مظفر گڑھ کے سیاحتی اور قابل دید مقامات
سرزمین مظفر گڑھ میں بہت سے ایسے تاریخی اور سیاحتی مقامات ہیں جو منفرد حیثیت کے حامل ہیں ۔ ہر سال ہزاروں سیاح ان مقامات کی سیر کو آتے ہیں۔
ہیڈ پنجند ۔ علی پور:
اس مقام پر خطے کے پانچ دریاؤں سج، بیاس ، چناب ، راوی اور جہلم کا پانی اکٹھا ہوتا ہے، یہ مقام پانچ دریاؤں کا سنگم ہے اس مقام پر ایک ہیڈ ورکس بنایا گیا ہے۔ انگریز دور میں تعمیر ہونے والا یہ ہیڈ ورکس مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور میں واقع ہے۔
علی پور شہر سے چند کلومیٹر پر واقع یہ ہیڈ ورکس اور یہ مقام پچھلی ایک صدی سے بہاولپور ، رحیم یار خان اور مظفر گڑھ سمیت پورے وسیب کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ پنجند کی سیر کو ادب میں بھی جگہ ملی ہے، اس ہیڈ ورکس کے ساتھ ایک چھوٹا سا میوزیم بھی قائم ہے جس میں ہیڈ ورکس کی تعمیر کے دوران استعمال ہونے والے نایاب آلات اور ہیڈ ور کس کا ماڈل موجود ہے ، اس مقام کی سیر کے بغیر مظفر گڑھ کا دورہ ادھورا ہے ، ہر سال ہزاروں سیاح اس مقام کو دیکھنے آتے ہیں، یہاں سے چند کلو میٹر آگے ضلع بہاولپور میں اوچ کا تاریخی شہر آباد ہے۔ موجودہ دور میں پنجند سے مراد ہیڈ پنجند کو لیا جاتا ہے۔ یہ پنجند ہیڈ ورکس انگریزی دور حکومت 1931ء میں ایک کروڑ پیانوے لاکھ نو اس ہزار روپے کی لاگت سے مکمل ہوا یہاں سے رحیم یار خان اور بہاولپور کو سیراب کرنے کے لیے نہریں عباسیہ اور عباسیہ لنک اور پنجند کینال نکالی گئی ہیں ۔ 2017ء سے 2020ء پنجند ہیڈ ورکس کی بحالی اور تعمیر و مرمت کا کام جاری رہا جواب تحمیل کے قریب ہے۔
تاریخی قصبہ ۔ ۔ سیت پور:
مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور میں واقع سیت پور کا تاریخی قصبہ اپنی قدامت کے حوالے سے مشہور ہے یہ شہر اوچ شریف کا ہم عصر تصور کیا جاتا ہے، کہتے ہیں کہ تین سو قبل مسیح کے ایک راجہ کی دو بہنیں تھیں جن کا نام سیتا اور اوچا تھا، اوچا کے نام پر اوچ شریف اور سیتا کے نام پر سیت پور آباد ہوا [158]۔ اس کا شمار قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے اس کا ذکر ہندؤوں کی مذہبی کتاب رگ وید میں ملتا ہے جس کے مطابق آریائی قوم جن دیوتاؤں کو پوجتے تھے انہی کے ناموں سے شہروں کو منسوب کر دیا جاتا تھا۔ ایک دوسری روایت کے مطابق بارہویں صدی میں یہاں کے ہندو راجا جے پال کی بینی سیتا رانی کے نام پر سیت پور کا نام رکھا گیا۔ جے پال کی دوسری بینی او چارانی کے نام پر اوج شریف کا نام رکھا گیا۔ ملتان کے گورنر بہلول لودھی کے چچا اسلام خان نے ان علاقوں پر حکمرانی کی اس نے سیت پور کو اپنا صدر مقام بنایا ڈیرہ غازی خان مظفر گڑھ، کوہ سلیمان کا مشرقی حصہ اور سندھ کے شمالی علاقے اس زیر تامین تھے۔ 