زمانہ قدیم میں پورا ہندوستان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم تھا۔ تا ہم مغلیہ دور میں سلطنت کی باضابطہ طور پر بنیاد عمل میں آئی اور ایک مرکزی اتھارٹی قائم ہوئی۔ اس زمانے میں انتظامی ڈویژن بنائے گئے اور کچھ تنخواہ دار ملازم بھی رکھے گئے ۔ شیر شاہ سوری کے زمانے میں انتظامی اصلاحات اور نظم و نسق کے ضمن میں کچھ اقدامات ہوئے تاہم اکبر بادشاہ کے زمانے میں زمینوں کا بندوبست اور پٹواری کا عہدہ وجود میں آیا۔ بعد میں ان میں تبدیلی اور اصلاح کا عمل جاری رہا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1757ء میں سراج الدولہ کو شکست دے کر اقتدار پر قبضے کا آغاز کیا اور لارڈ Hosting نے انتظامی اصلاحات شروع کیں اور کلکٹر کا عہدہ قائم کیا جس کے تحت ضلع کو ایک انتظامی یونٹ کی حیثیت دی گئی اور اس کی تاریخ تقریبا چار سو سال پرانی ہے اس وقت ضلعوں کی آبادی اور رقبہ ایک دوسرے سے مختلف ہے کچھ بڑے ضلع ہیں اور کچھ چھوٹے۔ بہاولپور 24830 کلومیٹر جب کہ لاہور کا 1772 کلومیٹر ایریا ہے۔ انگریزوں نے اپنے نو آبادیاتی نظام کو مستحکم کرنے اور اپنی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے مختلف ادارے اور محلے قائم کیے اور ڈپٹی کمشنر کا عہدہ بھی اسی دور میں قائم ہوا۔ ابتداء میں ضلعی سطح پر کلکٹر کا عہدہ قائم کیا گیا جس کے پاس ریونیو کے معاملات و اختیارات تھے۔ انتظامی عمل میں تبدیلی جاری رہی۔ ریگولیشن ایکٹ 1784ء کے تحت ڈسٹرکٹ حج کا عہدہ قائم کیا گیا۔ عدالتی اور مجسٹریسی کام جوں کو دیا گیا۔ 1818ء میں مجسٹریٹ اور پولیس کا کنٹرول حج کے پاس ہوتا تھا۔ 1829ء میں لارڈ ولیم پنک نے کمشنر کا عہدہ قائم کیا۔ 1831ء میں سیشن کا کام کمشنروں کے بجائے ڈسٹرکٹ حج کو دیا گیا جب کہ مجسٹریسی کا کام کلکٹر کو دیا گیا۔ 1859ء میں سیکرٹری آف سٹیٹ نے ڈسٹرکٹ کلکٹر کو اختیارات دینے کی تجویز کی منظوری دی جب کہ اس سے پہلے 1831ء میں کلکٹر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا عہدہ معرض وجود میں آیا اور اس کا کام لاء اینڈ آرڈر اور ریونیو کی وصولی تھا۔ 1857ء کے بعد جب مکمل طور پر برطانوی راج قائم ہوا تو اس عہدہ کو مزید اختیارات دیئے گئے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس میں قدرتی آفات کا کنٹرول، تعلیم، صحت اور مواصلات کی بہتری اور دیگر ترقیاتی کام بھی شامل تھے۔ اس طرح ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے اختیارات میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ 1874ء میں جارج کیمبل کی سفارشات کی روشنی میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے تمام حکومتی محکمہ جات کے سربراہ کے اختیارات واپس لے کر اسے صرف جنرل کنٹرولنگ اتھارٹی بنایا گیا۔ سال 1919 ء تک یہ عہدہ بہت با اختیار رہا۔ کلکٹر، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ترقیاتی اور تمام محکمہ جات کی سربراہی وغیرہ جیسے معاملات کا انچارج ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھا۔ سال 1919ء اور 1935ء کے بعد میونسپل ادارے وجود میں آئے اور کچھ اختیارات بالخصوص ترقیاتی کام وغیرہ سیاسی اصلاحات کے عمل کے تحت میونسپل اداروں کو منتقل ہوئے تاہم لینڈ ریونیو ایکٹ کے تحت حاصل اختیارات لا محدود تھے جس میں مالیہ کی وصولی کے علاوہ انتقالات زمینوں کی بیدخلی تقاوی قرضہ جات کا اجراء و دیگر محکمہ جات پر کنٹرول زرعی ریکارڈ کی تعمیل و حفاظت سرکاری زمین کی حفاظت و نگرانی زمیندار اور مزارع کے درمیان بطور منصف وغیرہ جیسے اہم اختیارات شامل ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد بھی ڈپٹی کمشنر روڈ ٹرکٹ مجسٹریٹ کا عہدہ قائم رہا اور پورے اختیارات کے ساتھ ڈپٹی کمشنر صاحبان کو ضلع میں ایک اہم مقام حاصل تھا۔ ان کے پاس کم و بیش ایک سو سے زیادہ اختیارات تھے۔ اس زمانے میں ان سے ملاقات کرنا خوش بختی سمجھا جاتا لوگ ہر کام میں ان کے پاس جاتے تھے۔ تاہم ڈپٹی کمشنر کے اس با اختیار عہدہ اور لامحدود اختیارات پر سیاسی لوگ تنقید کرتے رہے اور 1947ء سے 1978 ء تک انتظامی اصلاحات کے بارے میں جور پورٹیں تیار ہو ئیں وہ تقریباً 44 دستاویزات بنتی ہیں جن کے 7441 صفحات علاوہ ضمیمہ جات ہیں۔ پہلی دفعہ 1979ء میں لوکل گورنمنٹ کے قانون کے تحت ترقیاتی کام کو نسلوں کے سپرد کیے گئے اس سے ڈپٹی کمشنر کے اختیارات میں تبدیلی ضرور آئی لیکن عام آدمی کے نزدیک پھر بھی ڈپٹی کمشنر کو حکومت کا نمائندہ اور طاقتور شخصیت سمجھا جاتا تھا، سمجھدار لوگ اس سے تعلقات خراب نہیں کرتے تھے۔ ضلعی سطح پر ڈپٹی کمشنر اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر تعینات تھے جب کہ تحصیل کی سطح پر 1971ء کے بعد اسٹنٹ کمشنر تعینات کیے گئے جنہیں ریونیو اور مجسٹریسی کے اختیارات حاصل تھے ان کے ماتحت مجسٹریٹ صاحبان تھے اور ریونیو عملہ تھا۔
مظفر گڑھ میں پہلا ڈ پٹی کمشنر جے ایس نائی تھا جو کیم جنوری 1861ء سے 31 جولائی 1862ء تک تعینات رہا جب کہ پہلا مسلمان ڈپٹی کمشنر مولوی انعام علی تھا جو 15 اکتوبر 1897ء سے 13 اکتوبر 1899 ء تک تعینات رہا۔ وہ ضلع کا 27 واں ڈپٹی کمشنر تھا۔ دوسرا مسلمان ڈپٹی کمشنر شیخ اصغر علی تھا جو 1901 ء سے 1905 ء تک اس عہدہ پر فائض رہا۔ پہلا ہندو ڈپٹی کمشنر رائے بہادر پنڈت ہرکشن کا ؤل تھا جو 2 مارچ 1909ء سے 6 اپریل 1910ء تک تعینات رہا۔ 1947 ء تک کل 10 مسلمان ڈپٹی کمشنر تعینات رہے۔ متحدہ ہندوستان کا آخری اور آزاد پاکستان کا پہلا ڈپٹی کمشنر راجہ سلطان لعل حسن تھا جو 15-11-1944 سے 1947-8-18 تک اس عہدہ پر فائض رہا۔ اس کے علاوہ چار سکھ ڈپٹی کمشنر بھی مختلف اوقات میں تعینات رہے۔ مسٹرایم آر کیانی بھی ضلع میں 12 مارچ 1931 ء سے 8 دسمبر 1931 ء تک ڈپٹی کمشنر تعینات رہے جو بعد میں عدالت عالیہ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے تھے ۔ وہ ضلع کے مسلمان ڈپٹی کمشنر تھے۔ مسٹری ایچ ڈی ضلع کا 54 واں ڈپٹی کمشنر تھا جو 8 نومبر 1947 ء سے کیم جنوری 1948 ء تک اس عہدہ پر تعینات رہا۔ قیام پاکستان کے وقت ضلع کا سر براہ ڈپٹی کمشنر تھا دوسب ڈویژنل آفیسر ریونیو اسٹنٹ افسر خزانہ جنل اسٹنٹ ریونیو ایکسٹرا اسٹنٹ کمشنر یا مجسٹریٹ صاحبان بھی تعینات تھے ۔ ایس ڈی ایم کے پاس دفعہ 30 کے بھی اختیارات تھے۔ افسر خزانہ کے پاس چونکہ کام زیادہ نہ ہوتا تھا اس لیے اسے بھی مجسٹریٹ کے اختیارات حاصل تھے۔ ریونیو اسٹنٹ کو کریمنل ورک بھی دیا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں آنریری مجسٹریٹ بھی مقرر کیے جاتے تھے۔ تحصیل کی سطح پرتحصیل دار اور ریونیو آفیسر تعینات تھے۔ ضلع میں پنچایت کسٹم بھی تھا اور 52 ذیلدار بھی تھے تاہم 1971ء کے بعد انتظامی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ایس ڈی ایم اور اے ڈی ایم کی اسامیوں کی جگہ اسٹنٹ کمشنر اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل مقرر کیے گئے۔ یکم اگست 2001 ء تک ضلع میں 101 ڈپٹی کمشنر تعینات رہے تا ہم 14 اگست 2001ء کو نئے بلدیاتی نظام کے تحت ڈپٹی کمشنر کے بجائے ڈسٹرکٹ کو آرڈی نیشن آفیسر تعینات کیے گئے اور سجاد سلیم ہوتیانہ ضلع کے پہلے ڈسٹرکٹ کو آرڈی نیشن آفیسر مقرر ہوئے۔ اس نظام کے تحت ضلعی نظم و نسق کا جو ڈھانچہ ترتیب دیا گیا اس کے تحت ڈسٹرکٹ کو آرڈی نیشن آفیسر کو ضلعی انتظامیہ کا سر براہ مقرر کیا گیا جب کہ ان کے ماتحت مختلف محکمہ جات قائم کیے گئے جن میں مختلف محکمہ جات کو ضم کیا گیا۔ پنجاب لوکل گورنمنٹ آرڈینینس ہر محکمہ کا سر براہ ای ڈی او یعنی ضلعی انتظامی آفیسر مقرر کیا گیا اور تمام ای ڈی او صاحبان ڈسٹرکٹ کو آرڈی نیشن آفیسر کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ رولز آف بزنس کے مطابق ہر ای ڈی او کو گریڈ ایک سے لے کر دس گریڈ تک کے ملازمین سے متعلق انتظامی اختیارات دیئے گئے ہیں جبکہ اس سے اوپر ڈی سی او کو اختیارات حاصل ہیں ۔ تحصیل کی سطح پر ہر محکمہ کے ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر تعینات ہیں۔ ضلعی رابطہ آفیسر کو قانون کی دفعہ 28 کے تحت جو اختیارات حاصل ہیں نے لوکل گورنمنٹ کے نفاذ کے ساتھ ہی سجاد سلیم ہو یا نہ ضلع کے پہلے ضلعی رابطہ آفیسر مقرر ہوئے اور ضلعی انتظامی آفیسران کی ٹیم میں یہ ارکان شامل ہوئے ۔ مسٹر احمد حسام فنانس اینڈ پلاننگ خیر محمد بدھ کمیونٹی ڈویلپمنٹ’ حبیب الرحمن نظامی زراعت ذوالفقار اعوان تعلیم ڈاکٹر محمد اقبال صحت پروفیسر بیر لطیف لٹریسی و انفارمیشن ٹیکنالوجی، نسیم الاسلام پاشمار یونیو منظور عالم ورکس اینڈ سروسز اگر چہ رولز کے مطابق ڈی سی او کا عرصہ تعیناتی مقرر ہے تاہم مختلف وجوہ کی بناء پر کوئی بھی ڈی سی او مقررہ عرصہ مکمل نہ کر سکا۔ مسٹر سجاد سلیم ہو تیا نہ پندرہ اگست 2001 سے تین اپریل 2002 تک ڈاکٹر محمد اعظم سلیم تین اپریل 2002 سے بارہ جو ن 2003 تک شمشیر علی خان سیال بارہ جون 2003 سے چوبیس فروری 2004 تک محمد انیس قریشی چوبیس فروری 2004 سے بائیس جولائی 2004 تک صرف پانچ ماہ) چو ہدری محمد اظہر بائیس جولائی 2004 سے اٹھارہ مارچ 2006 تک جبکہ مسٹر طارق نجیب نجمی صرف چند ماہ تک تعینات رہے۔ مرزا ابرار احمد صرف سات ماہ تک اس عہدہ پر قائم رہے۔ اس عرصہ میں ای ڈی او صاحبان بھی تبدیل ہوتے رہے۔ بالخصوص ریونیو فنانس اور صحت کے شعبہ میں تبادلے بہت زیادہ ہوئے۔ ضلع کی سطح پر تو تمام محکمہ جات میں آفیسران کی تعیناتی رہی اور بہت کم اسامیاں خالی رہیں تاہم تحصیل کی سطح پر مختلف محکمہ جات میں آفیسران کی اسامیاں خالی رہیں۔ اس عرصہ میں ڈاکٹر اعظم سلیم نے بڑی محنت سے کام کیا اور ان کے دور میں ترقیاتی کاموں کا آغاز ہوا جس میں گورنمنٹ کالج میں اضافی عمارات کی تعمیر کوڑے خان سکول کی تحصیلوں میں برانچوں کا اجراء سنانواں تا سلطان کالونی سڑک کی تعمیر، صحت، تعلیم اور ورکس کے شعبہ میں شروع کیے گئے ترقیاتی منصوبے شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ایمانداری، محنت اور مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ان کے تبادلے کے بعد ضلع کونسل نے متفقہ طور پر انہیں لاہور سے بلوا کر شاندار ضیافت کا اہتمام کیا اور ان کی کارکردگی کو سراہا۔ ڈپٹی کمشنر صاحبان میں مسعود کھدر پوش کا نام بہت مشہور ہے جو اپنے عوامی زنگ اور مخصوص انداز کی وجہ سے بہت مقبول ہوئے ۔ فیاض بشیر وڑائچ ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور بعد میں ڈویژن کے کمشنر بھی رہے انہوں نے نظم ونسق کی بہتری اور ترقیاتی کاموں میں بہت دلچسپی لی۔ انہوں نے ایک بہت بڑا کام کیا جو شاید کسی بھی انتظامی سربراہ کے لیے ممکن نہ تھا۔ انہوں نے ضلع میں بد نام لوگوں کی ایک فہرست کو جاری کیا اور انہیں ٹاؤٹ مشتہر کرنے کے لیے نوٹس جاری کیے۔ لوگ آج بھی ان کا نام احترام سے لیتے ہیں۔ چوہدری محمد اظہر بہت ہی صاحب علم اور انسان دوست ڈی سی او تھے۔ ان کے زمانے میں عام آدمی کیا رسائی ممکن ہوئی اور انہوں نے کبھی کسی انسان کی دل آزاری نہیں کی۔
اگر چہ ماضی میں بھی کچھ افراد کی جانب سے ڈپٹی کمشنر صاحبان سے مخالفت کا سلسلہ جاری رہا تاہم نئے نظام کے بعد ڈی سی او صاحبان سے تعلقات کار کے ضمن میں بہت مشکلات پیدا ہوئیں۔ ماسوائے دو آفیسرز کے علاوہ تمام دیگر آفیسرز سے یونین ناظمین اور سیاسی افراد کو شکایات تھیں جن کا اظہار سر عام ہوتا رہا ہے۔ تا ہم مجموعی طور پر ضلع کے ترقیاتی کاموں میں جو تیزی ان پانچ سالوں میں دیکھنے میں آئی ہے وہ بہت ہی اطمینان بخش ہے چونکہ اختیارات کی تقسیم میں کچھ فرائض تحصیلوں کو منتقل ہوئے ہیں جن میں واٹر سپلائی صفائی سیوریج فائر بریگیڈ ناجائز تجاوزات کا خاتمہ شامل ہیں۔ اس لیے ان امور سے متعلق شکایات عام ہیں، امن و امان کا قیام ملازمین کی بھرتی کا عمل، سہولیات کی فراہمی بالخصوص تعلیم و صحت شکایات کے ازالے اور مالیاتی نظم و نسق میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے اقدامات کا مثبت رد عمل سامنے آیا تا ہم پرائس کنٹرول کے ضمن میں موثر کارروائی نہ ہو سکی۔ اگر چہ 2005ء میں ضلعی حکومت کے بیشتر آفیسران کو جرمانہ بذریعہ ٹکٹ عائد کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اور ملاوٹ ذخیرہ اندوزی منافع خوری وغیرہ جیسے جرائم پر قابو پانے کیلئے ضلعی آفیسران کو اختیارات دیئے گئے ہیں تا ہم ضلع گورنمنٹ کی جانب سے اس بابت کارروائی نہ کرنے سے شکایات میں اضافہ ہوا ہے۔ نئے لوکل گورنمنٹ نظام کے تحت ضلع ناظم ضلع گورنمنٹ کا سر براہ مقرر ہوا۔ جب کہ ضلعی انتظامیہ کا سربراہ ڈسٹرکٹ کو آرڈی نیشن آفیسر ہے۔ پولیس کا محکمہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کی سربراہی میں کام کرتا ہے جب کہ عدلیہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے ماتحت کام کرتی ہے۔ گورنمنٹ کے 28 محکمہ جات ضلعی حکومت کے زیر انتظام ہیں جب کہ کچھ محکمہ جات براه راست صوبائی حکومت کے ماتحت ہیں اور ضلعی گورنمنٹ کو ان محکمہ جات کا انتظامی کنٹرول نہ دیا گیا ہے۔ ان میں محکمہ خوراک محکمہ آبپاشی زکوۃ پبلک ہیلتھ لوکل گورنمنٹ وائلڈ لائف کالج تعلیم، ٹیوٹا وغیرہ شامل ہیں جب کہ وفاقی محکمہ جات واپڈا سوئی گیس، انکم ٹیکس نادر اشناختی کارڈ وغیرہ بھی وفاقی حکومت کے زیر انتظام کام کر رہے ہیں۔ ضلعی نظم و نسق میں ڈی سی او کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اور وہ صوبائی حکومت کا نمائندہ ہونے کے علاوہ ضلعی حکومت کا انتظامی سربراہ بھی ہے تمام مالی امور میں وہ بطور پر نیل اکاؤنٹس آفیسر کے اختیارات کا حامل ہے جب کہ ضلع گورنمنٹ کے تمام ترقیاتی امور کی حتمی منظوری بھی ڈی سی او کی سر براہی میں قائم کردہ ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کمیٹی دیتی ہے۔ بلدیاتی اداروں کو انتظامی اور مالی اختیارات دینے سے بیورو کریسی اور عوامی نمائندوں میں تعلقات کار میں اکثر کشیدگی رہی ہے اور اختیارات میں عدم توازن کی بنا پر الزام تراشی اور محاذ آرائی بھی ہوتی رہی ہے۔ اس عرصے کے دوران ضلعی آفیسران کو بڑے صبر و تحمل سے کام کرنا پڑا ہے اور بہت مشکل مرحلے بھی پیش آئے ہیں جو اس شعر میں اختصار سے بیان کئے جاسکتے ہیں
جہاں بھونچال بنیاد فصیل و در میں رہتے ہیں
ہمارا حوصلہ دیکھ ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں
اس نظام کے تحت مجسٹریسی کا نظام ختم کر دیا گیا ہے۔ لاء اینڈ آرڈر کی ذمہ داری اور دفعہ 144 کے نفاذ کے اختیارات ضلع ناظم کو دیئے گئے ہیں۔ جبکہ چھوٹے مقدمات کی سماعت کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ مقرر کئے گئے ہیں جو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صاحب کے تحت کام کرتے ہیں۔ نئے ضلعی نظام کے بعد آڈیٹر جنرل آپ پاکستان کے پہلے سال 02-2001 کی آڈٹ رپورٹ تیار کی اس میں بتایا گیا کہ پہلے سال ضلعی گورنمنٹ مظفر گڑھ کو 1423.09 ملین روپے کے فنڈ جاری کئے گئے جس میں سے 1130.02 ملین خرچہ ہوا۔ جبکہ 293.07 ملین روپے کی بچت کی گئی۔ جو میں فیصد بنتی ہے مزید برآں 337.58 ملین روپے خوشحال پاکستان پروگرام کے تحت سال 2000 سے 2003 تک کے عرصے میں دیے گئے جس میں سے 299.68 ملین خرچ ہوئے اس رپورٹ میں 43 ملین روپے کی بے قاعدگی پائی گئی ۔ جس میں سے 3.83 ملین قابل وصول تھے جبکہ قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 3.02 ملین خرچ کئے گئے خوشحال پاکستان پروگرام میں 24.61 ملین کی خرابی کی نشان دی کی گئی۔ ضلع کے علاوہ چاروں تحصیلوں میں ٹی ایم اے بھی قائم ہیں جنہیں صوبائی حکومت کی جانب سے ہر سال معقول گرانٹ دیجاتی ہے لیکن ان اداروں کی سروس ڈیلیوری کے بارے میں عام لوگوں کو بہت شکایات ہیں خصوصاً صفائی روشنی واٹر سپلائی اور تجاوزات کے ضمن میں عوامی توقعات پوری نہ ہو سکی ہیں اس کی وجہ ان کے وسائل کی کمی بھی ہے۔ مثال کے طور پر ٹی ایم اے مظفر گڑھ کے اثاثہ میں صفائی کے لیے کل سات ٹرالیاں ساتھ ہتھ ریڑھی ایک ٹریکٹر ٹرالی اور 242 خاکروب ہیں جبکہ خان گڑھ کے لیے 47 خاکروب ہیں۔ کوٹ ادو اور علی پور میں بھی عملہ کی کمی کے ساتھ ساتھ وسائل کا بھی فقدان ہے۔ جہاں تک ناجائز تجاوزات کا تعلق ہے تو وہ پورے ضلع میں چوک سرور شہیڈ کوٹ ادو سنانواں گجرات بصیره کرم داد قریشی، مظفر گڑھ خان گڑھ رو ہلانوالی شہر سلطان علی پور میں اس قدر کثرت سے موجود ہیں کہ لوگوں کا پیدل گزرنا بھی محال ہے۔ ٹی ایم اے کے آفیسران کو سامان ضبط کرنے اور جرمانہ کرنے کے اختیارات ہیں لیکن یہ اہلکاران غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ عوامی نمائندے سیاسی مصلحت کی بنا پر خاموش ہیں۔ نظم و نسق کی خرابی کی اصل وجہ سیاسی مداخلت ہے۔ سیاسی حضرات ۔ چپڑاسی اور کلرک سے لیکر ضلعی آفیسران کی تعیناتی تبادلے اور کام میں مداخلت کرتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے آفس سے ڈائریکٹو ( ہدایت نام ) جاری کرا کر انتظامی معاملات میں بے حد مداخلت کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ مداخلت محکمہ ریونیو میں ہوتی ہے۔ میں یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کی ڈی ہی۔ او صاحبان بڑی حد تک محتاط رہتے ہیں اور میرٹ پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن دیگر اہلکاران سیاسی پشت پناہی کی بنا پر پوری انتظامیہ کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جب بھی کوئی گورنر وزیر اعلیٰ یا اہم شخصیت دورے پر آتی ہے تو پٹواریوں کے ذریعے پیسے اکھٹے کئے جاتے ہیں یا فیکٹری والوں اور دیگر لوگوں سے رقم لی جاتی ہے۔ سال 2001 اور 2008 کے دوران دو دفعہ وزیر اعلیٰ اور تین دفعہ گورنر پنجاب نے ضلع کا دورہ کیا۔ ان تمام دوروں اور جلسوں پر سرکاری طور پر خرچ کیا گیا۔ اور اس مقصد کیلئے فنڈ موجود تھے کسی بھی اہلکار کے ذریعے پیسے اکٹھے نہیں کئے گئے ۔ بلکہ ایسے موقعوں پر کچھ اہلکار مال بنا لیتے ہیں۔ جیسا کہ 2007 وزیر اعلیٰ کے دورہ پر ہوا۔ پرویز الہی صاحب لیبر کالونی اور سکول کے افتتاح کیلئے آئے تو انکا ہیلی کاپٹر فیصل سٹیڈیم میں اترا۔ وہاں سے اتر کر وہ سیدھے سوشل سیکیورٹی ہسپتال گئے وہاں پندرہ منٹ گزارنے کے بعد وہ ورکرز سکول اور سپر کالونی گئے ۔ اس افتتاح کے بعد وہ علی پور جلسہ کے لئے روانہ ہوئے انہوں نے سوشل سیکیورٹی ہسپتال میں چائے پی جس کا ہسپتال کی انتظامیہ نے انتظام کیا تھا۔ جبکہ دیگر مقامات پر انہوں نے پانی تک بھی نہیں پیا۔ لیکن جب 2008 میں سرکاری فنڈ آؤٹ ہوا تو معلوم ہوا کہ فیصل سٹیڈیم اور ورکرز سکول کے اخراجات پر لاکھوں روپے کا خرچہ ظاہر کیا گیا۔ حالانکہ انکا یہ پروگرام صرف ایک گھنٹہ دس منٹ کا تھا۔ یہ سب اخراجات جن پر آؤٹ کے پیرا جات بنے ہیں۔ محکمہ مال کے اہلکاروں کی نگرانی میں ہوئے تھے۔ پبلک میں پایا جانے والا یہ تاثر کہ وی آئی ۔ پی لوگوں کے لئے چندے اکٹھے کئے جاتے ہیں۔ بلکل غلط ہے۔ گورنر پنجاب خالد مقبول صاحب نے تو قالین فرنیچر کا انتظام کرنے کی بھی اجازت نہیں دی تھی ۔ دو دفعہ اپنے مظفر گڑھ کے دورہ کے دوران تو انہوں نے پانی تک نہیں پیا البتہ اجتماعی شادیوں کی تقریب میں میاں عامر نیم کی طرف سے جس ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا اس میں شرکت کی۔ ضلعی نظام میں سب سے زیادہ خرابی 2010 میں پیدا ہوئی جب سیلاب کے بعد لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ صوبائی حکومت نے دوڑی۔ ہی۔ اوز کا تبادلہ کیا جبکہ تیسرے ڈی ۔ ہی۔ او طاہر خورشید کو تعینات کیا جو دو سال تک اپنے عہدے پر کام کرتے رہے ان کے دور میں سب سے زیادہ بدنظمی دیکھنے میں آئی جب وکلا، پیرا میڈیکل سٹاف خی کہ حکومتی پارٹی کے عہدیداران نے بھی شکایات کے انبار لگائے ۔ اور احتجاجی جلوس نکالے۔ یہاں تک کہ متاثرین سیلاب کیلئے آئے ہوئے سامان میں خورد برد کے الزامات لگائے گئے اور معاملہ انٹی کرپشن میں تحقیقات کیلئے گیا۔ اس طرح کسان بھی باردانہ کے حصول کے لئے دھکے کھاتے رہے۔ جبکہ وفاداریاں تبدیل کرنے والے سیاسی لوگ اس عرصہ میں بہت خوش نظر آئے ۔ ضلع انتظامیہ پر بہت ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ انتظامی آفسران کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں بہت دشواریاں بھی آتی ہیں ۔ اور آسانیاں بھی لیکن ایک اچھے منتظم کیلئے نڈر، بہادر وغیرہ جانبدار اور ایماندار ہونا بہت ضروری ہے ۔ تجاوزات کے خاتمے وغیرہ کیلئے کوشش کی جاتی ہے تو مختلف افراد تنظیمیں اور پریشر گروپ سامنے آجاتے ہیں۔ اگر ان کی مقابلہ کیا جائے اور ان کی جانب سے خوشامد ، لالچ ، خوف اور دباؤ کو خاطر میں نہ لایا جائے تو نظم ونسق میں بہتری آتی ہے لیکن اگر ان کے سامنے پسپائی اختیار کی جائے تو پھر خرابی پیدا ہوتی ہے۔ تاہم یہ ضلع کے سربراہ کی انتظامی صلاحیتوں، دانشمندی، دیانتداری اور غیر جانبداری سے مشروط ہے۔ فروری 2010 سے بلدیاتی نظام کے خاتمے کے بعد اب ڈی سی او مکمل طور پر ضلع کے انتظام کو چلا رہے ہیں۔ وہ ضلع کونسل کے ایڈ منسٹریٹر بھی ہیں ۔ حکومت نے نہ تو لوکل گورنمنٹ کے قانون 2001 کو ختم کیا ہے اور نہ ہی الیکشن کرائے ہیں۔ چونکہ ضلع کی قومی اسمبلی کی پانچوں نشستوں پر پیپلز پارٹی کے ایم این اے ہیں اور صوبائی نشستوں پر بھی برسر اقتدار ن لیگ کا کوئی ممبر نہ ہے اس لئے مرکز اور صوبائی اسمبلی کے جو ممبران حکمران جماعت سے وابستہ ہوئے ہیں۔ وہ بھر پور طریقے سے اثر انداز ہورہے ہیں ۔ سٹینو گرافر کمپیوٹر آپریٹر انتظامی عہدوں پر فائز ہیں۔ جو نیئر آفیسروں کو سینئر آفیسروں کا اضافی چارج دیا گیا ہے۔ اسطرح نظم و نسق میں بہتری کے بجائے خرابی پیدا ہو گئی ہے۔ 2008 میں پیشل آڈٹ کے ذریعے ضلع کے مالی معاملات سے متعلق شدید بدنظمی اور بے ضابطگی سامنے آئی۔
اگر چہ نئے لوکل گورنمنٹ کے بعد لوگ آہستہ آہستہ اس نئے نظام سے مانوس ہو رہے تھے اور اپنے روزمرہ معاملات کے معاملے اور مسائل کے حل کے لیے متعلقہ طریقے کار سے شناسائی کا عمل شروع ہو گیا تھا اور آفیسروں کے مشکل نام بھی یاد کرنے لگے تھے ۔ کہ صوبائی حکومت نے اس نظام میں تبدیلی لانی شروع کر دی ڈویژنل سطح پر کمشنر کے عہدے بحال کر دیے گئے جبکہ مارچ 2010 میں ریونیو کے محکمہ کو ضلعی حکومت کے کنٹرول سے نکال کر صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دیا گیا۔ اسی طرح محکمہ لٹریسی اور محکمہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کوختم کر دیا گیا جبکہ ڈسٹرکٹ کوارڈینیشن آفیسر کو کلکٹر کے اختیارات دے دیے گئے اور ای۔ ڈی۔او۔ آر کا عہدہ ختم کر کے ڈسٹرکٹ آفیسر ریونیو کو ایڈیشنل کلکٹر اور ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر ریونیو کو اسٹنٹ کمشنر بنا دیا گیا کہا جاتا ہے کہ حالات کو درست کرنا اور نظام میں بہتری لانا کسی فرد واحد کا کام نہیں ہیں۔ میں اس بات سے ہر گز اتفاق نہیں کرتا میرے خیال میں مخلص اور اہل قیادت تمام مشکلات کو حل کر سکتی ہے۔ یہاں پر مین 2008 میں پنجاب کے چیف سیکٹری جاوید محمود کی مثال دیتا ہوں۔ اگر چہ وہ ایک سخت گیر انسان کے طور پر مشہور تھے تاہم ان کی سخت گیری کی وجہ حاضری سے لے کر ترقیاتی کاموں تک ہر جگہ بہتری دیکھنے میں آئی ضلعی نظم ونسق میں سب سے زیادہ دباؤو تعلیم اور صحت کے شعبوں میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے آتا ہے۔ سال 2003 ضلع میں اساتذہ کی بھرتی شروع ہوئی ہزاروں کی تعداد میں درخواستیں موصول ہوئیں۔ صوبائی محکم تعلیم نے اس وقت ایک بہت اچھا قدم اٹھایا جس کے مطابق انٹرویو کے لیے صرف 05 نمبر رکھے گئے ۔ اس لیے ناظمین اور اراکین اسمبلی کی زبردست خواہش اور دباؤ کے باوجود یہ بھرتیاں صرف میرٹ پر ہوئیں اس لیے کہ انٹرویو کمیٹی کے پاس صرف 5 نمبر تھے ۔ جس سے آنے والے امیدواروں کے ساتھ ہر گز نا انصافی نہیں ہو سکتی تھی۔ صحت کے شعبے میں بھی تبادلہ جات اور بھرتی سے متعلق سیاسی لوگ بہت دباؤ ڈالتے ہیں۔ روہیلا والی کے ایک ڈاکٹر کے تبادلے پر سیاسی گروپوں میں اس قدر تناؤ پیدا ہوا کہ معاملہ وزیر اعلیٰ پنجاب تک جا پہنچا۔ ایک یونین ناظم EDO صحت کے خلاف ایک خاتون سے زیادتی کا پرچہ درج کرایا جو جھوٹا ہونے کی بنا پر بعد میں خارج ہوا۔ ضلع کے تمام لوگوں کو ہمیشہ انتظامیہ سے یہ شکایت رہی ہے کہ وہ عام آدمی کے مقابلے میں بااثر لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس بات کا مشاہدہ گندم کی سرکاری خریداری کے دوران دیکھنے میں آیا ہے۔ ضلع کی دو تحصیلوں مظفر گڑھ اور کوٹ ادو میں محکمہ خوراک کسانوں سے گندم خرید کرتا ہے جبکہ علی پور اور جتوئی میں پاسکو گندم خریدتا ہے۔ سال 2009 میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے گندم کی خریداری مراکز کا معائنہ کیا اور لوگوں کی شکایات پر DCO کو تبدیل کیا۔ جبکہ سال 2011 میں باردانہ کے تقسیم پر اس قدر شکایات سامنے آئیں جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ضلعی حکومت کے علاوہ TMA بھی شہری سہولیات کے فراہمی کے ضمن میں شہریوں کے توقعات کو پورا کرنے میں ناکام رہی۔ یوں تو کوٹ ادو مظفر گڑھ اور جتوئی کی TMA کے بارے میں میڈیا میں مسلسل شکایات آتی رہیں اور معاملات انٹی کرپشن تک جا پہنچے ۔ اور مالی بدعنوانی اور فنڈ کے غلط استعمال پر مقدمات بھی درج ہوئے ۔ تاہم علی پور کی TMA نسبتا بہتر رہی۔ تاہم صحت ،سیوریج اور تجاوزات کے خاتمے کے ضمن میں چاروں تحصیلوں کی کارکردگی غیر تسلی بخش رہی۔ کیونکہ ان کے سربراہ تحصیل ناظم تھے۔ اس لئے وہ لوگوں کی مشکلات کا احساس رکھنے کے باوجود سیاسی مصلحت کے بنا پر کوئی کاروائی کرنے سے گریزاں رہے۔ امن و امان کے حوالے سے اگر چہ ضلع میں صورت حال خوش کن نہیں رہی۔ چوری، ڈکیتی اور قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہوا۔ تاہم مذہبی فرقہ واریات کے اعتبار سے ضلع بہت پر سکون رہا اور 1998 کے بعد اس حوالے سے حالات کنٹرول میں رہتے۔ نئے لوکل گورنمنٹ نظام کے تحت پولیس آرڈر 2002 جاری ہوا اور پولیس کے سربراہ کو ماضی کے مقابلہ میں زیادہ آزادی اور اختیارات کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اسے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی ماتحت کرنے کے بجائے ضلع ناظم سے ایک ہلکا سا تعلق قائم کیا گیا۔ تا ہم امن و امان کی صورت حال مثالی نہ بن سکی۔ 2001 سے تحصیل علی پور اور جتوئی میں بوسن گینگ کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے لوگ بہت خوف زدہ تھے ۔ جہاں لوگوں کو دن دھاڑے اغوا برائے تعاوان کئے اٹھا لیا جاتا ہے اس سلسلے میں علی پور کے ایک پٹواری کا بھی مشہور واقعہ ہوا۔ جس کے اغوا پر انجمن پٹواریاں نے ہڑتال کی اور جسے بعد ازاں تاوان دے کر رہا کروایا گیا۔ اس واقع پر ڈسٹرکٹ کوارڈی نیشن آفیسر اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کے درمیان اختلافات کی سرد جنگ کا آغاز ہوا اور نوبت ایک دوسرے پر تحریری الزامات پر جا پہنچی۔ جو کچھ عرصے بعد DCO کے تبادلے کی وجہ سے بہتر ہوئی۔ تاہم پولیس بوسن گینگ کو ختم کرنے میں وقتی طور پر کامیاب ہوئی ۔ صوبائی محتسب کی جانب سے سال 2007 سے متعلق جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2007 میں پورے صوبہ سے کل 13681 شکایات موصول ہوئیں۔ جن میں سے سب سے زیادہ ضلع لاہور (1632) سے متعلق تھیں۔ جبکہ مظفر گڑھ سے 377 شکایات موصول ہوئیں اور اس طرح صوبہ کے 36 اضلاع میں مظفر گڑھ شکایات کے حوالے سے سولہویں نمبر پر آیا ۔
ڈی ہی۔ اوکو اب بھی بے پناہ اختیارات حاصل ہیں انتظامی ، مالی اور تمام محکمہ جات کے سربراہ کے اختیارات کے علاوہ صوبائی حکومت کا نمائندہ ہے۔ 2001 سے پہلے ڈپٹی کمشنر کے پاس صرف ریونیو اور سول ڈیفنس کے محکمہ جات کے سربراہ کے اختیارات تھے۔ لیکن اب ضلعی حکومت کے تمام محکمہ جات کے گریڈ گیارہ سے اٹھارہ تک کے ملازمین کی تقرری اور تبادلے کے اختیارات انہیں حاصل ہے۔ پرنسپل اکاؤنٹس آفیسر اور ضلعی ترقیاتی کمیٹی کے چیئر میں کی حیثیت سے اربوں روپے کا بجٹ بھی اس کی منظوری سے خرچ ہوتا ہے ڈپٹی کمشنر سے ڈسٹرکٹ کوارڈی نیشن بنتے بنتے نام تو تبدیل ہوا ہے لیکن میرے خیال میں یہ عہدہ پہلے سے بھی سے زیادہ اختیارات کا حامل ہے ۔ وہی دفتر و گھر ہے اور پہلے سے زیادہ مراعات حاصل نہیں ۔ ڈی ہی۔ او ہاؤس جسے کیمپ آفس کہا جاتا ہے ایک عالیشان گھر ہے۔ جہاں مختلف اوقات میں کام کرنے والوں اہلکاروں کی تعداد 27 ہے۔ سول ڈیفنس کی ایک گاڑی ایم ۔ ایچ ۔ بی 30 ہمیشہ ڈپٹی کمشنر صاحبان کے استعمال میں رہی ہے۔ یہ گاڑی سال 2008 میں چوری ہوگئی جس کا آج تک سراغ نہ مل سکا ہے۔
