منکہ مسمی سردار کوڑے خان ولد سردار سید خان صاحب ذات بلوچ لوہارات سکنہ جتوئی تحصیل علی پور ضلع مظفر گڑھ ۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو صاحب اولا د کرے گا تو کلیم جائیداد میری وفات کے بعد میری اولاد میں مساوی بموجب شرع محمدی کے دے گی جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کا در سحابت نہ ہونے اولاد کے کلیم جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میری بعد وفات میری کے بموجب ذیل:
داخل لوکل فنڈ بطور اللہ برائے خرچ رفاع عامہ 3/9
مسماة گو ہر خاتون دختر غلام رسول خانصاحب قوم جتوئی زوجہ خود 1/9 حصہ
مسماة بخت ڈ دی دختر بلوچ خان صاحب بلوچ جتوئی زوجہ خود 1/9 حصہ مسماۃ صحت خاتون دختر غلام قادر خانصاحب بلوچ جتوئی زوجہ خود جس کا فیملی نام نواں تھا 1/9 حصہ مسلما سکھائی دختر پلیہ خان صاحب بلوچ جتوئی زوجہ خود 1/9 حصہ مسماة زهره دختر نبوخان صاحب سکنہ جتوئی زوجہ خود 1/9 حصہ مسماة سردار خاتون دختر غلام محمد خان صاحب بلوچ زوجه خود 1/9 حصہ مالک و قابض ہوں گے۔ لہذا یہ چند حروف بطور وصیت نامہ کے لکھ کر دیتا ہوں کہ سند ہے
مورخہ 5 اکتوبر 1894ء
العبد
گواه بنده شاه ولد سید حسین شاه گواه شد اقرار غوث بخش بقلم خود سکنہ موضع بنده
شاه بقلم خود
مولوی غلام حیدر ذات اعوان ساکن جتوئی
گواہ شد کریم بخش ولد میاں محمد یوسف قوم خواجہ سکنہ جتوئی بقلم خود فیصلہ کیا گیا
دستخط بحروف از محمد نواز دستخط بحروف اور تحصیلدار علی پور دستخط محمد غوث بخش سب رجسٹرار
سادہ کاغذ پر وصیت نامه بتاریخ 15 اکتوبر 1894 ء بروز جمعہ بوقت 4 بجے دو پہر بغرض رجسٹری بمقام جتوئی بمسکن غلام رسول خان جتوئی منجانب سردار کوڑے خان صاحب بہا در عرضی میرے پیش ہوا
مرحوم 5 اکتوبر 1894ء العبد کوڑا خان پیش کننده بقلم خود دستخط صاحب ( محمد غونٹ بخش)
سب رجسٹرار خان بہادر سردار کوڑا خان ولد سردار سید خان قوم جتوئی لوہارات سکنہ جتوئی شمالی تحصیل علی پور نے تحریر و تکمیل وصیت نامہ ہذات اقبال کیا اور اس کے مضمون کو لفظ بلفظ تصدیق کیا۔ خان بہادر سردار کوڑا خان سے میں سب رجسٹرار بذات خود واقف ہوں ۔ سطر آئینہ وصیت نامہ ہذا الفظ زوجہ قلم زن تھا جس کو مومنی نے صحیح تصدیق کیا تحت لفظ مذکور دستخط موصی کرائے گئے ۔ 15اکتوبر 1894ء دستخط صاحب سب رجسٹرار العبد کوڑا خان بقلم خود
بہی نمبر 2 جلد اول صفحہ 44,43 پر رجسٹری کیا گیا۔ مرحوم 15اکتوبر 1894ء یہ اراضی مزروعہ بنجر قدیم وغیرہ آبپاشی رقبے پر مشتمل تھی۔ سال 1960 ء تک یہ اراضی سردار صاحب کے رشتہ داروں کے پاس مستاجری پر رہی جبکہ سال 62-1961ء سے ضلع کونسل نے اس اراضی کو لاٹ ہائے میں تقسیم کیا اور مختلف لوگوں کو مستاجری پر دینا شروع کر دی۔ کل رقبے کو 247 لاٹ ہائے 400 کنال فی لاٹ میں تقسیم کر دیا گیا۔
