اعزازات مظفر گڑھ
سیاستدانوں کی کچھار:
قیام پاکستان سے بھی پہلے یہاں کے سیاست دان مشہور تھے ۔ قیام پاکستان سے قبل میاں ابراہیم برق یونینسٹ پارٹی کے بڑے رہنما تھے اور سر سکندر حیات کی وزارت اعلیٰ کے دور میں 1945 میں متحدہ پنجاب کے وزیر تعلیم رہے [52] ۔ نواب مشتاق گورمانی جو بہا ولپور ریاست کے وزیر اعظم تھے انھوں نے ریاست بہاولپور کے پاکستان کے ساتھ الحاق میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان کی کابینہ میں وزیر امور کشمیر رہے ۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد خواجہ ناظم الدین کی کابینہ میں ملک کے وزیر داخلہ رہے بعد میں انھیں پنجاب کا گورنر مقرر کیا گیا ون یونٹ بننے کے بعد مغربی پاکستان یونٹ کے گورنر مقرر ہوئے ۔ اسی دوران چند ماہ کیلئے سردار عبدالحمید خان دستی وزیر اعلیٰ پنجاب مقرر ہوئے جس پر مظفر گڑھ کے معروف شاعر حضرت کشفی ملتانی نے کہا تھا:
ناز کراے ناز کر مظفر گڑھ مقدر ترانرالا ہے
گورمانی تیرا گورنر اور دستی وزیر اعلیٰ ہے
پارلیمانی دور 58-1947ء کے بعد ایوب دور میں نوابزادہ نصر اللہ خاں قومی سیاسی افق پر ایسے ابھرے کہ نصف صدی تک سیاست میں ان کا طوطی بولتا رہا۔ اپوزیشن کی سیاست کے بادشاہ اور سیاسی اتحادوں کے روح رواں نوابزادہ نصراللہ خان مظفر گڑھ کی پہچان اور معتبر حوالہ تھے ۔ بھٹو دور میں مصطفے کھر سیاست میں مظفر گڑھ کی پہچان بنے جب وہ گورنر پنجاب مقرر ہوئے تو انہوں نے ضلع مظفر گڑھ کی عوام کیلئے گورنر ہاؤس کے دروازے کھول دیئے اور عوام کے دل جیتنے میں کامیاب ہوئے ۔ نوے کی دہائی میں مصطفے کھر کے عروج کا ستارہ غروب ہو گیا ۔ 2008ء میں جمشید احمد خان دستی نے قومی اسمبلی کی نشست جیت کر ملکی سیاست میں ہل چل مچائی۔ اور اپنی ایک الگ شناخت بنائی۔
پاکستان کے سب سے بڑے لوک گلوکار ۔۔ پٹھانے خان:
سرزمین مظفر گڑھ کو اعزاز حاصل ہے کہ لوک موسیقی کے شہنشاہ پٹھانے خاں کا تعلق ضلع مظفر گڑھ کے شہر کوٹ اڈو سے تھا ۔ بلاشبہ پٹھان خان لوک موسیقی کا سب سے بڑا نام ہیں ۔ پٹھان خان ہمارے ضلع کی پہچان تھے انھوں نے اپنی آواز کے ذریعے سرزمین مظفر گڑھ کا نام پوری دنیا میں روشن کیا۔
ریشماں اور مظفر گڑھ:
بلبل صحرا ریشماں کا اصل تعلق چولستان سے تھا۔ ریشماں کا خاندان خانہ بدوش تھا ۔ ریشماں کا بچپن اور جوانی خانہ بدوشی میں گزری۔ گلوکاری میں انھیں شہرت ادھیڑ عمر میں ملی جب ان کو پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر گانے کا موقع ملا۔ خانہ بدوشی کے زمانے میں ریشماں کا خاندان ایک عرصہ تک مظفر گڑھا اور کوٹ ادو میں مقیم رہا۔
ریشماں یہاں مختلف شادی بیاہوں میں گیت گایا کرتی تھیں ۔
سرائیکی کے پہلے افسانہ نگار ۔ تحسین سبائے والوی :
سرائیکی ادب میں کہانی سے افسانے تک کا سفر بہت طویل ہے۔ اگر افسانے کی آج کی شکل کی طرف نظر دوڑائی جائے تحسین سہائے والوی کا نام آتا ہے۔ سب سے پہلا باقاعدہ افسانہ جولائی 1976ء میں شائع ہوا۔ اس افسانے کا عنوان ” شہید تھا۔ یہ پہلا مطبوعہ افسانہ تحسین سبائے والوی نے لکھا تھا۔ تحسین سبائے والوی کا تعلق تحصیل