ضلع میں تین قسم کے محکمہ جات کام کر رہے ہیں۔ کچھ محلے ضلع گورنمنٹ کا حصہ ہیں جن میں تعلیم صحت اور ورکس وغیرہ شامل ہیں جنکی تفصیل علیحدہ دی جاچکی ہے۔ سال 2010.11ء میں ضلع گورنمنٹ کے ملازمین کی تعداد 18919 تھی۔ ان ملازمین کی تنخواہوں پر 4543.50 ملین جبکہ متفرق اخراجات پر 790.971 ملین روپے کا بجٹ مختص کیا گیا اسطرح مالی سال کے دوران ان ملازمین پر کل 5243.971 ملین روپے خرچ ہوئے جس میں تنخواہوں کے علاوہ 07, 700 ملین کے متفرق اخراجات شامل تھے۔ ان کے علاوہ صوبائی محکمہ جات کے ملازمین بھی ہیں جن میں خوراک، آبپاشی ، جنگلات، زکوۃ وغیرہ شامل ہیں تیسری قسم وفاقی حکومت کے ملازمین کی ہے۔ جہاں تک ضلع کے وسائل اور اخراجات کا تعلق ہے تو سال 11-2010 کے دوران کل آمدنی کا تخمینہ 6756.151 ملین روپے تھا جبکہ اخراجات کا تخمینہ 5570.591 ملین سی بی کیلئے 648.120۔ سپلمنٹری گرانٹ کیلئے 418.67 ملین اخراجات میں مسلسل اضافے کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ سال 10-2009 میں مختلف محکمہ جات کا کرنٹ اخراجات 3734.515 ملین روپے تھے جو سال 11-2010 میں بڑھ کر 5243.821 رکھے گئے جس میں بعد ازاں سیلمنٹری بجٹ میں مزید اضافہ ہوا۔ ان اعداد شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ غیر ترقیاتی امور پر خرچ بہت زیادہ ہو رہا ہے جبکہ ترقیاتی کاموں کیلئے بجٹ میں ایک قلیل رقم مختص کی جارہی ہے۔ سرکاری ملازمین کے اخراجات جن میں پڑول ، ٹی اے ڈی اے، ٹیلی فون اور متفرق اخراجات ہیں وہ مسلسل بڑھ رہی ہے۔ نظم و نق کے شعبہ میں سب سے زیادہ خرابی مالی معاملات میں ہے۔ ترقیاتی اور فلاحی کاموں کیلئے جو تم مختص کی جاتی ہے اس کے خرچ میں بھی کئی بے ضابطگیاں پائی جاتی ہیں۔ لوگوں کی شکایات تو بے شمار ہیں۔ میڈیا میں بھی مسلسل خبریں آتی رہتی ہیں لیکن اس بارے میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں جن باتوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہ بہت ہی افسوس ناک ہے۔ پنجاب گورنمنٹ نے 2008ء میں بلدیاتی اداروں کا سپیشل آڈٹ کرایا
جس میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں مجموعی طور پر 134 آڈٹ پیرا جات بنائے جس میں سب سے زیادہ مالی بدعنوانی اور بے ضابطگی محکمہ صحت میں تھی اس
رپورٹ میں درج ذیل باتوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
1 حکومت کو 26.624 ملین روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
2 غیر قانونی اخراجات 20.772 ملین روپے کئے گئے۔
3 2.228 ملین روپے وصولی کے باوجود خزانے میں جمع نہ کرائے گئے۔
4 قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 3.484 ملین خرچ کئے گئے۔ 5 ٹینڈر کے بغیر 26.382 ملین روپے کے اخراجات کئے گئے۔
6 اور پے منٹ 878.453 ملین روپے کی گئی۔
7 سرکاری رقم سے 2.554 ملین خرچ کئے گئے۔
8 بغیر ضرورت کے 93.925 روپے ملین کی چیزیں خریدی گئیں۔ ۔ 9 اسی طرح مارکیٹ سے زیادہ ریٹ پر 10449 ملین کی اشیاء خریدی گئیں اور بغیر اختیارات کے 10879 ملین کی چیزیں خریدی گئیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 74.717 ملین روپے وصولی نہ کی گئی جبکہ 1.831 ملین روپے کا حکومت کو مالی نقصان پہنچایا گیا۔ اچھے نظم و نسق کی دعویدار پنجاب حکومت نے اتنی بردی کرپشن، نا اہلی، مالی بے ضابطگی اور پبلک فنڈ کے ضیاع پر کسی بھی متعلقہ حکام کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی ہے۔ ضلعی نظم ونسق میں موجود خرابی کی ذمہ داری صرف سرکاری آفیسران پر عائد نہیں ہوتی بلکہ سیاسی پریشر اور مداخلت بھی اس کی بنیادی وجہ ہے۔ ضلع میں بہت اچھی شہرت کے حامل آفیسران بطور ڈپٹی کمشنر اور ڈی سی او کام کرتے رہے ہیں۔ ان میں ایم آرکیانی ، امتیاز سرور، کامران ، عامر خان ، فیاض بشیر، ڈاکٹر اعظم سلیم، چوہدری محمد اظہر، ڈاکٹر اختر نذیر اور ابرار احمد مرزا کے نام قابل ذکر ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون خیرمحمد بُدھ کی کتاب (تاریخ مظفرگڑھا) سے لیا گیا ہے۔