو ہمارے معاشرے میں زمانہ قدیم سے بہت اہمیت حاصل رہی ہے۔ نسب کا مطلب نسل اور نژا دلیا جاتا ہے یعنی اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کا باپ دادا کون تھا اور اس کا قبیلہ یا نسل کیا ہے؟ انسان کی ذاتی قابلیت اہلیت اور لیاقت کے ساتھ ساتھ اس کا حسب نسب بھی سماجی رتبے کے لیے ناگزیر تصور کیا جاتا ہے۔ مولانا شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ اگر دنیا میں قو میں زندہ ہیں تو بزرگوں کے یادر کھنے سے اور اگر مرگئی ہیں تو بزرگوں کے نام بھولنے سے۔ حضرت علی کا قول ہے کہ تمام انسان اپنے جسموں کے اعتبار سے ایک جیسے ہیں اور ان تمام کا باپ آدم اور ماں حوا تھی ۔ تاہم ہمارے معاشرے میں جہاں اور سماجی برائیاں پیدا ہوئی ہیں وہاں ذات پات کے عصر کو کبھی سماجی درجہ بندی میں بہت غلبہ رہا ہے۔ انسانوں کی عزت ان کی ذاتی اوصاف سے کم اور خاندان کی بناء پر زیادہ کی جاتی ہے۔ ہندوستانی معاشرہ تو اس تقسیم کی بدترین مثال ہے جہاں نسل اور خاندان کی آڑ میں انسانیت کا استحصال کیا جاتا ہے۔ اسلام نے ذات پات کے بجائے انسان کے کردار کو بڑے پن کی علامت قرار دیا ہے۔ سر ڈیزل کے مطابق 1881ء کی مردم شمار میں ضلع مظفر گڑھ میں 2354 ٹھیارے 440 کھو مجھے 8024 ترکھان 259 کٹا نے 776 ملاح 1477 لوہار 3634 میرانی 178 موچی 13625 ما تبھی 4064 نائی 450 جوگی موجود تھے ۔ جٹ قبیلہ سب سے بڑا ہے جس میں وڑائچ ، ساہی، ہنجرا، جنجوعہ، میکن ، گوندل، رانجها با جواه ،همن گورایه سندھو، اولکھ ، برار وغیرہ شامل ہیں۔ بچی ذاتوں کے بارے میں بڑی قیادتیں مشہور چلی آرہی ہیں۔ نائی کولوگوں میں بہت چالاک سمجھا جاتا ہے۔ کہاوت ہے کہ حیوانوں میں سب سے زیادہ ہوشیار گیدڑ ، پرندوں میں کوا اور انسانوں میں نائی ہے۔ اس وقت نائی برادری میں 55 فیصد مسلمان 39 فیصد ہندو 6 فیصد سکھ ہیں۔ نائی کی چھ ذاتیں موجود ہیں۔ میراثی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ملا، بھاٹ، برہمن اور میراثی دینے کے دن پیدا نہیں ہوئے ۔ ترکھان کے 12 کمہاروں کے 5 زرگر اور دھوبی کی شناختیں موجود نہیں۔ دستکار ذاتوں میں
29 رنگ ریز 235 تیلی 3136 قصائی اور 19 کلال موجود تھے۔ جٹ کے بارے میں مسٹر او برائن لکھتے ہیں کہ ضلع مظفر گڑھ میں لفظ جٹ مسلمان قبائل کے ان مجموعوں پر مشتمل ہے جو سید بلوچی ، پٹھان یا قریشی نہیں ہیں۔ اس تعریف کے مطابق جنوں میں راجپوت بھی شمار ہوتے ہیں میں اسے درست تسلیم نہیں کرتا جنٹوں کی بھرتی ہمیشہ راجپوتوں میں سے ہوئی۔ جٹ قبائل پاکستان میں کثرت سے پائے جاتے ہیں اور در حقیقت یہ پنجاب کے اصل باشندے ہیں۔ جو تو رانی الاصل ہیں۔ یہ قوم سکندراعظم کے بعد اس خطہ میں آئی۔ یہ ایک قدیم قوم ہے جو عرب سے "زط ” یازت کے نام سے مشہور تھی۔ (صفحہ 614 اقوام پاکستان کا انسائیکلو پیڈیا) مسٹر تھامسن کے مطابق جٹ اور راجپوت ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ فرانسیسی مصنف گستاولی بان اپنی کتاب تاریخ ہند میں لکھتا ہے۔ ہندوستان کی بیرونی اقوام میں سب سے پہلے جاٹوں نے ہندوستان پر حکومت کی کرنل ناڈ نے جائوں کو راجپوت بتایا ہے اور راجپوتوں کے چھتیں شاہی خاندانوں میں ان کا شمار کیا ہے۔ جٹ قبائل میں بھٹہ، لنگاہ، چدھڑ ، سپرا، لنگڑیال ، نول، کھرل، مڈل، ہرل، ساہی ، ہنجرا، چیمہ، باجوہ ، تارڈ ، وڑائچ، کاہلوں، گورا یہ گھمن ، چھٹے ، سندھو، مان ، ہیر، ڈھلوی شامل ہیں۔ جٹوں کی چند اہم گوتوں میں نکھر ال ، مانگٹ، گجرال ، گل، رانجھا، چوہان، اولکھ، بدیال، بدھ، برولہ، بھلی بھٹی ، بھنڈر، چغتائی، ہرل، کھرل، کاہلوں، لالی ، ویرڈ ، واہلہ ، وسیر وغیرہ شامل ہیں۔ ضلع میں ارائیں بھی مختلف علاقوں میں آباد ہیں۔ تاریخ قوم ارائیاں کے مصنف علی اصغر چوہدری لکھتے ہیں کہ ارائیں قوم کے آباؤ اجداد ملک شام کے ایک علاقے اریحا” کے رہنے والے تھے۔ جب وہ وہاں سے ہندوستان آئے تو ریحا کی نسبت سے ایحائی اور بعد ازاں ارائیں مشہور ہو گئے ۔ مختلف علاقوں سے ” شیخ ” بھی آباد ہیں۔ شیخ رالدین کے تحقیق کے مطابق شیخ پہلے ہندوراجپوت تھے۔ شہاب الدین غوری کے عہد میں بیکانیر کی طرف سے جہلم میں آئے اور ملوٹ کے مقام پر سکونت اختیار کی اس زمانے میں ہندوستان میں یہ رواج عام تھا کہ ہر نو مسلم کو شیخ کہا جاتا تھا۔ کیونکہ شیخ کا لغوی مطلب بزرگ ” معمر ” یا عالم فاضل ہے ۔ شیخ ایک محترم لفظ ہے۔ اس قوم میں منہاس ، چوہان، برہمن، بلکہ کئی دیگر قوموں کے لوگھی شامل ہیں۔ کچھ خاندان قریشی بھی کہلاتے ہیں جو بزرگوں کے احترام کی وجہ سے شیخ ہوئے ہیں۔
مسٹر ای ڈی میکنکشن اور ایچ اے روز کی تحریر کردہ کتاب ذاتوں کی انسائکلو پیڈیا میں جس کا ترجمہ یاسر جواد نے کیا ہے مظفر گڑھ میں آباد درج ذیل قوموں کے بارے میں یہ
رائے دی گئی ہے۔
آرائیں
وادی ستلج اور سارے مشرقی میدانوں میں ارائیں ایک حقیقی ذات ہے لیکن باقی دو صوبوں میں کسی بھی سبزی لگانے والے کو ارا ئیں کہتے ہیں۔ بہ حیثیت مجموعی یہ لگتا ہے کہ ارائیں بالاصل زیریں دریائے سندھ سے آئے اور پنجاب کے پانچ دریاؤں
کے ساتھ پھیل گئے۔
اعوان
