مظفر گڑھ

مظفر گڑھ کے آثار قدیمہ

قلعہ مظفر گڑھ:

والٹی ملتان نواب مظفر خان سدوزئی نے 1794 میں موجودہ شہر کے مقام پر ایک عالی شان مسجد اور قلعہ کی تعمیر کا آغاز کیا۔ اس قلعے کو مظفر گڑھ کا نام دیا گیا۔ اس قلعے کے اندر تعمیر ہو نیوالا شہر مظفرگڑھ کہلایا۔ شہر کے اردگرد ایک فصیل اور 16 مضبوط برج تعمیر کرائے گئے ۔ فصیل میں دروازے رکھے گئے تھے۔ خانگڑھ دروازہ اور ریلوے دروازہ اب بھی موجود ہیں۔ قلعہ مظفر گڑھ کے آثار اب مٹ چکے ہیں۔

قلعہ غضنفر گڑھ:

یہ قلعه نواب شجاع خان بانی شجاع آباد کے منجھلے صاحبزادے نواب غضنفر خان کے نام پر تعمیر کیا گیا تھا۔ نواب غضنفر خان کے نام پر تعمیر ہونے والا قلعہ غضنفر گڑھ ایک ایسا دفاعی قلعہ تھا جو شجاع آباد اور خان گڑھ کے دفاع کیلئے تعمیر کیا گیا تھا اس قلعہ سے قلعہ خان گڑھ چند میل جبکہ اس قلعہ سے مشرقی سمت بہنے والے دریائے چناب کے پار شجاع آبادشہر واقع ہے۔ قلعہ غضنفر گڑھ کی فصیل اور برج سکھوں کے خلاف جنگ میں شدید متاثر ہوئے تھے اب برٹش آرمی نے ملتان پر حملہ کیا تو شجاع آباد اور اس سے ملحقہ قلعہ خان گڑھ اور غضنفر گڑھ بھی شدید حملوں کی زد میں آئے تھے ، باقی ماندہ فصیل اس جنگ میں ختم ہوئی ۔ قلعہ غضنفر گڑھ کے 2 دروازے اور 4 برج تھے ، اب ان میں سے ایک بھی باقی نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد یہاں بسنے والے لوگوں نے قلعے کو برباد کر دیا ہے ۔ اب یہ صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے

قلعہ خان گڑھ:

یہاں کا قلعہ شجاع خان نے تعمیر کرایا، جو نواب مظفر خان کی عمرانی میں بنا اور خان بی بی کے نام پر اس کا نام خان گڑھ رکھا گیا (135)۔ یہ قلعہ شہر کے مشرقی طرف دریائے چناب کے کنارے واقع تھا۔ خان بی بی کی شہادت کے بعد چناب میں سیلاب کی وجہ سے یہ قلعہ مسمار ہو گیا اور اس کا نام و نشان بھی باقی نہ بچا۔ 1811 ء کے بعد نواب مظفر خان اور نواب بہاولپور کے درمیان تنازعات بڑھے، تو نواب احمد خان نے خان گڑھ کو اپنا مستقر بنا کر بہاولپور کے علاقے میں چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔ نواب صادق محمد خان نے تنگ آکر فوجی افسر یعقوب کی سرکردگی میں ایک لشکر خان گڑھ روانہ کیا ۔ یعقوب خان نے خان گڑھ کا محاصرہ کیا ، تو احمد خان مقابلے کی تاب نہ لا کر فرار ہو گیا۔ 1818ء میں خان گڑھ پر سکھوں کا قبضہ ہو گیا۔ قلعہ کی فصیل کے آثار مٹ چکے ہیں مگر 2 دروازے ابھی موجود ہیں ۔

قلعہ چوک منڈا:

راجہ رنجیت سنگھ نے اپنے دور میں تعمیر کرایا۔ یہ مٹی کا بنا ہوا تھا۔ اب اس کے آثار نہیں ملتے ۔

قلعہ شاہ گڑھ:

مظفر گڑھ سے شاہ جمال جانیوالی سڑک پر قصبہ مونڈ کا کے پاس قلعہ شاہ گڑھ واقع ہے۔ اس قلعے کے آثار آج بھی موجود ہیں ۔ پروفیسر سجاد حیدر پرویز کے مطابق مٹی کا یہ قلعہ شاہ محمد خان با دوز کی نے تیمور شاہ درانی کی طرف سے ملنے والی جاگیر پر تعمیر کرایا تھا۔ دیوان ساون مل نے اپنے دور میں اسے فوجی چھاؤنی اور غلہ گودام کے طور پر استعمال کیا۔ اس وقت معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔

قلعہ دین پور:

اسی قلعے کو قلعہ داؤد جہانیاں بھی کہتے تھے ۔ تیمور شاہ درانی نے ملتان کے محاصرے کے دوران شاہ محمد خان با دوزئی کو ایک قلعہ تعمیر کرنے کی اجازت دی اور بعد میں نواب مظفر خان نے شاہ محمد خان با دوز کی کے بیٹے عبد الصمدخان با دوزئی سے یہ قلعہ چھین لیا اور بارود سے اڑا کر صفحہ ہستی سے مٹادیا۔

قلعہ دائرہ دین پناه:

شاہ محمد با دوز کی نے دائرہ دین پناہ میں ایک اور قلعہ تعمیر کرایا۔ شاہ محمد با دوزئی نے کابل پر قبضہ کر کے اپنی بادشاہت کا اعلان کیا اور اس علاقے میں اپنے بیٹے کو حاکم مقرر کیا۔ یہ قلعہ عبد الصمد خان با دوز کی کا مستقر رہا۔ اب یہ صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے ۔

قلعہ ادوخان:

حاکم ڈیرہ غازیخان نواب غازی خان نے ادو خان میرانی بلوچ کو اس علاقے میں حاکم مقرر کیا ۔ ادوخان نے اس علاقے میں ایک قلعہ تعمیر کرایا۔ کوٹ قلعے کو کہتے ہیں۔ اس قلعے کی نسبت سے کوٹ ادو شہر بنا۔ رنجیت سنگھ نے اپنے دور میں کوٹ ادو کو تاراج کیا اور باقی قلعہ سیلاب کی نظر ہو گیا ۔

قلعہ سیت پور:

اس کی تعمیر کے بارے معلومات نہیں ملتی ۔ اس قلعے کے آثار سیت پور شہر کے قریب موجود ہیں ۔ یہ قلعہ حاکمان سیت پور نے اپنے زمانہ قدیم میں تعمیر کرایا ہوگا ۔

قلعہ محمود کوٹ:

1720ء میں محمود خان گجر نے یہاں ایک فوجی قلعہ تعمیر کروایا۔ برطانوی دور میں قلعہ کی عمارت میں تھانہ محمودنکوٹ قائم ہوا تھا۔ آج کل اس قلعہ کی باقیات کھنڈرات کی صورت میں موجود ہیں۔

مقبرہ طاہر خان لودھی نہر ۔ سیت پور کے نہر لودھی حکمران:

سلطان محمد خان کی حکمرانی اور اصولوں کے ڈنکے طول و عرض میں بجتے تھے پھر اس کے بیٹے طاہر محمد خان نےحکمرانی سنبھالی ۔ روایت ہے کہ یمنی حکمران ہونے کی وجہ سے یہ طاہر محمد خان بھی کہلانے لگا۔ اس نے کثیر سرمائے سے اپنے باپ کا مقبرہ اور شاہی مسجد بھی تعمیر کرائی جواب تک قائم ہے۔ حاکم سیت پور طاہر خان لودھی نہر بادشاہ نے اپنی زندگی میں 1475ء میں یہ مقبرہ تعمیر کرایا۔ آٹھ کونوں والا یہ مقبرہ 460 فٹ کے محیط کے دائرے میں تعمیر کرایا گیا ہے۔ یہ ملتانی طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔ مقبرہ شاہ رکن عالم ملتان کی طرز پر تعمیر کرایا گیا ہے [142]۔
مقبرہ میں طاہر خان بھی اپنے والد سلطان محمد خان کے پہلو میں ابدی نیند سورہا ہے لیکن اس کے تعمیر کردہ مزار نے اسے اب تک زندہ رکھا ہوا ہے ہشت پہلو مقبرہ اسلامی طرز تعمیر کا خوبصورت شاہکار ہے اس پر ملتانی ٹائل اور نقاشی کا عمدہ کام کیا گیا ہے۔ محرابوں کے راستوں نے اسے ہوادار اور روشن بنا رکھا ہے۔ اس سے ملحقہ سیت پور کی سب سے بڑی جامع مسجد ہے۔ یہاں بھی ملتانی نقاشی کے عمدہ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اپنے دور میں یہ زمین سے 45 فٹ بلند چبوترے پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اب گلیاں مکان اونچے ہونے کے سبب یہ اونچائی صرف آٹھ دس فٹ ہی رہ گئی ہے۔ مقبرے کے باہر کا منظر بڑا خوبصورت اور دلکش ہے، اس میں مختلف قسم کی نفیس ٹائلیں لگی ہوئی ہیں جو مربع مستطیل اور چوکور شکل کی ہیں۔ مقبرے کے پہلے حصے کے آخر میں واضح دو دھاریاں بنائی گئی ہیں جن میں نیلی اور سفید ٹائلوں کی آمیزش ہے اور یہ مزار کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں۔ دوسرا حصہ زیادہ رنگین اور روشن ہے، اس میں مختلف رنگوں کی خوبصورت ٹائلیں اس حصہ کو دلکش بنا رہی ہیں ۔ تیسرے حصہ میں گنبد کو سفید ٹائلوں سے مزین کیا گیا ہے۔ آسمانی بجلی سے حفاظت کے لیے گنبد پر چار کونوں کا ایک برقی موصل لگایا گیا ہے۔ مقبرے کا بیرونی حصہ نیلی اینوں سے سجایا گیا ہے۔ اس کے آٹھ مینار ہیں جو 50 فٹ بلند ہیں۔ مقبرہ کادروازہ کھجور کی لکڑی سے بنا ہے اور اس پر خوبصوت نقاشی و کندہ کاری کی گئی ہے۔ مقبرہ کا مرکزی دروازہ پاکستان میں چوبی کندہ کاری کا سب سے قدیم نمونہ ہے۔ مقبرے میں کل 16 قبریں ہیں جس میں سب سے بڑی قبر سلطان طاہر خان لودھی نہر کی ہے۔ یہ مقبرہ گرمیوں میں بھی ٹھنڈا رہتا ہے۔ ایک مرتبہ محکمہ آثار قدیمہ نے اس نا مکمل تزئین آرائش کا کام کیا ہے ۔ حکومتی عدم توجہی کی وجہ بدولت یہ عظیم الشان مقبرہ زبوں حالی کا شکار ہے۔

مقبره حضرت دین پناہ:

تحصیل کوٹ ادو کے قصبے دائرہ دین پناہ میں حضرت عبدالوہاب المعروف حضرت دین پناہ کا مزار تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ مقبرہ مغلیہ دور کے فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ شاہ رکن عالم ملتانی کے مقبرہ سے مشابہ یہ بلند و بالا مقبرہ شہنشاہ جلال الدین اکبر کے دور میں تعمیر کیا گیا [143]۔ یہ مقبرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ حکومتی توجہ سے اس عظیم قومی ورثے کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ نیلی اور سفید ٹائلوں سے مزین یہ مقبرہ ماضی کی شان و شوکت کامظہر ہے۔

مزار شیخ سادن شهید:

یہ ضلع مظفر گڑھ کا سب سے قدیم ترین مقبرہ ہے۔ یہ منفر دفن تعمیر کا حامل ہے۔ شیخ محمد سادن شہید ” کا مقبرہ تقریبا سات سو سال پرانا ہے اور ویرانے میں تنہا قائم و دائم ہے ۔ اس مقبرے کا فن تعمیر اتنا پرانا اور انوکھا ہے کہ یہاں کے عام لوگوں میں مشہور ہے کہ یہ مقبرہ جنات نے تعمیر کیا تھا مگر تاریخی طور پر یہ مقبرہ سلاطین دہلی کے عبد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ مقبرہ دریائے چناب کے مغربی کنارے پر بستی سرور والا کے نزدیک موضع جھلا ر میں شمالی میں ایک ریتلے ٹیلے پر واقع ہے۔ مقبرہ سادن شہید مختلف فنون تعمیر کا ایک منفرد شاہکار ہے اس میں عرب ، سینٹرل ایشیا اور وادی سندھ کے فنون کا امتزاج ملتا ہے۔ محراب میں اینٹوں کو تراش کر کمال مہارت سے عربی عبارات لکھی گئی ہیں جو اس دور کے معماروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مقبرہ سطح زمین سے کوئی دس فٹ اونچے چبوترے پر تعمیر کیا گیا ہے، مقبرہ کی چھت گر چکی ہے جبکہ دیواریں بھی تنزلی کا شکار ہیں ۔ مشرقی دیوار کے ماتھے پر دائیں سے بائیں ایک گولائی میں بسم اللہ اور اس کے بعد کچھ قرآنی آیات درج ہیں۔ اس مقبرہ کے بند جھرو کے نما طاق اپنی مثال آپ ہیں۔ کچھ کچھ مربع نما اور مستطیل نما ان طاقوں کی شہ سرخی خوبصورت خطاطی میں تراشا ہوا لفظ اللہ ہے۔ عمارتوں پر خط کوفی میں اللہ، یا اللہ اور الملک اللہ اور دوسری آیات ہمیں بارہویں اور تیرھویں صدی میں غوری دور حکومت کی عمارتوں میں نظر آتی ہیں۔ مقبرہ شیخ محمد سادن شہید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ماضی کی یہ حسین یادگار ایک دن گردش زمانہ کی بھینٹ چڑھ جائے گی ۔

