بنیادی طور پر یہ ضلع زرعی علاقہ ہے۔ 1905 ء تک اس ضلع میں کاشتکاری کے ذرائع میں سیلائی، نہری چاہی اور بارانی ذرائع شامل تھے۔ 1905ء کے بعد ضلع کے کچھ علاقوں میں سیم اور تصور پیدا ہونا شروع ہوئی۔ سنانواں کے نزدیک 1910ء میں طوفان آنے سے اس قدر تباہی ہوئی اور سیم و تھور اس قدر پھیل گئی کہ تحصیل سنانواں کے ہیڈ کوارٹر کو کوٹ ادو میں منتقل کرنا پڑا۔ ضلع میں تحصیل کوٹ ادو میں کچھ علاقہ بارانی اور کچھ ٹیلوں اور صحرا پر مشتم ر مشتمل ہے۔ ماضی میں منظفر گڑھ اور علی پور میں بیشتر رقبہ قابل کاشت تھا لیکن ذرائع آب پاشی نہ ہونے کی وجہ سے ساری زمین کو کاشت نہ کیا جا سکتا تھا جو رقبہ کاشت ہوتا تھا اس میں بھی فصلات کی کوالٹی بہتر نہیں تھی۔ اس طرح زراعت رو بہ زوال تھی۔ آب پاشی کے لیے لوگوں نے کنویں بنائے ہوئے تھے جو بیلوں کی جوڑی سے چلائے جاتے تھے ۔ کوٹ ادو میں 5095 مظفر گڑھ میں 6567 اور علی پور میں 4650 کنویں تھے۔ ایک کاشتکار عموماً پندرہ ایکڑ زمین کے لیے دو جوڑے بیل رکھتا تھا کنویں کے سامان کو چلانے کے لیے ہر سال . سامان خریدنا پڑتا تھا جس میں لوٹے وغیرہ شامل تھے۔ علاوہ ازیں ہل، پنجائی نالی جندرہ مالیا، کسی و ہولہ دانتی، کلہاڑا اور ترنگل وغیرہ کاشتکار کے ضروری اوزار تھے۔ زرعی اجناس میں دیسی کپاس، گندم کاشت کی جاتی تھی لیکن کپاس بہت کم کوالٹی کی ہوتی تھی اس زمانے میں کاشتکاروں کو مالی مشکلات کا سامنا تھا اور ان کی عادات بھی عجیب تھیں ۔ اگر اس کی فصل اچھی ہوتی تھی تو اس رقم سے یا تو زمین خریدتا تھایا پھر شادی کرنے اور زیورات بنانے پر اس کو خرچ کرتا تھا اور اگر فصل خراب ہوتی تھی تو ساہوکار سے قرضہ لے کر اچھی فصل کی آرزو میں مسلسل قرضے تلے دب جاتا تھا ایسے زمیندار جو قرض سے مبرا تھے وہ انگلیوں پر گئے جاسکتے تھے ۔ 92 فیصد لوگ مشکل سے اپنا گزارا کرتے تھے’ صرف 4 فیصد لوگ ایسے تھے جن کا لینڈ ریونیو 25 روپے سالانہ سے زائد تھا۔ انگریزوں نے کاشتکاروں کو ساہوکاروں کے استحصال سے چھڑانے کے لیے یہاں 1905ء میں محکمہ امداد باہمی کے ادارے کو قائم کیا وہاں تقاوی قرضے کا بھی آغاز کیا اور 1921ء میں 1,16,900 روپے کی رقم قرض دی گئی۔ جی ڈبلیو ہملٹن کمشنر ملتان نے بذریعہ لیٹر نمبر 199 مورخہ 20/10/1862 کو سیکرٹری ٹو گورنمنٹ کو لکھا کہ مظفر گڑھ کے ضلع کو ملتان ڈویژن میں مئی 1859ء میں شامل 1909ء میں ضلع میں کل زیر کاشت رقبہ 592005 ایکڑ تھا جس میں چاول اکتیس ہزار ایکڑ گندم 2 لاکھ ستائیس ہزار ایکڑ جو اکیس ہزار دو سو چالیس ایکڑ جوار چودہ ہزار چھے سو چونسٹھ ایکڑ باجرہ چھبیس ہزار آٹھ سو بیالیس ایکڑ مونگ اور موٹھ ایک ہزار چھ سو اکتیس ایکڑ مٹر اور دالیں انتیس ہزار تین سو بیالیس ایکڑ تیل دار اجناس انیس ہزار آٹھ سو بائیس ایکڑ گنا چھ ہزار ایک سو چودہ ایکٹر اور کاٹن چوتیں ایکٹر کاشت تھا۔