یہ ایک اہم مسلمان قبیلہ ہے۔ زیادہ تر کو ہستان نمک میں ملتے ہیں اعواں یقیناً عرب ماخذ بر رکھتے ہیں اور قطب شاہ کی نسل سے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ہرات پر حکومت کرتا تھا۔ اور ہندوستان پر محمود غزنوی کے حملہ کے وقت اس کے ساتھ مل گیا۔ اس کا
ایک بیٹا کلان شاہ کالا باغ کے قریب آباد ہوا
01 – خاص بلوچ جو ایک قوم ہے
02 – پنجاب کے انتہائی مشرق اور انتہائی مغرب کے علاقوں کے علاوہ کوئی بھی اونٹ سوار مسلمان ۔
03 ڈیرہ اسماعیل خان کا ایک پٹھان قبیلہ۔
مظفر گڑھ کے بلوچ ہر لحاظ سے مقامی آبادی اور کلچر کا حصہ ہیں اور ان بلوچوں کو بلوچی زبان نہیں آتی۔ بلوچ خاندان کی اہم شاخوں میں گرمانی مشہوری ، کلانچی مستوئی کورائی ، ہرانی، گشکوری، دستی، پچار، چانڈیہ مگسی ، قدرانی، جتوئی غزلانی شامل ہیں۔ بلوچ ضلع کی تمام تحصیلوں میں آباد ہیں۔ زمیندار ہونے کے علاوہ سرکاری ملازمت بھی کرتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں بہت سے بلوچ حضرات ناظم منتخب ہوتے چلے آئے ہیں جبکہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں بھی انہوں نے الیکشن میں جیتی ہیں۔ بلوچوں کا کہنا ہے کہ وہ قریشی عرب اور آنحضور کے چچا امیر حمزہ کی اولاد میں سے ہیں ۔ جب یزید نے حضرت امام حسین سے جنگ کی تو وہ شام کے علاقے حلب میں قیام پزیر تھے۔ اور امام حسین کے حامی تھے ۔ یہ تقریباً 680 عیسوی کی بات ہے ۔ وہ ایران میں کرمان کی طرف نکل کھڑے ہوئے یہاں سے وہ مکران آئے بالآخر یہاں آباد ہوئے جسے اب بلوچستان کہا جاتا ہے۔ آخری ہجرت کے وقت ان کا سردار جلال خان تھا جس کے چار بیٹے رند ، ہوت، لاشاری کو رائی اور ایک بیٹی جا تو تھی ۔
بھٹہ۔ یہ راجپوت کی نسل ہونے کے دعویدار ہیں۔ لیکن ملتان کے پیر زادہ مراد بخش بھٹہ کی سرفرازی کے بعد بہت سے بھٹوں نے خود کو پیر زادہ کہلانا شروع کر دیا۔ ایک روایت کے مطابق یہ بھوٹان سے ہجرت کر کے آئے تھے ۔ وہ عمو مازراعت کے علاوہ برتن سازی اور کپڑا بنے کا کام بھی کرتے تھے۔
پڑ ہار : ڈیرہ غازیخان میں ایک جٹ قبیلہ
پنوار : مغربی میدانوں کا ایک راجپوت قبیلہ
تر گز : جٹ رتبے کا ایک قبیلہ جو دریائے چناب پر ملتان اور مظفر گڑھ میں چند دیہات کا مالک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بھٹی راجپوت تھے اور ان کا نام بیکانز میں اصل وطن ترگڑ کی نسبت سے ہے۔ زراعت پیشہ قبیلہ ہے۔
ٹانوری : زراعت پیشہ جٹ قبیلہ
جھنڈیر : مسلمانوں کا ایک نیم مقدس قبیلہ جسے قریشی ماخذ کا حاصل بتایا جاتا ہے ۔ وہ ضلع جھنگ کے انتہائی جنوب میں ان کی کچھ زمین ہے ۔ اور ملتان کی تحصیل میلسی میں بھی ملتے ہیں۔
چھجڑا : جٹ قبیلہ جو بھٹیوں کی شاہی نسل سے ہونے کے دعویدار ہیں۔
