مظفر گڑھ : سلطان العلمامولانا عبد العزیز قریشی المعروف مولانا عبد العزیز پر ہاڑوی
سرزمین مظفر گڑھ کی عظیم ہستیوں میں سب سے عظیم ہستی سلطان العلماء مولانا عبد العزیز ہیں ۔ آپ مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو کی ایک چھوٹی سی پسماندہ بستی پر ہاڑ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا اصل نام عبدالعزیز ہے مگر بستی پر ہاڑ کی وجہ سے مولانا عبد العزیز پر ہارڈوی کے نام سے زیادہ مشہور ہیں۔ سلطان العلما مولا نا عبدالعزیز خود اپنی تصنیف الزمرد کے صفحہ نمبر تین پر اپنے نام اور نسب ابو عبد الرحمن عبد العزیز بن ابی حفص احمد بن حامد القرشی“ لکھتے ہیں کہا جاتا ہے کہ آپ کا خاندان کا بل سے ہجرت کر کے اس علاقے کوٹ ادو منتقل ہوا۔ سن پیدائش اور جائے پیدائش میں مورخین کا کافی اختلاف ہے، بعض نے سن پیدائش 1792ء ، بعض نے سن پیدائش 1794ء لکھا ہے۔ آپ کا سن وفات 1824ء ہے۔ صرف 32 ، 30 سال کے قلیل عرصہ حیات میں آپ نے وہ کارنامے سرانجام دیئے کہ دنیا آج تک حیرت زدہ ہے۔ آپ دیو مالائی اور اساطیری شخصیت ہیں ۔
اسی طرح جائے ولادت میں بعض نے احمد پور شرقیہ بعض نے علاقہ غزنہ (افغانستان) اور بعض نے پر ھاڑ نامی بستی لکھا ہے۔ زیادہ اتفاق اسی بستی پر ہے۔ بستی پھاڑ کامل وقوع اور آب و ہوا آپ اپنی کتاب الزمرد میں لکھتے ہیں بستی پر ھاڑ میٹھے پانی اور خوشگوار ہوا کی حامل بستی ہے، جو کوٹ اڈو کے مضافات میں دریائے سندھ کے مشرقی ساحل کے قریب ملتان سے 64 میل دور شمال مغربی جانب واقع ہے ۔ آپ بیک وقت بہت بڑے عالم مفسر، محدث، فقیہ مجتہد، عربی اور فارسی کے شاعر و نثر نگار، مصنف ، فلاسفی ، ماہر فلکیات، ماہر طب، ریاضی دان اور کئی علوم کے مجدد اور بانی ہیں ۔ لوگ کہتے ہیں کہ آپ جیسی شخصیت برصغیر میں آپ سے پہلے پیدا نہیں ہوئی۔ آپ ارسطو، بوعلی سینا اور بطلیموس کے پایے کی شخصیت ہیں۔ آپ کئی علوم کے ماہر تھے اور آ پکی 70 کتب کے بارے معلومات ملی ہیں۔ آپ بیک وقت دو مختلف موضوعات پر دونوں ہاتھوں سے لکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال جیسی عظیم ہستی بھی آپ کی ایک کتاب سر السما ( آسمانوں کا علم ) کی تلاش میں رہی اور اس کتاب کی خاطر اپنے دوستوں کو خطوط لکھے – تاریخ ملتان ذیشان کے مصنف منشی عبد الرحمن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ علم نجوم اور فلکیات پر آپ کا ایک رسالہ کیمبرج یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے ۔ اسی طرح آپ کی کتب جامعتہ الازہر مصر میں پڑھائی جاتی ہیں۔ آپ کو یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے عنایت ہوا تھا کیونکہ آپ اپنی مختصر حیات میں ملتان سے آگے نہیں گئے نہ دنیا کی کسی بڑی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ۔ سوال یہ ہے کہ آپ کو اتنا علم کہاں سے حاصل ہوا ؟ اس بارے مختلف روایات ہیں۔ سلطان العلماء مولانا عبد العزیز کے تین اساتذہ کا ذکر ہوا ہے۔ پہلے استاد آپ کے والد حافظ احمد قریشی ، دوسرے استاد حافظ جمال اللہ ملتانی اور تیسرے حضرت خواجہ خدا بخش ملتانی چشتی ہیں۔ والد سے صرف قرآن مجید حفظ کیا اور بعض ابتدائی کتب اور علم الحساب حاصل کیا۔ اس کے بعد تقریبا دس سال کی عمر میں اپنی بستی سے رخت سفر باندھا اور حضرت خواجہ نور محمد مہاروی کے خلیفہ حضرت حافظ جمال اللہ ملتانی چشتی کی خدمت میں ملتان پہنچ کر بقیہ علوم وفنون اُن سے حاصل کیے ۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ آپ کو علم کا یہ شرف اول تا آخر حضرت خواجہ خدا بخش کی شاگردی میں نصیب ہوا۔ آپ اور ملاقات حضرت خضر علیہ السلام کے بارے بھی ایک روایت ہے کہ آپ کو یہ سارا علم ان سے حاصل ہوا ۔ بعض حضرات نے حضرت مولانا عبد العزیز کی تمام علوم و فنون پر دسترس کو دیکھ کر کہا کہ ان کی حضرت خضر سے ملاقات ہوئی۔ سلطان العلما مولانا عبد العزیز نے ان سے سبق یاد نہ ہونے کا اظہار کیا تو حضرت خضر نے ان کے لیے دعا کی۔ یہ اسی دعا کا نتیجہ وشمر تھا کہ انہیں سینکڑوں علوم میں کمال حاصل تھا۔ مگر اس واقعہ کا انکار علامہ اپنی زندگی میں ہی کر چکے تھے ، چنانچہ ایک واقعہ لکھا ہے: ایک موقع پر سلطان العلما مولانا عبد العزیز کے ایک ہم مکتب نے ان سے سلطان المشایخ خواجہ خدا بخش کی موجودگی میں پوچھا تمہیں خضر مل گئے ہیں کہ دنیا کا کوئی علم ایسا نہیں ، جس میں آپ کو مہارت حاصل نہ ہو ؟ ۔ “ سلطان العلما مولا نا عبد العزیز نے حضرت خواجہ خدا بخش کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ” ان کی موجودگی میں مجھے کسی خضر کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح یہ بھی روایت ہے کہ انہوں نے اسبق یاد نہ ہونے کی شکایت اپنے استاد اور شیخ حافظ جمال اللہ ملتانی سے کی ، ان کی دعا کی برکت سے علم و حکمت کے دروازے آپ پر کھل گئے ۔ غالباً اسی واقعہ کی طرف انہوں نے اپنے اشعار میں بھی اشارہ کیا ہے ۔ حضرت علامہ کی کتب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عربی اور فارسی کے قادر الکلام شاعر تھے، ان کی اکثر کتب کے شروع اور آخر میں ان کا کلام موجود ہے۔ عقائد پر اُن کی کتاب ” النمر اس اس وقت بھی جامعۃ الازہر کے نصاب میں داخل ہے ۔ مولانا عبد العزیز کی یہ تصنیف ایک زندہ و جاوید کتاب کی حیثیت سے آج تک باقی ہے۔ دیگر تصانیف میں انوار جمالیہ، ملفوظات و آداب حافظ جمال اللہ، گلزار جمالیہ حافظ جمال اللہ کی حیات پر ہے۔ زمر دا خضر، یا قوت احمر ، مشک از فر طب ، رسالہ عبیر طب پر ہیں۔ لوح محفوظ تفسیر قرآن، الصمصمام اصول تغییر کوثر النبی اصول حدیث ، نسائخ مجریر کبیر ، الا کسیر طب اور عملیات، نسائخ مجر بر صغیر طبی نے سر السما علم فلکیات پر کنز العلوم اقسام علوم کی تعریف پر، نبراس شرح عقائد پر تخمین التقویم اخراج تاریخ پر، اسطر نومیا صغیر، اسطر نومیا کبیر، علم اسطرنومیا پر، کبریت احمر علوم ریاضی ، الا وسط علم نحو اور کلام الامام شاعری عربی فارسی ہی ہے۔ آپ کی کتب میں اکثر نایاب ہیں ۔ آپ کی تمام کتب عربی اور فارسی میں ہیں۔ آپ 1824ء میں فوت ہوئے اور آپ کو بستی پر ہاڑ میں دفن کیا گیا۔ آج بھی بہتی پر باڑ کی جامع مسجد کے ساتھ آپ کی کچی قبر موجود ہے۔