مزروعہ اور کم غیر آبا در قبے کو دس سالہ میعاد کے تحت بالعوض زر مستاجری دس گنا مالیہ فی ایکٹر اور بنجر قدیم وغیرہ آبپاشی رقبہ 20 سالہ میعاد کے لیے 5 روپے فی ایکڑ دیا گیا۔ سال 1980 و اراضی کو فکس زرمتا جری کے بجائے نیلام عام کے ذریعے دیا جانے لگا۔ سال 98-1997ء میں ضلع کونسل کا چارج ایڈ منسٹریٹرز کومل گیا جنہوں نے اراضی کی جدید لاٹ بندی اور فی لاٹ کم و بیش 200 کنال یعنی 125 ایکٹر پر مشتمل کر دی گئی۔ اس طرح کل لاٹ ہائے کی تعداد 415 ہوگئی جبکہ مزروعہ رقبہ 52564 کنال اور غیر ممکن بنجر 30187 کنال تھا۔ آخری بارلاٹ ہائے مستاجری از خریف 2002 ء تا ربیع 2006 ء و خريف 2003 ء تاریخ 2007 ء نیلام کی گئیں۔ احکامات جاری کردہ ڈسٹرکٹ کو آرڈی نیشن آفیسران لاٹ ہائے جن کی میعاد ربیع 2002ء میں ختم ہو رہی تھی کو بعد مشتہری بذریعہ اشتہار اخبار چهاپ شده اشتہارات زیر نگرانی نیلام عام کمیٹی (1) ای ڈی او (2) ڈی اور یونیو (3) ناظم یونین کونسل جھگی والا نیلام عام کیا گیا جو کہ سابق سال کی نسبت 66 فیصد زیادہ بولی موصول ہوئی۔ ڈسٹرکٹ راجن پور میں ملکی رقبہ 11-10604 کشتوار موجود ہے جس کی لاٹ بندی نہ ہوئی ہے جس کی وجہ سے اس رقبہ سے نہ ہونے کے برابر وصولی ہورہی ہے۔ عملہ فیلڈ ریونیو کو متعدد بار کہا گیا کہ وہ 200 کنال فی لاٹ کے حساب سے لاٹ بندی کرائیں تا کہ اس رقبہ سے ضلعی حکومت کو زیادہ سے زیادہ آمدنی ہو سکے لیکن ابھی تک کوئی پیش رفت نہ ہوئی ہے ضلع کے دیگر مخیر اور درد دل رکھنے والے لوگوں نے بھی اپنی جائیداد فلاحی اور مذہبی کاموں کے لیے وقف کی۔ پنجاب میں ویسٹ پاکستان پراپرٹی آرڈنینس 1959ء میں لاگو ہوا اور اوقاف ڈیپارٹمنٹ کو تمام جائیداد میں تفویض کی گئیں۔ 1964ء میں محکمہ کے پاس کل نو جائیدادوں کا انتظام تھا، ان میں امام بارگاه جامع مسجد سردار بہادر خان دربار پیر جہانیاں، دربار حضرت دین پناہ اور دو زرعی پلاٹ شامل تھے۔ نوٹیفکیشن نمبری 60-augaf(125)3 مورخہ 1960-8-5 کے مطابق انجمن حسینیہ امام بارگاہ مظفر گڑھ کے انتظام و انصرام کے لیے جو زمین مخصوص تھی اس میں علاوہ ازیں تین کنال بارہ مرلہ زمین موضع لنکر ان 204 کنال 19 مرلہ شخصہ سیالاں آٹھ کنال اٹھارہ مرلہ باغوالی چولستان 113 کنال 8 مرلہ بستی شیخ موسیٰ خلیفہ 72 کنال بستی رام پور اور 214 کنال 19 مرلہ موضع عمر بدہ ملکیتی ملک حبیب بدھ بھی مذہبی مقاصد کے لیے وقف تھیں۔ ضلع میں 1946 ء سے پہلے کوئی امام بارگاہ نہیں تھی۔ 