خانزاده : راجپوتوں کی ایک شاخ ۔ وہ فارسی تاریخ دانوں کے میواتی وارث ہیں –
سیال : مغربی میدانوں کے قبائل میں سیاسی اعتبار سے سیال اہم قبیلہ ہے۔ یہ پنوار اور راجپوتوں کا ایک قبیلہ ہے ۔ یہ ایک پنوار راجپوت رائے شنکر کی اولاد میں سے ہے ۔ ایک
روایت کے مطابق رائے شنکر کا اکلوتا بیٹا سیال تھا۔
شیخ : شیخ عربی زمان کا لفظ ہے۔ اس کا مطلب ہے بزرگ یا سردار ۔ اور عرب قبائل میں پنجاب والوں کے چوہدری کے مترادف ہے۔
لنگڑیال : راجپوتوں کے طور پر درجہ بند کیا گیا۔ زراعت پیشہ قبیلہ ۔ کچھ لوگ انہیں بکانیر کے برہمن بتاتے ہیں۔ لیکن وہ خود اپنے آپ کو عرب کے قریش کہتے ہیں۔
ہانس : جنڈ میں ایک چھوٹا ساجٹ قبیلہ ، لدھیانہ، ملتان اور منٹگمری میں بھی ہیں۔
ہمدانی : منٹگمری اور امرتسر میں زراعت پیشہ سید قبیلہ
ہنجرا : گوجرانوالہ میں آباد اہم جٹ قبیلہ ۔ وہ اصلا سرو ہا راجپوت ہونے کے دعویدار ہیں۔ وہ بتاتے ہے کہ ان کا جدا مسجد بنجر اؤں حصار کے نواح سے ہجرت کر کے گوجرانوالہ آیا۔
گمشکوری : ڈیرہ اسماعیل خان مظفر گڑھ اور منٹگمری کے علاہ ملتان میں آباد ایک بلوچ قبیلہ مکران کی بو ہیدا وادی میں ایک ندی کا نام کشکور ہے ۔ لہذا کشکوری بھی اس سے مشتق ہے۔ یہ زراعت پیشہ ہوتے ہیں۔
گجر: یہ ہند کے شمال مغرب کے ہر ایک حصے میں کافی بڑی تعداد میں ملتے ہیں ۔ پنجاب کی ساری تاریخ میں گوجر شورش انگیز رہے۔
گورایا ۔ ایک جٹ قبیلہ جو راجپوتوں کے سرد ہا خاندان کی نسل سے ہیں۔ ڈیرہ جات اور مظفر گڑھ میں آباد بلوچ قبیلہ
گرمانی
گھلو : زراعت پیشہ جٹ قبیلہ ۔ ان کے مورث اعلی ہندو راٹھ کو مخدوم جہانیاں جہاں گشت نے مسلمان کیا تھا۔ یہ زمیندار اور کاشت کار ہیں۔ انکے علاوہ تاریخ کی مختلف کتابوں میں درج ذیل ذاتوں کے بارے میں بھی تاریخی حوالہ جات موجود ہے۔
نون : بھٹی راجپوتوں کی مشہور شاخ ہے جس کے لوگ فوجی خدمات کی وجہ سے مشہور ہیں تھوڑی بہت تعداد میں تو یہ شاید پورے ضلع میں موجود ہوں لیکن ان کی کثرت تحصیل کوٹ ادو کے موضع بکھر نون میں رہائش پذیر ہے اور پیشہ کاشتکاری ہے۔ جب را جانج حاکم خراساں کے ہاتھوں قتل ہوا۔ تو یہ قبیلہ بھاگ کر راولپنڈی آگیا۔ را جا گجے پت سے آٹھویں
پشت پر راجا جانہون پت تھا۔ جسکی اولا دنون کہلاتی تھی۔
ٹوانہ: یہ قبیلہ راجا کرن کی اولاد ہے جسکی اولاد ایک عرصہ تک اجمیر بیکانیر پر حکمران رہی ۔ راجا کی پشت میں سے راجا کرم چند کی اولاد میں سے ایک فرد را جا تھا۔ جس کی اولاد ٹوانہ کہلاتی ہے۔ سیال ٹوانے اور کھیلے ایک ہی مورث اعلیٰ کی اولاد ہیں۔ مظفر گڑھ ضلع میں یہ بہت کم تعداد میں ہیں۔