1816ء میں رنجیت سنگھ نے اس ریاست کے علاقوں پر قبضہ کر کے اس کے عروج کو تاراج کیا بلکہ اس کی ساری شان و شوکت چھین کر اسے معمولی قصبہ بنادیا۔ نہر خاندان نے پندرھویں اور سولہویں صدی تک اس علاقے پر حکومت کی اور یہ شہر نہر خاندان کا دار الحکومت تھا، یہاں سلطان طاہر خان نہر کا مقبرہ اور بادشاہی مسجد ملتانی فن تعمیر کا نمونہ ہیں اور قابل دید عمارات ہیں ، اس چھوٹے سے قصبے میں ہزاروں سال پرانی تاریخ کے آثار ملتے ہیں ، تاریخ کے طالب علموں ، ماہرین آثار قدیمہ اور سیاحوں کیلئے قصبہ بڑی اہمیت کا حامل اور قابل دید ہے۔ یہاں کی قابل دید عمارات میں مقبرہ طاہر خان نا ہرہ ، شاہی مسجد اور ماڑی ٹیک چند شامل ہیں ۔ قدیم شہر دو حصوں خانانی اور شیخانی محلوں پر مشتمل ہے۔
تونسہ بیراج ۔۔۔کوٹ اڈو:
تونسہ بیراج بھی ایک قابل دید مقام ہے دریائے سندھ پر واقع اس بیراج کا سنگ بنیاد 1952ء میں رکھا گیا ۔ جبکہ 1958ء میں اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے اس کا افتتاح کیا ۔ یہ 14 کروڑ روپے کی لاگت سے عمل ہوا ۔ یہ بیراج 12 لاکھ کیوسک پانی گزرنے کی گنجائش کا حامل ہے ۔ یہ کوٹ ادو شہر سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے یہ مظفر گڑھ کے حدود میں واقع ہے مگر تونسہ کے تاریخی قصبے کے نزدیک ہونے کی وجہ سے اس کا نام تو نسہ بیراج رکھا گیا ، یہاں سے چار بڑی نہریں نکالی گئی ہیں، تونسہ پنجند لنک کینال ، مظفر گڑھ کینال ڈی جی خان کینال اور کچھی کینال یہ فن تعمیر کا شاہکار ہے، یہاں دریائے سندھ کی مچھلی بھی دستیاب ہے اور یہاں سیاح دریائے سندھ میں پائی جانے والی نایاب اندھی ڈولفن کے نظاروں سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں ۔
سندھ چناب کا سنگم ۔۔سر کی پتین:
سیت پور کے تاریخی قصبے سے بطرف جنوب سر کی چین کے مقام پر ضلع مظفر گڑھ ضلع راجن پور اور ضلع رحیم یار خان کے سنگم پر دریائے سندھ اور دریائے پنجند کا ملاپ ہوتا ہے یہ جگہ بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے اور دیکھنے کےقابل ہے۔
وکٹوریہ میموریل ہال۔۔ یاد گار کلب مظفر گڑھ:
ضلع مظفر گڑھ میں انگریز دور کی چند عمارتوں میں ایک اہم اور خوبصورت عمارت وکٹوریہ میموریل ہال ہے جو کہ یاد گار چوک میں واقع ہے آج کل یہ عمارت یاد گار کلب کے نام سے زیادہ مشہور ہے۔ انگریزوں نے 1849ء میں خطہ ملتان اور مظفر گڑھ پر قبضہ کر لیا۔ انگریزی سرکار کے قبضے میں جانے کے بعد زرعی طور پر مالا مال اس ضلع کی ترقی کے لئے کوئی انقلابی قدم نہیں اٹھایا گیا اگر چہ یہاں چند سکول قائم ہوئے۔ کچھ سرکاری دفاتر بنے ۔ ریل کی پڑی بچھائی گئی ۔ کچھ سڑکیں بنیں. افسران کے گھر بنے اور شہر کے بیچ میں ایک کمپنی باغ (موجودہ ٹینکی باغ ) قائم کیا گیا۔ انگریز دور میں بننے والی عمارات میں ریلوے سٹیشن ، پرانی عدالت ، ڈپٹی کمشنر آفس اور وکٹوریہ میموریل ہال ایسی عمارات ہیں جواب بھی موجود ہیں۔ یہ عمارت وکٹوریہ میموریل ہال ملکہ برطانیہ