اس وقت فی ایکڑ اخراجات 0.36 روپے تھا جب کہ 96-1895 ء میں یہ خرچ 0.75 تھا۔ سال 1894ء میں ایک خطر ناک فلڈ بھی ضلع میں آیا۔ اس وقت تحصیل سنانواں اور مظفر گڑھ میں زمین کا ریٹ چھ آنے فی ایکڑ تھا جب کہ آج کل یہ ریٹ کسی بھی جگہ پر ایک لاکھ روپے سے کم نہ ہے۔ اس وقت ضلع میں 1182889 ایکڑ رقبہ زیر کاشت ہے جب کہ 1869682ایکٹر غیر مزروعہ ہے۔ ضلع میں ہر سال 725000 ایکڑ گندم 52500 کپاس 101000 کماد 600000 پر آم جب کہ باقی رقبہ پر کھجورا نا رو دیگر پھلدار درخت ہیں۔ فصلوں میں زیادہ تر گندم کپاس، گناہ اور چاول کاشت کی جاتی ہے۔ اس وقت کا شتکاروں کی بہتری اور زراعت کی ترقی کے لیے مشینی کاشت فروغ پارہی ہے۔ پورے ضلع میں نہروں کا ایک نیٹ ورک موجود ہے جو دریائے چناب اور سندھ سے نکلتی ہیں اور نہری پانی تقریباً سارا سال جاری رہتا ہے اس کے علاوہ سکا رپ ٹیوب ویل بھی کام کر رہے ہیں اور لوگوں نے اپنے ٹیوب ویل اور ٹربائن بھی لگارکھے ہیں، فصلوں پر کیڑے مار ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے اور پیداوار میں اضافہ کے لیے کھادیں بھی استعمال کی جارہی ہیں جس سے پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے۔ سال 04-2003 گندم کی پیداوار 71-25 من فی ایکٹر کپاس 16.84 فی ایکڑ گنا 596 من فی ایکڑ جب کہ دھان 17.94 من فی ایکڑ کے حساب سے پیداوار ہوتی۔ ضلع میں شروع میں ایک ایکسٹرا اسٹنٹ ڈائریکٹر اور اس کے دو اسٹنٹ علی پور اور مظفر گڑھ میں تعینات تھے تاہم محکمہ زراعت (توسیع) کے نام سے ایک محکمہ ضلع میں با قاعدہ طور پر 1977-1-6 کو قائم ہوا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت اس کے سر براہ مقرر ہوئے اور ان کے ماتحت چاروں تحصیلوں کے ایکسٹرا اسٹنٹ ڈائریکٹر زراعت و فیلڈ اسٹنٹ کا تقرر کیا گیا۔
اس وقت محکمہ کے عملہ کی تعداد اس طرح ہے: محکمہ کے انتظامی سربراہ ای ڈی او زراعت ہیں۔ ان کی معاونت کے لیے ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ آفیسر زراعت توسیع تعینات ہیں۔ علاوہ ازیں پانچ ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر پندرہ زراعت آفیسر چودہ انسپکٹر ایک سو آٹھ فیلڈ اسٹنٹ ایک سوئیس بیلدار اور دیگر عملہ تعینات ہے۔ محکمہ کے فرائض میں کاشتکاروں کو مشورے دینا ان کی رہنمائی کرتا اور زراعت کی ترقی کے لیے ٹریننگ پروگرام اور امداد دینا شامل ہے۔ محکمہ نے کاشت کاروں کو زرعی آلات اور ہر لیز رمشین وغیرہ بھی رعایتی نرخوں پر فراہم کرنا شروع کی ہیں۔ نیز بنجر زمینوں کو آباد کرنے کیلئے محکمہ زراعت کے شعبہ انجینئر نگ کی جانب سے بلڈوزروغیرہ فراہم کیے جاتے ہیں۔ شہری پانی کے ضیاع کو روکنے اور پانی کے صحیح استعمال کے لیے ضلع میں باختہ کھالوں کی تعمیر اور کھالہ جات کی اصلاح کا کام سال 1980ء کے عشرے میں شروع کیا گیا اور اس وقت ضلع میں پانچ سو ساٹھ پختہ کھال تعمیر ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ وفاقی حکومت کے پروگرام کے تحت جاری ہے۔