قریشی: یوں تو یہ قوم پورے برصغیر پاک و ہند میں موجود ہے اور اسے بہت ہی محترم مقام . حاصل ہے۔ تا ہم مظفر گڑھ میں تحصیل کرے اردو کی یونین کونسل شیخ عمر تحصیل مظفر گڑھ کی کرم دار قریشی ہٹھہ قریشی ، جگت پور اور مظفر گڑھ شہر میں بھی قریشی قوم آباد ہے۔ سیاسی اور سماجی
حوالے سے ضلع میں اس قوم کا بہت مقام ہے۔
کھر: یہ تحصیل کوٹ ادو کی یونین کونسل ڈوگر کلاسرہ اور سانواں میں آباد ہیں۔ بنیادی طور پر زمیندار ہیں۔ 1964 کے الیکشن میں پہلی دفعہ کھر خاندان نے قومی اسمبلی کی نشست جیت کر ملک سطح پر شہرت حاصل کی۔ اور بعد ازاں اس خاندان نے سیاسی اور سماجی طور پر ملک میں اہم مقام حاصل کیا۔
لاشاری : بلوچ کے مرکزی حصوں میں سے ایک ہے بتایا جاتا ہے کہ وہ رندوں کے ساتھ جنگ کے بعد گند وا میں مقیم ہوئے اور اب کچھی میں جھل کے مگسی ان کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ جہاں بھی بلوچ موجود ہیں وہاں لاشاری بھی ملتے ہیں۔ گورچانی قبیلے میں لاشاریوں کا ایک طاقتور ذیلی تمن بھی ہے۔ منٹگمری (ساہیوال) گورچانی قبیلے میں لاشاری ہیں۔ شاہ پور میں لاشاری قبیلے کو بطور زراعت پیشہ شمار کیا گیا ہے”
ضلع مظفر گڑھ میں بھی لاشماری پورے ضلع میں آباد ہیں۔۔ اس وقت لاشاری ضلع کے چاروں تحصیلوں میں آباد ہیں۔ تحصیل کوٹ ادو میں چوک سرور شہید، میر پور بھاگل اور سلطان کالونی کے قرب و جوار میں لاشاری آباد ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہے ہیں۔ تحصیل جتوئی میں یہ قوم مختلف جگہوں پر بہت تھوڑی تعداد میں آباد ہے اور بیٹ میر ہزار سے لے کر جھگی والا تک کہیں کہیں رہائش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ اب لوگ کثرت سے اپنی ذاتین تبدیل کر رہے ہیں۔ چھوٹی ذاتوں کے بہت سے لوگ تعلیم حاصل کرنے اور ملازمت میں آنے کے بعد اپنی اصل ذات، قبیلے اور گوٹھ کی بجائے اپنے آپ کو جٹ ، بلوچ ،کھوکھر وغیرہ لکھواتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ جس تیزی سے یہ عمل جاری ہے۔ آنے والے پچاس سالوں میں قبیلوں اور گوٹھ کی تعداد جو اس وقت سینکڑوں میں ہے وہ بہت کم ہوتی جارہی ہیں اور نچلی اور پیشہ ور ذاتوں کے لوگ اپنی شناخت تبدیل کرنے لگے ہیں۔ اس وقت ضلع کے شمال سے لے کر جنوب تک چاروں تحصیلوں میں کوئی بھی شخص اپنی ذات موچی ، لوہار کمہار، چڑھویا ، رنگ ریز وغیرہ نہیں بتا تاہے بلکہ وہ تیزی سے اپنی ذاتیں اور اصل شناخت کو چھپا کر مشہور قوموں اور ذاتوں میں اپنا شمار کرار ہے ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون خیرمحمد بُدھ کی کتاب (تاریخ مظفرگڑھا) سے لیا گیا ہے۔