1948ء میں انجمن حسینیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ 1953ء میں ان کے بائی لاز نے امام بارگاہ میں مختلف مذہبی تقریبات محرم الحرام میں صفر چہلم عید میلادالنبی تیرہ رجب حضرت علی کا یوم پیدائش، تین رجب حضرت امام حسین کا یوم پیدائش، اکیس رمضان المبارک شہادت حضرت علیؓ اٹھارہ ذوالحج عید غدیر جیسی تقریبات منائی جاتی تھیں۔ پیش امام کو 76 روپے ماہانہ تنخواہ پر ملازم رکھا گیا اس کی برانچیں روہیلا نوالی ٹھٹھہ سیالاں اور بدھ میں تھیں۔
موضع دو آبہ میں بھی ایک خاتون نے بھی قیمتی زرعی زمین کا قطعہ بہت عرصہ پہلے وقف کیا جس پر غیر قانونی قبضہ قائم رہا اور بالآخر سال 2011 میں ایک عدالتی فیصلے میں اس کا انکشاف ہوا اور ضلع کونسل نے اس کا کنٹرول حاصل کیا۔
جامع مسجد سردار بہادر علی کی ملکیت میں چھ کنال چھ مرلہ کا باغ چار مکان اور تین د کا نہیں شامل تھیں ۔ سال 62-1961 میں 5813 روپے آمدنی ہوئی۔ یہ زمین مقامی افراد نے دی تھی اس کے ساتھ ایک سکول بھی تھا۔ حضرت پیر جہانیاں دربار سے 62-1961 میں 3271 روپے حضرت دین پناہ دربار سے 3012 روپے لعل عیسن کروڑ سے 4173 روپنے پیر محمد راجن شاہ کے دربار سے 5614 روپے دیگر زرعی پلاٹ میں سے موضع خان پور تحصیل علی پور میں 670 کنال جب کہ موضع لنگر واہ میں دس کنال دو مرلہ زمین وقف ہے۔ ضلع میں سوشل سیکٹر میں بہت اچھا کام ہورہا ہے سماجی خدمات کو ہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں پہلے حصے میں سردار کوڑے خان کی جانب سے وقف کردہ زرعی اراضی شامل ہے۔ جس کا تفصیلی ذکر کیا جا چکا ہے۔ دوسرے حصے میں مختلف افراد کی جانب سے رفاعی کاموں کے لئے وقف کردہ زمینیں اور جائدادیں شامل ہیں ۔ اور تیسرے حصے میں مختلف سماجی تنظیموں کی سرگرمیاں شامل ہیں۔ اس وقت پورے ضلع میں 431 سماجی تنظیمیں (این جی اوز ) کام کر رہی ہیں ۔ ان میں سے تحصیل کوٹ ادو میں 176 مظفر گڑھ میں 145 علی پور میں 82 جبکہ تحصیل جتوئی میں 67 رجسٹرڈ ہیں۔ یہ نظمیں زیادہ تر تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کام کرتی ہیں۔ تاہم لٹریسی ، ترقی خواتین، چائلڈ رائٹس، ماحولیات ، معذور افراد کی بحالی اور قرضہ جات کی فراہمی وغیرہ کے ضمن میں بھی یہ محدود سطح پر کام کر رہی ہیں بدقسمتی سے محکمہ سوشل ویلفئیر کا تعاون ، سر پرستی اور گرفت بہت کمزور ہے ۔ ایک درجن سے کم تنظیمیں اپنے سالانہ آڈٹ رپورٹیں تیار کرتی ہیں۔ اور محکمہ کی جانب سے باز پرس یا مانیٹرنگ کا سلسلہ بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ سیلاب 2010 کے بعد غیر ملکی تنظیموں نے بھی بحالی اور امداد کا کام شروع کیا۔ تعلیم ، صحت، زراعت ، بچوں کا تحفظ اور شیلٹر وغیرہ کے شعبہ میں انہوں نے حکومت کے ساتھ ساتھ متاثرہ افراد کی مدد کی تاہم یہ سلسلہ بعد محدود ہو گیا۔ ضلعی سطح پر اسٹنٹ ڈائریکٹر یا ڈسٹرکٹ آفیسر سوشل ویلفیئر کا دفتر ہے جبکہ تحصیلوں میں ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر متعین ہیں جب کہ ان کے ماتحت سپروائزر اور دفتری عملہ ہے۔ محکمہ این جی اوز اور سی سی بی کی رجسٹریشن کے علاوہ کوٹ ادو مظفر گڑھ اور علی پور میں سرکاری ہسپتالوں میں میڈیکل پراجیکٹ چلا رہا ہے جہاں نادار مریضوں کو مفت ادویات فراہم کی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں معذور افراد کی رجسٹریشن بھی کی جاتی ہے۔ محکمہ کے زیر اہتمام ضلعی ہیڈ کوارٹر پر خواتین کی تربیت کے لیے صنعت زار جب کہ ضلع میں 39 دستکاری سکول بھی کام کر رہے ہیں۔ پنجاب بیت المال کا دفتر بھی اس محکمہ میں قائم ہے اور ڈسٹرکٹ آفیسر سوشل ویلفیر ضلعی بیت المال کمیٹی کا سیکرٹری ہے۔ حکومت کی طرف سے اس وقت غریب لوگوں کی امداد اور مالی معاونت کے لیے درج ذیل ادارے ضلع میں کام کر رہے ہیں:
پنجاب بیت المال :
ضلعی سطح پر ایک کمیٹی قائم ہے جس کا سر براہ صوبائی حکومت ضلع کے غیر منتخب افراد میں سے کرتی ہے جبکہ ہر تحصیل سے اراکین نامزد کئے جاتے ہیں اس کمیٹی کے ممبران کی تعداد میں سے تیں ہوتی ہے۔ اسٹنٹ ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر بلحاظ عہدہ اس کمیٹی کا سیکرٹری ہے۔ درج ذیل مدات میں امداد دی جاتی ہے۔
-1 انفرادی مالی امداد ۔
-2 این جی اوز کو مالی امداد
-3 غریب اور نادار مریضوں کا علاج۔
-4 طالبعلموں کے لیے وظائف۔
-5 جہیز فنڈ۔
اس کمیٹی کو ان تمام مدات میں تقریباً سالانہ میں لاکھ روپے کے فنڈ مہیا کیے جاتے ہیں۔ درخواستیں مجوزہ فارم پر سوشل ویلفیئر آفس میں وصول کی جاتی ہیں تمام فیصلے کمیٹی کی
مشاورت سے فیصلے ہوتے ہیں۔
زكوة:
ضلع کو تقریبا ہر سال دو کروڑ روپے سے زائد کے فنڈ دیے جاتے ہیں اور درج ذیل مدات میں لوگوں کی مدد کی جاتی ہے۔
1 – گزارہ الاؤنس :
یہ تم ہر کمیٹی کے علاقے میں پانچ سوروپے فی مستحق مقرر ہے۔ مقامی علاقے کے مستحقین زکوۃ کے لیے کمیٹی اپنے اجلاس میں تعیین کرتی ہے اور مستحق کو کراس چیک کے
ذریعے رقم سہ ماہی، ششماہی بنیادوں پر دی جاتی ہے۔
2 – جہیز
یتیم ۔ غریب بچوں کی شادی کے لیے دس ہزار روپے فی درخواست کے حساب سے امداد دی جاتی ہے۔ لڑکی کی نکاح فارم اور شناختی کارڈ کی نقل ، درخواست کے ساتھ پیش کرنا ضروری ہے۔
چھوٹی بحالی:
اس سکیم کے تحت علاقے کے سروے کے مطابق چھوٹے کاروبار کے لیے پانچ ہزار روپے کی امداد دی جاتی تھی جو اب ختم کر دی گئی ہے۔
بڑی بحالی:
اس سکیم کے تحت دس ہزار سے پچاس ہزار روپے تک امداد دی جاتی ہے۔ یہ اسکیم بھی اب ختم کر دی گئی ہے۔
تعلیم وظائف:
مستحق طلباء و طالبات کو تعلیمی اداروں کے سربراہان کے ذریعے وظائف دیے جاتے ہیں ـ
دینی مدارس :
چیئر میں مقامی زکوۃ وعشر کمیٹی دینی مدارس کے طلباء کے لیے سروے کے بعد استحقاق مقرر کرتے ہیں اور امدادی رقم کے کراس چیک جاری کرتے ہیں۔ مستحق مریضوں کے علاج معالجہ کے لیے مقامی ہسپتالوں کو رقم دی جاتی ہے۔ ضلع میں ڈسٹرکٹ ہسپتال مظفر گڑھ اور تحصیل ہیڈ کواٹر علی پور اور کوٹ ادو میں دو ہیلتھ ویلفیئر کمیٹیاں کام کر رہی ہیں ضلع کمیٹی نے 2003-12-31 کی ضلع ہسپتال مظفر گڑھ کے لیے سات لاکھ 74 ہزار روپے کی رقم جاری کی جبکہ کوٹ ادو کے لیے چھ لاکھ بیس ہزار روپے رقم میں
کے فنڈ فراہم کیے گئے۔
اس میں 7 شہری اور 54 دیہاتی کمیٹیاں شامل ہیں۔
مجموعی طور پر ضلع میں 519 زکوۃ کمیٹیاں کام کر رہی ہیں ۔ دفتری عملہ میں چھ افراد ہیں جبکہ ایک آڈٹ آفیسر ۔ تین آڈیٹر اور 55 زکوۃ کلرک تعینات ہیں۔ سال 13-2012 کے لئے حکومت کی جانب سے ضلعی زکوۃ کمیٹی کو چھ کر ور تین لاکھ تر تالیس ہزار ایک سو بیالیس روپے کی گرانٹ ملی ہے ۔ جس میں سے ووکیشنل ٹرینینگ انسٹیوٹ کے بچوں کے لئے ایک کروڑ پچانوے لاکھ ، گزارہ الاؤنس کے لئے دو کروڑ چھیاسٹھ لاکھ تعلیمی وظائف کے لئے 7984831 دینی مدارس کے طلبہ کے لئے 3548518 روپے۔ مریضوں کے لئے چھیں لاکھ جبکہ جہیز فنڈ کے لئے 35 لاکھ 48 ہزار روپے کی رقم شامل ہے۔
پاکستان بیت المال یہ وفاقی حکومت کا ادارہ ہے اور درج ذیل مدات میں امداد فراہم کرتا رہا ہے:
1ـ انفرادی مالی امداد ۔
2ـ علاج معالجہ کے لیے مالی امداد ۔
3ـ فوڈ سپورٹ پروگرام ۔ غذائی امداد ہر چھ ماہ بعد ۔
4ـ طلباء کے لیے وظائف۔
5ـ این جی اوز کے لیے مالی امداد ۔
فوڈ سپورٹ پروگرام کے تحت ہر چھ ماہ بعد غریب لوگوں کو کاپیوں کے ذریعے ایک ہزار روپے کی نقد رقم پوسٹ آفس کے ذریعے دی جاتی تھی۔ ضلع میں کل 23280 لوگ رجسٹر ڈ تھے ۔ تاہم اب یہ مالی امداد ختم ہو گئی ہے۔ سال 03-2002 میں پاکستان بیت المال کی مختلف سکیموں کے ذریعے مالی امداد کے لیے ایک سو گیارہ وظائف کے لیے سات سید خاندان کی امداد کیلئے 56 اور مستقل بحالی کیلئے 51 درخواستیں منظور کی گئیں ۔ تاہم اب فوڈ سپورٹ پروگرام ختم ہو گیا ہے۔ اب صرف مالی امداد ۔ میڈیکل ، معذور افراد کے لئے وہیل چیئر اور طالب علموں کے لئے وظائف (یونیورسٹیوں کے زریعے ) کی سکیمیں چل رہی ہیں ۔ جبکہ مظفر گڑھ دو پرائمری سکول اور خانپور بھٹہ میں ایک دستکاری سکول بھی چل رہا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون خیرمحمد بُدھ کی کتاب (تاریخ مظفرگڑھا) سے لیا گیا ہے۔