فصلوں کے ساتھ ساتھ ضلع میں آم اور کھجور کے درخت بھی بہت ہیں۔ عرب کی ایک روایت ہے کہ انسانی تخلیق کے ساتھ ہی کھجور کا درخت پیدا ہوا۔ کھجور میں شکر کی وافر مقدار موجود ہے تین عدد کھجور میں اپنے اندر اکتیس گرام کار بور ہائٹریٹ رکھتی ہیں۔ اس میں پوٹاشیم، فولاد گندھک، کیلشیم اور فاسفورس کی مقدار ہوتی ہے اس میں 13.8 فیصد پانی تین فیصد لحمیات پائی جاتی ہیں جب کہ تمام چھ وٹامن بھی موجود ہیں۔ صحراؤں کے لوگ اکثر کھجور میں استعمال کرتے ہیں وہ کافی بیماریوں سے بچے رہتے ہیں۔ کھجورا اپنے اندر ایک مکمل غذائی صلاحیت رکھتی ہے اور مراکش سے لے کر سندھ تک کھجوروں کا سلسلہ قائم ہے اور بے شمار لوگ کھجور اور بکری کے دودھ پر گزارہ کرتے ہیں۔ اس درخت کے چوٹی سے لے کر جڑوں تک بے شمار فوائد ہیں۔ اس کا پھل کھانے کے کام آتا ہے پتوں سے چٹائی چھائے ٹوکرے اور چار پائیوں کا بان بنتا ہے۔ ایک درخت سے تقریباً 10 سے 20 سیر کھجور نکلتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ضلع میں کھجور کے 15 لاکھ درخت موجود ہیں۔ یہ دنیا کا قدیم ترین درخت ہے قرآن شریف میں اس کا میں مقامات پر ذکر ہے۔ ایشیاء میں کھجور کے چھ کروڑ پودے ہیں جو سعودیہ عرب، بحرین، عرب امارات ایران، عراق، کویت، عمان اور پاکستان میں ہیں جبکہ افریقہ دوسرے نمبر پر ہے۔ دنیا میں ہر سال 5.46 ملین میٹرک ٹن کھجور پیدا ہوتی ہے اور اقوام متحدہ کے ادارے FAO کے 2004 ء کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ کھجور میں ایران سعودی عرب اور پاکستان میں ہوتی ہیں۔ پاکستان میں اچھی قسم کی کھجور میں خیر پور سکھر، قلات، مکران تربت، کیچ، پنجگور ملتان اور مظفر گڑھ میں ہوتی ہیں۔ کھجوروں کی تحقیق اور برآمد کے لیے 1980ء کے عشرے میں ایک ریسرچ سنٹر مظفر گڑھ میں قائم کیا گیا تاہم کچھ عرصہ بعد یہ بند ہو گیا اور اس کی کچھ مشینری محکمہ زرعی انجینئر نگ کے دفتر میں موجود ہے جب کہ باقی فیصل آباد منتقل ہو چکی ہے۔ ضلع میں آم کے بہت باغات ہیں۔ آموں کی قسموں میں دیسی’ کا ٹھیا آم چونسہ شمر بہشت انور لٹور لنگڑا مالٹا، فجری ڈسہری، سہارن پوری سندھڑی حیدر شاہ والا طوطا پڑی اور لیٹ چونسہ وغیرہ شامل ہیں۔ ضلع میں سیم اور تھور نے زراعت کو بہت نقصان پہنچایا جس کی کئی وجوہ ہیں جن میں سیلاب کا کثرت سے آنا نکاس کا ناقص انتظام پانی کا اوپر کی سطح تک آنا اور نہروں سے پانی کا رسنا وغیرہ شامل ہیں۔ ضلع کا دولاکھ پچیس ہزار ایکڑ رقبہ اس سے متاثر ہے تاہم پانچ ہزار ایکڑ پر مکمل سیم ہے۔ 52-1951ء میں ضلع میں قحط پیدا ہوا اور خوراک کی قلت دیکھنے میں آئی۔ اس وقت گندم کی قیمت پانچ روپے من اور کپاس کی قیمت تمہیں روپے من تھی۔ زمینداروں نے دولت کے لالچ میں کپاس کو کاشت کرنا شروع کر دیا اور گندم کا رقبہ کم کر دیا گیا۔ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر مسعود کھدر پوش تھے۔ انہوں نے ضلع کے زمینداروں کو ڈپٹی کمشنر ہاؤس میں دعوت پر بلایا اور اکٹھے ہونے کے بعد انہوں نے سب کو چائے کی دعوت دی جولان میں میزوں پر ترتیب دی گئی تھی ۔ کھانے کے لیے پیٹس بھی رکھی ہوئی تھیں جو کپڑے سے ڈھکی ہوئی تھیں انہوں نے تمام زمینداروں کو کھانے کی دعوت دیتے ہوئے کپڑا ہٹانے کے لیے کہا جب زمینداروں نے کپڑا ہٹایا تو پلیٹوں میں سکٹ کے بجائے بنولے بجے ہوئے تھے تمام لوگ خوف زدہ ہوئے ۔ ڈپٹی کمشنر نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خوراک کی قلت آپ کی وجہ سے ہے اب بنولے کھا ئیں اور گندم کو بھول جائیں۔ اس پر تمام زمینداران شرمسار ہونے اور اگلے سال زیادہ رقبے پر گندم کی کاشت ہوئی۔
سال 04-2003 ء میں گندم سات لاکھ دس ہزار ایکڑ پر کپاس پانچ لاکھ آٹھ ہزار ایکڑ پر گنا ایک لاکھ اٹھاون ہزار ایکڑ پر جب کہ دھان چونتیس ہزار چھ سوستانوے ایکڑ پر کاشت کی گئی۔ کپاس کی فصلوں پر 1990ء سے بیماریوں کا حملہ دیکھنے میں آرہا ہے جس کے لیے کاشتکار حفاظتی تدابیر استعمال کرتے ہیں اور کرم کش ادویات سپرے کرتے ہیں اس وقت ضلع میں زرعی ادویات کا کاروبار کرنے والے رجسٹر ڈ ڈیلر کی تعداد 1462 ہے جب کہ کافی لوگ غیر رجسٹر ڈ بھی ہیں۔ کاشتکار زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے جو کھا دیں استعمال کر رہے ہیں۔ ان میں ڈی اے پی یوریا’ نائٹرو فاس ایمونیم نائٹریٹ ٹی ایس پی فاسفورس ، ایم اے پی این پی کے پوٹاشیم سلفیٹ ایمونیم سلفیٹ نائٹروجن وغیرہ شامل ہی۔ کھا دوں اور سپرے کے استعمال سے زرعی شعبہ میں اخراجات بہت بڑھ گئے۔ ڈیزل اور بجلی کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے کاشتکاروں کی پیداواری لاگت مزید بڑھ گئی ہے۔ اگر چہ گورنمنٹ نے ان اشیاء کی سپورٹس پر اکس میں اضافہ کیا ہے تمام کا شتکاروں کے نزدیک یہ قیمت اب بھی کم ہے۔ سال 05-2004ء میں گندم کی سرکاری قیمت 400 روپے من، کپاس کی ساڑھے نو سو روپے گنے کی پینتالیس روپے (40 کلوگرام) مقررتھی ۔ سال کی گئی ہے۔ 2012 میں اگلے سال کے لئے گندم کی سرکاری قیمت بارہ سوروپے فی چالیس کلوگرام مقرر اگر چہ اب تقاوی قرضوں کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔ تمام کا شتکاروں کو کھاد پیج، ٹریکٹر اور زرعی آلات کی خریداری کے لیے تمام کمرشل بینکوں کی جانب سے قرضے فراہم کیے جارہے ہیں۔ یہ ایک ضلع میں مختلف جگہوں پر قائم ہیں۔ زرعی ترقیاتی بینک کی شاخیں مظفر گڑھے کوٹ اردو علی پور میں جب کہ کو آپریٹوز بینک کی شاخیں مظفر گڑھ چوک سرور شہید کوٹ ادو علی پور اور جتوئی میں بھی قائم ہیں۔ یہ جینک ضلع کا سب سے قدیم بینک ہے جو 1915ء میں ضلع میں قائم ہوا دیگر کمرشل بینکوں کی برانچیں بھی پورے ضلع میں قائم ہیں جو کا شہکاروں کو قرضے فراہم کرتی ہیں۔ گزشتہ چند برس سے تحصیل مظفر گڑھ کے سیم اور تھور کے علاقہ میں مظفر گڑھ جنگ روڈ پرفش فارمز بنائے گئے ہیں اور اس طرح اس ناقابل کاشت رقبہ کو استعمال میں لا کر اس زمین کے مالکان معقول آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔ کاشتکاروں کی محنت اور حکومت کی پالیسیوں کی بناء پر زیر کاشت رقبہ میں اضافہ ہو رہا ہے فی ایکٹر پیداوار بڑھ رہی ہے۔ نہری پانی میسر آنے پانی چوری پر موثر کنٹرول نہروں کی بھل صفائی (جو ہر سال جنوری میں شروع ہوتی ہے) ٹیوب ویل کنکشن کے لیے رعایت مشینی کاشت کے فروغ میکوں کی جانب سے قرضوں کی فراہمی اور اجناس کی مناسب قیمت (بالخصوص کپاس اور گنے کی فصل سے کاشتکاری کو بہت فروغ ملا ہے۔ ضلع میں اس وقت دو شوگر ملیں کام کر رہی ہیں۔ شیخو شوگرمل کی چومیں گھنٹے میں آٹھ لاکھ ٹن گنا جب کہ فاطمہ شوگر ملز کی دس لاکھ ٹن گنا کرش کرنے کی صلاحیت ہے۔ ان فیکٹریوں کے قیام سے تحصیل کوٹ ادو اور تحصیل مظفر گڑھ کے علاقہ کرم داد قریشی ، بصیرہ شاہ جمال، مونڈ کا میں گنے کی کاشت وسیع رقبے پر شروع ہوئی ہے۔ اس علاقہ میں اب مستاجری کا ریٹ پانچ ہزار روپے فی ایکڑ سے بڑھ کر اٹھارہ ہزار سے میں ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔ مونڈ کا کے قریب تاندلیانوالا شوگر ملز بھی 2006 سے کام کر رہی ہے۔ جس سے گنے کی کاشت میں اضافہ کے ساتھ ساتھ کا شتکاروں کو بھی خواند حاصل ہوں گے۔ محکمہ زراعت کے سربراہ ای ڈی اوز اعت ہیں۔ جبکہ اس میں مختلف محکمہ جات شامل ہیں۔ ان میں ڈسٹرک آفیسر زراعت توسیع سب سے اہم ہے۔ محکمہ میں 108 فیلڈ اسٹنٹ 116 بیلدار 15 ذراعت اور دیگر محکمہ شامل ہے سال 11-2010 میں ضلع میں دو لاکھ 33 ہزارا یکٹر پر کاٹن سات لاکھ 62 ہزار میٹر پر گندم 68 ہزار ایکڑ پر گنا جبکہ 30 ہزار ایکڑ پر چاول کاشت ہوا۔ ضلع میں کاش کی فی ایکٹر پیداوار 21.24 فی گندم 31.35 فی کنا اور چاول 18.53 ریکارڈ کی گئی ہے۔ محکمہ کسانوں کی مشاورت کے علاوہ انہیں معلومات بھی فراہم کرتا ہے۔ نیز کاٹن کنٹرول ایکٹ کے تحت ضلع میں اس وقت کام کرنے والی 42 فٹنگ فیکو یوں کی بھی ہڑتال کرتا ہے۔ محکمہ کے زیر انتظام احسان پور زرعی فارم بھی ہے۔ جس کا کل رقبہ 12470 ایکڑ ہے جس میں 169 ایکٹر پر عمارات اور راستے ہیں۔ 1407 زیر کاشت جبکہ 1853 ایکٹر غیر کاشت شدہ ہے۔ اکتالیس ایکٹر پر محکمہ خود کاشت کرتا ہے۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم گوشت پھل ، فروٹ اور دیگر اشیاء تو کجا اپنی سبزی بھی پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ اور ہمارے لوگوں کو سبزیاں بھی کم مقدار میں میسر ہے۔ حالانکہ اسکی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ کم از کم اس میں کوئی بیرونی ہاتھ ہر گز شامل نہیں ہے۔ اس کی وضاحت کے لئے دنیا کے چند ممالک کی فی کس سالانہ حساب سے سبزیوں کے استعمال کی سبزیوں کے استعمال کی پوری دنیا میں اوسط سالانہ شرح 105 کلو گرام ہے جب کہ ہر انسان کی کم سے کم ضرورت 73 کلوگرام سالانہ ہے۔
دوسرا شعبہ ذرخیزی زمین کا ہے جس میں گیارہ اہلکار کام کرتے ہیں ۔ سال 2011-12 میں اس شعبہ کو ساڈھے انتالیس لاکھ روپے کا بجٹ دیا گیا۔محکمہ نے زمین کے آٹھ ہزار جبکہ پانی کے تین سو نمونے حاصل کئے اور ان کا تجزیہ کیا۔ اس شعبہ کی کارکردگی سے عام کا شکار ہرگز مطمئن نہ ہیں۔ کیونکہ یہ ان کی راہنمائی کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ محکمہ زراعت میں فشیز ماہی پروری کا شعبہ بھی ہے۔
سال 12-2011 میں ضلع میں بار فش فارمز قائم ہوئے۔ گورنمنٹ فش فارم تو نسہ بیراج اور ڈبہ جٹ شہر سلطان میں واقع فارم قابل ذکر ہیں۔ شعبہ اصلاح آبپاشی واٹر مضسمیت بھی محکمہ زراعت کا ایک اہم شعبہ ہے۔ اس میں کل ساتھ آسامیاں ہیں۔ کھالہ جات کی پختگی اور اصلاح کیلئے یہ محکمہ کام کر رہا ہے۔ تحصیل مظفر گڑھ میں 1503 ۔ کوٹ ادو 2023 علی پور میں 596 جبکہ جتوئی میں 686 منظور شدہ کھالہ جات ہیں۔ ان 4808 کھالہ جات میں سے 3535 کی اصلاح ہو چکی ہے جبکہ 1273 ابھی تک باقی ہیں۔ لائیو سٹاک کا شعبہ بھی محکمہ زراعت کے گروپ میں آتا ہے۔
ضلع میں 16 مرکزی ہسپتال چار موبائل یونٹ نواے کلاس سینہ تیرہ سب 89 وٹرنری ڈسپنسری 35 وٹرنری سینٹر جبکہ دو پولٹری لیب میں ڈسٹرکٹ آفیسر جنگلات بھی محکمہ زراعت سے منسلک ہے ۔ اس رقبہ جنگلات کا کل رقبہ 15426.6 ایکڑ ہے۔ جس میں 1179 ایکڑ پر جنگل موجود ہے۔ جبکہ 14247 یکٹر خالی زمین ہے۔ ان جنگلات میں ساڑیں۔ رنجومہ۔ ڈانڈے والا رقبہ شامل ہے۔ محکمہ زراعت کو ضلع نظام کے بعد کونسل کے اثاثہ جات میں سے فیاض پارک۔ چناب پارک اور ضلع کونسل کی شرکات جنکی لمبائی 142 کلومیٹر بنتی ہے۔ پر واقع درخت بھی دئے گئے تھے۔ دونوں پارکوں پر ہر سال مطفیر رقم خرچ کرنے کے باوجود سہولتوں کا فقدان ہے جبکہ سڑکوں کے کنارے موجود درخت اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون خیرمحمد بُدھ کی کتاب (تاریخ مظفرگڑھا) سے لیا گیا ہے۔