محسن مظفر گڑھ ۔ سردار کوڑا خان جتوئی
مظفر گڑھ کا ایک مشہور قصبہ جتوئی ہے۔ یہ مظفر گڑھ شہر سے بطرف جنوب دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ہے۔ یہاں بلوچوں کا ایک بڑا قبیلہ جتوئی آباد ہے۔ جتوئی قبیلے ہی کے ایک سردار کوڑا خان جتوئی نے ضلع مظفر گڑھ کے لاکھوں غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنے کے لیے 1894ء میں اپنی ہزاروں ایکڑ اراضی ضلع کونسل مظفر گڑھ کو منتقل کی تھی ۔ سردار کوڑے خان جتوئی انگریز دور میں پورے ضلع مظفر گڑھ پر اثر و رسوخ رکھتے تھے ۔ سردار کوڑے خان نے اپنی جائیداد اور زمینوں کو انگریز سرکار کو دینے کی بجائے غربا اور مسکین کو دینے کو ترجیح دی تھی۔ نصاب یا تاریخ کی کسی کتاب میں مقامی افراد کی عظیم قربانیوں کا کوئی ذکر نہیں، آج بھی نصاب کی کتب میں بہت سے لوگ ہیرو کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں جبکہ مولانا عبید اللہ سندھی ، نواب مظفر خان شهید سردار کوڑا خان جتوئی خواجہ غلام فرید اور نواب صادق محمد خان عباسی سمیت سینکڑوں وسیبی مشاہیر کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ محسن مظفر گڑھ سردار کوڑا خان جتوئی کا تعلق قصبہ جتوئی سے تھا سردار کوڑا خان جتوئی بہت بڑے سردار اور جاگیردار تھے ۔ ان کی تاریخ پیدائش کے بارے معلومات نہیں ملتی ہیں مگر ان کا سال وفات 1896 ہے آپ جتوئی میں دفن ہوئے۔ پہلے قبرسرزمین مظفر گڑھ کی حالت خستہ تھی 2003 میں ضلعی حکومت نے مقبرہ بنوا دیا ہے۔ سردار کوڑا خان کے پڑپوتے اور سابق وزیر مملکت سردار معظم علی خان جتوئی کہتے ہیں کہ سردار کوڑا خان جتوئی قبیلے کے چیف تھے آپ کے دوسرے بھائی کا نام بحجر خان جتوئی تھا۔ بجر خان کے بیٹے کا نام سید خان جتوئی تھا۔ کوڑا خان کے بعد آپ کے بھائی کے پوتے سردار نصر اللہ خان جتوئی قبیلے کے سردار بنے ، بعد میں ان کے بیٹے سردار نذر محمد خان جتوئی قبیلے کے سردار بنے ۔ اب ان کے بیٹے سردار عبد القیوم خان جتوئی قبیلے کے چیف ہیں۔ انگریز دور حکومت میں انھیں خان بہادر کا خطاب ملا اور آپ آنریری مجسٹریٹ بھی تھے ۔ آپ کا دور وہ دور ہے جب مسلمانان برصغیر 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد تعلیمی اور معاشی طور پر بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لیے سرسید احمد خان نے تحریک علی گڑھ کی بنیا د رکھی سرسید احمد خان کی دیکھا دیکھی برصغیر کے صاحب حیثیت مسلمانوں میں تعلیمی ترقی کا شعور پیدا ہوا اور ان صاحب ثروت مسلمان امرا نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان مخیر اور دردمند دل رکھنے والے لوگوں میں مظفر گڑھ کے سردار کوڑا خان جتوئی بھی شامل ہیں۔ آپ علی گڑھ کالج کو بھی مالی امداد دیتے تھے ۔ کہتے ہیں کہ آپ نے اولاد کی خاطر چھ شادیاں کیں۔ آپ کو اللہ نے یوں تو بہت کچھ دیا تھا مگر اولاد کی نعمت سے محروم رکھا۔ آپ نے اپنی زندگی میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کئی اقدامات کئے قیموں کی دستگیری کرتے تھے اور نسل نو کی تعلیم کے لئے مدارس بھی قائم کئے۔ اپنے وسائل سے سڑکیں اور کنویں بنوائے ۔ آپ غریبوں، بیواؤں اور فقیروں کی خدمت کرتے تھے۔
علاقے اور عوام کی خدمت سے سرشار اور سرسید احمد خاں کی تحریک سے متاثر ہوکر سردار کوڑا خان جتوئی نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنی جائیداد اور دولت کا ایک تہائی حصہ ضلع کی فلاح و بہبود یعنی تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لیے وقف کر دیا۔ آپ کی زمین دریائے سندھ کے آر پار ضلع مظفر گڑھ اور راجن پور کے علاقے میں تھی لہذا آپ نے 15 اکتوبر 1894 بروز جمعہ سہ پہر 4 بجے ایک وصیت کے ذریعے اپنی ایک تہائی جائیداد اور دولت وقف کر دی۔ 84 ہزار کنال زمین مظفر گڑھ سے اور 1000 ہزار کینال اراضی را جن پور سے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ٹرسٹ کو دیدی۔ یوں آپ نے اس دور میں سب سے بڑے فلاحی کام کی ابتدا کی یہ اس وقت کی سب سے بڑی این جی ابھی محسن مظفر گڑھ سردار کوڑا خان جتوئی نے جتوئی تا جھگی والا کچی سڑک ذاتی طور پر بنوائی تھی سردار صاحب اکثر و پیشتر کوٹلہ بند علی خان اور جتوئی آتے جاتے رہتے تھے کیونکہ سردار صاحب آنریری مجسٹریٹ تھے جن کی عدالت اور حوالات کو ٹلہ بند علی خان میں تھیں آپ جتوئی تا کوئلہ بند علی خان بذریعہ بھی سفر کرتے تھے ۔ آپ نے روہیلانوالی کے قریب پیر والی پل کے قریب مسجد اور مسافر خانہ بھی بنوایا تھا۔ محسن مظفر گڑھ سردار کوڑا خان جتوئی نے دریائے سندھ پر بند بھی بنوایا تھا ۔ کوٹلہ بند علی اور چھوٹا جتوئی میں بھی مساجد بنوائیں۔ دریائے سندھ سے ایک نہر نکلوائی تھی [173]۔ سابق وزیر مملکت سردار معظم علی خان جتوئی کہتے ہیں کہ مظفر گڑھ کی تعمیر وترقی میں جتوئی خاندان کا بڑا اہم کردار ہے۔ ہمارے خاندان کے بزرگوں نے چناب پر بننے والے ریلوے پل اور یاد گار کلب کی تعمیر میں مالی امداد دی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں محسن مظفر گڑھ سردار کوڑا خان جتوئی کی جائیداد سے حصہ نہیں ملا۔ انکی وصیت کے مطابق انکیبساری جائیداد انکی بیگمات اور ٹرسٹ کے نام ہوگئی تھی ۔ اب حکومت کو انکی جائیداد سے ہونے والی آمدن سے فلاحی کام کروانے چاہیں۔ تعلیم اور صحت کے میدان میں کام ہونا چاہیے۔ طلبہ کو وظائف ملنے چاہیں۔ بلاشبہ سردار کوڑے خان جتوئی بر صغیر پاک و ہند کے واحد شخصیت ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی تعلیم کے لیے سب سے زیادہ رقبہ وقف کیا جن کی مثال تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی
نوٹ: مضمون محمد شہزاد کی کتاب "سر زمین مظفرگڑھ” سے لیا گیاہے۔