جتوئی کے ایک گاؤں سبائے والا سے تھا۔
متحدہ پنجاب کے پہلے انڈین سول سروس کے آفیسر:
انگریزوں نے انڈین سول سروس میں مقامی ہندوستانیوں کیلئے سخت امتحان کے بعد شمولیت کا دروازہ کھولا تو پہلے پہل بنگال سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ نوجوان انڈین سول سروس کیلئے منتخب ہوئے ۔ 1880 کی دہائی میں سرزمین مظفر گڑھ کے قصبے سیت پور کے ہندو دیوان شخص تھے جو انڈین سول سروس کا امتحان پاس کر کے آفیسرن بنے ۔ یوں یہ اعزاز بھی سرزمین مظفر گڑھ کو حاصل ہوا۔
حبیب رفیق تعمیراتی صنعت کے بادشاہ:
تعمیراتی صنعت اور کاروبار کی دنیا میں مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے دو عظیم فرزندوں کا بڑا نام ہے۔ مظفر گڑھ جیسے پسماندہ ترین علاقے سے اٹھ کر ان دو بھائیوں نے اپنے عزم و ہمت ہمحنت اور حوصلے کی بدولت پوری دنیا میں اپنا نام کمایا ہے اور سرزمین مظفر گڑھ کا نام روشن کیا ہے ۔ یہ دو عظیم شخصیات شیخ حبیب ا اور شیخ رفیق ہیں۔ ان کے کے والد شیخ عبد العزیز تقسیم ہند کے وقت ضلع سنگرور سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے۔ شیخ عبد العزیز ایک معمولی تاجر تھے مگر ان کے بیٹوں شیخ حبیب اور شیخ رفیق نے اپنے والدین کی دعاؤں سے اگر مٹی میں ہاتھ ڈالا تو وہ بھی سونا بن گئی ان بھائیوں نے ضلع مظفر گڑھ سے چھوٹے چھوٹے تعمیراتی منصوبوں سے آغاز کیا اور آج ان کی تعمیراتی کمپنی حبیب رفیق کنسٹرکشن کمپنی نہ صرف ملک کی بلکہ دنیا کی مشہور تعمیراتی کمپنی ہے ۔ جس کا بزنس مشرق وسطی سے لیکر سنگا پور تک پھیلا ہوا ہے۔ اب شیخ رفیق کے بیٹے اس عظیم کا روباری گروپ کے روح رواں ہیں ۔ ان کے بیٹوں میں شاھ رفیق انجینئر نگ کونسل کے چیئر مین رہے ہیں جبکہ زاہد رفیق اس وقت پاکستان میں رئیل سٹیٹ کے بزنس کے بوائے ٹائیکون ہیں اور ذاتی جہاز کے مالک ہیں ۔ حبیب رفیق لمیٹڈ نے میٹروٹرین لاہور سمیت ملک کے بڑے بڑے منصوبے کامیابی سے مکمل کئے ہیں۔ کاروبار کی دنیا میں سرزمین مظفر گڑھ کا نام روشن کرنے والے ان عظیم سپوتوں شیخ حبیب، شیخ رفیق ، زاہد رفیق اور ساجد رفیق پر اہل مظفر گڑھ کو بڑا ناز ہے ۔ بلا شبہ ان با ہمت افراد کی زندگی سرزمین مظفر گڑھ کے لوگوں کیلئے مشعل راہ ہے ۔
محترمہ فاطمہ جناح کا صدارتی الیکشن اور مظفر گڑھ:
1964ء کے صدارتی انتخابات میں ضلع مظفر گڑھ کے بلدیاتی نمائندوں نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ) بھر پور ساتھ دیا ضلع بھر میں محترمہ فاطمہ جناح نے مغربی پاکستان میں کراچی کے بعد سب سے زیادہ روٹ مظفر گڑھ سے حاصل کئے۔ سردار عبدالحمید خان دستی ، نواب زادہ نصر اللہ خان ، نواب مشتاق احمد خان گورانی اور ہے نذرشاہ محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کر رہے تھے ۔ اس دور میں ملک مصطفے کھر پہلی مرتبہ مبرقومی آمبلی منتخب ہوئے۔
نوٹ: مضمون محمد شہزاد کی کتاب "سر زمین مظفرگڑھ” سے لیا گیاہے