ملکہ وکٹوریہ کے نام سے منسوب کی گئی تھی :
یہ عمارت انگریز دور میں بننے والی عمارات میں سب سے خوبصورت عمارت ہے ۔ یہ عمارت انگریزی اور مشرقی فن تعمیر کی حامل ہے۔ اس عمارت کی تعمیر 1909ء میں شروع ہوئی ۔ یہ سول کلب کی عمارت کے طور پر بنائی گئی ۔ جس کی تعمیر میں یہاں کی سول سوسائٹی اور سرکاری افسران نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس عمارت کی تعمیر کے لیے امداد دینے والوں میں یہاں کے اعلی افسران اور مقامی ہندو اور مسلمان زمیندار شامل تھے۔ امداد دینے والوں کے نام اور نام کے آگے چندے کی رقم دو سنگ مرمر کی تختیوں پر لکھ کر اس وقت عمارت کے مرکزی ہال میں لگائی گئی ہے۔ یہ تختیاں اب بھی موجود ہیں۔ ان تختیوں پر ان افراد کے نام اور انکی طرف سے دی گئی رقم درج ہے۔ رقم دینے والے
افراد کے نام درج ذیل ہیں ۔ کیپٹن فاکس سر نگویز صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر 500 روپے ، رائے بہادر پنڈت ہری کشن کول صاحب بہادر مستم بند و بست 200، شیخ اصغر علی صاحب قائمقام ڈپٹی کمشنر 100 مسٹر کلارک صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر 100، مسٹر ڈینٹ صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر 100 ، رائے بہادر ڈاکٹر گوکل چند صاحب سول سرجن 100 ، خان بہادر سیف اللہ خان صاحب آنریری مجسٹریٹ 400 ، جناب شیخ احمد صاحب آنریری مجسٹریٹ 350 ، جناب مولوی محمد غوث صاحب آنریری مجسٹریٹ 100، مخدوم محمد حسین صاحب آنریری مجسٹریٹ 200 ، میاں غوث بخش صاحب قریشی آنریری مجسٹریٹ 100 ، قاضی غلام مرتضی صاحب آنریری مجسٹریٹ 100 ، ملک فتح محمد صاحب گھر آنریری مجسٹریٹ 300، شیخ محمد یار صاحب سب رجسٹرار 100 مولوی امام الدین صاحب پلیڈر 100 ، مخدوم غلام قاسم صاحب 300 ، بھگت را دھو رام صاحب ،200، سید خان صاحب 110 ، سردار غلام رسول خان صاحب 105 ،میاں کوڑا صاحب قریشی 100 ، دیوان سلطان احمد صاحب 100 ، ملک یار محمد صاحب 250 ، مہر غلام محمد صاحب ذیلدار 100 ، چوہدری ایشر داس 100 مسٹر بار کلی صاحب سپریٹنڈنٹ پولیس 50 ، لالہ اچھر ورام صاحب ڈسٹرکٹ جج 50 سردار حبیب اللہ خان صاحب اسٹنٹ کمش ، لالہ پیارے لعل صاحب وکیل 8 لالہ گیلا رام صاحب وکیل 75 ، پنڈت راجندر پرشاد صاحب وکیل 60 ، لالہ رادھا کشن صاحب ایکسٹرا اسٹنٹ کمشنر 50 ،لالہ گوہر پال صاحب وکیل 50 لالہ نونہال کشن صاحب وکیل 60 ، حافظ محمد خان صاحب ذیلدار محمود کوٹ 70 ، چوہدری پر مانند گلائی آنریری مجسٹریٹ 50 ، چوہدری سنتو رام 50، پیرموسن شاہ 50 گل محمد ذیلدار 50 ، ملک فتح محمد صاحب سنانواں سب رجسٹرار 50 ، چوہدری نگراج 50 اور چوہدری گوندہ رام 50 شامل ہیں ۔ یہ عمارت چند کمروں، برآمدہ مرکزی بال اور چند میناروں پر مشتمل ہے۔ مرکزی ہال کے اوپر واقع سب ، سے اونیے مینار پر گھنٹہ بھی لگایا گیا تھا جو نوے کی دہائی تک فعال رہا مگر اب بند ہو چکا ہے۔ یہ ہر گھنٹے بعد بجتا تھا اور اسکی آواز پورے شہر میں سنائی دیتی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد یہ عمارت مختلف مقاصد کے لئے استعمال کی جاتی رہی۔ کچھ عرصہ یہ عمارت ڈسٹرکٹ بورڈ کے دفتر کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ گرلز کالج کی ابتدا بھی اسی عمارت میں ہوئی مگر کالج کی اپنی عمارت بننے کے بعد کالج یہاں سے شفٹ ہو گیا یہاں سوئمنگ پول بھی تھا اس عمارت کے ساتھنکھجوروں کا ایک باغ تھا جواب ختم ہو گیا ہے۔
60 کی دہائی میں اسے دوبارہ سول کلب کے طور پر استعمال کیا جانے لگا. اب یہاں افسران اور سول سوسائٹی کے لئے ایک کلب ہے جہاں لان ٹینس، بیڈمنٹن سکوائش اور جاگنگ کی سہولت ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ عمارت خستہ حالی کا شکار ہوگئی تھی ۔ ماضی کے حکام کی غفلت کی وجہ سے اس کا اصل رنگ تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اصلی سرخ رنگ کی بجائے اس عمارت کا رنگ سفید کر دیا گیا تھا۔ 2019ء میں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر احتشام انور نے اس عمارت کی اصلی حالت میں بحالی اور باہر موجود لان کی تعمیر مرمت کا کام کروایا۔ یہاں جو گنگ ٹریک بنایا گیا اور سب سے بڑھ کر پایے عمارت پر لائٹس لگائی گئیں اور اب رات کو جب ان لائٹس کو چلایا جاتا ہے تو عمارت بہت ہی خوبصورت نظارہ پیش کرتی ہے۔ کراچی سے ماہرین بلوا کے گھڑیال کی مرمت کی گئی اب وہ با قاعدہ وقت بتاتا ہے اور اس یادگار عمارت میں ماضی میں بہت اعلیٰ پائے کی ادبی ثقافتی اور علمی تقاریب ہوتی رہی ہیں [163] کرونا وائرس کی وباء سے قبل آخری ادبی پروگرام 14 مارچ 2020 ء کوندیم رحمن ملک چیئر مین یادگار لٹریری کلب کے پلیٹ فارم سے معروف بیوروکریٹ اور کئی کتابوں کے مصنف اور کالم نگار رانا محبوب اختر کے ساتھ ایک شام کے طور پر منعقد ہوا۔ جس کی صدارت روزنامہ پاکستان ملتان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر شوکت اشفاق نے کی اور مہمانان گرامی میں ڈاکٹر ظفر قادر، میاں محمد ایوب قریشی ، پروفیسر رانا مسعود اختر ، اے بی مجاهد ، نعیم کا شف قریشی اور افضل چوہان شامل تھے۔
مظفر گڑھ کا نیا لینڈ مارک مسجد سکینتہ الصغر کی ۔۔۔ جتوئی:
جتوئی کا ایک گاؤں کوٹلہ رحم علی شاہ بڑی تاریخی اہمیت کا حامل ہے، یہ قصبہ یہاں آباد سادات خاندان کے بزرگ سید رحم علی شاہ کے نام سے موسوم ہے۔ اڑھائی سو سال سے سادات خاندان یہاں آباد ہے سید رحم علی شاہ نے یہاں ایک مسجد تعمیر کروائی تھی۔ آج اس پرانی مسجد کی جگہ ایک نئی ، خوب صورت اور جدید ترک طرز تعمیر کا شاہکار ایک مسجد تعمیر کی گئی ہے جس کا نام مسجد سکینتہ الصغر کی ہے۔ ترک فن تعمیر کا نمونہ یہ مسجد جتوئی شہر کے نزدیک واقع ہے، مسجد سکینتہ الصغر ٹی اب مظفر گڑھ کا لینڈ مارک بن چکی ہے ، یہ مسجد امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی ڈاکٹر محمد اسماعیل شاہ بخاری نے تعمیر کروائی ہے ۔ ڈاکٹر اسماعیل شاہ بخاری پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اور امریکہ میں مقیم ہیں۔ آپ سابق ممبر قومی اسمبلی سید جمیل احمد حسین بخاری کے بھائی ممبر قومی اسمبلی سید باسط سلطان بخاری و سابق صوبائی وزیر سید ہارون سلطان بخاری کے ماموں ہیں ۔ مسجد کا نام ڈاکٹر سید اسماعیل شاہ بخاری کی والدہ اور پھوپھی کے نام پر سکینتہ الصغری رکھا گیا ہے۔
جنوری 2006ء میں اس مسجد کی تعمیر کا آغاز ہوا اور تمبر 2007ء کو مکمل ہوئی ۔ 31 جنوری 2006ء کو انکی والدہ اور پھوپھی نے اس مسجد کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا۔ مسجد کی تعمیر ڈاکٹر اسماعیل شاہ بخاری کے بھائی سید تشکیل شاہ بخاری کی زیر نگرانی ڈیڑھ سال کی مدت میں مکمل ہوئی ۔ مسجد کی بنیادوں کو 40 ٹن کنکریٹ اور سریے کی مدد سے جدید سائنسی طرز پر زلزلہ پروف بنایا گیا ہے۔ اس کی تعمیر میں ترکی کے فن تعمیر کے ماہرین اور صف اول کے کیلیگرافی کے ماہرین نے حصہ لیا ۔ لیبر کا سارا کام مقامی محنت کشوں نے سر انجام دیا ہے۔
یہ مجھ 32 گنبدوں اور دو بڑے میناروں پر مشتمل ہے۔ ان میناروں کی بلندی 55 میٹر ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ان بلند و بالا میناروں کو بغیر کسی مشینری کے محنت کشوں کے ہاتھوں سے مل کیا گیا مسجد کا کل رقبہ 52 کینال ہے۔ اس مسجد کے ہال اور محسن میں پانچ ہزار افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔ ہر سال ملک بھر سے ہزاروں سیاح اس مسجد کو دیکھنے کیلئے مظفر گڑھ آتے ہیں، مسجد سکینتہ الصغر کی ترک کاریگروں کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 27 ستمبر 2007ء کو سجد کا افتتاح بھی ان کی والدہ اور پھوپھی کے ہاتھوں کروایا گیا تھا۔ مسجد کے اندرونی دروازے ساگوان کی خوشبو دار اور منقش لکڑی سے بنے ہوئے ہیں۔ مسجد کے صحن میں پودوں سے لکھے گئے اللہ اور حمد کے ناموں نے مسجد کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دئے ہیں۔ اس مسجد کے ساتھ ایک جدید مدرسہ بھی قائم ہے جو کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے منسلک ہے ڈاکٹر سید اسماعیل شاہ بخاری کی پاکستان میں واقع تمام جائیداد مسجد اور مدرسے کے لیے وقف ہے۔ مدرسہ جامعہ مدینہ سلطان العلوم میں درسی نظام اور عصری تعلیم انگلش میڈیم اور ایم اے تک کی کلاسز پڑھائی جاتی ہے اور اس میں جدید کمپیوٹر سیکشن اور پریکٹیکل لیب بھی موجود ہے جہاں طلبا کو جدید تعلیم دی جاتی ہے اور یہاں کے طلباء نے ڈیرہ خان بورڈ اور اسلام آباد میں محفل حسن قرات میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کی ہے۔ مسجد اور مدرسہ میں جاری دینی تعلیمات سے یہ علاقہ ہی نہیں بلکہ دور دراز کے رہائشی غریب افراد بھی استفادہ حاصل کر رہے ہیں جہاں اس مسجد کی خوبصورتی بے مثال ہے وہی اس مدرسے کے زیر تعلیم طلبا نے بھی تعلیمی میدان میں اپنی قابلیت کو منوایا ہے۔ اس مسجد کو دیکھ کر ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔ مسجد سکنہ الصغری کی خوبصورتی خلافت عثمانیہ کے فن تعمیر کی عکاس ہے۔
صحرائے تھل:
صحرائے تھل جو سرائیکی وسیب کے اضلاع میانوالی، بھکر، خوشاب، لیہ ، جھنگ اور مظفر گڑھ کے حصوں پر مشتمل ہے۔ مظفر گڑھ میں تھل کا اختتام ہو جاتا ہے۔ مظفر گڑھ کے وسیع رقبے پر تھل کا ریگستان ہے۔ ریگستان کے دلکش نشیب و فراز ، صحرائی حیاتیات اور نباتات دلچسپی رکھنے والوں کیلئے دعوت نظارہ دیتے ہیں، یہ صحرائے تھل مظفر گڑھ شہر کے مغرب میں واقع ہے، چوک سرور شہید سے شاہ جمال تک پھیلا ہوا ہے صحرائے تھل کے اہم قصبوں میں رنگپور، مراد آباد، خانپو بگاشیر بصیرہ اور مونڈ کا شامل ہیں مونڈ کا کے نزدیک صحرائے تھل میں شاہ گڑھ کے قلعہ کےآٹا راب بھی باقی ہیں ۔
تھل ڈیزرٹ جیپ ریلی:
2016 ء سے مظفر گڑھ اور لیہ کے صحرائے تھل کے ریلے رستوں پر جیپ ریلی کے مقابلوں کا انعقاد کیا جارہا ہے، نومبر 2016ء میں ہونے والی پہلی تھل ڈیزرٹ جیپ ریلی صاحبزادہ محمد علی سلطان نے جیت لی تھی ، اس ریلی میں نادر مگسی ، رونی پٹیل سمیت ملک کے نامور جیپ ڈرائیوروں نے شرکت کی تھی ، اس جیپ ریلی کو ہزاروں سیاح دیکھتے اور لطف اٹھاتے ہیں۔ ہر سال نومبر میں منعقد ہو نیوالی تھل جیپ ریلی اس علاقے میں سپورٹس کا بڑا ایونٹ بن چکی ہے اور اس خطے کی پہچان بنتی جارہی ہے۔ مظفر گڑھ میں ہیڈ محمد والا کے قریب تھل کے ٹیلوں میں یہ میلہ تھا ہے۔ ملک بھر سے ہزاروں شائقین اس ایونٹ کو دیکھنے آتے ہیں۔
ان مقامات کے علاوہ دریائے سندھ کا کنارہ سردیوں میں آبی پرندوں کی آماجگاہ ہوتا ہے اور مرغابی کے شکاری یہاں ڈیرے ڈالتے ہیں۔ سردیوں میں سرسوں کے خوبصورت کھیت ، گرمیوں میں آموں کے لدے باغات اور کھجوریں، چناب پارک، خان گڑھ کا تاریخی قصبہ ، ہیر کا سرالی گاؤں رنگ پور ضلع کے طول و عرض میں منعقد ہونے والے میلے ٹھیلے، دیسی کشتی اور کبڈی کے مقابلے بیساکھی اور روائتی کھیلوں کے مقابلے ضلع کے حسن کو چار چاند لگا دیتے ہیں اور سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتے ہیں ۔
نوٹ: مضمون محمد شہزاد کی کتاب "سر زمین مظفرگڑھ” سے لیا گیاہے