مقبرہ شیخ لدھو (صحرائے تھل) :

صوفی بزرگ شیخ لدھو کا یہ مقبرہ مظفر گڑھ کے نواح میں واقع قصبہ بھٹہ پور کے نزدیک بطرف مغرب صحرائے تھل میں واقع ہے۔ یہ مقبرہ عہد سلاطین میں بنایا گیا تھا۔ مقبرہ شیخ لدعوفن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔ یہ مقبرہ بھی مقبره شاہ رکن عالم ملتانی کی طرز پر تعمیر کرایا گیا ہے ۔ آج کل یہ شکست وریخت کا شکار ہے۔ اگر چہ حکومت نے اس کی بحالی کیلئے منصوبے کا اعلان کیا تھا مگر یہ اعلان کا غذوں تک محدود رہا۔ تھوڑی سی توجہ سے اس عظیم الشان مقبرے کی بحالی کا کام کیا جا سکتا ہے

 مقبره بابا بگا شیر:

مظفر گڑھ شہر سے چند کلو میٹر دور میانوالی روڈ پر قصبہ خانپور بگا شیر میں حضرت بابابگا شیر کا یہ مزارفن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ قصبے کے مرکزی قبرستان میں واقع اس مزار کو عہد سلاطین میں تعمیر کیا گیا تھا۔

ہندیہ ٹھٹھہ گورمانی:

یہ ہندیرہ (مزار ) سنانواں کے نزدیک قصبہ ٹھٹھہ گورمانی میں واقع ہے۔ قدیم اور شاندار طرز تعمیر کا حامل یہ ہندیر وفن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے یہ ہندیہ مغل دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ ہندیرہ میاں خیر دین سلطان قبرستان میں موجود ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خستہ حالی کا شکار ہو چکا ہے۔ اس پر سبز اور روغنی رنگ کی مرصع اینٹیں لگی ہوئی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسکی چھت نہیں ہے۔ فرش بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ اس کی تعمیر کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتی ہیں ۔

ہندیرہ بی بی بگی (حجرہ بی بی بگی) :

یہ ہندیرہ یا حجرہ سیت پور میں موجود تھا مگر اب اسے ختم کر کے یہاں مکانات بنائے گئے ہیں ۔ اس حجرے کے اندر بی بی بگی کا مقبرہ بھی تھا بی بی بگی طاہر خان نہ بادشاہ ریاست سیت پور کی بہن تھی ۔ یہ حجرہ طاہر خان نہر کے مقبرے سے کچھ فاصلے پر واقع تھا۔ مجرے کے باہر ہاتھی اور مجرے کے اندر شیر کے مجسمے بنے ہوتے تھے ۔ یہ حجرہ طاہر خان نہر کے عہد پندرھویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا ۔

مساجد، مندر، گرجے

بادشاہی مسجد۔ سیت پور:

شاہی مسجد کے نام سے مشہور یہ مسجد قصبہ سیت پور میں مقبرہ طاہر خان نہر بادشاہ کے پاس موجود ہے ۔ یہ ریاست سیت پور کے مشہور بادشاہ طاہر خان نہر نے تعمیر کروائی تھی۔ لگ بھگ 1445ء میں اس کی تعمیر ہوئی ، یہ مسجد اپنے شاندار فن تعمیر کی بدولت دیکھنے کے لائق ہے۔ اب وقت کیساتھ ساتھ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے خستہ حالی کا شکار ہے ۔ مقامی افراد نے عدم توجہی اور اس مسجد کی تاریخی حیثیت کی ناواقفیت کی بنا پر محن میں تجاوزات تعمیر کر کے اس کے تقدس اور تاریخی حیثیت کو گہنا دیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس مسجد کو اپنی تحویل میں لے کر اس کی تزئین و آرائش کی جائے اور اس کی عظمت رفتہ کو بحال کیا جائے ۔ بیرونی حصہ بھی خوبصورت ہے مگر مسجد کا اندرونی حصہ بہت خوبصورت اور دلکش نقش و نگار کا حامل ہے۔سرزمین مظفر گڑھ اس خوبصورت مسجد کی پیشانی سفید ، زرد اور روغنی ٹائلوں سے آراستہ ہے، ہر ایک حصہ پر ایک گنبد بنایا گیا ہے، مسجد پر قدیم زمانے کے نفیس کام کے آثار ملتے ہیں، مسجد کے ہر حصہ کے لئے ایک ایک دروازہ ہے، درمیانی دروازہ پر تین خوبصورت محرا ہیں بنائی گئی ہیں، اس طرح باقی دروازوں پر بھی تین تین محرا میں بنائی گئی ہیں۔ مختلف ادوار میں مسجد کی مرمت و توسیع ہوتی رہی ہے ۔ انگریز دور میں بھی مقبرہ و مسجد کی تعمیر و مرمت کا کام ہوا جسکی تاریخ 1913 ء اور 1915 مختلف مقامات پر تختیوں پر درج ہے۔ مسجد کے ہال کے باہر سات محرا میں ہیں ۔ مسجد کے گنبد اور دیوار پر متانی مالک کا خوبصورت کام کیا گیا ہے۔

یکی مسجد دائرہ دین پناه:

یہ تاریخی اور قدیمی مسجد دائرہ دین پناہ میں مقبرہ حضرت دین پناہ کے پہلو میں موجود ہے۔ قدیم فن تعمیر کا نمونہ یہ مسجد اپنے سفید رنگ کی وجہ سے بگی مسیت (سفید مسجد ) کہلاتی ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی مگر خوبصورت اور تاریخی مسجد ہے

مسجد دیوان کوٹ اڈو:

یہ مسجد کوٹ ادو شہر میں موجود ہے۔ کہتے ہیں کہ اس مسجد کا سنگ بنیاد معروف مذہبی اور روحانی شخصیت حضرت خواجہ شاہ سلیمان تونسوی نے رکھا تھا۔ یہ مسجد بھی بہت تاریخی اہمیت کی حامل ہے ۔

مسجد کمان گراں کوٹ ادو:

یہ مسجد کوٹ ادوشہر میں واقع ہے۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد تو نسہ کے روحانی بزرگ خواجہ اللہ بخش تونسوی نےرکھا تھا۔ یہ ایک تاریخی اور خوبصورت مسجد ہے۔

مسجد عید گاہ مظفر گڑھ:

یہ مسجد علی پور روڈ پر واقع ہے۔ یہ مسجد قدیم اور جدید فن تعمیر کی حامل ہے۔ شہر کی خوبصورت ترین مسجد ہے۔

جامع مسجد بهادرخان:

سو سال پرانی یہ جامع مسجد بہادر خان علی پور شہر کے وسط میں میونسپل کمیٹی کے دفتر کے پاس موجود ہے ۔ یہ اپنے وقت کی بہت بڑی مسجد تھی ۔ راجن پور سے تعلق رکھنے والے معروف سیاستدان سابق صوبائی وزیر اور موجودہ ممبر قومی اسمبلی سردار نصر اللہ خان دریشک کے والد سردار بہادر خان دریشک 1920ء میں علی پور میں مجسٹریٹ مقرر ہوئے ۔ وہ یہاں 4 سال تک تعینات رہے تھے ۔ انہوں نے یہاں اپنی تعیناتی کے دوران شادی بھی یہیں کے ایک خاندان میں کی اور یہاں اپنی ذاتی دلچسپی سے ایک خوبصورت مسجد بنوائی جو ان کے نام سے منسوب ہے اور مسجد بہادر خان کہلاتی ہے۔ معروف عالم دین مولانا نیاز احمد فریدی یہاں ایک عرصہ تک خطابت کے فرائض سر انجام دیتے رہے تھے۔ مسجد 12 کنال سے زائد رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ مسجد کے عقب میں باغ لگوایا گیا تھا۔ کھجور کے درخت اب بھی یہاں موجود ہیں ۔ مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ بھی منسلک ہے۔ مسجد اپنی اصلی حالت میں موجود ہے ۔

سری سناتن مندر:

سناتن دھرم یعنی ہندو دھرم کے ماننے والے لوگوں کیلئے یہ مندر شریمتی تخت بائی نامی ایک خاتون نے سیت میں تیر کر دیا تھا۔ اس مندر کے اندر بہت خوبصورت نقش و نگار بنائے گئے تھے۔ یہ مندر انھوں نے اپنے شوہر بھی تھی رام بترہ کی یاد میں تعمیر کروایا تھا، یہ مندر اب اپنی اصلی حالت میں موجود نہیں ہے ۔

مہا بیر مندر:

مہابیر نامی یہ مندر دائرہ دین پناہ میں موجود تھا۔ اس مندر کی تعمیر کے بارے میں معلومات نہیں ملتی ہیں ۔ پاکستان بنے کے بعد یہ مندراپنی اصلی حالت کھو بیٹھا اب اس مندر پر مکانات تعمیر ہو چکے ہیں۔

سدھاری مندر:

یہ مندر کوٹ ادو کے نزدیک سدھاری نامی قصبے میں موجود تھا ۔ یہ کسی زمانے میں ہندوؤں کا بڑا اہم اور مقدس مندر تھا یہاں ہر وقت ڈیڑھ ہزار بھگت اور پنڈت موجود رہتے تھے ۔ پورے ہندوستان سے ہزاروں ہندو یاتری اس مندر کی یاترا کیلئے یہاں آتے تھے، یہ مندر بھی قیام پاکستان کے بعد حالات کی نذر ہو گیا ۔

گرجا گھر:

مظفر گڑھ شہر میں دو مسیح عبادت خانے واقع ہیں ان میں سینٹ رافیل کیتھولک چرچ اور سینٹ جان چرچ ہیں۔

برجی دیوان ساون مل:

شاہ جمال کے نزدیک ایک گاؤں میں جتوئی کر مداد قریشی روڈ پر یہ برجی واقع ہے ۔ یہ برجی حاکم ملتان دیوان ساون مل نے تعمیر کروائی تھی ۔ پہلے یہاں ایک جھیل اور شکار گاہ بھی تھی ۔ اب اس برجی کے بچے کچھے آثار موجود ہیں۔

ماڑی ٹیک چند:

سیت پور سے تعلق رکھنے والے ایک ہندو دیوان چیک چند نے انیسویں صدی کے اواخر میں شہر کے درمیان گیارہ کنال پر مشتمل ایک خوبصورت ماڑی (محل) بنوائی تھی ۔ یہ ماڑی بہت خوبصورت اور فن تعمیر کا نمونہ ہے۔ دیوان ٹیک چند انڈین سول سروس کا اولین آفیسر تھا جو مختلف عہدوں پر رہا اور بعد میں انبالہ ڈیژن کا کمشنر بھی ن [156] دیوان فیک چند میاں ابراہیم برق کے والد مولوی غوث محمد ( آنریری مجسٹریٹ ) کا شاگرد تھا ۔ مولوی غورث محمد پہلے پہل سکول ٹیچر تھے۔ انکی فیملی دیرہ دون منتقل ہو گئی تھی ۔ دیوان فیک چند جاتے ہوئے یہ ماڑی سکول کیلئے کرائے پر دے گیا تھا۔ دوران ملازمت اس کی موت ہوگئی قیام پاکستان کے بعد بھی اس ماڑی میں سکول قائم رہا ۔ حویلی کے ضمن میں دو قدیم اور نایاب درخت اب بھی ہیں۔ ان درختوں کو ہندو دودھ سے سیراب کیا کرتے تھے۔ مقامی لوگ اب بھی ان درختوں کو گھیری والے درخت کہتے ہیں۔ تقسیم کے بعد بھی یہاں سرکاری سکول قائم کر دیانگیا۔ سال 2019ء میں سکول کے ایک نالائق ہیڈ ماسٹر نے استاریخی حویلی کو گرا دیا ہے۔

نوٹ: مضمون محمد شہزاد کی کتاب "سر زمین مظفرگڑھ” سے لیا گیاہے

 

:

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com